نومبر ۲۰۱۴

فہرست مضامین

دلوں پر دستک کی ضرورت

قاضی حسین احمد | نومبر ۲۰۱۴ | دعوت و تحریک

Responsive image Responsive image

آج ملک میں ہر طرف تصادم اور نفرتوں کا طوفان برپا ہے۔ اگر بدی کو بدی ہی سے بدلنے کی کوشش کی جائے گی تو اس کے نتیجے میں ملک اور قوم کی قسمت میں بدی ہی آئے گی اور اللہ کے بندے خیر اور فلاح سے محروم رہیں گے۔ یہی وجہ ہے کہ قرآن نے اصلاحِ احوال کا جو راستہ بتایا ہے وہ بدی کو بھلائی اور نیکی سے بدلنے کا مبنی برحکمت راستہ ہے وَلاَ تَسْتَوِی الْحَسَنَۃُ وَلَا السَّیِّئَۃُ ط اِدْفَعْ بِالَّتِیْ ھِیَ اَحْسَنُ (حم السجدہ ۴۱:۳۴)۔

جماعت اسلامی پاکستان کا کُل پاکستان اجتماع عام ۲۱-۲۳نومبر۲۰۱۴ء کو لاہور میں منعقد ہو رہا ہے۔  یہ لمحہ ہماری قومی زندگی میں بڑی اہمیت کا حامل ہے اور اس موقعے پر اس امر کی ضرورت ہے کہ قیادت اور امامت کے اسلامی فارمولے کو ذہنوں میں اچھی طرح راسخ کرلیا جائے اور یہ فارمولا عبارت ہے اللہ تعالیٰ سے مکمل وفاداری، قول وعمل میں یکسانی اور نفرتوں کومحبتوں میں تبدیل کرنے کی سعی مسلسل سے۔ اقبال نے اس دعوتی، اصلاحی اور انقلابی منہج کو بڑے خوب صورت انداز اور صحیح ترتیب سے یوں بیان کیا ہے     ؎

یقیں محکم، عمل پیہم، محبت فاتحِ عالم

جہاد زندگانی میں ہیں یہ مردوں کی شمشیریں

محترم قاضی حسین احمد مرحوم نے جماعت اسلامی کی ایک مرکزی تربیت گاہ میں تحریک کے کارکنوں کو دعوت کے اس پہلو کی طرف متوجہ کیا تھا۔ ہم ان کے اس خطاب کو اس اجتماعِ عام کے موقعے پر تحریکِ اسلامی کے کارکنوں اور پاکستان کے تمام بھائیوں اور بہنوں کی تذکیر کے لیے پیش کررہے ہیں۔مدیر

کسی بھی تحریک کو ایسے کارکنوں اور ایسے گروہ کی ضرورت ہوتی ہے جو ولولے اور جذبے سے سرشار ہو۔ یہ جذبہ اسی وقت پیدا ہوتا ہے جب لوگوں کو اپنے نصب العین اور مقصد سے عشق ہو۔ اس کے لیے جان کی بازی لگانے پر آمادہ ہوں۔ مال کی قربانی اور وقت دینے کے لیے تیار ہوں۔

یہ وہ محبت ہے جو قرآن کریم پیدا کرنا چاہتا ہے۔ قرآن کریم مسلمانوں کو یہ دعوت دیتا ہے کہ تم اللہ اور اس کے رسولؐ اور ان کے راستے سے محبت کرو۔ ان سے تمام چیزوں سے بڑھ کر محبت کرو۔ پھر ان کو یہ تنبیہ کرتا ہے کہ اگر تمھاری دوسری محبتیں اس محبت پر غالب آجائیں تو یہ ’فسق‘ ہے۔ اس کے نتیجے میں پھر آپ اپنے مقصد تک نہیں پہنچ سکتے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے:

قُلْ اِنْ کَانَ اٰبَآؤُکُمْ واَبْنَـآئُ کُمْ وَ اِخْوَانُکُمْ وَاَزْوَاجُکُمْ وَعَشِیْرَتُکُمْ وَاَمْوَالُ نِ ا قْتَرَفْتُمُوْھَا وَتِجَارَۃٌ تَخْشَوْنَ کَسَادَھَا وَمَسٰکِنُ تَرْضَوْنَھَآ اَحَبََّ اِلَیْکُمِْ مِّنَ اللّٰہِ وَرَسُوْلِہٖ وَجِہَادٍ فِیْ سَبِِِیْلِہٖ فَتَرَبَّصُوْا حَتّٰی یَاْتِیَ اللّٰہُ بِاَمْرِہٖ ط وَاللّٰہُ لَا یَھْدِی القَوْمَ اْلفٰسِقِیْنَ o (التوبۃ۹:۲۴) اے لوگو! جو ایمان لائے ہو، اپنے باپوں اور بھائیوں کو بھی اپنا رفیق نہ بنائو اگر وہ ایمان پر کفر کو ترجیح دیں۔ تم میں سے جو ان کو رفیق بنائیں گے، وہی ظالم ہوں گے۔ اے نبی، کہہ دو کہ اگر تمھارے باپ اور تمھارے بیٹے اور تمھارے بھائی اور تمھاری بیویاں اور تمھارے عزیز واقارب اور تمھارے وہ مال جو تم نے کمائے ہیں اور تمھارے وہ کاروبار جن کے ماند پڑجانے کا تم کو خوف ہے اور تمھارے وہ گھر جو تم کو پسند ہیں، تم کو اللہ اور اس کے  رسول صلی اللہ علیہ وسلم اور اس کی راہ میں جہاد سے عزیز تر ہیں تو انتظار کرو یہاں تک کہ   اللہ اپنا فیصلہ تمھارے سامنے لے آئے، اور اللہ فاسق لوگوں کی راہنمائی نہیں کیا کرتا۔

اللہ تعالیٰ نے اس کو ’فسق‘ قرار دیا ہے کہ آدمی پر اپنے والد، بھائی، بیوی، بیٹی، برادری، مال اور تجارت کی محبت غالب ہو۔ اللہ اور اس کے رسولؐ کی محبت مغلوب ہو۔ اس محبت کو تمام محبتوں سے اُوپر رکھو۔ اللہ سے محبت، اللہ کے رسول سے محبت، اللہ کے راستے میں ہمہ گیر، ہمہ پہلو اور زندگی بھر جدوجہد سے محبت___ ان کو تمام محبتوں سے بالا تر رکھو گے، تبھی منزل تک پہنچ سکتے ہو۔ دوسری جگہ پر فرمایا:

یٰٓاَ یُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا ھَلْ اَدُلُّکُمْ عَلٰی تِجَارَۃٍ تُنْجِیْکُمْ مِنْ عَذَابٍ اَلِیْمٍo تُؤْمِنُوْنَ بِاللّٰہِ وَرَسُولِہٖ وَتُجَاھِدُوْنَ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ ِباَمْوَالِکُمْ وَاَنْفُسِکُمْط ذٰلِکُمْ خَیْرٌ لَّکُمْ اِنْ کُنْتُمْ تَعْلَمُوْنَo (الصف۶۱:۱۰-۱۱)   اے لوگو! جو ایمان لائے ہو، میں بتائوں تم کو وہ تجارت جو تمھیں عذابِ الیم سے بچادے؟ ایمان لائو اللہ اور اس کے رسول پر اور جہاد کرو اللہ کی راہ میں اپنے مالوں سے اور اپنی جانوں سے۔ یہی تمھارے لیے بہتر ہے اگر تم جانو۔

پھر فرمایا گیا کہ ایک اور چیز بھی تمھیں دی جائے گی جو تمھیں دل پسند ہے، تمھیں مرغوب ہے، اور وہ ہے اللہ کی طرف سے نصرت۔ جس کے نتیجے میں دنیا کی فتح ملے گی:

وَاُخْرٰی تُحِبُّونَھَا ط نَصْرٌ مِّنَ اللّٰہِ وَفَتْحٌ قَرِیْبٌ ط وَبَشِّرِ الْمُؤْمِنِیْنَo (الصف۶۱:۱۳) اور وہ دوسری چیز جو تم چاہتے ہو، وہ بھی تمھیں دے گا، اللہ کی طرف سے نصرت اور قریب ہی میں حاصل ہوجانے والی فتح۔ اے نبی، اہل ایمان کو اس کی بشارت دے دو۔

یہ دنیا کی فتح، آخرت کی فلاح، اللہ تعالیٰ کی نصرت اور اس کی تائید انھی لوگوں کو ملتی ہے جو اللہ کے راستے میں مجاہدہ کرتے ہیں۔ اللہ کے رسولؐ سے محبت کرتے ہیں۔ یہ وہ بنیادی اسلحہ ہے جس کے نتیجے میں ولولہ اور جذبہ پیدا ہوتا ہے۔ اللہ کے کلمے کو سربلند کرنے کا مقصد، زندگی کے ہرشعبے میں اسلام کو بالادست کرنے کی آرزو، اسی وقت حاصل ہوسکتی ہے جب اللہ کی محبت تمام دوسری محبتوں سے بڑھ کر ہو۔ وَالَّذِیْنَ اٰمَنُوْا اَشَدُّ حُبًّا ِلّـلّٰہ ، (جو ایمان والے ہیں، وہ اللہ سے زیادہ محبت کرتے ہیں۔

ہم دیکھتے ہیں کہ کافر اپنے آبا واجداد، اپنے ملک، اپنی برادری، اپنے رسم ورواج اور  اپنے وطن سے محبت کرتے ہیں۔ وہ اسی کو زندگی کی اعلیٰ قدر تصور کرتے ہیں۔ اس کے مقابلے میں  اللہ کے بندے،اللہ اور اس کے رسولؐ سے زیادہ محبت کرتے ہیں۔ وہ دوسری قوموں کے مقابلے میں بڑی قربانی کے لیے آمادہ ہوتے ہیں۔ ان کو تو یہ یقین ہوتا ہے کہ میری یہ زندگی عارضی ہے اور ایک اچھی زندگی میرا انتظار کررہی ہے۔ ایک ایسی زندگی جو اس سے بہتر ہے۔ جو پاے دار اور  دائمی ہے۔ جو ہمیشہ کے لیے ہے اور جہاں کی نعمتیں ختم ہونے والی نہیں ہیں۔ یہ دنیا کی زندگی تو چندروزہ اور ختم ہونے والی ہے۔ یہ دارلقرار نہیں، دارالامتحان ہے۔ میں نے اِس عارضی زندگی سے اُس مستقل زندگی میں جانا ہے۔یہ وہ بنیادی عقائد ہیں جن کے نتیجے میں بندۂ مومن ایک ولولے اور ایک جذبے سے سرشار ہوتا ہے۔ اس مقصد کے لیے اس کے اندر یہ اعتماد ہونا چاہیے کہ میں جس راستے پر جارہا ہوں، یہی کامیابی کا راستہ ہے۔

آپ کے مقابلے میں خود غرض اور مفاد پرست لوگ ہیں اور اُن کی نہ ختم ہونے والی لڑائی ہے۔ یہ کبھی ختم نہیں ہوگی۔ یہ اپنے نفس اور غرض کے بندے ہیں۔ ان کا کوئی مقصد اور کوئی نصب العین نہیں ہے۔ یہ کسی اعلیٰ مقصد کے لیے کام نہیں کررہے ہیں۔ جب تک وطن عزیز کا اختیار غرض کے ان بندوں کے ہاتھ میں ہوگا، اس وقت تک یہ بحران ختم نہیں ہوگا۔ سارا منظر لوگوں کے سامنے ہے۔ ملک میں لوٹ کھسوٹ ہے، بدامنی ہے۔ یہاں خوف کی ایک فضا اور دہشت کا راج ہے۔ اس فضا کو اہلِ غرض ختم نہیں کرسکتے۔یہ ایک دوسرے کو تحفظ فراہم کرتے ہیں۔

لیکن ان کے مقابلے میں آپ کے پاس ایک مضبوط دلیل ہے اور وہ ہے اللہ کی کتاب۔ خاتم الانبیا محمدمصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کا طریقہ ہے۔ پھر انھی کے زیرسایہ آپ کا صاف ستھرا کردار ہے، جو کسی سے ڈھکا چھپا نہیں ہے۔ آپ کی لیڈر شپ کسی اسکینڈل میں ملوث نہیں ہے۔ آپ کی قیادت عوام میں سے اُبھری ہے۔ آپ لوگوں کے اندر رہتے ہیں اور عام لوگوں کی طرح زندگی گزارتے ہیں۔ کسی بھی اسکینڈل میں، پلاٹوں کی فہرست میں ان کے نام نہیں۔ کسی بھی دور میں جماعت اسلامی کے بارے میں کوئی کچھ نہیں پیش کرسکا۔ کوئی ایسی بات آتی ہے تو ہم عدالتوں میں جاتے ہیں۔ اللہ کے فضل سے کوئی ہمارے بارے میں معمولی چیز لے کر نہیں آسکا ہے۔ صاف ستھری قیادت اور اس کے ساتھ اللہ کی طرف سے دیا ہوا نظام… جس پر لوگوں کا ایمان اور عقیدہ ہے۔ پھر آپ کیوں لوگوں کے پاس نہیں جاسکتے؟ بلکہ مجھے اصل میں کوئی رکاوٹ نظر نہیں آتی۔ مجھے یہی رکاوٹ نظر آتی ہے کہ ہمارے لوگ خول کے اندر بند ہیں اور اپنے خول سے باہر نہیں نکلتے۔ آپ اپنے خول سے نکلیں۔ لوگوں کے پاس جائیں۔

بلدیاتی انتخاب جیتنا ایک مشکل کام ہے۔ بلدیاتی انتخاب جیتنے کے لیے نیچے تک، محلے کی سطح تک آپ کا کارکن ہونا چاہیے۔ جب تک عام محلے کی سطح پر کارکن مضبوط نہ ہو، عوام کے ساتھ رابطہ نہ ہو، بلدیاتی انتخاب نہیں جیت سکتے۔ جب آپ نچلی سطح پر لوگوں تک پہنچیں تو ان سے کہیں کہ ہم تو انسانیت کی خدمت کے لیے یہاں آئے ہیں۔ ہم تو ایک پاک صاف اور ستھری انتظامیہ دینے کے لیے یہاں آئے ہیں۔ محبت کا پیغام لے کر آئے ہیں۔

یہی محبت کا پیغام لے کر ترکی میں اسلامی تحریک کے کارکن جب عوام تک پہنچے، ایک ایک فرد سے رابطہ کیا تو نہ صرف لوگوں کے دل ان کے لیے کھل گئے، بلکہ بلدیاتی انتخابات میں کامیابی نے ان کے قدم چومے اور اسلامی تحریک کو مقبولیت ملتی چلی گئی۔

اس طرح یہ دعوت پھیلتی ہے۔ اسی کے نتیجے میں لوگوں کے دل جیتے جاسکتے ہیں اور اسی کے نتیجے میں تحریک کو عوامی مقبولیت حاصل ہوسکتی ہے۔ اگر لوگ اپنے خول کے اندر بند رہیں، اپنے گھروں کے اندر رہیں، کسی سے بات نہ کریں، لوگوں کے پاس نہ جائیں اور یہ انتظار کریں کہ میں تو گھر بیٹھا ہوں، دعوت کا یہ کام کوئی دوسرا ساتھی کرلے گا تو یہ ایک غلط انداز ہوگا۔ لوگوں کو کیسے پتا چلے گا کہ آپ کے پاس حق ہے؟ اس سے لوگ اس غلط فہمی کا شکا ر بھی ہوجاتے ہیں کہ یہ لوگ مغرور ہیں۔ اپنے آپ کو بڑی چیز سمجھتے ہیں اور دوسرے لوگوں کو کسی شمار قطار میں بھی نہیں سمجھتے۔ جب آپ الگ تھلگ رہیں گے تو لوگوں میں غلط فہمیاں پھیلیں گی۔ جب آپ میں سے عظیم اکثریت لوگوں کے پاس جائے گی اور آپ لوگوں کے ساتھ محبت سے بات کریں گے، ان کو کہیں گے کہ ہم آپ کی خدمت کے لیے آئے ہیں تو ان کی غلط فہمیاں دُور ہوں گی۔

آج لوگ ایسے گروہ کے منتظر ہیں جو خدمت کے جذبے سے سرشار ہوکر لوگوں کے پاس جائے۔ ملک ایک بحران میں مبتلا ہے۔ یوں لگتا ہے کہ جیسے ہم ایک جہاز میں بیٹھے ہیں اور جہاز ڈوب رہا ہے، اس کو بچانے کی فکر ہونی چاہیے۔ افسوس صد افسوس کہ لوگ اس کے اندر اپنی اپنی سیٹوں کی حفاظت میں تو مشغول ہیں کہ جہاز کے اندر جو سیٹ ہے، صرف وہی زیادہ آرام دہ    بن جائے، زیادہ خوب صورت بن جائے۔ لیکن جس جہاز میں کرسی ہے، اس کرسی کا جہا ز ڈوب رہا ہے تو بتائیے آپ کی کرسی کیسے بچے گی؟ آپ نے بہت خوب صورت گھر ایک بڑے جہاز میں بنایا ہے۔ جب وہ جہاز ڈوب رہا ہے تو وہ خوب صورت گھر کیسے بچ سکتا ہے؟

جب چاروں طرف کا ماحول اور معاشرہ آپ کا دوست نہ ہو اور پاک صاف ستھرا نہ ہو تو آپ بھی نہیں بچ سکیں گے۔ آپ اپنے بچوں کو بہت زیادہ پاک صاف بنادیں،  چاروں طرف معاشرے کے اندر پھیلی ہوئی گندگی کے اندر آپ ایک خوب صورت جگہ بنابھی لیں گے، تو آپ کے بچے اس گندگی سے کیسے بچ سکیں گے؟ یقینا یہ گندگی آپ کے گھر کا بھی احاطہ کرے گی اور آپ کے بچے بھی متاثر ہوں گے۔ اس لیے پورے معاشرے کو، پورے جہا ز کو بچانے اور اس کی اصلاح کی فکر ہونی چاہیے۔ اپنے بچوں کی تعلیم اور تربیت کے ساتھ معاشرے کی بھی تعلیم اور تربیت کی ضرورت ہے۔

یہ بات درست ہے کہ انسان کو اصلاح کی شروعات اپنی ذات سے کرنی چاہیے۔ اپنی ذات کا حق پہلے ہے۔ اسی طرح جب تک آپ کی اپنی ذات اس دعوت کا عملی نمونہ نہیں ہوگی، اس وقت تک آپ اعتماد کے ساتھ لوگوں کے پاس نہیں جاسکیں گے۔ جب آپ کے گھر میں اچھا ماحول نہیں ہوگا، آپ معاشرے میں روشنی نہیں پھیلاسکیں گے، لیکن ذات اور گھر کے ساتھ ساتھ محلے اور معاشرے کی بھی فکر ہونی چاہیے۔ اس کے لیے جس جذبے اور جس ولولے کی ضرورت ہے وہ  ولولہ اور وہ جذبہ پیدا کیجیے۔ وہ جذبہ اور ولولہ اللہ کے ساتھ زیادہ بہتر اور گہرا تعلق پیداکرنے کے نتیجے میں بڑھتا ہے۔ آپ اس جذبے سے سرشار ہوجائیں گے تو آپ کو قرار نہیں آئے گا جب تک آپ وہ مقصد حاصل نہ کرلیں جو بالاتر مقصد ہے۔

مقصد کو بالاتر بنانے کا طریقہ یہی ہے کہ عوامی محبوبیت حاصل کی جائے۔ عوامی تائید حاصل ہو اور عوام کے پاس پہنچا جائے۔ عوام کی تائید حاصل کرنے کا طریقہ یہ ہے کہ محبت کی زبان استعمال ہو اور محبت کو اپنا ذریعہ بنایا جائے۔ اس طریقے سے آپ عوام کے دلوں میں جگہ بناسکتے ہیں۔ یقینا محبت ہی فاتحِ عالم ہے!