امریکہ کے ممتاز تھنک ٹینک رینڈ کارپوریشن کی طرف سے پینٹاگون کو دی جانے والی بریفنگ میں سعودی عرب کو امریکہ کے دشمن ملک کے طور پر پیش کیا گیا ہے اور سفارش کی گئی ہے کہ اسے دہشت گردی کی پشت پناہی سے روکنے کے لیے الٹی میٹم دیا جائے۔ واشنگٹن پوسٹ میں شائع ہونے والی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ ۱۰ جولائی ۲۰۰۲ء کو رینڈ کارپوریشن کے تجزیہ نگار لارینٹ موریوک نے ڈیفنس پالیسی بورڈ کو بریفنگ دیتے ہوئے کہا:’’ سعودی شہری دہشت گردی کے پورے سلسلے سے منسلک ہیں۔ منصوبہ سازوں سے لے کر مالی معاونت کرنے والوں ‘اعلیٰ تنظیمی عہدے داروں سے عام کارکن اور نظریہ سازوں سے جوش دلانے والے رہنماؤں تک سعودی عرب میں اس سلسلے کی ہر کڑی متحرک ہے --- سعودی عرب ہمارے دشمنوں کی مدد کرتا ہے اور ہمارے اتحادیوں پر ضرب لگاتا ہے --- سعودی عرب برائی کا منبع ہے‘ وہ سب سے بڑی متحرک قوت ہے اور مشرق وسطیٰ میں ہمارا سب سے زیادہ خطرناک دشمن ہے۔ رپورٹ میں امریکہ کو مشورہ دیا گیا ہے کہ اگر سعودی عرب امریکہ کے مطالبات پورے نہ کرے تو سعودی تیل کے چشموں اور بیرون ملک اس کے اثاثوں کو نشانہ بنایا جائے‘‘۔
کہا جاتا ہے کہ خلیجی جنگ کے بعد امریکہ اور سعودی عرب نے باہمی تعلقات کا ہنی مون منایا ہے اور ہنی مون ختم ہوکر ہی رہتا ہے چاہے وہ کتنا ہی طویل کیوں نہ ہو ۔ ایک سعودی ڈپلومیٹ کا کہنا ہے کہ ہم نے امریکہ کے ساتھ تعلقات قائم کرنے کی بہت قیمت ادا کی ہے جب کہ اسرائیل ان کو تباہ کرنا چاہتا ہے تاکہ اس کے لیے ماحول ساز گار ہو جائے ۔
ساڑھے چار ہزار امریکی فوجیوں کی سعودی عرب میں موجودگی --- مسئلہ فلسطین --- عراق کا مستقبل --- سعودی عرب کے ایران کے ساتھ بڑھتے ہوئے تعلقات--- یہ وہ امور ہیں جن پر سعودی عرب اور امریکہ کے درمیان اختلاف رائے میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے ۔ او ر اس سب کچھ پر مستزاد یہ کہ ۱۱ستمبرکے بعد سعودی عرب کو دہشت گردی کا اصل سرپرست قرار دیا جارہا ہے۔ سعودی عرب کے تعلیمی نظام کو دہشت گردی کی نرسری کہا جارہا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ عالمی تجارتی مرکز پر حملہ آور ۱۹افراد میں سے ۱۵سعودی شہری تھے اور سعودی عرب کے دہشت گرد ہونے کی اس سے بڑی دلیل اور کیا ہوسکتی ہے۔
۱۹۷۳ء کی عرب اسرائیل جنگ کے علاوہ تعلقات کی ۷۰ سالہ تاریخ میں دونوں ملکوں کے درمیان اتنی کشیدگی کبھی پیدا نہیں ہوئی۔ خلیجی جنگ کے بعد امریکی حکام اور تجزیہ نگاروں کا یہ تاثر تھا کہ کٹھ پتلی کی طرح سعودی عرب وہی کرے گا جو امریکہ چاہے گا لیکن افغان جنگ نے حالات کو یکسرتبدیل کر دیا ہے ۔ ۱۱ ستمبر کے بعد امریکہ عرب دنیا کی صرف حمایت ہی نہیں چاہتا تھا بلکہ اس کے مطالبات کا دائرہ سعودی عرب کی سیاسی ‘ دینی اور نظریاتی بنیادوں تک بڑھ گیا ہے ۔ ۷۰ سال کے طویل عرصے پر محیط امریکی سعودی تعلقات میں آج جو شگاف دکھائی دے رہے ہیں ان کے اسباب میں سب سے اہم امریکی میڈیا ‘ یہودی لابی اور وہ حکومتی حلقے ہیں جو ان تعلقات کوحسد وبغض کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔
نیویارک ٹائمزکی ‘ ۱۲ دسمبر ۲۰۰۱ء کی اشاعت میں تھا مسن فریڈ مین سعودی نظام تعلیم کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے لکھتا ہے:’’دینی مدارس اور دینی ادارے وہ مراکز ہیں جہاں سے دہشت گردوں کی قیادت اٹھتی ہے ۔اس لیے دہشت گردی کے ان چشموں کو خشک کرنا ہوگا۔ یہ نظام تعلیم یہودیوں اور عیسائیوں کے خلاف نفرت کو ہوا دیتا ہے اور ان کے خلاف لڑائی پر اکساتا ہے ۔ ‘‘
امریکی سینیٹ کی امور خارجہ کمیٹی کے سربراہ سینیٹر جوزف بیڈن ۲۴ اکتوبر ۲۰۰۱ء کو کہتا ہے کہ:’’اب وقت آگیا ہے کہ سعودی عرب کو خبر دار کر دیا جائے کہ وہ دنیا میں متشدد دینی مدارس کی پشت پناہی چھوڑ دے کیونکہ سعودی جن مدارس کی سرپرستی کرتے ہیں ان میں امریکیوں کے خلاف نفرت کے جذبات کو فروغ دیا جا تا ہے ۔ امریکہ کو چاہیے کہ وہ سعودی عرب پر واضح کر دے کہ وہ ان سرگرمیوں سے باز رہے ورنہ اس کا نتیجہ اچھا نہیں ہوگا ۔‘‘
امریکی حکام اور اسلام دشمن صہیونی لابی نے سعودی عرب کے خلاف اس مہم میں اہم کردار ادا کیا ہے ۔ ۱۱ دسمبر ۲۰۰۱ء کو امریکی یہودی تنظیموں کے رہنمائوں کے ساتھ ملاقات میں صدر جارج ڈبلیو بش نے سعودی عرب کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ’’ سعودی عرب ایک غیر جمہوری ملک ہے‘ جب کہ اسرائیل اس خطے کا واحد جمہوری ملک ہے ۔ ایریل شیرون منتخب وزیر اعظم ہے اور سعودی قیادت غیر جمہوری ہے ‘‘۔
امریکی حکام اس بات کو بھی نہیں بھولے کہ سعودی عرب ہی نے طالبان کے نظام کو بنایا اور ۱۹۹۹ء کے آغاز سے ۲۰۰۰ء کے وسط تک پاکستان اور افغانستان کو یومیہ ڈیڑھ لاکھ بیرل تیل مفت فراہم کیا جس کی وجہ سے افغانستان خانہ جنگی کے زمانے میں مضبوط ہوا اور شاید تیل کی بعض مقدار کو بیچ کر طالبان کو مسلح کیا گیا ۔ مشہور سعودی علماے دین کے بیانات بھی اہم ہیں جیسا کہ شیخ حمود بن عقلہ الشعیبی نے طالبان کی واضح حمایت کی اور امریکہ کو کافر کہتے ہوئے یہودو نصاریٰ کے ساتھ تعاون کو حرام قرار دیا ۔
سعودیہ پر امریکہ کا ایک اور الزام یہ ہے کہ ۲۵ ہزار سے زائد سعودی باشندوں نے اسلام کی خاطر بوسنیا ‘ چیچنیا اور افغانستان کی جنگ میں حصہ لیا ۔ لندن میں مقیم ایک سعودی منحرف سعد الفقیہ کہتا ہے کہ ان میں سے اکثر نے وطن واپس آکر اسلامی جماعتوں کے لیے چندہ جمع کیا اور جنگجو تیار کیے ۔
سعودی حکومت نے علماے دین کی جہاد اور افغانیوں کی مدد کرنے کی اپیلوں کو مفتی سعودیہ کے رسمی بیانات کے ذریعے اپنے تئیں روکنے کی کوشش کی ۔ بعض علما اور مفتی سعودیہ نے غیر مسلموں کے قتل کو حرام قرار دیا ہے ۔ اس بات کو فنانشل ٹائمز نے ۲۷ اکتوبر ۲۰۰۱ء کی اشاعت میں ’’ سعودی حکام بمقابلہ جہادی اپیل ‘‘ کے عنوان سے لکھا ۔ ایک حیرت انگیز بات امریکی وزارت خارجہ کے ترجمان کی طرف سے یہ سامنے آئی ہے کہ سعودی آئمہ اور خطبا کے لیے ۵ ملین ڈالر کی رقم مختص کی گئی ہے تاکہ وہ اسلام کی ’’ صحیح تعریف‘‘ پیش کریں ۔ اور مسلمانوں کو ’’ صحیح تعلیم ‘‘ دیں ۔ اسرائیل ان عرب ممالک پر جن کے ساتھ اس کے معاہدے ہوئے ہیں دبائو ڈال رہا ہے کہ ریڈیو اور ٹیلی ویژن پر ان قرآنی آیات کی تلاوت نہ کی جائے جن میں یہودیوں کا تذکرہ ہے ۔ قرآن و حدیث جو کہ تمام اسلامی تعلیمات کا منبع و سرچشمہ ہیں ان کے بارے میں یہاں تک کہا جا رہا ہے کہ یہ دہشت گردی پر اکساتے اور نفرت کو ہوا دیتے ہیں ۔ قرآن کی آیت یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَتَّخِذُوا الْیَھُوْدَ وَالنَّصٰرٰٓی اَوْلِیَآئَم بَعْضُھُمْ اَوْلِیَآئُ بَعْضٍط وَمَنْ یَّتَوَلَّھُمْ مِّنْکُمْ فَاِنَّہٗ مِنْھُمْط (المائدہ ۵:۵۱) (اے لوگو جوایمان لائے ہو‘ یہودیوں اور عیسائیوں کو اپنا رفیق نہ بنائو‘ یہ آپس ہی میں ایک دوسرے کے رفیق ہیں۔ اور اگر تم میں سے کوئی ان کو اپنا رفیق بناتا ہے تواس کا شمار بھی پھر انھی میںہے) کو دلیل بناتے ہوئے مذہبی پیشوا ہیرف کہتا ہے کہ ’’ اسلام تشدد کی دعوت دیتا ہے ‘‘ ۔
اسی دبائو کے نتیجے میں یہ بازگشت سنائی دے رہی ہے کہ سعودی عرب اور بعض دیگر عرب ممالک میں نظام تعلیم کو تبدیل کرنے کے بارے میں نئے منصوبے بنائے جا رہے ہیں ۔ فرانسیسی خبررساں ایجنسی کی ۷ جنوری ۲۰۰۲ء کی رپورٹ کے مطابق سعودی وزیر مذہبی امور الشیخ صالح بن عبدالعزیز آل الشیخ نے بند اجلاس میں آئمہ اور خطبا کی اصلاح پر زور دیا ہے۔
سعودی ولی عہدشہزادہ عبداﷲ‘ جو ملک فہد کی بیماری کی وجہ سے سعودی عرب کے حقیقی فرمانروا ہیں ‘ نے سعودی عرب کے خلاف اس امریکی مہم کو اسلام کے خلاف بغض و حسد پر مبنی قرار دیا۔ سعودی عرب کا اپنے حلیف ملک امریکہ کے خلاف حالیہ موقف ۱۱ ستمبرکے واقعات کے بعد کی بات نہیں بلکہ اس کا آغاز ایریل شیرون کے اقتدار سنبھالنے کے بعد سے ہوگیا تھا ۔ یہ سخت موقف اس وقت واضح ہو کر سامنے آیا جب اگست ۲۰۰۱ء میں فلسطینی علاقوں میں اسرائیل کی وحشیانہ کارروائی پر امریکہ نے خاموشی اختیار کی۔شہزادہ عبداﷲ نے اسرائیل کی جانب داری پر امریکہ کو بار بار متنبہ کیا اور بالآخر اپنا مجوزہ دورہ امریکہ اور صدر بش سے ملاقات کا پروگرام منسوخ کر دیا ۔
سعودی ترجمان کے مطابق فلسطین کے خلاف وحشیانہ اسرائیلی جارحیت کی وجہ سے سعودی اعلیٰ فوجی افسر نے اگست ۲۰۰۱ء میں اپنا وہ مجوزہ دورہ امریکہ منسوخ کر دیا جس میں دونوں ممالک کے مابین فوجی تعاون پر بات چیت ہونا تھی ۔ وال سٹریٹ جرنل ۲۹ اکتوبر ۲۰۰۱ء میں ‘سعودی پیغام ( ۲۷ اگست ۲۰۰۱ء) کی طرف اشارہ کرتے ہوئے لکھتا ہے کہ ’’ سعودی عرب نے بش انتظامیہ کو متنبہ کرد یا ہے کہ فلسطینیوں کے خلاف اسرائیلی جارحیت کو روکنے میں واشنگٹن کی ناکامی سعودیہ کو امریکہ کے ساتھ تعلقات کے بارے میں نظر ثانی کرنے پر مجبور کر دے گی ‘‘۔
۱۲ اگست ۲۰۰۱ء کو سعودی ولی عہد شہزادہ عبداﷲ نے امریکہ کی طرف سے اسرائیل کی اندھی حمایت پر شدید غم و غصے کا اظہار کرتے ہوئے کہا: ’’وہ سمجھتے ہیں کہ امریکہ اور سعودیہ دوراہے پر کھڑے ہیں اور امریکہ کو چاہیے کہ وہ اپنے مخلص دوستوں کا انتخاب کرے ‘‘۔ انھوں نے جارج ڈبلیو بش کو سخت لہجہ میں کہا: ’’ قوموں کی تاریخ میں ایک ایسا وقت آتا ہے جب وہ ایک دوسرے سے جدا ہوجاتی ہیں ۔ اب وقت آگیا ہے کہ امریکہ اور سعودیہ اپنے اپنے مفادات دیکھیں ۔ وہ حکومتیں جو اپنی عوام کی نبض کو نہیں پہچانتیں اور ان کے ساتھ ہم آہنگی کا مظاہرہ نہیں کرتیں ان کا حشر وہ ہوگا جو شاہ ایران کا ہوا‘‘۔
شہزادہ عبداﷲ کا یہ پیغام ہر باشعور اور غیرت مند سعودی کے جذبات و احساسات کی ترجمانی ہے ۔ کوئی بھی سعودی شہری یہ نہیں چاہتا کہ امریکہ سعودیہ تعلقات امریکی بالادستی پر قائم ہوں اور یہ بھی نہیں چاہتا کہ یہ تعلقات دوستی سے دشمنی میں تبدیل ہو جائیں بلکہ اس کی خواہش ہے کہ امریکہ کے ساتھ ان کے تعلقات کی نوعیت وہی ہو جیسی دوسرے ممالک‘ یعنی جاپان ‘ جرمنی وغیرہ کے ساتھ ہے ۔ جس میں سعودی مفادات کو اولیت دی جائے لیکن امریکہ کا اسرائیل کے بارے میں موقف دوستی کے رشتے کو ختم کر رہا ہے۔ پھر۱۱ ستمبرکے بعد سیکڑوں سعودی باشندوں سمیت ۱۷ ہزار عرب اور غیر عرب مسلمانوں کی گرفتاری جیسے اقدامات نے جلتی پر تیل کا کام کیا ہے اور ان میں سے ابھی بیسیوں سعودی شہری جیلوں میں ہیں ۔۶ ہزار عرب اور غیر عرب مسلمانوں پر امریکی امیگریشن قوانین کی خلاف ورزی کا الزام ہے اور ان کو زبردستی امریکہ سے نکالا جا رہا ہے۔ ہزاروں غیر مسلم تارکین وطن بھی امریکہ میں موجود ہیں لیکن ان کے خلاف کوئی قابل ذکرکارروائی نہیں ہو رہی ۔
اگر سعودی عوام کا رد عمل دیکھا جائے تو ہرکس و ناکس ‘ مرد و زن ‘ اساتذہ و طلبہ حتیٰ کہ سیاستدان تک اس بات پر متفق نظر آتے ہیں کہ امریکہ کا معاشی بائیکاٹ کیا جائے ۔ سعودی عوام چاہتے ہیںکہ ان کی حکومت ایسا موقف اختیار کرے جو عوامی جذبات کا ترجمان ہو اور سینوں کو ٹھنڈا کر دے ۔ سعودی عوام نے اپنے وزیر دفاع اور وزیرداخلہ کے ان بیانات کو بہت سراہا ہے کہ کسی عربی یا اسلامی ملک پر حملے کے لیے کسی ملک کو سعودی زمین استعمال کرنے کی اجازت ہرگز نہیںدی جائے گی‘ اور نہ کسی سعودی باشندے کو ہی امریکہ کے حوالے کیا جائے گا ۔
بعض لوگوں کا خیال ہے کہ سعودی عرب نے بڑی جدوجہد کے بعد امریکہ کے ساتھ اپنے تعلقات کو ایسے مقام پر پہنچا یا ہے کہ دونوں ایک دوسرے کے حلیف ہیں ۔ وہ یقینا ان کو خراب نہیں کرنا چاہے گا ۔
امریکہ بھی ان تعلقات کو کشیدہ نہیں دیکھنا چاہتا کہ اس کا مفاد بھی اسی میں ہے۔ امریکی انتظامیہ اور سعودی قیادت ذرائع ابلاغ پر کسی ایسے موقع کو ضائع نہیں کرتے جس میں اس بات پر زور نہ دیا جائے کہ سعودی امریکی باہمی تعلقات بہترین ہیں ۔ کم از کم میڈیا کی حد تک صدر جارج ڈبلیو بش اور سعودی ولی عہد امیر عبداﷲ مسلسل رابطے میں رہتے ہیں ۔ امریکی ڈپلومیٹس سعودی عرب کا دورہ کرتے ہیں اور خوش گوارماحول میں سعودی حکام سے ملاقات کرتے ہیں لیکن حالات عملاً کیا رخ اختیار کرتے ہیں ؟ امریکہ کی طرف سے اسرائیلی سرپرستی میں کتنی کمی آتی ہے ؟ عراق پر حملے کے حوالے سے امریکہ کیا طے کرتا ہے‘ اور سب سے بڑھ کر یہ کہ امریکہ دہشت گردی کے نام پر سعودی حکومت ‘ سعودی عوام ‘ سعودی روایات اور مسلم دنیا کے خلاف کیا رویہ اختیار کرتا ہے ؟ انھی سوالوں کے معلوم جواب میں مجہول مستقبل کے خدوخال نظر آتے ہیں ۔