فَلَا تَھِنُوْا وَتَدْعُوْٓا اِلَی السَّلْمِق وَاَنْتُمُ الْاَعْلَوْنَق وَاللّٰہُ مَعَکُمْ وَلَنْ یَّـتِرَکُمْ اَعْمَالَکُمْ (محمد۴۷:۳۵)
پس تم بودے نہ بنو اور صلح کی درخواست نہ کرو‘ تم ہی غالب رہنے والے ہو اللہ تمھارے ساتھ ہے اور تمھارے اعمال کو وہ ہرگز ضائع نہ کرے گا۔
سَلْمٌ کے معنی صلح اور سمجھوتے کے ہیں۔ اوپر آیات ۲۲‘ ۲۳کے تحت ہم ذکر کر آئے ہیں کہ منافقین چونکہ جنگ کا حوصلہ نہیں رکھتے تھے اس وجہ سے صلح اور سمجھوتے کی باتیں بہت کرتے تھے۔ وہ مسلمانوں کو بھی مشورہ دیتے کہ جنگ کے بجاے صلح سے معاملات طے کرنے کی کوشش کرنی چاہیے اور یہی دعوت وہ قریش کو بھی دیتے۔ وہ اپنے آپ کو ایک صلح پسند پارٹی کی حیثیت سے پیش کرتے اور لوگوں کو یہ تاثر دیتے کہ یہی پالیسی اختیار کرنے میں اس ملک کی خیر ہے ورنہ یہاں بھائیوں کا خون بھائیوں کے ہاتھوں بہے گا اور پوری قوم کا شیرازہ ابتر ہوجائے گا۔ ان کی یہ پالیسی مبنی تو تھی تمام تر ان کی بزدلی اور مفادپرستی پر‘ لیکن وہ اس کی دعوت صلح پسندی اور امن دوستی کے روپ میں دیتے اور ان لوگوں کو متاثر کر لیتے جن کے اندر نفاق کے جراثیم ہوتے۔ اس آیت میں ان کی اسی کمزوری سے پردہ اٹھایا گیا ہے کہ تم بزدل ہوکر صلح اور سمجھوتے کے داعی نہ بنو بلکہ عزم و ایمان کے ساتھ جہاد کے لیے اٹھو۔ اگر تم سچے ایمان کے ساتھ جہاد کے لیے اٹھو گے تو تمھی سربلند رہو گے اور تمھارے دشمن ذلیل و خوار ہوں گے۔ اللہ تمھارے ساتھ ہے اور جب اللہ تمھارے ساتھ ہے تو اس کی مدد و نصرت ہر قدم پر تمھارے ساتھ ہوگی اور یہ اطمینان رکھو کہ اللہ تمھارے اعمال کے صلے کے معاملے میں کوئی خلاف وعدگی و بے وفائی ہرگز نہیں کرے گا‘ بلکہ تمھارے ہرعمل کا‘ خواہ چھوٹا ہو یا بڑا‘ بھرپور صلہ دے گا۔
فَلَا تَھِنُوْا وَتَدْعُوْٓا اِلَی السَّلْمِ،میں عربیت کا وہی اسلوب ہے جو البقرہ کی آیت ۴۲‘ وَلَا تَلْبِسُوا الْحَقَّ بِالْبَاطِلِ وَتَکْتُمُوا الْحَقَّ،کے تحت زیربحث آچکا ہے۔ جہاں معطوف اور معطوف علیہ دونوں میں ایک ہی حقیقت ظاہر کی گئی ہو وہاں لاے نھی کے اعادے کی ضرورت نہیں ہوتی۔ یہی صورت‘ آیت زیربحث میں بھی ہے۔ ان منافقین کی یہ دعوتِ صلح چونکہ ان کی بزدلی ہی کا نتیجہ تھی‘ اس وجہ سے تَدْعُوْا کو فَلَا تَھِنُوْا پر عطف کر دیا اور لَا کو حذف کر دیا تاکہ اسلوبِ کلام ہی سے یہ بات واضح ہوجائے کہ یہ دعوتِ صلح اس لیے نہیں دے رہے ہو کہ تم بڑے صلح پسند ہو بلکہ یہ محض اپنی بزدلی پر پردہ ڈالنے کی ایک ناکام سعی ہے۔
وَتَرَہٗ حَقَّہٗ کے معنی ہوں گے اس نے اس کے حق میں خیانت یا کمی کی۔ لَنْ یَّـتِرَکُمْ اَعْمَالَکُمْ کے معنی ہوں گے کہ اللہ سے یہ اندیشہ نہ رکھو کہ وہ تمھارے اعمال کے صلے کے باب میں تمھارے ساتھ کوئی بے وفائی یا خیانت کرے گا بلکہ وہ بھرپور صلہ دے گا۔ جب ہرعمل کا بھرپور صلہ ملنے والا ہے تو اس کی راہ میںقربانی سے جی چرانے کی کوئی وجہ نہیں ہے۔ (تدبرقرآن‘ ج ۶‘ ص ۴۲۴-۴۲۵)
اُس وقت مسلمانوں میں ایسے لوگ موجود تھے جو جہاد کی مسلسل مشقتوں کو ایک بھاری حکم سمجھتے تھے اور ان کے عزم میں کمزوری تھی۔ یہ لوگ امن و عافیت چاہتے تھے تاکہ جنگ کی مشقتوں سے بچے رہیں۔ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ ان لوگوں میں سے بعض کی مشرکین کے ساتھ رشتہ داریاں بھی ہوں‘یا ان کے ساتھ مالی معاملات میں شراکت ہو‘ اس زاویے سے یہ لوگ امن اور صلح کو پسند کرتے ہوں‘ کیونکہ انسان ہمیشہ انسان رہا ہے اور قرآن کریم ان بشری اور فطری کمزوریوں کا علاج اپنے انداز سے کر رہا ہے۔ قرآن مجید نے اس طرح جو تربیت جاری رکھی تو اس کے نتیجے میں دورِاول میں ایک مخلص گروہ تیار ہوگیا۔ لیکن ان ثمربار کوششوں اور کامیابیوں کے باوجود اس بات کی نفی نہیں کی جا سکتی کہ جماعت مسلمہ کی صفوں میں کمزور لوگ موجود ہوں‘ خصوصاً ابتدائی مدنی دور میں۔ چنانچہ اس آیت میں بعض ایسی ہی کمزوریوں کی طرف اشارہ کیا گیا ہے۔ ذرا ملاحظہ فرمائیں کہ قرآن کریم کس طرح لوگوں کی تربیت کرتا تھا۔ ہمیں بھی چاہیے کہ قرآنی انداز کے مطابق دور جدید کے لوگوں کی تربیت کریں۔
پس تم بودے نہ بنو اور صلح کی درخواست نہ کرو‘ تم ہی غالب رہنے والے ہو۔ اللہ تمھارے ساتھ ہے‘ اور تمھارے اعمال کو وہ ہرگز ضائع نہ کرے گا۔
تم چونکہ غالب ہو اس لیے صلح کی درخواست نہ کرو۔ تم اعتقاد اور تصورِ حیات کے اعتبار سے بلند ہو۔ تم خدا سے تعلق کے زاویے سے بھی بلند ہو۔ تمھارا آقا بلند ہے‘ نظامِ زندگی‘ مقاصدزندگی اور مقصودِ زندگی کے اعتبار سے بھی تم بلند ہو۔ شعور ‘ اخلاق اور طرزِعمل کے اعتبار سے بھی تم بلند ہو۔ قوت‘ مرتبے اور ذریعۂ نصرت کے اعتبار سے بھی تم بلند ہو۔ تمھاری پشت پر بہت بڑی قوت ہے۔ وَاللّٰہُ مَعَکُمْ‘ تمھارے ساتھ تو اللہ ہے۔ تم اکیلے تو نہیں ہو‘ تم ایک نہایت ہی بلند اور جبار ہستی‘ خداے برحق کے زیرتربیت ہو جو قادرِ مطلق ہے۔ وہ تمھارا مددگار ہے اور ہروقت حاضروناظر ہے اور تمھارے ساتھ ہے۔ وہ تمھاری مدافعت کرتا ہے۔ تمھارے دشمنوں کی حیثیت ہی کیا ہے‘ جب کہ تمھارے ساتھ اللہ ہے۔ تم جو کچھ خرچ کرتے ہو‘ اور جو جدوجہد کرتے ہو‘ اور تمھیں جو مشقتیں پہنچتی ہیں‘ ان کا حساب رکھا جا رہا ہے۔ ان میں سے کوئی ایک چیز بھی ضائع نہیں ہوگی… نیز کمزوری دکھانے اور صلح چاہنے کا کوئی جواز نہیں ہے۔ اس لیے کہ اللہ نے فیصلہ کر دیا ہے کہ تم اعلیٰ ہو‘ وہ تمھارے ساتھ ہے اور تمھارا معمولی سے معمولی عمل بھی ضائع نہ ہوگا۔ لہٰذا تم مکرم‘ ماجور اور منصورہو۔ (فی ظلال القرآن‘ ترجمہ: سید معروف شاہ شیرازی‘ ج ۵‘ ص ۱۱۶۶)
فَلَا تَھِنُوْا سے مراد یہ ہے کہ پست ہمتی کے مقتضٰی پر عمل نہ کرو‘ اور مایوسی کے خیال کو اپنے عمل پر غالب نہ آنے دو۔ ورنہ اعدا کی کثرتِ تعداد اور سازوسامان اور اپنی قلتِ تعداد اور بے سروسامانی دیکھ کر طبیعت میں کمزوری اور پستی پیدا ہوجانا تو ایک امرطبیعی ہے۔ ممانعت صرف اس کے مقتضا پر عمل کی ہے۔ وَتَدْعُوْٓا اِلَی السَّلْمِ،یعنی تمھیں کافروں کے مقابلے میں ہمت ہار کے اور اُن سے دب کر خواہشِ صلح کرنے کی کوئی ضرورت ہی نہیں۔ تم اللہ کے محبوب ہو۔ کفار اس کے مبغوض ہیں۔ فقہاء مفسرین نے تصریح کر دی ہے کہ جس دعوتِ صلح کی یہاں ممانعت ہے وہ وہی ہے جو ضعف ہمت کی بنا پر کی جائے ورنہ نفس دعوتِ صلح‘ جب کہ وہ کسی مصلحت اُمت پر مبنی ہو‘ ہرگز ممنوع نہیں۔(تفسیرماجدی‘ ص ۱۰۱۹)
فَلَا تَھِنُوْا وَتَدْعُوْٓا اِلَی السَّلْمِ ، اس آیت میں کفار کو صلح کی دعوت دینے کی ممانعت کی گئی ہے اور قرآن کریم میں دوسری جگہ ارشاد ہے: وَاِنْ جَنَحُوْا لِلسَّلْمِ فَاجْنَحْ لَھَا (الانفال ۸:۶۱)یعنی اگر کفار صلح کی طرف مائل ہوں تو آپ بھی مائل ہوجایئے جس سے صلح کی اجازت معلوم ہوتی ہے۔ اس لیے بعض حضرات نے فرمایا کہ اجازت والی آیت اس شرط کے ساتھ ہے کہ کفار کی طرف سے صلح جوئی کی ابتدا ہو‘ اور اس آیت میں جس کو منع کیا گیا ہے وہ یہ ہے کہ مسلمانوں کی طرف سے صلح کی درخواست کی جائے۔ اس لیے دونوں آیتوں میں کوئی تعارض نہیں مگر صحیح یہ ہے کہ مسلمانوں کے لیے ابتداً صلح کرلینا بھی جائز ہے‘ جب کہ مصلحت مسلمانوں کی اس میں دیکھی جائے۔ محض بزدلی اور عیش کوشی اس کا سبب نہ ہو اور اس آیت نے شروع میں فَلَا تَھِنُوْا کہہ کر اس طرف اشارہ کر دیا کہ ممنوع وہ صلح ہے جس کا منشا بزدلی اور اللہ کی راہ میں جہاد کرنے سے فرار ہو۔ اس لیے اس میں بھی کوئی تعارض نہیں کہ وَاِنْ جَنَحُوْا لِلسَّلْمِ کی آیت کے حکم کو اُس صورت کے ساتھ مقید کیا جائے جس میں صلح جوئی کا سبب وَہن اور سستی وبزدلی نہ ہو بلکہ خود مسلمانوں کی مصلحت کا تقاضا ہو۔ واللّٰہ اعلم۔ (معارف القرآن‘ ج ۸‘ ص ۴۹)
یہاں یہ بات نگاہ میں رہنی چاہیے کہ یہ ارشاد اُس زمانے میں فرمایا گیا ہے جب صرف مدینے کی چھوٹی سی بستی میں چند سو مہاجرین و انصار کی ایک مٹھی بھر جمعیت اسلام کی علم برداری کررہی تھی اور اس کا مقابلہ محض قریش کے طاقت ور قبیلے ہی سے نہیں بلکہ پورُے ملک عرب کے کفار و مشرکین سے تھا۔ اس حالت میں فرمایا جا رہا ہے کہ ہمت ہار کر اِن دشمنوں سے صلح کی درخواست نہ کرنے لگو‘ بلکہ سردھڑ کی بازی لگا دینے کے لیے تیار ہو جائو۔ اس ارشاد کا یہ مطلب نہیں ہے کہ مسلمانوں کو کبھی صلح کی بات چیت کرنی ہی نہ چاہیے‘ بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ ایسی حالت میں صلح کی سلسلۂ جنبانی کرنا درست نہیں ہے جب اُس کے معنی اپنی کمزوری کے اظہار کے ہوں اور اُس سے دشمن اور زیادہ دلیر ہوجائیں۔ مسلمانوں کو پہلے اپنی طاقت کا لوہا منوا لینا چاہیے‘ اس کے بعد وہ صلح کی بات چیت کریں تو مضائقہ نہیں۔ (تفہیم القرآن‘ ج ۵‘ ص ۳۰-۳۱)
جنابِ باری تعالیٰ فرماتے ہیں کہ اے میرے مومن بندو تم دشمنوں کے مقابلے میں عاجزی کا اظہار نہ کرو اور ان سے دب کر صلح کی دعوت نہ دو حالانکہ قوت و طاقت میں‘ زور و غلبے میں‘ تعداد و اسباب میں تم قوی ہو۔ ہاں‘ جب کہ کافر قوت میں‘ تعداد میں‘ اسباب میں تم سب سے زیادہ ہوں اور مسلمانوں کا امام مصلحت صلح میں ہی دیکھے تو ایسے وقت بے شک صلح کی طرف جھکنا جائز ہے‘ جیسے کہ خود رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حدیبیہ کے موقع پر کیا‘ جب کہ مشرکین مکہ نے آپؐ کو مکہ جانے سے روکا تو آپ نے ۱۰ سال تک لڑائی بند رکھنے اور صلح قائم رکھنے پر مسالمت کرلی۔ پھر ایمان والوں کو بہت بڑی بشارت و خوش خبری سناتا ہے کہ اللہ تمھارے ساتھ ہے‘ اس وجہ سے نصرت و فتح تمھاری ہی ہے‘ تم یقین مانو کہ تمھاری چھوٹی سے چھوٹی نیکی بھی وہ ضائع نہ کرے گا بلکہ اس کا پورا پورا اجروثواب تمھیں عنایت فرمائے گا۔ واللّٰہ اعلم۔ (تفسیر ابن کثیر‘ ج۵‘ ص ۱۰۱)۔ (اخذ و ترتیب: امجد عباسی)