مارچ ۲۰۰۴

فہرست مضامین

خالد اسحاق مرحوم

پروفیسر خورشید احمد | مارچ ۲۰۰۴ | یاد رفتگان

Responsive image Responsive image

بلاشبہہ خالد اسحاق نے قانون کی دنیا میں بڑا نام پیدا کیا اور دستوری اور قانونی امور پر ان کی نگارشات‘ مقدمات اور بیانات ہماری تاریخ کا ایک روشن باب ہیں اور ان کی رہنمائی میں اچھے قانون دانوں اور ججوں کی ایک ٹیم بھی ہماری عدالتوں کی زینت ہے۔ لیکن میری نگاہ میں ان کی اصل شناخت اسلام سے ان کی گہری وابستگی اور اسلامی اقدار کے مطابق زندگی گزارنے کی خواہش اور کاوش ہے۔ وہ بڑے پائے کے قانون دان تھے۔ اللہ بخش بروہی اور خالد اسحاق اپنے اپنے طور پر منفرد مقام رکھتے ہیں اور برسوں یاد کیے جائیں گے۔ ان شاء اللہ پاکستان میں آیندہ بھی اچھے وکیل اور کشادہ ذہن مفکرین کی کھیپ تیار ہوتی رہے گی‘ لیکن جو چیز خالد اسحاق کو سب سے ممتاز کرتی ہے‘ وہ ان کی شخصیت کی ہمہ گیری اور فکر کے عمق اور وسعتوں کے ساتھ اسلام سے گہری وابستگی‘ اس کے پیغام کا فہم اور انسانی فکر میں اسلام کی مرکزیت کا شعور ہے۔ انھوں نے ساری زندگی اس مشن کے لیے خلوص‘ دیانت اور محنت سے جدوجہد کی ایک تابناک مثال قائم کی۔

خالد اسحاق اسلامی روایت کے جلو میں پاکستان کی دو علاقائی روایات کا سنگم تھے۔ ان کا خاندان پنجاب سے سندھ آیا تھا۔ ان کے والد سندھ میں سول سروس کے اعلیٰ منصب پر    فائز تھے‘ ان کی ساری تعلیم سندھ میں ہوئی اور وہ اُردو‘ پنجابی اور سندھی یکساں روانی سے بولتے تھے۔ انگریزی اور عربی پر بھی قدرت حاصل تھی‘ بلکہ دل چسپ بات یہ ہے کہ گو قانون ان کا اوڑھنا بچھونا تھا مگر ان کا ایم اے عربی زبان میں تھا۔

۱۹۲۶ء میں پیدا ہونے والے اس ہونہار بچے نے ۱۹۴۸ء میں تعلیم سے فراغت حاصل کی اور وکالت کا پیشہ اختیار کیا۔ ۱۹۵۸ء میں مغربی پاکستان کا ایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل اور ۱۹۶۳ء میں ہمار ی تاریخ کا سب سے نوعمر ایڈووکیٹ جنرل بنا۔ اسلامک ریسرچ انسٹی ٹیوٹ (IRI) کے شعبہ قانون سے کئی برس وابستہ رہے اور قانون کی اسلامی تشکیلِ نو کے سلسلے میں تحقیق اور نگران  کی خدمات انجام دیں۔ اسلامی نظریاتی کونسل کے بھی دو بار رکن بنے اور سیکڑوں قومی اور    بین الاقوامی کانفرنسوں میں شرکت کی اور نہایت خوبی اور عمدگی کے ساتھ اسلام کے نقطۂ نظر کی ترجمانی کی۔ ان کا رویہ خود اعتمادی اور ان کے فکر کا منہج قرآن سے وفاداری کے ساتھ دورِ جدید کے مسائل اور افکار کی روشنی میں اسلامی فکر کی ترجمانی کا تھا۔ دینی امور کی تعبیر میں ان کی آرا سے تو میں نے بارہا اختلاف کیا‘ لیکن ان کو کبھی اسلا م کے بارے میں معذرت خواہانہ رویہ اختیار کرتے ہوئے نہیں پایا۔ اللہ‘ اللہ کی کتاب اور اللہ کے رسولؐ سے ان کی وابستگی پختہ اور ناقابل سمجھوتہ تھی اور یہی چیز ان کی شخصیت کا سب سے نمایاں پہلو ہے اور ان کی امتیازی شناخت اسی سے عبارت ہے۔

مجھے خالد اسحاق سے سب سے پہلے ۱۹۶۲ء میں ملنے کا موقع ملا اور یہ بھی ہمارے مشترک دوست اور اس وقت کے (یعنی ایوبی دور کے) قومی تعمیرنو بیورو کے نائب ڈائرکٹر مجیب انصاری مرحوم کے توسط سے ہوا۔ ماہ نامہ چراغِ راہ ہمارے اس ابتدائی تعارف کا ذریعہ بنا۔ پھر یہ تعلق دوستی اور اخوت کی سمت بڑھتا رہا۔ ڈاکٹر فضل الرحمن مرحوم اور ڈاکٹر اسماعیل فاروقی اسلامک ریسرچ انسٹی ٹیوٹ میں آگئے اور ان کے ساتھ خالداسحاق سے روز و شب ملاقاتیں ہونے لگیں۔ ان ملاقاتوں میں گرما گرم بحثیں ہوتیں اور یوں اتفاق اور اختلاف کے ساتھ یہ تعلقات بتدریج گہرے ہوتے گئے۔

خالد اسحاق کے کردار کا سب سے متاثر کن پہلوان کی سادگی اور صاف گوئی تھی اور اختلاف کے باوجود ان کے ہاں برداشت کا وصف تھا۔ اس زمانے میں ان پر غلام احمد پرویز کے بھی اثرات تھے اور ان سے ذاتی تعلقات بھی تھے لیکن وہ پرویزکے ہم قافلہ کبھی نہ تھے۔چند موضوعات کو چھوڑ کر ان کی اسلامی فکر ‘توازن کا بہترین امتزاج تھی۔ مولانا مودودیؒ کی تصانیف اور خدمات کا انھوں نے گہرائی سے مطالعہ کیا تھا اور ان کے دل سے قائل تھے‘ اگرچہ چند امور پر ان کے اپنے تحفظات تھے۔ جب صدر فیلڈ مارشل ایوب خان نے جماعت اسلامی کو خلافِ قانون قرار دیا تو یہ مسئلہ مغربی پاکستان ہائی کورٹ میں پیش ہوا۔ خالداسحاق نے ایڈووکیٹ جنرل ہوتے ہوئے بھی اس کیس میں حکومت کے موقف کی تائید سے اجتناب کیا۔ ہائی کورٹ کے چیف جسٹس صاحب نے جب سوال کیا کہ آپ سرکار کے وکیل کا کردار ادا کررہے ہیں یا استغاثہ کا ‘ تو انھوں نے جرأت ایمانی کا اظہار کرتے ہوئے ایڈووکیٹ جنرل کے عہدے سے استعفا دے دیا لیکن اپنے ضمیر کے خلاف مظلوم کو ظالم ثابت کرنے سے انکار کردیا۔

انگلستان کے قیام کے دوران بھی میرا ان سے گہرا ربط رہا۔ اسلامک کونسل آف یورپ کے پلیٹ فارم سے ہم نے جن دسیوں بین الاقوامی کانفرنسوں کا اہتمام کیا‘ وہ شریک ہوئے۔ انٹرنیشنل ڈیکلرنس آف اسلامک ہیومن رائٹس جس کا اعلان یونیسکو کے پلیٹ فارم سے کیا گیا تھا‘ اس کے مرتب کرنے میں انھوں نے بیش بہا خدمات انجام دیں۔ اسلامی معاشیات پر ہمارے پروگراموں میں بھی شریک رہے۔ مگر مجھے یہ قلق ہے کہ آخرِ عمر میں ربا کے مسئلے پر وہ کچھ اشکالات کا شکار ہوگئے‘ ورنہ ہم نے بڑی ہم آہنگی سے اسلام کی معاشی حکمت عملی اور خصوصیت سے عدل اجتماعی کے قیام کے لیے اسلام کے کردار پر مل کر کام کیا۔

خالد اسحاق اور ان کی اہلیہ محترمہ دونوں کو بالکل شروع ہی سے میں نے نماز کے معاملے میں بڑا ہی باقاعدہ اور مضبوط پایا۔ بیرونی کانفرنسوں میں‘ حتیٰ کہ ان کانفرنسوں میں بھی‘ جن کا اہتمام مغربی ادارے کرتے تھے‘ انھوں نے کبھی نماز قضا نہیں کی اور ہر محفل میں اسے وقت پر ادا کرنے کی مثال قائم کی۔ یہ اپنے دین پر اعتماد اور اپنے طریقے کے بارے میں معذرت خواہانہ رویوں سے پاک ہونے کی دلیل ہے۔

خالد اسحاق صاحب کی زندگی کا یہ پہلو سب کے سامنے ہے کہ انھوں نے ٹیکس کے بارے میں کبھی نادہندگی یا غلط گوشوارے دینے کا رویہ اختیار نہیں کیا‘ اور شاید وہ بڑے بڑے صنعت کاروں سے بھی زیادہ ٹیکس ادا کرتے تھے۔ یہ ان کی دیانت اور قانون کی پاسداری کی روشن مثال ہے۔ اس سے بھی زیادہ جو چیز میرے لیے متاثرکن تھی‘ وہ ان کا جذبۂ انفاق ہے۔ کم لوگوں کو معلوم ہے کہ بہت سے غریب خاندان ان کے تعاون سے عزت کی زندگی گزار رہے تھے اور کتنے ہی لائق مگر وسائل سے محروم نوجوانوں نے ان کی مدد سے تعلیم کی منزلیں طے کیں۔   اللہ تعالیٰ ان کی ان مساعی کو قبول فرمائے اور ان کو اجرعظیم سے نوازے۔آمین!

خالد اسحاق کی لائبریری بھی ایک افسانوی اور مثالی (legendary) حیثیت رکھتی ہے۔ میں نے اس لائبریری کو ایک کمرے سے بڑھ کر کئی کوٹھیوں اور فلیٹوں تک پھیلتے ہوئے  بچشم سر دیکھا ہے۔ کتاب خالد اسحاق کی بہترین رفیق اور اصل جذبہ یا خبط (passion)تھی۔ میرے اندازے کے مطابق ۲لاکھ سے زاید کتب ان کے کتب خانے میں تھیں اور بلاشبہہ یہ پاکستان میں سب سے بڑی نجی لائبریری تھی۔ اے کے بروہی صاحب کے پاس بھی بڑی اچھی لائبریری تھی مگر کتب کی تعداد۴۰ یا۵۰ ہزار سے زیادہ نہ تھی۔ میری اپنی لائبریری میں بھی پاکستان اور لسٹرمیں ملا کر۲۵ ہزار تک کتابیں ہیں‘ لیکن خالد اسحاق اس معاملے میں ہم سب سے آگے تھے بلکہ شاید پوری مسلم دنیا میں سرفہرست تھے۔

خالد اسحاق کے گھر منعقد ہونے والی ہفتہ وار علمی نشست بھی کراچی کی ثقافتی زندگی کا ایک ناقابلِ فراموش حصہ تھی۔ فضل احمد کریم فضلی نے ماہانہ مشاعرے کی طرح ڈالی تھی اور خالداسحاق نے ہفتہ وار علمی نشست کی۔ یہ وہ ثقافتی روایت تھی جو کبھی برعظیم کی مسلم ثقافت کی پہچان تھی۔ کاش! دلی کے آخری مشاعرے کی طرح خالد اسحاق کی علمی محفل خواب و خیال نہ ہو جائے۔

خالد اسحاق نے جو خدمات ۱۹۷۳ء کے دستورسازی کے دور میں اور پھر ۱۹۷۶ء میں پاکستان قومی اتحاد (PNA)کی دستوری اور قانونی جدوجہد میں ادا کیں‘ وہ بھی ہماری تاریخ کا ایک اہم باب ہیں۔ وہ اور جناب عامر رضا ایڈووکیٹ اصل قانونی دماغ تھے‘ جس کا توڑ ذوالفقار علی بھٹو صاحب اور ان کی ٹیم سر توڑ کوششوں کے باوجود نہ کر سکی۔

خالداسحاق نے بڑے قیمتی مضامین لکھے ہیں۔ غالباً کتابیں تو ان کی دو تین ہی شائع ہوئی ہیں۔ Constitutional Limitation اور Islamic Principles of Economic Management  ان میں نمایاں ہیں لیکن ان کے مضامین بلاشبہہ کئی سو ہونے چاہییں۔ ان کے احباب کا فرض ہے کہ ان کو مرتب کر کے شائع کرنے کا اہتمام کریں۔ ان کی لائبریری کی حفاظت کے لیے قومی سطح پر اقدام کیا جائے تاکہ یہ صدقہ جاریہ ضوفشاں رہے۔ ان کی زندگی اور کارناموں کو نئی نسل سے روشناس کرایا جائے ‘ اس لیے کہ وہ بلاشبہہ ایک نمونے کی حیثیت (role-model) کا درجہ رکھتے ہیں۔

خالداسحاق ۹ فروری ۲۰۰۴ء کو ہم سے رخصت ہو کر اپنے خالق حقیقی سے جاملے--- اناللّٰہ وانا الیہ راجعون! لیکن وہ اپنے افکار‘ اپنی خدمات اور اپنی یادوں کا ایسا خزانہ چھوڑ گئے کہ بقول میرؔ    ؎

باتیں ہماری یاد رہیں پھر باتیں ایسی نہ سنیے گا

جو کہتے کسی کو سنیے گا تو دیر تلک سر دھنیے گا