مارچ ۲۰۰۴

فہرست مضامین

پاکستان کو درپیش حقیقی خطرات

قاضی حسین احمد | مارچ ۲۰۰۴ | اشارات

Responsive image Responsive image

بسم اللہّٰ الرحمٰن الرحیم

پاکستان کے مستقبل کا منظر اس وقت دھندلا گیا جب ستمبر ۲۰۰۱ء کی ایک رات جنرل پرویز مشرف نے امریکی صدر بش کو یقین دہانی کرا دی کہ پاکستان‘ انٹیلی جنس‘ لاجسٹک سپورٹ اور فضائی حدود کے آزادانہ استعمال کے ذریعے افغانستان کی طالبان حکومت کے خلاف امریکی جارحیت کے ساتھ ہے۔ پرویز مشرف نے اس طرح امریکا کا فرنٹ لائن حلیف بننے کا اعلان کر دیا اور اس کا جواز پیش کرتے ہوئے کہا کہ اس طرح انھوں نے پاکستان کو بچالیا اور ’’سب سے پہلے پاکستان‘‘کا نعرہ لگایا۔

ان سے سوال کیا گیا کہ اگر کل کشمیر کے مجاہدین کی حمایت ترک کرنے کے لیے اسی طرح کی دھمکی کا سامنا کرنا پڑے تو ان کا ردعمل کیا ہوگا تو انھوں نے کہا کہ ’’کشمیر ہمارا خون ہے۔ ہم کسی طرح بھی کشمیری مجاہدین کی حمایت سے دست کش نہیں ہوں گے‘‘۔ لیکن جو یوٹرن (u-turn) افغانستان پر امریکی حملے کے وقت لیا گیا تھا‘ اس کے نتیجے کے طور پر حکومت پاکستان کشمیری مجاہدین کی جدوجہد کو بھی بالآخر’’سرحد پار دہشت گردی‘‘ تسلیم کرنے پر مجبور ہوئی اور اب عملاً حکومت کشمیری مجاہدین کی حمایت سے دستبردار ہوگئی ہے۔ اس یوٹرن یا قلابازی کے نتیجے ہی میں اب حکومت پاکستان نے اپنے سائنس دانوں کی تذلیل کی ہے اور ڈاکٹر عبدالقدیر خان کو ملزموں کے کٹہرے میں کھڑا کر دیا ہے۔

ستم ظریفی یہ ہے کہ یہ سب کچھ پاکستان کے ’’بہترین مفاد‘‘ اور ’’سب سے پہلے پاکستان‘‘ کے حوالے سے کیا جا رہا ہے۔ جنرل پرویز مشرف صاحب نے پارلیمنٹ کے سامنے تقریر کرتے ہوئے چار خطرات کی نشان دہی کی تھی:

                ۱-            پاکستان پر الزام ہے کہ وہ افغانستان میں اتحادی فوجوں کی مزاحمت کرنے والوں یا القاعدہ کو پناہ دے رہا ہے۔

                ۲-            پاکستان ایران‘ لیبیا اور شمالی کوریا کو ایٹمی ٹکنالوجی کے پھیلائو کا ذمہ دار ہے۔

                ۳-            پاکستان‘ بھارت اور مقبوضہ کشمیر میں سرحد پار دہشت گردی کا مرتکب ہے۔

                ۴-            پاکستانی معاشرہ ایک انتہا پسند مذہبی معاشرہ ہے۔

جنرل پرویز مشرف اپنی پالیسیوں کے ذریعے دنیا کو یہ باور کرانا چاہتے ہیں کہ پاکستان افغانستان میں اتحادی فوجوں کا حلیف اور پشتی بان ہے‘ اور یہ باور کرانے کے لیے وہ ان تمام عناصر کے خلاف فوجی آپریشن کرنے کے لیے تیار ہے جن پر افغانستان میں مزاحمت کی حمایت کا الزام ہے۔ ان میں وزیرستان اور مہمند کے قبائل اور پاکستان میں واقع دینی مدارس بھی شامل ہیں۔ اس طرح پرویز مشرف صاحب امریکا اور اس کے اتحادیوں کے محض ایک مبہم الزام کو  رفع کرنے کی خاطر پاکستان کی فوج کو مغربی سرحد پر آباد قبائل اور پاکستان کے محب اسلام اور محب وطن عوام سے لڑانا چاہتے ہیں۔ اس سے امریکا کا الزام تو رفع نہیں ہوگا لیکن پاکستان کے اندر انتشار پھیل جائے گا اور فوج اپنے فطری حلیفوں کی حریف بن جائے گی۔ یہ دشمن کا کھیل ہے جو پاکستان کی فوج کو عوام‘ قبائل اور دینی جماعتوں کی تائید سے محروم کر کے اس کے عزم و حوصلے اور مورال کو تباہ کرنا چاہتا ہے۔

ایٹمی ٹکنالوجی کی منتقلی کے بارے میں مبینہ طور پر حکومت پاکستان کو امریکی‘ برطانوی جاسوسی اداروں اور انٹرنیشنل اٹامک انرجی اتھارٹی (IAEA) نے ثبوت فراہم کیے ہیں کہ لیبیا‘ ایران اور شمالی کوریا کو ایٹمی ٹکنالوجی کی منتقلی میں پاکستان کا ہاتھ ہے۔ افغانستان پر حملہ کرتے وقت بھی امریکا نے الزام لگایا تھا کہ نیویارک کے ورلڈ ٹریڈ سنٹر اور واشنگٹن کے پینٹاگان کے حملوں میں افغانستان کی طالبان حکومت کا ہاتھ ہے۔ اسی طرح عراق پر حملے سے قبل امریکا کا دعویٰ تھا کہ اس کے پاس ثبوت ہے کہ عراق کے پاس وسیع پیمانے پر تباہی پھیلانے والے ہتھیار ہیں۔ لیکن عراق کا چپہ چپہ چھان مارنے کے باوجود آج تک عراق میں بڑے پیمانے پر تباہی پھیلانے والے کیمیائی ہتھیاروں یا ایٹمی ہتھیاروں کا کوئی سراغ نہیں مل سکا جس کی وجہ سے برطانوی حکومت اس وقت شدید تنقید کا سامنا کر رہی ہے ‘اور برطانوی وزیراعظم مسٹر ٹونی بلیر یہ کہنے پر مجبور ہوئے کہ اگر ان کو یقین ہوتا کہ عراق میں تباہی پھیلانے والے ہتھیار موجود نہیں ہیں تو وہ عراق پر حملے کی حمایت نہ کرتے۔ خود صدر بش کو اس سلسلے میں غلط بیانی کرنے اور قوم اور کانگریس کو گمراہ کرنے کے الزام سے سابقہ درپیش ہے۔

جارحانہ عزائم رکھنے والی استعماری طاقتیں کمزور اقوام کے خلاف جارحیت کا ارتکاب کرنے سے پہلے ہمیشہ اُلٹے سیدھے بہانے تراشتی ہیں۔ پاکستان کے حکمران‘ بالخصوص پرویزمشرف صاحب‘ اگر یہ سمجھتے ہیں کہ ایٹمی ٹکنالوجی کی منتقلی کو حکومت ِ پاکستان اور افواجِ پاکستان کی بجاے چند سائنس دانوں کی ذاتی حرص کا نتیجہ قرار دے کر بین الاقوامی نظروں میں سرخرو ہوجائیں گے تو یہ ان کی خام خیالی ہے۔ اسی کے نتیجے میں خود پاکستان کے انگریزی پریس میں افواجِ پاکستان اور حکومتِ پاکستان کے خلاف مہم شروع ہوگئی ہے اور یہ برملا کہا جا رہا ہے کہ سائنس دانوں کے لیے تنہا یہ کام کرنا ممکن نہیں تھا‘ اور اگر محض سائنس دانوں نے یہ کام کیا ہے تو یہ پاکستان اور اس کے سلامتی کے نظام کی ناکامی کا ثبوت ہے۔ اس بنیاد پر خود پاکستان کو ایک غیرذمہ دار ملک قرار دیا جا سکتا ہے کیونکہ وہ ایٹمی ٹکنالوجی جیسے حساس اداروں کی حفاظت کرنے کے قابل نہیں ہے۔

پاکستان کے حکمرانوں کو یہ سمجھنا چاہیے کہ امریکا نے اسے ایٹمی طاقت کی حیثیت سے تسلیم نہیں کیا ہے اور وہ اسے نیوکلیئر کلب کا ممبرنہیں بنائے گا۔ اسرائیل اور بھارت کا معاملہ بالکل الگ ہے۔ اسرائیل کی حفاظت امریکی خارجہ پالیسی کا بنیادی ستون ہے۔ بھارت کو امریکا نے اپنی حکمت عملیوں کا حلیف  (strategic partner)قرار دیا ہے اور وہ اسے چین کی طاقت کو روکنے کا ذریعہ سمجھتا ہے۔ پاکستان یہ یقین دہانیاں کرا رہا ہے کہ اس کا ایٹمی ہتھیار خالصتاً دفاعی نوعیت کا ہے اور بھارت کے مقابلے کے لیے اگر اس کے پاس یہ دفاعی ہتھیار موجود نہ ہو تو طاقت کا توازن بگڑ جائے گا اور جنوبی ایشیا کا امن برقرار نہیں رہے گا۔ اس کے باوجود امریکا اور مغربی طاقتیں اسے ’’اسلامی بم‘‘ قرار دے کر کہہ رہی ہیں کہ یہ اسرائیل کے سر پر منڈلانے والا ایک مستقل خطرہ ہے۔ کولن پاول نے واضح اعلان کیا ہے کہ وہ اسرائیل کو ہر طرح کے خطرات سے آزاد اور بے فکر کرنے کا پابند ہے۔

پاکستان کی حکومت نے ڈاکٹر عبدالقدیر خان سے پوری دنیا کے سامنے ایٹمی ٹکنالوجی کی منتقلی کے ’’جرم‘‘ کا ’’اعتراف‘‘ کروا کر خود پاکستان کے خلاف ناقابلِ تردید شہادت فراہم کی ہے۔ امریکا کو جب بھی افغانستان سے فراغت ملے گی اور اسے پاکستان کی حمایت کی ضرورت نہیں ہوگی‘ تو وہ اسی شہادت کو بنیاد بنائے گا اورپاکستانی فوج اور پاکستانی حکومت کو ایٹمی ٹکنالوجی کی منتقلی میں فریق ٹھیرا کر اسی بنیاد پر پاکستان کو اپنا ایٹمی پروگرام رول بیک کرنے پر مجبور کرنے کی کوشش کرے گا۔ سوال یہ ہے کہ کیا اس کے بعد بھی ہم امریکا کے حلیف رہیںگے؟ کیا ہم امریکا کے اس طرح کے مطالبے کے سامنے بھی ’’سب سے پہلے پاکستان‘‘ کا جواز پیش کر کے سرتسلیم خم کر دیں گے؟ اس وقت حکمرانوں سے فوری طور پر اس بنیادی سوال کا جواب طلب کرنے کی ضرورت ہے۔

یہ سوال کسی مفروضے پر مبنی نہیں ہے۔ یہ سوال ایک عملی صورت حال سے اُبھر کر سامنے آیا ہے۔ کیا ہم امریکا‘ بھارت‘ اسرائیل گٹھ جوڑ کے سامنے واقعی بے بس ہیں؟ یا ہم نے اپنی آزادی اور خودمختاری کی حفاظت کرنے کے لیے کوئی متبادل راستہ سوچ رکھا ہے؟ ہمارے حکمرانوں نے کئی بار کہا ہے کہ ہم کشمیر اور ایٹمی پروگرام پر کوئی سودے بازی نہیں کریں گے۔ یہ بھی کہا گیا ہے کہ نیوکلیئر طاقت کے طور پر پاکستان کو اپنی خودمختاری اور آزادی سے محروم کرنا ممکن نہیں ہے۔ لیکن جو راستہ سائنس دانوں کی تذلیل کرکے ہم نے اختیار کیا ہے‘ یہ ایٹمی ہتھیاروں کی حفاظت کا راستہ نہیں ہے بلکہ ایٹمی پروگرام کو رول بیک کرنے کا راستہ ہے۔

پاکستان اور بھارت کے درمیان بات چیت کا آغاز ہوچکا ہے۔ پاکستان کی کوشش ہوگی کہ کشمیر کے مسئلے کو مرکزی نکتے کے طور پر لیا جائے کیونکہ پاکستان اور بھارت کے درمیان معمول کے تعلقات بحال ہونے میں یہی سدراہ ہے۔ دوسرے نکات میں سیاچین‘ وولر بیراج‘ سرکریک‘ تجارتی تعلقات کی بحالی اور ثقافتی وفود کا تبادلہ شامل ہے۔ سیاچین‘ وولر بیراج‘ سرکریک ’دریائوں کا مسئلہ‘ سب مسئلۂ کشمیر کے شاخسانے ہیں۔ کشمیر پر پاکستان کا قومی موقف ہمیشہ سے یہ رہا ہے کہ یہ تقسیمِ ہند کے ایجنڈے کا باقی ماندہ حصہ ہے اور اس کا فیصلہ اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق کشمیریوں کی مرضی سے کیا جائے‘ جب کہ بھارت مصر ہے کہ کشمیر اس کا اٹوٹ انگ ہے اور اگر کوئی مسئلہ ہے تو صرف اتنا ہے کہ اس کے ایک حصے پر پاکستان کا قبضہ ہے۔ اب تک کا تجربہ تو یہی ہے کہ جب بھی پاکستان اور بھارتی وفود آمنے سامنے بیٹھے ہیں‘ پاکستانی وفد نے تو انتہائی ذمہ داری کے ساتھ پوری تیاری کر کے کشمیر کے مسئلے کو سنجیدگی سے حل کرنے کے لیے تجاویز فراہم کی ہیں‘ لیکن بھارتی وفود نے انتہائی غیرسنجیدگی کا مظاہرہ کرتے ہوئے اپنے اٹوٹ انگ والے موقف ہی کو دہرایا ہے۔

جنوری ۲۰۰۴ء میں سارک کانفرنس‘ اسلام آباد کے موقع پر دونوں ممالک کے ذرائع ابلاغ اور حکومتوں نے کشمیر کے مسئلے پر ’’جمود ٹوٹنے‘‘ کی جو فضا پیدا کی ہے‘ بظاہر اس میں کامیابی کے امکانات نظر نہیں آئے۔ حکومت پاکستان نے اپوزیشن کو اپنی خوش فہمی کی وجوہ کے بارے میں بھی کچھ نہیں بتایا۔ دونوں ممالک کے درمیان اچھے تعلقات کے قیام میں اصل رکاوٹ مسئلہ کشمیر کے منصفانہ حل سے بھارت کا انکار ہے۔ اگر بین الاقوامی دبائو کے تحت اس بنیادی مسئلے کو نظرانداز کر کے باہمی اعتماد بحال کرنے کے بہانے دوسرے امور کو اولیت دی جائے گی تو اسے قومی مفادات اور مصلحتوں کے خلاف اور کشمیریوںسے بے وفائی قرار دیا جائے گا۔ جب تک کشمیر کے مسئلے کا منصفانہ حل تلاش نہیں کیا جاتا‘ اس وقت تک مظفرآباد‘ سری نگر روڈ کھولنا اور اس پر بس چلانا کنٹرول لائن کو بین الاقوامی سرحد میں تبدیل کرنا ہے‘ اور کشمیر کے مستقل تقسیم اور  مسلم اکثریت کے ایک بڑے اور خوب صورت علاقے اور پورے پاکستان کی شہ رگ کو بھارت کے حوالے کرنے کے مترادف ہے۔ کشمیر کے مسئلے کا یہ ’’حل‘‘ نہ کشمیریوں کو قبول ہے‘ نہ پاکستانیوں کو‘ اور نہ اس طرح مسئلہ حل ہی ہوسکے گا۔ نہ امن قائم ہوگا‘ نہ تعلقات بحال ہوں گے‘ البتہ حکومت پاکستان ایک بار پھر اپنی کوتاہ اندیشی‘ بے ہمتی اور بودے پن کا ثبوت فراہم کرے گی۔ یہ امریکا کے اور بھارت کے سامنے بھی اپنی بے بسی کا مظاہرہ ہوگا اور اس کے بعد پاکستانی فوج اپنے موجودہ حجم کا جواز ہی کھو دے گی۔

ہمیں اندیشہ ہے کہ دنیا کو یہ باور کرانے کے لیے کہ ’’پاکستان انتہاپسند مذہبی معاشرہ نہیں ہے‘‘ پرویز مشرف حکومت کہیں پاکستان کے بنیادی نظریہ اسلام ہی سے دستبردار نہ ہو جائے۔ حال ہی میں انھوں نے حدود قوانین پر نظرثانی کرنے کی ضرورت پر اظہارخیال کیا ہے۔ پاکستان میں عورت کے مقام کے حوالے سے جو کمیشن بنا ہے ‘اس میں ایسے لوگوںکو شامل کیا گیا ہے جو مسلمہ اسلامی قوانین کو متنازعہ بنانے کی شہرت رکھتے ہیں۔ پرویز مشرف نے اپنی      ترقی پسندی اور ماڈرن ازم کے اظہار کے لیے پارلیمنٹ میں ۲۰ فی صد نشستیں خواتین کے لیے مخصوص کر دی ہیں اور ہماری دیہی کونسلوں میں بھی خواتین کی نمایندگی کو لازمی قرار دیا ہے۔

اسی طرح اقلیتوں کو نہ صرف مخلوط انتخاب کے ذریعے عمومی نمایندوں کے انتخاب پر اثرانداز ہونے کا موقع دیا ہے بلکہ ساتھ ہی دہری نمایندگی کے طور پر مخصوص نشستوں پر اسمبلیوں میں ان کی موجودگی کو بھی یقینی بنا دیا ہے۔ یہ عمل خود مغرب کے مسلمہ معروف جمہوری اصولوں کے منافی ہے۔ دنیا کے کسی بھی جمہوری ملک (امریکا‘ برطانیہ‘ فرانس وغیرہ) میں اس کی مثال موجود نہیں ہے۔ امریکا میں تقریباً ۷۰لاکھ مسلمان بستے ہیں لیکن ان کی کانگریس میں ایک بھی مسلمان ممبر نہیں ہے۔ فرانس میں مسلمانوں کی تعداد وہاں کی کل آبادی کا تقریباً ۶ فی صد ہے لیکن ان کی پارلیمنٹ میں کوئی مسلمان موجود نہیں ہے‘ جب کہ پاکستان میں ۳فی صد اقلیتوں میں سے ہر ایک اقلیت کو قومی اسمبلی میں نمایندگی کا حق دیا گیا ہے اور ساتھ ہی جداگانہ طرزانتخاب کو منسوخ کرکے مخلوط طرزانتخاب بھی رائج کر دیا گیا ہے۔ اس سب کچھ کے باوجود بین الاقوامی طور پر مغرب میں پاکستان میں اقلیتوں کے ساتھ برے سلوک کا واویلا کیا جا رہا ہے‘ اور اس کے لیے قرآنی حدود کے قوانین اور توہین رسالتؐ کے قانون کے تحت عورتوں اور اقلیتوں کے ساتھ ناروا سلوک کا جھوٹا پروپیگنڈا زوروں پر ہے۔

پرویز مشرف صاحب کا معذرت خواہانہ رویہ مغرب کو یہ باور کرانے میں ناکام رہا ہے کہ پاکستانی معاشرہ اعتدال پسند ہے۔ دراصل مغربی میڈیا نے بدنیتی کی بنا پرحقائق کو نظرانداز کرکے  یہ جھوٹا پروپیگنڈا کیا ہے کہ ہم انتہاپسند ہیں (اسلام کا تو بنیادی مزاج ہی اعتدال و توازن کا ہے)۔

ارسطو اور افلاطون جیسے فلسفیوں نے غلام کی تعریف کرتے ہوئے کہا تھا کہ غلام وہ ہوتا ہے جو اپنے لیے سوچنے اور عمل کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتا۔ انھوں نے یہ بات شاید اس لیے کہی تھی کہ غلام خود تو فکروعمل کی صلاحیت سے محروم ہیں‘ اس لیے اب یہ آزاد لوگوں کی ذمہ داری ہے کہ وہ غلاموں کے لیے سوچیںاور منصوبہ بندی کریں۔ مگر وقت گذرنے کے ساتھ‘ آزاد لوگوں کی یہ ذمہ داری‘ سفیدفام لوگوں کی ذمہ دار بن گئی اور اب نئے عالمی نظام کے تحت یہ      ’’ذمہ داری‘‘ امریکا کو منتقل ہوگئی ہے۔ شاید اسی لیے مسلمان ممالک کے حکمران امریکی آقائوں کے اشاروں پر چلتے ہیں کہ اس طرح انھیں مزید برسرِاقتدار رہنے اور اپنی قوموں کا استحصال کرنے کے لیے کچھ مزید مہلت مل جائے گی۔

امریکا کی علانیہ پالیسی ہے کہ اسے کسی ملک میں مداخلت کرنے کے لیے کسی سے پوچھنے کی کوئی حاجت نہیں ہے۔ وہ کسی ملک سے بزعم خویش کوئی خطرہ محسوس کرے تواس خطرے سے محفوظ ہونے اور اس کا سدباب کرنے کے لیے حفظ ماتقدم کے طور پر حملہ (pre-emptive strike) کرسکتا ہے‘ اور اس طرح کرنے کے لیے اسے اقوامِ متحدہ یا کسی دوسرے ادارے سے پوچھنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔ اصل میں سرکش ریاست (rougue state)کی صحیح تعریف یہی ہے کہ وہ ہرطرح کے بین الاقوامی ضابطوں کی پابندی سے آزاد ہوتی ہے۔ اس تعریف کے مطابق آج صرف امریکا ہی ایک حقیقی سرکش ریاست ہے۔ افغانستان اور عراق پر جارحانہ قبضہ کرنے کے بعد اب اس نے ایران کو بھی مارچ کے آخر تک اپنے ایٹمی پروگرام کو کلیتاً ختم کرنے کا نوٹس دے دیا ہے۔ اس کے جواب میں ایرانی وزیرخارجہ نے کہا ہے کہ ایران ایٹم بم بنانے کا ارادہ نہیں رکھتا لیکن اس کے پاس ایٹمی ایندھن بنانے کی صلاحیت موجود ہے اور وہ نہ صرف اس صلاحیت کو برقرار رکھے گا بلکہ بین الاقوامی منڈی میں ایٹمی ایندھن کو فروخت بھی کرے گا۔ انھوں نے یہ بھی کہا ہے کہ ایٹمی پروگرام ایران کے لیے ایک اعزاز اور باعث افتخار ہے اور کوئی بھی ملک اپنے اعزاز اور اپنے مفاد اور مصلحت سے دستبردار نہیں ہوتا۔

ایرانی وزیرخارجہ کے اس بیان کے بعد ہمارے سامنے مستقبل کا خطرناک نقشہ بالکل واضح ہے۔ ایک اہم سوال تو یہ ہے کہ اگر امریکا پاکستان کے ایٹمی پروگرام سے قبل ایران میں مداخلت کرنے کا ارادہ ظاہر کرے تو پاکستان کا رویہ کیا ہوگا؟ کیا وہ ’’سب سے پہلے پاکستان‘‘ کا نعرہ بلند کرکے افغانستان کی طرح اپنے اس مسلمان پڑوسی کے خلاف بھی فرنٹ لائن اسٹیٹ بننے کے لیے تیار ہوگا؟ (اور پھر اپنی باری کا انتظار کرے گا) ‘یا آنے والے خطرات کا مقابلہ کرنے کے لیے ایران سمیت خطے کے دوسرے ممالک کے ساتھ مل کر باہمی دفاع کا کوئی اہتمام کرے گا؟ امریکا نے چین پر بھی ایٹمی ٹکنالوجی کی منتقلی کا الزام عائد کرکے پاکستان‘ ایران اور چین میں تعاون کا راستہ پیدا کر دیا ہے۔

بڑھتے ہوئے امریکی استعمار سے انسانیت کو بچانے کے لیے تیاری کرنے اور سوچ بچار کرنے کی ضرورت ہے۔ حکومت کا فرض ہے کہ نئے راستوں کی تلاش‘ ملکی دفاع اور سلامتی کی خاطر تمام سیاسی قوتوں کو مفاہمت کی دعوت دے اور انتقامی رویے چھوڑ کر (تمام سیاسی رہنمائوں سمیت) وسیع ترمشاورت کا اہتمام کرے‘ تاکہ باہمی اعتماد و مفاہمت کے ذریعے بڑے خطرات کا مقابلہ کرنے کے لیے تدابیر سوچی جا سکیں۔


سترھویں ترمیمی بل کے پاس ہونے پر یہ پروپیگنڈا مہم شروع کردی گئی ہے کہ متحدہ مجلس عمل کا حکمرانوں کے ساتھ سمجھوتا ہوگیا ہے اور مجلس عمل نے وردی میں صدر کو قبول کرکے فوجی مداخلت کو آئینی جواز فراہم کر دیا ہے۔ حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ مجلس عمل نے سترھواں ترمیمی بل پاس کیا ہے‘ ایل ایف او کو آئین کا حصہ تسلیم نہیں کیا۔

جنرل پرویز مشرف اور ان کے ہم نوائوں کا ابتدا سے یہ دعویٰ تھا کہ سپریم کورٹ نے پرویز مشرف کو آئین میں ترمیم کا حق دیا ہے‘ اس لیے انھوں نے ایل ایف او کی صورت میں آئین میں جو ترامیم کی ہیں‘ وہ آئین کا حصہ بن گئی ہیں اور پارلیمنٹ سے انھیں منظور کرانا کوئی آئینی ضرورت نہیں ہے۔ ہم نے ان کا یہ موقف تسلیم نہیں کیا اور یہ موقف اختیار کیا کہ صرف وہی ترامیم آئین کا حصہ متصور ہوں گی جو پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں کی دو تہائی اکثریت سے پاس ہوجائیں گی۔ وزیراعظم ہائوس میں تمام پارٹیوں کے سربراہوں کے اجلاس میں (جس میں اپوزیشن پارٹیوں کے سربراہ بشمول اے آرڈی بھی شریک تھے) ایل ایف او کے سات متنازعہ نکات کی نشان دہی کی گئی:

                ۱-            ایل ایف او آئین کا حصہ نہیں ہے۔

                ۲-            ریفرنڈم کے ذریعے صدر کا انتخاب آئینی نہیں ہے۔

                ۳-            آئینی دفعات کو معطل کرکے ایل ایف او کے ذریعے چیف آف آرمی سٹاف اور صدر کے عہدے کو یکجا کرنے کی گنجایش نکالی گئی ہے۔ یہ غیر آئینی بات ہے۔ آئین کی متعلقہ دفعات کا بحال ہونا آئین کی بحالی کا لازمی تقاضا ہے۔

                ۴-            ججوں کی ریٹائرمنٹ کی عمر میں توسیع ناقابلِ قبول ہے۔

                ۵-            بلدیاتی انتخاب اور پولیس آرڈر ۲۰۰۲ء صوبائی دائرہ کار ہے‘ اسے واپس صوبوں کے حوالے کر دیا جائے۔

                ۶-            قومی سلامتی کونسل کے ادارے کو آئین سے نکال دیا جائے۔

                ۷-            ۵۸-۲‘بی کے تحت صدر کو اسمبلیاں توڑنے کا غیرمشروط اختیار نہیں ہونا چاہیے۔

تقریباً چار ماہ تک مذاکرات ہوتے رہے۔ ان مذاکرات میں آخری دو تین نشستوں کے علاوہ اے آر ڈی کی جماعتوں نے بھی پوری دل چسپی سے حصہ لیا اور جو سمجھوتہ ہوا ہے‘ بڑی حد تک ان کے مندوبین کو بھی اس سے اتفاق تھا۔ ہم نے اپنے سمجھوتے کے نکات کسی مرحلے پر بھی چھپاکر نہیں رکھے اور مذاکرات کی نشستوں کے بعد پارلیمنٹ میں اپوزیشن کے تمام ممبران کو باقاعدہ باخبر کرتے رہے اور پریس کے سامنے بھی اپنا موقف واضح کرتے رہے۔

چنانچہ سترھویں آئینی ترمیم کے ذریعے ہم نے بڑی حد تک حکومت سے اپنا موقف منوالیا ہے اور اس سال کے آخر تک جب جنرل پرویز مشرف چیف آف آرمی سٹاف نہیںرہیں گے تو یہ بات واضح ہو جائے گی کہ فوج کا عمل دخل سیاست میں باقی نہیں رہا۔ کچھ لوگ یہ شبہہ ظاہر کر رہے ہیں کہ جنرل پرویز مشرف آئینی تقاضے کو پورا نہیں کریں گے اور آئین کو نظرانداز کرکے دونوں عہدوں پر بدستور براجمان رہیں گے‘ لیکن اگر پرویز مشرف یہ کرنے کی    کوشش کریں گے‘ تو یہ ایک نیا مارشل لا ہوگا اور نئے مارشل لا کی صورت میں پرویز مشرف کو   خود دست بردار ہونا پڑے گا۔ اس کا امکان اس لیے بھی نہیں ہے کہ فوج پہلے ہی کافی بدنام ہوچکی ہے‘ اور ماضی میں فوج کی مداخلت اس مرحلے پر ہوئی ہے جب سیاست دان اپنی ناقص کارکردگی کی بنا پر لوگوں کی نظروں سے گر گئے اور لوگ خود فوج کی مداخلت کا مطالبہ کرنے لگے۔

اس وقت صورت حال برعکس ہے۔ فوج کی مداخلت سے لوگ تنگ آچکے ہیں اور ان کی واپسی کا پرزور مطالبہ کر رہے ہیں۔ اب جوں جوں وقت گزر رہا ہے‘ یہ بات لوگوں کے سامنے کھل کر آرہی ہے کہ داخلی اور خارجہ پالیسی پر رائے کے لحاظ سے ملک میں اصل حزبِ اختلاف متحدہ مجلس عمل ہی ہے جس کا اختلاف‘ نہ ذاتیات پر مبنی ہے‘ نہ اقتدار کے حصول تک محدود ہے ‘اور نہ کسی کی جلاوطنی یا عدالتی مقدمات کی بناپر ہی ہے بلکہ اصولی طور پر حکومت کی داخلی اور خارجہ پالیسیوںسے بنیادی اختلاف کی بنا پر ہے۔ یہ اختلاف رفتہ رفتہ لوگوں پر واضح ہو رہا ہے اور مخالفانہ جھوٹے پروپیگنڈے کی قلعی کھل رہی ہے۔