گزرنے والا ہر لمحہ تاریخ ہے‘ مگر کتنے لوگ ہیں جو لمحوں کو تاریخ سمجھتے ہیں اوران لمحوں کی زنبیل میں تاریخ کے اسباق و حوادث سے رہنمائی لیتے ہیں؟ خال خال--- اگرچہ انیسویں صدی عیسوی بھی بڑی ہنگامہ خیز تھی‘ تاہم بیسویں صدی تو اپنے انقلابات اور کش مکش کے حوالے سے گہرے اثرات کی حامل صدی شمار کی جا سکتی ہے۔
ایک اخبار نویس: محض خبرنگار‘ وقائع نگار یا تجزیہ نگار نہیں ہوتا‘ بلکہ آج کے زمانے میں تو اخبار نویس غالباً بہت سے حکمرانوں سے بھی زیادہ باخبر اور اثرانداز ہونے والی شخصیت شمار ہوتا ہے۔ عبدالکریم عابد‘پاکستان کے ان قابل قدر اخبار نویسوں میں سے ہیں‘ جو گذشتہ نصف صدی سے بھی زائد عرصے میں متعدد حوادث اور اہم واقعات کا حصہ یا ان کے شاہد رہے ہیں۔ استغنا اور قلندری کے خوگر اس بزرگ اخبار نویس پر رب تعالیٰ کاخصوصی احسان ہے کہ عمرگزر گئی‘ مگر اصولی موقف پر کبھی سمجھوتا نہیں کیا۔ انھوں نے زمانے کوخبردی اور خبردار بھی کیا۔ کسی مداہنت کے بغیر اپنوں پر بھی تنقید کی‘ مگر حکمت اور توازن کے ساتھ۔
جیسا کہ اُوپر بیان ہوا ہے کہ آج کا اخبار نویس‘ خبرنگار سے بڑھ کر‘ ایک بڑے نازک مقام پر ایستادہ دیدبان (OP)کی طرح ہے‘ جس کا سینہ رازوں کا خزینہ ہے۔ ممکن ہے یہ بات عام لوگوں کے لیے ایک عمومی سی بات ہو لیکن سفر آدھی صدی کا پڑھ کر اندازہ ہوتا ہے کہ واقعی بیدار ذہن رکھنے والا اخبار نویس تاریخ اور لمحوں کے ساتھ قدم ملاکر چلتا ہے۔ یہ اعزاز کسی کسی کو نصیب ہوتاہے کہ وہ اس سفر کی کلفتوں اور راحتوں میں دوسروں کو بھی شریک کرے۔
عبدالکریم عابد نے سفر آدھی صدی کا میں مشاہدات اور تجربات کی بنیاد پر حکمت سے بھرپور بیان و استدلال کے ساتھ بڑے اہم لمحوں کا تذکرہ دبیز پردوں سے نکال کر پیش کیا ہے۔ اگرچہ کتاب کا ہر باب ایک مکمل موضوع ہے‘ تاہم اس کے چند مرکزی موضوعات یہ ہیں: سقوط حیدرآباد دکن کا پس منظر اور پیش منظر‘ کمیونسٹ پارٹی کی کھلی اور چھپی سرگرمیاں‘ ترقی پسند صحافیوں کی وارداتیں اور حکمت عملی‘ مہاجر سندھی سیاست کاارتقا اور احوال‘ جماعت اسلامی کو درپیش چیلنج‘ پاکستان کی دستوری تاریخ کے اہم موڑ‘ بھٹو مرحوم کی سیاست کے پیچ و خم‘ وادی صحافت کے نشیب و فراز ‘ہندو سیاست کا شاخسانہ وغیرہ۔
عابد صاحب کے دانش ورانہ نکات و معارف کے حامل‘ چند مختصر اقتباسات: m پاکستان کی پرانی نسل کو قائد اچھے ملے‘ اور انھوں نے قوم کو خواب غفلت سے بیدار کرنے کے لیے بہت کچھ کیا۔ مگر نئی نسل کا المیہ یہ ہے کہ وہ قیادت سے محروم رہی‘ بلکہ اس کا واسطہ دجالوں سے رہا‘ جو اسے فریب پر فریب دیتے رہے۔ (ص ۱۳) mمولانا ظفراحمد انصاری نے قیام پاکستان کے بعد قائداعظم سے کہا تھا کہ ’’مسلم لیگ صرف پاکستان بنانے کے لیے تھی‘ پاکستان بن گیا‘ اس کا کردار ختم ہو گیاہے ]اب ختم کرنے کا اعلان کر دیجیے [‘‘۔ اگر اس تجویز پر عمل ہوتا تو لیگ کا مردہ خراب ہونے سے بچ جاتا (ص ۱۶۱)۔ m ایوب خان کو راستے سے ہٹانے کا منصوبہ سی آئی اے کا تھا‘وہ پروچائنا ]کمیونسٹ[ گروپ کو استعمال کر رہی تھی۔ (ص ۲۳۴) m ایک تقریر میں معراج ]محمد خاں[ نے مودودی صاحب پر بدتمیزی کے ساتھ نکتہ چینی کی۔ ]ذوالفقار علی[بھٹو فوراً کھڑے ہوگئے اور کہا’’یہ خیالات معراج کے ہیں میرے نہیں‘ میرے دل میں مولانا مودودی کا بہت احترام ہے‘‘۔ (ص ۲۴۴)
عابد صاحب اختصار ‘ جامعیت اور بلا کی سادگی و پرکاری کے ساتھ بڑے بڑے موضوعات کو ایک ڈیڑھ صفحے میں قلم بند کر دیتے ہیں‘ جس میں مطالعے کی وسعت‘مشاہدے کی گہرائی اور موضوعات کا تنوع‘ قاری کو ان کا گرویدہ بنا لیتا ہے۔ اگرچہ یہ کتاب اُن کے کالموں کا مجموعہ ہے‘ مگر اس میں انھوں نے آپ بیتی سے بڑھ کر جگ بیتی تحریر کی ہے۔ اچھا ہوتا کہ کتاب کی مناسبت سے کچھ تکرار کو ختم کر دیاجاتا۔ پروفیسر شاہد ہاشمی مبارک باد کے مستحق ہیں کہ انھوں نے اس دستاویز کی پیش کاری میں دل چسپی لی‘ اورارزاں قیمت پر ایک دل چسپ کتاب فراہم کرنے میں کامیاب رہے۔ (سلیم منصور خالد)
استاد محمد طاسین مصنف اور محقق کی حیثیت سے ایک معروف نام ہے۔ مولانا کی درجن بھر کتب اور کتابچے شائع ہوچکے ہیں۔ بعض موضوعات پر ان کی منفرد آرا ان کے دقتِ مطالعہ کی مظہر ہیں۔ مروجہ زمین داری نظام پر ان کا اپنا ایک نقطۂ نظر ہے‘ اور وہ پاکستان کی جاگیروں کو عشری کے بجاے خراجی زمینیں قرار دیتے ہیں۔
زیرتبصرہ کتاب سود‘ اور غیر سودی بنک کاری وغیرہ کے حوالے سے ان کے مختلف مضامین کامجموعہ ہے۔ اس کتاب میں: بنک کیسے وجود میں آئے‘ بنکوں کاتاریخی پس منظر اورسماجی کردار‘ غیرسودی بنک کو اسلامی تعلیمات کی روشنی میں چلانے کی عملی صورت اور سرمایے کی حیثیت وغیرہ شامل ہیں۔ مزید برآں کتاب میں پاکستان کے حوالے سے غیرسودی (نفع و نقصان کی بنیاد پر) بنک کے قیام کا شرعی نقطۂ نظر سے جائزہ‘مضاربت کی بنیاد پر بنک کا قیام اور اس کی شرعی حیثیت پر گفتگو کی گئی ہے (ص ۱۷)۔
مولانا طاسین کی راے میں مضاربت کو اسلامی بنک کاری کی اساس نہیں بنایا جاسکتا کیونکہ ’’مضاربت کامعاملہ معاشرے کے بعض مخصوص افراد سے تعلق رکھتا ہے اور انفرادی نوعیت کا معاملہ اجتماعی نوعیت کا معاملہ نہیں جس میں معاشرے کے سب افراد شریک ہو سکتے ہیں‘ لہٰذا بنک جیسے اجتماعی ادارے کی تشکیل مضاربت کی بنیاد پر کرنادرست نہیں قرار پاتا بلکہ غلط ہوتا ہے‘‘ (ص ۲۶)
خلاصہ بحث کے طور پر مولانا طاسین لکھتے ہیں: ’’اگر ہم واقعی صدقِ دل سے یہ چاہتے ہیں کہ ہمیں سود کی لعنت اور نحوست سے چھٹکارا ملے… تو ہمیں پختہ عزم کے ساتھ اجتماعی طور پر یہ فیصلہ کرنا پڑے گا کہ ہم نے وطن عزیز پاکستان سے اس سرمایہ دارانہ معاشی نظام کا جڑ و بنیاد سے خاتمہ کرنا اور اکھاڑ پھینکنا ہے‘ جو فی الوقت ہمارے ہاں رائج اور بروے کار ہے‘ اور جس کے لازمی جز کے طور پر موجودہ بنک کاری کا ادارہ قائم ہے‘‘ (ص ۳۲‘ ۳۳)۔ اس کے علاوہ مولانا نے بیمے کی شرعی حیثیت اور دیگر مسائل کی شرعی حیثیت و اہمیت پر بھی روشنی ڈالی ہے۔
مولانا مرحوم کی بعض آرا سے اختلاف بھی کیا جا سکتا ہے ‘ اس کے باوجودتحقیقی حوالے سے مضامین کا یہ مجموعہ بہت سے اہم موضوعات کااحاطہ کرتا ہے اورقرآن و حدیث کے علاوہ فقہ کے حوالوں سے مزین ہے۔ (میاں محمد اکرم)
یہ کتاب بنیادی طور پر موجودہ حالات کی روشنی میں علاماتِ قیامت کی تشریح پر مبنی ہے۔ اس سلسلے میں ۱۵۰۰ قرآنی آیات اور ۵۰۰ احادیث کے حوالے دیے گئے ہیں‘ اس کے ساتھ توحید‘ رسالت‘ نظامِ صلوٰۃ‘ نظامِ زکوٰۃ‘ جنت‘ دوزخ‘ دجال اور اُمت کے سیاسی و اقتصادی مسائل‘ معیاری دعوت کااسلوب وغیرہ کی وضاحت بھی کردی گئی ہے۔ مصنف کی بھرپور کوشش ہے کہ قرآنی آیات کی جامع تشریح اختیار کی جائے اور صرف متفق علیہ احادیث درج کی جائیں۔
مصنف نے جہاں بھی کسی عالم کی رائے درج کی ہے‘ بالالتزام اُس کا حوالہ دیا ہے جو قابل تحسین ہے۔ ابواب کے عنوانات عربی زبان میں ہیں اور ذیلی عنوانات انگریزی میں ۔ باب اول: لایھدی القوم الظالمون‘ دوم: نصر من اللّٰہ‘ سوم: فتحٌ قریب اور چہارم: بشرالمومنین‘ آخری باب تبصروں اور آرا پر مشتمل ہے۔
مصنف کا طریق عرب واعظین کا سا ہے جو کسی موضوع پر پہلے تو مسلسل آیاتِ قرآنی اور احادیث نبویہؐ بیان کرتے ہیں‘ پھر طویل تشریح‘ اور اس کے بعد نیا موضوع شروع ہو جاتا ہے۔ مصنف نے اپنے موقف کی وضاحت کے لیے حسب موقع گراف بھی دیے ہیں ۔ اسلامی اصطلاحات کااصل عربی نام برقرار رکھنے کی کوشش کی ہے۔ مصنف‘ محمد ابومتوکل کے بارے میں کوئی تعارفی نوٹ نہیں ہے۔ کتاب میں ناموں کے اخفا کا رجحان غالب ہے۔ البتہ نیوجرسی کی مسجد شہدا کے امام ذکی الدین شرفی کا نام اور تعارف مبصرین میں درج ہے۔ کتاب کا فونٹ انتہائی باریک ہے جو طبیعت پر گراں گزرتا ہے۔ (محمد ایوب منیر )
مصنف ایک تجربہ کار یونانی اور آلڑنیٹو نوبل انعام یافتہ معالج ہیں۔انھوں نے سالہا سال کے عملی تجربے سے یہ نتیجہ اخذ کیا کہ انٹی بیاٹک ادویہ کا غیرمستند اور بکثرت استعمال انسان کے مدافعتی نظام کو بے حد کمزور کر کے جسم پر مہلک اثرات مرتب کرتاہے۔ دور جدید میں ایڈز اور ایسے ہی دوسرے امراض خبیثہ کا سب سے بڑاسبب ایلوپیتھک ادویات کا بے باکانہ استعمال ہے۔ وہ اس خطرناک صورت حال کا تدارک ہیومیوپیتھک طرزعلاج میں پاتے ہیں۔ مصنف نے اپنی بات آسان زبان میں اعداد وشمار‘ تصویروں‘ ڈایاگراموں اور گرافوں کی مدد سے سمجھائی ہے۔ گوناگوں امراض سے نجات اور صحت مند زندگی آج کا بنیادی مسئلہ ہے‘ اس کے حل میں یہ کتاب مدد دیتی ہے۔ ( رفیع الدین ہاشمی )
مصنف کہتے ہیں کہ ’’اس وقت اسلامی فکر کی ترویج کے لیے مختلف محاذوں پر کوششیں ہو رہی ہیں‘ اس کتاب کے ذریعے ہم بھی ان کوششوں میں شریک ہو رہے ہیں۔ اس کتاب میں اسلام کے بنیادی ارکان وآثار کی قرآنی فکر کی روشنی میں ایسی تفصیل شامل کی گئی ہے جو عبادات سے لے کر اخلاقیات تک اور سماجیات سے لے کر اقتصادیات تک تمام شعبوں میں مسلمانوں کی عملی طور پر رہنمائی کر سکے‘‘ (ص ۲۷)۔ کتاب کے موضوعات و مباحث کا دائرہ بہت وسیع ہے۔ نام کی مناسبت سے عورت اور خاندان سے متعلق چھوٹے بڑے امور و مسائل پر اسلامی نقطۂ نظر سے معلومات مہیا کی گئی ہیں۔ پہلا حصہ: ایمانیات‘ آثار اسلام‘ دوسرا: اخلاقیات اور معاشرت‘ تیسرا: ازدواجی زندگی کے شرعی مسائل‘ چوتھا: خواتین کی صحت‘ پانچواں: بچوں کی صحت و تربیت‘ چھٹا: عام صحت‘ احتیاط و علاج‘ ساتواں: متفرقات۔ اس طرح ہر موضوع پر تفصیل سے چھوٹی چھوٹی جزئیات مہیا کی گئی ہیں حتیٰ کہ دیمک کوختم کرنے کا طریقہ‘ تنگ جوتے کوٹھیک کرنے کا طریقہ اور چوہوں کو بھگانے کا طریقہ بھی--- وغیرہ۔
اس کتاب سے ذہن بہشتی زیورکی طرف منتقل ہو جاتا ہے۔ مصنف معترف ہیں کہ انھوں نے روشن فکر علما کی تحریری خدمات سے، ’’پھولوں کا انتخاب کر کے ایک گلدستہ سجایا ہے‘‘۔ فقہی سوالات کے جواب‘ عرب نیوزمیں شائع ہونے والے عادل صلاحی کے جوابات سے لیے گئے ہیں (جو اسلامی طرز فکر کے عنوان سے کتابی صورت میں بھی شائع ہو چکے ہیں) ۔ بہرحال اس کتاب کی جامعیت میں کلام نہیں‘ اور افادیت بہت وسیع ہے۔یہ بکثرت اور بار بارپڑھی جانے والی کتاب ہے‘ مگر اس کی جلد مضبوط نہیں ہے۔ (ر-ہ)
ساری زمیں ہماری‘ کل آسماں ہمارا
کوہ و دمن ہمارے‘ ہر گلستاں ہمارا
صحرا یہاں ہمارا‘ دریا وہاں ہمارا
’’چین و عرب ہمارا‘ ہندوستاں ہمارا
مسلم ہیں ہم وطن ہے سارا جہاں ہمارا‘‘
ایک جذبہ اخلاص ومحبت کے ساتھ اورانکسارانہ ‘تضامینِ اقبال کے ذخیرے میں قابلِ قدر اضافہ ہے۔[