مارچ ۲۰۰۴

فہرست مضامین

رسائل و مسائل

| مارچ ۲۰۰۴ | رسائل و مسائل

Responsive image Responsive image

حق مہر کا نامناسب مطالبہ

سوال: میںیہ جاننا چاہتا ہوں کہ نکاح سے قبل اگر حق مہر کا تعین نہ کیا جائے اور نکاح کے وقت عین آخری لمحے پر دلہن کے گھر والے ایک نامناسب مطالبہ کر دیں اور دولہا کے لیے قبول کرنے یا رد کرنے کے علاوہ کوئی چارہ نہ ہو‘ جب کہ بھاری حق مہر کی ادایگی اس کی استطاعت سے باہر ہو‘ تو وہ کیا کرے؟ اگر شادی سے چند روز قبل اس طرح کا مطالبہ کیا جاتا اور لڑکے والوں کی طرف سے انکار کر دیا جاتا تودلہن کے گھر والے قدموں میں گر جاتے اور مسئلے کے حل کے لیے کوئی نہ کوئی صورت نکالنے کی کوشش کرتے۔ لیکن عین نکاح کے موقع پر جب بھاری حق مہر کا مطالبہ کیا جائے اور انکار کی صورت میں بدمزگی ہو‘ نکاح نہ ہونے کا خدشہ ہو‘ جب کہ اس کی ادایگی دولہا کی استطاعت سے باہر ہو لیکن وہ وقتی طور پر جھوٹ بولے اور مہر کی ادایگی کا اقرار کرلے تو کیا اس مجبوری کی حالت میں ایسا کرنا مناسب ہوگا؟ اگر نہیں تو پھر اس مسئلے کا حل کیا ہوگا‘ نیز اگر وہ حق مہر ادا کیے بغیر مر جاتا ہے تو اس کا ذمہ دار کون ہوگا؟

جواب: آپ کے سوال کا ایک جواب یہ ہے کہ اگر دلہن کے گھر والے عین آخری لمحے پر نکاح کے وقت نامناسب مطالبہ کریں تو اسے رد کر دینا چاہیے۔ اگر رد نہ کیا جائے تو پھر انسان اس بات کا پابند ہو جائے گا۔ محض یہ کہ عین نکاح کے وقت مطالبہ کیا گیا‘ ایسی چیز نہیں ہے کہ اسے مجبوری قرار دیا جائے۔ اسلام میں مجبوری اور زبردستی یہ ہے کہ چھری‘ چاقو یا گولی سے ڈرا کر بات منوائی جائے۔ ظاہر ہے کہ ایساتو نہیں ہوا۔ ایسی صورت میں جو مہر طے ہوا ہو‘ وہ دینا پڑے گا۔ بعد میں بیوی سے پورا مہر یا اس کا کچھ حصہ معاف کرا لیا جائے۔اسے کہہ دیا جائے کہ موقع پر تو میں نے اتنا مہر دینا قبول کر لیا تھا تاکہ تقریب نکاح میں بدمزگی پیدانہ ہو لیکن اس قدر مہر دینا میری استطاعت سے باہر ہے۔ اس لیے آپ پورا مہر یا مہر کا کچھ حصہ معاف کر دیں۔ شادی سے قبل یا شادی کے بعددونوں صورتوں میں آپ لڑکی سے یہ مطالبہ کر سکتے ہیں۔ اس بات کا خیال رکھیں کہ نکاح کے وقت مہر مقرر کر دینے کے بعد مہر کی معافی یا کمی کا اختیار لڑکی کا ہوتا ہے۔ اس سے لڑکی کے والدین یا خاندان کا کوئی تعلق باقی نہیں رہتا۔ اس لیے آپ یہ مطالبہ لڑکی سے کریں کسی اور سے نہیں۔

اگر مہر ادا کیے یا معاف کرائے بغیر آدمی فوت ہو جائے تو بیوی آخرت میں اپنے حق کا مطالبہ کرے گی اور اس کا یہ حق دینا پڑے گا۔ آخرت میں ادایگی بہت مشکل اور انتہائی کٹھن ہے۔ اس لیے ضروری ہے کہ مہر جو مقرر کیا گیا ہو‘ ادا کیا جائے‘ یا پھر اسے اپنی زندگی میں بیوی سے معاف کرا لیا جائے۔ واللّٰہ اعلم بالصواب۔ (مولانا عبدالمالک)


اسکارف ‘گائون اور پردہ

س : میں میڈیکل کی طالبہ ہوں۔ ہم سفید کوٹ کے اوپر سے اسکارف سے نقاب کرلیتی ہیں اور گائون کے طور پر علیحدہ سے لباس کے اوپر کچھ نہیں پہنا جاتا۔ سفیدکوٹ کی لمبائی تقریباً قمیص یا اس سے بھی کچھ کم ہوتی ہے۔ اس طرح سے سارے کپڑے نہیں چھپتے۔ سوال یہ ہے کہ کیا یہ طریقہ درست ہے یا نہیں؟ حال ہی میں میرے علم میں یہ اعتراض آیا ہے کہ چونکہ کپڑے زینت ہیں‘ اس لیے ان کا پورا چھپانا ضروری ہے۔ سفیدکوٹ تو ہمیں ہر صورت میں پہننا ہوتا ہے‘ چاہے اسے کپڑوں کے اوپر پہنا جائے یا گائون کے اوپرسے۔ دوسرے طریقے میں خاص طور پر گرمی میں بہت مشکل ہے لیکن اگر صرف سفیدکوٹ پہن لینا کافی نہیں ہے تو ظاہر ہے کہ ہمیں اس طریقے کو چھوڑنا ہوگا۔ اس سلسلے میں آپ کی رائے درکار ہے کیونکہ میں الجھن میں مبتلا ہوں۔ کالج اور ہسپتال کے علاوہ ہم لوگ عام برقع کا ہی پورا استعمال کرتے ہیں۔

ج : دورِ جدید کی باشعور نوجوان نسل نے جس طرح اپنے دینی اور ثقافتی تشخص کے حوالے سے سوالات اٹھائے ہیں‘ وہ قابلِ قدر ہیں۔ اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ وہ اپنے دین سے وابستہ رہ کر دورِحاضر کی وسعتوں سے استفادہ کرنا چاہتی ہے۔ اس پس منظر میں آپ کا سوال اسلام کے تصورِ لباس و زینت سے تعلق رکھتا ہے۔

لباس زینت کو چھپاتا بھی ہے اور زینت دیتا بھی ہے۔ چنانچہ قرآن کریم نے     سورۂ نور کی آیت ۳۱ میں یوں فرمایا ہے: ’’اور اے نبیؐ،مومن عورتوں سے کہہ دو کہ اپنی نظریں بچاکر رکھیں‘ اور اپنی شرم گاہوں کی حفاظت کریں‘ اور اپنی زینت (بنائوسنگھار) نہ دکھائیں بجزاُس کے جو خود ظاہر ہوجائے اور اپنے سینوں پر اپنی اوڑھنیوں کے آنچل ڈالے رہیں۔ وہ اپنا بنائوسنگھار نہ ظاہر کریں مگر اِن لوگوں کے سامنے: شوہر‘ باپ‘ شوہروں کے باپ‘ اپنے بیٹے‘ شوہروں کے بیٹے‘ بھائی‘ بھائیوں کے بیٹے‘ بہنوں کے بیٹے‘ اپنے میل جول کی عورتیں‘ اپنے لونڈی غلام‘ وہ زیردست مرد جو کسی اور قسم کی غرض نہ رکھتے ہوں…(۲۴:۳۱)

یہاں زینت جس کا ترجمہ صاحب ِتفہیم القرآن نے بنائوسنگھارکیا ہے‘ اگر غور کیا جائے تو جہاں زینت کا مفہوم وہ زینت ہے جو اللہ تعالیٰ نے ہمارے جسم میں رکھ دی ہے ‘یعنی جسم کے خدوخال وغیرہ‘ وہاں اس سے مراد وہ زینت بھی ہے جو زیور یا غازہ وغیرہ کی شکل میں اختیار کی جاتی ہے۔ چنانچہ سینوں پر اوڑھنیوںکے آنچل ڈالنے کا تعلق اللہ کی بنائی ہوئی اور زیورات والی زینت سے نظرآتا ہے اور ساتھ ہی یہ بات بھی سمجھا دی گئی کہ اگر لباس شوخ اور چمکدار یا متوجہ کرنے والا ہو‘ یا گلے کانوں میں زیور پہنا ہو تو اوپر سے چادر کو یوں گرا لیا جائے کہ     خوب صورتی چھپ جائے۔ قرآن کریم نے زینت کے حوالے سے جو تعلیمات دی ہیں وہ نہ صرف متوازن ہیں بلکہ انسان کی ان خواہشات کے پیشِ نظر دی گئی ہیں جو وہ عام حالات میں پوری کرنا چاہتا ہے۔ اگر ایک خاتون زیورات کا استعمال کرنا چاہتی ہے تو وہ انھیں استعمال کرے لیکن نمودونمایش اور دوسروں کو اپنی طرف متوجہ کرنے کا ذریعہ نہ بننے دے۔ اسی لیے آیت کے آخری حصے میں یہ نہیں کہا گیا کہ پائوں میں پازیب کا استعمال منع ہے بلکہ یہ کہا گیا ہے کہ پائوں کو اس طرح مار کر چلنا کہ وہ اس پازیب کو ظاہر کر دے‘ ممنوع ہے۔ اس پر قیاس کرتے ہوئے پائوں کو اس طرح جنبش دینا کہ گویا پازیب تو نہ پہنی ہو لیکن فیشن پریڈ میں چلنے کا تاثر بن جائے تویہ بھی غلط قرار پائے گا۔

بعض زینتوں کو اسلام نے جائز بلکہ مستحسن قرار دیا ہے‘ جیسے شوہر کے لیے زینت کا اختیار کرنا‘ یا مسجد جاتے ہوئے مردوں کا اچھا لباس اور وضع قطع اختیار کرنا (الاعراف ۷:۳۱)۔ پھر یہ بات بھی اسی سیاق میں فرما دی گئی کہ ’’اے نبیؐ، ان سے کہو ‘ کس نے اللہ کی اُس زینت کو حرام کر دیا جسے اللہ نے اپنے بندوں کے لیے نکالا تھا اور کس نے اللہ کی بخشی ہوئی پاک چیزیں ممنوع کردیں؟‘‘(۷:۳۲)

جہاں تک سوال لباس کے اوپر گائون کے استعمال کا ہے اگر آپ غور کریں توسادہ لباس خود جسم کی زینت کو چھپانے کے لیے ہوتا ہے۔ اگر اس پر گائون استعمال کرلیا جائے تو پھر زینت کے چھپانے کا مقصد پورا ہو جاتا ہے۔ چاہے گائون کی پیمایش قمیص کے لگ بھگ ہی ہو۔ لباس اگر ساتر ہے‘ یعنی شلوار قمیص جسم پر چست نہیں ہے‘ کپڑا اتنا باریک نہیں ہے کہ جسم نظر آئے تو صرف ایسی چادر جو جسم کے اوپر کے حصے کو پوری طرح ڈھانپ لے اور جس سے سر کے بال اور گردن یا سینہ نظر نہ آئے ‘جلباب کی تعریف میں آتی ہے جسے خود قرآن کریم نے متعین کردیا ہے۔ آپ کے حوالے سے گائون اور اسکارف وہی کام کرتا ہے جو جلباب کا ہے۔ اس سے برقع کا مقصد بڑی حد تک حاصل ہو جاتا ہے۔ گائون سفید ہو یا برائون یا گرے‘ اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ کالج اور ہسپتال کے علاوہ بھی اسکارف کے ساتھ گائون نما کوٹ کا استعمال پردے میں شمار کیا جائے گا۔ کیونکہ گائون بڑی حد تک برقع کا قائم مقام ہے اور خود زینت نہیں بلکہ زینت کو چھپانے کا ذریعہ ہے۔ واللّٰہ اعلم بالصواب۔(ڈاکٹر انیس احمد)


انعامی بانڈ: ایک ذہنی الجھن

س: ملکی معیشت کو مستحکم بنیادوں پر استوار کرنے اور مالی وسائل کے حصول کے لیے حکومتی سطح پر اسٹیٹ بنک کے توسط سے ڈیفنس سیونگ سرٹیفیکیٹ‘ خاص ڈیپازٹ اسکیم‘ نیشنل پرائز بانڈ وغیرہ‘ اور دیگر مالیاتی اسکیموں کا اجرا کیا جاتا ہے۔ میرا سوال انعامی بانڈ (پرائز بانڈ) کے بارے میں ہے۔

انعامی بانڈ منسٹری آف فنانس کے تحت اسٹیٹ بنک آف پاکستان سے جاری ہوتے ہیں جو مختلف مالیت کے ہوتے ہیں۔ یہ بانڈ خریدنے کے بعد کسی بھی وقت دوبارہ بھنائے جاسکتے ہیں اور بغیر کسی کٹوتی کے پوری رقم واپس مل جاتی ہے۔ قرعہ اندازی کے ذریعے انعام دیا جاتا ہے اور حکومتی سرپرستی کی وجہ سے دھوکا دہی کا شائبہ تک نہیں ہوتا۔ انعام نہ نکلنے کی صورت میں اصل زر بھی محفوظ رہتا ہے۔

مسئلہ یہ ہے کہ انعامی بانڈوں کے بارے میں ہمارے علما میں ذہنی ہم آہنگی نہیں پائی جاتی۔ کچھ اسے سود اور قماربازی اور جوا کہتے ہیں۔ کچھ اس اسکیم کو جائز کہتے ہیں۔ کچھ کے نزدیک یہ لاٹری اور جوے کی مانند ہے‘ اور انعامی رقم جائز نہیں ہے۔ آپ وضاحت فرما دیجیے کہ انعامی بانڈ کے بارے میں شرعی حکم کیا ہے؟

ج: کسبِ مال کے ضمن میں قرآن پاک یہ پابندی عائد کرتا ہے کہ دولت صرف حلال طریقوں سے حاصل کی جائے اور حرام طریقوں سے اجتناب کیا جائے۔ اکتسابِ مال کے ضمن میں سود کو حرام کیا گیا ہے (البقرہ ۲: ۲۷۵-۲۷۹)‘ خواہ اس کی شرح کم ہو یا زیادہ اور خواہ وہ شخصی ضروریات کے قرضوں پر ہو یا تجارتی وصنعتی اور زراعتی ضروریات کے قرضوں پر۔ اسی طرح جوا (قمار) اور تمام وہ طریقے جن سے کچھ لوگوں کا مال کچھ دوسرے لوگوں کی طرف منتقل ہونا‘ محض بخت و اتفاق پر مبنی ہو‘ بھی حرام ہے۔ (المائدہ ۵:۹۰)

انعامی بانڈ (پرائز بانڈ) کی صورت کچھ یوں ہے کہ حکومتِ پاکستان مختلف حوالوں سے قرض لیتی ہے۔ اس قرض کی مختلف صورتیں ہیں جن میں بیرونی ادارے اور ممالک‘ مثلاً آئی ایم ایف‘ ورلڈ بنک اور ایشین ڈویلپمنٹ بنک وغیرہ شامل ہیں‘ اور ملکی سطح پر حکومت کمرشل بنکوں کے علاوہ عوام سے بالواسطہ طور پر قرض حاصل کرتی ہے۔ یہ قرض ڈیفنس سیونگ سرٹیفیکیٹ‘ اسپیشل سیونگ سرٹیفیکیٹ اور انعامی بانڈ کی صورت میں لیا جاتا ہے۔ حکومت اندرونِ ملک اور بیرونِ ملک سے لیے گئے ان قرضوں پر سود ادا کرتی ہے اور پاکستان کے بجٹ کی سب سے بڑی مد یہی سود اور قرضوں کی ادایگی (debt servicing)ہی ہوتی ہے۔

انعامی بانڈ کے بارے میں ایک سوال کے جواب میں مولانا سیدابوالاعلیٰ مودودیؒ لکھتے ہیں: ’’اپنی نوعیت کے لحاظ سے یہ بانڈ بھی اسی نوعیت کے قرضے ہیں جو حکومت اپنے مختلف کاموں میں لگانے کے لیے لوگوں سے لیتی ہے اور ان پر سود ادا کرتی ہے۔ فرق صرف یہ ہے کہ پہلے ہروثیقہ دار (انعامی بانڈ خریدنے والے) کو اس کی دی ہوئی رقم پرفرداً فرداً سود دیا جاتا تھا‘ مگر اب جملہ رقم کا سود جمع کر کے اسے چند وثیقہ داروں کو بڑے بڑے انعامات کی شکل میں دیا جاتا ہے اور اس امر کا فیصلہ کہ یہ انعامات کن کو دیے جائیں گے‘ قرعہ اندازی کے ذریعے کیا جاتا ہے… یہ صورت واقعہ صاف بتاتی ہے کہ اس میں سود بھی ہے اور روحِ قمار بھی۔ جمع شدہ سود کی وہ رقم جو بہ صورتِ انعام دی جاتی ہے اس کا کسی وثیقہ دار کو ملنا اسی طریقے پر ہوتا ہے جس طرح لاٹری میں لوگوں کے نام انعامات نکلا کرتے ہیں۔ فرق صرف یہ ہے کہ لاٹری میں انعام پانے والے کے سوا تمام باقی لوگوں کے ٹکٹوں کی رقم ماری جاتی ہے اور سب کے ٹکٹوں کا روپیہ ایک انعام دار کو مل جاتا ہے‘ لیکن یہاں انعام پانے والوں کے سوا باقی سب وثیقہ داروں کی اصل  رقمِ قرض نہیں ماری جاتی۔ (ترجمان القرآن‘ جنوری ۱۹۶۳ئ‘ بہ حوالہ رسائل و مسائل، حصہ سوم‘ ص ۲۳۹)

مولانا سیدابوالاعلیٰ موودیؒ نے یہ جواب ۱۹۶۳ء میں دیا‘ اس کے بعد ۱۹۶۹ء میںربا کے مسئلے پر غورکے دوران پاکستان کی اسلامی مشاورتی کونسل نے انعامی بانڈ پر ملنے والی رقم کے بارے میں یہ رائے دی: ’’انعامی بانڈ پر جو انعام دیا جاتا ہے وہ ربا (سود) میں شامل ہے‘‘۔

اسلامی نظریاتی کونسل نے جو کہ حکومت ِ پاکستان کا ایک آئینی ادارہ ہے انعامی بانڈ کے ضمن میں اپنی سفارش بذریعہ مراسلہ نمبر۷ (۴۴) ۸۳-آر سی آئی آئی‘ ۲۲ فروری ۱۹۸۴ء کو وزارتِ مذہبی امور کو اور وزارتِ خزانہ کو بتاریخ ۶مارچ ۱۹۸۴ء ارسال کی جس میں حکومت سے کہا گیا: ’’لہٰذا اسلامی نظریاتی کونسل وجوہاتِ مندرجہ ذیل کی بنا پر حکومت سے پرزور سفارش کرتی ہے کہ حکومت سابقہ کونسل کی سفارش کو فوری طور پر نافذ کر کے اس پر سختی سے عمل کرائے۔ چونکہ انعامی بانڈاسکیم کی لعنت روز بروز فروغ پا رہی ہے۔ انعامی رقم سود ہے جوازروے شریعت ممنوع و حرام ہے۔ چونکہ انعامی بانڈ کی رقم پر ٹیکس نہیں ہوتا اس لیے لوگ اپنے کالے دھن کو چھپانے کے لیے انعامی بانڈ اسکیم کا سہارا لے رہے ہیں۔ سرمایہ کاروبار سے نکال کر اس اسکیم میں لگایا جا رہا ہے جس سے کاروبار کے مواقع کم ہو رہے ہیں۔ انعامی رقم بغیر محنت کے حاصل ہوتی ہے جو کہ میسر ہے جو ازروے قرآن حرام ہے۔ اسلامی نظریاتی کونسل حکومت پر زور دیتی ہے کہ انعامی بانڈ اسکیم اور دیگر اسی قسم کے کاروبار کا جو میسر کے زمرے میں آتے ہیں‘ مکمل طور پر قلع قمع کیا جائے۔ (اسلامی نظریاتی کونسل کی سالانہ رپورٹ‘ براے سال ۸۴-۱۹۸۳ئ)

لہٰذا انعامی بانڈ کی نوعیت ِ معاملہ‘ مولانا مودودیؒ کی تفصیلی رائے‘ اسلامی مشاورتی کونسل (۱۹۶۹ئ) اور اسلامی نظریاتی کونسل (۱۹۸۴ئ) کی دو ٹوک رائے کی روشنی میں‘ انعامی بانڈ پر ملنے والی انعامی رقم سود ہے اور جس انداز اور قرعہ اندازی کے ذریعے انعام کا تعین کیا جاتا ہے وہ قمار کی صورت ہے۔ مزیدبرآں انعام پانے والوں کے بارے میں لوگوں کی یہ رائے کہ وہ شخص بہت خوش قسمت ہے اور اس پر ’’اللہ کا خاص فضل و کرم‘‘ ہے، جب کہ انعام سے رہ جانے والے لوگ کبھی تو اپنی قسمت کا رونا روتے ہیں اور اپنے مقدر کو کوستے ہیں‘ اور کبھی براہِ راست اللہ تعالیٰ کی ذات کے بارے میں عجیب و غریب باتیں سننے میں آتی ہیں جو منافی اسلام ہیں۔

مندرجہ بالا آرا اور دلائل کی بنا پر اور اپنے مال کو پاکیزہ بنانے کے لیے ضروری ہے کہ انعامی بانڈ اور اسی طرح کے دوسرے سودی اور قمار پر مبنی کاروبار یا لین دین سے پرہیز کیا جائے اور اپنے دین کی حفاظت کی جائے اور دنیا کے فوری اور قلیل فائدے کے لیے اپنی آخرت کو خراب نہ کیا جائے۔ واللّٰہ اعلم بالصواب۔ (پروفیسر میاں محمداکرم)