موت‘ توسب ہی کا مقدر ہے لیکن مرنے کے بعد بھی زندہ وہ رہتے ہیں جو اعلیٰ مقاصد کے حصول اور خیروفلاح کے فروغ کے لیے شب و روز صعوبتیں جھیلتے‘دشمنوں کے وار سہتے اور مشکلات کا مردانہ وار مقابلہ کرتے ہیں تاکہ دنیا سے تاریکیاں چھٹیں‘ ماحول روشن ہو اور انسانوں کی زندگی اللہ کی بندگی اور اللہ کے بندوں کی خدمت اور ان کے لیے دنیوی اور اخروی فلاح کے حصول کی جدوجہد کی تابناکی سے معمور ہوسکے۔ یہ نفوس قدسیہ زمین کے نمک‘ اور پہاڑی کے چراغ کی حیثیت رکھتے ہیں اور دنیا سے رخصت ہوجانے کے باوجود ان کے کارنامے مشعل راہ اور ان کی زندگی روشنی کا مینار بن جاتی ہے۔ وہ چلے جاتے ہیں لیکن ان کے نقوشِ راہ آنے والوں کے لیے سنگ میل ہوتے ہیں‘ اور اس طرح وہ مرکر بھی شہیدوں کی طرح زندہ ہی رہتے ہیں۔ قاہرہ کے ایک گوشے میں جمعۃ المبارک ۹ جنوری ۲۰۰۴ء کو ایسے ہی ایک ۸۳سالہ مرد مجاہد نے عارضی زندگی سے ابدی زندگی کی طرح سفر کیا اور اس شان سے کیا کہ اپنے اور غیر‘ سب پکار اٹھے کہ اس نے اپنے رب سے اپنا وعدہ پورا کر دکھایا۔۱؎ یہ مرد مجاہد عالمِ عرب کی سب سے اہم اسلامی تحریک اخوان المسلمون کا چھٹا مرشدعام محمد مامون الہضیبی تھا--- اناللّٰہ وانا الیہ راجعون!
بیسویں صدی میں اُمت مسلمہ پر اللہ تعالیٰ کے انعامات میں سب سے نمایاں انعام عالمِ عرب میں حسن البنا شہیدؒ اور ان کی قیادت میں قائم ہونے والی اسلامی تحریک اخوان المسلمون‘ اور برعظیم پاک و ہند میں برپا ہونے والی تحریک جماعت اسلامی اور اس کے بانی مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ ہیں۔ ان تحریکوں نے لاکھوں انسانوں کی زندگیوں کو ایمان کے نور سے منور کیا اور ان کو غلبۂ حق کی جاں گسل جدوجہد میں زندگی کا لطف پانے کا سلیقہ سکھا دیا۔
محمدمامون الہضیبیؒ نے ایک ایسے گوشے میں آنکھ کھولی جو علم و عرفان اور زہد و تقویٰ کا گہوارا تھا۔ ان کے والد حسن الہضیبیؒ ایک نامور قانون دان اور اخوان المسلمون کے دوسرے مرشدعام ]۷۳-۱۹۵۱ئ[ تھے‘ جن کو حسن البنا شہیدؒکی جا نشینی کا شرف حاصل ہوا اور جنھوں نے تحریک کے مشکل ترین دور میں اس کی قیادت کی ذمہ داری کو بحسن و خوبی انجام دیا۔ اس خاندان کو یہ شرف بھی حاصل ہے کہ حسن الہضیبیؒ کی گود میں پلنے والا مامون‘ اخوان المسلمون کا چھٹا مرشدعام منتخب ہوا‘ گو اسے یہ خدمت انجام دینے کے لیے مہلت صرف ۱۴ مہینے کی مل سکی۔
محمد مامون الہضیبیؒ ۲۸ مئی ۱۹۲۱ء کو قاہرہ میں پیدا ہوئے۔ ۱۹۴۱ء میں کلیۃ الحقوق سے گریجویشن کرنے کے بعد پبلک سروس کمیشن کے امتحان میں امتیازی کامیابی حاصل کر کے مصر کی عدالت استغاثہ (appellate court)میں بحیثیت جج تقرر حاصل کیا۔ وہ یہ خدمت ۱۹۶۵ء تک انجام دیتے رہے۔ ۱۹۶۵ء میں اخوان المسلمون کے باقاعدہ رکن نہ ہوتے ہوئے بھی ان کو پوری بے دردی سے جیل میں پھینک دیا گیا اور وہ چھے سال قیدوبند اور ظلم وتشدد کی مشقت خندہ پیشانی سے برداشت کرتے رہے‘ اور اس دور میں تزکیہ نفس‘ روحانی ارتقا اور تحریکی شعور کی دولت سے مالا مال ہوتے رہے۔ ۱۹۷۱ء میں رِہا ہوئے اور جلد ہی باقاعدہ رکنیت اختیار کرکے تحریک میں سرگرم ہوگئے۔ الاستاذ عمرتلمسانیؒ (تیسرے مرشدعام: ۸۶-۱۹۷۳ئ) الاستاذ حامدابونصرؒ (چوتھے مرشدعام: ۹۶-۱۹۸۶ئ) اور مجاہد کبیرمصطفی مشہورؒ (پانچویں مرشدعام: ۱۹۸۶ئ-۲۰۰۲ئ) کے زمانے میں اخوان کے ترجمان (spokesman) اور پھر نائب مرشدعام کی ذمہ داریاں ادا کیں اور نومبر ۲۰۰۲ء میں مصطفی مشہور کی وفات کے بعد چھٹے مرشدعام منتخب ہوئے۔ مامون الہضیبیؒ کو ۱۹۷۱ء میں رہائی کے بعد ان کے عہدہ قضا پر بحال نہیں کیا گیا۔ تقریباً ۱۰سال انھوں نے سعودی عرب میں بحیثیت قانونی مشیر صرف کیے اور ۱۹۸۷ء میں مصر کی پارلیمنٹ میں سرکاری مخالفت کے باوجود آزاد امیدوار مگر عملاً اخوان کے نمایندے کے طور پر منتخب ہوکر قائد حزب اختلاف کا کردار ادا کیا۔ ۲۰۰۰ء کے انتخابات میں پھر منتخب ہوئے اور وفات کے وقت تک حزبِ اختلاف کے قائد تھے۔
مجھے محترم مامون الہضیبیؒ سے پہلی بار ملنے کا موقع ۱۹۷۴ء میں اس وقت حاصل ہوا جب ایک اہم تحریکی سلسلے میں برادرم خلیل احمد حامدیؒ کے ہمراہ پہلی بار قاہرہ گیا۔ شیخ عمر تلمسانیؒ (مرشدعام) سے بھی اس موقع پر ملاقات ہوئی۔ اس وقت مامون الہضیبیؒ صرف ایک پختہ کار قانون دان کی حیثیت سے جانے جاتے تھے اور تحریک میں کوئی نمایاں مقام نہیں رکھتے تھے۔ اس کے برعکس سیف الاسلام (حسن البنا شہیدؒ کے صاحبزادے) اپنی نوجوانی کے باوجود اس وقت بھی توجہ کامرکز تھے۔ پھر ۱۹۸۵ء میں اور اس کے بعد دسیوں بار قاہرہ‘ استنبول‘ انگلستان اور نہ معلوم کہاں کہاں ان سے ملنے اور گھنٹوں مشاورت میں شریک ہونے کا موقع ملا۔
مامون الہضیبیؒ بڑے دھیمے مگر موثرانداز میں اپنی بات پیش کرتے تھے۔ انگریزی میں بھی اپنا مافی الضمیرخوش اسلوبی سے ادا کر لیتے تھے۔ دینی امور پر مجھے اُن سے زیادہ گفتگو کا موقع نہیں ملا لیکن سیاسی اور تحریکی معاملات پر میں نے ان کی فکر کو بہت واضح‘ پختہ اور سلجھا ہوا پایا۔ وہ جمہوری ذرائع سے تبدیلی کے سختی سے حامی تھے اور سیاسی نظام اور عمل (process)کو تحریک اسلامی کے ایک اہم موثر میدانِ کار کے طور پر استعمال کرنے کو ضروری سمجھتے تھے۔ ان کی تقریر میں منطقی ربط اور ٹھوس مواد ہوتا تھا اور وہ دلیل سے قائل کرنے اور دلیل سے قائل ہونے کی روایت کو مستحکم کرنے پر ہمیشہ کاربند رہے۔ مجھے ان کے ساتھ مصرکی پیشہ ورانہ تنظیموں کے اجتماعات میں بھی شرکت کا موقع ملا اور نوجوانوں کے تربیتی کیمپوں (مخیّم) میں بھی۔ میں نے ہرموقع پر ان کو صاحب الرائے اور توازن و اعتدال پر قائم پایا۔ وہ شوریٰ کے آدمی تھے اور ان کے ساتھ بحث و گفتگو ہمیشہ فکرکشا ہوتی تھی۔
اخوان کا ابتدائی دور برطانوی استعمار سے کش مکش کا دور ہے اور اس میں دعوت و تبلیغ کے ساتھ ساتھ کش مکش اور جہاد (خصوصیت سے فلسطین کے محاذ پر) کا بھی بڑا نمایاں دخل ہے۔ حسن الہضیبیؒ کا دور ابتلا اور آزمایش کا دور ہے‘ جو کسی نہ کسی صورت میں اب تک چل رہا ہے۔ لیکن شیخ عمرتلمسانی ؒکے دور سے سیاسی نظام کے اندر دستوری اور جمہوری ذرائع سے تبدیلی کا منہج آہستہ آہستہ نمایاں ہوتا گیا اور تقویت پاتا رہا ہے۔ حتیٰ کہ مصطفی مشہورؒ کے دور میں وہ تبدیلی کا ماڈل بن گیا۔ اس منہج کو فکری اور عملی دونوں محاذوں پر تقویت اور رواج دینے میں محمدمامون الہضیبیؒ کا بڑا نمایاں حصہ ہے۔ مرشدعام منتخب ہونے کے بعد مامون الہضیبیؒ ہرہفتہ اخوان کے ہفت روزہ بلیٹن میں مضمون لکھتے تھے اور ان کی ان تحریروں کا نمایاں پہلو ان کا دین کے گہرے نہج کے ساتھ مصر اور دنیا کے حالات اور تحریک اسلامی کو درپیش مسائل اور معاملات کا حقیقت پسندانہ ادراک تھا۔
اگرچہ ان کی شخصیت کے اور بھی ایمان افروز پہلو ہیں‘ لیکن اب سے چند ماہ پہلے جب میں نے اسلامی تحریکوں سے وابستہ بزرگوں اور دوستوں کو خط لکھا کہ‘ مولانا مودودی مرحوم کی یاد میں ترجمان القرآن کی خصوصی اشاعت کے لیے مضمون لکھیں‘ تو دنیا بھر میں جس فرد نے سب سے پہلے‘ اور میرا خط ملنے کے آٹھویں روز مضمون عطا فرمایا‘ وہ محمد مامون ہی تھے۔ ’’اشاعت خاص‘‘ میں قارئین نے وہ مضمون ملاحظہ کیا ہوگا۔ عمر‘صحت‘ مصروفیات اور عرب مسلم دنیا پر امریکی یلغار کی اس فضا میں ایسا تجزیاتی اور محبت بھرا مضمون پڑھ کر اندازہ ہوا کہ وہ مولانا مودودیؒ سے کتنی عقیدت اور ان کے بارے میں کتنی گہرائی سے معلومات رکھتے تھے۔
اخوان کی تحریک کا ایک بڑا نمایاں پہلو قرآن سے شغف‘ باہمی محبت و الفت اور انسانی تعلقات میں گرمی اور مٹھاس کا عنصر ہے۔ مامون الہضیبیؒ کے ۳۰ سالہ دور میں جو نقش سب سے نمایاں ہے‘ وہ ان کا ذاتی تعلق اور اپنائیت کا رویہ ہے‘ جو دل کو موہ لینے کا باعث ہوتا تھا۔ وہ اپنے رب کو پیارے ہوگئے لیکن ان کا مقام میرے جیسے ہزاروں نہیں لاکھوں انسانوں کے دل میں ہے اور یہی ان کی عظمت کی دلیل اور ان کے نہ ختم ہونے والے فیضان کی نشانی ہے ؎
بعد از وفات تربتِ ما در زمیں مجو
درسینہ ہاے مردمِ عارف مزارِ ماست
جب ہمارا انتقال ہو جائے تو ہماری قبر زمین میں تلاش نہ کرو‘ ہمارا مزار اہل معرفت کے دلوں میں ہے۔