۸ اکتوبر ۲۰۰۱ء کو امریکہ اور اس کی اتحادی افواج نے افغانستان پرحملہ کر کے مغربی تہذیب وتمدن کی تاریخ میں ایک نہایت ہی سفاکانہ اور شرم ناک باب کا اضافہ کیا ہے۔ افغانستان میں طالبان نے شریعت اسلامی پر مبنی جو حکومت قائم کی تھی گو اس میں بہت سی خامیاں تھیں لیکن اس کے باوجود یہ اسلامی اقدار کی علم بردار تھی‘ جس کی اپنی آزاد خارجہ پالیسی تھی‘ جو اصولوں پر سودے بازی کے لیے تیار نہیں تھی‘ جو مالی غربت اور مشکلات کے باوجود کسی سے امداد کی بھیک نہیںمانگتی تھی اور جس نے ثابت کیا تھا کہ غربت اور افلاس کے باوجود اگر کوئی ریاست چاہے تو عزت و وقار سے اقوام عالم میںزندہ رہ سکتی ہے۔ افغانستان کی یہ آزاد اور جری پالیسی مغربی ممالک کے تیار کردہ عالمی نقشے میں کہیں بھی فٹ نہیں ہورہی تھی۔ امریکی حکام طالبان کی حکومت کو مغربی تہذیب کے لیے خطرہ اور ایک بڑا چیلنج سمجھتے تھے۔ اس لیے ۱۱ ستمبر ۲۰۰۱ء کے عالمی تجارتی مرکز کے واقعے میں اسامہ بن لادن کو ملوث کرتے ہوئے انھوں نے طالبان کی فوج اور نہتے افغان عوام کے ساتھ خون کی ہولی کھیلی۔ بقول صدر بش یہ اکیسویں صدی کی صلیبی جنگ کا آغاز تھا۔ لیکن اس کے پس پردہ سیاسی اور اقتصادی مقاصد بھی کارفرما تھے۔
وسط ایشیا کے مسلمان ممالک جو روسی قبضہ استبداد سے آزاد ہو چکے ہیں‘ بے شمار قیمتی معدنیات اور وسائل سے مالا مال ہیں۔ ان کے گیس اور پٹرولیم کے ذخائر پر ایک عرصے سے امریکی حکومت کی لالچی نگاہیں لگی ہوئی تھیں۔ یہ معدنی وسائل اُس وقت تک استعمال میں نہیں لائے جاسکتے تھے جب تک کہ ان کو بحیرہ عرب تک لانے کے لیے خاطرخواہ مواصلاتی انتظام نہ کیاجائے۔ اس میں افغانستان کی طالبان حکومت ایک اہم رکاوٹ تھی جسے دُور کرنے کے بعد ہی ان معدنی ذخائر کے منصوبے کو عملی جامہ پہنایا جا سکتا تھا۔ ۱۱ستمبر کے واقعے کو بہانہ بنا کران عزائم کی تکمیل کے لیے امریکہ نے افغانستان پرحملہ کیا۔ افغانستان کے شمالی اتحاد نے امریکی حملے میں بھرپور مدد و تعاون کیا اور امریکی افواج کے ہراول دستے کا غدارانہ کردار ادا کیا۔ اہل پاکستان کی بدنصیبی کہ حکومت پاکستان نے بھی اس میں امریکہ کی ہر طرح کی حمایت و مدد کی۔ دومہینے تک افغانستان کے شہر اور دیہات امریکی افواج کی بم باری اورگولہ باری کا نشانہ بنے رہے۔ یہ سفاکانہ حملے رمضان شریف کے مہینے میں بھی جاری رہے۔ عید کے دن بھی بے گناہ نمازیوں کوشہید کیاگیا۔ اس حملے کے نتیجے میں ۴ ہزار سے زائد شہری شہید ہوئے۔ ہزاروں جنگی قیدیوں کو بے دردی سے قتل کیا گیا۔ ہسپتال‘ اسکول‘ سڑکیں اور پُل مسمار کیے گئے۔ افغانستان کے اکثر ہوائی اڈوں کو ناکارہ بنایا گیا۔ آریانہ افغان کے طیارے تباہ کیے گئے۔ کابل‘ قندھار‘ جلال آباد کے شہرملبے کا ڈھیر بن گئے۔
دسمبر کے مہینے میں اقوام متحدہ کے زیرنگرانی جرمنی کے دارالحکومت بون میں شمالی اتحاد‘ روم اور پشاور گروپ کے نمایندوں‘ افغان دانش وروں اور جنگجو کمانڈروں کے مذاکرات ہوئے۔ حامد کرزئی کو عبوری حکومت کا چیئرمین مقرر کیاگیا۔ یہ بھی طے پایا کہ چھ مہینے کے بعد افغان لویہ جرگہ کا اجلاس منعقد ہوگا جس میں آیندہ دو سال کے لیے نئی حکومت تشکیل دی جائے گی۔ جون کے وسط میں لویہ جرگہ کا اجلاس کابل میں طلب کیا گیا۔ اس میں ۱۵۰۱ منتخب افراد کے علاوہ ۷۴ جنگجو کمانڈروں نے بھی شرکت کی جو بون معاہدے کی سراسر خلاف ورزی تھی۔ لویہ جرگہ کے اجلا س میں صدر بش کے خصوصی معاون زلمے خالدزاد نے امریکی مفادات کے تحفظ کے لیے بادشاہ گر کا کردار ادا کیا۔
کرزئی عبوری حکومت کے صدر منتخب ہوئے۔ پنج شیری تاجک اتحاد کے عبداللہ کو وزیرخارجہ اورقاسم فہیم کو وزیردفاع مقرر کیاگیا۔ وزارت داخلہ کو یونس قانونی سے لے کر تاج محمد وردک کے حوالہ کیا گیا لیکن وزارت داخلہ کوبدستور تاجک گروہ کے زیراثر رکھنے کے لیے سابق وزیرداخلہ یونس قانونی کوصدر کا مشیر براے اُمور داخلہ مقرر کیا گیا۔ اس طرح کرزئی کابینہ کی اہم وزارتوںمیں کوئی قابل ذکر تبدیلی نہیں لائی گئی۔لویہ جرگہ کی آڑ میں امریکی ایجنڈے کو ’’عوامی جمہوری ‘‘طریقے سے عملی جامہ پہنایا گیا۔
امن و امان کی صورت حال: اس وقت افغانستان کئی ایک مسائل سے دوچار ہے۔ ان میں سب سے سنگین مسئلہ امن و امان کا ہے۔ طالبان کے دورِ حکومت میں مکمل امن و امان تھا۔ ملک کے کسی بھی حصے میں دن یارات کو بلاخوف و خطر سفر کرنا ممکن تھا۔ اس کی بڑی وجہ یہ تھی کہ امن و امان بحال کرنے میںلوگوں کا تعاون شامل حال تھا اور مجرموں کو سخت سزائیں دی جاتی تھیں۔ لوگوں نے ازخود اسلحہ طالبان کے حوالے کیا تھا۔ مسلح افراد کا گھومنا پھرنا خلاف قانون اور جرم تھا۔
امن و امان کی صورتِ حال کی خرابی کا اندازہ اس سے لگایا جا سکتا ہے کہ بین الاقوامی فوج کے باوجود کابل شہر کے اندر دن کے وقت آزادی سے گھومنا پھرنا خطرے سے خالی نہیں ہے۔ ڈاکٹر عبدالرحمن جو پہلی عبوری حکومت میں وزیر ہوائی مواصلات تھے اُن کو کابل ہوائی اڈے پر فوجی پہرے داروں کے سامنے قتل کیا گیا۔ ابھی تک ان کے قاتلوں کو گرفتار نہیں کیا جا سکا۔ اسی طرح حاجی عبدالقدیر نائب صدر کو دن دہاڑے اپنے دفتر کے سامنے ان کے داماد سمیت موت کے گھاٹ اُتارا گیا۔ ان کے قاتلوں کا بھی تاحال سراغ نہیں لگایا جا سکا ہے۔ کابل شہر میں امن و امان کی صورت حال کا اندازہ اس سے لگایا جا سکتا ہے کہ ظاہرشاہ کی حفاظت پر اٹلی کا فوجی دستہ مامور ہے‘ جب کہ صدر مملکت حامد کرزئی نے افغان فوجی دستے کو ہٹا کر امریکی فوجی گارڈ کو اپنی سیکورٹی کے لیے متعین کیا ہے۔ ملک کے امن و امان کے متعلق پکتیا کے سابق گورنر بادشاہ خان نے تبصرہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ ’’جس ملک میں صدر ممکت کی اپنی جان محفوظ نہ ہو اور اس کو اپنی حفاظت کے لیے امریکی فوج کی مدد درکار ہو وہاں عام آدمی کی جان و مال کیسے محفوظ رہ سکتی ہے‘‘۔ کابل شہر سے باہر ملک میں مسلح افراد اور جنگجو کمانڈروں کا راج ہے۔ سڑکوںپر جگہ جگہ غیر قانونی پھاٹک کھڑے کیے گئے ہیں جہاں پر ٹیکس ادا کرنے کے بعد آگے جانے کی اجازت ملتی ہے۔ امن و امان کی صورت حال شمالی علاقہ جات میں بالخصوص ابتر ہے جہاں غیر ملکی امدادی اداروں کے دفاتر کو لوٹ لیا گیا ہے۔ عالمی ادارہ خوراک (FAO) کے ذخیرہ گودام پر زبردستی قبضہ کیا گیا ہے۔ ان کے عملے کی گاڑیاں چھینی گئی ہیں۔ ان کے زنانہ افرادکار کے ساتھ ’’گینگ ریپ‘‘ کے واقعات بھی ہوئے ہیں۔ اس تشویش ناک صورت حال کی وجہ سے امدادی اداروں نے اپنے دائرہ کار محدود کر رکھے ہیں۔ یہاں تک کہ ان کے مرد اور زنانہ اہل کار شہروں میں آزادانہ گھوم پھر سکتے ہیں‘ نہ بازار میں ضروریات زندگی خریدنے کے لیے آسکتے ہیں۔
امن و امان کی خراب صورت حال کی وجہ سے افغان شہریوں نے اپنے آپ کو مسلح کر رکھا ہے۔ بہت سا اسلحہ طالبان کے خلاف مسلح جدوجہد شروع کرنے کے لیے مفت تقسیم کیا گیا تھا۔ حال ہی میں کرزئی حکومت نے احکامات جاری کیے ہیں کہ ہرقسم کے اسلحے کو سرکاری مال خانے میں جمع کرایا جائے لیکن کسی نے بھی اس بات کو اہمیت نہیں دی۔ امن و امان کی خرابی کی دوسری وجہ یہاں کے جنگجو کمانڈر ہیں۔ طالبان حکومت نے ان کو غیر مسلح کرکے غیر موثر بنا دیا تھا۔ ان کی من مانی کارروائیوں پر کڑی نگرانی کی جاتی تھی جس کی وجہ سے ان کو ملک چھوڑنا پڑا تھا۔ امریکی حکومت نے اِن کمانڈروں کی پشتیبانی کی۔ ان کو جدید اسلحے سے لیس کیا‘ بے تحاشا ڈالروں سے نوازا‘ مواصلات کی جدید سہولیات مہیا کیں اور ان کو طالبان حکومت کا تختہ اُلٹنے کے لیے استعمال کیا۔ اس وقت افغانستان میں ان جنگجو کمانڈروں کی خودمختار ولایتیں (خطے اور علاقے) ہیں۔ یہ ٹیکس اور کسٹم وصول کرتے ہیں جومرکزی خزانہ میں جمع نہیں کرایا جاتا۔ ان کے پاس جدید اسلحہ سے لیس مسلح فوج اور پولیس ہے۔ ذاتی مفادات کی خاطر آپس میں لڑتے اور خون خرابہ کرتے ہیں۔ ان پر مرکزی حکومت کا اثر و رسوخ براے نام ہے۔ ان کی حیثیت خودمختار حکمرانوں کی سی ہے۔ ان میں سب سے زیادہ بااثر شمال میں عطا محمد‘ مزار شریف میں عبدالرشید دوستم‘ ہرات میںاسماعیل خان‘ قندھار میں گل شیرخان اورفراہ میں امان اللہ ہیں۔
یہ بات باعث حیرت و تعجب ہے کہ جنگجو کمانڈروں کو امریکی حکومت کی آشیرباد حاصل ہے۔ اس لیے کہ ان ہی کی مدد سے امریکی فوج افغانستان پرحملہ کرنے میں کامیاب ہوئی ہے۔ لویہ جرگہ کے اجلاس کے دوران جب کئی ایک ممبران نے ان جنگجو کمانڈروں کی لویہ جرگہ میں شرکت پر اعتراض کیا اور ان کے نظام کو تبدیل کرنے کا مطالبہ کیا تواقوامِ متحدہ کے نمایندوں نے جواب دیا کہ’’بون معاہدے کا مقصد صرف مستقبل کی عارضی حکومت کی تشکیل ہے۔ جنگجو کمانڈروں کے نظام کوچھیڑنا نہیں ہے‘‘۔
پوست کی کاشت: طالبان کے دورِ حکومت سے پہلے پورے افغانستان میں پوست کی کاشت ہوتی تھی جس سے سالانہ ۵ سو ملین ڈالر آمدنی تھی۔ یورپ کی افیون اور ہیروئن کی ۷۰ فی صد ’’مانگ‘‘ یہاں سے پوری ہوتی تھی۔ طالبان جب اقتدار میں آئے تو پوست کی کاشت کو غیراسلامی قرار دے کر پورے ملک میں ممنوع قرار دے دیا گیا۔ اقوام متحدہ کی رپورٹ کے مطابق: ’’سال ۲۰۰۱ء میں پورے افغانستان میں کہیں بھی پوست کی کاشت نہیں کی گئی‘‘۔ اہم بات یہ ہے کہ کسانوں نے پوست کی کاشت سے دست بردار ہونے کے لیے کسی قسم کا معاوضہ طلب نہیں کیا۔ یہ سب کچھ مذہبی جذبے کے تحت کیا گیا۔ امریکی حملے کے بعد پورے افغانستان میں ایک مرتبہ پھر پوست کی کاشت کی گئی ہے۔ حکومت نے کسانوں سے اپیل کی ہے کہ اگر وہ پوست کی فصل کوضائع کر دیں تو انھیں اس کا معاوضہ دیا جائے گا لیکن انھوں نے اس کا کوئی نوٹس نہیں لیا ہے۔
مخبروں کی کارروائیاں : مخبر جن کو امریکی حکومت نے سیٹلائیٹ فون مہیا کیے ہیں پورے ملک میں پھیلے ہوئے ہیں۔ ان کا تعلق زیادہ ترتاجک گروہ سے ہے۔ انھوں نے کئی موقعوں پر اپنے مخالفین پر امریکیوں سے بم باری کروائی ہے۔ ان کی غلط اطلاعات کی بنا پر امریکی جنگی طیاروں نے بے گناہ شہریوں پر بم باری کی ہے۔ اس کی تازہ مثال اورزگان میں شادی کی تقریب پر ہیلی کاپٹرگن شپ اور بم بار طیاروں سے بم باری ہے جس میں ۴۰ افراد جاں بحق اور ۱۰۰ سے زائد زخمی ہوئے۔ ان واقعات کی وجہ سے پشتون علاقے میں امریکہ سے انتہائی نفرت کے جذبات پائے جاتے ہیں۔ اس بم باری کے خلاف پہلی مرتبہ کابل میں مظاہرہ ہوا۔ جس میں حکومت سے مطالبہ کیا گیا کہ مستقبل میں اس قسم کے حادثات کی روک تھام کی جائے۔ بم باری کے بعد اورزگان کے گورنر نے بیان دیا کہ امریکی فوجی عملے سے کہا گیا ہے کہ ’’مستقبل میں اس قسم کے آپریشن سے پہلے صوبائی حکومت سے اجازت لینی ضروری ہوگی‘‘۔ لیکن امریکی ترجمان نے تردید کی کہ ’’ہم اس قسم کی اجازت کے پابند نہیں ہیں‘‘۔ اس وقت صورت حال یہ ہے کہ مخبروں کی رپورٹ پر افغان شہریوں کو اس شبہے میں قیدکیا جاتا ہے کہ ’’وہ القاعدہ کے افراد یا پاکستانی ہیں‘‘۔ انھیں صفائی پیش کرنے کے بعد ضمانت پر رہا کیا جاتا ہے۔ لوگوں سے پیسہ بٹورنے کے لیے امن پسند شہریوں پر القاعدہ کاالزام لگایا جاتاہے اور انھیں اپنے آپ کو بچانے کے لیے کثیر رقم دینی پڑتی ہے۔ اس طرح کی بلیک میلنگ افغان شہروں میں کاروبار کی شکل اختیار کر گئی ہے۔ امن و امان کی یہ صورت حال افغانستان کی تعمیرنو کی راہ میں ایک سنگین رکاوٹ ہے۔
افغان مہاجرین کے مسائل: حامد کرزئی نے جب سے عنانِ حکومت سنبھالی ہے عالمی سطح پر اس بات کا برابر چرچا کیا جا رہا ہے کہ ملک میں امن و امان بحال ہوگیا ہے‘ خوش حالی کا دور دورہ ہے۔ بین الاقوامی ادارہ براے مہاجرین (UNHCR) نے بھی افغان مہاجرین کو ملک واپس جانے کی ترغیب دی ہے۔ اس کے نتیجے میں گذشتہ چھ مہینوں میں ۱۵ لاکھ مہاجرین پاکستان‘ ایران اور دیگر وسطی ایشیائی ممالک سے افغانستان واپس آگئے۔ یہ مہاجرین زیادہ تر کابل‘ جلال آباد ‘قندھار اور ان کے گردونواح میں مہاجر کیمپوں میں رہایش پذیر ہیں۔ عملاً صورت حال یہ ہے کہ ان خیمہ بستیوں میں پانی کی فراہمی‘ صفائی‘ تعلیم اور صحت کی سہولیات ناپید ہیں۔ مہاجرین میں سے جن کے اپنے مکانات تھے اور جو جنگ کے دوران تباہ و برباد ہوگئے تھے ان میں سے چندایک نے اپنے مکانات کی تعمیر اور مرمت کی ہے لیکن اکثرو بیشتر کے پاس خیموں کے سوا کچھ نہیں ہے۔ ۳لاکھ ۵۰ ہزار پشتون مہاجر زیادہ تر جلال آباد کے قریب ’’حصار شاہی‘‘ کے سنگلاخ اور بے آب و گیاہ میدان میں پڑے ہیں۔ یہاں خواتین کو پانچ کلومیٹر دور سے پانی لانا پڑتا ہے اور سخت مشکلات و مصائب میں زندگی گزار رہی ہیں۔ اس کے علاوہ ایک بڑی تعداد اندرون ملک بے دخل افراد کی ہے جس کا تعلق پشتون آبادی سے ہے۔ یہ تاجک علاقوں میں آباد تھے جن کے ساتھ شمالی اتحاد کی افواج نے تشددکا سلوک کیا ہے۔ خواتین کی بے حرمتی کی ‘گھر کاسامان لوٹ لیا اور زرعی زمینوں سے بے دخل کر دیا گیا۔ ان کی دکانوں پر تاجک افرادنے زبردستی قبضہ کیا ہے۔ بہ امر مجبوری وہ تاجک علاقے سے ملک بدر ہوگئے ہیں۔ اِن کی بڑی تعداد اپنے گائوں کوچھوڑ کرکابل کے گردونواح میں کسمپرسی کی حالت میں خیمہ زن ہے۔
بے روزگاری کا مسئلہ: ایک اہم مسئلہ روزگار کا ہے۔ سرکاری دفاتر میں آسامیوں پر تقرری حکام بالا کی سفارش کے بغیر ناممکن ہے۔ مرکزی حکومت کے کلیدی عہدوں پر پنج شیری تاجک قابض ہیں۔ کم تر درجے کی ملازمتوں پر اِکا دکا پشتون‘ ہزارہ‘ یا ازبک نظر آتا ہے۔ جس کی وجہ سے تاجک طبقے کے خلاف نفرت اور غصے کے جذبات پائے جاتے ہیں۔ باغات جو زرمبادلہ کمانے کا واحد ذریعہ تھے‘ ویران پڑے ہیں۔ ان کی آب پاشی کانظام درہم برہم ہو گیا ہے۔ بیش تر کاریز صفائی نہ ہونے کی وجہ سے بند ہیں۔ مزید یہ کہ قدم قدم پر روسیوں کی بارودی سرنگیں بکھری پڑی ہیں جن کو ابھی تک ناکارہ نہیں بنایا گیا ہے۔ ان کے خوف سے کوئی کسان زرعی زمین میں کاشت کی ہمت نہیں کرسکتا۔ ملک کے تقریباً سارے کارخانے تباہ و برباد ہیں۔ بیرون ملک تجارت نہ ہونے کے برابر ہے اور اندرونی تجارت صرف روز مرہ اشیا تک محدود ہے۔ لہٰذا روزگار کے مواقع نہ ہونے کے برابر ہیں۔ خیمہ بستیوں میں بے اطمینانی کی فضا ہے۔ اکثروبیشتر کی سوچ ہے کہ افغانستان واپس آکر ہم غلطی کے مرتکب ہوئے ہیں۔
افرادی قوت اور تعمیرنو کا مسئلہ: افغانستان اس وقت اعلیٰ افرادی قوت کی کمی کا شکار ہے۔ یہاں کے یونی ورسٹی کے پروفیسر‘ ڈاکٹر‘ انجینیر‘سفارت کار‘ نظام حکومت کوچلانے والے اہل کار سب کے سب ملک سے باہرامریکہ‘ جرمنی یا انگلینڈ میں مستقل طور پر آباد ہیں۔ وہ کسی بھی قیمت پر یہاں آنے کے لیے تیار نہیں ہیں۔ اہم آسامیوں پر کام کرنے کے لیے مقامی آبادی کے موزوں افراد ناپید ہیں۔ باہر سے غیر افغان ماہرین کا آنا غیر متوقع ہے اور اگر یہ ماہرین افغانستان میں خدمات سرانجام دینے پر راضی ہوگئے تو بیرونی امداد کا اچھا خاصا حصہ اُن کی تنخواہ اور دیگر مراعات پر خرچ ہوگا۔
پاکستان واحد ملک ہے جو کہ افغانستان کی تعمیرنو میں بڑھ چڑھ کر حصہ لے سکتا ہے۔ افغانستان کے اکثروبیشتر لوگ اُردو سمجھ سکتے ہیں۔ پاکستان اس کا قریب ترین پڑوسی ملک ہے جہاں سے بھاری قسم کا سامان مثلاً سیمنٹ ‘سریا‘آٹا‘ مصنوعی کھاد اور بجلی کاسامان آسانی سے لے جایا جا سکتا ہے۔ لیکن وہاں امن و امان کی صورتِ حال اتنی خراب ہے کہ کسی بھی پاکستانی کا وہاںجاناخطرے سے خالی نہیں ہے۔ کرزئی حکومت پاکستان کے بجائے بھارت پر زیادہ انحصار کر رہی ہے۔ اس وقت صورتِ حال اتنی خراب ہے کہ پشتو بولنے والے افغانیوں کو اکثروبیشتر پاکستانیوں کے شبہے میں گرفتار کیا جاتا ہے۔ جب وہ ثابت کر دیں کہ وہ پاکستانی نہیں ہیں تب اُنھیں رہا کیا جاتا ہے۔ اس صورتِ حال میں کسی بھی پاکستانی کا آزادی سے گھومنا پھرنا محال ہے کجا یہ کہ وہ کسی تعمیری منصوبے میں کوئی حصہ لے سکے۔ حکومت کی پوری مشینری پاکستان کے خلاف ہے اور پاکستان کے ساتھ کسی قسم کے ٹھوس اور پایدار روابط کے حق میں نہیں ہے۔ ہر قسم کے بدامنی اور قتل و غارت کے واقعات میں پاکستان کو ملوث کرنا ‘ اورپاکستانیوں کو موردِالزام ٹھیرانا روز مرہ کا معمول ہے۔
اس کے مقابلے میں بھارت ایک منظم منصوبے کے تحت موجودہ حکومت کی مدد و تعاون کے لیے میدان میںاُترا ہے۔ پہلے مرحلے میں انھوں نے کابل کے اندر گاندھی ہسپتال کو دوائیاں‘ طبی آلات اورڈاکٹر مہیا کیے ہیں۔ اس کے بعد خیرسگالی کے طور پر ۲۵ بسوں کا ایک بیڑہ پیش کیا ہے۔ اگست کے دوسرے ہفتہ میں تین ایربس طیارے آریانہ ایرویز کے حوالے کیے گئے۔ یہ جہاز بھارتی پائلٹ چلائیں گے۔ان کو افغانستان اور بھارت کے درمیان پروازوں کے لیے استعمال میں لایا جائے گا۔ اس لیے کہ بھارتی طیارے پاکستانی فضائی حدود پر سے پرواز کرتے ہوئے افغانستان نہیں جا سکتے۔
ہزاروں پاکستانی طالبان کے دورحکومت میں کاری گروں کی حیثیت سے آئے تھے اور محنت ومزدوری کرتے تھے۔ ان میں موٹرمکینک‘ الیکٹریشن‘ نرسنگ سٹاف اور انگریزی جاننے والے کلرک شامل تھے۔ یہ سارے کے سارے افغان جیلوں میں سڑ رہے ہیں۔ ان پرالزام ہے کہ یہ القاعدہ کے شانہ بشانہ لڑنے والے افراد ہیں۔ ان میں ہزاروں افراد مختلف قبائلی حجروں میں قید ہیں اور ۳۰ ہزار سے ۸۰ ہزار روپے معاوضے کے بعد چھوڑا جاتا ہے۔ اکثر مناسب خوراک نہ ہونے کی وجہ سے بیمار ہیں۔ دن کو اُن سے محنت مزدوری کا کام لیا جاتاہے اور رات کو پابہ زنجیر رکھا جاتاہے۔ ان میں بوڑھے افراد بھی ہیں جن کی حالت دیکھی نہیں جاتی۔ یہ افراد ویزا لے کر روزگار کی تلاش میں افغانستان گئے تھے۔ یہ ایک قومی المیہ ہے کہ حکومت پاکستان نے ان کی رہائی کے لیے مؤثر آواز اٹھائی ہے اور نہ کوئی عملی اقدام کیا ہے۔ ایک اطلاع کے مطابق ان میں سے سیکڑوں کو بھارت منتقل کیا گیا ہے۔
لسانی بنیادوں پر تفریق: افغانستان کی ۲۰۰ سالہ تاریخ میں نسلی یا لسانی بنیادوں پر کوئی تفریق نہیں کی گئی۔ تاجک‘ ہزارہ اور پشتون آپس میں امن وامان سے رہتے تھے۔ ان کی آپس میں شادیاں ہوتی تھیں۔ ملازمتوں کی تقسیم میں بھی کبھی لسانی بنیاد پر کوئی اختلافات سامنے نہیں آئے۔ ظاہرشاہ کا تعلق پشتون قبیلہ بارک زئی سے تھا لیکن اُس کی اور اس کے آباواجداد کی شادیاں فارسی بولنے والے تاجک قبیلوں میں ہوئی تھیں۔ اس وجہ سے شاہی خاندان میں بھی پشتو اور فارسی دونوں زبانیں بولی جاتی تھیں۔
افغانستان میں لسانی بنیاد پر تفریق کی بنیاد کمیونسٹ دور حکومت میں ڈالی گئی۔ یہ افغان ملت کو لسانی بنیادوں پر تقسیم کرنے کے منصوبے کا حصہ تھا جو روسی افواج کی شکست کے بعد ادھورا رہ گیا۔ بہرحال لسانی بنیادوں پر تفریق کا بیج ڈالا گیا جس کے منفی اثرات دوران جہاد بھی ظاہر ہونے لگے تھے۔ یہی وجہ تھی کہ کوشش بسیار کے باوجود جمعیت اسلامی کے تاجک برہان الدین‘ سیاف اور حزبِ اسلامی کے پشتون گلبدین حکمت یار کے درمیان جہادی کارروائیوں میں بھی اتفاق رائے پیدا نہ ہو سکا۔ روسی شکست کے بعد جوحکومت معرض وجود میں آئی اُس میں استاد ربانی صدر اور گلبدین حکمت یار وزیراعظم مقرر ہوئے۔ اُس دور میں یہ اختلافات اتنے بڑھ گئے کہ طرفین کی افواج تین سال تک آپس میں دست و گریبان رہیں جس کے نتیجے میں کابل کھنڈرات کا شہر بن گیا۔
طالبان نے مختلف نسلی اور لسانی گروہوں کویک جا کیا اور افغان قوم میں مذہب کی بنیاد پر یک جہتی پیدا کی۔ یہ طالبان حکومت کا سب سے بڑا کارنامہ تھا۔ طالبان کے جانے کے بعدافغان قوم کا شیرازہ بکھر گیا ہے۔ افغان دانش وروں کا کہنا ہے کہ ’’افغانستان کی مثال ایک ٹوٹے ہوئے پیالے کی تھی۔ جب تک یہ پیالہ طالبان کے ہاتھ میں تھا انھوں نے اس کو جوڑے رکھا۔ اُن کے جانے کے بعد یہ پیالہ ٹوٹ گیا ہے۔ اس کو دوبارہ جوڑنا کرزئی حکومت کے بس کی بات نہیں ہے‘‘۔
حامد کرزئی کے متعلق افغانوں میں ایک عام تاثر ہے کہ ’’دیوانہ زندہ خوش است‘‘ (دیوانہ اس پر بھی خوش ہے کہ زندہ ہے)۔ اس وقت کرزئی کی پوزیشن بعینہٖ وہی ہے جو ۱۸۳۹ء میں شاہ شجاع کی تھی۔ پہلی اینگلو افغان جنگ کے نتیجے میں انگریزوں نے اُسے تخت کابل پر بٹھایا تھا۔ انگریزی فوج کا دستہ اس کی حفاظت پر مامور تھا۔ لیکن زیادہ عرصے تک افغان اس کٹھ پتلی حکمران کو برداشت نہ کر سکے۔ ۱۸۴۲ء میں شاہ شجاع کو انگریز حفاظتی دستے سمیت موت کے گھاٹ اتار دیا گیا۔ حالات بتا رہے ہیں کہ حامد کرزئی کی پوزیشن شاہ شجاع سے مختلف نہیں ہے اور خطرے کی گھنٹی کسی وقت بھی بج سکتی ہے!
طالبان حکومت ایک نظریاتی حکومت تھی ۔ اُن کا دورِ حکومت صرف چار سال تک رہا لیکن ان کے اثرات اب تک قائم ہیں۔ اب بھی عام آدمی کی ہمدردیاں طالبان کے ساتھ ہیں‘ اس لیے کہ اُن کے دورِحکومت میں شریعت اسلامی اور قومی روایات کے مطابق زندگی بسر کرنے کی حوصلہ افزائی کی گئی تھی جس کو افغانستان کی ساری اقوام نے سراہا۔
طالبان کے آخری مورچے بھی پشتون علاقے میں تھے۔ ان کو امریکی حملے کے دوران بہت بڑا مالی اور جانی نقصان ہوا۔ اس علاقے میں پنج شیروں کے خلاف نہایت شدید نفرت کے جذبات پائے جاتے ہیں‘اس لیے کہ ان کی رائے میں امریکی اُن کی شہ پر آئے دن پشتون ولایتوں پر بم باری کرتے ہیں۔ پنج شیری تاجکوں کی سرپرستی امریکی حکومت کے ایک اہم منصوبے کاحصہ ہے۔ غالباً پیش نظر یہ ہے کہ پشتون آبادی کو اتنا مجبور اور پریشان کیا جائے کہ وہ خود تاجکوں سے علیحدگی کا مطالبہ کریں۔ ایسا معلوم ہو رہا ہے کہ یہ افغانستان کوٹکڑوں میں بانٹنے (balkanization) کے پروگرام کا حصہ ہے۔ اس لیے کہ افغانستان کو کئی ٹکڑوں میں تقسیم کرنے کے بعد ہی امریکہ اپنے مذموم مقاصد میں کامیاب ہوسکتا ہے۔ یہ بھی پیش نظر رہے کہ افغانستان کے ساتھ ملحقہ پاکستان کے شمال مغربی سرحدی صوبے میں پشتون آباد ہیں۔ ان کے افغانستان کے پشتونوں کے ساتھ قریبی روابط ہیں۔ افغانستان میں کسی قسم کی سیاسی تبدیلی کی وجہ سے سرحدی صوبہ کے پشتون آبادی پر اثرات پڑ سکتے ہیں۔
امریکی عزائم: اس وقت امریکی افغانستان کے بست و کشاد کے مالک ہیں۔ حکومت کی ساری مشینری ان کے اشاروں پر چل رہی ہے۔ کرزئی کابینہ کے کئی وزیر اور مشیروہ افغانی افراد ہیں جو ۱۵‘ ۲۰ سال امریکہ میں شہری کی حیثیت سے رہ کر افغانستان میں اپنی ’’خدمات‘‘سرانجام دینے کے لیے آئے ہوئے ہیں۔ ان کے سامنے ملکی مسائل کے حل کے لیے کوئی واضح پروگرام نہیں ہے۔ یہ امریکی ایجنڈے کو پایۂ تکمیل تک پہنچانے کے لیے آلۂ کار بن رہے ہیں۔ امریکہ کے نائب وزیر دفاع پال ولفووٹز نے کہا ہے کہ ’’امریکی افواج افغانستان میں ایک طویل عرصے تک رہیںگی‘‘۔ افغانستان پر امریکی حملے کے عزائم آہستہ آہستہ منظرعام پر آرہے ہیں۔ امریکی پٹرولیم کمپنی UNICOL نے وسط ایشیا کے تیل کے ذخائر کو استعمال میںلانے کے لیے جو منصوبہ تیار کیا تھا اُسے عملی جامہ پہنانے کے لیے ترکمانستان ‘ افغانستان اور پاکستان کے درمیان دولت آباد سے گوادر تک پائپ لائن بچھانے کے معاہدے پر دستخط ہو چکے ہیں۔ یہ بات بھی منظرعام پر آئی ہے کہ پس پردہ امریکہ کرزئی حکومت کو ایسے معاہدے پر مجبور کر رہا ہے جس کے نتیجے میں امریکی حملے اور ’’دہشت گردی کے خلاف کارروائی‘‘ کے سارے اخراجات افغانستان کو ادا کرنے ہوں گے۔
طالبان کی حکمت عملی : دوسری طرف‘ اس وقت امریکی فوج کے خلاف طالبان کی مزاحمت چھاپہ مار جنگ تک محدود ہے۔ اس قسم کی جنگ کے لیے ان کے پاس بے پناہ ہتھیار ہیں جن میں راکٹ میزائل‘ دستی بم اور روایتی ہتھیار شامل ہیں۔ روسیوں کے خلاف بھی جب مجاہدین مصروف جہاد تھے تو ان کے پاس کوئی بمبار طیارے یا ٹینک نہیں تھے وہ اسی قسم کے ہتھیاروں سے لڑتے تھے۔ طالبان نے ہر قسم کا اسلحہ مختلف مقامات پر محفوظ کر رکھا ہے۔ ان کو باہر سے کوئی امداد نہ بھی ملے تو وہ ایک طویل عرصے تک چھاپہ مار جنگ لڑ سکتے ہیں۔افغانستان کا پہاڑی علاقہ اس قسم کی جنگ کے لیے موزوں سرزمین ہے۔ مجاہدین اس کے چپے چپے سے واقف ہیں۔ انھیںاس علاقے میں روسی افواج کے خلاف ۱۰ سالہ جنگ کا تجربہ بھی ہے۔ اہم بات یہ ہے کہ ملک کی موجودہ صورت حال جہاد کے لیے بہت سازگار ہے۔ ببرک کارمل اور نجیب اللہ کے دور حکومت میں پورے افغانستان پر ان کا تسلط تھا۔ روس کی ۶ لاکھ سے زائد فوج بم بار طیاروں اور ٹینکوں سمیت پورے ملک میں پھیلی ہوئی تھی۔ اس وقت صورت حال بالکل مختلف ہے۔ پورے ملک میں افراتفری ہے۔ کرزئی کی حکومت صرف کابل تک اور امریکیوں کا اثرو رسوخ صرف چند ہوائی اڈوں تک محدود ہے۔ بے گناہ شہریوں پربم باری ‘افغان قیدیوں کے ساتھ وحشیانہ سلوک اور عوام کے ساتھ غیر انسانی رویے کی وجہ سے ملک کی بیشتر آبادی امریکیوں کے خلاف ہے اور اُن کو نفرت کی نگاہ سے دیکھتی ہے۔
امریکی ہوائی اڈوں‘ چھائونیوں‘اسلحے کے گوداموں‘ اور فوجی قافلوں پر مجاہدین کے حملے روز مرہ کا معمول ہے جس کی وجہ سے ان کو بہت بھاری جانی اور مالی نقصان اُٹھانا پڑ رہا ہے۔ بڑی تعداد میں امریکی فوجی واصل جہنم ہوچکے ہیں اور بہت سارے قیدی مجاہدین کے زیرحراست ہیں۔
ابتدائی دنوں میں امریکی فوجی چھاپہ مار جنگ کے لیے مجاہدین کے مقابلے میں میدان میں اتر آئے تھے لیکن بھاری جانی نقصان کی وجہ سے وہ میدان سے بھاگ گئے۔ افغان فوج پر بھی اُن کا اعتماد جاتا رہا ہے۔ اس لیے کہ وہ بھی امریکی فوج کے لیے ہراول دستے کی خدمات میں مخلص نہیں ہیں۔ اب وہ چھاپہ ماروں کا مقابلہ ہوائی حملوں سے کر رہے ہیں جو غیر موثر اور بے سود ثابت ہو رہے ہیں۔ امریکی فوجی جو آرام و راحت اور عیش و عشرت کے عادی ہیں افغانستان میں اپنی ڈیوٹی کو عذاب سمجھتے ہیں اور’’دہشت گردی کے خلاف جنگ‘‘ (war on terror) میں نیم دلی سے حصہ لے رہے ہیں‘ جب کہ مجاہدین کی نگاہ میں یہ کفر اوراسلام کا مقابلہ ہے اور وہ اس میں جان کی بازی لگا دینے کو شہادت سمجھتے ہیں۔ مجاہدین کاحوصلہ بلندہے۔ وہ پرعزم اور پراعتماد ہیں۔ اُن کا کہنا ہے کہ ’’امریکیوں کے خلاف جہاد اتنا ہی طویل ہو سکتا ہے جتنا روسیوں کے خلاف تھا۔ اور جیسے روسیوں کو افغانستان میں شکست ہوئی ‘ پورا کمیونزم نظام دھڑام سے گرگیا‘ اسی طرح امریکیوں کو بھی یہیں پر ذلت آمیز شکست ہوگی اور یہیں پرسرمایہ دارانہ نظام کا خاتمہ ہوگا‘‘۔