استعماری دنیا کے اپنے اسالیب ہیں۔ طاقت کے بل پر اپنی پسند سے جسے چاہیں وہ ظالم قرار دے ڈالیں اور جسے چاہیں مظلوم کہہ گزریں۔ دنیا بہرحال اہل دانش اوراہل عدل سے خالی نہیں‘ لیکن حیرت اُن لوگوں پر ہوتی ہے جو ہر چڑھتے سورج کے پجاری بن کر حقائق کو جھٹلاتے ہیں‘ اپنے اور اپنی قوم کے خلاف وعدہ معاف گواہ بن کر‘ دانستہ اور نادانستہ طور پر دشمن ہی کے ہاتھ مضبوط کرتے ہیں۔ لیکن کیا کیجیے کہ گذشتہ ڈھائی سو سال کی مسلم تاریخ ہرآنے والا ظالم اور وعدہ معاف گواہ یہی کہتا ہے:’’میں اپنے مسلمان بھائیوں کو بچا رہا ہوں‘‘۔
امریکی استعمار کا مسلط کردہ نام نہاد ’’مسلم ہّوا‘‘ غیرحقیقی ہونے کے باوجود‘ آج کے سیاسی اور سماجی منظرنامے پر پوری طرح چھایا ہوا دکھائی دیتا ہے۔ یہ سب پروپیگنڈے کی کرشمہ سازی ہے کہ رائی کا پہاڑ بلکہ ہمالہ بناکر دکھایا جاتا ہے۔ پھر افغانستان اور عراق پر قیامت مسلط کی جاتی ہے اور اب پاکستان افغان سرحد پر ایک نیا میدانِ جنگ منتخب کرنا پیشِ نظر ہے۔
مغربی اقوام نے اپنے استعماری مقاصد کے لیے کھلے اورچھپے ‘ بڑے نپے تلے اقدامات کیے اور آیندہ بھی کر رہے ہیں۔ اس وقت ہمارے سامنے ایک امریکی رپورٹ ہے جو یکم اکتوبر ۲۰۰۳ء کو ایوانِ نمایندگان میں پیش کی گئی۔ یہ رپورٹ کسی فردِ واحد کی بڑ یا کسی امریکیت زدہ دانش ور کا ذہنی بخار بھی نہیں ہے‘ بلکہ اسے ۱۵ رکنی ایڈوائزری (مشاورتی) گروپ نے مرتب کیا ہے‘ جس میں ۴ سابق امریکی سفیر‘ ۷ امریکی دانش ور اور ۴ مسلم نژاد امریکی شامل ہیں۔ اس رپورٹ کا عنوان ہے:
Changing Minds Winning Peace: a new strategic direction for US Public. Diplomacy in the Arab and Muslim World.
رپورٹ کے دیباچے سے پتا چلتا ہے کہ اس کی تشکیل ایوانِ نمایندگان کے ایما پر ہوئی۔ ایڈوائزری گروپ چیئرمین ایڈورڈ پی ڈجرجین (Edward P. Djerejian)کے بقول: میں وزیرخارجہ کولن پاول کا شکریہ ادا کرتا ہوں کہ انھوں نے گروپ کو اپنے مشن کی تکمیل کے لیے بھرپور اعانت فراہم کی۔ مزیدبرآں حکومت امریکا کے اعلیٰ سرکاری حکام نے نہ صرف واشنگٹن میں‘ بلکہ میدانِ عمل میں بھی ہماری مدد کی۔ ہمیں امید ہے کہ یہ رپورٹ ] امریکا کی[ اسٹرے ٹیجک سمت کے تعین کے لیے نہایت بنیادی اور نازک خطوط متعین کرنے میں مددگار ثابت ہوگی۔ (ص ۵-۷)
۸۰ صفحات کی یہ رپورٹ سات حصوں پر مشتمل ہے جس کا مطالعہ مسلم دنیا کے حکمرانوں‘ صحافیوں‘ سیاست دانوں‘ دانش وروں اور اساتذہ کرام کو ضرور کرنا چاہیے۔ رپورٹ کے مرتب کنندگان نے مصر‘ شام‘ ترکی‘ سینی گال‘ مراکش‘ برطانیہ اور فرانس کا دورہ کیا‘ جب کہ پاکستان اور انڈونیشیا میں ویڈیو کانفرنسوں اور سفارتی اور دیگر ذرائع سے معلومات حاصل کیں۔
چند موضوعات پر رپورٹ کے کچھ حصوں کا ترجمہ اہل دانش کے مطالعے کے لیے پیش خدمت ہے:
’’بیرون امریکا فوجی قوت کو بڑھا کر‘ دوسری حکومتوں سے مضبوط ڈپلومیٹک تعلقات قائم کرکے ہمیں اس جنگ میں مدمقابل دشمن کے مالی ذرائع اور وسائل کا گلا گھونٹ دینا چاہیے‘‘۔ (ص ۱۵)
’’اگر ہم نے اپنے وجودکی وضاحت نہ کی تو خود انتہا پسند ] مسلمان [ ہمارے وجود کے خدوخال بیان کردیں گے۔ مثال کے طور پر ہم العربیہ سیٹلائٹ ٹی وی پر ایک پروگرام دیکھ رہے تھے‘ جس کا عنوان تھا:’’اسلام کو امریکیانے کا عمل‘‘۔ کہا جا رہا تھا کہ امریکا ۱۵۰۰ سال پرانے مذہب ] اسلام[ کا حلیہ بگاڑنے کا شیطانی عمل کر رہا ہے‘ جب کہ وہاں امریکا کا نقطۂ نظر پیش کرنے کے موقعے سے ہم لوگ تو محروم تھے۔ حالانکہ انصاف کا تقاضا ہے کہ امریکا کو مسلم‘ عرب دنیا میں اپنے موقف کی وضاحت کے لیے پورے جوش و خروش سے مقابلے کے لیے موجود ہونا چاہیے‘‘۔ (ص ۱۵‘ ۱۶)
’’عرب اور مسلم دنیا‘ بلکہ یورپی ملکوں میں بھی امریکا کو راے عامہ کے شدید ردعمل کا سامنا ہے۔ اس چیلنج کا جواب دینے کے لیے معلومات اور پروپیگنڈے کو پوری قوت سے پھیلانا ] امریکی [ قومی سلامتی کا نہایت لازمی ہتھیار ہے‘‘ (ص ۲۰)
’’راے عامہ کو زیراثر لانے کا سب سے موثر ذریعہ ٹی وی ہے۔ لیکن عرب اور مسلم دنیا میں اثرانداز ہونے اور امریکی پالیسیوں کی تائید و حمایت حاصل کرنے کے اس ذریعے کو ہم استعمال نہیں کر پا رہے۔ اگرچہ امریکا کو بیرونی دنیا کی راے عامہ کے دبائو میں آکر اپنی پالیسیوں کو تبدیل نہیں کرنا چاہیے… بلکہ ہمیں امریکی اقدار و تصورات کے مطابق عرب اور مسلم دنیا کی فکری تشکیل کر کے امن کی دنیا میں وسعت لانا ہے (ص ۲۳)… جس کے لیے ] وہاں کے [ تعلیمی نظام‘ نجی اور آزاد ذرائع ابلاغ کی ترویج‘ معاشرتی سرگرمیوں میں]مسلم[ عورتوں اور اقلیتوں کی بھرپور شرکت کا اہتمام کرنا ہوگا‘‘ (ص ۲۳)…
’’عرب اور مسلم دنیا کے برسرِاقتدار گروہوں اور افراد کی پشت پناہی‘ امریکی اقدار کے منافی ہے‘ لیکن سردست ہمیں اسی راستے کو اختیار کیے رکھنا ہے‘‘۔(ص ۲۳)
’’مسلم دنیا عجب فکری تضاد کا شکار ہے۔ وہ کہتے ہیں: امریکی اچھے ہیں‘ لیکن امریکی حکومت اچھی نہیں ہے‘‘ حالانکہ یہ حکومت خود امریکیوں ہی نے تو منتخب کی ہوتی ہے۔ دونوں کے درمیان ایسا فرق کرنا ایک غیرمنطقی بات ہے۔ بہرحال ہمیں اس تاثر سے فائدہ اٹھانا چاہیے جو ہماری اقدار کے بارے میں مثبت سوچ پر مبنی ہے‘‘۔ (ص ۲۴)
’’امریکی حکومت ہر سال نصف ارب ڈالر عالمی ذرائع ابلاغ (ریڈیو وغیرہ) پر خرچ کرتی ہے۔ ۱۹۴۲ء سے وائس آف امریکا (VOA)کا آغاز ہوا۔ سردجنگ کے زمانے میں ’’ریڈیو فری یورپ‘‘ اور ’’ریڈیو لبرٹی‘‘ نے امریکی ایجنڈے کی تکمیل میں بڑی مدد کی۔ وائس آف امریکا کی سروس ۵۰ ملکوں کے لیے ہے‘ تاہم اس میں عربی شامل نہیں۔ اب ریڈیو اور ٹی وی مارٹی: کیوبا کے لیے‘ ریڈیو فری یورپ اور ریڈیو لبرٹی: سابق اشتراکی روس‘ بلقان اور افغانستان کے لیے۔ ریڈیو فری ایشیا: چین‘ کمبوڈیا‘ برما کے لیے۔ ورلڈ نیٹ: انگریزی میں عالمی سیٹلائٹ نیٹ ورک۔ ریڈیو فردا: ایران کے لیے‘ جب کہ ریڈیو ساوا: عرب دنیا کے لیے ہے‘ جس نے عرب نوجوان نسل کو موسیقی کے ذریعے اپنا گرویدہ بنایا ہے۔ اسی نیٹ ورک نے اُردن‘ کویت‘ دوبئی‘ قطر‘ بحرین‘ جبوتی اور عراق کے لیے ایف ایم سروس کا اجراکیا ہے اور اے ایم سروس کے ذریعے مصر‘ غزہ‘ شام‘ لبنان وغیرہ کو مخاطب کیا ہے۔ عرب دنیا کو مخاطب کرنے کے لیے مڈل ایسٹ ٹیلی وژن نیٹ ورک (METN) کا آغاز کیا جا رہا ہے‘ جس پر ۲۰۰۴ء میں ۳۷ ملین ڈالر خرچ ہوںگے۔ (ص ۲۸-۳۲)
’’تعلیم وہ شعبہ ہے جہاں پر امریکا کے عرب اور مسلم دنیا سے ہمارے مفادات مشترک دکھائی دیتے ہیں‘ لیکن امریکا اس اہم ذریعے کو خاطرخواہ طریقے سے استعمال نہیں کرسکا۔ اس مقصد کو حاصل کرنے کے لیے تعلیم کے کلیدی پروگراموں کا اجرا‘ اور وظائف کے لیے رقوم کی فراہمی‘ مسلم دنیا میں مستقبل کی قیادت کو ہم رنگ بنانے میں بنیادی کردارادا کر سکتے ہیں۔ یہ ضروری ہے کہ عربوں اور مسلمانوں کے تعلیمی اداروں سے تعلقات کا دائرہ وسیع سے وسیع تر کرنے کے لیے بڑے پیمانے پر مالی وسائل فراہم کیے جائیں‘ اور ان اداروں سے امریکی تعلیمی اداروں کا تعلق جوڑنے کی راہیں تلاش کی جائیں۔ آج مسلم دنیا‘ امریکا کے بارے میں بہت بری رائے رکھتی ہے‘ لیکن دوسری طرف امریکی تعلیم کے حوالے سے مثبت سوچ پائی جاتی ہے۔ ہمیں اس سوچ سے پورا پورا فائدہ اٹھانا چاہیے‘ جس میں ہم ایک جانب تو ان کے نصابِ تعلیم کو بہتر بنائیں اور دوسری جانب انھیں امریکا میں تعلیم کے مواقع فراہم کریں‘‘(ص ۳۳)… ہم شرق اوسط میں امریکی یونی ورسٹیوں کی کارکردگی سے بہت متاثر ہوئے ہیں‘ جنھوں نے کھلی سوچ اور عالمی اقدار کی ترویج کے لیے بے پناہ کام کیا ہے۔ انھوں نے ایسے عرب مردوں اور عورتوں کو تعلیم و تربیت فراہم کی ہے‘ جو راے عامہ کی تشکیل اور ان معاشروں میں قیادت کے مناصب پر فائز ہوں گے۔ امریکی یونی ورسٹی بیروت‘ امریکی یونی ورسٹی قاہرہ اور لبنانی امریکی یونی ورسٹی نجی دائرے میں قائم ہیں‘ جہاں چھے چھے ہزار لڑکے لڑکیوں کو تعلیم دی جا رہی ہے‘ اور یہ قابلِ قدر تعلیمی ادارے‘ عرب مسلم دنیا میں امریکی اقدار کے فروغ میں کلیدی کردار ادا کر رہے ہیں۔ ان تعلیمی اداروں کی مضبوطی اور وسعت ان علاقوں کے تعلیمی ڈھانچے پر اثرانداز ہوگی‘ جس میں یونی ورسٹی تعلیم کو معاشرے کی تبدیلی میں ایک عامل کا کردار ادا کرنا ہے۔ اندریں حالات یہ ایڈوائزری گروپ سفارش کرتا ہے کہ عرب اور مسلم دنیا میں امریکی تعلیمی اداروں کی تعمیر‘ تشکیل اور وسعت پر بھرپور توجہ دی جائے‘ تاکہ امریکی قومی مفادات کو تحفظ دیا جا سکے۔ تعلیمی میدان میں طویل المیعاد سطح پر‘ سب سے زیادہ اثرانداز ہونے والی چیز اس ]مسلم ‘ عرب[ خطے کے طالب علموں کو وظائف کی فراہمی ہے۔ عرب‘ مسلم دنیا کی قیادت پر فائز غالب اکثریت‘ امریکی یونی ورسٹیوں کی فارغ التحصل ہے‘ اور یہ امر باعث مسرت ہے کہ ان میں سے بڑی تعدد نے امریکی وظائف پر ہی تعلیم حاصل کی۔ مگر افسوس کہ ا ب یہ وظائف ۲۰ ہزار سے کم ہوکر صرف ۹۰۰ رہ گئے ہیں (ص ۳۵)… ہم سفارش کرتے ہیں کہ عرب‘ مسلم اور امریکی یونی ورسٹیوں میں نہ صرف باہم مشترک منصوبے شروع کیے جائیں‘ بلکہ تعاون کے مختلف میدانوں میں بھی ہاتھ بٹایا جائے‘ جس میں نصابی کتب کی تشکیل‘ طریق تدریس اور امتحانی طریق کار شامل ہیں۔ مناسب ہوگا کہ یہ کام ہائی اسکول کی سطح پر ہی سے شروع کیا جائے۔ اس طرح مسلم دنیا کے اعلیٰ تعلیمی اداروں میں ]ہمارے نقطۂ نظر سے[ تنقیدی سوچ کے ساتھ معاشی‘ سماجی اور سیاسی امکانات پیدا ہوں گے (ص ۳۴)… امریکا کو مسلم‘ عرب دنیا میں تعلیمی آزادی کے سوال پر بڑا پختہ موقف اختیار کرنا ہوگا۔ ہمیں باہم تعاون کے جن شعبوں میں خصوصی معاہدے کرنے چاہییں‘ ان میں صحافت‘ میڈیا‘ کاروباری انتظامیات اور طب شامل ہیں۔ ہماری جانب سے ’طلبہ ویزوں‘ کے اجرا میں زبردست کمی کوئی اچھا اقدام نہیں ہے۔ مثال کے طور پر پاکستانی طلبہ کے لیے ویزے میں دو تہائی کمی کی گئی ہے۔ مسلم دنیا کے دوسر ے ملکوں کے بارے میں یہی پالیسی ہے۔ اس رجحان کو ختم کرکے برق رفتاری سے طلبہ کو امریکا میں تعلیم کے مواقع فراہم کرنے چاہییں۔ یہی چیز ہمارے قومی مفادات کے حق میں جاتی ہے (ص ۳۵)… اسی طرح ہمیں مسلم دنیا کی یونی ورسٹیوں یا ان کے قرب و جوار میں ’’امریکن کارنر‘‘ کھولنے چاہییں‘ جہاں] مسلم[ نوجوان نسل ہمارے رسائل‘ کتب‘ انٹرنیٹ‘ فلموں‘ موسیقی اور دیگر اعانات سے ہمارے نقطۂ نظر کو سمجھ سکیں گے (ص ۳۷)… پھر ہمیں ’’امریکن رومز‘‘ بنانے چاہییں جہاں ۱۶ سے ۲۵ سال کی عمر کے نوجوان ] مسلمان[ امریکا کی چھے قدروں (آزادی‘ کثرتیت‘ آزاد روی‘معاشرت‘ نئے مواقع اور اظہار ذات) کی لذت چکھ سکیں گے (ص ۳۸)…مسلم دنیا کے خصوصاً اعلیٰ طبقے‘ اساتذہ اور طالب علموں میں امریکی مطبوعات کی بڑی مانگ ہے‘ جس سے ہمیں استفادہ کر کے اپنے مفادات کے حصول کے لیے پہنچنا چاہیے۔ اسی طرح ہمیں مقبول عام مطبوعات کی طرف بھی توجہ دینا ہوگی۔ مثلاً امریکی اسٹیٹ ڈیپارٹمنٹ کے عربی فیشن میگزین ’ہائی‘(HI) کو عرب نوجوانوں میں خاص مقبولیت حاصل ہے … ہمارے اسٹرے ٹیجک مفادات کو کامیابی سے ہم کنار کرنے کے لیے کتب بڑا ہم کردار ادا کریں گی۔ عربی اور مسلم مقامی زبانوں میں ترجمے کے لیے ہر سال ایک ہزار ایسی کتابوں کا ترجمہ مفید ہدف رہے گا۔ یہ کام ]مسلم دنیا میں[ مقامی سطح پر نجی شعبے کی شراکت سے کرنا مناسب ہوگا۔ اس سے ہم ان لوگوں کے تصورات کو درست کر سکیں گے‘‘۔ (ص ۳۹)
’’انفارمیشن ٹکنالوجی میں انٹرنیٹ ایک نہایت طاقت ور ذریعہ ہے۔ عرب‘ مسلم معاشروں میں خاص طور پر عورتوں کی ’نیٹ‘ تک رسائی کے راستے میں متعدد رکاوٹیں ہیں۔ نئی نسل کے لڑکے لڑکیوں کو انٹرنیٹ کی بھوک بری طرح اپنی جانب کھینچ رہی ہے اور ہمیں یاد رکھنا چاہیے کہ مسلمانوں میں آدھی آبادی ۱۷ سال سے کم عمر کے لوگوں پر مشتمل ہے۔ اندریں حالات ان میں انٹرنیٹ تک بڑے پیمانے پر رسائی کے لیے امکانات پیدا کرنا‘ امریکی ثقافت اور اقدار کو مسلم معاشروں میں پیوست کرنے میں خصوصی طور پر معاون ثابت ہوگا (ص ۴۰)۔ امریکی حکومت کو انٹرنیٹ کو عرب‘ مسلم دنیا کے عوام میں پھیلانے کے لیے لگن سے کام کرنے کا منصوبہ بنانا چاہیے۔ یہ سہولت صرف شہروں تک محدود نہیں رہنی چاہیے بلکہ اسے ان دیہات تک بھی پہنچا دینا چاہیے‘ جہاں امریکا مخالف جذبات نسبتاً کم ہیں۔ اس ضمن میں این جی اوز سے مدد لی جانی چاہیے (ص ۴۲)۔ ہمیں انٹرنیٹ اور کمیونی کیشن ٹکنالوجی کی ترویج کے لیے بجٹ کا عظیم حصہ مختص کرنا ہوگا‘‘۔ (ص ۷۰)
’’ہمیں امریکی مفادات کے تحفظ اور مضبوطی کے لیے عرب‘ مسلم دنیا کی مقامی این جی اوز کی بھرپور مدد اور حوصلہ افزائی کرنی چاہیے۔ یہی رضاکار تنظیمیں ان معاشروں سے انتہا پسندانہ سوچ کے خاتمے اور آزاد روی کو پروان چڑھا سکتی ہیں۔ انھی این جی اوز سے ہم ان ]مسلم [ معاشروں کے قلب (core) تک پہنچ سکتے ہیں‘ جہاں سے ہمیں اپنے (مقامی) اتحادی مل سکیں گے۔ ان این جی اوز کو زیادہ تر نوجوانوں اور عورتوں پر انحصار کرنا چاہیے‘ اور امریکا کی این جی اوز سے مضبوط روابط قائم کیے جانے چاہییں۔ یہ ہمارے مقاصد کی تکمیل کے لیے مضبوط قلعے ثابت ہوں گے۔ ہماری اس پہل قدمی سے ان ]مسلم‘ عرب[ معاشروں میں ایک نیا طبقہ وجود میں آئے گا‘ جو ان ملکوں کے سیاسی اور سماجی توازن کو تبدیل کرنے کا پیش خیمہ ہوگا‘‘۔ (ص ۵۳‘ ۵۴)
’’ہماری کامیاب قومی ڈپلومیسی سے متعلق حکمت عملی کا بہت زیادہ انحصار انگریزی زبان کی تدریس پر بھی ہے۔ اس ضمن میں برٹش کونسل‘ امریکی لینگویج سنٹرز‘فل برایٹ پروگرام اور وائس آف امریکا نے بڑی خدمات انجام دی ہیں۔ اگر ہم نے اس پروگرام سے پہلوتہی برتی تو ] مسلم [ معاشروں پر اثرانداز ہونے کا ایک نہایت قیمتی موقع ضائع کر دیں گے۔ بلاشبہہ ان معاشروں میں قدامت پسندوں کی جانب سے اس طرح مزاحمت جاری رہے گی کہ: ’’انگریزی سیکھنے سے ان کی مقامی زبان‘ ان کی تہذیب و ثقافت اور مذہبی قدروں کو خطرہ لاحق ہو رہا ہے‘‘۔ اس مزاحمت کے علی الرغم ہمیں انگریزی کی تدریس عامہ کے لیے ایک وسیع پروگرام پر بڑی رقم خرچ کرنا ہوگی۔ جس میں اولین قدم کے طور پر ان ملکوں کے تعلیمی اداروں میں لسانی تربیت کے لیے امریکی ماہرین بھیجنا ہوں گے۔ یہ امریکی ماہرین ہماری قومی ڈپلومیسی کے فہم سے آراستہ ہونے چاہییں جو وہاں جاکر نصاب سازی اور افراد سازی کریں‘‘۔ (ص ۵۰‘ ۵۱)
m ’’۱۹۴۰ء میں راک فیلر نے لاطینی امریکا کے صحافیوں کو دعوت دی‘ اس کے بعد سے اب تک امریکی سرکاری پالیسی‘ فل برایٹ پروگرام اور ہمفرے پروگرام کے تحت تقریباً ۷لاکھ افراد کو تبادلہ دانش کے پروگرام میں امریکا آنے میں مدد ملی ہے۔ اس وقت بقول کولن پاول: انٹرنیشنل وزیٹر پروگرام (IVP) سے استفادہ کرنے والوں میں ۳۹سربراہان ریاست شامل ہیں (ص ۴۶)۔ اسی طرح انٹرنیشنل ملٹری ایجوکیشن اینڈ ٹریننگ (IMET) نے عرب‘ مسلم دنیا کے ایک ہزار سے زاید فوجی افسروں کو تربیت دی۔ آئی ایم ای ٹی ایک طاقت ور پروگرام ہے جو دنیا میں مستقبل کے لیڈروں کی تربیت کرتا ہے‘‘۔ (ص ۴۷)
__اگر ہم بالترتیب ان نکات پر نگاہ ڈالیں تو معلوم ہوتا ہے کہ‘ امریکی پالیسی سازوں کا پورا زور میڈیا‘ تعلیم‘ این جی اوز اور انگریزی زبان پر ہے:
__ یہ ایک عجیب بات ہے کہ ایک طرف اربوں ڈالر کی یلغار اور خود مسلمان ملکوں کے حکمرانوں کے ہاتھوں میں مقبوضہ قومی وسائل ہیں اور دوسری جانب ’’نادیدہ دشمن‘‘ اور بڑی حد تک ’’تخیلاتی مخالف‘‘ کے وسائل کا حال کسی موازنے کی بنیاد بنتا دکھائی نہیں دیتا۔ مگر ان کے مالی وسائل کو سلب کرنے کا جنون عروج پر ہے۔
__ پروپیگنڈا میں بے بسی کی بات وہ کہہ رہے ہیں جنھوں نے زمین و آسمان سے یک طرفہ اور منفی پروپیگنڈے کا طوفان برپا کر رکھا ہے۔ افغانستان اور عراق کے حوالے سے خود ان کے ذمہ دار کہہ رہے ہیں کہ یہ سب کچھ بے بنیاد افسانے کے بل بوتے پر کیا گیا۔ انسان سوچتا ہے کہ مادی ذرائع کی فراوانی اور الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا پر بھرپور کنٹرول کے باوجود‘ یہ کیسی عالمی طاقت ہے جو راے عامہ سے خائف ہے۔
__ مسلم دنیا کے حکمرانوں کو جان لینا چاہیے کہ یہ اقتدار انھیں ’’اللہ کی طرف سے انعام‘‘ کے طور پر نہیں‘ بلکہ امریکی و استعماری طاقتوں کی نیازمندانہ رفاقت کے عوض ملا ہے۔
__ مخصوص پروپیگنڈا اور میوزک کے بخار سے اپنے مذموم مقاصد کو پورا کرنے کا امریکی منصوبہ اپنے اندر عبرت کے بڑے سبق رکھتا ہے۔ خود ہمارے ہاں کیبل سروس‘ نجی ٹی وی نیٹ ورک‘ ایف ایم سروس بھی کسی نہ کسی درجے میں اسی ایجنڈے پر عمل ہے۔ واقعہ یہ ہے کہ ان ذرائع ابلاغ کی گرفت‘ ابلاغیات کی دیگر تمام اقسام سے زیادہ پراثر اور گمراہ کن ہے۔
__ تعلیم کے میدان میں امریکی منصوبہ سازوں کی حریصانہ بے چینی کو دیکھ کر اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ انھیں جیکب آباد ’’شہباز بیس‘‘ سے بھی زیادہ ضرورت تعلیم کے نام پر سامراجی عزائم کے حلیف ان فکری امریکی اڈوں کی ہے۔ یہ ایک درست قول ہے کہ: امریکی یونی ورسٹی بیروت نے عرب دنیا کے فکری‘ دینی اورسماجی مستقبل کو متاثر کرنے کے لیے وہ کام کیا ہے جو بہت سی مغربی حکومتیں بھی نہ کرسکتی تھیں‘‘۔ آج پاکستان میں ایف سی کالج پر امریکی کنٹرول کی بحالی ‘ نجی شعبے میں نام نہاد انگریزی میڈیم کی گرفت اور پھر آیندہ پاکستان بھر کے ثانوی و اعلیٰ تعلیمی بورڈوں کو آغا خان فائونڈیشن کے قبضے میں دینے کی تجاویز‘انھی سامراجی اور مسلم کش منصوبوں کا حصہ ہیں‘ جن کے بارے میں اہل دانش ہوشیار رہنے کی دہائی دے رہے ہیں‘ مگر مغرب سے زیادہ مغرب کے وفاداروں کو یہ بات سمجھ میں نہیں آتی۔ پھر ’’تعلیمی آزادی‘‘ کا مطلب اگر سمجھنا ہو تو لاہور سے شائع ہونے والے Journal South Asia کے شمارہ۲ (دسمبر ۲۰۰۳ئ) کو ملاحظہ کیا جا سکتا ہے‘ جس میں اے ایچ نیر نے ’’پاکستان میں نصاب کی اسلامائزیشن‘‘ (ص۷۱-۸۷) میں دین‘ اخلاق‘ پاکستانیت‘ دو قومی نظریہ ہر ایک چیز کو نصاب سے کھرچ ڈالنے کی خواہش کا اظہار کیا ہے اور یہ رسالہ سفما (سائوتھ ایشین فری میڈیا ایسوسی ایشن) کی پیش کش ہے۔ مستقبل میں شارجہ اور دوبئی کو امریکی یونی ورسٹی کی شاخوں کے ذریعے آباد کرنے اور ’’دانش کے شہر‘‘ آباد کرنے کے منصوبوں پر بڑی برق رفتاری سے کام کا آغاز ہوچکا ہے۔
__ مسلم دنیا کی عورتوں‘ تعلیم اور اقلیتوں کا مسئلہ امریکی استعمار کے لیے کسی انسانی مسئلے سے زیادہ‘ خود امریکی ’’اقدار و تصورات ‘‘کے پھیلائو اور مذموم سامراجی مقاصد کے حصول کا ایجنڈا ہے۔ دیکھا جائے تو حقوق اور عورتوں وغیرہ کے نام پر قائم شدہ مغربی مفادات کی محافظ نظریاتی این جی اوز کا بنیادی ہدف کسی فرد کی دست گیری سے زیادہ مسلم تہذیبی اقدار کو ہدف بنانا‘ اسلامی نظریاتی اصولوں پر تنقید کرنا‘ خاندانی نظام کی توڑ پھوڑ اور آخرکار اباحیت پسندی اور تشکیک کے کانٹے بونا ہے۔ ہم اپنے ارد گرد مخصوص این جی اوز کو واقعی امریکی مفادات کے مضبوط قلعے (سٹرانگ ہولڈز) کے طور پر کام کرتا دیکھ سکتے ہیں۔ پاکستان میں انھی این جی اوز کو پاکستان کی وفاقی وزارت میں نمایندگی اور قومی وزارتوں میں منصوبہ سازی کے لیے کلیدی رول مل چکا ہے۔ علما‘ اہل دانش اور محب وطن ارکان اسمبلی غالباً ان گہری جڑوں سے نموپانے والے کانٹوں سے پوری طرح باخبر نہیںہیں‘ اور جو اس کے ہولناک نتائج کا شعور رکھتے ہیں‘ ان کی زبانوں پر گوناگوں مفادات کے قفل لگے ہوئے ہیں۔
__ ایک جانب تو اپنی قومی زبان سے پہلوتہی اور ترقی کے نام پر انگریزی کی جانب پیروجواں اور مرد و زن کی لپک ہے اور دوسری طرف صیاد‘ دانہ ودام لیے انھیں اور ان کے مستقبل کو شکار کرنے کے درپے ہیں۔
امریکی ایوان نمایندگان کی اس رپورٹ میں مسلم دنیا کی مسندِاقتدار اور مسندِدانش پر بیٹھے افراد کے لیے غوروفکر اور اُمت کے مفاد میں حکمت عملی تجویز کرنے کا بھرپور چیلنج موجود ہے۔ اہل دانش اور عوام کے لیے اس میں سوچ وبچار کے بڑے نکات ہیں۔