یہ کسی سوال کا جواب نہیں۔ ۱۹۵۷ء میںمحترم خرم مراد کے اپنی والدہ کے نام امریکہ سے لکھے گئے ایک خط کا اقتباس ہے۔ ایک صورت حال پر تبصرہ ہے‘ لیکن آج بھی بہت سے سوالوں کا جواب ہے۔ اس وقت وہ ۲۴ سال کے نوجوان تھے۔ (ادارہ)
ہر اجتماعی زندگی میں بے شمار مواقع پر اختلاف رائے ہوسکتا ہے اور ہوتا ہے۔ اس کو لوگ ٹھیک کرنا نہیں جانتے۔ سوال یہ ہے کہ اگر اختلاف ہے تو عملاً ایک ہی رائے چل سکتی ہے۔اب کون سی رائے چل سکتی ہے؟ اس کے لیے کوئی طریق کار متعین ہونا چاہیے اور اس کی پابندی سب کو کرنا چاہیے۔ اگر کوئی یہ سمجھتا ہے کہ جماعت میں کوئی ایسی بات ہو رہی ہے جو قرآن و سنت کی نص صریح کی خلاف ورزی ہے تو وہ پوری جماعت کے سامنے قرآن کی آیت پیش کرے اور اگر جماعت اصلاح کے لیے تیار نہ ہو تو پھر وہ اس کام میں اپنی عدم شرکت کا اعلان کر دے۔ لیکن ایسا تو ہوگا نہیں۔
اس کے بعد قرآن وسنت کی تعبیر کا سوال ہوتا ہے۔ جب آدمی خود ایک تعبیر کرتا ہے تو اسے اتنا ہی حق دوسرے کو دینا چاہیے۔ اسی طرح تدابیر کا معاملہ ہے۔ کوئی اقدام اور کوئی تدبیر کسی شخص کی نظر میں سراسر غلط ہوسکتی ہے۔ لیکن اس کو یہ توسوچنا چاہیے کہ دوسرا پورے اخلاص سے اسے صحیح سمجھ کر کر رہا ہے۔ اب اس بات کا فیصلہ کہ کس کی بات چلے‘ عام ارکان جماعت ہی کر سکتے ہیں۔ جب ایک فیصلہ ہو جائے تو پھر سب کو سرتسلیم خم کردینا چاہیے۔ اگر کوئی آدمی ذمہ دارحیثیت رکھتا ہواور اس کی رائے کے خلاف فیصلہ ہوجائے تو وہ زیادہ سے زیادہ ذمہ داری کے منصب سے علیحدہ ہو سکتا ہے---
یہاں لوگ جب اپنی بات کہتے ہیں تو اس کے ساتھ یہ بھول جاتے ہیں کہ وہ بس یہی کہہ سکتے ہیں کہ ’’میری رائے میں…‘‘۔ اصل میں انتشار کی راہ اس میں ہے۔ اگر کوئی یہ سمجھے کہ بس یہ میری ایک رائے ہے اور دوسری رائے‘ خواہ میری نظر میںغلط ہو‘ لیکن ٹھیک ہو سکتی ہے تو اس وقت تک بات ٹھیک ہے۔ لیکن جب کوئی اپنی رائے کو قرآن وحدیث کا ناطق فیصلہ سمجھنا اور دین کی بنیاد سمجھنا شروع کر دے کہ اس کی رائے کی قربانی نہ ہونا چاہیے‘ خواہ دین کے مفاد اور اس کے مستقبل کا گلا گھونٹ دیا جائے اور اس مقدس عمارت کی بنیادیں اکھڑ جائیںجس سے اسلام کا مستقبل وابستہ ہے‘ تو پھر یہ انتشار اور فتنے کی راہ ہے۔
صحابہ کے فقہی اختلافات میں ہمارے لیے بے شمار اچھی نظیریں ہیں۔ مجھے نام یاد نہیں لیکن شاہ ولی اللہؒ نے دو صحابہ کے نام لکھے ہیں۔ ایک کے نزدیک وضو کے بعد گرم چیز کھانے سے وضو ٹوٹ جاتی تھی دوسرے کے نزدیک نہیں۔ دونوں سندحدیث سے لاتے تھے۔ جب یہ صاحب امامت کرتے جن کے نزدیک وضو نہ ٹوٹتی تھی تو دوسرے ان کے پیچھے نماز پڑھتے تھے حالانکہ ان کے مسلک کی رو سے وہ نماز نماز ہی نہ تھی۔ میں ایسے چند افراد کے بارے میں جانتا ہوں کہ اگروہ ایسے موقع پر ہوتے تو صاف انکار کر دیتے کہ نہیں صاحب‘ حدیث کی رو سے یہ نماز اب نماز ہی نہ رہی۔ امام بے وضو ہے ۔۔۔۔ پھر عراق کی زمینوں والا معاملہ ہے جس پر تین دن رات مسجد نبویؐ میں بحث ہوئی اور حضرت عمرؓ ،حضرت بلالؓ سے تنگ آگئے کہ اللہ مجھے بلال سے نجات دے لیکن جب شوریٰ نے معاملہ طے کر دیا تو سب باتیں ختم---
یہاں یہ ہوتا ہے کہ اولاً اپنی بات اس طرح پیش کریں گے کہ بس اس سے الگ ہٹ کر کوئی راہِ حق و صواب ہے نہیں۔ پھر اس میں گرم گرم جذبات کا مظاہرہ کریں گے۔ جب جذبات کی رو میں دونوں طرف سے غلطیاں ہوںگی تو اب وہ اصول کے ساتھ مل کر ایک ذاتی اختلاف بھی بن جائے گا اور پھر اس میں شکایات پیداہوں گی--- پھر اگر جماعت میں ان کے خلاف فیصلہ ہو جائے گا تو اندر اندر سلگتے رہیں گے۔ اس کے خلاف فضا اور ذہنوں کو مسموم کرتے رہیں گے--- شیطان کی قوتوں سے لڑنے کے بجائے زیادہ اہم کام یہ ہوجائے گا کہ قیادت کو بدنام کیا جائے۔ پہلے اور شکایات ہوں گی۔ اب آمریت اور جمہوریت کی شکایات ہوں گی۔ اسی طرح تو فتنوں کا آغاز اسلام میں ہوا تھا۔ حضرت عثمانؓ و حضرت علیؓ کے خلاف ذاتی اور ان کے اداے فرض کے سلسلے میں طوفان اٹھے۔ اور اس میں حضرت محمد بن ابوبکرؓ ، حضرت عائشہؓ، حضرت طلحہؓ اور حضرت زبیرؓ جیسے لوگ تھے جن کے اخلاص میں ہم جیسے لوگ کلام نہیں کرسکتے۔ لیکن اتنا جانتے ہیں کہ اگر یہ لوگ متحد رہتے تو آج اسلام کی تاریخ مختلف ہوتی۔
امریکہ میں ایک بات مجھے پسندآئی ہے کہ ہر آدمی اختلاف رائے کرتے ہوئے "in my opinion"کے الفاظ سے شروع کرتا ہے اور صرف کہتا نہیں بلکہ واقعی اس کو ملحوظ رکھتا ہے۔ شیطان کے لیے اس کے چیلے اس ڈسپلن کا مظاہرہ کر سکتے ہیں لیکن خدا کے بندے تو ’’خدا کے بندے‘‘ ٹھیرے۔ انھیں بھلا اس دنیا میں دین کے مستقبل کی کیا پرواہ۔ کچھ بھی ہو--- حق تو ’’حق‘‘ ہے‘ بس اس کو ہونا چاہیے۔ خدا اس ’’حق پرستی‘‘ اور اس’’اصول پرستی‘‘ سے محفوظ رکھے۔