ووٹ دینا بھی گواہی ہے۔ اہل لوگوں کو ووٹ دینا سچی گواہی دینا ہے‘ نااہلوں کو ووٹ دیناجھوٹی گواہی ہے۔ ووٹ نہ دینا بھی جھوٹی گواہی کے حکم میں ہے۔ ایک ووٹر اپنی گواہی اور ووٹوں میں اضافہ بھی کرسکتا ہے۔ وہ جتنے لوگوںکو ووٹ کے صحیح استعمال کے لیے لائے گا اس کے کھاتے میں اتنے ہی لوگوں کے ووٹ کی نیکی لکھ دی جائے گی۔ ۱۰‘ ۲۰‘ ۱۰۰‘ ۱۰۰۰ جتنے لوگ اس کی آواز پر ووٹ دیں گے ان کے اجر میں وہ شریک ہوگا‘ بغیر اس کے کہ کسی ووٹر کے اجر میں کسی قسم کی کمی واقع ہو۔ ہے کوئی جواس ثواب کے لیے آگے بڑھے‘ جدوجہد کرے‘ اور اسلامی انقلاب کی راہ ہموار کرے۔ وَفِیْ ذٰلِکَ فَلْیَتَنَافَسِ الْمُتَنَافِسُوْنَ o (المطففین ۸۳: ۲۶) ’’جو لوگ دوسروں پر بازی لے جانا چاہتے ہیں وہ اس چیز کو حاصل کرنے میں بازی لے جانے کی کوشش کریں‘‘۔
غور فرمایئے کہ آپؐ نے اہل بیت میں شامل کرنے کو کن باتوں سے مشروط کیا ہے۔ ہم کو اللہ کے رسولؐ سے محبت کے کتنے دعوے ہیں اور کون اہل بیت میں شامل ہونا اور اللہ کے رسولؐ کی دعا کا حق دار ہونا نہ چاہے گا لیکن اہل اقتدار کے دروازوں کے آگے کھڑے رہنے اور اہل مال کے پاس سائل بن کر جانے سے بچنے والے کتنے ہیں۔
جسے فرشتے دعائیں دیں‘ اس کی خوش قسمتی کا کیا کہنا اور جس کے لیے فرشتے بددعائیں کریں اس کی بدبختی کا کیا ٹھکانا! خرچ کرنے والا صرف خرچ نہیں کرتا بلکہ کمائی کرتا ہے اور نعم البدل پاتا ہے‘ اور بخل کرنے والا اپنی بچت نہیں کرتا بلکہ اپنے مال کو تباہ کرتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: وَمَآ اَنْفَقْتُمْ مِّنْ شَیْ ئٍ فَھُوَ یُخْلِفُہٗ ج (سبا ۳۴:۳۹) ’’جوکچھ تم خرچ کر دیتے ہو اُس کی جگہ وہی تم کو اور دیتا ہے‘‘۔
اللہ کی بندگی میں آگے ہونے‘ پہلی صف میں کھڑا ہونے کی بڑی فضیلت ہے‘ لیکن دوسروں کو تکلیف پہنچا کر نہیں۔ اگر کہیں تیزرفتاری سے آگے بڑھنا دوسرے کے لیے تکلیف کا باعث ہو‘ تو آدمی کو چاہیے کہ رفتار کم کر دے‘ آگے بڑھنے کے بجائے پیچھے رک جائے‘ اللہ کے ہاں اس کا شمار اگلی صف میں ہو جائے گا‘اسے پہلی صف کا ثواب ملے گا۔ عبادت اور عبادت گزار دوسروں کی ایذا کا نہیں بلکہ ان کی راحت کا سبب بنتے ہیں۔
رب العالمین کے ہاں حاضری اور اس سے ملاقات کتنی آسان ہے۔ ملاقات کا خواہش مند جس وقت چاہے ملاقات کر سکتا ہے۔ بندے اور رب کے درمیان کوئی واسطہ بھی نہیں کہ اس کے ذریعے ملاقات کی جائے۔ بندے اور رب کے درمیان کوئی بھی حائل نہیں ہے۔ یہ بندے کی اپنی چاہت کی بات ہے‘ اس کے اپنے ذوق و شوق اور جذبے پر منحصر ہے کہ وہ کس وقت کتنی دیر اور کیسی ملاقات چاہتا ہے۔ جیسی ملاقات چاہے گا ویسی ملاقات ہوجائے گی۔ توجہ ہٹائے گا تو رب بھی توجہ ہٹا لے گا۔
نماز رب تعالیٰ کی ملاقات اور اس سے مناجات ہے۔ نماز میں اللہ تعالیٰ بندے کے سامنے ہوتا ہے اور بندے کی طرف متوجہ ہوتا ہے۔ بادشاہوں سے ملاقات کے لیے کتنے جتن کرنے پڑتے ہیں‘ پھر بھی وہ چند لوگ ہی ہوتے ہیں جنھیں شرف باریابی ملتا ہے۔ لیکن اللہ رب العالمین کی ملاقات کتنی آسان ہے۔ پانچ وقت اس کی طرف سے اس کے لیے بلاوا آتا ہے اور اس کے علاوہ بھی کسی بھی لمحے ملاقات کی جا سکتی ہے۔
آیئے‘ رب سے ملاقات کے جذبے اور شوق کو بیدار کریں اور نماز میں ایسا رویہ اختیارنہ کریں کہ اللہ تعالیٰ ہم سے رخ پھیر لے۔ بلااستثنا ہر ایک کی ملاقات کے لیے راستہ کھلا ہے۔
گھروں کی حفاظت اور کھانے میں برکت کی فکر کسے نہیں؟ کتنا آسان نسخہ ہے۔ اللہ کی یاد ‘گھر کی حفاظت اور برکت ہے۔ اللہ فرماتے ہیں: فَاذْکُرُوْنِیْٓ اَذْکُرْکُمْ (البقرہ ۲:۱۵۲) ’’تم مجھے یاد کرو میں تمھیں یاد کروں گا‘‘۔ اللہ جب بندے کو یاد کرتاہے تو پھر وہ شیطان کو اس کے قریب نہیں آنے دیتا۔ اسے اللہ کی طرف سے حفاظتی حصار میسر آجاتا ہے۔ شیطان‘ شیطانی کام‘ برائیاں اس گھرسے دُور‘ اس کا گھر ان سے دُور۔ اللہ کی یاد کا کتنا آسان نسخہ ہے کہ روز مرہ کی دعائوں کو اپنا معمول بنا لیا جائے۔
گناہ انسان کے جسم و جان اور دل ودماغ کے لیے جکڑبندی‘ گھٹن اور پریشانی ہے۔اگر کوئی شخص ذہنی دبائو‘ جسمانی کھچائو اور پریشانی میں ہے‘ بے اطمینانی کا شکار ہے تو اس بیماری کا ایک سبب برائیوں کی زرہ کی جکڑبندی ہے۔ وہ اپناجائزہ خود لے کرمعلوم کر سکتا ہے کہ اس کی بیماری کاسبب کیا ہے۔ وہ خوب جانتا ہے کہ اس کے اعمال کیسے ہیں۔ اگر وہ برائیوں میں مبتلا ہے تو‘ توبہ کرے‘ نیکیوں کی طرف رخ کرے‘ صحت مند ہوناشروع ہو جائے گا۔وہ نیکیاں کرتا جائے گا اور گناہوں کی جکڑبندی ختم ہوتی جائے گی۔ بلاشبہہ نیکیاں برائی کو دُورکرتی ہیں‘ اِنَّ الْحَسَنٰتِ یُذْھِبْنَ السَّیِّاٰتِط (ھود ۱۱:۱۱۴)‘اس حقیقت کو اس حدیث نے مثال کے ذریعے کھول کر بیان کر دیا ہے۔
دو رکعت نماز پڑھنا کوئی بہت مشکل کام نہیں ہے۔ میاں بیوی دونوں رات کو اُٹھ کر دو رکعت پڑھنے کو معمول بنالیںتو اس کی برکت سے ان کا شمار ذاکرین میں ہو جائے گا۔ انھیں ذکر کی عادت پڑ جائے گی۔ تھوڑی نیکی‘ زیادہ نیکی کا سبب بنتی ہے۔ دو رکعتوں کو حقیرنہ سمجھیں۔ آدمی اسے اپنا معمول بنا لے تو وہ تھوڑی نہیں رہتی بلکہ زیادہ ہوجاتی ہے۔ پھر وہ نیکی آدمی کی گھٹی میں پڑ جاتی ہے‘ انسان ترقی کی منازل طے کرتا رہتا ہے‘ یہاںتک کہ بلندترین منزل تک پہنچ جاتا ہے۔ ذاکرین اور ذاکرات میں شامل ہونا بندگی کی معراج ہے۔
دو رکعت نماز‘ ایک یا دو رکوع تلاوت و مطالعہ‘ ایک دو احادیث‘ دو تین مسائل میں تھوڑا وقت صرف کر کے مہینے میں کتنی عبادات اور کتنا علم حاصل کیا جا سکتا ہے۔ محلے کے ایک دو آدمیوں سے ملاقاتیں‘ ان کواللہ کی بندگی کی طرف متوجہ کرنا معمولی کام ہے لیکن سال کے ۳۶۵ دن کام ہو تو مضبوط جماعت بن سکتی ہے۔ دو تین سال میں پورا محلہ اور ساری آبادی دین کے رنگ میں رنگی جا سکتی ہے۔ اسی واسطے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: خیرالعمل مادیم علیہ وان قل ’’بہترین عمل وہ ہے جو ہمیشہ کیا جائے اگرچہ تھوڑا ہو‘‘۔
آج موقع ہے‘ انسان اپنے آپ کو جس گروہ میں شامل کرنا چاہے کر سکتا ہے۔ کل جب اس کا جنازہ دوسروں کے کندھوں پر ہوگا اس وقت کی چیخ و پکار کام نہ دے گی۔ کل کی خوشی کا سامان آج کی نیکی اور نیک لوگوں کی صف میں شمولیت ہے۔ اس کے لیے مال و دولت‘ عہدہ و منصب‘ عیش و عشرت کی نہیں‘ اللہ کی فرماں برداری اور اس کی مرضیات کی تکمیل کی ضرورت ہے۔ آج جو اللہ کی مرضی پر چلے گا ‘ کل اللہ تعالیٰ اسے راضی کر دے گا۔ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْھُمْ وَرَضُوْا عَنْہُ ط (البینہ ۹۸:۸) ’’اللہ ان سے راضی ہوا اور وہ اللہ سے راضی ہوئے‘‘۔