ڈاکٹر محمدساعد


افغانستان ہمارا پڑوسی اسلامی ملک ہے۔ تقریباً ۲ہزار میل تک ہماری مغربی سرحد اس کے ساتھ ملتی ہے۔ اس سرحد کے دونوں جانب ایک جیسے قبائل آباد ہیں‘ جن کی آپس میں رشتہ داریاں ہیںاور جوبلاروک ٹوک آتے جاتے ہیں۔ افغانستان کے ساتھ ہمارے تاریخی‘ نسلی اور مذہبی روابط بھی ہیں۔ افغانستان میں حالات خراب ہوں گے تو لازماً اس کا اثر پاکستان پر پڑے گا۔ وہاںاقتصادی اور معاشی خوش حالی ہوگی تو اس کے اچھے اثرات سے بھی پاکستان فیض یاب ہوگا۔ افغانستان کی بیشتر تجارت پاکستان کے راستے سے ہوتی ہے۔

پاکستان نے روسی حملہ آوروں کے خلاف افغان جہاد میں بنیادی کردار ادا کیا ہے۔ روسی جارحیت کے نتیجے میں ۳۰ لاکھ سے زائدافغان باشندے ملک بدرہوئے تو پاکستان نے اسلامی اخوت کے جذبے اور کھلے دل کے ساتھ اپنے افغان بھائیوں کو خوش آمدید کہا‘ اور ان کے لیے ہر قسم کے وسائل مہیا کیے۔ ان میںسے ۱۰ لاکھ سے زائد افراد اب بھی پاکستان میں رہایش پذیر ہیں۔ اگر پاکستان انھیں بوجھ یا کسی غیرقوم کے افراد سمجھتا تو کب کا انھیں پاکستان سے نکال چکا ہوتا۔ روسی افواج کی شکست کے بعد بھی پاکستان نے افغانستان کی سیاسی صورت گری میں مددکی۔ مہاجرین کے مختلف دھڑوں میں صلح وصفائی اور مجاہدین کی حکومت کی تشکیل میں پاکستان نے کلیدی کردار ادا کیاہے۔ طالبان حکومت کو بھی پاکستان کا تعاون حاصل رہا ہے۔ طالبان کے پانچ سالہ دور حکومت میں ہماری شمال مغربی سرحدات ہر طرح کے خطرات سے محفوظ رہیں۔ امن وامان کا یہ دور امریکی اور اتحادی افواج کے حملوں نے تہس نہس کردیا۔دیکھتے ہی دیکھتے آباداور پرُرونق شہر ملبے کے ڈھیر بن گئے ۔

اس وقت افغانستان امریکی افواج کے شکنجے میں ہے۔ امن وامان کی صورتِ حال‘ سرحدی تنازعات‘ بھارتی سفارت کاروں کی بڑھتی ہوئی تخریبی سرگرمیاں ‘ معیشت کی مکمل تباہی‘ پوست کی کاشت اور بڑے پیمانے پر افیون کی تجارت‘امریکی اور اتحادی افواج کے آپریشن‘ وہ تشویشناک عوامل ہیں جن کے اثرات سے کوئی پڑوسی ملک بالخصوص پاکستان متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکتا۔ ان سے چشم پوشی نہیں کی جاسکتی ۔

طالبان کے بعد صورت حال

طالبان حکومت کوئی مثالی اسلامی حکومت نہیں تھی۔ امور مملکت کے بہت سارے شعبوںمیں ناواقفیت اورناتجربہ کاری کی وجہ سے ان سے بہت سی غلطیاں سرزدہوئیں ۔لیکن اس سے انکار نہیں کیا جا سکتاکہ ان کے دور حکومت میں ملک میں مکمل امن وامان تھا‘ ۹۰فی صد علاقہ ان کے زیر اثر تھا ۔ سڑکیں اور شاہراہیںکھلی ہوئی تھیں۔ دِن رات مسافر گاڑیاں اور ٹرک‘ ملک کے ایک سرے سے دوسرے سرے تک بغیر کسی مزاحمت یا رکاوٹ کے آجا سکتے تھے۔ مقامی سرداروں کے ٹول ٹیکس اور پرمٹ کا نظام ختم ہو چکا تھا۔ عوام نے ہر قسم کااسلحہ رضا کارانہ طور پر حکومت کے حوالے کر دیا تھا۔ امن عامہ کو تباہ کرنے والے مجرموں کوعبرت ناک سزائیں دی جاتی تھیں۔ وار لارڈز کا کوئی وجود نہیں تھا۔ پوست کی کاشت پر مکمل پابندی تھی۔لوگ اپنی مرضی اور خوشی سے زکوٰۃ اور عشر ادا کرتے تھے۔ قحط سالی کی وجہ سے ملک میں غلے کی کمی تھی لیکن اس کے باوجودبدنظمی یا لوٹ مارکے واقعات نہیں ہوتے تھے۔ بیرونی امدادی اداروں کو تحفظ حاصل تھا۔ دور دراز علاقوں میںبھی لوگوں کی جان‘ مال اورعزت وآبرو محفوظ تھی۔ ہر طبقے کو عدالت تک رسائی حاصل تھی اورانصاف ملتا تھا۔یہ سب ثمرات اور بھائی چارے کا عظیم الشان ماحول اسلامی تعلیمات کے نفاذ کی برکت سے تھا۔

اس وقت صورتِ حال یہ ہے کہ پورا ملک لسانی‘ نسلی ‘ قبائلی‘ شہری ‘ دیہاتی ‘ امیر وغریب جیسے تعصبات میں مبتلا ہے۔ پشتون قبائل جو شمالی صوبوں میں عرصہ درازسے آباد تھے‘ اُنھیں ملک بدر کیا گیاہے۔ ان کی کل تعداد ۶۰ہزاربتائی جاتی ہے اور وہ اس وقت کابل کے مضافات میں عارضی کیمپوں میں قیام پذیر ہیں۔ اسی طرح کابل ‘ مزارشریف اور ہرات کے شہری علاقوں میں مکانات کے جائز مالکان کوزبردستی بے دخل کیا گیاہے۔طالبان سے پہلے مختلف ادوار میں قتل و غارت گری‘ لوٹ مار اور جھگڑا وفساد کابازار گرم رہا مگر طالبان کے دور میں عدل وانصاف کی وجہ سے یہ تمام تنازعات اور قبائلی دشمنیاںخوش اسلوبی سے طے ہونے لگیں۔اس وقت متحارب خاندانوں اورقبیلوں کو انصاف دِلوانا‘ اور ان کے درمیان صلح صفائی کروا کر اسلامی بھائی چارے کا قیام وقت کی اہم ضرورت ہی نہیں بلکہ اس کے بغیر افغانستان میں امن وامان قائم ہوسکتاہے نہ ترقیاتی کام شروع کیے جاسکتے ہیں۔اس وقت افغانستان میں بیوہ خواتین ‘ یتیم بچے‘معذوراور بے سہارا افراد لاکھوںکی تعداد میں ہیں ۔اِن کی گزربسرامدادی اداروں کی مدد اور تعاون پرمنحصر ہے۔

امن و امان کی حالت

افغانستان میں امن وامان کی صورت حال کا اندازہ اس سے لگایاجا سکتا ہے کہ افغانستان کے چار صوبوں‘ یعنی نیمروز‘ اروزگان ‘ ہلمند اور زابل میں عالمی ادارے اور تمام این جی اوز کے دفاتر بندکر دیے گئے ہیں اوران کی ساری امداد ی سرگرمیاں معطل ہیں۔اقوام متحدہ کے سکیورٹی کوارڈینیٹر نے اس علاقے کو ہائی رسک زون قرار دِیا ہے جس کی بنیادی وجہ یہاں کے جنگی سردار ہیں۔ کابل شہر سے دورکے علاقوں میں ان کا راج ہے۔ ان کی اپنی فوج ہے۔جس کی تعداد ایک اندازے کے مطابق ۵لاکھ سے زیادہ ہے۔ان کی اپنی جیلیں ہیںجن میں سیکڑوں پاکستانی عرصہ دو سال سے سڑ رہے ہیں اور انھیں حامدکرزئی کے اعلانات کے باوجود رہا نہیں کیا گیا۔مرکز کا کنٹرول براے نام ہے حتیٰ کہ ٹیکس وصولی مقامی جنگی سردار اپنی قوت بازو سے خود کرتے ہیں۔ ان علاقوں میں سکول ہیں نہ ہسپتال‘ سڑکیں ہیںنہ بجلی کا انتظام۔

یہی جنگی سردار امریکی افواج کی پشت پناہی اورسرپرستی میں منشیات کا کھلم کھلا کاروبار کرتے ہیں۔ ان کو بھارت ‘ایران اورروس کے زیراثر وسطی ایشیائی ممالک کی آشیر بادبھی حاصل ہے۔ اِن جنگی سرداروں ہی کی مدد سے امریکا نے طالبان حکومت کی اینٹ سے اینٹ بجائی ہے اور اب انھی کے تعاون سے مجاہدین کو کنٹرول کیا جارہا ہے۔ اِن کے زیر اثر علاقے ایران‘ ترکمانستان ‘ تاجکستان اور ازبکستان سے ملے ہوئے ہیں۔ اس لیے اپنے معاملات براہ راست امریکا اور وسط ایشیا کے ممالک سے طے کرتے ہیںاور دوسرے ممالک سے فوجی اسلحہ اور سازوسامان بھی آسانی سے حاصل کر سکتے ہیں۔ ان علاقوں میں حکومت کے واضح احکامات کے باوجود وسیع پیمانے پرپوست کی کاشت ہوتی ہے۔ اس کا اندازہ اس سے لگایا جاسکتا ہے کہ۲۰۰۲ء میں ۳۴۲۲ ٹن افیون پیدا ہوئی جو دنیا کی کل افیون پیداوار کا۷۵ فی صدہے۔یہ سردار اپنے اپنے حلقۂ اثر کو بڑھانے کے لیے ایک دوسرے سے باہم برسرپیکار رہتے ہیں۔ عرصہ دو سال سے شمالی اتحاد کے جمعیت اسلامی کے جنرل عطا اور جنبش ملی کے جنرل عبدالرشید دوستم وقفے وقفے سے لڑ تے رہے ہیں جن میں ہزاروں بے گناہ شہری ہلاک ہوئے ہیں۔

بے اطمینانی کی بڑی وجہ افغانستان میں طالبان اور ان کے حامی عناصر کے خلاف امریکی اور افغان فوج کا ظالمانہ اور سفاکانہ آپریشن ہے۔ڈیڑھ سال قبل امریکی بی-۵۲ طیاروں نے ایک قافلے پر بمباری کی جو کرزئی کو مبارکباد دینے کے لیے کابل جا رہا تھا۔گذشتہ سال ایک بارات پر فائرنگ کے نتیجے میں۴۸ بے گناہ افراد شہید ہوئے۔ نومبر میں صوبہ کنٹر کے سابق گورنر غلام ربانی کے گھر پر امریکی طیاروں نے بمباری کی جس کے نتیجہ میں آٹھ افراد ہلاک ہوئے۔ اس واقعے سے معاشرے کا بڑا طبقہ امریکی اور اتحادی افواج کا مخالف ہو گیاہے اور عام لوگ بھی امریکا سے نفرت کرنے لگے ہیں۔

امریکہ کے خلاف متحدہ محاذ کا قیام

طالبان حکومت کو ختم ہوئے دو سال سے زیادہ عرصہ گزرا ہے لیکن اس کے اثرات اب بھی افغانستان کے طول وعرض میں دیکھے جا سکتے ہیں۔ طالبان ایک غیر ملکی ٹولے کی حکومت نہیں تھی بلکہ عوام میں اُن کی جڑیںتھیں۔ اس کواب بھی افغانستان کی کثیر آبادی کی تائید اور حمایت حاصل ہے۔ اس وقت امریکی افواج کی مزاحمت صرف طالبان نہیں کر رہے ہیںبلکہ اس میں بہت ساری جہادی تنظیمیں شامل ہیں۔ گلبدین حکمت یار اور مولوی محمد یونس خالص نے کھلم کھلا امریکا کے خلاف اعلانِ جہاد کیا ہے۔ اب امریکا کے خلاف ایک متحدہ محاذ ــ’’مجاہدین اسلام‘‘ کے نام سے معرض وجود میں آیا ہے جو امریکی اور اتحادی افواج کو’’صلیبی افواج‘‘اور موجودہ جنگ کو’’صلیبی جنگ ‘‘کا نام دیتا ہے۔ مجاہدین نہ صرف پاکستان کے ملحق سرحدی علاقے میں بلکہ پورے افغانستان میں گوریلا جنگ لڑ رہے ہیں۔ غیر ملکی خبررساں ایجنسیاںصرف کابل تک محدود ہیں۔اُن کے نامہ نگار عدمِ تحفظ کی وجہ سے کابل شہرمیں بھی آزادی سے گھوم پھر نہیں سکتے۔ اس لیے دور دراز صوبوں میں مجاہدین کی مزاحمتی کاروائیاںمنظر عام پر نہیںآتیں۔ رمز فیلڈکے دور ہ کابل کے دوران باگرام ائیر بیس راکٹوں کا نشانہ بنا۔ اسی طرح کابل میں لویہ جرگہ اجلاس کے قریب راکٹ گرے۔ کرزئی حکومت یہ تاثر دے رہی ہے کہ افغانستان میںطالبان کا کوئی وجود نہیں ہے‘یہ ملک کے سرحدی علاقے میں پاکستان کی طرف سے دہشت گردی ہے۔

اس وقت صورت حال یہ ہے کہ پکتیکا اور قندھار پر مجاہدین کا عملاً قبضہ ہے۔ افغان اور امریکی افواج ان علاقوں میں زمینی آپریشن سے گریز کر رہی ہیںجو اس بات کی دلیل ہے کہ افغان مجاہدین جوعرصہ ۲۰سال سے گوریلا جنگ کا تجربہ رکھتے ہیںان کے مقابلے میں امریکی فوج کے کمانڈو بالکل نوآزمو اور ناتجربہ کارکھلاڑی ہیں۔یہ بات اب کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ہے کہ افغان عوام بلکہ سارے عالم اسلام کی ہمدردیاںطالبان کے ساتھ ہیں۔ ان علاقوں میں مجاہدین کی مقبولیت کا اندازہ اس سے لگایا جا سکتا ہے کہ دو سال مسلسل تلاش‘گولہ باری اور بمباری کے باوجود اسامہ بن لادن یا ملا عمر کا کوئی سراغ نہیں لگایا جا سکا۔ یہ بھی یاد رہے کہ بش حکومت نے اسامہ بن لادن کی گرفتاری کے لیے ۵۰ لاکھ ڈالر انعام مقرر کر رکھا ہے۔

اسامہ بن لادن یا ملا عمرکے نام سے جتنے اعلانات کیے جا رہے ہیں وہ سارے کے سارے فرضی ہیںاور حقائق کے ساتھ ان کا کوئی تعلق نہیں ہے۔ ان کا واحد مقصد یہ ہے کہ طالبان کی تلاش کے بہانے امریکی اور اتحادی افواج کو افغانستان میں رہنے کا بہانہ ہاتھ آ سکے اور امریکی عوام کے لیے افغانستان پر حملے اور مظالم کاکوئی اخلاقی جوازپیش کیا جاسکے۔  برطانیہ اور امریکا میں عراق کے مہلک اور تباہی والے ہتھیاروں کی موجودگی کے جھوٹ کا پول کھل گیاہے۔نہ صرف ان ممالک کے عوام بلکہ باقی دنیا بھی اس حقیقت سے آگاہ ہو چکی ہے کہ عراق پر مہلک ہتھیاروں کا بے بنیاد الزام‘ حملے کے لیے صرف ایک بہانہ تھا۔ وقت کے ساتھ ساتھ ورلڈ ٹریڈ سنٹر پر حملے کی حقیقت بھی سامنے آئے گی اورمعلوم ہو جائے گا کہ اس کے پیچھے اصل محرکات کیا تھے اور اس میں ملوث افراد کون تھے۔

کرزئی حکومت کی الزام تراشی

یکم اکتوبر ۲۰۰۳ء کو حامد کرزئی نے الزام لگایا کہ پاکستان کے ۱۰ ہزار دینی مدارس کے طلبہ‘ مجاہدین کی مدد کر رہے ہیں۔ ۶اکتوبر کو انھوں نے اعلان کیا کہ پاکستان کے سیاسی پاورسٹرکچر کے۴۰‘۵۰ افراد افغان مخالف سرگرمیوں میں ملوث ہیں اور مطالبہ کیاکہ دینی مدارس پر مکمل پابندی عاید کی جائے۔ اس لیے کہ ’’انتہا پسندی‘‘ اور ’’دہشت گردی‘‘کی لہر پاکستان کے راستے سے افغانستان میں داخل ہو رہی ہے۔ اس طرح حامد کرزئی اندرون ملک بدامنی اور بے چینی کو پاکستان کے کھاتے میں ڈال رہے ہیں۔

حقیقت یہ ہے کہ امریکی افواج کا افغانیوں کے ساتھ معاملات طے کرنے کایہ پہلا تجربہ ہے۔ ان کو قائل کیا جارہا ہے کہ پاکستان کے قبائلی علاقہ جات سے مجاہدین دراندازی کرتے ہیں۔اس وقت صورت حال یہ ہے کہ امریکی احکامات پر پاکستانی فوج کے ۷۰ ہزار جوان پاک افغان سرحد پر مامور ہیںاور مختلف دروںاور راستوں کی نگرانی کر رہے ہیں۔ ان کا کام بظاہر یہ ہے کہ سرحد پر مجاہدین کی آمدروفت پر کڑی نگاہ رکھیں۔ اسی سلسلے میں پاکستان کی فوج نے مہمند ایجنسی کے برادرہ‘ انارگئی اور یعقوبی کنڈائو کے علاقوں میں فوجی چوکیاں تعمیرکیں۔ ننگرہار کے کمانڈر حضرت علی کے حامی ملیشیا کے اہل کاروں نے ان چوکیوں پر بلااشتعال فائرنگ کی‘ راکٹ لانچر اور مارٹر گنیں بھی استعمال کیں۔چونکہ سرحد کی نشان دہی زمین پر boundary pillars سے نہیںکی گئی ہے لہٰذا سرحد کی اصلی حدودمتعین کر نا مشکل کام ہے۔

اس وقت بھارت نے افغانستان میںآٹھ قونصل خانے کھولے ہیں۔ان میں قندھار اور جلال آباد کے قونصل خانے پاکستان کے خلاف نفرت پھیلانے اور تخریب کاری کے گڑھ بنے ہوئے ہیں۔جلال آباد کے بھارتی قونصل خانے میں را کے جو ایجنٹ متعین کیے گئے ہیں ان کی اطلاع پر کابل میں خبر پھیلائی گئی کہ پاکستانی فوج مہمند ایجنسی میں درہ یعقوبی کے قریب کئی میل تک افغانستان کے اندر گھس آئی ہے۔ اس کے خلاف کابل اورمزار شریف میں احتجاجی جلوس نکالے گئے ۔ صدر پرویز مشرف کے ایک بیان نے جلتی پر تیل کا کام کیا جو انھوں نے کرزئی حکومت کے متعلق پیرس میں دیا تھا۔ ۶جولائی کو کابل میں بین الاقوامی اطلاعتی مرکز کے افتتاح کے موقع پر حامد کرزئی نے اس کا جواب دیتے ہوئے کہا کہ پاکستان اپنے پائوں چادر سے باہر نہ نکالے اور بین الاقوامی برادری سے مطالبہ کیا کہ وہ پڑوسی ممالک کے ذریعے افغانستان کے مستقبل کے فیصلوں کا سلسلہ بند کر دیں۔

اس کے دو دن بعد کابل شہر میں پاکستان کے خلاف ایک مظاہرہ کیا گیا۔ مظاہرین کی تعداد ۵ہزار کے قریب تھی جس کی قیادت افغانستان سٹیٹ بنک کے گورنر انوارالحق احد کر رہے تھے جو نیشنل اسلامک فرنٹ کے سربراہ پیر سیدعلی گیلانی کے داماد ہیں۔ وہ عرصۂ دراز تک امریکا میںمقیم رہے ہیں۔ کرزئی حکومت قائم ہونے کے بعد واپس کابل آئے ہیں۔ اس کے علاوہ کئی دیگر حکومتی نمایندوں اور سرکاری اہل کاروں نے بھی اس مظاہرے میں حصہ لیا۔ مظاہرین نے جو ڈنڈوںسے لیس تھے‘ پاکستانی سفارت خانے پر حملہ کیا ۔تمام گاڑیوں‘ کمپیوٹروں ‘ فرنیچر اور ریکارڈ کو تباہ کیا  اور عمارت کو بھی شدید نقصان پہنچایا۔امریکی اور انٹرنیشنل سیکورٹی ایڈمنسٹریٹو فورس (ISAF)اور سرکاری انتظامیہ اس پوری کارروائی کو تماشائی نگاہوں سے دیکھتی رہی ۔ افغان پہرہ داروں نے بھی جن کی ذمہ داری سفارت خانے کی حفاظت تھی‘ حملہ آور جلوس کے ساتھ مل کر سفارت خانے کو نقصان پہنچایا۔ کابل کے علاوہ مزار شریف‘ پغمان اور قندھار میں بھی احتجاجی جلسے اور مظاہرے ہوئے جن میں انتظامیہ کے اعلیٰ عہدیداران کے علاوہ صدر کرزئی کے بھائی احمد ولی کرزئی نے بھی شرکت کی۔

اگست کے آخری ہفتے میں ۲۰ سال کے بعدپہلی مرتبہ سرکاری طور پر یوم پختونستان منایا گیا۔ اس سلسلے میں منعقدہ ایک تقریب میں کرزئی کے وزرا نے شرکت کی۔ اس اجلاس میں پاکستانی سرحدی علاقے پرظاہر شاہ کے دور کے افغانی دعوئوں کا اعادہ کیا گیا۔یہ بھی کہا گیاکہ جو معاہدہ ۱۸۹۳ء میں برطانوی حکومت کے نمایندے مارٹیمرڈیورنڈ اور امیر عبدالرحمن کے درمیان طے ہوا تھا اس کی مدت ۱۰۰سال کی تھی اس لیے اس کی میعاد ۱۹۹۳ء میں ختم ہو چکی ہے۔ یہ مطالبہ بھی کیا گیا کہ وہ علاقے جو افغانستان کا حصہ تھے اور طاقت کے بل پر انگریزوں نے چھینے تھے وہ واپس کیے جائیں۔ اس قِسم کی بلیک میل سے ماضی میں بھی پاکستان اور افغانستان کے تعلقات متاثرہوئے ہیںاس میں بھارت کی شہ پر ظاہر شاہ نے منافقانہ کردار ادا کیا جس کے عوض اُس کو بھارت کی طرف سے ہر سال بھاری رقوم ملتی رہیں۔

اس وقت پشتون آبادی افغانستان کا سب سے زیادہ مظلوم طبقہ ہے۔ افغانستان کے پشتون قبائل پاکستان کے احسانات کے معترف ہیں۔ ان میں سے لاکھوں افراد پاکستان میں پیدا ہوئے ہیںجوافغانستان اور پاکستان کے درمیان کوئی فرق محسوس نہیں کرتے اور چاہتے ہیں کہ دونوںممالک کے درمیان کوئی سرحد نہ ہو۔ لیکن اس کے ساتھ ساتھ وہ صدر پرویز مشرف کی افغان پالیسی سے شدیداختلاف رکھتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ امریکا کو اگر پرویز مشرف کی مددحاصل نہ ہوتی توآج افغانستان تباہی اور بربادی کے کھنڈرات کا ڈھیر نہ ہوتا۔

اس میں شک نہیں ہے کہ پاکستان‘ افغانستان کی تعمیر نو اور ترقی میں ایک اہم کردار ادا کرسکتا ہے۔ خوراک ‘ روزمرہ استعمال کی اشیا ‘ترقیاتی منصوبوں کے لیے سیمنٹ اور سریا یہا ں سے جاتا ہے۔ پاکستان کے پیشہ ور ماہرین‘ مواصلات‘ تعلیم اور صحت کے میدان میں اہم کردار ادا کر سکتے ہیں۔ لیکن کابل میں امریکی انتظامیہ نہیں چاہتی کہ شمالی اتحادکو ناراض کر کے پاکستان کو ملک کی تعمیر نو میں کوئی اہم اور قابل ذکر کردار ادا کرنے کا موقع دیا جائے۔

پاکستان کی افغان پالیسی خود بھی تذبذب کا شکار ہے ۔ بھارت نے شروع میں موقع ملتے ہی ۲۰۰ بسوںکا بیڑا اورآریانہ ائیرلائینز کے لیے ہوائی جہازبھیج دیے جس سے بیرونی ممالک کے ساتھ اُن کے ہوائی رابطے استوارہوئے ۔ بسوں کی وجہ سے اندرون ملک روڈ ٹریفک بحال ہوئی۔ ۲سال کی سوچ بچارکے بعد پاکستان نے بسوں ‘ اور ٹرکوںکی امداد کا جواعلان کیا ہے وہ بھارتی اثرورسوخ کو زائل کرنے میں مدد گار ثابت نہیں ہو سکتا۔ یہ امداد پہلے سال ہی فوراًدی جاتی تو اس کے خوش گوار اثرات مرتب ہوتے۔

افغان آئین اور صدارتی طرزانتخاب

بون معاہدے کے تحت دسمبر کے مہینے میں لویہ جرگہ کا اجلاس منعقد ہوا‘جو صرف ۱۰ دِن کے لیے بلایا گیا تھا‘ لیکن اس کی کارروائی ۲۲ دِن تک جاری رہی۔ لویہ جرگہ کے ۵۰۲ممبران میں سے ۵۰حامد کرزئی کے نامزد کردہ تھے۔ ان میں صبغت اللہ مجددی بھی شامل تھے جو لویہ جرگہ کے چیئرمین منتخب ہوئے۔ ۱۶۰شقوں پر مشتمل آئین کا مسودہ صدر کرزئی کے نامزہ کردہ ۳۵ ارکان کے کمیشن نے تیار کیا تھا لیکن پس پردہ اس کی تیاری میں امریکی سفیر زلمے خلیل زادہ اور اقوام متحدہ کے سکریڑی جنرل کے خصوصی نمایندہ براے افغانستان لخدار ابراہیمی نے کلیدی کردار ادا کیاتھا۔ بون معاہدے کے مطابق کوئی بھی جنگی سردار جرگہ کارکن بننے کااہل نہیں تھا لیکن اس کے باوجود اس میں جنرل عطا‘ عبدالرشید دوستم‘ کمانڈر اسماعیل سمیت سب جنگی سرداروں نے شرکت کی۔ مسودے میں صدارتی نظام کی سفارش کی گئی تھی۔ یہ امریکا کی خواہش پر شامل کیا گیا تھا اس لیے کہ ا س میں صدر کو کابینہ کے وزرا‘ صوبوں کے گورنروں‘ عدلیہ کے ججوں ‘ فوج میں اہم عہدوں کی تعیناتی کا اختیار دیا گیاتھا۔مزید یہ کہ صدر افواج کا سربراہ بھی ہوگا۔ لویہ جرگہ کا زیادہ تر وقت اس بات پر صرف ہوا کہ ملک کا نظام پارلیمانی ہو یا صدارتی۔ شمالی اتحاد کے ۲۰۰ارکان پارلیمانی نظام کے حامی تھے اور اس کا مسلسل مطالبہ کرتے رہے اور ایک موقع پر انھوں نے اجلاس سے واک آؤٹ بھی کیا۔ لیکن بالآخر وہی ہوا جو امریکا کی مرضی تھی۔ لویہ جرگہ نے بالاتفاق صدارتی نظام کی منظوری دے دی۔ یہ آئین چند نمایشی شقوں کو چھوڑ کر ایک مکمل سیکولر آئین ہے۔ آئین میں کہا گیا ہے کہ حکمرانی کا حق صرف عوام کوہے۔ اس میں کہیں بھی شرعی قوانین کے نفاذ کا ذکر نہیں ہے۔البتہ پاکستان کے طرز پر ملک کا نام اسلامی جمہوریہ افغانستان ہوگا۔یہ پہلا آئین ہے جس میں شاہ کا ذکر نہیں ہے البتہ صدر کو وہ سارے اختیارات دیے گئے ہیں جو ۱۹۶۴ء کے آئین میں ظاہر شاہ کو حاصل تھے ۔

حامد کرزئی نے اجلاس کے شروع میں اس بات کا ذکر کیاکہ اگر ملک میں صدارتی نظام رائج نہ کیا گیا تو وہ جون کے انتخابات میں حصہ نہیں لیں گے۔ اس کے لیے انھوں نے ہرطریقے سے جوڑ توڑ کی کوشش کی۔ سرکاری فنڈاوربیرونی امداد کے ایک بڑے حصے کو بے دردی سے اس مقصدکے لیے استعمال کیا گیا۔اور بالآخر ارکان کی اکثریت کو ہمنوا بنا نے اور خریدنے میں کامیاب ہوئے۔ افغانستان میں پارلیمانی نظامِ حکومت اس خطے میں امریکی عزائم کی تکمیل میں رکاوٹ ہے اسی لیے امریکی انتظامیہ فردِ واحد کی وساطت سے افغانستان کے اُمور کو چلانا چاہتی ہے جس کے لیے کرزئی پہلے سے اُن کے اُمید وار ہیں۔ ان کے انتخاب کو یقینی بنانے کے لیے دستور میں مناسب دفعات رکھی گئی ہیں۔امریکا نے اپنے حلقہ اثر والے ممالک میں بھی فردواحد کی حکومتوں کو رواج دے رکھا ہے کیونکہ اس طرح وہ اپنے مفادات کا تحفظ آسانی سے کرسکتاہے۔ عام طور پر فردِ واحد سے لین دین یااس کو اقتدار سے ہٹاناآسا ن کام ہوتا ہے۔ افغانستان میں مضبوط صدارتی طرز حکومت اس مقصد کے تحت قائم کیا گیا ہے تاکہ افغان اُمور کو واشنگٹن کی مرضی اور پسند کے مطابق چلانے میں کوئی رکاوٹ نہ ہو۔

صدیوں سے افغانستان کا نظم ونسق شہنشاہیت‘ قبائلی نظام اور شرعی نظام کے تین ستون پر قائم رہا ہے۔ آئین میں ان تینوں کو نظر انداز کیا گیا ہے اور باہر سے ایک نیا نظام مسلط کیا جا رہا ہے جس کو افغان عوام پوری طرح سے سمجھتے ہیں نہ موجودہ حالات میں اس پر عمل درآمد کی کوئی توقع اوراُمید ہے۔نئے آئین کے مطابق مسلح گروپوں ‘ قومیتوں ‘ فرقوں اور لسانی بنیادوں پر قائم جماعتوں کے ملکی سیاست میں حصہ لینے پر پابندی ہو گی ۔ اہم سوال یہ ہے کہ محمد فہیم ‘ عبداللہ عبد اللہ‘ عبدالرشید دوستم ‘ کمانڈر عطا ‘ حضرت علی اور اسماعیل خان جو اس قانون کی زد میں آتے ہیں کیا واقعی ملکی سیاست میں حصہ نہیں لے سکیںگے؟ آئین میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ خارجی لوگوں کو جایداد خریدنے کی اجازت نہیں دی جائے گی ۔ پاکستان کے پشتون قبائل جوسرحد کے دونوں طرف آباد ہیں اور تجارتی اغراض کے لیے ان کا افغانستان آنا جانا روز کا معمول ہے‘ قندھار وجلال آباد میں ان کی جایدادیں ہیں۔ اُن پر یہ دفعہ کس طرح لاگو کی جا سکے گی؟ یہ بھی سوچنے کی بات ہے کہ اس وقت جب کہ کابل میونسپلٹی کی حدود سے باہر جنگی سرداروں کا راج ہے‘ ان حالات میں دُور دراز علاقوں میںآزادانہ انتخابات کیسے منعقد کیے جاسکیں گے اور جو پارلیمان معرض وجود میں آئے گی وہ کس حد تک عوام کی حقیقی نمایندہ ہوگی۔ یہ اہم سوالات ہیں جن پر افغان دانش وربہت زیادہ فکر مندہیں۔

تعمیرِنو کا عمل

افغانستان کی تعمیر نو کی رفتار بہت سست ہے۔ اس کی ایک وجہ بون معاہدے کے دستخط کنندگان کی افغانستان کی ترقیاتی کاموں میں عدم دل چسپی ہے۔ جاپان کے شہرکیا ٹومیں اربوں ڈالر کی امدادی رقوم کے اعلانات کے باوجود ترقیاتی منصوبوں کے لیے مطلوبہ فنڈ فراہم نہیں کیا جارہا ۔ اس بات کا اندازہ اس سے لگایا جا سکتا ہے کہ ۱۱ستمبرکے بعد امریکا نے افغانستان میں اپنی افواج پر ۱۱ارب ڈالر خرچ کیے‘ جب کہ تعمیر نو کے کاموں پر صرف۹۰کروڑ صرف ہوئے ہیں۔ امریکی اوراتحادی افواج کی سرگرمیاںاس وقت اسامہ کو پکڑو(Catch Osama) مہم پر مرکوزہیں۔ پاک افغان سرحد پرمتعین ۷۰ہزار پاکستان افواج کو بھی مبینہ طورپر اسی مقصدکے لیے استعمال کیا جا رہا ہے۔ پیش نظر یہ ہے کہ امریکی صدارتی انتخابات جیتنے کے لیے صدر بش کے ہاتھ کوئی ٹرافی آ جائے۔ دوسری وجہ امن وامان کی خراب صورت حال ہے جس کی ساری     ذمہ داری امریکا پر عاید ہوتی ہے۔

امن وامان بحال کرنے کے لیے ضروری ہے کہ مجاہدین کے خلاف فوجی آپریشن فوراً بند کیا جائے ۔ غیر ملکی افواج سے ملک کو نجات دلائی جائے۔ ان کے ہوتے ہوئے امن وامان کی بحالی ہو سکتی ہے نہ ترقیاتی کاموں کا آغاز کیا جا سکتا ہے۔ اقوام متحدہ کے زیر نگرانی اسلامی ممالک پر مشتمل فوج ملک میں تعینات کی جائے اور اس کے زیراہتمام ملک کی دستور ساز اسمبلی کے انتخابات کرائے جائیںاور اس کو آئین مرتب کرنے کا کام سونپا جائے۔ ملک میں عام معافی کا اعلان کیا جائے۔افغان جنگی سرداروں اور امریکا کے زیر حراست افراد کو رِہا کیا جائے‘ جنگی سرداروں کی     بیخ کنی کی جائے۔ پوست کی کاشت اور افیون کی تجارت اورہر قسم کے اسلحے پر مکمل پابندی عاید کی جائے۔جن علاقوں سے مختلف نسلی گروہوں کو بے دخل کیا گیا ہے اُن کی اپنے علاقے میں آباد کاری کا بندوبست کیا جائے اور ان سے چھینے ہوئے مکانات اور جایداد واپس دلائی جائے۔

امید کی جاتی ہے کہ ان اقدامات کے بعد افغانستان میں قیامِ امن میں پیش رفت ہوگی اور پہاڑوں جیسی سربلند اور سخت جان قوم ٹھوس منصوبہ بندی کر کے اپنے بہتر مستقبل کے لیے  پیش قدمی کر سکے گی۔

۸ اکتوبر ۲۰۰۱ء کو امریکہ اور اس کی اتحادی افواج نے افغانستان پرحملہ کر کے مغربی تہذیب وتمدن کی تاریخ میں ایک نہایت ہی سفاکانہ اور شرم ناک باب کا اضافہ کیا ہے۔ افغانستان میں طالبان نے شریعت اسلامی پر مبنی جو حکومت قائم کی تھی گو اس میں بہت سی خامیاں تھیں لیکن اس کے باوجود یہ اسلامی اقدار کی علم بردار تھی‘ جس کی اپنی آزاد خارجہ پالیسی تھی‘ جو اصولوں پر سودے بازی کے لیے تیار نہیں تھی‘ جو مالی غربت اور مشکلات کے باوجود کسی سے امداد کی بھیک نہیںمانگتی تھی اور جس نے ثابت کیا تھا کہ غربت اور افلاس کے باوجود اگر کوئی ریاست چاہے تو عزت و وقار سے اقوام عالم میںزندہ رہ سکتی ہے۔ افغانستان کی  یہ آزاد اور جری پالیسی مغربی ممالک کے تیار کردہ عالمی نقشے میں کہیں بھی فٹ نہیں ہورہی تھی۔ امریکی حکام طالبان کی حکومت کو مغربی تہذیب کے لیے خطرہ اور ایک بڑا چیلنج سمجھتے تھے۔ اس لیے ۱۱ ستمبر ۲۰۰۱ء کے عالمی تجارتی مرکز کے واقعے میں اسامہ بن لادن کو ملوث کرتے ہوئے انھوں نے طالبان کی فوج اور نہتے افغان عوام کے ساتھ خون کی ہولی کھیلی۔ بقول صدر بش یہ اکیسویں صدی کی صلیبی جنگ کا آغاز تھا۔ لیکن اس کے پس پردہ سیاسی اور اقتصادی مقاصد بھی کارفرما تھے۔

وسط ایشیا کے مسلمان ممالک جو روسی قبضہ استبداد سے آزاد ہو چکے ہیں‘ بے شمار قیمتی معدنیات اور وسائل سے مالا مال ہیں۔ ان کے گیس اور پٹرولیم کے ذخائر پر ایک عرصے سے امریکی حکومت کی لالچی نگاہیں لگی ہوئی تھیں۔ یہ معدنی وسائل اُس وقت تک استعمال میں نہیں لائے جاسکتے تھے جب تک کہ ان کو    بحیرہ عرب تک لانے کے لیے خاطرخواہ مواصلاتی انتظام نہ کیاجائے۔ اس میں افغانستان کی طالبان حکومت ایک اہم رکاوٹ تھی جسے دُور کرنے کے بعد ہی ان معدنی ذخائر کے منصوبے کو عملی جامہ پہنایا جا سکتا تھا۔  ۱۱ستمبر کے واقعے کو بہانہ بنا کران عزائم کی تکمیل کے لیے امریکہ نے افغانستان پرحملہ کیا۔ افغانستان کے  شمالی اتحاد نے امریکی حملے میں بھرپور مدد و تعاون کیا اور امریکی افواج کے ہراول دستے کا غدارانہ کردار ادا کیا۔ اہل پاکستان کی بدنصیبی کہ حکومت پاکستان نے بھی اس میں امریکہ کی ہر طرح کی حمایت و مدد کی۔ دومہینے تک افغانستان کے شہر اور دیہات امریکی افواج کی بم باری اورگولہ باری کا نشانہ بنے رہے۔  یہ سفاکانہ حملے رمضان شریف کے مہینے میں بھی جاری رہے۔ عید کے دن بھی بے گناہ نمازیوں کوشہید کیاگیا۔ اس حملے کے نتیجے میں ۴ ہزار سے زائد شہری شہید ہوئے۔ ہزاروں جنگی قیدیوں کو بے دردی سے قتل کیا گیا۔ ہسپتال‘ اسکول‘ سڑکیں اور پُل مسمار کیے گئے۔ افغانستان کے اکثر ہوائی اڈوں کو ناکارہ بنایا گیا۔ آریانہ افغان کے طیارے تباہ کیے گئے۔ کابل‘ قندھار‘ جلال آباد کے شہرملبے کا ڈھیر بن گئے۔

دسمبر کے مہینے میں اقوام متحدہ کے زیرنگرانی جرمنی کے دارالحکومت بون میں شمالی اتحاد‘ روم اور پشاور گروپ کے نمایندوں‘ افغان دانش وروں اور جنگجو کمانڈروں کے مذاکرات ہوئے۔ حامد کرزئی کو عبوری حکومت کا چیئرمین مقرر کیاگیا۔ یہ بھی طے پایا کہ چھ مہینے کے بعد افغان لویہ جرگہ کا اجلاس منعقد ہوگا جس میں آیندہ دو سال کے لیے نئی حکومت تشکیل دی جائے گی۔ جون کے وسط میں لویہ جرگہ کا اجلاس کابل میں طلب کیا گیا۔ اس میں ۱۵۰۱ منتخب افراد کے علاوہ ۷۴ جنگجو کمانڈروں نے بھی شرکت کی جو بون معاہدے کی سراسر خلاف ورزی تھی۔ لویہ جرگہ کے اجلا س میں صدر بش کے خصوصی معاون زلمے خالدزاد نے امریکی مفادات کے تحفظ کے لیے بادشاہ گر کا کردار ادا کیا۔

کرزئی عبوری حکومت کے صدر منتخب ہوئے۔ پنج شیری تاجک اتحاد کے عبداللہ کو وزیرخارجہ اورقاسم فہیم کو وزیردفاع مقرر کیاگیا۔ وزارت داخلہ کو یونس قانونی سے لے کر تاج محمد وردک کے حوالہ کیا گیا لیکن وزارت داخلہ کوبدستور تاجک گروہ کے زیراثر رکھنے کے لیے سابق وزیرداخلہ یونس قانونی کوصدر کا مشیر براے اُمور داخلہ مقرر کیا گیا۔ اس طرح کرزئی کابینہ کی اہم وزارتوںمیں کوئی قابل ذکر تبدیلی نہیں لائی گئی۔لویہ جرگہ کی آڑ میں امریکی ایجنڈے کو ’’عوامی جمہوری ‘‘طریقے سے عملی جامہ پہنایا گیا۔

امن و امان کی صورت حال: اس وقت افغانستان کئی ایک مسائل سے دوچار ہے۔ ان میں سب سے سنگین مسئلہ امن و امان کا ہے۔ طالبان کے دورِ حکومت میں مکمل امن و امان تھا۔ ملک کے کسی بھی حصے میں دن یارات کو بلاخوف و خطر سفر کرنا ممکن تھا۔ اس کی بڑی وجہ یہ تھی کہ امن و امان بحال کرنے میںلوگوں کا تعاون شامل حال تھا اور مجرموں کو سخت سزائیں دی جاتی تھیں۔ لوگوں نے ازخود اسلحہ طالبان کے حوالے کیا تھا۔ مسلح افراد کا گھومنا پھرنا خلاف قانون اور جرم تھا۔

امن و امان کی صورتِ حال کی خرابی کا اندازہ اس سے لگایا جا سکتا ہے کہ بین الاقوامی فوج کے باوجود کابل شہر کے اندر دن کے وقت آزادی سے گھومنا پھرنا خطرے سے خالی نہیں ہے۔ ڈاکٹر عبدالرحمن جو پہلی عبوری حکومت میں وزیر ہوائی مواصلات تھے اُن کو کابل ہوائی اڈے پر فوجی پہرے داروں کے سامنے قتل کیا گیا۔ ابھی تک ان کے قاتلوں کو گرفتار نہیں کیا جا سکا۔ اسی طرح حاجی عبدالقدیر نائب صدر کو دن دہاڑے اپنے دفتر کے سامنے ان کے داماد سمیت موت کے گھاٹ اُتارا گیا۔ ان کے قاتلوں کا بھی تاحال سراغ نہیں لگایا جا سکا ہے۔ کابل شہر میں امن و امان کی صورت حال کا اندازہ اس سے لگایا جا سکتا ہے کہ ظاہرشاہ کی حفاظت پر اٹلی کا فوجی دستہ مامور ہے‘ جب کہ صدر مملکت حامد کرزئی نے افغان فوجی دستے کو ہٹا کر امریکی فوجی گارڈ کو اپنی سیکورٹی کے لیے متعین کیا ہے۔ ملک کے امن و امان کے متعلق پکتیا کے سابق گورنر بادشاہ خان نے تبصرہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ ’’جس ملک میں صدر ممکت کی اپنی جان محفوظ نہ ہو اور اس کو اپنی حفاظت کے لیے امریکی فوج کی مدد درکار ہو وہاں عام آدمی کی جان و مال کیسے محفوظ رہ سکتی ہے‘‘۔ کابل شہر سے باہر ملک میں مسلح افراد اور جنگجو کمانڈروں کا راج ہے۔ سڑکوںپر جگہ جگہ غیر قانونی پھاٹک کھڑے کیے گئے ہیں جہاں پر ٹیکس ادا کرنے کے بعد آگے جانے کی اجازت ملتی ہے۔ امن و امان کی صورت حال   شمالی علاقہ جات میں بالخصوص ابتر ہے جہاں غیر ملکی امدادی اداروں کے دفاتر کو لوٹ لیا گیا ہے۔ عالمی ادارہ خوراک (FAO) کے ذخیرہ گودام پر زبردستی قبضہ کیا گیا ہے۔ ان کے عملے کی گاڑیاں چھینی گئی ہیں۔ ان کے زنانہ افرادکار کے ساتھ ’’گینگ ریپ‘‘ کے واقعات بھی ہوئے ہیں۔ اس تشویش ناک صورت حال کی وجہ سے امدادی اداروں نے اپنے دائرہ کار محدود کر رکھے ہیں۔ یہاں تک کہ ان کے مرد اور زنانہ اہل کار شہروں میں آزادانہ گھوم پھر سکتے ہیں‘ نہ بازار میں ضروریات زندگی خریدنے کے لیے آسکتے ہیں۔

امن و امان کی خراب صورت حال کی وجہ سے افغان شہریوں نے اپنے آپ کو مسلح کر رکھا ہے۔ بہت سا اسلحہ طالبان کے خلاف مسلح جدوجہد شروع کرنے کے لیے مفت تقسیم کیا گیا تھا۔ حال ہی میں کرزئی حکومت نے احکامات جاری کیے ہیں کہ ہرقسم کے اسلحے کو سرکاری مال خانے میں جمع کرایا جائے لیکن کسی نے بھی اس بات کو اہمیت نہیں دی۔ امن و امان کی خرابی کی دوسری وجہ یہاں کے جنگجو کمانڈر ہیں۔ طالبان حکومت نے ان کو غیر مسلح کرکے غیر موثر بنا دیا تھا۔ ان کی من مانی کارروائیوں پر کڑی نگرانی کی جاتی تھی جس کی وجہ سے ان کو ملک چھوڑنا پڑا تھا۔ امریکی حکومت نے اِن کمانڈروں کی پشتیبانی کی۔ ان کو جدید اسلحے سے لیس کیا‘ بے تحاشا ڈالروں سے نوازا‘ مواصلات کی جدید سہولیات مہیا کیں اور ان کو طالبان حکومت کا تختہ اُلٹنے کے لیے استعمال کیا۔ اس وقت افغانستان میں ان جنگجو کمانڈروں کی خودمختار ولایتیں (خطے اور علاقے) ہیں۔ یہ ٹیکس اور کسٹم وصول کرتے ہیں جومرکزی خزانہ میں جمع نہیں کرایا جاتا۔ ان کے پاس جدید اسلحہ سے لیس مسلح فوج اور پولیس ہے۔ ذاتی مفادات کی خاطر آپس میں لڑتے اور خون خرابہ کرتے ہیں۔ ان پر مرکزی حکومت کا اثر و رسوخ براے نام ہے۔ ان کی حیثیت خودمختار حکمرانوں کی سی ہے۔ ان میں سب سے زیادہ بااثر شمال میں عطا محمد‘ مزار شریف میں عبدالرشید دوستم‘ ہرات میںاسماعیل خان‘ قندھار میں گل شیرخان اورفراہ میں امان اللہ ہیں۔

یہ بات باعث حیرت و تعجب ہے کہ جنگجو کمانڈروں کو امریکی حکومت کی آشیرباد حاصل ہے۔ اس لیے کہ ان ہی کی مدد سے امریکی فوج افغانستان پرحملہ کرنے میں کامیاب ہوئی ہے۔ لویہ جرگہ کے اجلاس کے دوران جب کئی ایک ممبران نے ان جنگجو کمانڈروں کی لویہ جرگہ میں شرکت پر اعتراض کیا اور ان کے نظام کو تبدیل کرنے کا مطالبہ کیا تواقوامِ متحدہ کے نمایندوں نے جواب دیا کہ’’بون معاہدے کا مقصد صرف مستقبل کی عارضی حکومت کی تشکیل ہے۔ جنگجو کمانڈروں کے نظام کوچھیڑنا نہیں ہے‘‘۔

پوست کی کاشت: طالبان کے دورِ حکومت سے پہلے پورے افغانستان میں پوست کی کاشت ہوتی تھی جس سے سالانہ ۵ سو ملین ڈالر آمدنی تھی۔ یورپ کی افیون اور ہیروئن کی ۷۰ فی صد ’’مانگ‘‘ یہاں سے پوری ہوتی تھی۔ طالبان جب اقتدار میں آئے تو پوست کی کاشت کو غیراسلامی قرار دے کر پورے ملک میں ممنوع قرار دے دیا گیا۔ اقوام متحدہ کی رپورٹ کے مطابق: ’’سال ۲۰۰۱ء میں پورے افغانستان میں کہیں بھی پوست کی کاشت نہیں کی گئی‘‘۔ اہم بات یہ ہے کہ کسانوں نے پوست کی کاشت سے دست بردار ہونے کے لیے کسی قسم کا معاوضہ طلب نہیں کیا۔ یہ سب کچھ مذہبی جذبے کے تحت کیا گیا۔ امریکی حملے کے بعد پورے افغانستان میں ایک مرتبہ پھر پوست کی کاشت کی گئی ہے۔ حکومت نے کسانوں سے اپیل کی ہے کہ اگر وہ پوست کی فصل کوضائع کر دیں تو انھیں اس کا معاوضہ دیا جائے گا لیکن انھوں نے اس کا کوئی نوٹس نہیں لیا ہے۔

مخبروں کی کارروائیاں : مخبر جن کو امریکی حکومت نے سیٹلائیٹ فون مہیا کیے ہیں پورے ملک میں پھیلے ہوئے ہیں۔ ان کا تعلق زیادہ ترتاجک گروہ سے ہے۔ انھوں نے کئی موقعوں پر اپنے مخالفین پر امریکیوں سے بم باری کروائی ہے۔ ان کی غلط اطلاعات کی بنا پر امریکی جنگی طیاروں نے بے گناہ شہریوں پر بم باری کی ہے۔ اس کی تازہ مثال اورزگان میں شادی کی تقریب پر ہیلی کاپٹرگن شپ اور بم بار طیاروں سے بم باری ہے جس میں ۴۰ افراد جاں بحق اور ۱۰۰ سے زائد زخمی ہوئے۔ ان واقعات کی وجہ سے پشتون علاقے میں امریکہ سے انتہائی نفرت کے جذبات پائے جاتے ہیں۔ اس بم باری کے خلاف پہلی مرتبہ کابل میں مظاہرہ ہوا۔ جس میں حکومت سے مطالبہ کیا گیا کہ مستقبل میں اس قسم کے حادثات کی روک تھام کی جائے۔ بم باری کے بعد اورزگان کے گورنر نے بیان دیا کہ امریکی فوجی عملے سے کہا گیا ہے کہ ’’مستقبل میں اس قسم کے آپریشن سے پہلے صوبائی حکومت سے اجازت لینی ضروری ہوگی‘‘۔ لیکن امریکی ترجمان نے تردید کی کہ ’’ہم اس قسم کی اجازت کے پابند نہیں ہیں‘‘۔ اس وقت صورت حال یہ ہے کہ مخبروں کی رپورٹ پر افغان شہریوں کو اس شبہے میں قیدکیا جاتا ہے کہ ’’وہ القاعدہ کے افراد یا پاکستانی ہیں‘‘۔ انھیں صفائی پیش کرنے کے بعد ضمانت پر رہا کیا جاتا ہے۔ لوگوں سے پیسہ بٹورنے کے لیے امن پسند شہریوں پر القاعدہ کاالزام لگایا جاتاہے اور انھیں اپنے آپ کو بچانے کے لیے کثیر رقم دینی پڑتی ہے۔ اس طرح کی بلیک میلنگ افغان شہروں میں کاروبار کی شکل اختیار کر گئی ہے۔ امن و امان کی یہ صورت حال افغانستان کی تعمیرنو کی راہ میں ایک سنگین رکاوٹ ہے۔

افغان مہاجرین کے مسائل: حامد کرزئی نے جب سے عنانِ حکومت سنبھالی ہے عالمی سطح پر اس بات کا برابر چرچا کیا جا رہا ہے کہ ملک میں امن و امان بحال ہوگیا ہے‘ خوش حالی کا دور دورہ ہے۔ بین الاقوامی ادارہ براے مہاجرین (UNHCR) نے بھی افغان مہاجرین کو ملک واپس جانے کی ترغیب دی ہے۔ اس کے نتیجے میں گذشتہ چھ مہینوں میں ۱۵ لاکھ مہاجرین پاکستان‘ ایران اور دیگر وسطی ایشیائی ممالک سے افغانستان واپس آگئے۔ یہ مہاجرین زیادہ تر کابل‘ جلال آباد ‘قندھار اور ان کے گردونواح میں مہاجر کیمپوں میں رہایش پذیر ہیں۔ عملاً صورت حال یہ ہے کہ ان خیمہ بستیوں میں پانی کی فراہمی‘ صفائی‘ تعلیم اور صحت کی سہولیات ناپید ہیں۔ مہاجرین میں سے جن کے اپنے مکانات تھے اور جو جنگ کے دوران تباہ و برباد ہوگئے تھے ان میں سے چندایک نے اپنے مکانات کی تعمیر اور مرمت کی ہے لیکن اکثرو بیشتر کے پاس خیموں کے سوا کچھ نہیں ہے۔ ۳لاکھ ۵۰ ہزار پشتون مہاجر زیادہ تر جلال آباد کے قریب ’’حصار شاہی‘‘ کے سنگلاخ اور بے آب و گیاہ میدان میں پڑے ہیں۔ یہاں خواتین کو پانچ کلومیٹر دور سے پانی لانا پڑتا ہے اور سخت مشکلات و مصائب میں زندگی گزار رہی ہیں۔ اس کے علاوہ ایک بڑی تعداد اندرون ملک بے دخل افراد کی ہے جس کا تعلق پشتون آبادی سے ہے۔ یہ تاجک علاقوں میں آباد تھے جن کے ساتھ شمالی اتحاد کی افواج نے تشددکا سلوک کیا ہے۔ خواتین کی بے حرمتی کی ‘گھر کاسامان لوٹ لیا اور زرعی زمینوں سے     بے دخل کر دیا گیا۔ ان کی دکانوں پر تاجک افرادنے زبردستی قبضہ کیا ہے۔ بہ امر مجبوری وہ تاجک علاقے سے ملک بدر ہوگئے ہیں۔ اِن کی بڑی تعداد اپنے گائوں کوچھوڑ کرکابل کے گردونواح میں کسمپرسی کی حالت میں خیمہ زن ہے۔

بے روزگاری کا مسئلہ: ایک اہم مسئلہ روزگار کا ہے۔ سرکاری دفاتر میں آسامیوں پر تقرری حکام بالا کی سفارش کے بغیر ناممکن ہے۔ مرکزی حکومت کے کلیدی عہدوں پر پنج شیری تاجک قابض ہیں۔  کم تر درجے کی ملازمتوں پر اِکا دکا پشتون‘ ہزارہ‘ یا ازبک نظر آتا ہے۔ جس کی وجہ سے تاجک طبقے کے خلاف نفرت اور غصے کے جذبات پائے جاتے ہیں۔ باغات جو زرمبادلہ کمانے کا واحد ذریعہ تھے‘ ویران پڑے ہیں۔ ان کی آب پاشی کانظام درہم برہم ہو گیا ہے۔ بیش تر کاریز صفائی نہ ہونے کی وجہ سے بند ہیں۔ مزید یہ کہ قدم قدم پر روسیوں کی بارودی سرنگیں بکھری پڑی ہیں جن کو ابھی تک ناکارہ نہیں بنایا گیا ہے۔ ان کے خوف سے کوئی کسان زرعی زمین میں کاشت کی ہمت نہیں کرسکتا۔ ملک کے تقریباً سارے کارخانے تباہ و برباد ہیں۔ بیرون ملک تجارت نہ ہونے کے برابر ہے اور اندرونی تجارت صرف روز مرہ اشیا تک محدود ہے۔ لہٰذا روزگار کے مواقع نہ ہونے کے برابر ہیں۔ خیمہ بستیوں میں بے اطمینانی کی فضا ہے۔ اکثروبیشتر کی سوچ ہے کہ افغانستان واپس آکر ہم غلطی کے مرتکب ہوئے ہیں۔

افرادی قوت اور تعمیرنو کا مسئلہ: افغانستان اس وقت اعلیٰ افرادی قوت کی کمی کا شکار ہے۔ یہاں کے یونی ورسٹی کے پروفیسر‘ ڈاکٹر‘ انجینیر‘سفارت کار‘ نظام حکومت کوچلانے والے اہل کار سب کے سب ملک سے باہرامریکہ‘ جرمنی یا انگلینڈ میں مستقل طور پر آباد ہیں۔ وہ کسی بھی قیمت پر یہاں آنے کے لیے تیار نہیں ہیں۔ اہم آسامیوں پر کام کرنے کے لیے مقامی آبادی کے موزوں افراد ناپید ہیں۔ باہر سے غیر افغان ماہرین کا آنا غیر متوقع ہے اور اگر یہ ماہرین افغانستان میں خدمات سرانجام دینے پر راضی ہوگئے تو بیرونی امداد کا اچھا خاصا حصہ اُن کی تنخواہ اور دیگر مراعات پر خرچ ہوگا۔

پاکستان واحد ملک ہے جو کہ افغانستان کی تعمیرنو میں بڑھ چڑھ کر حصہ لے سکتا ہے۔ افغانستان کے اکثروبیشتر لوگ اُردو سمجھ سکتے ہیں۔ پاکستان اس کا قریب ترین پڑوسی ملک ہے جہاں سے بھاری قسم کا سامان مثلاً سیمنٹ ‘سریا‘آٹا‘ مصنوعی کھاد اور بجلی کاسامان آسانی سے لے جایا جا سکتا ہے۔ لیکن وہاں امن و امان کی صورتِ حال اتنی خراب ہے کہ کسی بھی پاکستانی کا وہاںجاناخطرے سے خالی نہیں ہے۔ کرزئی حکومت پاکستان کے بجائے بھارت پر زیادہ انحصار کر رہی ہے۔ اس وقت صورتِ حال اتنی خراب ہے کہ پشتو بولنے والے افغانیوں کو اکثروبیشتر پاکستانیوں کے شبہے میں گرفتار کیا جاتا ہے۔ جب وہ ثابت کر دیں کہ وہ پاکستانی نہیں ہیں تب اُنھیں رہا کیا جاتا ہے۔ اس صورتِ حال میں کسی بھی پاکستانی کا آزادی سے گھومنا پھرنا محال ہے کجا یہ کہ وہ کسی تعمیری منصوبے میں کوئی حصہ لے سکے۔ حکومت کی پوری مشینری پاکستان کے خلاف ہے اور پاکستان کے ساتھ کسی قسم کے ٹھوس اور پایدار روابط کے حق میں نہیں ہے۔ ہر قسم کے بدامنی اور قتل و غارت کے واقعات میں پاکستان کو ملوث کرنا ‘ اورپاکستانیوں کو موردِالزام ٹھیرانا روز مرہ کا    معمول ہے۔

اس کے مقابلے میں بھارت ایک منظم منصوبے کے تحت موجودہ حکومت کی مدد و تعاون کے لیے میدان میںاُترا ہے۔ پہلے مرحلے میں انھوں نے کابل کے اندر گاندھی ہسپتال کو دوائیاں‘ طبی آلات اورڈاکٹر مہیا کیے ہیں۔ اس کے بعد خیرسگالی کے طور پر ۲۵ بسوں کا ایک بیڑہ پیش کیا ہے۔ اگست کے دوسرے ہفتہ میں تین ایربس طیارے آریانہ ایرویز کے حوالے کیے گئے۔ یہ جہاز بھارتی پائلٹ چلائیں گے۔ان کو افغانستان اور بھارت کے درمیان پروازوں کے لیے استعمال میں لایا جائے گا۔ اس لیے کہ بھارتی طیارے پاکستانی فضائی حدود پر سے پرواز کرتے ہوئے افغانستان نہیں جا سکتے۔

ہزاروں پاکستانی طالبان کے دورحکومت میں کاری گروں کی حیثیت سے آئے تھے اور محنت ومزدوری کرتے تھے۔ ان میں موٹرمکینک‘ الیکٹریشن‘ نرسنگ سٹاف اور انگریزی جاننے والے کلرک شامل تھے۔ یہ سارے کے سارے افغان جیلوں میں سڑ رہے ہیں۔ ان پرالزام ہے کہ یہ القاعدہ کے شانہ بشانہ لڑنے والے افراد ہیں۔ ان میں ہزاروں افراد مختلف قبائلی حجروں میں قید ہیں اور ۳۰ ہزار سے ۸۰ ہزار روپے معاوضے کے بعد چھوڑا جاتا ہے۔ اکثر مناسب خوراک نہ ہونے کی وجہ سے بیمار ہیں۔ دن کو اُن سے محنت مزدوری کا کام لیا جاتاہے اور رات کو پابہ زنجیر رکھا جاتاہے۔ ان میں بوڑھے افراد بھی ہیں جن کی حالت دیکھی نہیں جاتی۔ یہ افراد ویزا لے کر روزگار کی تلاش میں افغانستان گئے تھے۔ یہ ایک قومی المیہ ہے کہ حکومت پاکستان نے ان کی رہائی کے لیے مؤثر آواز اٹھائی ہے اور نہ کوئی عملی اقدام کیا ہے۔ ایک اطلاع کے مطابق ان میں سے سیکڑوں کو بھارت منتقل کیا گیا ہے۔

لسانی بنیادوں پر تفریق: افغانستان کی ۲۰۰ سالہ تاریخ میں نسلی یا لسانی بنیادوں پر کوئی تفریق نہیں کی گئی۔ تاجک‘ ہزارہ اور پشتون آپس میں امن وامان سے رہتے تھے۔ ان کی آپس میں شادیاں ہوتی تھیں۔ ملازمتوں کی تقسیم میں بھی کبھی لسانی بنیاد پر کوئی اختلافات سامنے نہیں آئے۔ ظاہرشاہ کا تعلق پشتون قبیلہ بارک زئی سے تھا لیکن اُس کی اور اس کے آباواجداد کی شادیاں فارسی بولنے والے تاجک قبیلوں میں ہوئی تھیں۔ اس وجہ سے شاہی خاندان میں بھی پشتو اور فارسی دونوں زبانیں بولی جاتی تھیں۔

افغانستان میں لسانی بنیاد پر تفریق کی بنیاد کمیونسٹ دور حکومت میں ڈالی گئی۔ یہ افغان ملت کو لسانی بنیادوں پر تقسیم کرنے کے منصوبے کا حصہ تھا جو روسی افواج کی شکست کے بعد ادھورا رہ گیا۔ بہرحال لسانی بنیادوں پر تفریق کا بیج ڈالا گیا جس کے منفی اثرات دوران جہاد بھی ظاہر ہونے لگے تھے۔ یہی وجہ تھی کہ کوشش بسیار کے باوجود جمعیت اسلامی کے تاجک برہان الدین‘ سیاف اور حزبِ اسلامی کے پشتون گلبدین حکمت یار کے درمیان جہادی کارروائیوں میں بھی اتفاق رائے پیدا نہ ہو سکا۔ روسی شکست کے بعد جوحکومت معرض وجود میں آئی اُس میں استاد ربانی صدر اور گلبدین حکمت یار وزیراعظم مقرر ہوئے۔ اُس دور میں یہ اختلافات اتنے بڑھ گئے کہ طرفین کی افواج تین سال تک آپس میں دست و گریبان رہیں جس کے نتیجے میں کابل کھنڈرات کا شہر بن گیا۔

طالبان نے مختلف نسلی اور لسانی گروہوں کویک جا کیا اور افغان قوم میں مذہب کی بنیاد پر یک جہتی پیدا کی۔ یہ طالبان حکومت کا سب سے بڑا کارنامہ تھا۔ طالبان کے جانے کے بعدافغان قوم کا شیرازہ بکھر گیا ہے۔ افغان دانش وروں کا کہنا ہے کہ ’’افغانستان کی مثال ایک ٹوٹے ہوئے پیالے کی تھی۔ جب تک یہ پیالہ طالبان کے ہاتھ میں تھا انھوں نے اس کو جوڑے رکھا۔ اُن کے جانے کے بعد یہ پیالہ ٹوٹ گیا ہے۔ اس کو دوبارہ جوڑنا کرزئی حکومت کے بس کی بات نہیں ہے‘‘۔

حامد کرزئی کے متعلق افغانوں میں ایک عام تاثر ہے کہ ’’دیوانہ زندہ خوش است‘‘ (دیوانہ اس پر بھی خوش ہے کہ زندہ ہے)۔ اس وقت کرزئی کی پوزیشن بعینہٖ وہی ہے جو ۱۸۳۹ء میں شاہ شجاع کی تھی۔ پہلی اینگلو افغان جنگ کے نتیجے میں انگریزوں نے اُسے تخت کابل پر بٹھایا تھا۔ انگریزی فوج کا دستہ اس کی حفاظت پر مامور تھا۔ لیکن زیادہ عرصے تک افغان اس کٹھ پتلی حکمران کو برداشت نہ کر سکے۔ ۱۸۴۲ء میں شاہ شجاع کو انگریز حفاظتی دستے سمیت موت کے گھاٹ اتار دیا گیا۔ حالات بتا رہے ہیں کہ حامد کرزئی کی پوزیشن شاہ شجاع سے مختلف نہیں ہے اور خطرے کی گھنٹی کسی وقت بھی بج سکتی ہے!

طالبان حکومت ایک نظریاتی حکومت تھی ۔ اُن کا دورِ حکومت صرف چار سال تک رہا لیکن ان کے اثرات اب تک قائم ہیں۔ اب بھی عام آدمی کی ہمدردیاں طالبان کے ساتھ ہیں‘ اس لیے کہ اُن کے دورِحکومت میں شریعت اسلامی اور قومی روایات کے مطابق زندگی بسر کرنے کی حوصلہ افزائی کی گئی تھی جس کو افغانستان کی ساری اقوام نے سراہا۔

طالبان کے آخری مورچے بھی پشتون علاقے میں تھے۔ ان کو امریکی حملے کے دوران بہت بڑا مالی اور جانی نقصان ہوا۔ اس علاقے میں پنج شیروں کے خلاف نہایت شدید نفرت کے جذبات پائے جاتے ہیں‘اس لیے کہ ان کی رائے میں امریکی اُن کی شہ پر آئے دن پشتون ولایتوں پر بم باری کرتے ہیں۔ پنج شیری تاجکوں کی سرپرستی امریکی حکومت کے ایک اہم منصوبے کاحصہ ہے۔ غالباً پیش نظر یہ ہے کہ پشتون آبادی کو اتنا مجبور اور پریشان کیا جائے کہ وہ خود تاجکوں سے علیحدگی کا مطالبہ کریں۔ ایسا معلوم ہو رہا ہے کہ یہ افغانستان کوٹکڑوں میں بانٹنے (balkanization) کے پروگرام کا حصہ ہے۔ اس لیے کہ افغانستان کو کئی ٹکڑوں میں تقسیم کرنے کے بعد ہی امریکہ اپنے مذموم مقاصد میں کامیاب ہوسکتا ہے۔ یہ بھی پیش نظر رہے کہ افغانستان کے ساتھ ملحقہ پاکستان کے شمال مغربی سرحدی صوبے میں پشتون آباد ہیں۔ ان کے افغانستان کے پشتونوں کے ساتھ قریبی روابط ہیں۔ افغانستان میں کسی قسم کی سیاسی تبدیلی کی وجہ سے سرحدی صوبہ کے پشتون آبادی پر اثرات پڑ سکتے ہیں۔

امریکی عزائم: اس وقت امریکی افغانستان کے بست و کشاد کے مالک ہیں۔ حکومت کی ساری مشینری ان کے اشاروں پر چل رہی ہے۔ کرزئی کابینہ کے کئی وزیر اور مشیروہ افغانی افراد ہیں جو ۱۵‘ ۲۰ سال امریکہ میں شہری کی حیثیت سے رہ کر افغانستان میں اپنی ’’خدمات‘‘سرانجام دینے کے لیے آئے ہوئے ہیں۔ ان کے سامنے ملکی مسائل کے حل کے لیے کوئی واضح پروگرام نہیں ہے۔ یہ امریکی ایجنڈے کو پایۂ تکمیل تک پہنچانے کے لیے آلۂ کار بن رہے ہیں۔ امریکہ کے نائب وزیر دفاع پال ولفووٹز نے کہا ہے کہ ’’امریکی افواج افغانستان میں ایک طویل عرصے تک رہیںگی‘‘۔ افغانستان پر امریکی حملے کے عزائم  آہستہ آہستہ منظرعام پر آرہے ہیں۔ امریکی پٹرولیم کمپنی UNICOL نے وسط ایشیا کے تیل کے ذخائر کو استعمال میںلانے کے لیے جو منصوبہ تیار کیا تھا اُسے عملی جامہ پہنانے کے لیے ترکمانستان ‘ افغانستان اور پاکستان کے درمیان دولت آباد سے گوادر تک پائپ لائن بچھانے کے معاہدے پر دستخط ہو چکے ہیں۔ یہ بات بھی منظرعام پر آئی ہے کہ پس پردہ امریکہ کرزئی حکومت کو ایسے معاہدے پر مجبور کر رہا ہے جس کے نتیجے میں امریکی حملے اور ’’دہشت گردی کے خلاف کارروائی‘‘ کے سارے اخراجات افغانستان کو ادا کرنے ہوں گے۔

طالبان کی حکمت عملی : دوسری طرف‘ اس وقت امریکی فوج کے خلاف طالبان کی مزاحمت چھاپہ مار جنگ تک محدود ہے۔ اس قسم کی جنگ کے لیے ان کے پاس بے پناہ ہتھیار ہیں جن میں راکٹ میزائل‘ دستی بم اور روایتی ہتھیار شامل ہیں۔ روسیوں کے خلاف بھی جب مجاہدین مصروف جہاد تھے تو ان کے پاس کوئی بمبار طیارے یا ٹینک نہیں تھے وہ اسی قسم کے ہتھیاروں سے لڑتے تھے۔ طالبان نے ہر قسم کا اسلحہ مختلف مقامات پر محفوظ کر رکھا ہے۔ ان کو باہر سے کوئی امداد نہ بھی ملے تو وہ ایک طویل عرصے تک چھاپہ مار جنگ لڑ سکتے ہیں۔افغانستان کا پہاڑی علاقہ اس قسم کی جنگ کے لیے موزوں سرزمین ہے۔ مجاہدین اس کے چپے چپے سے واقف ہیں۔ انھیںاس علاقے میں روسی افواج کے خلاف ۱۰ سالہ جنگ کا تجربہ بھی ہے۔ اہم بات یہ ہے کہ ملک کی موجودہ صورت حال جہاد کے لیے بہت سازگار ہے۔ ببرک کارمل اور نجیب اللہ کے دور حکومت میں پورے افغانستان پر ان کا تسلط تھا۔ روس کی ۶ لاکھ سے زائد فوج بم بار طیاروں اور ٹینکوں سمیت پورے ملک میں پھیلی ہوئی تھی۔ اس وقت صورت حال بالکل مختلف ہے۔ پورے ملک میں افراتفری ہے۔ کرزئی کی حکومت صرف کابل تک اور امریکیوں کا اثرو رسوخ صرف چند ہوائی اڈوں تک محدود ہے۔ بے گناہ شہریوں پربم باری ‘افغان قیدیوں کے ساتھ وحشیانہ سلوک اور عوام کے ساتھ غیر انسانی رویے کی وجہ سے ملک کی بیشتر آبادی امریکیوں کے خلاف ہے اور اُن کو نفرت کی نگاہ سے دیکھتی ہے۔

امریکی ہوائی اڈوں‘ چھائونیوں‘اسلحے کے گوداموں‘ اور فوجی قافلوں پر مجاہدین کے حملے روز مرہ کا معمول ہے جس کی وجہ سے ان کو بہت بھاری جانی اور مالی نقصان اُٹھانا پڑ رہا ہے۔ بڑی تعداد میں امریکی فوجی واصل جہنم ہوچکے ہیں اور بہت سارے قیدی مجاہدین کے زیرحراست ہیں۔

ابتدائی دنوں میں امریکی فوجی چھاپہ مار جنگ کے لیے مجاہدین کے مقابلے میں میدان میں اتر آئے تھے لیکن بھاری جانی نقصان کی وجہ سے وہ میدان سے بھاگ گئے۔ افغان فوج پر بھی اُن کا اعتماد جاتا رہا ہے۔ اس لیے کہ وہ بھی امریکی فوج کے لیے ہراول دستے کی خدمات میں مخلص نہیں ہیں۔ اب وہ چھاپہ ماروں کا مقابلہ ہوائی حملوں سے کر رہے ہیں جو غیر موثر اور بے سود ثابت ہو رہے ہیں۔ امریکی فوجی جو آرام و راحت اور عیش و عشرت کے عادی ہیں افغانستان میں اپنی ڈیوٹی کو عذاب سمجھتے ہیں اور’’دہشت گردی کے خلاف جنگ‘‘ (war on terror) میں نیم دلی سے حصہ لے رہے ہیں‘ جب کہ مجاہدین کی نگاہ میں یہ کفر اوراسلام کا مقابلہ ہے اور وہ اس میں جان کی بازی لگا دینے کو شہادت سمجھتے ہیں۔ مجاہدین کاحوصلہ بلندہے۔ وہ پرعزم اور پراعتماد ہیں۔ اُن کا کہنا ہے کہ ’’امریکیوں کے خلاف جہاد اتنا ہی طویل ہو سکتا ہے جتنا  روسیوں کے خلاف تھا۔ اور جیسے روسیوں کو افغانستان میں شکست ہوئی ‘ پورا کمیونزم نظام دھڑام سے گرگیا‘ اسی طرح امریکیوں کو بھی یہیں پر ذلت آمیز شکست ہوگی اور یہیں پرسرمایہ دارانہ نظام کا خاتمہ ہوگا‘‘۔