یوں تو مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ (۷۹-۱۹۰۳ء) کی زندگی کا غالب ترین حصہ خانہ بدوشی‘ مسلسل سفر‘ نقل مکانی‘ جیلوں کی کال کوٹھریوں‘ تقریر و تحریر‘ تصنیف و تالیف‘ جلسے اور جلوسوں میں گزرا ہے‘ لیکن ۱۹۳۷ء سے لے کر ۱۹۳۹ء کے ابتدائی چند مہینے تو بڑے صبرآزما اور ہنگامہ خیز رہے ہیں۔
میرے اندازے کے مطابق مولانا مرحوم کی زندگی کے اس پُرآشوب دور کا آغاز۱۹۳۷ء کی ابتدا سے ہوا۔ اسی زمانے میں ان کی شادی کی بات چیت شروع ہوچکی تھی۔ مولانا کی شادی ۵ مارچ ۱۹۳۷ء (۲۱ ذوالحجہ ۱۳۵۵ھ) کو محترمہ محمودہ بیگم بنت سید نصیرالدین شمسی صاحبہ سے ‘ دہلی میں ہوئی۔ مہر کی رقم مبلغ ۲ ہزار روپے تھی (تذکرہ سید مودودیؒ‘ ج ۳‘ ص۳۰۲)۔ ابھی یہ نوشادی شدہ دولہا دلہن حیدر آباد دکن پہنچے ہی تھے کہ نئے نئے نوشہ کو بحیثیت مدیر ترجمان القرآن ایک ایسے بحران سے دوچار ہونا پڑا جو درحقیقت آنے والے طوفان بلکہ طوفانوں کا پیش خیمہ تھا۔ اس بحران کے بارے میں وہ مئی ۱۹۳۷ء کے ’’اشارات‘‘ میں لکھتے ہیں:
کئی مہینوں سے پرچہ مسلسل تاخیر سے شائع ہورہا ہے۔ خریداروں کی شکایات جس قدر بڑھتی جاتی ہیں میری شرمندگی بھی اسی قدر بڑھ رہی ہے۔ مگر مشکل یہ ہے کہ تاخیر کے جو اسباب ہیں ان کا علاج میرے اختیار میں نہیں‘ تاوقتیکہ رسالے کے ہمدرداور قدرشناس میری اعانت نہ کریں۔ میں ان مشکلات کو رفع نہیں کر سکتا جن کی وجہ سے اس کی زندگی خطرے میں پڑ گئی ہے… اب ایسا وقت آگیا ہے کہ اگر اس پرچے کو زندہ رکھنا ہے اور فی الواقع اس کی زندگی کی کوئی ضرورت محسوس کی جاتی ہے تواس کے تمام ہمدردوں کو خاص طور پر توسیع اشاعت کی طرف توجہ کرنی چاہیے۔ آیندہ پانچ مہینوں میں اس کی زندگی اور موت کا فیصلہ ہونا ہے۔ اگر خریداروں کی تعداد میںکافی اضافہ نہ ہوا تو میں عرض کیے دیتا ہوں کہ محض ساڑھے تین سو خریداروں سے اس معیار کے پرچے کو چلانا میری قدرت سے باہر ہے۔ (ترجمان القرآن‘ مئی ۱۹۳۷ء)
سوال یہ ہے کہ اس اپیل کا کیا اثر ہوا؟--- اگست ‘ ستمبر ۱۹۳۷ء کے ’’اشارات‘‘ میں اس کا جواب ان الفاظ میں ملتاہے:
رسالے کی توسیع اشاعت کے لیے ناظرین کو توجہ دلائی گئی تھی۔ اگرچہ اس سے اشاعت میں کوئی ایسا بڑا اضافہ نہیں ہوا جو رسالے کی مالی مشکلات کوحل کرنے کے لیے کافی ہو‘ صرف ۶۰‘ ۷۰ نئے خریدار مہیا ہوئے۔ پچھلے مہینے ایک صاحب خیرریئس نے ۲۵ روپے عنایت فرمائے تھے کہ ان کی طرف سے غریب مسلمانوں کے نام مفت یا رعایتی قیمت پر رسالہ جاری کر دیا جائے۔ چنانچہ ایک دارالمطالعہ کو مفت اور آٹھ اشخاص کو نصف قیمت پر ایک سال کے لیے رسالہ دیا گیا…۱؎ (ترجمان القرآن‘اگست ‘ ستمبر ۱۹۳۷ء)
اس کا مطلب یہ ہوا کہ ستمبر ۱۹۳۷ء میں ترجمان کی تعداد اشاعت ۷۰+۱۰=۸۰+۳۵۰=۴۳۰ ہوگئی۔ ابھی وہ ایک قدم آگے بڑھنے نہیں پائے تھے کہ نومبر ۱۹۳۷ء کے ترجمان القرآن میں یہ افسوس ناک خبر شائع ہوتی ہے:
سررشۂ تعلیمات‘ سرکار آصفیہ کی جانب سے ہر سال ترجمان القرآنکے جو ڈھائی سو پرچے مدارس کے لیے خریدے جاتے تھے ان کو ماہ شوال ۱۳۵۶ھ ] نومبر ۱۹۳۷ء[ سے گھٹا کر ۱۱۸ کر دیا گیا ہے۔ (ترجمان القرآن‘ نومبر۱۹۳۷ء)
گویا اب ترجمان کی تعداد اشاعت ۴۳۰ - ۱۳۲=۲۹۸ پرچے رہ گئی۔ یہ تعداد ان ۳۵۰ پرچوں سے ۵۲پرچے کم ہے جس کا گلہ مولانا مودودیؒ نے مئی ۱۹۳۷ء کے ’’اشارات‘‘ میں کیا تھا کہ: پرچہ موت اور زندگی کے درمیان لٹک رہا ہے ---کہاں اپیل اور کوشش توسیع اشاعت کی ہو رہی تھی اور اب نوبت اشاعت کی کہاں تک آپہنچی!! سبحان اللّٰہ۔
بات یہیں ختم نہیں ہوئی‘ بلکہ اسی پرچے میں ’’اطلاع ثانی‘‘ کے تحت یہ اعلان بھی شائع ہوا: ’’۱۱ ماہ ذی القعدہ۱۳۵۶ھ میں رسالہ ترجمان القرآن کا دفتر حیدرآبادسے جمال پور ضلع گورداسپور (پنجاب) میں منتقل ہو جائے گا (ترجمان القرآن‘ نومبر ۱۹۳۷ء)۔ ماہ شوال ۱۳۵۶ھ وہ مہینہ ہے جس میں تعداد اشاعت گھٹ کر صرف ۲۹۸ رہ جانے والی تھی اور جس کو لے کر علامہ اقبالؒ (۱۹۳۸ء-۱۸۷۷ء) کی دعوت پر مولانا مودودیؒ کو حیدر آباد‘ دکن سے دارالاسلام‘ جمال پور‘ پٹھانکوٹ‘ منتقل ہونا تھا۔
کیا یہ ہمت شکن واقعات سید مودودیؒ کو مایوس کرنے والے تھے؟ نہیں‘ ہرگز نہیں‘ وہ ان حالات میں بھی نہ صرف ترجمان کی نائو‘ ناگفتہ بہ حالات میں کھئے جا رہے تھے‘بلکہ وہ ترجمان میں شائع شدہ مضامین کو چھاپنے اور پھیلانے کی جدوجہد میں بھی لگے ہوئے تھے--- چنانچہ اگست‘ ستمبر ۱۹۳۷ء کے ’’اشارات‘‘ میں نگارش فرماتے ہیں:
ترجمان القرآن کے سابق مضامین کو کتابی صورت میں شائع کرنے کے لیے برادرانِ اسلام سے اعانت کی جو درخواست کی گئی تھی‘ اس کے جواب میںاب تک چار سو روپے حالی اور پچاس روپے کلدار۲؎ دفتر کو وصول ہوئے ہیں اور مزید پچاس روپے کلدار کا وعدہ ہے…
اگرچہ یہ رقم ۳؎ اس کام کے لیے کافی نہیں جو ہم انجام دینا چاہتے ہیں‘ لیکن خدا کے فضل پر بھروسا کرکے کام کی ابتدا کر دی گئی ہے۔ مضامین کی ترتیب اور نظرثانی کا سلسلہ شروع ہو گیا ہے۔ امید ہے کہ آیندہ ماہ رمضان سے اشاعت کا آغاز ہو جائے گا۔ (ترجمان القرآن‘اگست‘ ستمبر ۱۹۳۷ء)
ختم شوال ہے‘ اور وہ ایک نامعلوم علاقے کی طرف اور غیرمانوس انسانوں کے درمیان جانے کے لیے سفر پر نکل جاتے ہیں‘ تاکہ ترجمان اور ترجمانمیں پیش کردہ دعوت کو زندہ اور جاری و ساری رکھ سکیں۔ ساتھ ہی ایک مکتبے کے قیام کا بھی عزم ہے۔ وہ کیوں اور کیسے؟ اس کا جواب اوپر کی تحریر میں موجود ہے: خدا کے فضل پر بھروسا‘ یعنی وَمَنْ یَّتَوَکَّلْ عَلَی اللّٰہِ فَھُوَ حَسْبُہٗط اِنَّ اللّٰہَ بَالِغُ اَمْرِہٖط قَدْ جَعَلَ اللّٰہُ لِکُلِّ شَیْ ئٍ قَدْرًا o (الطلاق۶۵:۳) ’’جو اللہ پر بھروسا کرے اس کے لیے وہ کافی ہے۔ اللہ اپنا کام پورا کر کے رہتا ہے۔ اللہ نے ہر چیز کے لیے ایک تقدیر مقرر کر رکھی ہے‘‘۔ اس آیت سے پہلے یہ آیت گزر چکی ہے: وَمَنْ یَّتَّقِ اللّٰہَ یَجْعَلْ لَّہٗ مَخْرَجًا o وَّیَرْزُقْہُ مِنْ حَیْثُ لاَ یَحْتَسِبُ ط (الطلاق ۶۵:۲-۳) ’’جو کوئی اللہ سے ڈرتے ہوئے کام کرے گا اللہ اس کے لیے مشکلات سے نکلنے کا کوئی راستہ پیدا کر دے گا اور اسے ایسے راستے سے رزق دے گا جدھر اس کا گمان بھی نہ جاتا ہو‘‘۔ پھر چوتھی آیت کے آخر میں مزید وضاحت یوں فرمائی: وَمَنْ یَّتَّقِ اللّٰہَ یَجْعَلْ لَّہٗ مِنْ اَمْرِہٖ یُسْرًا o (الطلاق ۶۵:۴) ’’جو شخص اللہ سے ڈرے اس کے معاملے میں وہ سہولت پیدا کر دیتا ہے‘‘۔
دیکھیے ’’توکل‘‘ کی کرشمہ کاریاں کہ وہ کس طرح معاملات ‘ مسائل‘ مشکلات کو آسان فرماتا ہے: فَنِعْمَ الْمَوْلٰی وَنِعْمَ النَّصِیْرُ o (الحج ۲۲:۷۸) ’’بہت ہی اچھا ہے وہ مولیٰ اور بہت ہی اچھا ہے وہ مددگار‘‘۔
ان مایوس کن حالات میں ایک غیر واضح ماحول کی طرف سفر کی تیاریاں کس طرح کی گئیں؟ ظاہر بات ہے کہ حیدر آباد میں معاملات کوسمیٹنے کے لیے ‘ ٹکٹ اور راستے کے خرچ کے لیے اور پھر جمال پور پہنچ کر کچھ عرصہ کام چلانے کے لیے پیسوں کی ضرورت تھی اور سخت ضرورت تھی۔ اس کا حل کیسے نکلا؟
اس قرض حسنہ کا انتظام جناب مولانا اعجاز الحق قدوسی مرحوم نے کیا تھا‘ اس لیے یہی بہترمعلوم ہوتا ہے کہ انھی کی زبان سے یہ داستان سنی جائے:
’’۱۹۳۸ء میں علامہ اقبال علیہ الرحمہ کی تحریک پر مستقل طور پر رخت ِ سفر بندھنے لگا اورمولانا ]مودودیؒ[ نے حیدر آباد کے قیام کو الوداع کہنے کا ارادہ کیا۔ سفر کی تیاریاں شروع ہو گئیں۔ کتابیں بندھنے لگیں۔ ایک روز مولانا ]مودودیؒ[ نے مجھ سے کہا: ’’میں سفرکے لیے تیار ہوں ‘مگر میرے پاس سفر خرچ کی کچھ کمی ہے۔ میں سوچتا ہوں کہ بغیر روپے کے سفرکیوںکر ممکن ہوگا؟‘‘ میں خاموش رہا‘ مگر دل میں ایک ہلچل مچ گئی۔ مغرب کی نماز میں نے مسجد مدرسۂ دینیات سرکارعالی میں ادا کی۔ اتفاق سے مسجد میں سرور خان صاحب مل گئے‘ جو مولانا ]مودودیؒ[کی دینی بصیرت کے بہت قائل تھے اور مولانا کے مضامین سے بے حد متاثر تھے۔ گفتگو کا سلسلہ چلا تو میں نے دوران گفتگو ان سے کہا : ’’مولانا ]مودودیؒ[‘ علامہ اقبال کی دعوت پر پنجاب کے لیے عازم ہیں‘ مگر عجیب بات یہ ہے کہ سفر خرچ کی ان کے پاس کچھ کمی ہے۔ اندیشہ ہے کہ سفر خرچ ان کے پاس کم نہ ہو جائے‘‘۔
’’سرور خان صاحب اے کلاس کے بہت بڑے ٹھیکے دار تھے۔ ثروت کے ساتھ انھیں بھلائیوں میں اپنی دولت خرچ کرنے کا حوصلہ بھی تھا۔ وہ مسکراتے ہوئے کہنے لگے: ’’اتنے ان کے قدردان ہیں کیا ایک کا بھی حوصلہ نہیں کہ وہ ان کو قرض دے سکے‘‘۔ میں نے کہا کہ : ’’اول تو مولانا نے کسی سے قرض مانگا نہیں۔ دوسرے یہ کہ ان کی خودداری کے خلاف ہے کہ وہ کسی سے قرض مانگیں۔ یہ بات تو میں نے برسبیل تذکرہ آپ سے کہہ دی ہے‘‘۔ ادھر ادھر کی باتیں ہوتی رہیں۔ وہ رخصت ہوئے اور میں اپنے گھر چلاآیا۔
صبح کو وہ اپنی موٹر میں آئے اور کہنے لگے‘ چلیے میں مولانا کو قرض دیتا ہوں…
ہم دونوں گھر سے رخصت ہو کر لکڑی کے پل پر پہنچے۔ مولانا سے ملے۔ میں نے عرض کیا ’’یہ آپ کو قرض دیناچاہتے ہیں‘‘۔ سرور خان صاحب نے کہا کہ ’’مولانا‘ میری ایک شرط ہے۔ ایک تو یہ کہ آپ اس معاملے کو لکھ دیں۔ دوسرے یہ کہ آپ جتنی مدت بھی چاہیں‘ اس قرض کی ادایگی کے لیے لیں‘ میری طرف سے آپ کو پورا اختیار ہے۔ لیکن جب ادایگی کا وقت آئے تو آپ اسے بروقت ادا کردیں‘‘۔
مولانا نے یہ تحریر لکھ دی۔ آخر میں لکھا کہ میں یہ رقم ایک سال کی مدت میںادا کروںگا۔ مولانا ‘عازم پنجاب ہوئے اور حیدر آباد دکن کی دینی اور انشائی رونقوں کو اپنے ساتھ لے گئے۔
معاہدے کی مدت پوری ہو گئی۔ سوا سال گزر گیا اور مولانا کا کوئی خط نہ آیا۔ سرور خان صاحب دبے دبے الفاظ میں کہنے لگے کہ ’’علما کے وعدے کو آپ نے دیکھ لیا‘‘۔ میں نے ہرچند ان سے کہا کہ ’’ممکن ہے کہ مولانا آپ کا قرض ادا کرنے سے کسی وجہ سے معذور ہوں‘‘۔ آخر جب ان کے طنز کے نشتر انتہا پر پہنچ گئے تو میں نے ایک خط مولانا کی خدمت میں پٹھان کوٹ لکھا‘ جس کا مفہوم یہ تھا کہ آپ نے سرورخان صاحب کا قرض ابھی تک ادا نہیں کیا‘ حالانکہ قرض کی ادایگی کی موعودہ تاریخ گزرے تقریباً آٹھ ماہ گزرچکے ہیں۔علما کے مقدس طبقے کی بدنامی کو پیش نظر رکھ کر اگر ان کا قرض ادا فرما دیا جائے تو بڑی عنایت ہوگی۔
ایک ہفتہ کے بعد جناب نعیم صدیقی کے دستخط سے مولانا مودودیؒ کا گرامی نامہ موصول ہوا‘ جس کا مفہوم یہ تھا: میری مالی حالت اس لاغر گھوڑے کی طرح ہے جس پر آپ طعن و طنز کے لاکھ چابک برسائیں مگر وہ اپنی لاغری کی وجہ سے چل نہیں سکتا۔ میرے پاس پیسہ ہو تو میں ان کا قرض ادا کروں۔ مگر میری نیت بخیر ہے۔ میرے حالات جیسے ہی سازگار ہوںگے میں ان کا قرض ادا کر دوں گا۔ مطمئن رہیے اورسرور خان صاحب کو بھی اطمینان دلا دیجیے‘‘۔۴؎
استاذ محترم جناب مولانا صدرالدین اصلاحیؒ (تذکرہ سید مودودیؒ‘ ج ۳‘ ص۸۴۶) جو ثانوی درس گاہ جماعت اسلامی ہند‘ رام پور میں میرے استاذِ تفسیر اورصدر مدرس تھے‘ ان کے بقول: مولانا مودودیؒ ۱۸مارچ ۱۹۳۸ء کو سرور خان صاحب کے ایک ہزار کے قرض حسن سے جو بتوسط مولانا اعجازالحق قدوسی ملا تھا‘ حیدر آباد دکن سے دارالاسلام‘ جمال پور‘پٹھان کوٹ پہنچے۔ مولانا اصلاحیؒ لکھتے ہیں:
’’یہاں آکر مولانا مودودیؒ نے ان فکرانگیز مضامین کا سلسلہ پایۂ تکمیل کو پہنچایا‘ جو ان کی مشہور تصنیف مسلمان اور موجودہ سیاسی کش مکش میں موجود ہیں۔ اس سلسلۂ مضامین میں‘ مولانا نے اس دعوت و تحریک کا ایک عملی خاکہ بھی پیش کیا‘ جس کے مطابق ان کے نزدیک برصغیر ]جنوب مشرقی ایشیا[ میں احیاے اسلام کا کام منظم طور پر کیا جانا چاہیے تھا۔ اسے پڑھ کر اطراف ملک کے بہت سے اصحاب نے مولانا کو تائیدی خطوط لکھے اور تجویز پیش کی کہ اللہ کانام لے کر ان خطوط پر کام شروع کر دیا جانا چاہیے۔
اس تجویز یا مطالبے کے بعد مولانا نے ۱۹۳۸ء کے اواخر میں ایک دستور کا خاکہ مرتب کیا‘ جس میں پیش نظر تحریک کے مقصد‘ طریق کار اوراصول وضوابط کی تفصیل درج تھی۔ ۱۹۳۹ء کے اوائل میں یہ مجوزہ اجتماع دارالاسلام میں مولانا مودودیؒ کی رہایش گاہ میں منعقد ہوا۔ حاضرین میں سے اکثریت مغربی ہندکے لوگوں کی تھی۔ یوپی سے شریک ہونے والوں میں مولانا محمد منظور نعمانی صاحب بھی تھے۔ باہمی غوروبحث کے بعد دستور اپنی آخری شکل میں منظور ہوگیا اور اسی وقت سے چودھری نیاز علی خاں صاحب کا اختلاف بھی شروع ہوگیا۔
اس اختلاف کا منبع منظور شدہ دستور کی وہ خاص دفعہ تھی جس میں تحریک کا نصب العین اسلامی حکومت کا قیام بتایا گیا تھا۔۵؎ بہرحال اجتماع ہو گیا تو اسی دن (یا اگلے دن) بعد عصر ]عبدالعزیز[ شرقی صاحب کی رہایش گاہ کی بیٹھک میں وہ لوگ جمع ہوئے‘ جنھوں نے اس دستور کے مطابق تحریک کے قیام اور اس میں شریک ہونے کے لیے آمادگی ظاہر کی تھی۔ یہ کل پانچ آدمی تھے۔ سب سے پہلے مولانا مودودی نے تجدید شہادت کی۔اس کے بعد باقی چار آدمیوں نے دوسرے لفظوں میں یہ کہہ کر تحریک کی باقاعدہ بنیاد ڈالی۔ جس کے بعد چودھری ]نیازعلی[ صاحب کے اختلاف نے اپنا عملی اثر دکھانا شروع کر دیا۔ وہ اپنے مزاج کے مطابق نہایت نرم اور شائستہ انداز میں‘ مگر اصرار کے ساتھ مولانا ]مودودیؒ[سے کہتے رہے کہ ’’دستور میں اسلامی حکومت کا لفظ نہیں رہنا چاہیے‘‘… مولانا نے اس کے جواب میں نہایت صفائی اور پوری سنجیدگی سے فرمایا کہ ’’اگر ہمیں یہاں اپنے طور پر کام کرنے کا موقع نہیں ملتا تو ہم اب کہیں اور جا کر یہ کام کریں گے‘‘۔ چنانچہ انھوں نے لاہور منتقل ہو جانے کافیصلہ کرلیا۔
غرض ]یہ کہ[ منتقلی کا فیصلہ برقرار رہا‘ کتابیں رات گئے تک پیک کی گئیں‘ صبح کوٹرک پر سامان لادا گیا اور ہم لوگ اس حال میں لاہور روانہ ہوگئے کہ بالکل نہیں معلوم تھا کہ اب پائوں ٹکانے کی جگہ کب اور کہاں ملے گی؟ مزید لطف کی بات یہ کہ ادارے کے مالی حالات بھی مسلسل صبرآزما چل رہے تھے۔ سہ پہر کے وقت لاہور پہنچ کر ترجمان القرآن کے مینیجر سید محمد شاہ صاحب کے ذاتی مکان (واقع محلہ مصری شاہ) میں سامان اتار کر رکھ دیا گیا اور شام کو قیام گاہ اور دفتر کے لیے مکان کی تلاش شروع ہو گئی‘ جوکئی دنوں کی دوڑ دھوپ کے بعد کامیاب ہوسکی۔ یہ تھی دارالاسلام (پٹھانکوٹ) سے لاہور منتقل ہو جانے کی اصل وجہ‘ اور یہ تھا نقل مکانی کا اصل واقعہ‘‘۔ (تذکرہ سید مودودیؒ‘ ج ۳‘ ص ۸۴۷-۸۴۸)
اس طرح مولانا مودودیؒ اور علامہ اقبالؒ کا دیکھا ہوا خواب چکنا چور ہوکر رہ گیا۔ معلوم ایسا پڑتا ہے کہ یہ اس مشیت الٰہی کا جز تھا جس کے ذریعے اللہ تعالیٰ نے مولانا کوصرف اپنی ذات پر بھروسا کرنے کا درس دیا تھا‘ یعنی ذاتِ الٰہی سبحان و تعالیٰ پر جیسا کہ مولانا نے علامہ اقبال کی وفات کی خبر سن کر کچھ اسی طرح کا تبصرہ کیا تھا۔ وَاللّٰہُ غَالِبٌ عَلٰٓی اَمْرِہٖ وَلٰکِنَّ اَکْثَرَ النَّاسِ لاَ یَعْلَمُوْنَ o (یوسف ۱۲:۲۱) ’’اللہ اپنا کام کر کے رہتا ہے‘ مگر اکثر لوگ جانتے نہیں ہیں‘‘۔
یوں بھی مولانا اعجاز الحق قدوسی مرحوم کہہ چکے ہیں کہ مولانا مودودیؒ، اللہ تعالیٰ ہی پر بھروسا کیا کرتے تھے‘ مگر اس اسکیم میں چونکہ علامہ اقبال اور نیازعلی خان کا مشترکہ وعدۂ تعاون تھا‘ اس لیے شاید علامہ پر تکیہ کسی نہ کسی درجے میں کیا ہو۔ مگر اللہ تعالیٰ اپنے دین کی اقامت میں کسی پر بھی--- حتیٰ کہ داعیوں کی ذات پر بھی--- بھروسے کو گوارا نہیں کرتا۔ یہ دعوتِ ربانی ہے۔ اسی لیے رب ہر شخص اور ہرشے سے یکسر بے نیاز ہے۔ اس حقیقت کو سارے داعیان الی الحق کواچھی طرح سمجھ لیناچاہیے۔ سید قطب شہیدؒ ]م: اگست ۱۹۶۶ء[ نے واقعۂ اُحد کے سلسلے میںاس پر خوب بحث کی ہے۔ اس کو بار بار پڑھنے اورہمیشہ یاد رکھنے کی ضرورت ہے۔ اس کے باوجود اس حقیقت کا یہاں بیان کیا جانا ضروری ہے کہ مولانا نے شادی سے پہلے محترمہ محمودہ بیگم صاحبہ کوصاف صاف اپنے ارادوں سے آگاہ کردیا تھا۔ چنانچہ وہ فرماتی ہیں:
مودودی صاحب بڑے صاف گو تھے۔ انھوں نے شادی سے قبل میرے دادا جان کوایک خط میں سارے حالات لکھے تھے کہ یہ میرا مشن ہے۔ اگر اللہ نے مجھے توفیق دی تو ایک اعلیٰ گھر بھی بنائوں گا اور گاڑی بھی رکھوںگا‘ کیونکہ میں ہوتے سوتے خراب حالات میں رہنے کا قائل نہیں۔ لیکن اگر اللہ نے مجھے نہ دیا تو میں خستہ حالی میں بھی اپنے مشن کو نہیں چھوڑوں گا۔ میرے دادا ابا نے جو جواب دیا وہ میرے والدین کے سامنے مجھے سنانے کے لیے پڑھ کرسنایا۔ اس میں یہ جملہ بھی تھا: ’’ہماری بیٹی محل میں بھی تمھاراساتھ دے گی اور جھونپڑی میں بھی‘‘--- دادا جی کی اس بات نے آنے والے حالات میں مجھے بے پناہ تقویت اور حوصلہ بخشے رکھا۔ (تذکرہ سید مودودیؒ، ج ۳‘ ص ۱۸۲)
بالفاظ دیگر مولانا مودودیؒ کواپنے مشن اور اس کی دشواریوں کااندازہ ضرور تھا‘ مگر غائب کا علم تو صرف اللہ کے پاس ہے۔ وہ اپنی محبت کا دعویٰ کرنے والے بندوں کو آزمانے کے لیے حالات بھی اپنی قدرت اور حکمت سے پیدا کرتا رہتا ہے۔ اللہ کی حکمتیں صرف وہی جانتا ہے۔
بہرحال یہ ۱۹۳۷ء کے ابتدائی دنوں سے شروع ہونے والا سفری‘ مالی‘ جسمانی‘ ذہنی اور فکری بحران ۱۹۳۸ء کے آخر تک‘ بلکہ شاید ۱۹۳۹ء کی ابتدا تک جاری رہا۔ مولانا مودودیؒ، بیگم مودودی اور استاذ محترم مولانا صدرالدین اصلاحیؒ سب کے سب اس میں ثابت قدم رہے: فجزاھم اللّٰہ عنا خیرًا واغفرلنا ولھم وتقبل منھم ومنا انہ سمیع قریب مجیب۔
مزید غوروفکر سے مندرجہ ذیل نتائج ہمارے سامنے آتے ہیں:
۱۹۳۷ء سے شروع ہونے والے مرحلے کو ہم سید مودودیؒ کی زندگی میں خط فاصل قرار دے سکتے ہیں۔ کیونکہ اس وقت سے:
’’جب ڈھائی تین سال بعد مولانا پھر دارالاسلام لوٹے تھے تو کس شرط پر لوٹے۔ میں ان دنوں لاہور میں موجود نہیںتھا۔ اس لیے براہ راست علم کی بنا پر کوئی روایت نہیں کر سکتا‘ مگر دارالاسلام واپس لوٹنے سے چند ماہ قبل مولانا مودودی مرحوم نے مجھے اس بارے میں جو اطلاع دی تھی‘ ا س سے حقیقت پوری طرح سمجھی جاسکتی ہے۔
یکم فروری ۱۹۴۱ء کے اپنے ایک گرامی نامے میں موصوف نے تحریر فرمایا تھا:
کچھ مدت سے چودھری نیاز علی خان صاحب اور شیخ نصیب صاحب نے پھر اصرار شروع کیا ہے کہ تم پھر پٹھان کوٹ والی جگہ کو اپنے ہاتھ میں لے لو۔ اس سلسلے میں بہت کچھ خط و کتابت ہوئی اور بات چیت کی نوبت بھی آئی۔ آخر میں یہ تصفیہ ہواکہ وہ عمارات مع چھ ایکڑ زمین کے‘۹۰ سال کے پٹے پر میں ان سے لوں گا اور شرح کرایہ سو روپیہ سالانہ یا اس کے قریب قریب ہو گی۔ اس صورت میں ہمارے ادارے کا ان کے ٹرسٹ سے کوئی تعلق نہ رہے گا اور نہ کسی قسم کی مداخلت ان کا حق ہوگا۔ ہم محض ایک کرایہ دار کی حیثیت سے وہاں رہیں گے‘ جس طرح یہاں (لاہور میں) کرایہ دے کررہتے ہیں ‘‘(تذکرہ سید مودودیؒ‘ ج ۳‘ ص ۸۴۷- ۸۴۸)۔
یہ قیادت میں کامیابی کا اور اصول و مبادی پر جم جانے کا تیسراثمرہ تھا۔
اسی لیے جب اس دارالاسلام میں مولانا محمد منظورنعمانی وغیرہ جماعت اسلامی سے علیحدہ ہوئے تو مولانا مودودیؒ بھانپ گئے کہ اقامت دین حق کا وہ مفہوم جو ’’اسلامی حکومت کے قیام‘‘ کے ہم معنی ہے‘ ان حضرات کو نہیں پچ رہا ہے۔ اس لیے انھوں نے ان حضرات اور ان کے موہوم اعتراضات کو کوئی اہمیت نہیں دی‘ کیونکہ وہ اور ان کے دارالاسلام سے لاہور ہم سفر حضرات اس بھٹی میں تپنے کے بعد ایک ایسا کھرا سونا بن چکے تھے‘ جس کی مارکیٹ میں ایک قابل قدر حیثیت ہوا کرتی ہے۔ یہ کامیابی اور کامرانی کاچوتھا ثمرہ تھا۔
جب یہی سونا: قرارداد مقاصد کی منظوری‘ اسلامی دستور کی مہم‘ پھانسی کی کوٹھڑی وغیرہ میں اپنا سکہ جما چکا اور وزیراعظم پاکستان چودھری محمد علی کے ہاتھوں اسلامی دستور پاس ہو گیا ‘ پھرجب اس کی تنفیذ کا مرحلہ پیش آیا تو عملی میدان میں اُترنے کے مسئلے پر جماعت ایک بار پھر بحران کاشکار ہوگئی۔ اس بار بھی حزبِ اختلاف کی سرکردگی مدارس سے فارغ حضرات ہی کر رہے تھے۔ مولانا مودودیؒ نے جماعت میں داخلی ٹکرائو سے بچائو کے لیے استعفا پیش کر دیا۔۶؎ ماچھی گوٹھ کے اجتماع میں ان کو کامیابی سے پانچواں پھل ملا۔
وہ دیکھ رہے تھے کہ جدید تعلیم یافتہ حضرات جیسا کہ چودھری نیاز علی خاں صاحب‘ شیخ نصیب صاحب توکچھ مدت بعد اپنے موقف پر نظرثانی کرکے راہ حق پر لوٹ سکتے ہیں‘ لیاقت علی خان‘ خواجہ ناظم الدین‘ مولوی تمیزالدین‘ اے کے بروہی وغیرہم بھی اسلامی حکومت کے حق میں موقف اپنا سکتے ہیں‘ حتیٰ کہ بعد میں ذوالفقار علی بھٹو مرحوم تک بھی کسی نہ کسی شکل میں تعاون پر آمادہ ہو جاتے ہیں‘ مگر یہ کیا ہے کہ اسلامی حکومت کے قیام کی گولی کسی کے حلق سے نہیں اتر سکتی ہے تو وہ ہے خود علماے کرام کا ایک موثر طبقہ۔
اس کی وجہ سیاست اورسیاسی امور سے سخت نفرت اور سیاست کو شجر ممنوعہ سمجھنا ہے۔ یہاں تک کہ سیاسی و اجتماعی امور میں الجھنا‘ طہارت ، تقویٰ اور دین داری کے خلاف سمجھنا ہے۔ اس پندار سے نکلنے میں یہ سخت ناکام رہے ہیں۔ اسی طرح ایک ہمسایہ ملک میں عرش اقتدار تک تو پہنچ گئے مگر وہ اپنے مخصوص تدریسی ماحول سے اپنے آپ کو آزاد نہ کر سکے۔ جمود پر قناعت کی اور اجتہاد سے اظہار بیزاری کیا اور عصرِحاضر کے تقاضوں سے آنکھیں بند کر لیں اور حکمت‘ وسیع القلبی اور وسیع النظری پر قرار واقعی توجہ نہ دی۔ جس سے داخلی اتحاد و تعاون میں کمی اور دشمن کو حملہ کرنے کی سہولت میسر آئی۔ انجام حسرت ناک سامنے آیا۔
رہے مولانا مودودیؒ تو انھوں نے اس اونچی دیوار کو توڑنے کی بھرپور کوشش کی جودین اور سیاست کے درمیان کھڑی کی گئی تھی۔ اس میں وہ اوران کے رفقا بڑی حد تک کامیاب رہے‘ جس کے نتیجے میں آج اسلامی حکومت کے قیام کا تصور ایک مسلمہ امر بن چکا ہے۔ وللّٰہ الامر من قبل ومن بعد-
اسلامی ریاست کے قیام کی اس جدوجہد میں مایوس ہونے کا کوئی سبب نہیں ہے۔ وَیَاْبَی اللّٰہُ اِلَّآ اَنْ یُّتِمَّ نُوْرَہٗ وَلَوْ کَرِہَ الْکٰفِرُوْنَ o (التوبہ ۹:۳۲) ’’مگر اللہ اپنی روشنی کو مکمل کیے بغیر ماننے والا نہیںہے خواہ کافروں کو یہ کتنا ہی ناگوار ہو‘‘۔ وَاللّٰہُ غَالِبٌ عَلٰٓی اَمْرِہٖ وَلٰکِنَّ اَکْثَرَ النَّاسِ لاَ یَعْلَمُوْنَ o (یوسف ۱۲:۲۱) ’’اللہ اپنا کام کر کے رہتا ہے‘ مگر اکثر لوگ جانتے نہیں ہیں‘‘۔
۱- جناب رفیع الدین فاروقی اپنے مقالے ’’مولانا مودودیؒ اور حیدر آباددکن‘‘ میںرقم طرازہیں: ’’… پھر مولانا مودودیؒ کی خودداری کا یہ عالم تھا کہ اپنی مشکلات کا تذکرہ سوائے خدا کے اور کسی سے نہ کرتے۔ اس کا اندازہ اس سے کیا جاسکتا ہے کہ سرکار آصفیہ تین سو سے زائد پرچوں کی خریدار تھی اور ممالک محروسہ سرکار عالی کے مختلف کتب خانوں میں یہ پرچہ جاتا تھا۔ ایک مختصرسے مخالف گروپ نے امور مذہبی پر اثرڈال کر رسالہ کی خریداری بند کرا دی۔ اچانک تقریباً نصف رسالوں کی خریداری بند ہو جانے سے مولانا شدید مالی مشکلات سے دوچار ہوگئے (غالباً یہ واقعہ اپریل ۱۹۳۷ء کا ہوگا کیونکہ مئی ۳۷ء کے ترجمان القرآن کے اشارات میں اس کا اشارہ ملتا ہے‘‘ (تذکرہ سید مودودیؒ‘ ج ۳‘ ص ۳۲۷-۳۲۸)۔ خیال رہے کہ نومبر ۱۹۳۷ء سے پرچے کی خریداری بند کی گئی تھی‘ جب کہ ماہ پیش ترشادی کے اخراجات ہو چکے تھے۔
۲- (حوالہ بالا‘ ص ۸۴۶)۔ قابل غور امر یہ ہے کہ اسلامی حکومت کے قیام سے نہ صرف چودھری نیاز علی صاحب جیسے جدید تعلیم یافتہ حضرات بدک گئے تھے بلکہ علما کرام کو بھی اس مقصد سے بہت کچھ تحفظات (reservations) تھے۔ لیکن مولانا محمد منظور نعمانی ؒ نہ صرف اس دارالاسلام کے دستورمیں اسلامی حکومت کے قیام پر موافق تھے‘ بلکہ اُس جماعت اسلامی کے تاسیسی اجتماع میں منظور شدہ دستور میں بھی اسلامی حکومت کے قیام پر موافق تھے جو لاہور میں منعقد ہوا تھا۔ پھر پتا نہیں اتنے عرصے اس موضوع پر غور کرنے کے بعد ان میں تبدیلی کیوں آئی؟ اگر سطحی اور معمولی اختلافات سے ایسا ہوا تو افسوس ناک امر ہے۔ کیونکہ کسی بھی‘ ہاں‘ کسی بھی جماعت یا تحریک کے قائدین کا وسیع القلب اور حلیم المزاج ہونا ازحدضروری ہے۔ شاید اسی وجہ سے اس کے بعد وہ باقاعدہ کسی بھی نظم میں شریک نہیں ہوسکے اور کسی نظم کا جز نہیں رہ سکے۔اسی طرح دو دستور تیار ہوئے اور دو بار تجدید شہادت بھی ہوئی۔ مولانا اصلاحیؒ نے ان دیگر تین افراد جماعت کے نام پیش کیے‘ جو ان کے علاوہ اس دارالاسلام والی جماعت کے ارکان تاسیسی تھے۔ ظاہر بات ہے وہ خود اس اولین جماعت کے اولین رکن تھے۔ کاش ان دونوں دستوروں کا تقابلی موازنہ کر کے ان کے درمیان جو اغراض و مقاصد اور تنظیمی اور تربیتی امور میں فرق پایا جاتا تھا‘ ان پر روشنی ڈالی جاتی تو کیا ہی اچھا ہوتا۔
۳- اس بحران کے اسباب کے لیے ملاحظہ فرمایئے محمدحمیداللہ صدیقی صاحب کا خط بنام ڈاکٹر نجات اللہ صدیقی‘ مورخہ ۱۹دسمبر ۱۹۵۷ء خصوصاً ص ۳۲۶‘ سطر۹ سے لے کر سطر ۱۵ تک (اسلام‘ معاشیات اور ادب‘ ایجوکیشنل بک ہائوس‘ علی گڑھ‘ اگست ۲۰۰۰ء) ۔مزید ملاحظہ کیجیے: مضمون ’’گہرہاے گراں مایہ‘‘ از سلیم منصور خالد (تذکرۂ مودودیؒ‘ ج ۳‘ ص ۴۹۱-۵۰۰)۔ اسی کے صفحہ ۵۰۱ پر ماچھی گوٹھ کے اجتماع کے نتائج دیکھیے: اس میں ۹۲۰ ارکان موافق تھے اوران کے مقابلے میں ۱۵ مخالف تھے۔ اگر اس رائے پر کچھ لوگوں نے ’’مریدوں کی رائے‘‘ کی پھبتی کسی تو یہی وہ جماعت ہے جومولانا مودودی ؒکی فکرکی رہینِ منت ہے۔