چراغ حسن حسرت کی ایک کتاب سرکارِ مدینہ اور آپؐ کے خلفاے راشدین پر ڈاکٹر رفیع الدین ہاشمی نے اپنے تبصرے (اکتوبر ۲۰۱۴ء) میں اس بات پر اعتراض کیا ہے کہ ناشر نے مصنف کے نام کے ساتھ مولانا کا سابقہ لگا دیا ہے حالانکہ کلین شیوڈ حسرت مولانا تھے نہ اپنی تصانیف پر یہ لفظ لکھتے تھے، نہ خود کو مولانا سمجھتے تھے۔ ہاشمی صاحب نے لفظ ’مولانا‘ پر اپنے ریمارکس دے کر بڑی دل چسپ بحث چھیڑ دی ہے۔ شاید انھیں نہیں معلوم کہ کم و بیش صدی پون صدی پہلے یہ لفظ اہلِ علم و تحقیق کی تکریم کے لیے لکھا اور بولا جاتاتھا۔ اس کے لیے باریش ہونا شرط نہیں تھا۔ محترم غلام رسول مہر بہت بڑے عالم اور محقق تھے.... کلین شیوڈ تھے لیکن مولانا کہلاتے تھے۔ اقلیم ادب کی ایک اور اہم شخصیت صلاح الدین احمد یاد آرہے ہیں۔انگریزی لباس پہنتے اور سر پر سرلا ہیٹ لگاتے تھے۔ اب یہ بتانا ضروری نہیں کہ وہ کلین شیوڈ تھے لیکن مولانا کہلاتے تھے۔ ’ادبی دنیا‘ کی پیشانی پر ان کے نام کے ساتھ مولانا لکھا جاتا تھا۔ اخباری دنیا کی اہم شخصیت عبدالمجید سالک معروف معنوں میں مولانا نہ تھے لیکن صحافت میں اپنے مقام و مرتبے کے سبب وہ بھی مولانا کہلاتے تھے اگرچہ باریش نہ تھے، بھنویں تک منڈواتے تھے لیکن اپنے تبحرعلمی کی وجہ سے مولانا مشہور تھے۔ اب ان کے نام کے ساتھ مولانا نہ لکھا جائے تو ان کی شخصیت احاطۂ اِدراک میں نہیں آسکتی۔
چراغ حسن حسرت اپنی علمیت کے باوجود جس ذوق کے اسیر تھے اسے دیکھتے ہوئے ایک خالص مذہبی کتاب کا ان کے قلم سے نکلنا انتہائی حیرت کی بات ہے۔ ان کا علمی ذوق خالصتاً ادبی تھا۔ اس میں مذہب کی چاشنی سرے سے تھی نہیں۔ مجھے شبہہ ہے کہ مذکورہ کتاب کسی اور کا شاہکار ہے جسے مولانا چراغ حسرت کے نام منڈھ دیا گیا ہے۔
موجودہ دور میں مسلمانوں کی پستی اور ناکامی کا سبب کیا ہے؟ ’فرض آپ کو پکار رہا ہے!‘‘ (اکتوبر ۲۰۱۴ء) نے اس سوال کا بہترین حل اور مثبت جواب پیش کیا ہے۔ جتنا اسلام کو نقصان دشمنانِ دین نے پہنچایا ہے یا پہنچا رہے ہیں اس سے کئی گنا زیادہ نقصان اسلام اور نظامِ خلافت کو ان لوگوں نے پہنچایا ہے جو اسلام کا ناقص تصور دنیا کے سامنے پیش کر رہے ہیں اور مسلمانوں کو مسجدوں، مدرسوں اور عبادت گاہوں تک محدود کر کے رہبانیت کا درس دیتے ہیں۔ اسلام کے اس ناقص تصور کی وجہ سے آج دنیا کی امامت اور اقتدار اسلام کے دشمنوں اور خدا کے باغیوں کے ہاتھ میں ہے۔
عالمی ترجمان القرآن دنیا بھر کے مسلمانوں کی آواز ہے جس نے ہر دور میں حق اور سچ کا ساتھ دیا۔ ’جھوٹ اور بنگلہ دیش حکومت ساتھ ساتھ‘(اکتوبر ۲۰۱۴ء) سلیم منصور خالد صاحب کا مضمون انتہائی فکرانگیز اور معلومات سے بھرپور ہے اور جس سے بنگلہ دیش حکومت کا اصل چہرہ بے نقاب ہوگیا ہے۔ دراصل حسینہ واجد اوچھے ہتھکنڈوں کے ذریعے تاریخ کو مسخ کرنے کی کوشش کر رہی ہے جو قابلِ مذمت ہے۔ تحریر میں اتنی روانی، سلاست اور دل چسپی ہے کہ میں نے تین بار پڑھا، خاص کر عبدالکریم خوندکر نے شیخ مجیب الرحمن کی۷مارچ ۱۹۷۱ء کے تقریر کا حوالہ دے کر تاریخ میں ایک نیا باب رقم کیا ہے۔