مارچ ۲۰۰۴

فہرست مضامین

افغانستان‘ مصائب و مشکلات اور امکانات

ڈاکٹر محمدساعد | مارچ ۲۰۰۴ | عالم اسلام

Responsive image Responsive image

افغانستان ہمارا پڑوسی اسلامی ملک ہے۔ تقریباً ۲ہزار میل تک ہماری مغربی سرحد اس کے ساتھ ملتی ہے۔ اس سرحد کے دونوں جانب ایک جیسے قبائل آباد ہیں‘ جن کی آپس میں رشتہ داریاں ہیںاور جوبلاروک ٹوک آتے جاتے ہیں۔ افغانستان کے ساتھ ہمارے تاریخی‘ نسلی اور مذہبی روابط بھی ہیں۔ افغانستان میں حالات خراب ہوں گے تو لازماً اس کا اثر پاکستان پر پڑے گا۔ وہاںاقتصادی اور معاشی خوش حالی ہوگی تو اس کے اچھے اثرات سے بھی پاکستان فیض یاب ہوگا۔ افغانستان کی بیشتر تجارت پاکستان کے راستے سے ہوتی ہے۔

پاکستان نے روسی حملہ آوروں کے خلاف افغان جہاد میں بنیادی کردار ادا کیا ہے۔ روسی جارحیت کے نتیجے میں ۳۰ لاکھ سے زائدافغان باشندے ملک بدرہوئے تو پاکستان نے اسلامی اخوت کے جذبے اور کھلے دل کے ساتھ اپنے افغان بھائیوں کو خوش آمدید کہا‘ اور ان کے لیے ہر قسم کے وسائل مہیا کیے۔ ان میںسے ۱۰ لاکھ سے زائد افراد اب بھی پاکستان میں رہایش پذیر ہیں۔ اگر پاکستان انھیں بوجھ یا کسی غیرقوم کے افراد سمجھتا تو کب کا انھیں پاکستان سے نکال چکا ہوتا۔ روسی افواج کی شکست کے بعد بھی پاکستان نے افغانستان کی سیاسی صورت گری میں مددکی۔ مہاجرین کے مختلف دھڑوں میں صلح وصفائی اور مجاہدین کی حکومت کی تشکیل میں پاکستان نے کلیدی کردار ادا کیاہے۔ طالبان حکومت کو بھی پاکستان کا تعاون حاصل رہا ہے۔ طالبان کے پانچ سالہ دور حکومت میں ہماری شمال مغربی سرحدات ہر طرح کے خطرات سے محفوظ رہیں۔ امن وامان کا یہ دور امریکی اور اتحادی افواج کے حملوں نے تہس نہس کردیا۔دیکھتے ہی دیکھتے آباداور پرُرونق شہر ملبے کے ڈھیر بن گئے ۔

اس وقت افغانستان امریکی افواج کے شکنجے میں ہے۔ امن وامان کی صورتِ حال‘ سرحدی تنازعات‘ بھارتی سفارت کاروں کی بڑھتی ہوئی تخریبی سرگرمیاں ‘ معیشت کی مکمل تباہی‘ پوست کی کاشت اور بڑے پیمانے پر افیون کی تجارت‘امریکی اور اتحادی افواج کے آپریشن‘ وہ تشویشناک عوامل ہیں جن کے اثرات سے کوئی پڑوسی ملک بالخصوص پاکستان متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکتا۔ ان سے چشم پوشی نہیں کی جاسکتی ۔

طالبان کے بعد صورت حال

طالبان حکومت کوئی مثالی اسلامی حکومت نہیں تھی۔ امور مملکت کے بہت سارے شعبوںمیں ناواقفیت اورناتجربہ کاری کی وجہ سے ان سے بہت سی غلطیاں سرزدہوئیں ۔لیکن اس سے انکار نہیں کیا جا سکتاکہ ان کے دور حکومت میں ملک میں مکمل امن وامان تھا‘ ۹۰فی صد علاقہ ان کے زیر اثر تھا ۔ سڑکیں اور شاہراہیںکھلی ہوئی تھیں۔ دِن رات مسافر گاڑیاں اور ٹرک‘ ملک کے ایک سرے سے دوسرے سرے تک بغیر کسی مزاحمت یا رکاوٹ کے آجا سکتے تھے۔ مقامی سرداروں کے ٹول ٹیکس اور پرمٹ کا نظام ختم ہو چکا تھا۔ عوام نے ہر قسم کااسلحہ رضا کارانہ طور پر حکومت کے حوالے کر دیا تھا۔ امن عامہ کو تباہ کرنے والے مجرموں کوعبرت ناک سزائیں دی جاتی تھیں۔ وار لارڈز کا کوئی وجود نہیں تھا۔ پوست کی کاشت پر مکمل پابندی تھی۔لوگ اپنی مرضی اور خوشی سے زکوٰۃ اور عشر ادا کرتے تھے۔ قحط سالی کی وجہ سے ملک میں غلے کی کمی تھی لیکن اس کے باوجودبدنظمی یا لوٹ مارکے واقعات نہیں ہوتے تھے۔ بیرونی امدادی اداروں کو تحفظ حاصل تھا۔ دور دراز علاقوں میںبھی لوگوں کی جان‘ مال اورعزت وآبرو محفوظ تھی۔ ہر طبقے کو عدالت تک رسائی حاصل تھی اورانصاف ملتا تھا۔یہ سب ثمرات اور بھائی چارے کا عظیم الشان ماحول اسلامی تعلیمات کے نفاذ کی برکت سے تھا۔

اس وقت صورتِ حال یہ ہے کہ پورا ملک لسانی‘ نسلی ‘ قبائلی‘ شہری ‘ دیہاتی ‘ امیر وغریب جیسے تعصبات میں مبتلا ہے۔ پشتون قبائل جو شمالی صوبوں میں عرصہ درازسے آباد تھے‘ اُنھیں ملک بدر کیا گیاہے۔ ان کی کل تعداد ۶۰ہزاربتائی جاتی ہے اور وہ اس وقت کابل کے مضافات میں عارضی کیمپوں میں قیام پذیر ہیں۔ اسی طرح کابل ‘ مزارشریف اور ہرات کے شہری علاقوں میں مکانات کے جائز مالکان کوزبردستی بے دخل کیا گیاہے۔طالبان سے پہلے مختلف ادوار میں قتل و غارت گری‘ لوٹ مار اور جھگڑا وفساد کابازار گرم رہا مگر طالبان کے دور میں عدل وانصاف کی وجہ سے یہ تمام تنازعات اور قبائلی دشمنیاںخوش اسلوبی سے طے ہونے لگیں۔اس وقت متحارب خاندانوں اورقبیلوں کو انصاف دِلوانا‘ اور ان کے درمیان صلح صفائی کروا کر اسلامی بھائی چارے کا قیام وقت کی اہم ضرورت ہی نہیں بلکہ اس کے بغیر افغانستان میں امن وامان قائم ہوسکتاہے نہ ترقیاتی کام شروع کیے جاسکتے ہیں۔اس وقت افغانستان میں بیوہ خواتین ‘ یتیم بچے‘معذوراور بے سہارا افراد لاکھوںکی تعداد میں ہیں ۔اِن کی گزربسرامدادی اداروں کی مدد اور تعاون پرمنحصر ہے۔

امن و امان کی حالت

افغانستان میں امن وامان کی صورت حال کا اندازہ اس سے لگایاجا سکتا ہے کہ افغانستان کے چار صوبوں‘ یعنی نیمروز‘ اروزگان ‘ ہلمند اور زابل میں عالمی ادارے اور تمام این جی اوز کے دفاتر بندکر دیے گئے ہیں اوران کی ساری امداد ی سرگرمیاں معطل ہیں۔اقوام متحدہ کے سکیورٹی کوارڈینیٹر نے اس علاقے کو ہائی رسک زون قرار دِیا ہے جس کی بنیادی وجہ یہاں کے جنگی سردار ہیں۔ کابل شہر سے دورکے علاقوں میں ان کا راج ہے۔ ان کی اپنی فوج ہے۔جس کی تعداد ایک اندازے کے مطابق ۵لاکھ سے زیادہ ہے۔ان کی اپنی جیلیں ہیںجن میں سیکڑوں پاکستانی عرصہ دو سال سے سڑ رہے ہیں اور انھیں حامدکرزئی کے اعلانات کے باوجود رہا نہیں کیا گیا۔مرکز کا کنٹرول براے نام ہے حتیٰ کہ ٹیکس وصولی مقامی جنگی سردار اپنی قوت بازو سے خود کرتے ہیں۔ ان علاقوں میں سکول ہیں نہ ہسپتال‘ سڑکیں ہیںنہ بجلی کا انتظام۔

یہی جنگی سردار امریکی افواج کی پشت پناہی اورسرپرستی میں منشیات کا کھلم کھلا کاروبار کرتے ہیں۔ ان کو بھارت ‘ایران اورروس کے زیراثر وسطی ایشیائی ممالک کی آشیر بادبھی حاصل ہے۔ اِن جنگی سرداروں ہی کی مدد سے امریکا نے طالبان حکومت کی اینٹ سے اینٹ بجائی ہے اور اب انھی کے تعاون سے مجاہدین کو کنٹرول کیا جارہا ہے۔ اِن کے زیر اثر علاقے ایران‘ ترکمانستان ‘ تاجکستان اور ازبکستان سے ملے ہوئے ہیں۔ اس لیے اپنے معاملات براہ راست امریکا اور وسط ایشیا کے ممالک سے طے کرتے ہیںاور دوسرے ممالک سے فوجی اسلحہ اور سازوسامان بھی آسانی سے حاصل کر سکتے ہیں۔ ان علاقوں میں حکومت کے واضح احکامات کے باوجود وسیع پیمانے پرپوست کی کاشت ہوتی ہے۔ اس کا اندازہ اس سے لگایا جاسکتا ہے کہ۲۰۰۲ء میں ۳۴۲۲ ٹن افیون پیدا ہوئی جو دنیا کی کل افیون پیداوار کا۷۵ فی صدہے۔یہ سردار اپنے اپنے حلقۂ اثر کو بڑھانے کے لیے ایک دوسرے سے باہم برسرپیکار رہتے ہیں۔ عرصہ دو سال سے شمالی اتحاد کے جمعیت اسلامی کے جنرل عطا اور جنبش ملی کے جنرل عبدالرشید دوستم وقفے وقفے سے لڑ تے رہے ہیں جن میں ہزاروں بے گناہ شہری ہلاک ہوئے ہیں۔

بے اطمینانی کی بڑی وجہ افغانستان میں طالبان اور ان کے حامی عناصر کے خلاف امریکی اور افغان فوج کا ظالمانہ اور سفاکانہ آپریشن ہے۔ڈیڑھ سال قبل امریکی بی-۵۲ طیاروں نے ایک قافلے پر بمباری کی جو کرزئی کو مبارکباد دینے کے لیے کابل جا رہا تھا۔گذشتہ سال ایک بارات پر فائرنگ کے نتیجے میں۴۸ بے گناہ افراد شہید ہوئے۔ نومبر میں صوبہ کنٹر کے سابق گورنر غلام ربانی کے گھر پر امریکی طیاروں نے بمباری کی جس کے نتیجہ میں آٹھ افراد ہلاک ہوئے۔ اس واقعے سے معاشرے کا بڑا طبقہ امریکی اور اتحادی افواج کا مخالف ہو گیاہے اور عام لوگ بھی امریکا سے نفرت کرنے لگے ہیں۔

امریکہ کے خلاف متحدہ محاذ کا قیام

طالبان حکومت کو ختم ہوئے دو سال سے زیادہ عرصہ گزرا ہے لیکن اس کے اثرات اب بھی افغانستان کے طول وعرض میں دیکھے جا سکتے ہیں۔ طالبان ایک غیر ملکی ٹولے کی حکومت نہیں تھی بلکہ عوام میں اُن کی جڑیںتھیں۔ اس کواب بھی افغانستان کی کثیر آبادی کی تائید اور حمایت حاصل ہے۔ اس وقت امریکی افواج کی مزاحمت صرف طالبان نہیں کر رہے ہیںبلکہ اس میں بہت ساری جہادی تنظیمیں شامل ہیں۔ گلبدین حکمت یار اور مولوی محمد یونس خالص نے کھلم کھلا امریکا کے خلاف اعلانِ جہاد کیا ہے۔ اب امریکا کے خلاف ایک متحدہ محاذ ــ’’مجاہدین اسلام‘‘ کے نام سے معرض وجود میں آیا ہے جو امریکی اور اتحادی افواج کو’’صلیبی افواج‘‘اور موجودہ جنگ کو’’صلیبی جنگ ‘‘کا نام دیتا ہے۔ مجاہدین نہ صرف پاکستان کے ملحق سرحدی علاقے میں بلکہ پورے افغانستان میں گوریلا جنگ لڑ رہے ہیں۔ غیر ملکی خبررساں ایجنسیاںصرف کابل تک محدود ہیں۔اُن کے نامہ نگار عدمِ تحفظ کی وجہ سے کابل شہرمیں بھی آزادی سے گھوم پھر نہیں سکتے۔ اس لیے دور دراز صوبوں میں مجاہدین کی مزاحمتی کاروائیاںمنظر عام پر نہیںآتیں۔ رمز فیلڈکے دور ہ کابل کے دوران باگرام ائیر بیس راکٹوں کا نشانہ بنا۔ اسی طرح کابل میں لویہ جرگہ اجلاس کے قریب راکٹ گرے۔ کرزئی حکومت یہ تاثر دے رہی ہے کہ افغانستان میںطالبان کا کوئی وجود نہیں ہے‘یہ ملک کے سرحدی علاقے میں پاکستان کی طرف سے دہشت گردی ہے۔

اس وقت صورت حال یہ ہے کہ پکتیکا اور قندھار پر مجاہدین کا عملاً قبضہ ہے۔ افغان اور امریکی افواج ان علاقوں میں زمینی آپریشن سے گریز کر رہی ہیںجو اس بات کی دلیل ہے کہ افغان مجاہدین جوعرصہ ۲۰سال سے گوریلا جنگ کا تجربہ رکھتے ہیںان کے مقابلے میں امریکی فوج کے کمانڈو بالکل نوآزمو اور ناتجربہ کارکھلاڑی ہیں۔یہ بات اب کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ہے کہ افغان عوام بلکہ سارے عالم اسلام کی ہمدردیاںطالبان کے ساتھ ہیں۔ ان علاقوں میں مجاہدین کی مقبولیت کا اندازہ اس سے لگایا جا سکتا ہے کہ دو سال مسلسل تلاش‘گولہ باری اور بمباری کے باوجود اسامہ بن لادن یا ملا عمر کا کوئی سراغ نہیں لگایا جا سکا۔ یہ بھی یاد رہے کہ بش حکومت نے اسامہ بن لادن کی گرفتاری کے لیے ۵۰ لاکھ ڈالر انعام مقرر کر رکھا ہے۔

اسامہ بن لادن یا ملا عمرکے نام سے جتنے اعلانات کیے جا رہے ہیں وہ سارے کے سارے فرضی ہیںاور حقائق کے ساتھ ان کا کوئی تعلق نہیں ہے۔ ان کا واحد مقصد یہ ہے کہ طالبان کی تلاش کے بہانے امریکی اور اتحادی افواج کو افغانستان میں رہنے کا بہانہ ہاتھ آ سکے اور امریکی عوام کے لیے افغانستان پر حملے اور مظالم کاکوئی اخلاقی جوازپیش کیا جاسکے۔  برطانیہ اور امریکا میں عراق کے مہلک اور تباہی والے ہتھیاروں کی موجودگی کے جھوٹ کا پول کھل گیاہے۔نہ صرف ان ممالک کے عوام بلکہ باقی دنیا بھی اس حقیقت سے آگاہ ہو چکی ہے کہ عراق پر مہلک ہتھیاروں کا بے بنیاد الزام‘ حملے کے لیے صرف ایک بہانہ تھا۔ وقت کے ساتھ ساتھ ورلڈ ٹریڈ سنٹر پر حملے کی حقیقت بھی سامنے آئے گی اورمعلوم ہو جائے گا کہ اس کے پیچھے اصل محرکات کیا تھے اور اس میں ملوث افراد کون تھے۔

کرزئی حکومت کی الزام تراشی

یکم اکتوبر ۲۰۰۳ء کو حامد کرزئی نے الزام لگایا کہ پاکستان کے ۱۰ ہزار دینی مدارس کے طلبہ‘ مجاہدین کی مدد کر رہے ہیں۔ ۶اکتوبر کو انھوں نے اعلان کیا کہ پاکستان کے سیاسی پاورسٹرکچر کے۴۰‘۵۰ افراد افغان مخالف سرگرمیوں میں ملوث ہیں اور مطالبہ کیاکہ دینی مدارس پر مکمل پابندی عاید کی جائے۔ اس لیے کہ ’’انتہا پسندی‘‘ اور ’’دہشت گردی‘‘کی لہر پاکستان کے راستے سے افغانستان میں داخل ہو رہی ہے۔ اس طرح حامد کرزئی اندرون ملک بدامنی اور بے چینی کو پاکستان کے کھاتے میں ڈال رہے ہیں۔

حقیقت یہ ہے کہ امریکی افواج کا افغانیوں کے ساتھ معاملات طے کرنے کایہ پہلا تجربہ ہے۔ ان کو قائل کیا جارہا ہے کہ پاکستان کے قبائلی علاقہ جات سے مجاہدین دراندازی کرتے ہیں۔اس وقت صورت حال یہ ہے کہ امریکی احکامات پر پاکستانی فوج کے ۷۰ ہزار جوان پاک افغان سرحد پر مامور ہیںاور مختلف دروںاور راستوں کی نگرانی کر رہے ہیں۔ ان کا کام بظاہر یہ ہے کہ سرحد پر مجاہدین کی آمدروفت پر کڑی نگاہ رکھیں۔ اسی سلسلے میں پاکستان کی فوج نے مہمند ایجنسی کے برادرہ‘ انارگئی اور یعقوبی کنڈائو کے علاقوں میں فوجی چوکیاں تعمیرکیں۔ ننگرہار کے کمانڈر حضرت علی کے حامی ملیشیا کے اہل کاروں نے ان چوکیوں پر بلااشتعال فائرنگ کی‘ راکٹ لانچر اور مارٹر گنیں بھی استعمال کیں۔چونکہ سرحد کی نشان دہی زمین پر boundary pillars سے نہیںکی گئی ہے لہٰذا سرحد کی اصلی حدودمتعین کر نا مشکل کام ہے۔

اس وقت بھارت نے افغانستان میںآٹھ قونصل خانے کھولے ہیں۔ان میں قندھار اور جلال آباد کے قونصل خانے پاکستان کے خلاف نفرت پھیلانے اور تخریب کاری کے گڑھ بنے ہوئے ہیں۔جلال آباد کے بھارتی قونصل خانے میں را کے جو ایجنٹ متعین کیے گئے ہیں ان کی اطلاع پر کابل میں خبر پھیلائی گئی کہ پاکستانی فوج مہمند ایجنسی میں درہ یعقوبی کے قریب کئی میل تک افغانستان کے اندر گھس آئی ہے۔ اس کے خلاف کابل اورمزار شریف میں احتجاجی جلوس نکالے گئے ۔ صدر پرویز مشرف کے ایک بیان نے جلتی پر تیل کا کام کیا جو انھوں نے کرزئی حکومت کے متعلق پیرس میں دیا تھا۔ ۶جولائی کو کابل میں بین الاقوامی اطلاعتی مرکز کے افتتاح کے موقع پر حامد کرزئی نے اس کا جواب دیتے ہوئے کہا کہ پاکستان اپنے پائوں چادر سے باہر نہ نکالے اور بین الاقوامی برادری سے مطالبہ کیا کہ وہ پڑوسی ممالک کے ذریعے افغانستان کے مستقبل کے فیصلوں کا سلسلہ بند کر دیں۔

اس کے دو دن بعد کابل شہر میں پاکستان کے خلاف ایک مظاہرہ کیا گیا۔ مظاہرین کی تعداد ۵ہزار کے قریب تھی جس کی قیادت افغانستان سٹیٹ بنک کے گورنر انوارالحق احد کر رہے تھے جو نیشنل اسلامک فرنٹ کے سربراہ پیر سیدعلی گیلانی کے داماد ہیں۔ وہ عرصۂ دراز تک امریکا میںمقیم رہے ہیں۔ کرزئی حکومت قائم ہونے کے بعد واپس کابل آئے ہیں۔ اس کے علاوہ کئی دیگر حکومتی نمایندوں اور سرکاری اہل کاروں نے بھی اس مظاہرے میں حصہ لیا۔ مظاہرین نے جو ڈنڈوںسے لیس تھے‘ پاکستانی سفارت خانے پر حملہ کیا ۔تمام گاڑیوں‘ کمپیوٹروں ‘ فرنیچر اور ریکارڈ کو تباہ کیا  اور عمارت کو بھی شدید نقصان پہنچایا۔امریکی اور انٹرنیشنل سیکورٹی ایڈمنسٹریٹو فورس (ISAF)اور سرکاری انتظامیہ اس پوری کارروائی کو تماشائی نگاہوں سے دیکھتی رہی ۔ افغان پہرہ داروں نے بھی جن کی ذمہ داری سفارت خانے کی حفاظت تھی‘ حملہ آور جلوس کے ساتھ مل کر سفارت خانے کو نقصان پہنچایا۔ کابل کے علاوہ مزار شریف‘ پغمان اور قندھار میں بھی احتجاجی جلسے اور مظاہرے ہوئے جن میں انتظامیہ کے اعلیٰ عہدیداران کے علاوہ صدر کرزئی کے بھائی احمد ولی کرزئی نے بھی شرکت کی۔

اگست کے آخری ہفتے میں ۲۰ سال کے بعدپہلی مرتبہ سرکاری طور پر یوم پختونستان منایا گیا۔ اس سلسلے میں منعقدہ ایک تقریب میں کرزئی کے وزرا نے شرکت کی۔ اس اجلاس میں پاکستانی سرحدی علاقے پرظاہر شاہ کے دور کے افغانی دعوئوں کا اعادہ کیا گیا۔یہ بھی کہا گیاکہ جو معاہدہ ۱۸۹۳ء میں برطانوی حکومت کے نمایندے مارٹیمرڈیورنڈ اور امیر عبدالرحمن کے درمیان طے ہوا تھا اس کی مدت ۱۰۰سال کی تھی اس لیے اس کی میعاد ۱۹۹۳ء میں ختم ہو چکی ہے۔ یہ مطالبہ بھی کیا گیا کہ وہ علاقے جو افغانستان کا حصہ تھے اور طاقت کے بل پر انگریزوں نے چھینے تھے وہ واپس کیے جائیں۔ اس قِسم کی بلیک میل سے ماضی میں بھی پاکستان اور افغانستان کے تعلقات متاثرہوئے ہیںاس میں بھارت کی شہ پر ظاہر شاہ نے منافقانہ کردار ادا کیا جس کے عوض اُس کو بھارت کی طرف سے ہر سال بھاری رقوم ملتی رہیں۔

اس وقت پشتون آبادی افغانستان کا سب سے زیادہ مظلوم طبقہ ہے۔ افغانستان کے پشتون قبائل پاکستان کے احسانات کے معترف ہیں۔ ان میں سے لاکھوں افراد پاکستان میں پیدا ہوئے ہیںجوافغانستان اور پاکستان کے درمیان کوئی فرق محسوس نہیں کرتے اور چاہتے ہیں کہ دونوںممالک کے درمیان کوئی سرحد نہ ہو۔ لیکن اس کے ساتھ ساتھ وہ صدر پرویز مشرف کی افغان پالیسی سے شدیداختلاف رکھتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ امریکا کو اگر پرویز مشرف کی مددحاصل نہ ہوتی توآج افغانستان تباہی اور بربادی کے کھنڈرات کا ڈھیر نہ ہوتا۔

اس میں شک نہیں ہے کہ پاکستان‘ افغانستان کی تعمیر نو اور ترقی میں ایک اہم کردار ادا کرسکتا ہے۔ خوراک ‘ روزمرہ استعمال کی اشیا ‘ترقیاتی منصوبوں کے لیے سیمنٹ اور سریا یہا ں سے جاتا ہے۔ پاکستان کے پیشہ ور ماہرین‘ مواصلات‘ تعلیم اور صحت کے میدان میں اہم کردار ادا کر سکتے ہیں۔ لیکن کابل میں امریکی انتظامیہ نہیں چاہتی کہ شمالی اتحادکو ناراض کر کے پاکستان کو ملک کی تعمیر نو میں کوئی اہم اور قابل ذکر کردار ادا کرنے کا موقع دیا جائے۔

پاکستان کی افغان پالیسی خود بھی تذبذب کا شکار ہے ۔ بھارت نے شروع میں موقع ملتے ہی ۲۰۰ بسوںکا بیڑا اورآریانہ ائیرلائینز کے لیے ہوائی جہازبھیج دیے جس سے بیرونی ممالک کے ساتھ اُن کے ہوائی رابطے استوارہوئے ۔ بسوں کی وجہ سے اندرون ملک روڈ ٹریفک بحال ہوئی۔ ۲سال کی سوچ بچارکے بعد پاکستان نے بسوں ‘ اور ٹرکوںکی امداد کا جواعلان کیا ہے وہ بھارتی اثرورسوخ کو زائل کرنے میں مدد گار ثابت نہیں ہو سکتا۔ یہ امداد پہلے سال ہی فوراًدی جاتی تو اس کے خوش گوار اثرات مرتب ہوتے۔

افغان آئین اور صدارتی طرزانتخاب

بون معاہدے کے تحت دسمبر کے مہینے میں لویہ جرگہ کا اجلاس منعقد ہوا‘جو صرف ۱۰ دِن کے لیے بلایا گیا تھا‘ لیکن اس کی کارروائی ۲۲ دِن تک جاری رہی۔ لویہ جرگہ کے ۵۰۲ممبران میں سے ۵۰حامد کرزئی کے نامزد کردہ تھے۔ ان میں صبغت اللہ مجددی بھی شامل تھے جو لویہ جرگہ کے چیئرمین منتخب ہوئے۔ ۱۶۰شقوں پر مشتمل آئین کا مسودہ صدر کرزئی کے نامزہ کردہ ۳۵ ارکان کے کمیشن نے تیار کیا تھا لیکن پس پردہ اس کی تیاری میں امریکی سفیر زلمے خلیل زادہ اور اقوام متحدہ کے سکریڑی جنرل کے خصوصی نمایندہ براے افغانستان لخدار ابراہیمی نے کلیدی کردار ادا کیاتھا۔ بون معاہدے کے مطابق کوئی بھی جنگی سردار جرگہ کارکن بننے کااہل نہیں تھا لیکن اس کے باوجود اس میں جنرل عطا‘ عبدالرشید دوستم‘ کمانڈر اسماعیل سمیت سب جنگی سرداروں نے شرکت کی۔ مسودے میں صدارتی نظام کی سفارش کی گئی تھی۔ یہ امریکا کی خواہش پر شامل کیا گیا تھا اس لیے کہ ا س میں صدر کو کابینہ کے وزرا‘ صوبوں کے گورنروں‘ عدلیہ کے ججوں ‘ فوج میں اہم عہدوں کی تعیناتی کا اختیار دیا گیاتھا۔مزید یہ کہ صدر افواج کا سربراہ بھی ہوگا۔ لویہ جرگہ کا زیادہ تر وقت اس بات پر صرف ہوا کہ ملک کا نظام پارلیمانی ہو یا صدارتی۔ شمالی اتحاد کے ۲۰۰ارکان پارلیمانی نظام کے حامی تھے اور اس کا مسلسل مطالبہ کرتے رہے اور ایک موقع پر انھوں نے اجلاس سے واک آؤٹ بھی کیا۔ لیکن بالآخر وہی ہوا جو امریکا کی مرضی تھی۔ لویہ جرگہ نے بالاتفاق صدارتی نظام کی منظوری دے دی۔ یہ آئین چند نمایشی شقوں کو چھوڑ کر ایک مکمل سیکولر آئین ہے۔ آئین میں کہا گیا ہے کہ حکمرانی کا حق صرف عوام کوہے۔ اس میں کہیں بھی شرعی قوانین کے نفاذ کا ذکر نہیں ہے۔البتہ پاکستان کے طرز پر ملک کا نام اسلامی جمہوریہ افغانستان ہوگا۔یہ پہلا آئین ہے جس میں شاہ کا ذکر نہیں ہے البتہ صدر کو وہ سارے اختیارات دیے گئے ہیں جو ۱۹۶۴ء کے آئین میں ظاہر شاہ کو حاصل تھے ۔

حامد کرزئی نے اجلاس کے شروع میں اس بات کا ذکر کیاکہ اگر ملک میں صدارتی نظام رائج نہ کیا گیا تو وہ جون کے انتخابات میں حصہ نہیں لیں گے۔ اس کے لیے انھوں نے ہرطریقے سے جوڑ توڑ کی کوشش کی۔ سرکاری فنڈاوربیرونی امداد کے ایک بڑے حصے کو بے دردی سے اس مقصدکے لیے استعمال کیا گیا۔اور بالآخر ارکان کی اکثریت کو ہمنوا بنا نے اور خریدنے میں کامیاب ہوئے۔ افغانستان میں پارلیمانی نظامِ حکومت اس خطے میں امریکی عزائم کی تکمیل میں رکاوٹ ہے اسی لیے امریکی انتظامیہ فردِ واحد کی وساطت سے افغانستان کے اُمور کو چلانا چاہتی ہے جس کے لیے کرزئی پہلے سے اُن کے اُمید وار ہیں۔ ان کے انتخاب کو یقینی بنانے کے لیے دستور میں مناسب دفعات رکھی گئی ہیں۔امریکا نے اپنے حلقہ اثر والے ممالک میں بھی فردواحد کی حکومتوں کو رواج دے رکھا ہے کیونکہ اس طرح وہ اپنے مفادات کا تحفظ آسانی سے کرسکتاہے۔ عام طور پر فردِ واحد سے لین دین یااس کو اقتدار سے ہٹاناآسا ن کام ہوتا ہے۔ افغانستان میں مضبوط صدارتی طرز حکومت اس مقصد کے تحت قائم کیا گیا ہے تاکہ افغان اُمور کو واشنگٹن کی مرضی اور پسند کے مطابق چلانے میں کوئی رکاوٹ نہ ہو۔

صدیوں سے افغانستان کا نظم ونسق شہنشاہیت‘ قبائلی نظام اور شرعی نظام کے تین ستون پر قائم رہا ہے۔ آئین میں ان تینوں کو نظر انداز کیا گیا ہے اور باہر سے ایک نیا نظام مسلط کیا جا رہا ہے جس کو افغان عوام پوری طرح سے سمجھتے ہیں نہ موجودہ حالات میں اس پر عمل درآمد کی کوئی توقع اوراُمید ہے۔نئے آئین کے مطابق مسلح گروپوں ‘ قومیتوں ‘ فرقوں اور لسانی بنیادوں پر قائم جماعتوں کے ملکی سیاست میں حصہ لینے پر پابندی ہو گی ۔ اہم سوال یہ ہے کہ محمد فہیم ‘ عبداللہ عبد اللہ‘ عبدالرشید دوستم ‘ کمانڈر عطا ‘ حضرت علی اور اسماعیل خان جو اس قانون کی زد میں آتے ہیں کیا واقعی ملکی سیاست میں حصہ نہیں لے سکیںگے؟ آئین میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ خارجی لوگوں کو جایداد خریدنے کی اجازت نہیں دی جائے گی ۔ پاکستان کے پشتون قبائل جوسرحد کے دونوں طرف آباد ہیں اور تجارتی اغراض کے لیے ان کا افغانستان آنا جانا روز کا معمول ہے‘ قندھار وجلال آباد میں ان کی جایدادیں ہیں۔ اُن پر یہ دفعہ کس طرح لاگو کی جا سکے گی؟ یہ بھی سوچنے کی بات ہے کہ اس وقت جب کہ کابل میونسپلٹی کی حدود سے باہر جنگی سرداروں کا راج ہے‘ ان حالات میں دُور دراز علاقوں میںآزادانہ انتخابات کیسے منعقد کیے جاسکیں گے اور جو پارلیمان معرض وجود میں آئے گی وہ کس حد تک عوام کی حقیقی نمایندہ ہوگی۔ یہ اہم سوالات ہیں جن پر افغان دانش وربہت زیادہ فکر مندہیں۔

تعمیرِنو کا عمل

افغانستان کی تعمیر نو کی رفتار بہت سست ہے۔ اس کی ایک وجہ بون معاہدے کے دستخط کنندگان کی افغانستان کی ترقیاتی کاموں میں عدم دل چسپی ہے۔ جاپان کے شہرکیا ٹومیں اربوں ڈالر کی امدادی رقوم کے اعلانات کے باوجود ترقیاتی منصوبوں کے لیے مطلوبہ فنڈ فراہم نہیں کیا جارہا ۔ اس بات کا اندازہ اس سے لگایا جا سکتا ہے کہ ۱۱ستمبرکے بعد امریکا نے افغانستان میں اپنی افواج پر ۱۱ارب ڈالر خرچ کیے‘ جب کہ تعمیر نو کے کاموں پر صرف۹۰کروڑ صرف ہوئے ہیں۔ امریکی اوراتحادی افواج کی سرگرمیاںاس وقت اسامہ کو پکڑو(Catch Osama) مہم پر مرکوزہیں۔ پاک افغان سرحد پرمتعین ۷۰ہزار پاکستان افواج کو بھی مبینہ طورپر اسی مقصدکے لیے استعمال کیا جا رہا ہے۔ پیش نظر یہ ہے کہ امریکی صدارتی انتخابات جیتنے کے لیے صدر بش کے ہاتھ کوئی ٹرافی آ جائے۔ دوسری وجہ امن وامان کی خراب صورت حال ہے جس کی ساری     ذمہ داری امریکا پر عاید ہوتی ہے۔

امن وامان بحال کرنے کے لیے ضروری ہے کہ مجاہدین کے خلاف فوجی آپریشن فوراً بند کیا جائے ۔ غیر ملکی افواج سے ملک کو نجات دلائی جائے۔ ان کے ہوتے ہوئے امن وامان کی بحالی ہو سکتی ہے نہ ترقیاتی کاموں کا آغاز کیا جا سکتا ہے۔ اقوام متحدہ کے زیر نگرانی اسلامی ممالک پر مشتمل فوج ملک میں تعینات کی جائے اور اس کے زیراہتمام ملک کی دستور ساز اسمبلی کے انتخابات کرائے جائیںاور اس کو آئین مرتب کرنے کا کام سونپا جائے۔ ملک میں عام معافی کا اعلان کیا جائے۔افغان جنگی سرداروں اور امریکا کے زیر حراست افراد کو رِہا کیا جائے‘ جنگی سرداروں کی     بیخ کنی کی جائے۔ پوست کی کاشت اور افیون کی تجارت اورہر قسم کے اسلحے پر مکمل پابندی عاید کی جائے۔جن علاقوں سے مختلف نسلی گروہوں کو بے دخل کیا گیا ہے اُن کی اپنے علاقے میں آباد کاری کا بندوبست کیا جائے اور ان سے چھینے ہوئے مکانات اور جایداد واپس دلائی جائے۔

امید کی جاتی ہے کہ ان اقدامات کے بعد افغانستان میں قیامِ امن میں پیش رفت ہوگی اور پہاڑوں جیسی سربلند اور سخت جان قوم ٹھوس منصوبہ بندی کر کے اپنے بہتر مستقبل کے لیے  پیش قدمی کر سکے گی۔