مارچ ۲۰۰۴

فہرست مضامین

اصلاحِ معاشرہ میں احتساب کا کردار

ڈاکٹر طاہر رضا بخاری | مارچ ۲۰۰۴ | نظامِ حیات

Responsive image Responsive image

احتساب (accountability)کا تصور نہ صرف مذہبی لحاظ سے بلکہ دنیاوی امور میں بھی بڑی اہمیت کا حامل ہے۔ قرآن کریم میں بارہا احتساب کے تصور کو دہرایا گیا ہے‘ اور امربالمعروف اور نہی عن المنکر کا حکم دیا گیا ہے‘ یعنی نیکی کی تلقین کی جائے اور برائی سے منع کیا جائے۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی نہ صرف احتساب کا جامع تصور پیش کیا بلکہ اپنی ۲۳سالہ مسلسل جدوجہد میں احتساب‘ محاسبہ اور اصلاح و تطہیرکا عمل جاری رکھا جس کے نتیجے میں ایک مختصر سی مدت میں وہ مثالی معاشرہ وجود میں آگیا جس کی نظیر دنیا آج تک نہ پیش کر سکی۔

احتساب کا یہ تصور زندگی کے ہر شعبے پر محیط ہے۔ انفرادی‘ اجتماعی‘ معاشرتی‘ سیاسی‘ اخلاقی‘ غرض کوئی شعبہ حیات ایسا نہیں جو احتساب کے دائرہ کار سے باہر ہو۔ اسی لیے نظمِ مملکت اور تاسیسِ حکومت ِ الٰہی کے حوالے سے اسلامی ریاست کے انتظامی اداروں مثلاً امورِداخلہ‘ تعلقاتِ خارجہ‘ مالیات‘ عسکری امور‘ عدلیہ اور تعلیم و تربیت کے ساتھ ایک اہم ادارہ ’احتساب‘ ہے جو معاشرتی اصلاح کے حوالے سے بنیادی حیثیت کا حامل ہے۔ اس ادارے کے تحت لوگوں کے عام اخلاق کی نگرانی و اصلاح‘ عمّال ]ملازمین[ کی تربیت اور ان کا محاسبہ‘ نیز تجارتی بدعنوانیوں کا انسداد اور حرام اور ناجائز ذرائع آمدن کی بیخ کنی شامل ہے۔

عوام الناس کے اخلاق کی نگرانی کا یہ کام سرکاری پیمانے پر غالباً اس ارشاد الٰہی کے بموجب تھا کہ:

اَلَّذِیْنَ اِنْ مَّکَّنّٰھُمْ فِی الْاَرْضِ اَقَامُوا الصَّلٰوۃَ وَاٰتَـوُا الزَّکٰوۃَ وَاَمَرُوْا بِالْمَعْرُوْفِ وَنَھَوْا عَنِ الْمُنْکَرِط (الحج ۲۲:۴۱)

یہ وہ لوگ ہیں جنھیںاگر ہم زمین میں اقتدار بخشیں تو وہ نماز قائم کریں گے‘ زکوٰۃ دیں گے‘ نیکی کا حکم دیں گے اور برائی سے منع کریں گے۔

چنانچہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم عام طور پر لوگوں کے اخلاق اور مذہبی فرائض کے متعلق وقتاً فوقتاً داروگیر فرماتے رہتے تھے اور ساتھ ہی ساتھ اُنھیں اس بات پر توجہ دلاتے تھے کہ وہ احکام خداوندی کی پوری طرح پابندی کریں۔ چنانچہ اسلام کی بنیادی اور اصولی چیزوں کی تعلیم و تربیت کے لیے حضوؐر نے تمام قبائل سے کہا کہ ہر ایک قبیلہ اپنے کچھ لوگوں کو منتخب کر کے مدینہ بھیجے۔ آپ ؐ کا یہ طرزعمل بھی اس آیت کی تفسیر تھا:

فَلَوْلَا نَفَرَ مِنْ کُلِّ فِرْقَۃٍ مِّنْھُمْ طَـآئِفَۃٌ لِّیَتَفَقَّھُوْا فِی الدِّیْنِ وَلِیُنْذِرُوْا قَوْمَھُمْ اِذَا رَجَعُوْٓا اِلَیْھِمْ لَعَلَّھُمْ یَحْذَرُوْنَ o (التوبہ ۹:۱۲۲)

اور یہ کچھ ضروری نہ تھا کہ اہل ایمان سارے کے سارے ہی نکل کھڑے ہوتے‘ مگر ایسا کیوں نہ ہوا کہ اُن کی آبادی کے ہر حصے میں سے کچھ لوگ نکل کر آتے اور دین کی سمجھ پیدا کرتے اور واپس جاکر اپنے علاقے کے باشندوں کو خبردار کرتے تاکہ وہ (غیرمسلمانہ روش سے) پرہیز کرتے۔

اصلاح معاشرہ کی تڑپ اور لگن‘ دنیا کے ہر طبقے اور ہر سوسائٹی میں اپنے اپنے افکار ونظریات کے مطابق موجود رہی ہے۔ بدھ مت کے پیروکار تمام مصائب کا سبب‘ نفسانی خواہشات کو قرار دیتے رہے لہٰذا وہ ان خواہشات پر قابو پانے ہی کو اصل سمجھنے لگے۔ زرتشت کے نزدیک‘ بدی کا سدباب صرف برے لوگوں سے نبردآزما ہونے ہی سے ممکن ہے‘ جب کہ کنفیوشس کا طریقہ کار اور اندازِ فکر اس سے بالکل مختلف رہا۔

اسی طرح عصرِجدید میں سرمایہ دارانہ نظام کے نزدیک برائیوں اور جرائم کے سدِّباب کے لیے ذاتی ملکیت کا حق بلاکسی قیدوشرط لازم ہے خواہ وہ جائز ہو یا ناجائز‘ جب کہ اشتراکیت کے نزدیک معاشرتی اصلاح اور برائیوں کے خاتمے کے لیے لازم ہے کہ تمام چیزوں پر ملکیت کااختیار لوگوں کے قبضے سے نکال حکومت کے سپرد کر دیا جائے۔ اس کے برعکس معاشرے کی اصلاح کے لیے اسلام کا طریقہ کار بڑا منفرد اور جامع ہے۔ وہ صالح معاشرے کے قیام کے لیے فرد کی ہمہ جہت اصلاح اور تربیت کو بنیادی اہمیت دیتا ہے۔ اس کے دل کی دنیا بدلتا ہے‘ شعور کو بیدار کرتا ہے اور روحانی بالیدگی کو فوقیت دیتا ہے۔ اس لیے کہ اگر انسان کی اندرونی حالت اور باطنی کیفیت بہتر ہوجائے اور مکمل روحانی طہارت میسرآجائے تو بیرونی دنیا خود بخود سنور اور نکھر جاتی ہے۔ جیسا کہ نبی اکرمؐ کا فرمان ہے:

الا وان فی الانسان مضغۃ اذا صلحت صلح الجسد کلہ واذا فسدت فسد الجسد کلہ الا وھی القلب (مسندامام احمد حنبل‘ ج ۴‘ ص ۲۷۰)

سنو! جسم میں (گوشت کا) ایک لوتھڑا ہے۔ اگر وہ ٹھیک ہے تو سارا جسم ٹھیک۔ اور اگر وہ خراب ہو تو سارا جسم خراب ہو جاتا ہے۔ خبردار وہ لوتھڑا دل ہے۔

انفرادی اصلاح اور فکرِ اسلامی کو راسخ کرنے کے بعد ایک دوسرے کی اصلاح کے فریضے کو لازم قرار دیا گیا ہے تاکہ پورا معاشرہ من حیث المجموع جنت نظیر بن جائے۔ حکمِ خداوندی ہے:

کُنْتُمْ خَیْرَ اُمَّۃٍ اُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ تَـاْمُرُوْنَ بِالْمَعْرُوْفِ وَتَنْھَوْنَ عَنِ الْمُنْکَرِ (اٰل عمرٰن ۳:۱۱۰)

اب دنیا میں وہ بہترین گروہ تم ہو جسے انسانوں کی ہدایت و اصلاح کے لیے میدان میں لایا گیا ہے۔ تم نیکی کا حکم دیتے ہو‘ بدی سے روکتے ہو۔

اصلاحِ معاشرہ سے مراد تمام شعبہ ہاے زندگی کی درستی اور ہر قسم کی حق تلفی‘ بددیانتی‘ ظلم و تشدد اور بدعنوانی سے پاک‘ پاکیزہ ماحول اور صالح نظام کا قیام ہے۔ معاشرے کے کسی خاص شعبے پر خصوصی توجہ سے درستی اور باقی کو نظرانداز کرنے سے لوگوں کو امن وسلامتی اور اطمینان نصیب نہ ہو سکے گا اور نہ وہ مثالی معاشرہ ہی قائم ہو سکے گا جو مطلوب و مقصود ہے۔ دینی امور اور شرعی دستور میں معاشرت و معاملات کی اہمیت بہت زیادہ ہے۔ بقول مولانا منظورنعمانی: معاشرت و معاملات اس لحاظ سے شریعت کے نہایت اہم ابواب ہیں کہ ان میںہدایتِ ربانی‘ خواہشاتِ نفسانی‘ احکامِ شریعت اور دنیوی مصلحت و منفعت کی کش مکش ‘عبادات وغیرہ دوسرے تمام ابواب سے زیادہ ہوتی ہیں۔ اس لیے اللہ کی بندگی و فرمانبرداری‘ اس کی اور اس کے رسولؐ کی شریعت کی  تابع داری کا جیسا امتحان ان میدانوں میں ہوتا ہے دوسرے کسی میدان میں نہیں ہوتا۔ (معارف الحدیث‘ مولانا منظورنعمانی‘ ج ۶‘ ص ۱۸)

نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمان مبارک معاشرت اور معاملات کی اصلاح کی اہمیت کو مزید اجاگر کر رہا ہے۔

حضرت ابوالدردائؓ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کیا میں تمھیں وہ عمل نہ بتائوں جس کے ثواب کا درجہ نماز‘ روزے اور صدقے کے ثواب سے زیادہ ہے۔ ہم نے عرض کیا: ہاں‘ یارسولؐ اللہ (ضرور بتایے)۔ آپؐ نے فرمایا: (وہ عمل) آپس کے معاملات اور معاشرتی تعلقات کی اصلاح ہے۔ اور جو شخص باہمی معاملات اور معاشرتی تعلقات میں فتنہ و فساد پیدا کرے وہ مونڈنے (یعنی دین میں خلل ڈالنے) والا ہے۔ (مشکوٰۃ المصابیح‘ حدیث ۵۰۳۸‘ ج ۲‘ص ۶۲۲)

معاشرتی اصلاح کے لیے یہ بات واضح ہوگئی کہ اسلامی معاشرے میں ’’امربالمعروف ونہی عن المنکر‘‘انفرادی اور اجتماعی فرائض میں شامل ہے۔ اسلامی اخلاقیات کی ترویج اور مذہبی اقدار کا فروغ دینی فرائض کا حصہ ہے۔ ظاہر ہے انفرادی سطح پر تو انسان اپنی بساط کے مطابق اس سے عہدہ برا ہو سکتا ہے مگر اجتماعی اور معاشرتی سطح پر کسی مستقل ادارے کے بغیر ان تقاضوں سے عہدہ برا ہونا بڑا مشکل ہے۔ ’احتساب‘ یا ’حسبہ‘ نے اسی ضرورت کے پیشِ نظر مکمل ادارے کی صورت اختیار کی۔

احتساب

اصطلاحِ شرع میں احتساب ایک دینی فریضہ ہے جس کی تعریف الماوردی اور ابویعلیٰ نے اپنی اپنی تصنیفات الاحکام السلطانیہ میں یوں کی ہے:

احتساب سے مراد اچھائی کا حکم دینا جب کھلم کھلا اس کو ]ترک[ چھوڑ دیا جائے اور برائی سے روکنا جب اس کو کھلم کھلا کیا جانے لگے۔ (احکام السلطانیہ‘ علی بن محمدالحسن الماوردی‘ مترجم: سیدمحمد ابراہیم‘ص ۲۴۰۔ احکام السلطانیہ‘ ابویعلٰی‘ مترجم: مصطفی البابی الحلبی‘ ص ۲۸۴)

الماوردی اور ابویعلیٰ کی اس تعریف کو اور لوگوں نے بھی اختیار کیا ہے۔ لیکن ابن الاخوہ محمد بن محمد بن احمد القرشی نے معالم القربہ فی احکام الحسبہ میں اصلاح بین الناس کے الفاظ کا اضافہ کیا ہے۔ ابن خلدون کی تعریف زیادہ جامع ہے:

یہ ایک دینی منصب ہے جس کا تعلق امر بالمعروف اور نہی عن المنکر سے ہے۔ (مقدمہ ابن خلدون‘ ابن خلدون‘ مترجم: مولانا سعدحسن یوسفی‘ ص ۲۲۰)

معاشرتی اصلاح کے حوالے سے احتساب کی اہمیت سے متعلق ڈاکٹر عبدالقادر عودہ شہیدؒ اپنی تصنیف اسلام کا فوجداری نظام میں لکھتے ہیں:

احتساب کے لازم ہونے سے‘ افرادِ اُمت اس امر کے پابند ہوتے ہیں کہ وہ نظمِ ملت کو برقرار رکھیں‘ امن و سلامتی کا تحفظ کریں۔ جرائم کو پنپنے نہ دیں اور جرائم و معاصی کے وجود کے خلاف برسرِپیکار اور اخلاق کے فروغ پانے میں معاون بنے رہیں اور اس طرح معاشرے کو جرائم سے تحفظ کی معقول ضمانت اور سماجی بے راہ روی سے بچائو کی کافی ضمانت میسرآجاتی ہے۔ معاشرے کی وحدت کو پراگندگی کا کوئی خطرہ نہیں رہتا اور اجتماعی نظام‘ نت نئے افکار اور مہلک تحریکات سے محفوظ رہتا ہے بلکہ مفاسد اور برائیاں بڑھنے اور پھیلنے سے پہلے ہی ختم کر دی جاتی ہیں۔

نظامِ احتساب

مندرجہ بالا احکام سے یہ بات واضح ہوگئی کہ جہاں اور جس وقت کسی دوسرے شخص کو برائی یا خلافِ شریعت کوئی کام کرتے ہوئے دیکھا جائے تو حسبِ استطاعت فوراً ہی اُسے روکیں اور جہاں بھی فساد اور شرکے آثار نظر آئیں تو ان کا قلع قمع کریں‘ نیکی اور بھلائی کا حکم دیں۔ چونکہ معاشرہ مختلف شعبہ ہاے حیات سے مل کر معرضِ وجود میں آتا ہے‘ لہٰذا کسی بھی فرض کی انجام دہی اور دیگر امور میں مطلوبہ نتائج کے حصول کے لیے ایک ہی طریقہ اختیار نہیں کیا جاسکتا۔ انھی امکانات کے پیشِ نظر اسلام میں احتساب کا ایک ایسا جامع نظام وضع کیا گیا ہے جو نتیجہ خیزی کے اعتبار سے انتہائی ارفع ہے۔ جس میں ہرشخص اپنے مقام پر رہ کر اس اہم ذمہ داری کو احسن انداز میں پورا کر سکتا ہے۔ احتساب کے بارے میں اسلام کے متعین کردہ اصولوں کو پانچ دائروں میں تقسیم کیا جا سکتا ہے:

۱-  احتسابِ نفس:حضرت عمربن خطاب سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (روزِ قیامت) حساب کتاب سے پہلے خود اپنے نفس کا محاسبہ کرو اور (روزِ قیامت) بڑی پیشی کے لیے (اعمالِ صالحہ سے) اپنے آپ کو مزین کرو۔ روزِ قیامت حساب صرف اس شخص کے لیے سہل ہوگا جس نے دنیا میں اپنے نفس کا محاسبہ کیا ہوگا۔ (سنن ترمذی‘ کتاب صفۃ القیامۃ‘ باب ۲۵‘ ج ۴‘ ص ۶۳۸)

ارشاد ربانی ہے:

بَلِ الْاِنْسَانُ عَلٰی نَفْسِہٖ بَصِیْرَۃٌ o وَّلَوْ اَلْقٰی مَعَاذِ یْـرَہٗ o (القیامۃ ۷۵: ۱۴-۱۵)

بلکہ انسان خود ہی اپنے آپ کو خوب جانتا ہے چاہے وہ کتنی ہی معذرتیں پیش کرے۔

معاشرہ فرد سے بنتا ہے اور فرد کی اصلاح میں خود احتسابی یا احتسابِ نفس بڑی بنیادی اہمیت کا حامل ہے۔ لیکن نفس کی شاطرانہ چالوں سے بھی کوئی مردِ خود آگاہ اور خودبیں ہی بچ سکتا ہے۔ مولانا صدرالدین اصلاحی کے بقول: ’’یہ نہ بھولنا چاہیے کہ نفس اپنا احتساب کرنے میں سخت  حیلہ گر اور فریب کار ثابت ہوا ہے… اور جو ہمیشہ سے دعوتِ حق کی راہ کا سب سے بڑا پتھر ثابت ہوتا رہا ہے۔ اس لیے اگر راہِ حق کی سچی طلب ہو تو ضروری ہے کہ نفس کی اس مہلک کمزوری اور شعبدہ بازی سے انسان پوری طرح چوکنا رہے اور اپنے فکروعمل کا احتساب کرتا رہے۔ (فریضہ اقامت دین‘ ص ۱۶۴)

نفس کی اصلاح اور خوداحتسابی اس قدر موثر اور نتیجہ خیز چیز ہے کہ اس سے انسان کا ضمیر بیدار اور دل پاکیزہ ہوجاتا ہے‘ اور اگر اس سے کوئی غلط کام ہو بھی جائے تو ضمیر کی ملامت اس کو فوراً اصلاح کی طرف راغب کر دیتی ہے اور ندامت سے اُس کا سر جھک جاتا ہے‘ اور اپنی جبینِ نیاز کو اپنے رب کی بارگاہ میں جھکا دیتا ہے۔ اسی احساس‘ خشیتِ الٰہی اور خوفِ خداوندی کا نام تقویٰ ہے اور شاید اسی کے انعام کا تذکرہ یوں کیا گیا ہے:

وَاَمَّا مَنْ خَافَ مَقَامَ رَبِّہٖ وَنَھَی النَّفْسَ عَنِ الْھَوٰی o فَاِنَّ الْجَنَّۃَ ھِیَ الْمَاْوٰی o (النٰزعٰت ۷۹:۴۰-۴۱)

اور جس نے اپنے رب کے سامنے کھڑے ہونے کا خوف کیا تھا اور نفس کو بُری خواہشات سے باز رکھا تھا‘ جنت اُس کا ٹھکانا ہوگی۔

اور دوسری جگہ ارشاد ہے:

رَضِیَ اللّٰہُ عَنْھُمْ وَرَضُوْا عَنْہُط ذٰلِکَ لِمَنْ خَشِیَ رَبَّہٗ o (البینۃ ۹۸:۸)

اللہ ان سے راضی ہوا اور وہ اللہ سے راضی ہوئے۔ یہ کچھ ہے اُس شخص کے لیے جس نے اپنے رب کا خوف کیا ہو۔

یہ احتسابِ نفس ہی تھا کہ کبارِ صحابہ اور اولیاء اُمت کھانے پینے کی معمولی چیزوں کی بھی پوری چھان بین کرتے تھے تاکہ کوئی لقمۂ حرام یا مشکوک کھانا پیٹ میں نہ چلا جائے۔

حضرت ابوبکرصدیقؓ کا معروف واقعہ ہے کہ بھوک کی شدت سے خادم کا لایا ہوا کھانا بغیرتحقیق کے کھا لیا اور معلوم ہونے پر کہ کھانا مشکوک ہے تو آپ نے اس لقمے کو قے کر کے نکال دیا۔ آپ سے پوچھا گیا: ’’خدا آپ پر رحمت کرے‘ اتنا کچھ آپ نے صرف ایک لقمے کی وجہ سے کیا۔ آپ نے فرمایا: اگر یہ میرے دمِ واپسیں کے ساتھ نکلتاجب بھی میں اس کو نکال کررہتا‘‘۔(صدیق کامل‘ عباس محمودالعقاد‘ مترجم: منہاج الدین اصلاحی‘ ص ۷۶)

خوداحتسابی کے معاملے میں حضرت عمرؓ کا مزاج سب سے نرالا تھا۔ آپؓ کے احتسابِ نفس کا یہ عالم تھا کہ ایک بار مشک کاندھے پر اٹھا کر چل دیے۔ لوگوں نے کہا: یہ کیا ہے؟ فرمایا: میرے نفس میں عجب (تکبر) پیدا ہوگیا تھا۔ میں نے اس کو ذلیل کر دیا۔ اسی طرح ایک بار خطبے کے لیے منبر پر چڑھے اور لوگوں کو مخاطب کر کے کہا۔ میں ایک زمانے میں اس قدرنادار تھا کہ لوگوں کو پانی بھر کر لاکر دیا کرتا تھا۔ وہ اس کے بدلے مجھے چھوہارے دیا کرتے تھے۔ میں وہی کھاکر زندگی بسر کرتا تھا۔ یہ کہہ کر منبر سے اتر آئے۔ لوگوں نے تعجب سے پوچھا: بھلا یہ منبرپر کہنے کی بات تھی؟ فرمایا: میری طبیعت میں ذرا غرور آگیا تھا۔ یہ اس کی دوا تھی۔ (الفاروق‘ شبلی نعمانی‘ ص۳۹۱)

خلافت کے متعلق حضرت عمرؓ کے ذاتی احتساب کا یہ حال تھا کہ ایک دفعہ فرمایا کہ اس ذات کی قسم جس نے محمدصلی اللہ علیہ وسلم کو برحق رسول بنا کر بھیجا‘ اگر کوئی اونٹ فرات کے کنارے مر کر ضائع ہو جائے تو مجھے اندیشہ ہے کہ اس کے متعلق اللہ مجھ سے بازپرس کرے گا۔ (تاریخ طبری‘ مترجم: سیدمحمد ابراہیم‘ ج۲‘ ص ۲۵۳)

۲-  احتساب اہلِ خانہ و اقربا: ارشاد خداوندی ہے:

یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا قُوْٓا اَنْفُسَکُمْ وَاَھْلِیْکُمْ نَارًا وَّقُوْدُھَا النَّاسُ وَالْحِجَارَۃُ عَلَیْھَا مَلٰٓئِکَۃٌ غِلَاظٌ شِدَادٌ لاَّ یَعْصُوْنَ اللّٰہَ مَآ اَمَرَھُمْ وَیَفْعَلُوْنَ مَا یُؤْمَرُوْنَ o (التحریم۶۶:۶)

اے لوگو جو ایمان لائے ہو‘ بچائو اپنے آپ کو اور اپنے اہل و عیال کو اُس آگ سے جس کا ایندھن انسان اور پتھر ہوں گے‘ جس پر نہایت تُندخُو اور سخت گیر فرشتے مقرر ہوں گے جو کبھی اللہ کے حکم کی نافرمانی نہیں کرتے اور جو حکم بھی انھیں دیا جاتا ہے اُسے بجا لاتے ہیں۔ (اُس وقت کہا جائے گا کہ) اے کافرو‘ آج معذرتیں پیش نہ کرو‘ تمھیں تو ویسا ہی بدلہ دیا جا رہا ہے جیسے تم عمل کر رہے تھے۔

سورہ لقمان میں حضرت لقمان ؑ کی زبان سے توحید‘ مکارم اخلاق اور حسن معاشرت کا جو درس قریب قریب پورے ایک رکوع میں دیا گیا ہے‘ اس میں خصوصی خطاب اپنے بیٹے کی طرف ہے اور نماز پڑھنے کے ساتھ ساتھ امربالمعروف ونہی عن المنکر کے فرض کو انجام دینے اور اس راہ میں پیش آنے والی مشکلات کو بھی برداشت کرنے کے متعلق نصیحت فرمائی گئی ہے:

یٰـبُنَیَّ اَقِمِ الصَّلٰوۃَ وَاْمُرْ بِالْمَعْرُوْفِ وَانْہَ عَنِ الْمُنْکَرِ (لقمٰن ۳۱:۱۷)

بیٹا‘ نماز قائم کر‘ نیکی کا حکم دے‘ بدی سے منع کر۔

خود آنحضوؐر کے بارے میں ارشاد ہوا:

وَاْمُرْ اَھْلَکَ بِالصَّلٰوۃِ وَاصْطَبِرْ عَلَیْھَاط (طٰہٰ ۲۰:۱۳۲)

اپنے اہل وعیال کو نماز کی تلقین کرو اور خود بھی اس کے پابند رہو۔

اور پھر اہلِ خانہ کے علاوہ خاص طور پر یہ حکم ہوا کہ اپنے نزدیکی کنبے والوں کو ڈرائو۔

وَاَنْذِرْ عَشِیْرَتَکَ الْاَقْرَبِیْنَ o (الشعراء ۲۶:۲۱۴)

اپنے قریب ترین رشتہ داروں کو ڈرائو۔

۳-  احتساب افرادِ عامہ: احتساب کی یہ وہ سطح ہے جس کا تعلق معاشرے کے عام مسلمانوں کی خیرخواہی سے ہے‘ اس کے ذریعے کتابِ ہدایت پر تمام ایمان لانے والوں کے نفس کو ایمانی ہمدردی اور دوستی کے لوازم میں داخل کر دیا گیا ہے کہ بلاتخصیص مرد و عورت سارے افرادِ اُمت آپس میں ایک دوسرے کو معروف کی تاکید کریں اور منکر سے منع کریں جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے:

وَالْمُؤْمِنُوْنَ وَالْمُؤْمِنٰتُ بَعْضُھُمْ اَوْلِیَآئُ بَعْضٍ یَاْمُرُوْنَ بِالْمَعْرُوْفِ وَیَنْھَوْنَ عَنِ الْمُنْکَرِ (التوبہ ۹:۷۱)

مومن مرد اور مومن عورتیں‘ یہ سب ایک دوسرے کے رفیق ہیں۔ بھلائی کا حکم دیتے ہیں اور برائی سے روکتے ہیں۔

حضرت عبداللہ بن عمرؓ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’جو شخص لوگوں کا حاکم ہے وہ ان کا نگران اور ان کی حفاظت کا ذمہ دار ہے۔ تم سے ان کے امورومعاملات کے بارے میں (قیامت کے دن) پوچھا جائے گا۔ اسی طرح ایک عام شخص بھی اپنے گھروالوں کا محافظ و نگران ہے اور اسے بھی ان کے بارے میں بازپرس ہوگی۔ اور عورت اپنے خاوند کے گھر اور اس کی اولاد کی نگران اور ان کی بہتری کی محافظ و ذمہ دار ہے۔ اور اس سے اس سلسلے میں پوچھ گچھ ہوگی۔ غلام اپنے آقا کے مال کا محافظ اور نگران ہے اور اس سے اس کے متعلق پوچھا جائے گا۔ لہٰذا یاد رکھو تم میں سے ہر شخص نگہبان ہے اور تم میں سے ہرشخص اپنی رعیت کے بارے میں جواب دہ ہوگا‘‘۔ (بخاری‘ ج ۹‘ ص ۷۷)

اسی سلسلے میں ایک اور حدیث ملاحظہ ہو: حضرت معقلؓ بن یسار روایت کرتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’جس بندے کو اللہ نے رعیت کا حاکم و محافظ بنایا اور اس نے بھلائی اور خیرخواہی کے تقاضوں کے مطابق رعیت کی حفاظت کی ذمہ داری پوری نہیں کی تو وہ جنت کی خوشبو بھی نہ پا سکے گا‘‘۔(بخاری‘ ج ۹‘ ص ۸۰)

قرآن و سنت کی رُو سییہ امر واضح ہوا کہ اسلام کا تصورِ احتساب زندگی کے ہر شعبے کا احاطہ کیے ہوئے ہے۔ چاہے کوئی کسی ادارے کا سربراہ ہے یا چند افراد پر مشتمل گھر کا سربراہ۔ حکمران رعایا کے بارے میں‘ والد اولاد کے بارے میں‘ شوہربیوی کے بارے میں‘ بیوی گھر اور اولاد کی حفاظت و تربیت کے بارے میں۔ گویا کہ ہرصاحب منصب ذمہ دار اور جواب دہ بنا دیا گیا۔ احتسابِ عامہ کا یہ فرض صرف وعظ و تقریر یا خطاب عام تک ہی محدود نہیں بلکہ  یہاں مراد خصوصیت سے انفرادی امرونہی ہے اور یہ کہ دوسرے کی بھلائی‘ برائی‘ نیکی و بدی کی ہرچھوٹی بڑی بات کو حسب موقع صرف بتلا ہی نہ دیا جائے بلکہ اس کو نیکی کی راہ پر لگانے اور برائی کی راہ سے ہٹانے کی پوری کوشش کی جائے۔ صحیح مسلم کی حدیث میں استطاعت کے تین درجے وضع کیے گئے ہیں: ’’جب کوئی کسی برائی کو دیکھے تو پہلے تو ہاتھ سے روکے۔ عدمِ استطاعت کی صورت میں زبان سے اور یہ بھی استطاعت نہ ہو تو دل سے برا جانے اور یہ کمزور ترین ایمان ہے‘‘۔ آنحضورؐ نے خود اپنی سنت سے تینوں طریقوں سے تغیّرِمنکر کی بہترین مثال قائم فرمائی۔ اپنی سنت سے تینوں صورتوں ہاتھ‘ زبان اور دل سے منکر کو مٹانے کی صاف اور واضح رہنمائی و نشاندہی فرمائی۔

۴-  اجتماعی احتساب: اجتماعی احتساب سے مراد وہ احتساب ہے جس کے بارے میں خود قرآن پاک نے فرمایا کہ تم میں سے ایک ایسی جماعت ضرور ہونی چاہیے جو خیر کی طرف بلائے اور بھلائی کا حکم دے اور برائی سے روکے۔(اٰل عمرٰن ۳:۱۰۴)

ڈاکٹر محمد ضیاء الدین الرئیس اپنی تصنیف میں لکھتے ہیں: ’’اس آیت سے جو بات نکلتی ہے وہ یہ کہ اُمت پر یہ فرض ہے کہ وہ یہ فریضہ انجام دے اور ایک ایسی جماعت مقرر کرے جس کے ذمے حاکموں کے اعمال کی نگرانی کرنا ہو اور وہ یہ دیکھے کہ قوانین کی پیروی ہو رہی ہے یا نہیں۔ منکر اور مظالم سے روکے اور خیروبھلائی اور اصلاح کی طرف رہنمائی کرے‘‘۔ (النظریات السیاسیۃ الاسلامیہ‘ ص ۳۱۵)

اسلامی معاشرے میں ہمیشہ ایک ایسی مستقل جماعت یا اُمت در اُمت کا رہنا ایک لازمی اور اہم ترین عنصرہے۔ جس کی زندگی کا خاص مقصد اور مشن ہی یہ ہو کہ وہ سب کام چھوڑ کر لوگوں کو خیر کی طرف بلائے۔ یہی جماعت صحیح معنوں میں علما کی جماعت ہے۔ جو دنیوی علم کے ساتھ ساتھ اپنی عمر کا اصلی و منصبی فریضہ یعنی احکامِ الٰہی کی تعلیم و تبلیغ اشاعت و دعوت اور امرونہی وغیرہ میں لگے رہتے ہیں کیونکہ ان پر یہ فرض کر دیا گیا ہے۔

۵-  احتسابِ حکومت: احتساب کی پانچویں قسم حکومت کی طرف سے اس فرض کا انجام پانا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ امر بالمعروف ونہی عن المنکر ہی اسلامی ریاست کی اصل بنیاد اور مقصداعلیٰ ہے جیسا کہ اللہ کا فرمان ہے کہ: اگر ہم اُنھیں زمین میں اقتدار بخشیں گے تو وہ نماز قائم کریں گے‘ زکوٰۃ دیں گے‘ نیکی کا حکم دیں گے اور برائی سے منع کریں گے(الحج ۲۲:۴۱)۔  ابن عربی مالکی اس کی توضیح یوں فرماتے ہیں: ’’امربالمعروف ونہی عن المنکر دین کی بنیاد اور مسلمانوں کی خلافت کی اساس ہے‘‘۔ (احکام القرآن‘ ج ۱‘ ص ۳۹۳)

ابن تیمیہ کے بقول: ’’سارے اسلامی مناصبِ حکومت کا مقصد امر بالمعروف ونہی عن المنکر ہے‘‘۔ (الحسبہ فی الاسلام‘ ص ۳۷)

حکومتی سطح پر احتساب ‘مذکورہ چاروں اجزا کا لازمہ اور خاصّہ اور نظامِ صلاح و فلاح کا اہم ترین جزو ہے۔ اس کی اہمیت پہلی تمام اقسام سے اس لیے بھی زیادہ ہے کہ معاشرے میں وہ لوگ جو سرکشی اور ارتکابِ معصیت میں اس حد تک بڑھ چکے ہوتے ہیں اور شروفساد کا ان پر اس حد تک غلبہ ہوچکا ہوتا ہے کہ پھر ان کو بداخلاقی اور معصیت سے روکنے کے لیے انفرادی سطح پر لوگ بے بس ہو جائیں۔ اس وقت برائیوں کو روکنے کے لیے مکمل طاقت اور حکومتی قوت درکار ہوگی۔ اس صورت میں ادارۂ احتساب کا باقاعدہ اور مستقل قیام ہی ان جرائم کی روک تھام اور امن و امان قائم کرنے کے لیے بہترین کردار ادا کر سکتا ہے تاکہ اللہ کی زمین کو ہر قسم کے شرپسندوں سے پاک کر دیا جائے اور دین کا بول بالا ہو۔

احتسابِ حکومت سے یہاں مراد یہ بھی ہے کہ حکومتی ادارے ازخود بھی کسی طرح کے احتساب سے ماورا نہیں ہیں۔ اسلامی معاشرے میں احتساب کو یک رخا نہیں بنایا گیا بلکہ معاشرے میں ایک دوسرے کے معاملات کو متوازن اور معتدل بنانے کے لیے بیدارمغز رویے موجود رہنے چاہییں۔ جیسے حضرت عمرؓ نے اپنے دورِ خلافت میں منبر سے جب یہ صدا بلند کی: ’’اے لوگو! سنو اور مانو‘‘۔ ایک شخص کھڑا ہوا اور بآواز بلند کہنے لگا کہ ہم تمھاری بات نہ سنیں گے اور نہ مانیں گے۔ جب تک تم یہ نہ بتائو کہ دوسرے لوگوں کو ایک ایک چادر ملی مگر تمھارے جسم پر یہ دو چادریں کہاں سے آئیں‘‘۔(عمر فاروق اعظم‘ محمدحسین ہیکل‘ ص ۵۹۰)

اِنَّ اللّٰہَ یَاْمُرُکُمْ اَنْ تُؤَدُّوا الْاَمٰنٰتِ اِلٰٓی اَھْلِھَالا وَاِذَا حَکَمْتُمْ بَیْنَ النَّاسِ اَنْ تَحْکُمُوْا بِالْعَدْلِط (النساء ۴:۵۸)

مسلمانو! اللہ تمھیں حکم دیتا ہے کہ امانتیں اہل امانت کے سپرد کرو‘ اور جب لوگوں کے درمیان فیصلہ کرو تو عدل کے ساتھ کرو۔

جہاں تک عمال کے محاسبے اور ان کی تربیت کا تعلق ہے تو اس کے دو پہلو ہوسکتے ہیں۔

ایک تو یہ کہ دورِ نبوت میں جن لوگوں کو کوئی اہم ذمہ داری سونپی جاتی مثلاً صدقہ یا زکوٰۃ وغیرہ کی وصول یابی کے لیے بھیجا جاتا‘ ان سے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اس بات کی پوچھ گچھ کرتے تھے کہ کہیں وصولی میں انھوں نے بے جا ظلم یا زیادتی یا ناجائز طریقہ تو اختیار نہیں کیا۔ چنانچہ مشہور واقعہ ہے کہ ایک مرتبہ آپؐ نے بنواسد کے ایک شخص ابن اللتبیہ کو صدقات کی وصولی کے لیے بھیجا۔ جب وہ وصول کرکے واپس آئے تو انھوں نے دو قسم کا مال رسولؐ اللہ کے سامنے یہ کہہ کر رکھ دیا کہ یہ مال مسلمانوں کا ہے اور یہ مال مجھ کو تحفتاً ملا ہے۔ آپؐ نے یہ ملاحظہ فرمایا تو کہا کہ ’’گھر بیٹھے بیٹھے تم کو یہ ہدیہ کیوں نہ ملا؟‘‘ اس کے بعد خطبہ میں اس قسم کے لین دین کی  سختی سے ممانعت فرما دی اور فرمایا: ’’قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضے میں محمدؐ کی جان ہے!   ان محاصل میں جو شخص خیانت کرے گا قیامت کے دن وہ چوری کیا ہوا مال اپنی گردن پر    لادے چلاآرہا ہوگا‘‘(بخاری)۔ حضرت ابوحمیدساعدی کی روایت کے ساتھ یہ حدیث صحیحین ]بخاری و مسلم[  میں بیان ہوئی ہے۔

دوسرا پہلو یہ کہ: رسولؐ اللہ ایک عظیم مصلح اور بیدارمغز حکمران تھے۔ آپؐ کو جہاں یہ خیال تھا کہ عہدیدار اپنے فرائض و واجبات کی بجاآوری صحیح طور پر کریں وہاں اس بات کا بھی خاص اہتمام تھا کہ عمّال و حکام اسلامی نظریۂ حیات پر کامل یقین‘ دینی تعلیمات سے گہری واقفیت اور زیورِاخلاق سے پوری طرح آراستہ ہوں تاکہ جہاں بھی ان کا تقرر کیا جائے وہ کامیاب ثابت ہوں‘ اور کم ازکم وہاں کے باشندے ان کے اخلاق سے شاکی نہ ہوں اور وہ شرع کے مطابق فیصلے کریں۔

حکومت کی ذمہ داریوں میں سے یہ ذمہ داری انتہائی اہم ہے کہ وہ عامۃ الناس کو حرام تجارتی طریقوں سے محفوظ رکھنے کے لیے کاروباری معاملات کی نگرانی کریں۔ نبی اقدسؐ نے اپنی حیاتِ طیبہ میں ان امور کی ازخود نگرانی فرمائی۔ بدعنوان تاجروں کو دین و دنیا کی وعید سنانے کے علاوہ آپؐ نے اچھے اور ایماندار تاجروں کو اخروی اجر کی بشارت بھی سنائی۔ نیز چیزوں کی خرید و فروخت کے سلسلے میں آپؐ نے بات بات پر حلف اٹھانے‘ جھوٹی قسمیں کھانے‘ ناپ تول میں کمی کرنے اوراسی قسم کی دوسری نازیبا حرکات کی سخت ممانعت کر دی‘ اور پھر اس ترغیب و ترہیب کے ساتھ ساتھ عملی اقدامات بھی فرمائے۔ آپؐ بعض اوقات بازاروں اور منڈیوں کا دورہ کرتے اور موقع پر ہی تحقیق و تفتیش فرما کر ضروری تنبیہ یا کارروائی عمل میں لے آتے تھے۔ چنانچہ ایک مرتبہ آپؐ بازار تشریف لے گئے اور غلے کے ایک ڈھیر میں ہاتھ ڈال کر دیکھا تو غلّہ اندر سے گیلاتھا۔آپؐ نے دکاندار سے دریافت فرمایا کہ یہ کیا ہے؟ اس نے جواب دیا کہ بارش سے بھیگ گیا ہے۔ ارشاد ہوا کہ ’’پھر اس کو اوپر کیوں نہیں رکھا تاکہ ہر شخص کو نظرآئے(پھر فرمایا)۔ جو لوگ فریب دیتے ہیں وہ ہم میں سے نہیں ہیں‘‘۔(صحیح مسلم)

وزن اور ناپ تول کو ٹھیک رکھنا قرآن کی بنیادی تعلیمات میں شامل ہے‘ جب کہ رسولؐ اللہ نے بھی اشیا کو محض اندازے کے بجاے تول سے دینے اور وزن کرنے کی ہدایت کی ہے۔ مزیدبرآں آپؐ نے منڈیوں اور بازاروں کی مجموعی نگہداشت اور تاجروں کے بے جا تصرف سے لوگوں کو محفوظ رکھنے کے لیے بازاروں کے لیے باقاعدہ محتسب (مارکیٹ انسپکٹرز) کا تقرر بھی کیا تھا۔

الغرض معاشرتی اصلاح میں ’احتساب‘ ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتا ہے لیکن اس کے ساتھ ساتھ اصلاح و تبلیغ‘وعظ و نصیحت‘ عمدہ افکار وعقائد کی ترویج‘ اخلاقی اصلاح‘ روحانی بالیدگی اور ذہنی پاکیزگی کے لیے دیگر جملہ ذرائع بھی بروے کار لانے ضروری ہیں تاکہ لوگ محض سزا یا سزا کے خوف سے نہیں بلکہ فِی السِّلْمِ کَافَّۃً کا خوب صورت پیکربن کر ایک ایسے خوب صورت اسلامی اور فلاحی معاشرے کی تفسیر پیش کریں جہاں افراط و تفریط اور ظلم و تعدی کا کوئی نشان نظر نہ آئے     ؎

مزدکی ہو کہ فرنگی ہوس خام میں ہے

امنِ عالم تو فقط دامنِ اسلام میں ہے