ڈاکٹر سید عبدالباری ]شبنم سبحانی[ بھارت کے معروف اُردو ادیب‘ نقاد اور شاعر ہیں۔ ان کی مرتبہ یہ کتاب بیسویں صدی کی حسب ذیل ممتاز شخصیات سے مصاحبوں کا مجموعہ ہے:
بقول مولف: ’’یہ وہ افراد ہیں جنھوں نے گذشتہ صدی میں ملک و ملت کی تعمیروترقی اور اسے تباہی و انتشار سے بچانے میں اہم کردار ادا کیا اور اس صدی کی برصغیر کی تاریخ ان کے ذکر کے بغیر مکمل نہیں ہوسکتی‘‘۔
ڈاکٹر سید عبدالباری کا انداز‘ روایتی انٹرویو نگاروں سے قدرے مختلف ہے۔ مصاحبے کا آغاز وہ براہِ راست سوال جواب سے نہیں کرتے‘ بلکہ انٹرویو سے پہلے باقاعدہ ایک تمہید باندھتے ہیں اور اس تمہید میں‘ وہ ماحول کا پورا نقشہ کھینچتے اور گردوپیش پر تبصرہ بھی کرتے ہیں۔ بتاتے ہیں کہ کس شخصیت تک وہ کب اور کیسے پہنچے؟ اس سفر کی مختصر روداد بھی بیان کردیتے ہیں۔ اُن کے دل کش اور افسانوی اسلوب کی وجہ سے‘ اس طرح کی تمہیدات کہیں کہیں تو ایک شگفتہ سفرنامے کا ٹکڑا معلوم ہوتی ہیں۔ پھر متعلقہ شخصیت سے قاری کو متعارف کروانے کے لیے اُس کا سراپا بیان کرتے ہیں اور اس کی سیرت و کردار کے تابناک گوشوں کو نمایاں کرتے ہوئے‘ پوری ایک فضا بناتے ہیں۔ سوال و جواب شروع ہوتے ہیں تو ان کے درمیان وہ اپنی سوچ اور اپنے تبصروں کے ذریعے اور ماحول کی نقشہ کشی کرتے ہوئے بات کو آگے بڑھاتے ہیں۔بسااوقات وہ اپنی سوچ یا محسوسات کو کسی شعر (زیادہ تر علامہ اقبال اور اکبرکے اشعار) کے ذریعے پیش کرتے ہیں۔ لیکن دل چسپ بات یہ ہے کہ اشعار کے نقل میں کئی جگہ انھوں نے (نادانستہ) تصرف کر دیا ہے (یہ حافظے کی کارفرمائی ہے) مثلا: ص ۷۰‘ ۱۱۷‘ ۱۲۹‘ ۱۷۴‘ ۲۳۰ وغیرہ۔
ان مصاحبوں سے اندازہ ہوتا ہے کہ مذکورہ مسلم رہنما‘ مسلمانوں کے زوال و انحطاط‘ ان کی پس ماندگی خصوصاً ان میں تعلیم کی کمی پر پریشان اور فکرمند ہیں۔ یہ سب حضرات اپنی اپنی سمجھ‘ فہم و بصیرت اور صلاحیتوں کے مطابق تعلیمی‘ علمی‘ سماجی اور سیاسی میدان میں بھارتی مسلمانوں کی فلاح و بہبود اور اُن کی ترقی اور ان کے مستقبل کے لیے اپنی سی کاوش اور جدوجہد کرتے رہے۔ مایوس کن حالات میں بھی وہ کبھی بددل نہیں ہوئے۔ ان سب حضرات کے نزدیک اسلام کا مستقبل بہت روشن ہے۔
ان مصاحبوں سے بعض اہم اور دل چسپ باتیں سامنے آتی ہیں‘ مثلاً ڈاکٹر عبدالجلیل فریدی کے والد یوپی میں جج (منصف) تھے۔ گورنر میلکم ہیلے چاہتے تھے کہ وہ ایک مقدمے میں فیصلہ‘ حکومت کی حمایت میں کریں‘ مگر فریدی صاحب نہیں مانے۔ گویا بڑے ذمہ دارانہ مناصب پر فائز نام ور۔ انگریز بھی بددیانتی اور سازش کیا کرتے تھے--- مفتی فخرالاسلام عثمانی اس بات کو یوپی کے مسلمانوں پر ایک ’’بہت بڑا سنگین الزام‘‘ قرار دیتے ہیں کہ یوپی کے مسلمان‘ قیامِ پاکستان کی تائید میں تھے۔
دارالعلوم دیوبندبھارت میں مسلمانوں کا بہت بڑا تعلیمی مرکز ہے۔ سید عبدالباری صاحب نے بتایا ہے کہ وہاں ہر سال صرف ایک طالب علم کو ریسرچ پر لگایا جاتا تھا اور اسے ۵۰ روپے ماہوار وظیفہ ملتا تھا۔ وہاں انگریزی زبان کی تدریس کا انتظام تو تھا مگر اسے تعلیم کا لازمی جزو نہیں بنایا گیا اور نہ انگریزی کو باقاعدہ ایک مضمون ہی قرار دیا گیا (ص ۱۵۸)۔ قاری محمد طیب صاحب نے اس بدقسمتی کا بھی اعتراف کیا کہ ’’ذہنی اعتبار سے پست اور فروترطبقہ ہمارے یہاں آتا ہے‘‘۔ (ص ۱۶۳)
مجموعی طور پر ملاقاتیں ایک دل چسپ‘ معلومات افزا اور ذہن و فکر کو روشن کرنے والی کتاب اور برعظیم کے مسلمانوں کی سبق آموز داستان ہے۔ قاری محمد طیب صاحب نے پتے کی بات کہی ہے کہ قوم وہی زندہ رہ سکتی ہے جو اقدام کرے۔ اگر وہ دفاعی صورت اختیار کرے گی تو ختم ہو جائے گی۔ اسلام جب بھی بڑھا ہے اعلاے کلمۃ الحق اور شہادتِ حق کے راستے سے آگے بڑھا ہے۔ اُسے تو اِس بات پر جم جانا چاہیے کہ چاہے ہم فنا ہو جائیں لیکن خدا کے کلمے کو نیچا نہ ہونے دیں گے۔ (ص ۱۷۱)
کتاب میں شیخ الہند کا نام ہر جگہ ’’محمودالحسن‘‘ لکھا گیا ہے (ص ۶۲‘ ۱۴۴‘ ۱۵۴‘ ۱۷۹ وغیرہ) ’’محمود حسن‘‘صحیح ہے۔ اسی طرح لاپرواہی (ص ۲۰۵) نہیں ’’لاپروائی‘‘ لکھنا چاہیے تھا۔ برعظیم کی سیاست و تاریخ اور بھارتی مسلمانوں کے مستقبل سے دل چسپی رکھنے والے اصحاب کے لیے ملاقاتیں میں قیمتی لوازمہ موجود ہے۔ کتاب کی طباعت و اشاعت معیاری ہے۔ (رفیع الدین ہاشمی)
فاضل مصنف نے پہلے باب بہ عنوان: ’’پاکستان میں عربی زبان ورسم الخط‘‘ میں بتایا ہے کہ ۶۴۴ء سے ۱۹۴۷ء تک برعظیم کے مختلف علاقوں میں سرکاری‘ دفتری اور عمومی زبان کی حیثیت سے عربی کی صورتِ حال کیا رہی ہے۔
مصنف بتاتے ہیں کہ غزنوی خاندان کے زمانۂ آغاز تک علمی اور دینی زبان تو عربی تھی ہی‘ مختلف حکومتوں کی دفتری زبان بھی بالعموم عربی رہی۔ عربوں کی دو ریاستیں‘ منصورہ اور ملتان میں قائم تھیں۔ ان کے چارسو سالہ دورِ حکمرانی میں یہاں عربی کو کافی فروغ حاصل ہوا۔ فاضل مصنف نے ان دونوں ریاستوں کے تذکرے کے بجاے سندھ پر اکتفا کیا ہے۔ انھوں نے صرف سندھی زبان پر عربی کے اثرات کا جائزہ لیا ہے اور اس سلسلے میں چند الفاظ کی فہرست بھی دی ہے۔ عرب دور میں سندھ نے کئی مقامی عرب شعرا پیدا کیے اور بہت سے سندھی علما نے سیرت‘ حدیث‘ فقہ اور علم کلام پر متعدد کتابیں لکھیں۔ ان میں ابوحشرسندھی اور ابوالعطا ملتانی کے نام معروف ہیں‘ مگر دونوں اصحاب کا نام کتاب میں نہیں ملتا۔
درحقیقت بلوچستان‘ سندھ اور جنوبی پنجاب کی زبانوں (بلوچی‘ سندھی اور سرائیکی) پر بھی عربی کے گہرے اثرات ہیں۔ یہاں بعض الفاظ (مثلاً ق اور ض) کا لہجہ خالص عربی کا ہے۔ ان زبانوں میں آج بھی کثیرتعداد میں عربی الفاظ ملتے ہیں جنھیں صرف ایک عربی دان ہی چھانٹ کر سمجھ سکتا ہے۔ علاوہ ازیں ان زبانوں میں فارسی الفاظ بھی کثرت سے ملتے ہیں۔
دوسرے باب میں مصنف نے بتایا ہے کہ ہمارے موجودہ نظامِ تعلیم (قدیم طرز کے دینی مدرسوں اور جدید تعلیم کے اداروں) میں عربی زبان کے نصاب اور تدریس وغیرہ کی کیا صورت ہے۔ باب ۳ میں پاکستان میں عربی زبان کی ترویج اور توسیع و ترقی کے لیے کی گئی کاوشوں کا ذکر ہے۔ اس ضمن میں ضروری دستاویزات اور عربی مجلات کی فہرست بھی شاملِ کتاب ہے۔
پروفیسر مظہرمعین جامعہ پنجاب میں شعبہ عربی کے صدر اور اورینٹل کالج کے پرنسپل ہیں۔جسٹس محبوب احمد کے بقول انھوں نے پاکستان میں عربی زبان کی تنفیذ کا مربوط مقدمہ‘ اہلِ علم اور اربابِ بست و کشاد کی دہلیز انصاف تک پہنچانے کی دل سوز کوشش کی ہے۔ (ص ۱۴)۔
اگرچہ کہیں کہیں کتابت کی غلطیاں نظرآتی ہیں تاہم کتاب کی طباعت و اشاعت کا معیار اطمینان بخش ہے۔ (فیض احمد شھابی)
وطن عزیز کے پائوں میں مارشل لاوں اور فوجی حکومتوں کی زنجیروں کا بدنما داغ نہ ہوتا تو نجانے یہ تعمیروترقی کی کتنی منزلیں طے کرچکا ہوتا۔ دنیا بھر کی عدالتیں فراہمیِ انصاف کا فریضہ انجام دیتی ہیں لیکن ہمارے ملک میں عدالتوں نے بعض اوقات (مجبوراً ہی سہی) فوجی آمریت کو سندِجواز فراہم کی ہے۔ تاریخ میں عدلیہ کے ایسے فیصلوں کو کس نظر سے دیکھا جائے گا؟ یہ بتانے کی ضرورت نہیں۔
عتیق الرحمن ایڈووکیٹ نے ایک دوسرے انداز سے‘ موجودہ عسکری حکومت اور اس کے احتساب کے وعدوں کا جائزہ لینے کی کوشش کی ہے۔ اُنھوں نے دلائل فراہم کیے ہیں کہ عدلیہ نے ملک‘ قوم اور آنے والی نسلوں کے مفاد کو نظریۂ ضرورت پر قربان کر دیا۔ بے نظیربھٹو اور میاں محمد نواز شریف نے اپنے اپنے دورِ اقتدار میں (دو دو بار) عدلیہ کوجس طرح استعمال کیا۔ اس کا جائزہ بھی لیا گیا ہے۔
موجودہ حکومت احتساب پر مکمل طور پر عمل درآمد کیوں نہ کرسکی؟ کروڑوں روپے لوٹنے والوں کو کیفرکردار تک کیوں نہ پہنچا سکی اور عدلیہ کی مجموعی کارکردگی کیوں نہ بہتر بن سکی؟ یہ تمام مباحث کتاب کے پچیس ابواب میں سمیٹ دیے گئے ہیں بقول مصنف:’’یہ کتاب مشرف دورِ حکومت کے عدالتی فیصلوں کی تاریخ ہے‘‘ (ص ۵)۔
پاکستان‘ قانون اور حالاتِ حاضرہ سے دل چسپی رکھنے والوں کے لیے یہ ایک مفید کتاب ہے۔ (محمد ایوب منیر)
خوش کن پیش کاری کے ساتھ اس کتاب میں وحی‘ تعبیر‘فقہ‘ تصوف اور خود اہلِ فقہ و تصوف کے مابین پیداکردہ مناقشوں کو موضوع بحث بنایا گیا ہے۔ تاہم اس مجموعے کو ایک ایسی سوچ کی صداے بازگشت قراردینا غلط نہ ہوگا جو فی الحقیقت مرعوبیت اور تجدد پسندی ہی کا تسلسل ہے۔ مصنف کی فکرمندی سے انکار نہیں‘ اور محنت کو بھی نظرانداز نہیں کیا جا سکتا‘ مگر صحت پانے کی خواہش میں اگر کوئی خودکشی کے راستے پر چل نکلے تو اسے ’روشن خیالی‘ اور ’خردمندی‘ کے برعکس کسی لفظ ہی سے منسوب کیا جائے گا۔
مصنف نے لکھا ہے: ’’اسلام کی ابتدائی صدیوں میں کس طرح رفتہ رفتہ وحی کے بجاے متعلقاتِ وحی کو اس قدر اہمیت ملتی گئی کہ مُسلم حنیف ہونا بڑی حد تک ایک تہذیبی شناخت بن کر رہ گیا‘‘ (ص ۱۴)۔ کتاب کی بنیادیں اس ’معصومانہ جملے‘ میں پنہاں ہیں۔ اگر صرف حروفِ الٰہی سے ہدایت کا دائرہ مکمل ہونا مطلوب ہوتا تو انبیا و رسل ؑ کے ادارے کی ضرورت ہی نہ تھی۔
آگے چل کر کتاب میں جس طرح حدیث‘ فقہ اور تعامل کو یک رخے پن سے نشانۂ تنقیص و استہزا بنایا گیا ہے‘ اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ قرآن کے دفاع سے زیادہ انہدام سرمایۂ حدیث و فقہ پیش نظر ہے۔ لکھتے ہیں: ’’سنت کے حوالے سے اسوۂ رسولؐ کا ایک ماوراے قرآن ماخذ وجود میں آجانے سے‘ عملاً ہوا یہ کہ مسلمانوں کے یہاں بھی تاریخ‘ اسی تقدیس کی حامل ہوگئی جس کا شکار پچھلی قومیں ہوچکی تھیں‘‘ (ص ۲۱۷)۔ ’’ائمہ اربعہ ایک ایسی جبری تاریخ ]ہے[ جو بجا طور پر مسلمانوں کے عہدِ زوال سے عبارت ہے‘‘(ص ۳۰۵)۔ اسی نوعیت کے ’’استدلال‘‘ سے یہ کتاب عبارت ہے۔ (سلیم منصور خالد)
اسلامی جمعیت طالبات پاکستان‘ معاصر مسلم دنیا میں طالبات کا ایک قابلِ قدر قافلۂ دعوتِ حق ہے جس نے مغرب اور خود مسلم دنیا کی سیکولر یلغارسے مسلم طالبات کو بچانے کے لیے عظیم جدوجہد کی ہے۔ ستمبر ۱۹۶۹ء میں قائم ہونے والی اس تنظیم نے مسلم خواتین کے مستقبل کو ایسی سعید روحوں سے مربوط کیا ہے کہ آج ہر میدان میں جدید پڑھی لکھی خواتین‘ اسلام کی حقیقی رضا و منشا کے مطابق دعوت‘ تربیت اور تعمیر کی کوششوں میں سرگرمِ عمل ہیں۔
یہ کتاب دراصل‘ اسلامی جمعیت طالبات کی تاریخ پیش کرتی ہے‘ جسے تنظیم کی سابق پانچ ناظماتِ اعلیٰ (ڈاکٹر اخترحیات‘ ڈاکٹر کوثر فردوس‘ ڈاکٹر فوزیہ ناہید‘ نگہت ودود‘ عابدہ فرحین) کے مصاحبوں (انٹرویوز) کی مدد سے ترتیب دیا گیاہے۔ کوشش کی گئی ہے کہ اُن کے زمانۂ نظامت (۱۹۸۰ئ-۱۹۸۷ئ) میں مختلف النوع تجربات‘ مشکلات‘ واقعات اور اہم معلومات کو اس طرح پیش کیا جائے کہ قافلۂ راہِ حق میں شامل ہونے والی نئی طالبات اس حقیقت کو جان سکیں کہ یہ قافلۂ عزیمت کن راہوں سے گزر کر آج ہمیں سعادت و عزیمت کی شمعیں عطا کر رہا ہے۔ (س- م- خ )
مستقبل میں قسمت کا حال جاننے کی آرزو اور تجسس ہمیشہ سے انسانی زندگی کا ایک اہم پہلو رہا ہے۔ انسان بہتر زندگی کے لیے منصوبہ بندی اور تگ و دو کرتا ہے لیکن خوابوں کے محل تعمیر کرتے ہوئے‘ غیبی اور تخمینی علوم کا سہارا لیتا ہے اور اکثروبیشتر صراطِ مستقیم سے بھٹک جاتا ہے۔ اسی لیے اہلِ علم ایسے لوگوں کی رہنمائی کا فریضہ ہر دور میں انجام دیتے چلے آرہے ہیں۔ زیرنظرکتاب میں قرآن و سنت کی روشنی میں نام نہاد عاملوں‘ کاہنوں‘ جادوگروں اور ایذا دینے والے جنات کا پوسٹ مارٹم کیا گیا ہے۔
علمِ وحی نے صحیح سمت میں ہماری رہنمائی کی ہے۔ علم وحی سے ہٹ کر دیگر علوم کی بھی اپنی ایک تاریخ ہے اور وہ سبھی باطل بھی نہیں‘ لیکن ان علوم کی حقیقت کیا ہے؟ شریعت کی روشنی میں اس کا جائزہ لینے کی ضرورت ہے۔ اس کتاب میں فاضل مصنف نے بہت سے حقائق سے پردہ اٹھایا ہے۔ علمِ ہیئت اور علمِ نجوم کی حقیقت‘ علمِ کہانت و عرافت کی مختلف صورتوں ‘قیافہ شناسی اور دست شناسی کی شرعی حیثیت‘ فال‘ استخارہ‘ جفر‘ علم الاعداد‘رمل اور جادو ٹونے کی مختلف نوعیتوں پر سیرحاصل بحث کی گئی ہے لیکن کتاب کا سب سے دل چسپ حصہ جنوں کے بارے میں ہے۔ جنات کی اقسام‘ خوراک و رہایش‘ شادی بیاہ‘ انسانوں سے ان کا تعلق‘ ایذا رسانی اور جن نکالنے کے عام اور ائمہ سلف کے طریقوں کی تفصیل اور لائقِ مطالعہ ہے۔
کتاب میں‘ دم‘ تعویذ اور شیطانی وساوس دُور کرنے کے طریقے اور اس ضمن میں متفرق مباحث شامل ہیں۔ مصنف نے ان امور پر بحث کرتے ہوئے اعتدال سے کام لیا ہے۔ امید ہے کہ یہ کتاب قارئین کے تجسس کے لیے باعث تشفی ہوگی۔ (عبداللّٰہ شاہ ہاشمی)
اگر بچوں کو کوئی بہت اہم مسئلہ سمجھانا ہو لیکن سمجھانے والا سمجھانے کی اہلیت ہی نہ رکھتا ہو تو نتیجہ خاطرخواہ نہیں نکلے گا۔ پھٹا ہوا دودھ کے مصنف کو‘ خدا نے اس صلاحیت سے بخوبی نوازا ہے۔ یہ پرتاثیر‘ دل گداز اور ایک خاص کیفیت والی کہانیاں ہیں۔
ہمارا المیہ ہے کہ ہم بچوں کو کھانے پینے ‘اوڑھنے اور تعلیم وغیرہ جیسی تمام ضروریات تو مہیا کر دیتے ہیں‘ مگر ان کی جذباتی دنیا کی دیکھ بھال کرنا بھول جاتے ہیں۔ ان کہانیوں کو پڑھتے ہوئے شدت سے اِس بات کا احساس ہوتا ہے کہ اگر ہم بچوں کے جذبات و احساسات کی پروا اور قدر کریں اور ان کے مثبت جذبات کو نشوونما دیں تو معاشرہ بہت خوب صورت دکھائی دے گا۔ ’’آلنے سے گری‘‘ کہانی اسی نکتے کو اجاگر کرتی ہے۔
ان کہانیوں میں افسانہ نگار‘ باتوں ہی باتوں میں ایسی بات کہہ جاتے ہیں کہ وہ سیدھی دل میں جا اترتی ہے اور بہت کچھ سوچنے پر مجبور کرتی ہے۔دراصل یہ ہمارے ہی معاشرے کے جیتے جاگتے انسانوں کی کہانیاں ہیں۔ مصنف نے ان کا اصل کردار دکھانے کی کامیاب کوشش کی ہے‘ مثلاً ہم اپنے اردگرد لاکھوں بچوں کو کام کرتا دیکھتے ہیں‘ ’’پھرکی‘‘ اسی طرح کے ایک بچے کی کہانی ہے۔
اختر عباس کو ’’ایڈیٹربھیا‘‘ کے طور پر کہانی لکھنے اور اُسے پُراثر بنانے کا فن آتا ہے۔ چنانچہ ان کے مخصوص اسلوب میں لکھی گئی یہ کہانیاں ایسی ہیں کہ بقول طارق اسماعیل ساگر: ’’آپ ایک بار انھیں پڑھنے بیٹھ گئے تو پھر اُن کے سحر سے بچ نہیں پائیں گے‘‘۔ (قدسیہ بتول)
تبصرے کے لیے دو کتابوں کا آنا ضروری ہے۔ (ادارہ)