۱۱ ستمبر ۲۰۰۱ء ایک یادگاردن اور ایک تاریخی موڑ کی حیثیت اختیار کر گیا ہے!
ستمبر کی اس تاریک صبح کے خونی واقعات کے نتیجے میں امریکہ ہی نہیں‘ پوری دنیا میں ایک ہل چل مچ گئی ہے۔ نیویارک کا فلک تاز ورلڈ ٹریڈ سنٹر دو گھنٹے میں زمین بوس ہوگیا‘ پینٹاگون کی ناقابل تسخیر دیواریں منہدم ہو گئیں‘ اور دنیا کے ۲۸ ملکوں سے تعلق رکھنے والی ۲۸۹۰ قیمتی جانیں آناًفاناً میں لقمہ اجل بن گئیں--- ایک دنیا ورطۂ حیرت میں تھی کہ دنیا کے سب سے زیادہ طاقت ور ملک کے سیاسی اور تجارتی مراکز میں یہ سب کچھ کیسے ہو گیا--- اور آج ایک سال گزرجانے کے باوجود‘ اور امریکہ کے ایک بپھرے ہوئے شیر کی حیثیت سے ساری دنیا میں تہلکہ مچا دینے‘ افغانستان کی اینٹ سے اینٹ بجا دینے‘ القاعدہ اور طالبان کی سرزنش کے نام پر ہزاروں معصوم انسانوں کو تہ و تیغ کردینے اور’’دہشت گردی کے خلاف جنگ‘‘ کے نام پر پوری دنیا کو ایک نئے تصادم کی آگ میں جھونک دینے کے باوجود‘ دنیا کی حیرت کا عالم وہی ہے جو ۱۱ستمبر ۲۰۰۱ء کو تھا‘ بلکہ اس سے بھی کچھ زیادہ! اتنا تو بلاخوف تردید کہا جا سکتا ہے کہ ۱۱ستمبرکے واقعے کے بعد
ع نکلے جو میکدے سے تو دنیا بدل گئی
لیکن یہ ہنوزایک معما ہے‘ سمجھنے کا نہ سمجھانے کا‘ کہ جو کچھ ہوا ‘کیسے ہوا؟ کیوں ہوا؟ کس نے کیا؟ کس نے کیاحاصل کیا؟ اور اب ہم سب کہاں جا رہے ہیں؟ یہی وہ سوالات ہیں جو آج ایک سال کے بعد بھی دنیا کے تمام سوچنے سمجھنے والے انسانوں کی نیند حرام کیے ہوئے ہیں اورمسئلہ محض انسانوں کی نیند کا نہیں انسانیت کے مستقبل اور دنیاے تہذیب کے آیندہ نقشے کا ہے۔ بات صرف ایک واقعے‘ ایک حادثے‘ ایک سانحے اور ایک المیے کی نہیں‘ خواہ وہ کتنا ہی اہم کیوں نہ ہو--- بلکہ پوری انسانی بستی کے دروبست کی ہے‘ اور عالمی بساط پر امریکہ کے کردار اور نئے عالمی نظام کے رخ اور روش کی ہے جس کی لپیٹ میں تمام ہی اقوام عالم آتی جا رہی ہیں۔ سیاست اور عالمی حکمرانی کے نقشے میں جو تبدیلیاں ہو رہی ہیں اور افق پر جو نئے خطرات ابھرکر سامنے آگئے ہیں ان کو نظرانداز کرنا اورصرف خاموش تماشائی کا کرداراختیار کرلینا انسانی تہذیب و تمدن اور اقوام عالم کی آزادی اورحاکمیت کے ایک نئے تاریک دور کی گرفت میں آجانے کا سبب بن سکتا ہے۔ امریکہ کی قیادت نے جو راستہ اختیار کیا ہے اور اس کے صدر جارج بش اور ان کی ٹیم جس سمت میں بگ ٹٹ دوڑ رہی ہے وہ خود امریکہ‘ پوری انسانی برادری اور خصوصیت سے اُمت مسلمہ اور پاکستان کے لیے بے پناہ خطرات کا پیغام ہے۔ بظاہر ہدف ’’عالمی دہشت گردی‘‘ ہے لیکن جس طرح ۱۱ستمبر کے واقعات کو بنیاد بنا کر امریکی بالادستی کا ایک نیا سامراجی نظام قائم کیا جا رہا ہے‘ اس نے ان واقعات اور ان کے جلو میں اختیار کی جانے والی حکمت عملی اور عالمی جنگ و جدل کے بارے میں بڑے بنیادی سوالات اٹھا دیے ہیں جن پر غور کرنا ہماری اور انسانیت کی بقا اوردرپیش خطرات کا مقابلہ کرنے کے لیے صحیح حکمت عملی اوراقدامات کی تیاری کے لیے ضروری ہے۔ ۱۱ ستمبر کی اس پہلی برسی پر ہم اختصار سے یہ جائزہ لینے کی کوشش کریں گے کہ امریکہ نے جس طرح ان واقعات کا سہارا لے کر اپنی عالمی پالیسی کی صورت گری کی ہے۔ اس کے آئینے میں ۱۱ ستمبر کا کیا چہرہ نظر آتا ہے اور عالمی سیاسی بساط (global political chessboard) میں اس واقعے کا کیا مقام متعین کیا جا سکتا ہے۔ اس کے کیااثرات خود امریکہ‘ عالمی نظام‘ اُمت مسلمہ اور پاکستان پر پڑ رہے ہیں۔ سمجھنے کی ضرورت یہ ہے کہ دنیا کہاں جا رہی ہے اور ہم سب کن حالات سے دوچار ہوگئے ہیں اور سب سے بڑھ کر یہ خطرات کس نوعیت کی حکمت عملی اور تیاری کا تقاضا کررہے ہیں۔
سب سے پہلا سوال جس نے ہمیں اور دنیا کے سوچنے سمجھنے والے انسانوں کو پریشان کر رکھا ہے یہ ہے کہ اتنے بڑے واقعہ کے بارے میں اصل حقائق کو جاننے‘ بے لاگ اور شفاف انداز میں اعلیٰ عدالتی تفتیش کے ذریعے صحیح صورت حال کو محقق کرنے‘ اس کے اسباب و محرکات کا تجزیہ کرنے‘ اور ملکی اور بین الاقوامی سطح پر کسی ایسی متفقہ حکمت عملی (consensus strategy) کو وضع کرنے کی کوشش کیوں نہیں کی گئی جس کے اختیار کرنے سے انصاف کے تقاضے پورے ہو سکتے ‘سب کو اطمینان حاصل ہوتا‘ جبر کے بجائے رضامندی سے لائحہ عمل طے ہوتے اورانسانیت مستقبل میں ایسے خطرات اور حادثات سے بچ سکتی۔ امریکہ کی قیادت نے جس سہل انگاری‘ جس جلدبازی ‘ جس رعونت اور جس سطحیت کے ساتھ اس گمبھیرچیلنج کے بارے میں اصل سوالات سے بچنے اور اسے اپنے سامراجی مقاصد و مفادات کے لیے استعمال کیا ہے؟ اس نے اس قیادت کی صلاحیت ہی نہیں اس کی نیت اور عزائم کے بارے میں بڑے قوی شکوک و شبہات کو جنم دیا ہے۔ سارا ملبہ ایک شخص --- اسامہ بن لادن پر‘ یا زیادہ سے زیادہ اس کے چند سو یا چند ہزار ساتھیوں (القاعدہ) پر ڈالا جا رہا ہے اور پوری دنیا میں دہشت گردی کا ایک نیا بازار گرم کیا جا رہا ہے حالانکہ ننگی طاقت کے ذریعے اس قسم کے معاملات و مسائل کو کبھی بھی حل نہیں کیا جا سکتا۔
آج تک کوئی سنجیدہ اور تسلی بخش کوشش اس امر کی نہیں ہوئی کہ اصل واقعے کی مناسب تحقیق ہو‘ تمام حقائق کو بے لاگ انداز میں مرتب کیا جائے اور تجزیہ کر کے متعین کیا جائے کہ کیا ہوا؟ کیسے ہوا؟ کیوں ہوا؟ کس نے کیا؟ کس حد تک کون کون ذمہ دار ہے؟ ان واقعات کے پیچھے کارفرما اسباب وعوامل کیا ہیں اور ان کے ادراک‘ اصلاح‘ تدارک اور مستقبل کے لیے پیش بندی کے لیے کیا کچھ مطلوب ہے؟ غصہ اور انتقام‘ تحقیق‘ تجزیہ اور تدبیر کا متبادل نہیں ہو سکتے۔ چھوٹے سے چھوٹے واقعے کے لیے تحقیقی کمیشن بنائے جاتے ہیں اور اسباب کا کھوج لگایا جاتا ہے اور اصلاح احوال کی تدابیر مرتب کی جاتی ہیں لیکن اتنے بڑے واقعے کے بارے میں ایسی کوئی کوشش نہیں کی جاتی اور دلیل کے بجائے صرف دعوے کو پالیسی کی بنیاد بنایا جاتا ہے۔ خفیہ معلومات کے نظام کی ناکامی کو بادل ناخواستہ تسلیم کیا جاتا ہے مگر نہ کہیں ذمہ داری کا تعین ہوتا ہے نہ کسی کے خلاف اقدام ہوتا ہے۔ امریکہ کے اپنے سیکورٹی کے اداروں کا ‘ جو ۱۳ اہم ایجنسیوں پر مشتمل ہے‘ جس پر سالانہ ۶۷ ارب ڈالر خرچ ہوتا ہے اور جن میں صرف ایک جو قومی اداروں کے تحفظ کے لیے کام کر رہی ہے‘ جس کا سالانہ بجٹ ۷.۶ بلین ڈالر ہے اور جس میں ۳۰ ہزار افراد کام کر رہے ہیں۔ اس میں سی آئی اے جس کا بجٹ ۳۰ بلین ڈالر سالانہ ہے اور جو ہے ہی باہر کے ممالک سے آنے والے خطرات کی سراغ رسانی کے لیے‘ ان میں سے کسی کا بھی کوئی احتساب نہیں ہوا۔ حالانکہ اب یہ معلومات بھی سامنے آچکی ہیں کہ اس پورے زمانے میں طالبان سے امریکہ کے مختلف اداروں کا اعلیٰ ترین سطح پر رابطہ تھا‘ اسامہ بن لادن اور اس کے ساتھیوں کے بارے میں معلومات کا ایک ذخیرہ تھا جو مختلف ذرائع سے سی آئی اے ہی نہیں‘ خود وائٹ ہائوس تک میں موجود تھا اور ۱۰ ستمبر تک ایسی معلومات میزوں پر موجود تھیں جن سے بہت کچھ سراغ مل سکتے ہیں‘ بشرطیکہ یہ سب کچھ اسامہ بن لادن اور اس کے ساتھیوں کا کیادھرا تھا۔ لیکن سوال یہ ہے کہ اگر امریکہ کے اہم ترین ادارے اپنا فرض ادا نہیں کر سکے تو ان کے خلاف کیا کارروائی ہوئی اور ذمہ داری کے تعین کے لیے کیا کچھ کیا گیا؟ کیا یہ سب پردہ داری اس لیے ہے کہ اسامہ بن لادن اور القاعدہ ایک ڈھال (smoke screen) کی حیثیت رکھتے ہیں اور تحقیقات اور احتساب سے اغماض ایک نوعیت کا cover-up ہیں؟ انتظامیہ نے اس موضوع پر خود کانگریس کی کارروائی (congressional hearing) کو ناپسند کیا ‘ اس کو رکوانے کی کوشش کی‘ اور جب رکوا نہ سکی اورخفیہ ایجنسیوں کی معلومات کے بارے میں کارروائی شروع ہوئی تو پہلے معلومات دینے کی مزاحمت کی‘ پھر جومعلومات دی وہ ادھوری تھی‘ اور اس سے بھی بڑھ کر خود سینیٹ کی کمیٹی کی کارروائی کی خفیہ ریکارڈنگ کی جس پر کمیٹی نے توہین کی کارروائی کی دھمکی تک دی۔ کسی خفیہ ایجنسی کے سربراہ کا کوئی مواخذہ نہیں ہوا بلکہ انٹیلی جنس کے مجموعی بجٹ میں ۲۰ ارب ڈالر کا اضافہ کر دیا گیا اور نئی سیکورٹی ایجنسی قائم کی جا رہی ہے جو ملک میں روسی طرز کا نگرانی کا نظام بنانے کا منصوبہ رکھتی ہے۔ اور یہ سب کچھ اس پس منظر میں ہو رہا ہے کہ حکومت کی کارکردگی پر تنقید کو حب الوطنی کے خلاف قرار دیا جا رہا ہے (یہ بات شاید تعجب خیز ہے کہ چند ہی لوگ افغان مہم پر تنقید کر رہے ہیں۔ تنقید کو حب الوطنی کے خلاف سمجھا جا رہا ہے۔ نیوز ویک‘ ۱۹ اگست ۲۰۰۲ء‘ ص ۱۲)۔ بنیادی سوالات اٹھانے والوں کا منہ بندکیا جا رہا ہے‘ پروپیگنڈے کے ذریعے ایک جذباتی فضا بنا دی گئی ہے اور آزاد تحقیق اور حقائق کی تلاش کی کوششوں کو شدت اور قوت سے دبایا جا رہا ہے۔ آزاد تحقیق کرنے والے آج بھی اسامہ بن لادن اور اس کے ساتھیوں کی صلاحیت کار کے بارے میں شکوک کا اظہار کر رہے ہیں۔
فرانس سے شائع ہونے والی دو کتابوں نے بڑے بنیادی سوال اٹھائے ہیں اور علمی اور سیاسی حلقوں میں ان کتابوں میں پیش کردہ حقائق سے ایک تہلکہ سا مچا ہوا ہے مگرامریکی میڈیا اور حکومت ان تمام چیزوں کو نظرانداز کر رہے ہیں۔ فرانسیسی مصنف تھیری میساں (Thierry Meyssan) کی دو کتابوںکا بڑا چرچا ہے۔ ایک (The Horrible Hie) L'Effroyable Imposture جس میں اس نے پینٹاگون پر جہاز کے حملے کا انکار کیا ہے اور بلڈنگ کے نقصان کا تجزیہ کر کے ثابت کیا ہے کہ کسی جہاز کے گرنے سے یہ واقع نہیں ہوسکتا بلکہ میزائل کے ذریعے ہواہے جس کا تانا بانا کسی القاعدہ سے نہیں جڑتا بلکہ کسی اور ہی گروہ یا ایجنسی کا کام ہے۔ اس مصنف کی دوسری کتاب Pentagate اسی ماہ آئی ہے جس میں دکھایا گیا ہے کہ امریکہ نے ۱۱ستمبر کی دہشت گردی کے حقائق اور اسباب سے توجہ ہٹا کر اسے اپنے معاشی اور اسٹرے ٹیجک مفادات کے لیے استعمال کیا ہے اور اصل شہادت کو سامنے نہیں لایا گیا یا تباہ کردیا گیا ہے۔
فرانس کے دو دوسرے اہل قلم جین چارلس بریسورو (Jean-Charles Brisoro) اور گلیام ڈیسکوائر (Guillaum Dasquire) کی کتاب Forbidden Truth (ممنوعہ سچائی) پہلے فرانس سے اور اب امریکہ سے شائع ہوتے ہی ‘عالمی سطح پر ’’سب سے زیادہ فروخت ہونے والی‘‘ (best seller) بن گئی ہے۔ اور اس میں نہ صرف ۱۱ ستمبر کے واقعات کے پیچھے خفیہ قوتوں کی نشان دہی کی گئی ہے بلکہ پورے معاملے کو اس کے سیاسی تناظر میں رکھ کر دکھایا گیا ہے کہ امریکہ کے سیاسی اور معاشی کارفرما افراد اور ادارے کس طرح اپنے بنائے ہوئے نقشے کے مطابق ایک گھنائونا کھیل کھیل رہے تھے اور اب اپنے کرتوتوں پر پردہ ڈالنے کے لیے دوسروں کو نشانہ ستم بنا رہے ہیں۔ اس کتاب میں دکھایا گیا ہے کہ امریکہ کے کھلاڑیوں کی اپنی چالیں کس طرح خود ان کے خلاف پڑ گئیں۔ نیز سارے کھیل کے پیچھے اصل مقصد اور ہدف یہ رہا ہے کہ روس کے زوال کے بعد کسی طرح وسط ایشیا کے وسائل تک رسائی اور افغانستان کے ذریعے اس علاقے پر پورا کنٹرول حاصل کیا جائے۔ یہ مقصد اب امریکہ اور افغانستان کے معصوم انسانوں کی لاشوں پر حاصل کرنے کی کوشش ہو رہی ہے۔
کتاب کے انگریزی ایڈیشن کا تعارف The Secret History of CIA کے مصنف جوزف ٹرنٹو نے لکھا ہے اور صاف کہا ہے کہ امریکہ کی قیادت اس پورے معاملے کی سنجیدہ تحقیق گوارا نہیں کر سکتی کہ اس کا اپنا دامن پاک نہیں اور اس میں بہت سے ’’پردہ نشینوں‘‘کے نام آتے ہیں:
ایف بی آئی اور سی آئی اے نے ایک دوسرے کو الزام دینے کی کوشش کی۔ ۱۱ ستمبر کے حملوں کے اگلے ہی دن نائب صدر ڈک چینی نے سینیٹ کے اکثریتی لیڈر ٹام ڈیشے سے بات کر کے یہ کوشش کی کہ وہ خفیہ معلومات کی ناکامی کو کوئی مسئلہ نہ بنائیں۔ کوئی سنجیدہ تفتیش اس لیے نہیں ہو سکتی کہ کوئی بھی سیریس تفتیش بالآخر یہ ظاہر کر دیتی کہ سعودی عرب یا امریکہ کی حفاظت سے زیادہ اہم رقم اور تیل ہیں۔ ایک سنجیدہ تفتیش ظاہر کر دے گی کہ شرق اوسط اور رقم اب بھی بش خاندان کے لوگوں کی پشتیبانی اوران کی مدد کرتے ہیں۔(Forbidden Truth‘ص ۱۲)
مذکورہ کتابوں کے مندرجات ہمارا اصل موضوع نہیں۔ہم اس بارے میں بھی کچھ نہیں کہہ سکتے کہ خود ان میں کہاں تک حقائق کی پردہ کشائی ہے اور کہاں افسانوی داستانیںشامل کر دی گئی ہیں۔ ہماری دل چسپی اس امر سے ہے کہ امریکہ کی قیادت نے تحقیق اور احتساب کے راستے سے کیوں اجتناب کیا اور مسلسل کر رہی ہے۔ ساری توجہ نہ اصل حقائق پر ہے اور نہ واقعے کے پیچھے پائے جانے والے اسباب اورمحرکات سے--- بلکہ نت نئے انداز میں اپنی پسند کے ’’بکروں‘‘ (scape goats) کو نشانہ بنا کر امریکی قیادت ایک ایسے راستے پر چل پڑی ہے جس کے نتیجے میں امریکی دستور‘ اقوام متحدہ کے چارٹر‘ بین الاقوامی قانون اور قانون کی حکمرانی‘ قوموں اور ممالک کی حاکمیت (sovereignty) اور ان تمام اقدار اوراصولوں کو‘ جو برسوں نہیں صدیوں کی جدوجہد کا حاصل ہیں‘ پامال کیا جا رہا ہے اور دنیا کی اقوام پر امریکہ کی سیاسی اورمعاشی بالادستی (hegemony)کوقائم کر کے ایک نئے عالمی سامراج کے دروبست تعمیر کیے جا رہے ہیں۔ سستے اہداف کی تلاش ایک جاری عمل ہے۔ پہلے اسامہ بن لادن‘ پھر القاعدہ‘ پھرطالبان‘ پھر افغانستان‘ پھر ۳۰ ممالک میں القاعدہ کے حامی‘ پھر عراق‘ایران‘ سوڈان‘ شمالی کوریا‘ اور اب خود سعودی عرب‘ دنیا بھر کی اسلامی اورخدمتی تنظیمیں‘ دینی مدارس اوران سب کا تعاقب کرنے کے لیے نئے نئے اصول بنا کر سلامتی‘ حفاظتی اقدام اور خطرے کے پہلے مقابل کو نشانہ بنانے‘ فوج کشی کرنے اور حکومتوں کو بدلنے کا اختیار گویا
ع سزا خطاے نظر سے پہلے‘ عتاب جرم سخن سے پہلے
یہی وہ سوالات ہیں جو سوچنے سمجھنے والے انسانوں کو پریشان کر رہے ہیں۔ امریکہ کے ۶۰ دانش وروں نے‘ جن میں کئی نوبل انعام یافتہ اصحاب شامل ہیں‘ اپنے اضطراب کا اظہار کیا ہے جو لندن کے اخبار دی گارڈین نے جون ۲۰۰۲ء میں شائع کیا ہے۔ اس میںانھوں نے بڑی اقوام کی‘ دوسرے ملکوں میں موہوم خدشات کی بنیاد پر‘ فوجی مداخلت کی مذمت کی ہے۔ انسانی حقوق کی پامالی پر تشویش کااظہار کیا ہے‘ بلامقدمہ لوگوں کی گرفتاری اور ان کو اپنے دفاع کے حقوق سے محروم کرنے پر اضطراب ظاہرکیا ہے۔ بش انتظامیہ نے دنیا پر جو جنگ مسلط کی ہے اسے ’’غیر منصفانہ‘ غیر اخلاقی اور ناجائز‘‘ قرار دیا ہے اور دنیا کے لوگوں کو اس کے خلاف جدوجہد کی دعوت دی ہے اور اس جدوجہد میں اپنی شرکت کا عندیہ دیا ہے۔ اس بات پر بھی گرفت کی ہے کہ ۱۱ستمبر اور اس کے بعد کے پورے معاملے کو بڑی سادگی سے ’’محض اچھائی اور برائی کی جنگ‘‘ بنا کر پیش کیا گیا ہے‘ اور پھر میڈیانے حکومت کا آلہ کار بن کر یہی ڈھول پیٹنا شروع کر دیا ہے۔ یہ پوچھنا کہ آخر یہ خوف ناک واقعات کیوں رونما ہوئے‘ غداری کے مترادف قرار دیا گیا ہے۔اس لیے اس پر کوئی گفتگو نہیں ہونی چاہیے۔ جوکچھ امریکہ نے کیا ہے اور کر رہا ہے اس کی سیاسی اور اخلاقی حیثیت پر کوئی سوالات نہیں اٹھائے گئے جب کہ ہر بات کا عملی جواب بس یہ اختیار کر لیا گیا ہے کہ ’’گھر کے باہر جنگ اور گھر کے اندر جبروظلم کے حربے‘‘۔
حال ہی میں جرمنی کے ۸۰ دانش وروں نے امریکہ کی مسلسل تنبیہات اور یورپی اقوام پر دبائو سے تنگ آکر ایک اعلانیہ جاری کیا ہے جس میں صاف الفاظ میں کہاہے کہ امریکی قیادت جس چیز کو ’’دہشت گردی کے خلاف جنگ‘‘ کہہ رہی ہے وہ ایک ’’صریح ظلم اور اخلاقی اور سیاسی اعتبار سے ناقابل معافی جرم ہے‘‘۔ جرمن دانش وروں نے امریکہ کے اس موقف کو ماننے سے انکار کر دیا ہے جو وہ افغانستان میں اور دنیا کے دوسرے مقامات پر ’’دہشت گردی کے خلاف جنگ‘‘ کے نام پر کر رہا ہے۔ ان کا اعلان ہے کہ اسے ’’مبنی برحق جنگ‘‘ (just war)نہیں کہا جا سکتا ہے۔ امریکہ کو یہ حق نہیں کہ وہ انسانی اقدار کی من مانی تاویل کرے اور اپنے کو ان کا اجارہ دار بنا ڈالے(monopolisation of universal values)۔ جرمن دانش وروں نے کہا ہے کہ:
کوئی ایسی اقدار عالمی سطح پر تسلیم شدہ نہیں ہیں جوہمارے ملک میں قتلِ عام (۱۱ ستمبر کے دہشت گرد حملے) کو (افغانستان میں) دوسرے قتلِ عام کا جواز مہیا کریں (دی نیشن‘ ۱۰ اگست ۲۰۰۲ء)۔
برطانیہ کے نومنتخب آرچ بشپ آف کنٹربری ڈاکٹرویلز نے برطانیہ اور دنیا کو متنبہ کیا ہے کہ عراق پر امریکہ کی فوج کشی کا کوئی جواز نہیں۔ اس کے الفاظ میں ’’عراقی حکومت خواہ کتنی ہی ظالم کیوں نہ ہو‘ برطانیہ عراق کے خلاف امریکی ممکنہ حملے کی ہرگز تائید نہ کرے۔ یہ حقیقت نہایت افسوس ناک ہے کہ دنیا کی مضبوط ترین طاقت جنگ اور جنگ کی دھمکی کو خارجہ پالیسی کا ہتھیار بنا کر استعمال کر رہی ہے۔ یہ نہ صرف اقوام متحدہ کے اصولوں کے منافی ہے بلکہ عیسائیت کے مسلمہ پیغام کے بھی برعکس ہے۔ امن حاصل کرنے اور اسے قائم رکھنے کے لیے ضروری ہے کہ ناانصافی کا خاتمہ کیا جائے اور انسانوں کو نظرانداز کرنے کی سیاست کے انجام سے بچاجائے‘‘۔ (دی انڈی پنڈنٹ‘ لندن‘ ۲۴ جولائی ۲۰۰۲ء‘ بحوالہ نوائے وقت‘ ۷ اگست ۲۰۰۲ء)
یورپ کے بیش تر ممالک‘ چین‘ روس اور فطری طور پر تمام عرب اور مسلمان ممالک امریکہ کے اس منصوبے پر اپنی تشویش کا اظہار کر رہے ہیں لیکن امریکی قیادت نت نئے اصول بنا کر دنیا پر اپنی مرضی مسلط کرنے کی کوشش کر رہی ہے اور یہ سب ۱۱ستمبر کی چھتری تلے کرنے کی کوشش ہے۔
اسامہ بن لادن‘ القاعدہ اور طالبان کے خلاف جو ظالمانہ اور برخود غلط کارروائیاں امریکہ نے کی ہیں‘ ان میں پاکستان کی حکومت نے اس کا ساتھ دے کر‘ خواہ جبرواکراہ ہی کی وجہ سے ہوا‘ جو ظلم اپنے اور اپنی قوم پر کیا ہے‘ وہ ناقابل معافی ہے۔ مگر جنرل مشرف نے بھی اپنے ایک حالیہ انٹرویو میں جو نیویارک کے نمایندے کو دیا گیا ہے اس شبہے کا اظہار کیا ہے کہ کیا فی الواقع ۱۱ستمبر کے حملے کا بلاواسطہ تعلق اسامہ بن لادن سے تھا؟ مشرف نے کہا:
ہو سکتا ہے کہ اسامہ حملے کی منصوبہ بندی اور اس کے لیے مالیات فراہم کرنے میں شریک رہا ہو۔ شاید اسامہ اس میں براہِ راست ملوث نہ ہو (ڈان‘ ۹ اگست ۲۰۰۲ء)۔
اس پر امریکی وزیر دفاع رمز فیلڈ برافروختہ ہوگئے مگر حقیقت یہ ہے کہ یہ سارا الزام ایک دعویٰ ہے جس کے لیے دلیل یا شہادت آج تک فراہم نہیں کی گئی اور اس کے فراہم کرنے کی ضرورت سے بھی انکار اور اغماض برتا جا رہاہے۔ اور یہی وہ سوال ہے جس کا جواب کسی کے پاس نہیں۔ آخر ایسا کیوں ہے؟
اصل واقعے کا ذمہ دار جو بھی ہو امریکہ کی قیادت نے جس طرح اس کو استعمال کیا ہے وہ یہ ثابت کرنے کے لیے کافی ہے کہ امریکہ کی سیاسی قیادت اور اس کی فوجی اور معاشی انتظامیہ کسی ایسے ہی واقعے کی تاک میں تھی جس سے وہ امریکہ میں اپنی گرفت مضبوط کرلے‘ قوم کو حب الوطنی کے نام پر ایک جذباتی اور ہیجانی کیفیت میں مبتلا کر دے‘ اور سردجنگ کے بعد کے اس دور کو ایک نئی لام بندی کے لیے مسخر کر کے دنیا کو امریکی مفادات کے تابع لانے کی کوشش کرے۔ امریکہ کو اپنے مقاصد حاصل کرنے کے لیے ایک دشمن کی ہمیشہ ضرورت ہوتی ہے۔ روس کی کمر ٹوٹنے اور اشتراکیت کے منتشر ہوجانے کے بعد اسے ایک نئے دشمن کی ضرورت تھی۔ اسرائیلی لابی اسلام اور مسلمانوں کو نشانہ بنانے کے لیے فضا ہموار کر رہی تھی۔ علمی مباحث اور میڈیا کی جولانیاں اس کے لیے وقف تھیں لیکن بات بن نہیں رہی تھی۔ ۱۱ستمبر نے یک قلم وہ فضا بنا دی اور ساری توجہ اسلام‘ مسلمان‘ جہاد‘ دینی مدارس‘ شریعت‘ عرب سرمایہ‘ حتیٰ کہ مغرب کے ہم ساز و ہم راز عرب حکمران--- سب ہی ہدف بن گئے اور بین الاقوامی قانون اور روایات‘ جمہوری اصول و اقدار‘ تاریخی رشتے اور تعلقات سب غیرموثر ہوگئے۔
سیاست کا جو نیا نقشہ وجود میں آ رہا ہے‘ اس کے اہم خدوخال یہ ہیں:
۱- امریکہ دنیا کی واحد سوپر پاور ہے اوراسے حق ہے کہ اپنے مفادکے لیے اپنی مرضی کے مطابق جو اقدام چاہے کرے۔ دوسرے مجبور ہیں کہ اس کا ساتھ دیں۔ اگر وہ بخوشی ساتھ دیں تو فہو المراد‘ورنہ انھیں مجبوراً ساتھ دینا ہوگا یا پھر ان کے علی الرغم امریکہ جو مناسب سمجھتا ہے وہ کرے گا۔ یہی رویہ امریکہ کے ’’فطری حلیفوں‘‘ اسرائیل اور بھارت کا ہے جو امریکہ کے اقدام کا سہارا لے کر اس کے نقش قدم پر چل رہے ہیں اور اپنی من مانی کر رہے ہیں۔ یہ دونوں بالکل انھی خطوط پر کارروائیاں کر رہے ہیں اور اسی زبان میں اپنے جارحانہ اور ظالمانہ اقدام کا جواز پیش کر رہے ہیں۔
امریکہ کے اس متکبرانہ موقف کا صاف لفظوں میں اظہار صدر بش کی قومی سلامتی کی مشیر کونڈولیزا رائس نے اس طرح کیا ہے:
بش انتظامیہ قومی مفادات کی مضبوط بنیاد سے آگے بڑھے گی نہ کہ ایک جھوٹی نام نہاد عالمی برادری کے مفاد کے تحت۔
اس کی وجہ نیویارک کے ’مرکز براے دستوری حقوق‘ کے صدر مائیکل رٹیز کی نگاہ میں یہ ہے کہ:
دنیا میں امریکہ کے خلاف کوئی زیادہ مزاحمت نہیں ہے۔ اس کے پاس بہت سزا دینے اور لالچ دینے کے لیے بہت گاجریں اور ڈنڈے ہیں۔ کچھ ممالک خفیہ اقدام چاہے کریں‘ لیکن امریکہ اس وقت اتنا طاقت ور ہے کہ ہمیں روکنے کے لیے بہت کچھ کرنے کی ضرورت ہے۔
امریکن یونی ورسٹی کے تاریخ کے پروفیسر ایلن لچمین امریکی صدر کے بارے میں یہ کہنے پر مجبور ہیں کہ:
خارجہ امور میں وہ جوکچھ بھی کرنا چاہے عملاً کر سکتا ہے۔ امریکہ کی طاقت اور اس کے صدر کے اقدامات کو روکنے کے لیے کچھ بھی نہیں ہے۔
ان کا نتیجہ ہے کہ امریکہ ایک ہائپر (hyper) طاقت بن گیا ہے اور اپنے کو تمام اصول و ضوابط اور اقدار اور روایات سے بالا تصور کرتا ہے۔ یہی وہ چیز ہے جو امریکہ اور اس کے صدر کو عالمی امن اور انسانی معاشرے میں انصاف اور آشتی کے لیے ایک خطرہ بنائے ڈال رہی ہے۔ امریکہ کے مشہور تھنک ٹینک Cato Institute کی جین ہیلی بھی پکار اٹھی ہے کہ:
یہ بات کہ ایک آدمی تنہا اتنی بڑی جنگ شروع کرنے کا اختیار رکھے گا‘ دستور بنانے والوں کو اپنی قبروں میں بے چین کر دے گا۔
۱۱ ستمبر کے نتیجے میں امریکہ اور اس کی قیادت نے جو روپ دھارا ہے‘ وہ امریکہ اور پوری دنیا کے لیے ایک خطرہ ہے اور یہ خطرہ محض ایک خیالی خطرہ نہیں‘ بلکہ اس نے عملاً پوری دنیا کو اپنی گرفت میں لے لیا ہے۔
۲- امریکہ جس بین الاقوامی معاہدے اور میثاق سے نکلنا چاہتا ہے‘ یک طرفہ طور پر نکل رہا ہے اور جس کا راستہ روکنا چاہتا ہے اسے روکنے کی بے دریغ کوشش کر رہا ہے۔ ماحولیات کے بین الاقوامی معاہدہ کویوٹو پر دستخط کرنے کے بعد اس سے منحرف ہو گیا ہے۔ بیلسٹک میزائل کے بین الاقوامی کنونشن (ICBM) سے بھی منحرف ہو گیا ہے اور روس کو مالی امداد کی رشوت دے کر اس کا منہ بند کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔
۳- بین الاقوامی فوج داری عدالت (International Criminal Court) کے قیام کے لیے ۶ سال تک شریک مشاورت رہنے اور اپنے مفید مطلب دسیوں ترامیم کرانے کے بعد امریکہ نے اس عدالت کے قیام کو رکوانے کی سرتوڑ کوشش کی اور جب مطلوبہ ممالک نے معاہدے کی توثیق کر دی تواسے غیرموثر بنانے کے لیے اقوام متحدہ میںاوراب اقوام متحدہ کے باہر دو طرفہ معاہدات کے ذریعے سرگرم ہے۔ اصل مسئلہ یہ ہے کہ انسانیت کے خلاف جرائم کے ارتکاب پر امریکہ اور اس کی افواج پرگرفت نہ کی جاسکے۔ ایک طرف دعویٰ ہے کہ تمام انسان برابر ہیںاور تمام اقوام مساوی درجہ رکھتی ہیں (اقوام متحدہ کا چارٹر‘ یونی ورسل ڈیکلریشن آف ہیومن رائٹس اور خود امریکہ کا دستور ان اصولوں پر مبنی ہے) اور دوسری طرف امریکہ یہ چاہتا ہے کہ کسی دوسرے ملک میں کیے جانے والے انسانیت کے خلاف کسی جرم پر بھی کسی امریکی فوجی کا مواخذہ نہیں ہونا چاہیے۔ امریکہ ہر ملک پردبائو ڈال رہا ہے کہ اگر امریکی افواج کواستثنا نہ دیا گیا تو ان ممالک کی فوجی اور معاشی امداد بند کر دی جائے گی۔ یہ عالمی سطح پر ایک قسم کی نسلی اور سیاسی تفریق (apartheid) کا نظام قائم کرنے کی مذموم کوشش ہے۔
۴- امریکہ دنیا کوآزاد تجارت کا درس دیتا ہے لیکن خود ورلڈ ٹریڈ آرگنائزیشن کے اصولوں کی خلاف ورزی کر رہاہے۔ حال ہی میں یورپ اور باقی دنیا کی مخالفت کے باوجود اسٹیل کی درآمد پر ۳۰ فی صد ڈیوٹی لگائی ہے‘ زرعی پیداوار کے لیے زرتلافی دے رہا ہے جس سے دنیا کے غریب ملکوں کی زراعت کی برآمدات متاثر ہو رہی ہیں اور اس طرح وہ تیسری دنیا کے ملکوں کے لیے معاشی امداد کے تمام اہداف سے روگردانی کررہا ہے بلکہ اس سلسلے کی کوششوں کو عملاً سبوتاژ کرنے سے بھی گریز نہیں کر رہا۔
۵- خود امریکہ میں شخصی آزادیوں کی تحدید کی جا رہی ہے اور دستور کے خلاف ہزاروں انسانوں کو بلاثبوت‘ بلاوارنٹ گرفتار کیا گیا ہے‘ خصوصیت سے عربوں اور مسلمانوں کو --- بارہ سو کے قریب افراد ایک سال سے بلامقدمہ جیلوں میں محبوس ہیں‘ جب کہ متعدد افراد کی پوچھ گچھ کے دوران موت تک واقع ہو چکی ہے۔ ان لوگوں پر مقدمہ چلانا اور جرم کو ثابت کرنا تو کجا ان کے نام تک نہیں بتائے جا رہے ہیں اور اس سلسلے میں حقوق انسانی کے اداروں نے جوبھی کوششیں کی ہیں سب ناکام رہی ہیں حتیٰ کہ اب کچھ جج حضرات یہ کہنے پر مجبور ہوئے ہیں کہ حکومت کا یہ رویہ عدل و انصاف اور جمہوری نظام کے اصولوں کے منافی ہے اور اسے کم از کم ان کے نام ظاہر کرنے چاہییں (ملاحظہ ہو‘ ڈسٹرکٹ جج گلیڈیز کینلر کا ۲۶ اگست ۲۰۰۲ء کا فیصلہ جس میں حکومت سے کہاہے کہ ۱۵ دن کے اندر ان لوگوں کے ناموں کا اعلان کیا جائے جو بلامقدمہ جیلوں میں محبوس ہیں۔ حالانکہ واشنگٹن پوسٹ نے اپنی ۱۰ اکتوبر ۲۰۰۱ء اور نیویارک ٹائمز نے اپنی ۱۰ نومبر ۲۰۰۱ء کی اشاعت میں ادارتی نوٹ کے ذریعے ان معلومات کو عام کرنے کا مطالبہ کیا تھا)۔
۱۱ ستمبر کا سہارا لے کر امریکہ کی حکومت نے قرون وسطیٰ کے جابرانہ نظام کو آبادی کے ایک حصے پر مسلط کر دیا ہے۔ اس کا خاص نشانہ مسلمان‘ عرب اور پاکستان ہیں۔ ایک اندازے کے مطابق تین سو سے زیادہ پاکستانی اس آزمایش میں مبتلا ہیں۔
۶- جاسوسی کا ایک نظام ملک میں رائج کیا جا رہا ہے جس کے تحت ٹیلی فون ٹیپ کرنا‘ ڈاک بند کرنا‘ انٹرنیٹ تک رسائی اور پرائیویسی کی تمام حدود کو پامال کیا جا سکتا ہے۔ آبادی میں مخبروں کا ایک نظام جاری کرنے کا عندیہ بھی دیا گیا ہے جس پر پریس اور کانگرس کے ارکان چونک اٹھے ہیں۔
۱۱ ستمبر کو حکومت ایک قسم کی پولیس اسٹیٹ ملک پر مسلط کرنے کے لیے استعمال کر رہی ہے جس پر لندن کے روزنامہ ڈیلی مرر نے امریکہ کے یوم آزادی (۴ جولائی ۲۰۰۲ء) پر اپنے پہلے صفحے پر جلی حروف میں لکھا ہے: "Mourn on the 4th July" (۴ جولائی کو سوگ)
اور اس میں نوحہ کیا ہے کہ:
"The US is now the world's leading rogue state".
اب امریکہ دنیا کی سب سے نمایاں غنڈا ریاست ہے۔
بین الاقوامی سطح پر پہلے افغانستان پر حملہ کیا گیا‘ نہ اسامہ پکڑا گیا اور نہ ملا عمر۔ لیکن امریکی فوج نے کم سے کم اندازے کے مطابق اپنے جنگی معرکوں میں طالبان اور القاعدہ کی ہلاکتوں کے علاوہ (جو ۱۰ ہزارسے زیادہ ہیں) خالص سول آبادیوں پر بم باری کے ذریعے نیو ہمپشائر یونی ورسٹی کے ایک پروفیسر کے ڈیٹابیس کے مطابق ۷ اکتوبر ۲۰۰۱ء سے جون ۲۰۰۲ء تک ۳۶۲۰ معصوم مردوں‘ عورتوں اور بچوں کو موت کے گھاٹ اتار دیا۔ نیز جو مظالم شمالی اتحاد کے جنگجوئوں نے طالبان اور القاعدہ کے نام پر افغانیوں پر کیے ہیں اور جو امریکی افواج کی آنکھوں کے سامنے ہوئے ہیں ان کی ذمہ داری سے بھی امریکہ کو بری نہیںکیا جا سکتا۔ افغانستان کے بعد عراق کو فوج کشی کا ہدف بنانے کے لیے فضا بنائی جا رہی ہے اور افواج اور اسلحہ کو علاقے میں پہنچایا جا رہا ہے‘ سان ڈیاگو اور قطر کے اڈوں کو تیار کیا جا رہا ہے۔ خود عراق میں افغانستان کی طرح طفیلی قیادت ابھارنے کی سازشیں ہو رہی ہیں۔ عراق کے بعد ایران اور پھر پاکستان‘ سوڈان اور شام فہرست میں ہیں۔ سعودی عرب کو بھی اب کھل کر ہدف بنایا جارہا ہے۔ وہاں کے حکمرانوں کو بلیک میل کیا جا رہا ہے‘ اندرونی بغاوت کی سازشیں ہورہی ہیں۔ یہی کھیل سوڈان میں کھیلا جا رہا ہے--- آگے آگے دیکھیے ہوتا ہے کیا؟
امریکہ کی قیادت نے بین الاقوامی قانون اور روایات کو تار تار کرکے نئے اصول وضع کیے ہیں جن کے تحت جس ملک سے ناراض ہوں اس میں قیادت کی تبدیلی (regime change) کو اس نے اپنا حق بنا کر پیش کیا ہے۔ اسی طرح اقوام متحدہ کے چارٹر کے خلاف پیش بندی(preemptive) کے طور پر مداخلت کی باتیں کی جا رہی ہیں جس پر کسنجرجیسا ’’شریک کار‘‘ بھی چیخ اٹھاہے:
حکومت کی تبدیلی فوجی مداخلت کا مقصد بنانا ۱۶۴۸ء کے معاہدئہ West philes کے قائم کردہ عالمی نظام کے لیے چیلنج ہے۔ اس معاہدے نے دوسری ریاستوں کے داخلی معاملات میں عدم مداخلت کے اصول کو قائم کر دیا تھا۔ پیش بندی کے طور اقدام کرنے کا جواز جدید بین الاقوامی قانون کے خلاف ہے جو طاقت کے استعمال کو صرف اپنے دفاع میں حقیقی اقدام نہ کہ امکانی دھمکیوں کے خلاف جائز قرار دیتا ہے (ہنری کسنجر‘ لاس اینجلس ٹائمز‘ سنڈیکیٹ‘ ڈان‘ ۱۱اگست ۲۰۰۲ء)۔
ہنری کسنجر نے یورپی اقوام‘عرب ممالک اور چین کے تحفظات کا ذکر کیا ہے اور پھر پاکستان کے لیے یہ وارننگ بھی دی ہے کہ اس اصول کو مان لیا جائے تو بھارت کیا کچھ گل کھلا سکتا ہے:
بہت دل چسپ لیکن بے حد خطرناک ردعمل بھارت کا ہو سکتا ہے جو پیش بندی کے طور پر اقدام کے اصول کا اطلاق پاکستان کے خلاف کرنے کے لیے کشش محسوس کرے گا۔
کسنجرنے متنبہ کیا ہے کہ امریکہ کواس نام نہاد اصول کو پروان نہیں چڑھانا چاہیے اور بین الاقوامی قانون پاس کرنا چاہیے لیکن بظاہر اس ’’گرو‘‘ کی بات بھی صدا بصحرا ہی معلوم ہوتی ہے۔
امریکہ نے جنگ اور جنگی قیدیوں کے بارے میں بین الاقوامی قوتوں اور جنیوا کنونشن کی کھلی خلاف ورزی کی ہے اور بین الاقوامی اداروں اور یورپ اور تیسری دنیا کے اخبارات اور دانش وروں کی تنقید کے باوجود اپنے رویے میں کوئی تبدیلی نہیں کی۔ افغانستان میں ہتھیار ڈالنے والوں کا کھلا قتل عام کیا گیا‘ لاشوں کا مثلہ کیا گیا‘ جنگ ختم ہونے کے بعد بھی سول آبادیوں بلکہ شادی کی محفلوں پر بم باری کی گئی اور اسے چھپانے (cover-up) اور شہادتیں مٹانے کا کام کیا گیا۔ پھر جنگی قیدیوں کو کیوبا کے فوجی بیس گنٹانامو لے جایاگیا تاکہ امریکی قانون ان پر لاگو نہ ہو سکے۔ ان قیدیوں کو جس طرح پابند سلاسل کیا گیا اور جو جومظالم ان پر ہوئے‘ اس کے نتیجے میں کئی اموات واقع ہوچکی ہیں۔ یہ سب جنیوا کنونشن کے خلاف ہے۔ آٹھ ماہ کے بعد بھی ان پر کوئی جرم ثابت نہیں ہو سکا اور ساری تفتیش کا حاصل خود امریکی اخبارات کی اطلاع کے مطابق ان میں سے ایک بھی القاعدہ کا ذمہ دار فرد نہیں نکلا ہے۔ ان میں ۳۰ سے زیادہ پاکستانی بھی ہیں مگر ان کا کوئی پرسانِ حال نہیں۔ امریکہ اپنے کو ہر قانون سے بالا سمجھتا ہے۔
اس پورے عمل میں اگر کسی کو فائدہ پہنچا ہے تو خود صدر جارج بش ہیں جن کا صدارتی انتخاب مشتبہ تھا مگر اب وہ اندھی تائید حاصل کر رہے ہیںاور سارے معاشی اسیکنڈلوں پر پردہ ڈال کر سیاسی محاذ آرائی کے ذریعے اپنی صدارت چمکا رہے ہیں۔ پھر اس کا بڑا فائدہ فوج اور اسلحہ سازی کی صنعت کو ہو رہا ہے جس کا بجٹ ۴۰۰ بلین ڈالر تک بڑھا دیا گیا ہے۔ نیوزویک کے تازہ ترین جائزے کے مطابق امریکہ جو دنیا کا سب سے بڑا اسلحہ کا تاجر ہے‘ اس کی اسلحہ کی تجارت ۲۰۰۰ء سے نیچے جا رہی تھی۔ اب اس کی صنعت کو حکومت کی طرف سے نئے آرڈر مل رہے ہیں۔ انرجی کی صنعت بھی فائدہ اٹھا رہی ہے۔ یہی وہ عناصر ہیں جو دنیا کی اس سب سے بڑی اور طاقت ور ’’جمہوریت‘‘ کی پشت پر کارفرما اصل عناصر ہیں۔ صدر آئزن ہاور نے اپنی صدارت کے خاتمے پر آخری خطاب میں امریکی قوم کو جس قوت کے بارے میں متنبہ کیا تھا وہی اس پورے عمل میںسب سے زیادہ فائدے میں رہی ہے اور مضبوط تر ہو رہی ہے بلکہ اس وقت تو ملک کے اندرونی معاملات میں قومی سلامتی کے نام پر فوج کے کردار کے بارے میں باتیں ہو رہی ہیں جن پر کانگرس اور لبرل حلقے سخت تشویش کااظہار کر رہے ہیں۔
آئزن ہاور کے الفاظ ۱۱ ستمبر کے بعد رونما ہونے والے تناظر میں غیرمعمولی اہمیت اختیار کر گئے ہیں۔ ۱۷ جنوری ۱۹۶۱ء کے اس خطاب میں آئزن ہاور نے کہا تھا:
ایک بہت بڑی فوجی انتظامیہ اور اسلحے کی ایک بہت بھاری صنعت کا یک جا ہونا امریکی تجربہ ہے۔ اس کا مجموعی اثر--- معاشی‘ سیاسی حتیٰ کہ روحانی --- ہر شہر ہر ریاست اور وفاقی حکومت کے ہردفتر میں محسوس کیا جا رہا ہے۔ ہم کو حکومت کے مشاورتی اداروں میں بلاروک رسوخ کے حصول کے خلاف چوکنا رہنا چاہیے‘ خواہ یہ فوجی اور صنعتی کمپلیکس اس کو طلب کرے یااس کو طلب نہ کرے۔بے محل اختیارات میں خطرناک اضافے کا امکان موجود ہے اور موجود رہے گا۔ فوجی صنعتی کمپلیکس کو ہرگز یہ اجازت نہ ہونا چاہیے کہ وہ ہماری آزادیوں اور جمہوری عمل کو خطرے میں ڈالے۔ ہمیں اس لحاظ سے مطمئن نہ ہوناچاہیے۔ ( Eisenhower: Soldier & President اسٹیفن ایمرون‘ سائمن اینڈ شسٹر‘ نیویارک‘ ص ۵۳۶-۵۳۷)
۱۱ ستمبر اور اس کے بعد کی امریکی پالیسی پر اسی فوجی‘ صنعتی گٹھ جوڑ کی چھاپ دیکھی جا سکتی ہے۔ یہ جن بوتل سے باہر آگیا ہے اور خود امریکی زندگی کے ہر پہلو کو متاثر کر رہا ہے۔ وہ جمہوری عمل‘ وہ آزادیاں‘ وہ تہذیبی اقدار جن کو صدیوں کا حاصل قرار دیا جا رہا ہے‘ آج معرض خطر میں ہیں۔ عالمی سطح پر بھی‘ اور خود امریکہ میں بھی۔ عام شہری ایک شدید تنائو میں زندگی گزار رہا ہے۔
۱۱ ستمبر کے بعد امریکی شہریوں کی نفسیات اور ذہنی کیفیات پر جو اثرات مترتب ہوئے ہیں ان پر جو بھی تحقیقی کام ہوا ہے‘ وہ بہت نظر کشا ہے۔ ولیم شیلنگرنے ۲ ہزار ۲ سو ۷۳ امریکیوں کے سروے کی بنیاد پر اپنی تحقیق کے نتائج امریکن میڈیکل ایسوسی ایشن کے جرنل کے تازہ شمارے میں شائع کیے ہیں۔ ان سے معلوم ہوتا ہے کہ اس صورت حال سے پوری آبادی پر ذہنی دبائو‘ بے یقینی‘ خوف اور انتشار فکری کی کیفیت میں نمایاں اضافہ ہوا ہے۔ اس کے لیے اس نے PTSDکی اصطلاح وضع کی ہے‘ یعنی Post-Traumatic Stress Disorder ۔ ہر قسم کے ٹراما کے مقابلے میں جس میں جبری آبروریزی سے لے کر طوفان‘ زلزلہ حتیٰ کہ اوکلاہوما کی دہشت گردی سمیت تمام حادثات اور سانحات شامل ہیں‘ ۱۱ ستمبر کے واقعے کے اثرات کہیں زیادہ ہیں۔ ملک کی ذہنی صحت کا جو نقشہ(profile) اس جائزے سے سامنے آتا ہے ۱۱ ستمبر کے واقعے کے ایک سے دو ماہ بعد تک PTSDکی سطح میں پوری امریکی قوم کے لیے اوسطاً ۴ فی صد اور نیویارک کی آبادی کے لیے ۱۱فی صد اضافہ ہوا اور اس کے اثرات وقتی نہیں بلکہ تاحیات رہنے کا خطرہ ہے جس کے نتیجے میں بقول ولیم شیلنگر:
عوام کی صحت کے لیے قابل لحاظ خطرہ پیدا کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔
ایک دوسرے جائزے سے معلوم ہوتا ہے کہ جس نے جتنا زیادہ ٹی وی دیکھا ہے‘ اتنا ہی زیادہ وہ اس سے متاثر ہے۔ چار گھنٹے ٹی وی دیکھنے والوں کا اوسط اگر ۵.۷ فی صد تھا تو ۱۲ گھنٹے دیکھنے والوں کا اوسط ۱۸فی صد تک بڑھ جاتا ہے۔ بات صرف ۱۱ ستمبر کے اثرات ہی کی نہیںاس کے بعد بھی خوف کا عفریت نت نئی شکلوں میں آبادی کو ہیجانی کیفیت میں مبتلا کرتا رہا ہے‘ خواہ انتھراکس کا خطرہ ہو یا دہشت گردی کی کسی نئی کارروائی کا۔ غرض پوری قوم ایک نئے ذہنی انتشار اوردبائو کا شکار ہو گئی ہے اور ملکی قیادت ہے کہ اس نام نہاد جنگ کو کرہ ارض کے طول و عرض تک پھیلانے پر تلی ہوئی ہے اور کسی کو اس پر غور کرنے کی فکر نہیں کہ دہشت گردی اور اس کے اسباب کا سدباب نہ میڈیا وار سے ہو سکتا ہے اور نہ فوج کشی اور نامعلوم دشمن کی تلاش میں عام انسانوں پر گولہ باری اور میزائل اندازی سے۔ خود اپنے ملک کی ابادی کو بھی بے یقینی اور خوف کے جہنم میں جھونکا جا رہا ہے اور دنیا کے دوسرے ممالک کے باسیوں کو بھی‘ اور اب تو کھلے بندوں یہ تیاری ہو رہی ہے کہ چھوٹے ایٹم بم (mini nukes) بنائے جائیں جو متعین اہداف کو نشانہ بنا سکیں اس کے لیے تیزی سے کام شروع ہو گیا ہے اور NPT اور CTBT سب کی گرفت سے آزاد ہو کر تباہی کے ان ہتھیاروںکو دہشت گردی کے خلاف نام نہاد جنگ کے لیے موثر ترین ہتھیار کے طور پر استعمال کرنے کے لیے فضا ہموار کی جا رہی ہے۔ دوسروں کو بڑے پیمانے پر تباہی کے ہتھیاروں (WMD)سے محروم کرنے کے لیے فوج کشی کے منصوبے ہیں اور خود ایسی ہی تباہی کے ہتھیاروں کے انبار ہی نہیں لگا رہے‘ ان کو بے دریغ استعمال بھی کر رہے ہیں اور آیندہ استعمال کرنے کی دھمکیاں دے رہے ہیں اور تیاریاں بھی کررہے ہیں۔ اس ظلم اور دھاندلی پر بھی اگر دنیا آپ کو نفرت کا نشانہ نہ بنائے تو کیا کرے؟ بڑی معصومیت سے پوچھا جاتا ہے کہ ’’لوگ ہمارے خلاف کیوں ہو رہے ہیں؟‘‘ اور ’’دنیا امریکہ سے نفرت کیوں کررہی ہے؟‘‘ اور ایک لمحہ بھی اس سوال پر کوئی غور کرنے کو تیار نہیں کہ معصوم انسان اور عام لوگ اپنی جان ہتھیلی پر رکھ کر احتجاج اور انتقام کے لیے کیوں اُٹھ رہے ہیں اور خطرات انگیز کر رہے ہیں۔
دہشت گردی اور اس کے خلاف جنگ دونوں انسانیت کے لیے ایک لمحہ فکریہ ہیں اور ۱۱ ستمبر سے جو حقیقی سبق سیکھا جا سکتا تھا‘ اسے امریکی قیادت اور اس کی نکیل تھامنے والی صہیونی لابی نے امریکی قوم اور پوری دنیا کی آنکھوں سے اوجھل کرنے کی بڑی منظم اور عالم گیر جدوجہد کی ہے اور مغربی میڈیا نے اس سلسلے میں بڑاہی کلیدی کردارادا کیا ہے۔ دہشت گردی ایک اخلاقی اور انسانی جرم ہے لیکن ہر جرم کی طرح اس کا مقابلہ جرم کے اسباب اور تائیدی عوامل کے تعین اور تجزیے کے بغیر ممکن نہیں۔ ۱۱ ستمبر کے دل ہلا دینے والے واقعے نے بھی امریکی قیادت کی آنکھیں نہیںکھولیں اور اس نے حالات اور معروضی جائزہ اور حقیقت پسندانہ ردعمل کی جگہ جذباتی اور ہیجانی انداز میں اس انسانی تباہی کو بھی اپنے سیاسی اور معاشی مقاصد اور مفادات کے حصول کے لیے بے دردی سے استعمال کیا ہے۔ یہ ناکامی خود ۱۱ ستمبرکے حادثے کی تباہ کاری سے بھی بڑی تباہی کا باعث ہے۔ اس بات کی ضرورت ہے کہ مسئلے کی اصل نوعیت کوسمجھا جائے اور کم از کم ان تمام انسانوں کو بیدار کرنے کی کوشش کی جائے جو مفاد کے بندے نہیں اور جنھیں حق و انصاف اور انسانی فلاح و سلامتی عزیز ہے۔
تین چیزوں میں فرق ضروری ہے۔ ایک انسانی معاملات میں قوت (force)کا استعمال‘ دوسرے تشدد(violance)اور تیسرے دہشت گردی (terrorism)۔ قوت کا استعمال حق اور ناحق‘ صحیح اور غلط‘ حصول انصاف اور ظلم دونوںکے لیے ہو سکتا ہے۔ انسانی معاشرے میں امن وسلامتی کے قیام‘ عدل و انصاف کے حصول اور قانون کی بالادستی اور نظم و انضباط پر مبنی معاشرے کے فروغ کے لیے ضروری ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہر سطح کی اتھارٹی کے لیے ڈسپلن اور ایک درجے میں قوت کا استعمال ضروری ہے۔ ریاست کی تعریف ہی coercive power سے کی جاتی ہے اور کسی بھی معاشرے کو انارکی سے پاک رکھنے کے لیے یہ ضروری ہے۔ ملکی نظام کے اندر سزا اور تعزیر اور بیرونی خطرات سے نمٹنے کے لیے جنگ و جہاد اسی نظام کا حصہ ہیں۔ بلاشبہہ قوت کو اعلیٰ اقدار و مقاصد‘ متفقہ قومی اہداف‘ اخلاقی اصولوں اور قانون کا پابند ہوناچاہیے اور نفاذِ قانون کے لیے قوت بطور ایک آلہ کار کے طور پر اس کا اصل جواز ہے۔ خیر اور حقوق کی حفاظت کے لیے قوت کا استعمال ایک نعمت ہے لعنت نہیں۔ یہ لعنت اس وقت بنتی ہے جب اس کا رشتہ اخلاق‘ اقدار اور قانون سے کٹ جائے۔ اقبال نے اسی حقیقت کو یوں بیان کیا ہے: ؎
اسکندر و چنگیز کے ہاتھوں سے جہاں میں
سو بار ہوئی حضرتِ انساں کی قبا چاک
تاریخ امم کا یہ پیام ازلی ہے
صاحب نظراں! نشۂ قوت ہے خطرناک
لادیں ہو تو ہے زہرِ ہلاہل سے بھی بڑھ کر
ہو دیں کی حفاظت میں تو ہر زہر کا تریاک
قوت کا استعمال ‘ تشدد اس وقت بن جاتا ہے جب وہ دینی و اخلاقی اورقانون و ضوابط سے بے نیاز ہوکر ذاتی مقاصد اور مفادات کے لیے استعمال ہو۔ قتل و غارت گری‘ لوٹ مار‘ ظلم و زیادتی اس کا نتیجہ ہیں اور اس لیے تشدد جرم اور قابل مواخذہ ہے۔ دہشت گردی‘ قوت اور تشدد دونوں سے مختلف ہے۔ یہ محرومی اور بے بسی کے جواب میں سیاسی مقاصد کے لیے قوت کا ایسا استعمال ہے جس کا ہدف کوئی ذاتی فائدہ حاصل کرنا نہ ہو بلکہ مقابل قوت کو متوجہ بلکہ خائف کرنے کے لیے کوئی ایسی چونکا دینے والی کارروائی کرنا ہے جو نقصان بھی پہنچائے اور توجہ کو اس مقصد کی طرف مبذول کرانے کا ذریعہ بنے جس کے لیے تشدد کا ارتکاب کیا گیا ہے۔ اسی لیے اسے طاقتور کے مقابلے میں کمزور کا ہتھیار کہا گیا ہے (ملاحظہ ہو‘ ہن ٹنگٹن کی کتاب Clash of Civilizations)۔
بات اس کے جواز اور عدم جواز کی نہیں۔ مسئلے کی حقیقت کو سمجھنے کے لیے یہ سمجھنا ضروری ہے کہ دہشت گردی ایک برائی اور قابل مذمت اقدام ہے مگر دہشت گردی کا مقابلہ تشدد‘ جنگ اور ظلم و زیادتی میں اضافے سے نہیں ہوسکتا۔ یہ تاریخ کا واضح سبق ہے اور گذشتہ دو سو سال کی تاریخ بھی اس پر گواہ ہے۔ سامراج کے مظالم‘ بیرونی قبضے اورسماجی‘ معاشی اور سیاسی حقوق کُشی کے ردعمل میں رونما ہونے والی تحریکوں کو‘ خواہ وہ تشدد اور دہشت گردی کے حربوں کواستعمال کرنے پر ہی کیوں نہ اتر آتی ہوں‘ محض قوت کے استعمال سے ختم نہیں کیا جا سکا اور ساری جنگ آزمائی کے بعد بالآخر معاملات کی اسی وقت اصلاح ہو سکی اور تصادم اور کشت و خون کا خاتمہ ممکن ہوا جب اصل اسباب کو دُور کرنے کی کوشش ہوئی اور مسائل کا سیاسی حل تلاش کیا گیا۔ دہشت گردی کے خلاف جنگ اس نوعیت کی جنگ ہے اور ہو سکتی ہے جسے غربت کے خلاف جنگ‘ یا بیماری اور خوف کے خلاف جنگ!
دہشت گردی کا سدباب صرف اس وقت ممکن ہے جب ان اسباب کا سدباب کیا جائے جو دہشت گردی کو جنم دیتے ہیں۔ اصل سوال ہے ہی یہ کہ وہ کیا عوامل ہیں جو معصوم انسانوں کو اپنی جان تک دینے پر مجبور کرتے ہیں؟ برطانوی وزیراعظم کی اہلیہ شیری بلیر نے فلسطینی خودکش حملہ کرنے والوں کے بارے میں کہا تھا کہ جب تک ان اسباب و عوامل کی فکر نہ کی جائے جو نوجوانوں کو اپنے پرخچے اڑانے پر مجبور کرتے ہیں‘ مسئلہ حل نہیں ہو سکتا لیکن بش اور شیرون اس زعم میں مبتلا ہیں کہ محض قوت اور تشدد کے ذریعے وہ مجبور انسانوں کو ہمیشہ کے لیے اپنے حق کے لیے لڑنے سے روک سکتے ہیں تو یہ خام خیالی ہی نہیں‘ جنگ و جدال اور مزید تشدد اور دہشت گردی کے فروغ کا تیر بہ ہدف نسخہ ہے۔ برطانوی رکن پارلیمنٹ جان گالووے نے اس بات کو لندن کے دی گارڈین میں شائع ہونے والے اپنے مضمون میں یوں بیان کیا ہے:
یہ ایک مسلسل جنگ اور عالمی ہل چل کی ترکیب (recipe) ہے۔ یہ دہشت گردی پھیلانے کی بھی ترکیب ہے۔ اور پوری مسلم دنیا اور اس کے باہر بھی بن لادن کے لیے اسلحہ خانے پیداکرنے کی ترکیب (دی گارڈین‘ دی نیوز‘ ۱۳ اگست ۲۰۰۲ء)
امریکہ کے دفاعی اطلاعات کے مرکز کے محقق مارک برگس نے امریکی صدر کے اعلان جنگ کے بارے میں درست ہی کہا ہے کہ:
بن لادن کے خلاف صدر کا صلیبی جنگ کا اعلان بن لادن کے تصورِ جہاں کے عین مطابق ہے اورمیں یہ نہیں کرنا چاہتا۔
رینڈ کرپوریشن کے اسکالر پارچینی کا یہ بیان حال ہی میں امریکی اخبارات میں شائع ہوا ہے کہ:
اگر آپ دہشت گردی کی اس صورت حال کو دیکھیں تو آپ اسے ایک سادہ ‘یک رخا سیاسی فیصلے کی حیثیت سے نہیں دیکھتے۔ عوامل کا ایک مجموعہ اسے متحرک رکھتا ہے۔
فلپائن کے صدر کے ایک مشیر Jose T. Almonte نے انٹرنیشنل ہیرالڈ ٹربیون کے جولائی ۲۰۰۲ء کے آخری ہفتے کے ایک شمارے میں بہت کام کی بات لکھی ہے:
دہشت گردی کو جڑسے اکھاڑنے کے لیے ناگزیر طور پر سفارتی‘ سیاسی‘ معاشی‘ مالیاتی اور ثقافتی اقدامات بشمول پولیس اور فوجی اقدام کے کرنا ہوں گے۔ ترقی پذیر دنیا کے بیش تر حصوں میں سیکولر ریاست اپنی سیاسی‘ آزادی‘ معاشی خوش حالی اور عدل و انصاف کے وعدوں کو پورا نہیں کرسکی ہے۔ (انٹرنیشنل ہیرالڈ ٹربیون‘ خلیج ٹائمز‘ ۳۰ جولائی ۲۰۰۲ء)
بات درست ہے لیکن آل مونٹے نے آدھی بات کہی ہے۔ سیکولرزم کی ناکامی اور سماجی انصاف سے محرومی کے ساتھ سیاسی ظلم اور غیرملکی قبضے بھی ایک اہم سبب ہے۔ فلسطین‘ کشمیر‘ منٹارانو‘ شیشان اور متعدد مقامات پر سیاسی غلامی اور استبداد اوردنیا کے مختلف علاقوں میں امریکی فوجی تسلط اور مداخلت بھی نفرت اور انتقام کی آگ کوہوا دے رہے ہیں۔ صدر بش کی زبان سے بھی ۱۱ ستمبر اور دہشت گردی کے اسباب کے سلسلے میں یہ الفاظ نکل ہی گئے جو خودکسنجر نے اپنے ایک حالیہ مضمون میں نقل کیے ہیں کہ:
یہ اس کے بغیر ممکن نہیںتھا کہ ان ممالک کی خاموش حمایت کا تعاون حاصل ہوتا جو جارج ڈبلیو بش کے الفاظ میں ’’دہشت گردی‘‘ کی مخالفت کرتے ہیں لیکن اس نفرت کو انگیز کرتے ہیں جو دہشت گردی کرتی ہے (لاس اینجلز ٹائمز‘ سنڈیکیٹ‘ ڈان‘ ۱۱ اگست ۲۰۰۲ء)۔
بش اور کسنجر یہاں تک تو آئے مگر اس پر غور نہ کیا کہ اس نفرت (hatred) کوپیدا کرنے والے عوامل کیا ہیں؟ کسنجرنے اعتراف کیا ہے کہ:
امریکی حکمت عملی کو ان ناراضیوں کی جائز وجوہات کو دُور کرنے کی کوشش کرنی چاہیے
لیکن اس سانس میں پھر سارا زوراسی بات پر ہے کہ ان افراد اور حکومتوں کو سبق سکھائو جہاں یہ دہشت گرد پائے جاتے ہیں۔ معلوم ہوتا ہے کہ مفاد اور غیظ و غضب اور عناد نے آنکھوں پر بالکل پٹی باندھ دی ہے ورنہ یہاں تک آنے کے بعد دوسرا اور فطری سوال یہی تھا کہ ان اسباب کو دُور کرنے کی فکر کی جائے جو معصوم انسانوں کو اس انتہا کی طرف لے جا رہے ہیں۔ اصل سبب ظلم اور ناانصافی کا وہ نظام ہے جس میں فلسطین پر اسرائیل ناجائز طور پر قابض ہو کر وہاں ریاستی دہشت گردی کر رہاہے‘ کشمیر پربھارت کا تسلط ہے اور وہ ریاستی دہشت گردی کا مرتکب ہو رہا ہے۔ شیشان پر روس کا فوجی کنٹرول اور مینڈانائو پر فلپائن کی حکومت کی فوج کشی ریاستی دہشت گردی ہے۔ گویا عالمی سطح پر امریکہ کے بالادستی کے منصوبے اورپوری عسکری‘ سیاسی‘ معاشی اور ثقافتی یلغار ہی وہ اصل سبب ہے جس نے مجبورانسانوں کو بغاوت اور پھر خود تشدد پر ابھارا ہے۔
اس بنیادی حقیقت کو نہ سمجھنا یا جانتے بوجھتے ہوئے اسے نظرانداز کرنا سارے فساد کی جڑ اور پوری دنیا کو شدید بحران میں مبتلا رکھنے کا ذریعہ ہے۔ فلسطین ہویا کشمیر‘افغانستان ہو یا شیشان‘ باسک (اسپین) ہویا مینڈانائو (فلپائن) مسئلہ ایک ہی ہے۔ عوام کے احساسات کا عدم ادراک‘ ناانصافیوں اور مظالم سے بے نیازی‘ نفرت اور بے چینی کے اسباب سے لاتعلقی اور محض علامات اور ظاہری عوامل کا خبط (obsession) جب کہ زمینی حقائق اور زیرزمین کام کرنے والے حقیقی محرکات واسباب سے صرف نظر آج کی قیادتوں کا مسئلہ اور مرض ہے۔ افغانستان میں القاعدہ کے خلاف جنگ اور اس کے اثرات و نتائج اس کی ایک نمایاں مثال ہیں۔ ۱۱ستمبر کے ’’مجرموں‘‘ کو سزادینے کے لیے اقدام کیا گیا اور اسامہ بن لادن ’’زندہ یامردہ‘‘ کوہدف بنایا گیا--- طالبان اس لیے گردن زدنی ٹھہرے کہ اسامہ افغانستان میں پناہ گزین تھا۔ آزادی کے نام پر افغانستان تباہ ہو گیا لیکن اس کی آزادی کا یہ حال ہے کہ امریکہ کے لائے ہوئے صدر کی حفاظت کے لیے بھی امریکی میرین درکار ہیں۔ افغان اپنے صدر کو بھی تحفظ فراہم نہیں کر سکتے۔ ملک ایک بار پھر اقتدار کے ٹکڑوں اور حلقوں میں بٹا ہوا ہے۔ ہر روز دو طرفہ کارروائیاں ہو رہی ہیں اورامن و سکون ناپید ہیں۔ تعمیرنو کا کہیں دور دور پتا نہیں اورامریکی کمانڈر کہہ رہے ہیں کہ ہمارا افغانستان میں قیام‘ کوریا کی طرح مستقل اور لامتناہی ہے۔ القاعدہ جن کو ساری برائیوں کا مرجع اور جامع قرار دیا جا رہا ہے وہ امریکہ کے کتنے ہی مبغوض کیوں نہ ہوں‘ افغان عوام کے آج بھی ہیرو ہیں۔ اگر امریکہ اور اس کے ہمراہی بشمول جنرل پرویز مشرف ان حقائق کو نہیں دیکھ سکتے تو اسے کورچشمی ہی کہا جا سکتا ہے۔
ع جانے نہ جانے گل ہی نہ جانے باغ توسارا جانے ہے
پاکستان کے شمالی علاقہ جات میں القاعدہ کے خلاف کارروائیوں میں ۱۰ پاکستانی فوجی ہلاک ہوئے‘ اس کی جوروداد ٹائم کے ۲۹ جولائی کے شمارے میں شائع ہوئی ہے وہ چشم کشا ہے۔ عبدالرئوف نیازی جو پاکستانی فوج کے خفیہ ادارے کا افسر اورامریکی تلاش القاعدہ مہم کا رہبر تھا اس تصادم میں مارا گیا۔ مگر جب اس کی لاش اس کے گھر لائی گئی تو دیکھیے خود اس کا باپ ‘ جس کا وہ لخت جگر تھا اور جسے اس نے نہ معلوم کن کن تمنائوں کے ساتھ پالا اور دفاع وطن کے لیے پاکستانی افواج کے سپرد کیا تھا‘ کیا کہتا ہے:
نیازی کا اپنا باپ اپنے بیٹے کومسلمانوں کا غدارسمجھتا ہے۔ اس نے اس کی نماز جنازہ پڑھنے سے انکار کر دیا۔ اس نے کہا: ’’بش آئے اور میرے بیٹے کے لیے دعا کرے‘ میں نہیں کروںگا‘‘ (ٹائم‘ ۲۹ جولائی ۲۰۰۲ء‘ ص ۱۵)۔
افغانستان میں القاعدہ کے شہدا کے بارے میں افغانستان کے عام مسلمانوں کا آج بھی کیا رویہ ہے اس کے بارے میں رابرٹ فسک کی تازہ ترین رپورٹ جو اس وقت افغانستان کا دورہ کر رہا ہے اور لندن کے اخبار انڈی پنڈنٹ میں اپنی روداد سفر شائع کر رہا ہے ‘پڑھنے کے لائق ہے۔ امریکہ کے ذریعے طالبان سے ’’آزادی‘‘ کے آٹھ مہینے کے بعد ۱۳ اگست ۲۰۰۲ء کی صورت حال یہ ہے۔ یہ رابرٹ فسک شہداے القاعدہ کے ایک قبرستان کا منظر یوں بیان کرتا ہے:
ان کی ولیوں کی طرح عزت کی جاتی ہے۔ ڈھیروں مٹی کے نیچے القاعدہ کے شہدا آرام کررہے ہیں۔ یہ عرب ہیں‘ پاکستانی ہیں‘ چیچن ہیں‘ قاذق ہیں اور کشمیری ہیں۔اگر آپ پروپیگنڈے پر یقین کریں تو یہ قندھار کے پشتونوں کی نفرت کا نشانہ ہیں۔ یہ سچ نہیں ہے۔ جس وقت امریکی اسپیشل فورس کے جواں اس سرحدی گرم شہر کی سڑکوں پر گشت کرتے ہیں‘ اس وقت قندھار کے لوگ سیکڑوں کی تعداد میں ان مزاروں پر آتے ہیں۔ جمعہ کے دن میلوں سفر کرکے ہزاروں کی تعداد میں آتے ہیں۔ یہاں آنے والوں کے لیے قندھار کا قبرستان مذہبی کے ساتھ ساتھ ایک سیاسی سبق بھی ہے۔ غیر ملکی حیران ہوتے ہیں کہ انھیں کس چیز کی کشش یہاں لا رہی ہے۔ شفا کی افواہیں اور روایات؟ یہ بات کہ انھوں نے غیر ملکیوں کا آخر دم تک مقابلہ کیا؟ ہتھیار ڈالنے پر جان دینے کو ترجیح دی؟ غیر افغانی شہدا افغانیوں کی طرح لڑے؟ اچھا ہی ہے کہ امریکی خصوصی افواج کے افراد یہاں نہیں آتے۔ وہ ایسے مناظر دیکھیںگے جو ان کو پریشان کریں گے اور پریشان کرنا چاہیے۔ (دی انڈی پنڈنٹ‘ دی نیشن‘ ۱۳ اگست ۲۰۰۲ء)
صرف امریکی فوجی ہی اس حقیقت کو دیکھنے سے نہیں گھبراتے ہیں‘امریکی قیادت اور خود پاکستان کی قیادت بھی اس جرم میں برابر کی شریک ہے‘ لیکن کیا کبوتر کے آنکھیں بند کرنے سے حقائق بدل جاتے ہیں اور خطرات ٹل جاتے ہیں؟ فاعتبروایااولی الابصار۔
ان زمینی حقیقتوں کے بیان اور مسئلے کے اصل اسباب و عوامل کی نشان دہی کے سلسلے میں رابرٹ فسک تنہا نہیں ہے۔ نیوزویک (۱۹ اگست ۲۰۰۲ء)میں بھی القاعدہ پر ایک مفصل مضمون شائع ہوا ہے۔ اس میں بھی یہ اعتراف موجود ہے۔ اس بار سرزمین پاکستان کی ہے مگر جان دینے والے وہی امریکہ کا دردسر بننے والے مجاہد ہیں۔ ایک معرکے میں ۱۰ مجاہد شہید ہوئے ہیںاور ۶ فوجی جوان مارے جاتے ہیں۔ مرنے والے فوجیوں کی خبرلینے والا تو کوئی نہیں تھا مگر شہدا کی قبریں چشم زدن میں مرجع خاص و عام بن گئیں۔ نیوزویک کی رپورٹ ہے:
۱۰ شہدا کے مزار ایک مقدس جگہ بن گئے ہیں۔ بینرز لگے ہوئے ہیں: القاعدہ زندہ باد‘ طالبان زندہ باد۔ یہ لوگ مقدس شہدا ہیں۔ ایک زائر نے نیوزویک کو بتایا: اس جگہ کی زیارت سے مجھے امریکہ دشمنی کے جذبات ملے ہیں۔ (نیوز ویک‘ ۱۹ اگست ۲۰۰۲ء‘ ص ۱۴)
زیرزمین لاوا پک رہا ہے۔ نفرتوں کے طوفان بادلوں کے سینوں میں منتظر ہیں۔ زمینی حقائق ناقابل انکار ہیں۔ اسباب و عوامل بے چینی‘ اضطراب‘ بغاوت اور انقلاب کی راہ ہموار کر رہے ہیں۔ ان حقائق کو نظرانداز کر کے محض قوت کے زعم میں ‘ گولہ بارود کے ذریعے‘ انقلاب کی لہروں کو روکا نہیں جا سکتا۔ امریکی قیادت کے تصورات اور دعووں--- اور عوامی جذبات ‘ احساسات‘ عزائم اور امنگوں کے درمیان ایک عظیم خلیج حائل ہے جو حقیقت پسندی پر مبنی حکمت عملی اور پالیسی کی راہ استوار ہونے میں اصل رکاوٹ ہے۔ دنیا کا کون سا مسئلہ ہے جس کا حل ممکن نہیں لیکن مسائل کے حل کے لیے بھی ضروری ہے کہ حقیقت پسندی سے اصل احوال و عوامل کا جائزہ لیا جائے اور حقیقی اسباب تک رسائی حاصل کر کے ان کے سدباب کی کوشش کی جائے۔ طاقت کے نشے میں حواس کا توازن منتشر ہے اور پروپیگنڈے کی دھول میں بصارت دھندلا گئی ہے۔ علامتوں اور مظاہر پر ساری توجہ ہے اور اسباب اور عوامل سے کلی صرفِ نظر کیا جا رہا ہے۔ اور یہی وہ چیز ہے جو خطرات کو بڑھا رہی ہے اور انسانیت کو آگ اور خون کی طرف دھکیل رہی ہے۔ افسوس ہے کہ امریکہ کی قیادت نے ۱۱ستمبر کے چشم کشا واقعات سے کوئی سبق نہ سیکھا۔ حالانکہ ۱۱ستمبر کا اصل پیغام صرف ایک ہی ہے: تشدد اور دہشت گردی کا خاتمہ تشدد اور دہشت گردی سے نہیں کیا جاسکتا۔ لوگوں کی بے چینی‘ نفرت اور بغاوت کے اسباب کی تفہیم اور حالات کی ایسی اصلاح ہی امن و سلامتی کے ضامن ہو سکتے ہیں جس کے نتیجے میں ظلم ختم ہو‘ لوگوں کو انصاف اور جائز حقوق میسر آئیں۔ آزادی اور عزت کے ساتھ وہ اپنے معاملات طے کر سکیں اور امیر اور غریب‘ قوی اور کمزور‘ بڑے اور چھوٹے‘ سب دوستی اور بھائی چارے کی فضا میں تعاون اور افہام و تفہیم کے ساتھ باوقار زندگی گزارسکیں۔
یاد رکھیے امن اور ظلم‘ سلامتی اور سامراج‘ آزادی اور چند کی بالادستی ساتھ ساتھ نہیں چل سکتے۔ آزادی کی ضمانت اسی وقت ممکن ہے جب سب کے لیے آزادی ہو‘ اہل ثروت اسی وقت محفوظ رہ سکتے ہیں جب سب کو دو وقت کی روٹی میسر ہو۔ چین اور آشتی ممکن ہی اس حالت میں ہیں جب قانون سب کے لیے ایک ہو اور انصاف کی میزان میں کوئی کسی سے بڑا اور مختلف نہ ہو۔ ۱۱ ستمبر کے واقعات نے امریکہ کی قیادت کو جس رخ پر ڈال دیا ہے اور پوری دنیا ان کی جن ستم کاریوں کی آماجگاہ بن گئی ہے ‘ امن‘ سلامتی اور انصاف کا راستہ نہیں‘ وہ صرف اور صرف سب کی تباہی کا راستہ ہے۔ اس تباہی سے بچنے کی ایک ہی صورت ہے کہ اب بھی آنکھیں کھول لی جائیں‘حقائق کو کھلے ذہن سے تسلیم کیا جائے‘ سطحی ردعمل کی جگہ گہرائی میں جا کر حالات کا تجزیہ کیا جائے اور بگاڑ کے اسباب کا سدباب کیا جائے (فلسطین کی صورت حال کے بارے میں چنبٹ ریڈنگ نے ایک جملے میں ایک گمبھیر مسئلے کا تجزیہ اور حل بیان کر دیا ہے جو نوٹ کرنے کے لائق ہے اور تمام متنازعہ امور کے بارے میں ایک مثبت نقطۂ نظر کی نمایندگی کرتا ہے۔ اس نے لکھا ہے: ’’اگر اسرائیلی حکومت لوگوں کو ان کا حق دینے کے لیے تیار نہیں تو اسے خودکش بم حملوں کے رکنے کی توقع نہیں کرنی چاہیے‘‘۔ نیوزویک ۱۲ اگست ۲۰۰۲ء)۔ انسانیت کے حقیقی بہی خواہ‘ بلالحاظ اس کے کہ ان کا تعلق کس مذہب ‘ کس علاقے اورکس طبقے سے ہے‘ بڑا اہم کردار ادا کرسکتے ہیں۔ خود اُمت مسلمہ اور پاکستان کی بڑی ذمہ داری ہے لیکن ان کا حال بھی اتنا ہی تشویش ناک ہے جتنا امریکہ کی قیادت کا--- افسوس‘ صدافسوس!
کر سکتے تھے جو اپنے زمانے کی امامت
وہ کہنہ دماغ اپنے زمانے کے ہیں پیرو
پھر بھی ہم مایوس نہیں‘ اس لیے کہ:
ایسی بھی کوئی شب ہے جس کی سحر نہ ہو