گھر زندگی کی ایک بنیادی ضرورت ہے۔ گھر مقامِ رہایش ہی نہیں ایک جاے پناہ بھی ہے جو موسم کی سختیوں اور دیگر خطرات سے حفاظت کرتا ہے۔ تمام جاندار بشمول حشرات الارض‘ جنگلی درندے‘ چرندپرند اپنے لیے گھرتعمیر کرتے ہیں جہاں وہ آزادی سے رہ سکیں اور آرام و سکون حاصل کرسکیں۔
ہر جانور اپنے خالق رب کریم کی عطا کردہ دانش اور رہنمائی کے مطابق اپنے لیے گھر تعمیر کرتا ہے جو اپنی جنس کے لحاظ سے منفرد ہوتا ہے۔ ’بیا‘ کا گھونسلا‘ مکڑی کا جالا‘ شہد کی مکھیوں کا چھتہ‘ چیونٹیوں کے زیرزمین بِل‘ سب اپنی نوعیت کے لحاظ سے فن تعمیر کے شاہکار ہیں۔ مکڑی خود کو اپنے گھر میں محفوظ اور مطمئن خیال کرتی ہے اگرچہ اس کے گھر کی کمزوری کی گواہی اس کے مالک و خالق رب نے خود دی ہے: وَاِنَّ اَوْھَنَ الْبُیُوْتِ لَبَیْتُ الْعَنْکَبُوْتِم (العنکبوت۲۹:۴۱) ’’اور سب گھروں سے زیادہ کمزور گھرمکڑی کا گھر ہی ہوتا ہے‘‘۔
رب کریم نے ہر جانور کی فطرت میں گھر بنانے کا داعیہ رکھ دیا ہے۔ ان میں سے کوئی درخت کی ٹہنیوں پر اپنا گھر تعمیر کرتا ہے‘ کوئی اس کی کھوہ میں۔ کوئی پہاڑوں کے غاروں میں بسیرا کرتا ہے تو کوئی ان کی بلندیوں پر۔ پالتو جانور اپنے گھر خود نہیں بناتے۔ انسان ان کے لیے جو قیام گاہیں بنا دیں وہیں قیام کرلیتے ہیں۔ شہد کی مکھی کا گھر تمام گھروں سے نرالا ہے۔ یہ ایک گھر ہی نہیں ایک فوڈ فیکٹری ہے‘ سٹورہائوس ہے۔ ہزاروں مکھیوں کو رہایش اور جاے کار مہیا کرنے والی ایک کالونی ہے جس کا نظم و ضبط اپنی مثال آپ ہے۔ شہد کی مکھی نے کسی ماہرتعمیرات سے رہنمائی حاصل نہیں کی بلکہ اپنے عظیم المرتبت خالق کی براہِ راست نگرانی میں اپنی ذمہ داری ادا کررہی ہے۔ رب کریم کا ارشاد ہے:
اور دیکھو‘ تمھارے رب نے شہد کی مکھی پر یہ بات وحی کر دی کہ پہاڑوں میں اور درختوں میں‘ اور ٹٹّیوں پر چڑھائی ہوئی بیلوں میں‘ اپنے چھتّے بنا‘ اور ہر طرح کے پھلوں کا رس چوس‘ اور اپنے رب کی ہموار کی ہوئی راہوں پر چلتی رہ۔ (النحل ۱۶:۶۸-۶۹)
۱- وہ اپنے گھر راستوں سے ہٹ کر اس طرح بناتے ہیں کہ راستوں میں رکاوٹ نہ پیدا ہو۔
۲- وہ ناجائز تجاوزات نہیں کرتے۔
۳- وہ اپنی کم سے کم ضرورت پر بڑا گھر نہیں بناتے۔
۴- وہ ایک دوسرے کی ملکیت کا احترام کرتے ہیں۔ کسی دوسرے کے گھر پر ناجائز قبضہ نہیں کرتے۔
۵- گھر کی ملکیت یا قبضے پر بالعموم ان کے مابین جنگ نہیں ہوتی۔
۶- وہ اپنا گھر خود بناتے ہیں۔ گھر کی تعمیر کے معاملے میں کسی دوسرے کی مدد حاصل نہیں کرتے۔
۷- وہ اپنے گھر صاف ستھرے رکھتے ہیں۔
ان خصوصیات کو دیکھ کر اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ یہ معیاری اور فطری خصوصیات ہیں۔
جنت ارضی پر آمد کے ساتھ ہی انسان اپنے لیے موزوں رہایش کی تعمیر وتلاش میں مصروف ہوگیا۔ غاروں کو مسکن بنانے والا انسان جلد ہی تعمیراتی علوم و فنون میں مہارت بڑھاتا چلا گیا۔ اس عظیم خلاق کی ودیعت کردہ ذہانت اور اہلیت کی بنیاد پر نئی نئی اختراعات کا شوقین غاروں اور گھاس پھوس کے جھونپڑوں سے نکل کر عظیم الشان محلات‘ باغات‘ اہرام اور فلک بوس عمارتیں تعمیر کرنے لگا۔ ماحول‘ موسم‘ فیشن اور وقت کے تقاضوں کے مطابق رہایشی بستیاں تعمیر کی جانے لگیں۔ مکانوں کی تزئین و آرایش میں مسابقت شروع ہو گئی۔ گھر ایک بنیادی ضرورت ہی نہیں‘ معیارِ زندگی کی علامت قرار پایا۔ انسان کی ساری زندگی کی تگ و دو ایک آرام دہ‘ شان دار گھر کے لیے قرار پانے لگی۔ جہاں سے اسے تحفظ حاصل ہو‘ جو اس کی خلوتوں کا پردہ پوش‘ اس کے وقار اور ذوق کا آئینہ دار ہو!
گھر کی چار دیواری میں ایک شخص کی اپنی سلطنت ہے جہاں کا وہ خود حاکم ہے‘ اس کو اپنی من مانی کی آزادی ہے۔ گھر کے معاملے میں انسان کی ضرورت کی کوئی حد نہیں۔ کہیں تو ایک مختصر سا گھاس پھونس کا جھونپڑا اس کی تمام ضروریات کے لیے کافی نظرآتا ہے اور کہیں ہزاروں ایکڑ پر مشتمل وسیع و عریض محلات بھی اس کی طمع کی تسکین سے قاصر ہوتے ہیں جن کی تزئین و آرایش اور انتظام و انصرام پر ہی لاکھوں ڈالر ماہانہ اٹھ جاتے ہیں اور پھر معیار برقرار رکھنے اور حفاظت و انتظام کے لیے مزید لاکھوں ڈالر درکار ہوتے ہیں۔
انسانی ضروریات کی وسعت کا اندازہ اس سے کیا جا سکتا ہے کہ ایک آراستہ و پیراستہ گھر ان کی تکمیل سے قاصر ہے۔ وہ گردونواح میں ایک پوری بستی کا محتاج ہے‘ دوسرے انسانوں کے تعاون کا متلاشی ہے۔ وہ اپنے دکھ سکھ میں دوسروں کو شریک دیکھنے کا خواہش مند ہے۔ یوں ایک معاشرہ تشکیل پاتا ہے۔ مختلف گھروں کی تعمیرسے ایک ماحول وجود میں آتا ہے۔ ایک ماحول‘ ایک معاشرے میں رہنے والے افراد ایک دوسرے پراثرانداز ہوتے ہیں۔ وہ ایک دوسرے کے لیے راحت رساں ہوتے ہیں اور باعث آزار بھی! اچھی بستی اور معاشرہ وہ ہے جہاں کے رہنے والے ایک دوسرے کے لیے زیادہ سے زیادہ مددگار ہوں۔ ایک دوسرے کو دکھ دینے والے نہ ہوں۔ اسلامی معاشرت کا بنیادی اصول یہی ہے:
المسلم من سلم المسلمون من لسانہ ویدہ
مسلمان وہ ہے جس کی زبان اور ہاتھ سے دوسرے مسلمان محفوظ ہوں۔
بستیوں کی اس بنیادی ضرورت کے پیشِ نظرایک مہذب معاشرے میں انسانوں کی بودوباش اور تعمیروتشکیل کے کچھ بنیادی اصول و ضوابط طے کر دیے جاتے ہیں تاکہ افراد ایک دوسرے کے لیے باعث راحت ہوں۔ گھروں اور عمارتوں کی تعمیر کے لیے مقتدرانتظامیہ کی جانب سے تعمیراتی ضوابط (building rules) مقرر ہوتے ہیں۔ ملک کے بڑے شہروں کے ترقیاتی ادارے ان ضوابط کے اجرا اور عمل درآمد کی نگرانی پر مامور ہیں۔ قصبوں میں یونین کونسل یا ضلعی حکومتوں کی ذمہ داری ہے کہ وہ ان ضوابط پر عمل درآمد یقینی بنائیں۔
۱- عمارت صحت و صفائی کے اصولوں کے مطابق تعمیرہو۔ اس میں روشنی اور ہوا کی آمدورفت کا مناسب انتظام ہو۔
۲- عمارت کی تعمیر پڑوس کے لیے باعث آزار نہ ہو۔
ان اصولوں کی بنیاد پر ہی شہروں اور بستیوں کی منصوبہ بندی کی جاتی ہے‘ حتیٰ کہ پورا قصبہ یا شہر ایک وجود کی شکل اختیار کر لیتا ہے۔ بستیاں اور شہر کسی قوم کی تہذیب و تمدن کے آئینہ دار ہوتے ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ ’’انسان شہر تعمیر کرتے ہیں اور شہر انسان بناتے ہیں‘‘۔
شہر بسانا ایک سائنس ہے اور آرٹ بھی۔ شہر کچھ متعین حقائق مدنظر رکھ کر ہی تعمیر کیے جاتے ہیں۔ بستیوں کو حسن‘ ترتیب اور توازن عطا کرنا ایک بڑا آرٹ ہے۔ کسی شہر کی تعمیرکی منصوبہ بندی میں جمالیاتی ذوق کی تسکین ہی مقصود نہیں ہوتی بلکہ شہریوں کی مناسب جسمانی اور ذہنی نشوونما کے لیے سازگار ماحول کی فراہمی ایک اہم ضرورت ہے۔
گھر کے لیے مناسب اور باوقار جگہ کی فراہمی۔
بستی میں گھروں کی ایک ترتیب اور منظم تعمیر۔
تجارتی علاقوں کی تخصیص۔
صفائی اور پاکیزگی کا مناسب اہتمام اور کوڑا کرکٹ کو ٹھکانے لگانے کا انتظام۔
ناجائز تجاوزات اور تعمیرات کی روک تھام‘ خطرناک صنعتوں کے بارے میں ضوابط۔
رہایشی علاقوں میں آلودگی کا باعث بننے والی صنعتوں کے قیام کی حوصلہ شکنی۔
بستیوں میں حفاظت اور تفریح کا معقول انتظام۔
تعلیم اور صحت کی سہولتوں کی فراہمی۔
بستی کے مکینوں کی فلاح و بہبود کا انتظام۔
۱- سہولتوں کی فراہمی ۲- خدمات کی فراہمی ۳- صحت مند ماحول
اسلام کی ایک نمایاں خصوصیت یہ ہے کہ یہ انفرادی اور اجتماعی حقوق و فرائض میں ایک خوب صورت توازن پیدا کرتا ہے۔ وہ انسان کے انفرادی تشخص اور خودمختاری کو تسلیم کرتے ہوئے اسے ایسے ضوابط اور حدود کا پابند بناتا ہے کہ اس کی یہ خودمختاری کسی دوسرے فرد کے لیے باعث رنج نہ ہو۔ وہ انسان کو اس بنیادی حقیقت سے آگاہ کرتا ہے کہ وہ اپنے ہر عمل کے لیے اپنے اللہ رب العزت کے حضور جواب دہ ہے۔ جواب دہی کا یہ احساس معاشرتی زندگی میں انسانی عمل کو بے لگام نہیں ہونے دیتا۔ اسے ایک ذمہ دار شہری بناتا ہے جو صرف اپنے لیے نہیں جیتا بلکہ پورے معاشرے کے لیے خدمت گزار اور راحت رساں ہوتا ہے۔ اسلام ہر انسان کو معاشرتی قواعد و ضوابط کا پابند بناتا ہے۔ یہ ہماری دینی ذمہ داری ہے کہ اولی الامر کی اطاعت کی جائے جب تک کہ ان کی جانب سے اپنے رب کی معصیت کا حکم نہ دیا جائے۔ قرآن پاک کا ارشاد ہے:
یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْٓا اَطِیْعُوا اللّٰہَ وَاطِیْعُوا الرَّسُوْلَ وَاُولِی الْاَمْرِ مِنْکُمْ (النساء ۴:۵۹) اے ایمان والو! اللہ کی اطاعت کرو اور اس کے رسول کی اطاعت کرو اور جو تم میں سے اولی الامر ہیں۔
حکام بالا کی اطاعت سے گریز صرف اس صورت میں ممکن ہے جب ان کے حکم پر عمل درآمد سے اللہ اور اس کے رسولؐ کے احکام کی خلاف ورزی ہوتی ہو۔
اپنے ہاتھ اور زبان سے کسی دوسرے کے لیے باعث آزار نہ ہوں۔
جو کچھ اپنے لیے پسند کریں‘ وہی اپنے بھائی کے لیے پسند کریں۔
ہمسایگی کا حق ادا کریں۔
حسن سلوک اور مہربانی اخلاق و کردار کی بنیاد ہیں۔
معاشرتی ضابطوں کی حفاظت ایک عہد ہے۔ جب تک وہ اللہ کے احکام سے نہ ٹکراتے ہوں ان کی ادایگی لازم ہے۔
ہر انسان کی یہ خواہش ہے کہ اسے پُرامن اور آرام دہ زندگی گزارنے کا موقع حاصل ہو۔ یہ اسی وقت ممکن ہے جب ہم میں سے ہر ایک دوسرے کے لیے امن و اطمینان فراہم کرنے والا اور راحت رساں ہو۔ یہ طرزِعمل بستیوں کو جنت کا نمونہ بنا سکتا ہے ع
بہشت آنجا کہ آزارے نباشد
اسلام کے ان بنیادی قواعد کو مدنظر رکھتے ہوئے گھروں اور بستیوں کی تعمیر کے لیے جو احکام دیے گئے ہیں‘ ان کا تفصیلی تذکرہ کرنے سے پہلے یہ مناسب معلوم ہوتا ہے کہ اس امر کی یاددہانی کرلی جائے کہ اللہ رب العزت نے انسان کو ارادے کی جو قوت نصیب کی ہے اس کو بروے کار لاتے ہوئے جب وہ کسی کام کو کرنے کا ارادہ کرتا ہے تو کر گزرتا ہے۔ ہر لمحے اپنے ہاتھ اور زبان کی نگرانی کرنے والا انسان کسی ایسی حرکت کا تصور بھی نہیں کرسکتا جس سے کسی دوسرے کی حق تلفی تو کجا معمولی تکلیف کا بھی احتمال ہو۔
کشادگی: راستوں کی کشادگی اسلامی فنِ تعمیرکی ایک اہم خصوصیت ہے۔ اس کا اصل مقصد راستہ چلنے والوں کی سہولت ہے۔ اسلام چاہتا ہے کہ بستیوں کے راستے ہر طرح کی رکاوٹ اور تکلیف دہ امور سے پاک ہوں۔ حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے: ایک مرتبہ ایک معاملے میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فیصلہ فرمایا کہ راستے کی کم سے کم چوڑائی سات ذرع (تقریباً ۱۰فٹ) رکھی جائے۔ (بخاری)
اس دور کی ٹریفک کو مدنظر رکھتے ہوئے ۱۰ فٹ چوڑا راستہ کافی کشادہ سمجھا جا سکتا ہے۔ اس اصول کو پیش نظر رکھتے ہوئے کسی بھی بستی میں ٹریفک کے متوقع دبائو کے پیش نظر گلیوں اور سڑکوں کی چوڑائی کا فیصلہ کیا جا سکتا ہے تاکہ ٹریفک کے بہائو میں کوئی رکاوٹ نہ آنے پائے۔
رکاوٹوں کو دُور کرنا: اسلام اس بات کو قطعاًناقابلِ قبول خیال کرتا ہے کہ راستوں میںکسی طرح کی رکاوٹ پیدا کی جائے۔ اسے تو راستے میں بیٹھنا یا کھڑا ہونا بھی گوارا نہیں ہے‘ اس لیے کہ اس سے راہ گیروں کے لیے رکاوٹ پیدا ہوسکتی ہے۔ آپؐ نے فرمایا:
راستوں میں نہ بیٹھو اور اگر تمھیں ایسا کرنا ہی ہے تو اس کا حق ادا کرو۔ صحابہ کرامؓ نے دریافت فرمایا: یارسولؐ اللہ! راستے کا حق کیا ہے؟ آپؐ نے فرمایا: ۱- اپنی آنکھوں کی حفاظت کرو ‘۲- دوسروں کے لیے تکلیف کا باعث نہ بنو‘ ۳- سلام کا جواب دو‘ ۴-راہ گیر کی رہنمائی کرو‘ ۵- امربالمعروف اور نہی عن المنکر پر عمل کرو۔
راستوں کو تکلیف دہ امر سے محفوظ رکھنا اس قدر اہم خیال کیا گیا کہ راستے سے پتھر کے ایک چھوٹے ٹکڑے کو ہٹانا بھی صدقہ اور نیکی قرار دیا گیا۔ انسانوں کو خوش کرنا اتنا پسندیدہ ٹھیرا کہ مسکرا کر دیکھنا بھی نیکی قرار پایا۔
۱- گھروں کے باہر ایسے تھڑے تعمیر نہ کیے جائیں جو راستے کی رکاوٹ کا باعث ہوں۔ اس کا اطلاق اب گیٹ کے راستے پر بھی ہوتا ہے۔
۲- راستے میں اس طرح درخت نہ لگائے جائیں جو رکاوٹ اور تنگی کا سبب بن جائیں۔
۳- گھر سے باہر نکلی ہوئی بالکونیاں ‘ چھجے اور برآمدے تعمیر نہ کیے جائیں۔
۴- کھونٹے اور لکڑیاں گاڑ کر راستے میں تجاوزات کی کوشش نہ کی جائے۔
۵- راستے میں جانوروں کو نہ باندھا جائے جو راہ گیروں کے لیے اذیت‘ رکاوٹ اور پریشانی کا باعث ہوں۔ اس کا اطلاق اب گاڑیوں کی پارکنگ پر ہوتا ہے۔
۶- راستے میں چھلکے اور کوڑا کرکٹ نہ پھینکا جائے۔
۷- راستے میں پانی نہ چھڑکا جائے جو کیچڑ اور پھسلن کا باعث ہو۔ گھروں کا استعمال شدہ پانی راستوں میں بہانے سے احتراز کیا جائے۔
۸- کوئی ایسی تجاوزات نہ کی جائیں جو پانی کے بہائو میں رکاوٹ کا باعث بن جائیں۔
ایک شخص کا یہ عمل اسے جنت میں لے جانے کا باعث بن گیا کہ اس نے راستے میں درخت کی ایک شاخ دیکھی جو لوگوں کے لیے تکلیف کا سبب بن رہی تھی۔ اس نے کہا کہ وہ یہ شاخ کاٹ ڈالے گا تاکہ یہ راہ گیروں کے لیے تکلیف کا سبب نہ بنے۔ (مشکوٰۃ‘ ج ۱۶‘ ص ۱۸۰۷)
راستے سے پتھر ‘ کانٹا یا ہڈی کا ہٹانا صدقہ ہے۔ (مشکوٰۃ‘ ج ۲۳‘ ص ۱۸۱۴)
اے اللہ کے رسولؐ! مجھے کوئی ایسا عمل بتایئے جو نفع دینے والا ہو؟آپؐ نے فرمایا: راستے کو اذیت دینے والی اشیا سے صاف کرو۔ (مشکوٰۃ‘ ج ۱۸‘ ص ۱۸۰۹)
اگر کوئی مسلمان ایک درخت لگاتا ہے تو وہ اس کا اجر پائے گا‘ اس لیے کہ اس سے دوسرے انسان اور جانور فائدہ حاصل کرتے ہیں۔ (بخاری)
درخت جان داروں کے لیے غذا کی فراہمی میں معاون ہوسکتے ہیں۔ راہ چلنے والوں کے لیے سایہ فراہم کرتے ہیں۔ آلودہ فضا کو صاف کرتے ہیں‘ راستوں کو خوب صورت اور خوش نما بناتے ہیں۔ چنانچہ معاشرے کو آرام دہ اور خوب صورت بنانے کا یہ عمل صدقہ جاریہ بن جاتا ہے۔
اسی ترغیب کا نتیجہ تھا کہ حضرت عمرؓنئے شہروں کی تعمیرمیں یہ ہدایت فرماتے کہ مختلف محلوں کے درمیان خالی جگہ چھوڑی جائے جس میں درخت لگائے جائیں‘ حتیٰ کہ بستیوں کے چاروں طرف درخت ہوں۔
اسلام جسم اور روح کی پاکیزگی اور طہارت کو ایمان کا لازمی جزو قرار دیتا ہے۔ روح کی پاکیزگی کے بغیر تو کوئی شخص مسلم ہو ہی نہیں سکتا۔ جسم کی طہارت اور صفائی ایک صحت مند ماحول اور معاشرے کی تشکیل کے لیے حددرجہ لازم ہیں۔ پاکیزگی اختیار کرنے والوں کو خالق کائنات کی محبت کی خوشخبری دی گئی ہے۔ وَاللّٰہُ یُحِبُّ الْمُطَّھِّرِیْن(التوبۃ ۹:۱۰۸) ’’اور اللہ پاک لوگوں سے محبت کرتا ہے‘‘
وَثِیَابَکَ فَطَھِّرْo وَالرُّجْزَ فَاھْجُرْ o (المدثر ۷۴:۴-۵)
اور اپنے کپڑے پاک کرو اور گندگی سے دُور رہو۔
صفائی اور نظافت کی اس درجہ اہمیت کے تحت ہی نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: پاکیزگی ایمان کا حصہ ہے۔ اور پاکیزگی نصف ایمان ہے۔
نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے امورفطرت کا ذکر کیا جن پر عمل ہرپاکیزہ فطرت والا شخص پسند کرتا ہے اور جنھیں تمام انبیا علیہم السلام کی تعلیمات میں بنیادی اہمیت حاصل ہے۔ ان امور میں سے ۹۰ فی صد طہارت اور پاکیزگی سے متعلق ہیں۔ مناسک عبودیت کی ادایگی میں طہارت بنیادی شرط ہے۔ جب تک جسم‘ لباس اور جگہ پاک صاف نہ ہو‘ نماز ادا نہیں ہوتی۔ حج اور عمرہ مکمل نہیں ہوتے۔
نماز کی ادایگی پر عمل کرنے والا شخص ناپاک نہیں رہ سکتا‘ گھر اور ماحول کو غلیظ نہیں رکھ سکتا۔ مدینہ کی ریاست اپنے ابتدائی دور میں مالی تنگی اور عسرت کا شکار تھی۔ جہاں کم ہی گھرانے ایسے تھے جنھیں دو وقت کی روٹی پیٹ بھر کر نصیب ہوتی لیکن صفائی اور پاکیزگی کے اعلیٰ معیار کے باعث وہاں بیماری شاذ تھی۔ ایک ایسی سرزمین جہاں پانی کی فراہمی ایک بڑا مسئلہ تھا وہاں اس امر پر زور دیا گیا کہ اجتماعی اجلاس اور باجماعت نماز میں اپنے جسم کی بو سے بھی دوسروں کو محفوظ رکھا جائے۔ جہاں ہر وقت باوضو رہنے کا اہتمام ہو‘ جہاں گلی اور راستے میں کوڑا کرکٹ تو کجا استعمال شدہ پانی تک پھینکنے کو روا نہ خیال کیا جائے‘ جہاں راستوں میں تھوکنے اور غلاظت ڈالنے کا تصور تک نہ ہو‘ ایسا معاشرہ کیوں صحت مند معاشرہ نہ ہوگا۔ پاک روح‘ پاکیزہ جسم ہی میں قیام کرتی ہے‘ اور پاکیزہ ماحول ہی میں پنپتی ہے۔
عمدہ معاشرت کی بنیاد ادایگی حقوق پر ہے۔ جس معاشرے کا ہر فرد دوسروں کے حقوق سے متعلق اپنی ذمہ داریاں پہچانتا اور ان کو ادا کرتا ہے‘ وہ مطمئن اور پرسکون معاشرہ ہے۔ پڑوسی سب سے زیادہ ایک دوسرے کے اچھے یا برے طرزِعمل اور اخلاق سے متاثر ہوتے ہیں۔ اس لیے قرآن پاک ادایگی حقوق کی فہرست میں ’’پہلوکے ساتھی‘‘ کا خاص طور سے ذکر کرتا ہے‘ حتیٰ کہ دورانِ سفر عارضی قائم ہونے والے پڑوسی کے ساتھ بھی احسان کے ساتھ حسنِ سلوک کا حکم دیا گیا ہے۔ (النساء ۴:۳۶)
پڑوسیوں کے ساتھ حسنِ سلوک اور احسان کا رویہ ماحول کو خوش گوار رکھنے میں نہایت اہم ہے۔ ایک دوسرے کے لیے احترام اور لحاظ کا جذبہ بہت سی بدمزگیوں کو پیدا ہی نہیں ہونے دیتا۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک موقع پر فرمایا: ’’کوئی شخص اس وقت تک سچا مسلم نہیں ہو سکتا‘ جب تک وہ اپنے پڑوسی کے لیے وہی نہ پسند کرے جو اپنے لیے کرتا ہے‘‘ (مسلم)۔ ایک مرتبہ آپؐ نے فرمایا: ’’خدا کی قسم وہ شخص مسلمان نہیں جس کی شرارت سے اس کے پڑوسی محفوظ نہیں‘‘۔ (بخاری‘ مسلم)
بیمار ہو تو اس کی عیادت کرو۔
وفات پا جائے تو اس کے جنازے پر جائو۔
قرض مانگے تو اس کو قرض دو۔
اگر اس کے پاس لباس نہ ہو تو اسے لباس پہنائو۔
اسے کوئی نعمت ملے تو اسے مبارک (برکت کی دعا) دو۔
اسے رنج پہنچے تو اس سے ہمدردی کرو۔
اپنا گھر اس کے گھر سے بلند نہ کرو کہ اس کی روشنی اور ہوا میں رکاوٹ ہو۔
اپنے چولہے کے دھوئیں سے اسے تکلیف نہ دو۔
اسلام کو یہ ہرگز گوارا نہیں کہ کوئی شخص خود توپیٹ بھرکر کھانا کھائے اور اس کا پڑوسی بھوکا ہو۔ وہ تواس لیے شوربا پتلا کرنے کی ترغیب دیتا ہے تاکہ پڑوسی کو اس سالن میں شریک کیا جاسکے۔ وہ تو پھلوں کے چھلکے بھی پڑوسی کے سامنے پھینکنے کی اجازت نہیں دیتا۔ مبادا اس کے بچوں کو پھل دستیاب نہ ہونے کے باعث چھلکے دیکھ کر احساسِ محرومی ہو۔
نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے پڑوسی کو ایذا پہنچانے کے کچھ کام گنواتے ہوئے ان سے واضح الفاظ میں منع فرمایا:
اپنے گھر کی دیوار اور کھڑکی سے پڑوسی کے گھر نہ جھانکو۔
اس کی دیوار پر اپنی تعمیر نہ اٹھائو۔
اپنے گھرکا پرنالہ اس کے گھرکی سمت مت لگائو۔
اس کے گھر کے سامنے کوڑا نہ پھینکو۔
اس کے گھر کا راستہ تنگ نہ کرو۔
’’جو شخص اللہ اور یومِ آخرت پر ایمان رکھتا ہے وہ اپنے پڑوسیوں کے لیے باعث ایذا نہیں ہو سکتا‘‘۔ (بخاری‘ کتاب الادب)
اسلام اس لحاظ سے بالکل منفرد نظامِ حیات ہے کہ وہ انسان کی نجی زندگی کے اخفا کو برقرار رکھنے کا حددرجہ اہتمام کرتا ہے۔ وہ تو گھر کے افراد کو بھی یہ حق نہیں دیتا کہ وہ بغیر اطلاع اپنے گھر میں داخل ہوں۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی اپنے ساتھیوں کو ہدایت تھی کہ اپنے گھروں میں داخلے سے پہلے کوئی ایسی آواز ضرور پیدا کرلو تاکہ گھر والوں کو تمھارے آنے کی اطلاع ہوجائے۔
اے لوگو جو ایمان لائے ہو‘ نبیؐ کے گھروں میں بلااجازت نہ چلے آیا کرو۔ (الاحزاب۳۳:۵۳)
اے لوگو جو ایمان لائے ہو‘ اپنے گھروں کے سوا دوسرے گھروں میں نہ داخل ہوا کرو جب تک کہ گھروالوں کی رضا نہ لے لو اور گھروالوں پر سلام نہ بھیج لو‘ یہ طریقہ تمھارے لیے بہتر ہے۔ توقع ہے کہ تم اس کا خیال رکھو گے۔ پھر اگر وہاں کسی کو نہ پائو تو داخل نہ ہو جب تک کہ تم کو اجازت نہ دے دی جائے۔ (النور۲۴:۲۷-۲۸)
جب نگاہ داخل ہوگئی تو پھر خود داخل ہونے کے لیے اجازت مانگنے کا کیا موقع رہا؟ (ابوداؤد)
اجازت مانگنے کا حکم تو اسی لیے ہے کہ نگاہ نہ پڑے۔ (ابوداؤد)
اگر کوئی شخص تیرے گھر میں جھانکے اور توایک کنکری مار کر اس کی آنکھ پھوڑ دے تو کچھ گناہ نہیں۔
اسلام کی اسی حساسیت کی بنا پر ہر دور میں مسلم گھروں کی تعمیرمیں پردے کا خصوصی اہتمام رہا۔ گھر اس انداز میں تعمیر کیے جاتے کہ گھروں کے اندر کمروں‘ صحن اور چھت پر بھی کسی کی نگاہ نہ پڑے۔ صحن اور چھت کی چار دیواری اتنی بلند رکھی جاتی کہ اہل خانہ وہاں بیٹھے ہوں تو کسی کی نظر پڑنے کا احتمال نہ ہو‘ اور اہل خانہ اطمینان سے کھلی ہوا اور روشنی سے فائدہ اٹھا سکیں۔ حفظانِ صحت کے لحاظ سے یہ بات اہم ہے کہ روشنی اور تازہ ہوا کا حاصل ہو۔ ان کی موجودگی بذاتِ خود کئی بیماریوں اور معذوریوں سے بچائو کا سامان فراہم کرتی ہے۔ کھلی فضا میں بیٹھنے یا رات کو سونے سے توانائی کی بچت بھی ممکن ہے جو آج کے دور کا ایک اہم مسئلہ ہے۔
انسانی زندگی کا سکون اور توازن برقرار رکھنے کے لیے لازم ہے کہ موجود وسائل پر انسانوں کی ملکیت کا حق تسلیم کیا جائے۔ حق ملکیت قائم کرنے کے لیے تمدن کی ترقی کے ساتھ ساتھ ضابطے رواج پاتے گئے تاکہ باہم نزاع نہ پیدا ہو۔ اسلام انسان کے اس حق کے احترام اور تحفظ کا پورا اہتمام کرتا ہے۔
گھر کے حق ملکیت کا احترام فطری تقاضا ہے۔ جانور تک اپنے اس حق کے بارے میں بڑے حساس ہوتے ہیں اور بالعموم وہ ایک دوسرے کے حق کا احترام کرتے ہیں۔ ہر پرندہ اپنا گھونسلا خود تعمیر کرتا ہے۔ کسی دوسرے کے گھونسلے میں قیام پسند نہیں کرتا۔ جنگلی جانور دوسرے جانوروں کے بھٹ میں داخل نہیں ہوتے۔ پالتو جانور تک اپنی کھرلی کو بڑی اچھی طرح پہچانتے ہیں اور ایک دوسرے کی جگہ پر قبضے کی کوشش نہیں کرتے اور اگر کوئی دوسرا کرنے کی کوشش کرے تو اس پر زبردست جنگ کا امکان رہتا ہے۔
انسانوں کے مابین پیدا ہونے والے جھگڑوں کی ایک بڑی وجہ ’زمین‘ ہے۔ انسانوں کے قیمتی وسائل اور صلاحیتیں ان جھگڑوں کی نذر ہو جاتے ہیں۔ قومیں باہم برسرِپیکار ہوتی ہیں تو نسلیں تباہ ہوجاتی ہیں۔
اسلام مسائل کو ان کی جڑ سے اکھاڑ دینے کا قائل ہے۔ ان تنازعات کی اصل اُس زمین کی محبت ہے جہاں انسان کا قیام بڑی مختصرمدت کے لیے ہے۔ اسلام انسانوں کو اس حقیقت کی جانب مسلسل متوجہ کرتا ہے کہ یہاں کیا جانے والا ہر عمل آخرت میں پیش ہوگا اور انھی اعمال کی بنیاد پر آخرت کے انجام کا فیصلہ ہوگا۔ لہٰذا انسان کوئی ایسا کام نہ کرے جس پر اس روز ندامت کا سامنا کرنا پڑے۔
زمین کی ملکیت کے بارے میں ایک تنازع پیش ہونے پر فیصلے سے قبل آپ ؑ نے ان الفاظ میں فریقین کو متنبہ فرمایا:
ممکن ہے تم میں سے کوئی ایک اپنی قوتِ گفتار کی بنا پر فیصلہ پر اثرانداز ہوجائے لیکن اس طرح اگر کوئی شخص ایک ایسی چیز حاصل کر لیتا ہے جو درحقیقت اس کی نہیں ہے تو اسے زمین کا وہ ٹکڑا قیامت کے روز اپنے سر پر اٹھانا پڑے گا۔
یہ تنبیہہ ان سچے متبعین کے لیے کافی تھی۔ متنازعہ زمین لینا ایک کٹھن کام خیال کیا جاتا۔ ہر ایک اس طوق کو اپنی گردن سے اسی زندگی میں اتاردینا چاہتا۔
ملکیت کے اس حق کا احترام افراد کے لیے بھی ہے اور اداروں اور حکومتوں کے لیے بھی۔ جس طرح انفرادی ملکیت پرناجائز قبضہ ناقابلِ قبول ہے‘ اسی طرح اجتماعی ملکیت پر بھی ناحق قبضہ حرام ہے۔ اجتماعی جگہ پر ناجائز تجاوزات نہ صرف دوسروں کے حق ملکیت میں دخل اندازی ہے بلکہ راستے کے حق کا اتلاف بھی ہے۔ ایک انچ جگہ بھی غلط طور پر اپنے گھر میں شامل کرنا یا عام افراد کے لیے ناقابلِ استعمال بنانا‘ ایک ایسا غلط کام ہے جس پر مواخذہ ہوگا۔
جائز ذرائع سے مکان کی تعمیر اور اس کے رنگ روغن میں کوئی قباحت نہیں۔ بالخصوص جب اس کا مقصد موسم کی سختیوں سے بچائو اور گھرکی حفاظت ہو لیکن اسلام اسراف کو ہرگز پسند نہیں کرتا۔ مسرفین وہ لوگ ہیں جن سے ان کا رب کوئی محبت نہیں کرتا۔ گھروں کی ایسی تزئین و آرایش جس میں نمایش کا جذبہ ہو‘ ہرگز پسندیدہ نہیں۔ گھروں کو عیاشی کا مرکزو مظہربنا دینا قطعاً مطلوب نہیں۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم گھروں کے معاملے میں ضرورت کو پیش نظر رکھتے ہوئے سادگی کی تلقین فرماتے۔
غیرضروری تزئین و آرایش سے اگلا قدم لاحاصل تعمیرات کا ہے۔ قرآن ایسی اقوام کا ذکر نہایت ناپسندیدگی سے کرتا ہے جن کا شیوہ یہ تھا کہ ہر اُونچے مقام پر ایک لاحاصل تعمیر بناڈالتے۔ سورۃ الشعرا میں ایسی اقوام کا ذکر اس طرح کیا گیا ہے:
یہ تمھارا کیا حال ہے کہ ہر اونچے مقام پر لاحاصل ایک یادگار عمارت بنا ڈالتے ہو‘ اور بڑے بڑے قصر تعمیر کرتے ہو‘ گویا تمھیں ہمیشہ رہنا ہے۔ (الشعرا ۲۶:۱۲۸-۱۲۹)
کیا تم ان سب چیزوں کے درمیان ’جو یہاں ہیں‘ بس یونہی اطمینان سے رہنے دیے جائو گے؟ ان باغوں اور چشموں میں؟ ان کھیتوں اور نخلستانوں میں جن کے خوشے رس بھرے ہیں؟ تم پہاڑ کھود کھود کر فخریہ ان میں عمارتیں بناتے ہو۔ اللہ سے ڈرو اور میری اطاعت کرو۔ (الشعراء ۲۶: ۱۴۶-۱۵۰)
عاد اور ثمود دونوں عمارتوں کی تعمیر میں نام آور ہیں۔ اللہ تعالیٰ ان اقوام کے جرائم کی فہرست میں ان کے اس انہماک کا خاص طورسے تذکرہ فرماتے ہیں۔ ان دونوں اقوام کو ان کے ایسے ہی جرائم کی پاداش میں تباہ و برباد کر دیا گیا۔
قرآنِ پاک میں جن امور کی محبت کو رب کریم کے ساتھ تعلق میں رکاوٹ قرار دیا گیا ہے ان میں بھی گھر شامل ہیں۔ ارشاد ربانی ہے:
اے نبیؐ، کہہ دو کہ اگر …وہ گھر جو تم کو پسند ہیں‘ اللہ اور اس کے رسولؐ اور اس کی راہ میں جہاد سے عزیز تر ہیں تو انتظار کرو یہاں تک کہ اللہ اپنا فیصلہ تمھارے سامنے لے آئے‘ اور اللہ فاسق لوگوں کی رہنمائی نہیں کیا کرتا۔ (التوبہ ۹:۲۴)
گھر اللہ کی بڑی نعمتوں میں سے ایک نعمت ہے لیکن اگر یہ نعمت بندے کو اپنے رب کا شکرگزار بنانے کے بجاے غفلت میں ڈالنے کا سبب بن جائے تو یہ اس کی انتہائی بدقسمتی ہوگی۔
نبی صلی اللہ علیہ وسلم ایک وسیع گھر کی دعا بھی مانگتے تھے اور گھروں میں انہماک اور تفاخر کا اظہار کرنے والی تعمیرات سے اظہارناپسندیدگی بھی فرماتے۔ حضرت انسؓ سے روایت ہے:
بغیر ضرورت کے تعمیر کی گئی عمارت میں کوئی بھلائی نہیں۔
ہر عمارت اپنے مالک کے لیے مصیبت ہے سواے اس کے جو کسی ضرورت کی تکمیل کے لیے تعمیر کی جائے۔
جو شخص بغیر ضرورت کے تعمیر کرتا ہے قیامت کے روز اسے کہا جائے گا کہ وہ اس عمارت کو اپنے سر پر اٹھائے۔
قرب قیامت کی نشانیوں میں سے ہے کہ لوگ عمارتوں کی تعمیر میں ایک دوسرے سے سبقت لے جانے کی کوشش کریں گے۔
لاحاصل تعمیر پر خرچ ہونے والی رقم میں کوئی برکت نہیں۔
ضروریات پر خرچ کی جانے والی رقم صدقہ ہے‘ جب کہ نمایش کی غرض سے خرچ کی جانے والی رقم میں کوئی بھلائی نہیں۔ (ترمذی‘تعلیمات اسلامی)
بے مقصد تعمیرات اسراف ہیں‘ وقت اور وسائل کا ضیاع۔ دنیا کی رہنمائی کے منصب پر فائز اُمت مسلمہ کس طرح اپنے وسائل لاحاصل مشاغل کی نذر کر سکتی ہے؟
بستیوں کی صورت حال
اسلام کے احکام اور رہنما ہدایات کو پیشِ نظر رکھا جائے تو پھر یہ کس طرح ممکن ہے کہ ہماری بستیوں کی وہ صورت حال ہو جس میں وہ اس وقت ہیں‘ مثلاً:
سڑکیں اور گلیاں تنگ ہیں جنھیں باڑھ یا جنگلے لگا کر ناجائز تجاوزات کے ذریعے مزید تنگ کیا جا تا ہے۔
پانی کے بہائو اور نکاسی کا نظام درست نہ ہونے کے باعث بارش وغیرہ کے نتیجے میں پانی سڑکوں پر کھڑا رہتا ہے۔
گھروں کی تعمیرمیں سڑک کے لیول کا خیال نہ رکھنے سے بھی پانی کے بہائو میں رکاوٹ پیدا ہوتی ہے۔
گٹرکھلے ہوتے ہیں۔ ان سے غلیظ پانی رِس رہا ہوتا ہے۔
دیہاتوں میں نالیاں کھلی ہیں‘ ان کی صفائی کا کوئی انتظام نہیں۔
خالی جگہوں پر کوڑے کرکٹ کے ڈھیر لگے ہوتے ہیں جس سے بستیاں آلودہ ہوتی ہیں۔ مکھی‘ مچھر اور دیگر حشرات الارض پیدا ہوتے ہیں اور صحتیں برباد ہوتی ہیں۔
ناجائز تجاوزات کی تو اس قدر بھرمار ہے کہ ایک اندازے کے مطابق لاہور کی جدید بستیوں میں ۹۰ فی صد کے قریب گھر اس مرض کا شکار ہیں۔
گھروں کی تعمیر میں روشنی اور ہوا کی آمدورفت کا خیال نہیں رکھا جاتا۔
گھروں کی تعمیر میں پردے کا خیال نہیں رکھا جاتا۔ چنانچہ صحن یا چھتوں پر بیٹھنا کم ہوتا جا رہا ہے۔ تازہ ہوا اور روشنی جیسی عظیم الشان نعمتوں سے محرومی کئی مسائل کا باعث بنتی ہے۔
گھر ہمارے رب کی بڑی نعمتوں میں سے ایک نعمت ہے جیسا کہ فرمایا گیا کہ جسے سرچھپانے کو گھر ملا‘ سفر کے لیے سواری ملی‘ اور صبح شام پیٹ بھر کر کھانا مل گیا‘اس پر نعمتیں مکمل ہوگئیں۔ اللہ کی اس نعمت پر شکرگزاری کا تقاضا ہے کہ یہ گھر:
اللہ کے دین کی خدمت میں مددگار ہوں۔
ہمیں اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم اور اللہ کے راستے میں جہاد سے روکنے والے نہ ہوں۔
یہ تکبر اور فخر کی علامت نہ بن جائیں۔
یہ اللہ کے بندوں کے لیے کسی اذیت کا باعث نہ ہوں۔
پڑوسیوں کے لیے باعث آزار نہ ہوں کہ ان کی ہوا اور روشنی میں رکاوٹ ڈالیں۔ ان کے لیے بے پردگی کا باعث ہوں اور ہمارے گھروں کا شوروغل ان کے آرام میں خلل انداز ہو۔
ان گھروں کی تعمیر کے لیے حاصل کردہ زمین میں ایک انچ بھی ناجائز طور پر حاصل کردہ نہ ہو۔ ان کی تعمیر میں مال حرام نہ استعمال ہو۔
یہ گھر راستوں کی تنگی کا باعث نہ ہوں۔ بستیوں کے راستے کشادہ ہوں۔
ہمارے گھر اور راستے صفائی‘ پاکیزگی اور نظافت کا عمدہ معیار رکھتے ہوں۔ یہ سادگی اور اسلامی شعار کے عکاس ہوں‘ نیز ہمیں اپنے رب کا شکرگزار بندہ بنانے والے ہوں۔
ان امور کا اگر خیال رکھا جائے تو پھرہی یہ توقع رکھی جا سکتی ہے کہ انسان اس روز کی جواب دہی سے بچ جائے جب نعمتوں کے بارے میں سوال ہوگا---!