جزئیات سے میری مراد آمین بالجہر اور رفع یدین وغیرہ کی قسم کے مسائل نہیں ہیں۔ ان مسائلِ اجتہادیہ میں تو ہمیشہ ہمیں رواداری ہی کا مسلک اختیار کرنا پڑے گا‘ اس لیے کہ ان کے دونوں پہلوئوں کے لیے دین میں گنجایش ہے۔ میں یہاں ان جزئیاتِ امور سے غض بصر کا مشورہ دے رہا ہوں جن کے لیے دین میں کوئی گنجایش نہیں ہے لیکن خدمت دین کی مصلحت مقتضی ہے کہ اپنی دعوت کے اس مرحلے میں ہم ان سے بھی چشم پوشی کریں۔ اگر ہم ایسا نہ کریں گے تو اس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ ہم شاخوں کے تراشنے میں اپنا سارا وقت برباد کردیں گے اور فتنوں کی جڑوں کی طرف توجہ کرنے کی نوبت ہی نہ آئے گی۔ ہمارا کام صحیح طور پر جب ہی ہو سکتا ہے کہ توحید اور رسالت اور معاد ] آخرت[ کے پورے پورے متعلقات اچھی طرح عوام کو سمجھا دیے جائیں۔ یہ لمبا راستہ طے کرلینے کے بعد لوگ جزیِ امورمیں راہِ حق کو پاسکتے ہیں۔ رفتہ رفتہ وہ خود محسوس کرنے لگیں گے کہ فلاں کام جو ہم کرتے ہیں وہ ہمارے عقیدئہ توحید کے ساتھ جمع نہیں ہو سکتا‘ فلاں رسم جو رائج ہے ہمارے تصورِ رسالت کے ساتھ مناسبت نہیں رکھتی‘ اور فلاں عادت جو فروغ پائے ہوئے ہے ہمارے تصورِمعاد کے مطابق نہیں ہے۔ بہرحال ان جزیِ امور میں کسی گروہ کو سخت سست کہنا یا کسی سے مقاطعہ کرنا ہمارے کام کے لیے قطعاً مضرہے۔ حتی الوسع ان معاملات میں چشم پوشی کیجیے...
اصلاح کے کام میں ترتیب یہ ہونی چاہیے کہ پہلے کسی اصل کے قریب ترین مقتضیات پیش کیے جائیں‘ پھراس سے بعید‘ پھر اس سے بعید تر۔ مثلاً توحید کے متعلقات میں سے سب سے پہلے وہ چیزیں لینی چاہییں جن پر عموماً سب مسلمانوں کا اتفاق ہے۔ پھر آگے چل کر ان خفی ] پیچیدہ[ امور کی وضاحت کیجیے جو اوّلیاتِ توحید سے مستنبط ہوتی ہیں۔ پھر اور آگے چلیے اور ان آخری مقتضیاتِ توحید کی طرف رہبری کیجیے جن سے عوام کی توجہ تو بالکل ہی ہٹ چکی ہے اور علما بھی کسی نہ کسی حد تک ان کے عملی مقتضیات سے غافل ہیں۔ (’’روداد‘ اجتماع دارالاسلام‘‘، امین احسن اصلاحی‘ ترجمان القرآن‘ جلد ۲۴‘ عدد ۳-۴‘ ربیع الاول و ربیع الآخر ۱۳۶۳ھ‘ مارچ‘اپریل ۱۹۴۴ئ‘ ص ۴۰-۴۱)