’’قائدانہ کردار‘‘ (فروری ۲۰۰۴ئ) بہت موثر اور مفید مضمون ہے۔ پڑھ کر جذبات کو مہمیز ملی‘ اپنے کو مزید منظم کرنے کی طرف توجہ ہوئی ‘ اور صلاحیتوں کو نکھارنے کی سوچ پیدا ہوئی۔اس میں تجاویز پر عمل کرکے انفرادی اور اجتماعی اصلاح میں مثبت نتائج حاصل ہو سکتے ہیں۔
’’بوسنیا: چند مشاہدات‘‘ (فروری ۲۰۰۴ئ) بصیرت افروز مضمون ہے۔ بوسنیا کے مسلمان اس وقت جن مشکلات کا شکار ہیں‘ اس کا تقاضا ہے کہ مسلمان اور عالم اسلام بوسنیا کی بحالی اور تعمیرنو میں بھرپور طریقے سے تعاون کرکے ملّی یک جہتی کا ثبوت دیں۔
’’انسان مشقت میں پیدا کیا گیا ہے‘‘ (جنوری ۲۰۰۴ئ) ایک اچھی کاوش ہے۔ پڑھ کر لطف آیا‘ تقابلی مطالعے کے شوق کو کچھ غذا ملی۔ یہ سلسلہ اگر مستقل ہو تو کتنا اچھا ہے!
فہم حدیث کے تحت ’’کلام نبویؐ کی کرنیں ‘‘ ترجمان کے اہم سلسلوں میں سے ایک ہے۔ مولانا عبدالمالک کا شرحِ حدیث کا اسلوب بہت عمدہ ہے‘ ماشا ء اللہ! اس کے صفحات بڑھانے کی بھی ضرورت محسوس ہوتی ہے۔
’’تصوف: اسلامی نقطۂ نظر‘‘ (جنوری ۲۰۰۴ئ) نظر سے گزرا۔ اس ضمن میں عرض ہے کہ قرآن مجید اور احادیث کے مطالعے سے ہم جو نتیجہ اخذ کرتے ہیں اس کا واضح مفہوم یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کو جہاد سب سے زیادہ پسند ہے‘ جب کہ تصوف کی اصطلاح میں جہاد خارج از بحث ہے۔ رسول اکرمؐ نے فرمایا کہ: اعمال کی چوٹی جہاد ہے۔ قرآن مجید میں جہاد کے بارے میں بہت تاکید کی گئی ہے۔جہاد ایک مسلمان کو خانقاہ سے نکال کر میدانِ عمل میں لاکر کھڑا کر دیتا ہے‘ طاغوت سے ٹکرانے اور غلبۂ دین کے لیے انتہائی جدوجہد کا حکم دیتا ہے‘ جب کہ تصوف صرف پوجاپاٹ کی حدتک عبادت کا تصور دیتا ہے۔ تصوف تو جوگیوں‘ بھکشووں‘ درویشوں‘ سنیاسیوں‘ پادریوں‘ برہمنوں اورپجاریوں کی سی ایک قسم ہے جو صرف پوجاپاٹ کر کے اپنی اصلاح کی کوشش کرتے ہیں۔ ذکر بھی تصوف میں ایک محدود عمل ہے‘ لہٰذا اسلام کا مطلوب تصوف نہیں جہاد ہے۔
ڈاکٹر انیس احمد ’’رسائل و مسائل‘‘ (دسمبر ۲۰۰۳ئ) میں لکھتے ہیں: ’’اسلام نے لباس کے حوالے سے قرآن و سنت میں جو اصول ہمیں دیے ہیں‘ ان میں جسم کا تحفظ‘ زینت اور سادگی کے ساتھ یہ بات بھی شامل ہے کہ نہ تو اس سے تکبر کا اظہار ہو اور نہ جان بوجھ کر لاپروائی اور غربت کا اظہار کیا جائے‘‘۔ اسلام کا انتہائی اہم اصول یہ ہے کہ ایسا لباس نہ پہنا جائے جس سے جسم کے اعضا نظرآئیں اور نمایاں ہوں۔اگر یہ اصول بھی بیان کر دیا جاتا تو اسلام کی مکمل ترجمانی ہوتی۔