ستمبر ۲۰۰۲

فہرست مضامین

الاستاذ فاضل محمد نور

پروفیسر خورشید احمد | ستمبر ۲۰۰۲ | یاد رفتگان

Responsive image Responsive image

بیسویں صدی میں اسلامی احیا کی تحریک نے مشرق اور مغرب کے ہر ملک میں زندگی اور بیداری کی نئی لہر دوڑا دی ہے۔ ہر ملک اور ہر علاقے کی اپنی اپنی خصوصیات اور اپنے اپنے تجربات ہیں لیکن ترکی اور ملایشیا دو ایسے ملک ہیں جہاں تجدید و احیا کی تحریک نے ایمان کو تازہ اور دلوں کو گرما دیا ہے۔

ملایشیا کی اسلامی تحریک کے قائدین سے میرے تعلقات کا آغاز اس وقت ہوا جب میں اسلامی جمعیت طلبہ کا ناظم اعلیٰ تھا اور ملایشیا ابھی برطانوی سامراج کی ایک کالونی اور صرف ملایا (Malaya)تھا۔ الاستاذ ابوبکر اس وقت اسلامی پارٹی کے سربراہ تھے اور ان موتمرات میں شریک ہوئے تھے جو قیام پاکستان کے فوراً بعد کراچی میں منعقد ہو رہی تھیں۔ ربط و تعلق کا یہ سلسلہ ۱۹۷۳ء سے بہت گہرا ہو گیا جب طلبہ انجمنوں کے عالمی اسلامی وفاق (IIFSO) اور مسلم نوجوانوں کی عالمی اسمبلی (WAMY) میں ملایشیا کے نوجوان قائد انور ابراہیم نے نمایاں کردار ادا کرناشروع کیا۔ انور اس وقت وہاں کی نوجوانوں کی تنظیم آبیم (ABIM) کے صدر اور ملایشیا کے افق پر ایک اُبھرنے والے سورج کی مانند تھے۔ ۱۹۷۳ء ہی میں مجھے  پہلی مرتبہ ملایشیا جانے اور ان کی پوری ٹیم سے ملنے کا موقع ملا۔ جن حضرات نے پہلی ہی ملاقات میں متاثر کیا ان میں فاضل نور بھی تھے جو اس وقت آبیم کے نائب صدر تھے۔ پھر اس کے صدر بنے۔ ملایشیا کی اسلامی تنظیم اور ایک اہم سیاسی قوت  پاس (Parti Islamic Malaysia) کے نائب صدر‘ رکن پارلیمنٹ‘ صدر اوربالآخر پارلیمنٹ میں قائد حزب اختلاف منتخب ہوئے اور ۶۵ سال کی عمر میں ۳۲ سال کی سرگرم تحریکی اورسیاسی جدوجہد کے بعد ۲۳ جون ۲۰۰۲ء کو اپنے خالق سے جا ملے اور لاکھوں انسانوں کو سوگوار چھوڑ گئے--- انا للّٰہ وانا الیہ راجعون!

الاستاذ فاضل نور ۱۳ مارچ ۱۹۳۷ء کو ملایشیا کی ریاست کیداہ (Kedah) کے ایک مضافاتی علاقے میں پیدا ہوئے۔ ابتدائی تعلیم گھر ہی پر ہوئی۔ ان کے دادا توان گرو حاجی ادریس الجرمانی ملک کے نام ور علما میں سے تھے۔ انھوں نے اپنے پوتے کی تعلیم و تربیت پرخصوصی توجہ دی۔ ابتدائی تعلیم سرکاری مدرسے میں حاصل کرنے کے بعد ایک دینی مدرسہ مکتب محمود میں دینی تعلیم حاصل کی اور پھر ۱۹۶۳ء سے ۱۹۶۹ء تک جامع الازھر قاہرہ میں اعلیٰ تعلیم حاصل کی۔ واپسی پرکچھ عرصے مکتب محمود ہی میں تدریس کے فرائض انجام دے کر ملک کی مشہور ٹیکنیکل یونی ورسٹی (یو ٹی ایم) میں اسلامیات کے پروفیسر مقرر ہوئے جہاں ۱۹۷۸ء تک‘  جب ان کی سیاسی سرگرمیوں کی وجہ سے ملازمت سے فارغ کر دیا گیا‘یہ خدمات انجام دیتے رہے۔ فاضل نور نے عدالتی چارہ جوئی کی۔ گو کامیاب رہے لیکن پھر یونی ورسٹی کی ملازمت کو خیرباد کہہ کر ہمہ وقت سیاسی اور تحریکی زندگی میں سرگرم ہو گئے۔ ۱۹۸۰ء میں پارلیمنٹ کے رکن منتخب ہوئے۔ ۱۹۸۹ء میں پاس کے صدر منتخب ہوگئے اور ۱۹۹۹ء میں ان کی قیادت میں پاس کی غیر معمولی کامیابیوں کے بعد جب قومی اسمبلی میں ان کو ۲۷ نشستیںحاصل ہوئیں تو ملک کی پارلیمنٹ میں قائد حزب اختلاف مقرر ہوئے اور ملایشیا کے متوقع وزیراعظم کی حیثیت اختیار کرلی۔ فاضل نور کو دینی اورسیاسی ہرحلقے میں عزت کی نگاہ سے دیکھا جاتا تھا اور ان کو ایک اصول پسند‘ محنتی‘ بالغ نظر اور معتدل سیاسی لیڈر کی حیثیت حاصل تھی۔ ان کی مقبولیت کا اندازہ ان کے جنازے کے جلوس سے ہوتا تھا جس میں لاکھوں افراد نے شرکت کی‘ بار بار نماز جنازہ ادا کرنی پڑی۔ کوالالمپور سے ان کے جسم کو کیداہ میں ان کے آبائی گائوں میں سپرد خاک کیا گیا۔ مبصرین کی گواہی ہے کہ ملایشیا کی حالیہ تاریخ میں جنازے میں عوامی شرکت کی ایسی مثال نہیں ملتی   ع

ہے رشک ایک خلق کو جوہر کی موت پر

امام احمد بن حنبل ؒ نے اپنے ابتلا کے دور کے بعد برسراقتدار برخود غلط حکمرانوں کو خطاب کر کے کہا تھا کہ ہمارے اور تمھارے درمیان فیصلہ موت کے وقت ہوگا (بینی وبینکم یوم الجنائز)۔  اس تاریخی جملے کے دونوں پہلو ہیں۔ ایک یہ کہ اصل فیصلہ موت کے بعد اللہ کے حضور اور اس کے رد و قبول سے ہوگا لیکن ایک پہلو یہ بھی ہے کہ خدا کے فیصلے سے پہلے خود خلق موت پر کیسا خراج پیش کرتی ہے۔ فاضل نور کا جنازہ خلق کی طرف سے عقیدت‘ محبت اور قبولیت کابے مثال مظاہرہ تھا۔

الاستاذ فاضل نور قدیم اور جدید دونوں علوم کا مرقع تھے۔ عربی اور انگریزی دونوں پر قدرت رکھتے تھے۔ گو اپنے رفقاے کار الاستاذ عبدالہادی اوانگ (پاس کے نائب صدر ‘ ریاست ترنگانو کے وزیراعلیٰ اور اب فاضل نور کی جگہ   پاس کے صدر) اور الاستاذ نک عزیز (ریاست کلنتان کے وزیراعلیٰ) کی طرح شعلہ بیاں مقرر نہ تھے مگر اپنے خیالات کا اظہار بڑی روانی سے نہایت ٹھنڈے انداز میں اور دلیل کی قوت سے کرتے تھے اور اپنے مخاطبین کو قائل کرنے کا ملکہ رکھتے تھے۔ انھوں نے بڑے نازک موقع پر نوجوانوں کی تحریک آبیم کی قیادت سنبھالی۔ یہ وہ وقت تھا جب انور ابراہیم نے مہاتیر محمد کی دعوت پر   اومنو (Umno) میں شرکت کرلی اور ملایشیا کی اسلامی تحریک ایک اندرونی چیلنج سے دوچار ہوگئی۔ فاضل نور اس وقت آبیم کے نائب صدر تھے اور انور ابراہیم کے دست راست سمجھے جاتے تھے لیکن آبیم کا صدر منتخب ہوکر انھوں نے بڑی حکمت اور توازن سے معاملات کوسلجھایا اور انور کے مخالف اور حامی دونوں حلقوں میں نہ صرف اپنی ساکھ قائم کی بلکہ تحریک کو انتشار اور تقسیم سے بچا لیا۔ جب آبیم سے فارغ ہوئے تو سیدھے پاس میں شریک ہوئے اور اس کے نائب صدر اوربالآخر صدر منتخب ہوئے۔ آبیم اور پاس کو ایک دوسرے سے قریب رکھا اور انور ابراہیم جس حکمت عملی پر کاربند تھے اس کی راہ میں بھی کوئی رکاوٹ نہ بنے‘ گو اپنے اصولی موقف پر قائم رہے اور پاس کو ایک آزاد اور متبادل سیاسی قوت کی حیثیت سے مضبوط سے مضبوط تر کرتے رہے۔

خود پاس  میں ۱۹۸۰ء کے عشرے میں بڑی اندرونی کش مکش تھی۔ داتو موسیٰ عصری کے دور میں پاس پر ایک طرف ملائی قومیت اور تشخص کا غلبہ رہا تو دوسری طرف برسرِاقتدار جماعت اومنو سے اشتراک اقتدارکا تجربہ (۷۹-۱۹۷۸ء) ہوا جو خاصا متنازع رہا۔ تجربہ کامیاب نہ ہو سکا اور پھر پاس میں قیادت آہستہ آہستہ علما کے گروہ کوحاصل ہوئی جس میں الاستاذ عبدالہادی اوانگ اور ان کے رفقا کا بڑا کردار تھا۔ فاضل نور اسی مکتب فکر سے وابستہ تھے۔ بالآخر پارٹی کی قیادت پھر علما کوحاصل ہوئی۔ الاستاذ یوسف روا صدر بنے اور فاضل نور نائب صدر۔ یہ قیادت مسلسل محنت اور دعوت اور خدمت کے ذریعے پاس کو سیاست  کے قومی دھارے میں لانے میں کامیاب ہوئی۔ پہلے کلنتان کی ریاست میں کامیابی حاصل ہوئی اور پھر ترنگانو میں‘اور ۱۹۹۹ء میں مرکزی پارلیمنٹ میں ۲۰فی صد نشستیں جیت کر پاس اصل حزب اختلاف بنی۔ چونکہ یہ انتخاب متبادل فرنٹ کے نام پر لڑا گیا تھا اس لیے سب کو ساتھ لے کر چلے اور فاضل نور قائد حزب اختلاف منتخب ہوئے۔

الاستاذ فاضل نور کو میں نے بہت قریب سے دیکھا ہے۔ ۳۰ سال کے دوران ان سے درجنوں ملاقاتیں ہوئی ہیں۔ علمی‘ انتظامی‘ سیاسی‘ اختلافی غرض ہر طرح کے امور پر دل کھول کر بات چیت کے مواقع ملے ہیں۔ میں نے ان کو ایک سلجھا ہوا انسان پایا۔ علمی حیثیت سے باوقار‘ سیاسی اعتبار سے متوازن اور صلح جو‘ اصول کے معاملے میں جری اور ثابت قدم لیکن سیاسی اورشخصی دونوں میدانوں میں ٹھنڈے اور معتدل۔ دوسرے کے نقطۂ نظر کوسننے‘ سمجھنے اور اس کا احترام کرنے والے اور تصادم کے مقابلے میں تعاون اور اختلاف کے باوجود متفق علیہ معاملات میں اشتراک کی روش اختیار کرنے والے۔ اور یہی وہ چیز ہے جس نے تصادم سے بھرپور سیاسی فضا میں ان کو تعاون اور قدر مشترک کے متلاشی قائد کا مقام دیا۔ وہ جوڑنے والے تھے‘ کاٹنے والے نہیں‘ سعدی کے انسان مطلوب کا ایک عملی نمونہ:

تو براے وصل کردن آمدی
نے براے فصل کردن آمدی

انورابراہیم کے اومنو میں جانے اور پھر مہاتیر محمد کے غضب اور انتقام کا نشانہ بن کر طوق وسلاسل کے اسیر بننے کے دونوں ادوار میں فاضل نور نے بڑی حکمت‘ معاملہ فہمی‘ توازن و اعتدال‘ حقیقت پسندی‘ اصولوں سے وفاداری مگر شخصی معاملات میں احترام اور تعلق خاطرکے اہتمام کی بڑی اعلیٰ اور روشن مثال نہ صرف یہ کہ قائم کی بلکہ پوری تحریک اور دوسری سیاسی جماعتوں کو بھی اس راہ پر لانے اور قائم رہنے میں گراں قدر خدمات انجام دیں۔ یہ ان کا خلوص اور قائدانہ صلاحیت ہی تھی جس نے ملایشیا کی اسلامی تحریک اور پوری قوم کو انصاف اور اعتدال کے راستے پر رکھا۔ وہ ہمیشہ کہتے تھے کہ ’’انصاف سب کے ساتھ ضروری ہے‘ سیاسی اتفاق اور اختلاف کو انصاف کے تقاضوں کو متاثر کرنے کی اجازت نہیں دی جا سکتی‘‘۔

الاستاذ فاضل نور کی خدمات بے شمار ہیں لیکن یہ ان کا منفرد کارنامہ ہے کہ پاس میںعلما کی قیادت کے غلبے کے باوجود انھوں نے تحریک کو قدیم و جدید کی جنگ سے بچا لیا اورسب کو ساتھ لے کرچلے اور جماعت میں وحدت ‘ یک رنگی اور اعتماد باہمی کی فضا پیدا کرنے میں کامیاب ہوئے۔

ملایشیا کی سیاست میں ایک نازک مسئلہ ملائی شناخت (Malay Identity) کا ہے۔ ایک کروڑ ۱۰لاکھ کی آبادی کے اس ملک میں ملائی شناخت کے لوگ بمشکل ۵۴ فی صد ہیں۔ چینی شناخت کے لوگوں کی تعداد ۳۰‘ ۳۵ فی صد ہے اور باقی کا تعلق ہندستان سے آنے والوں سے ہے جن میں ۹۰ فی صد ہندو یا سکھ ہیں۔ اس طرح تین بڑی قومیتیں اور پانچ بڑے مذہب اسلام‘ عیسائیت‘ چین کا روایتی مذہب‘ ہندومت اور سکھ ازم یہاں پائے جاتے ہیں۔

ملائی شناخت والے لوگ ۱۰۰ فی صد مسلمان ہیں اور شروع میں پاس کی شناخت صرف ملائی تھی۔ پھر اس کا ہدف اسلام کا اجتماعی نظام ہے۔ اس بنا پر قومی شناخت کا مسئلہ خاصا پیچیدہ ہو گیا تھا۔ الاستاذ یوسف روا اور پھر خاص کر الاستاذ فاضل محمد نور کے دور میں پاس اسلامی شناخت اور ملائی آبادی سے انصاف کے ساتھ باقی قومیتوں سے بھی قریب آئی ہے اور ایک قومی سیاسی قوت بن کر اُبھری ہے۔ آج بھی شریعت سے وفاداری ‘ اسلامی نظام کا قیام اور باقی تمام قومیتوں سے انصاف اور ان کے ساتھ شرکت اقتدار کے نازک ہدف کو حاصل کرنے کے لیے پاس سرگرم عمل ہے۔ جن دوریاستوں میں اسے حکمرانی کا اختیار حاصل ہے ان میں اس نے سب کو ساتھ لے کر چلنے اور اپنے اصولوں پر قائم رہنے کی بڑی روشن مثال قائم کی ہے۔ یہ فاضل نورکا وہ کارنامہ ہے جو ملایشیا کے مستقبل کی صورت گری کے لیے ایک تاریخی عمل کی حیثیت سے جاری و ساری رہے گا اور صرف پاس اور ملایشیا ہی نہیں‘ پوری اسلامی دنیا کے لیے ایک اچھا نمونہ بنے گا۔ میں  تحدیث نعمت کے طور پر یہ ذکر کر رہا ہوں کہ خود مجھے‘ الاستاذ یوسف قرضاوی‘ الاستاذ راشد غنوشی اور دوسرے ساتھیوں کو اس حکمت عملی کے دروبست سنوارنے میں شرکت کی سعادت حاصل ہوئی ہے اور یہ سب الاستاذ فاضل نور‘ الاستاذ عبدالہادی اوانگ‘ مصطفی علی اور نصرالدین جیسے ساتھیوں کی بالغ نظری اور معاملہ فہمی کی وجہ سے ممکن ہوا۔ ذٰلک فضل اللّٰہ یوتیہ من یشاء۔

الاستاذ فاضل نور صرف ملایشیا ہی نہیں پوری اُمت مسلمہ اور انسانیت کے خادم تھے۔ فلسطین‘ کشمیر‘ بوسنیا‘ شیشان‘ کوسووا‘ منڈانو‘ پٹانی غرض جہاںبھی مسلمان آزادی‘ حقوق اور اسلامی اقدارکے تحفظ کی جنگ لڑ رہے ہیں اس میں استاذ فاضل نور کا وزن ہمیشہ اُمت کے پلڑے میں رہا اور اُمت کے ہر غم میں وہ برابر کے شریک رہے۔ افغانستان پر امریکہ کی بم باری ‘فلسطین میں اسرائیلی مظالم اور کشمیر میں بھارت کی مسلم کُشی کو وہ انسانیت کے خلاف جرائم قرار دیتے تھے اور امریکہ کے حالیہ عالمی کردار پرسخت گرفت کرنے والوں میں سے تھے۔

یہ بھی ایک اتفاق ہے کہ جون ۲۰۰۲ء کے دوسرے ہفتے میں لسٹر میں اسلامک فائونڈیشن کی ایک کانفرنس میں عالم اسلام کے چند بہی خواہ ایک اہم علمی اجتماع میں شریک تھے جس میں ملایشیا سے محترم مصطفی کمال اورنصرالدین (پاسکے بین الاقوامی امور کے سربراہ اورسیکرٹری جنرل و ارکان پارلیمنٹ) شریک تھے۔ اس اجتماع کے بعد ہم سب کو ہالینڈ ایک دوسرے اجتماع میں جانا تھا کہ یہ خبر آئی کہ الاستاذ فاضل نور کے دل کا آپریشن ہواہے جو پوری طرح کامیاب نہیں رہا۔ مصطفی علی اور نصرالدین فوراً کوالالمپور کے لیے روانہ ہو گئے اور میں روزانہ ان سے جناب فاضل نور کی خیریت معلوم کرتا رہا۔ دو ہفتے زندگی اور موت کی کش مکش میں رہنے کے بعد ملایشیا کی اسلامی تحریک کا یہ سربراہ اور ہمارا عزیز دوست اور بھائی‘ الاستاذ فاضل نور ۲۳ جون ۲۰۰۲ء کو اس جہان فانی سے ابدی زندگی کی طرف لوٹ گیا۔ اللہ تعالیٰ ان کی نیکیوں اور خدمات کو قبول فرمائے‘ ان کی بشری کمزوریوں اور لغزشوں کو معاف فرمائے‘ ان کو اپنے جوارِ رحمت میں جگہ دے اور جنت کے اعلیٰ مقامات سے نوازے ‘اوراُمت کو ان جیسے خادمانِ دین سے نوازے جوحلقہ یاراں میں رحماء بینھم اور معرکہ حق و باطل میں فولاد کا کردار ادا کریں۔ آمین!

میرے لیے ان کی وفات ایک ذاتی سانحہ ہے اورپوری اُمت مسلمہ کے لیے ایک عظیم خسارہ۔

انا للّٰہ وانا الیہ راجعون!