نومبر ۲۰۱۴

فہرست مضامین

رسائل و مسائل

| نومبر ۲۰۱۴ | رسائل و مسائل

Responsive image Responsive image

سوال : سیاسی انقلاب پہلے یا سماجی انقلاب؟

ہمارے ملک میں یہ احساس عام ہے کہ اسلام کے اصول و احکام پسندیدہ اور مستحسن تو ہیں مگر بحالاتِ موجودہ قابلِ عمل نہیں ہیں۔ عوام و خواص میں اسلام سے جذباتی وابستگی تو ضرور ہے لیکن اسلام کا صحیح فہم اور آمادگیِ عمل بہت کم ہے۔ اسلام  جس ذہنی و عملی انضباط کا مطالبہ کرتا ہے اسے دیکھ کر یہ خدشہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر   اسلامی قوانین کو نافذ کردیا گیا تو کہیں اس کے خلاف شدید ردعمل نہ رُونما ہوجائے۔ سیاسی انقلاب سے پہلے سماجی انقلاب ضروری ہے اور اصلاح کاجذبہ اُوپر سے اور باہر سے پیدا کرنے کے بجاے اندر سے پیدا کرنے کی ضرورت ہے۔ یہ صورتِ حال پیدا ہونے سے پہلے کیا اسلامی ریاست کا مطالبہ قبل از وقت نہیں ہے؟

جواب :

اس مسئلے کی اگر پوری وضاحت کی جائے تو اس کے لیے بڑے تفصیلی جواب کی ضرورت ہے۔ لیکن مختصر جواب یہ ہے کہ بلاشبہہ سیاسی انقلاب سے پہلے ایک تمدنی، اجتماعی اور اخلاقی انقلاب کی ضرورت ہوتی ہے اور یہی اسلامی انقلاب کا فطری طریقہ ہے۔ اور بلاشبہہ یہ بات بھی درست ہے کہ اسلام کے احکام و قوانین صرف اُوپر سے ہی مسلط نہیں کیے جاسکتے بلکہ اندر سے ان کے اتباع کا دلی جذبہ بھی پیدا کیا جاتا ہے لیکن اس حقیقت سے کون انکار کرسکتا ہے کہ پاکستان کے قیام کی شکل میں سیاسی انقلاب رُونما ہوچکا ہے۔ اب یہ سوال چھیڑنا بالکل بے کار ہے کہ معاشرتی انقلاب پہلے برپا کرنا چاہیے اور سیاسی انقلاب بعد میں۔ اب تو سوال یہ پیدا ہوگیا ہے کہ جب تک قوم میں مذہبی انقلاب واقع نہ ہو اس وقت تک آیا ہم سیاسی اختیارات کو کافرانہ اصولوں کے مطابق کام میں لائیں۔ سیاسی اقتدار کا کوئی نہ کوئی مصرف اور مقصد بہرحال ہمیں متعین کرنا پڑے گا۔ حکومت کی مشینری کو اخلاقی انقلاب رُونما ہونے تک معطل بہرحال نہیں کیا جاسکتا۔ ایک قوم جو خدا اور اس کے رسولؐ کی حاکمیت اور بالادستی پر ایمان رکھتی ہو،اجتماعی اور قومی زندگی کی باگیں اس کے اپنے ہاتھ میں ہوں، اپنا نظامِ حیات وہ خود تعمیر کرنے کے قابل ہو اور کوئی دوسری کافرانہ طاقت اس پر کوئی کافرانہ نظام مسلط کرنے والی نہ ہو، تو کیا اس قوم کے افراد کے لیے یہ جائز اور درست ہوسکتا ہے کہ وہ ایک دوسرے کو اخلاقی وعظ و نصیحت تو کرتے رہیں گے مگر اپنی ہیئت ِ حاکمہ کو غیراسلامی اصولوں کے مطابق کام کرنے کے لیے چھوڑ دیں۔ میں سمجھتا ہوں کہ اگر ہم اس صورت ِ حال کو گوارا کرلیں، تو گو ہم انفرادی ارتداد کے مرتکب نہ ہوں، اجتماعی اور قومی حیثیت سے ہم ضرور ارتداد کے مرتکب ہوں گے۔

پھر اس معاملے کا ایک دوسرا پہلو بھی ہے اور وہ یہ ہے کہ اگر آپ اجتماعی و اخلاقی انقلاب لانا چاہتے ہیں تو آپ کو غور کرنا پڑے گا کہ اس انقلاب کے ذرائع و وسائل کیا کیا ہوسکتے ہیں۔ ظاہرہے کہ ان ذرائع میں تعلیم و تربیت، معاشرتی اصلاح، ذہنی اصلاح اور اسی قسم کی بہت سی چیزیں شامل ہیں۔ انھی کے ساتھ ساتھ حکومت کے قانونی اور سیاسی ذرائع و وسائل بھی ہیں۔ حکومت کی طاقت نہ صرف بجاے خود ایک بڑا ذریعۂ اصلاح ہے بلکہ وہ ساری اصلاحی تدابیر کو زیادہ مؤثر،  نتیجہ خیز اور ہمہ گیر بنانے کا بھی ذریعہ ہے۔ اب آخر کیا وجہ ہے کہ اخلاقی انقلاب لانے کے لیے حکومت کے وسائل کو بھی استعمال نہ کیا جائے۔ہمارے ووٹوں اور ہمارے ادا کردہ ٹیکسوں اور مالیوں کے بل پر ہی تو حکومت کا سارا نظام چل رہا ہے۔ آخر اس حماقت اور جہالت کا ارتکاب   ہم کیوں کریں کہ ایک طرف انفرادی حیثیت سے ہم اسلام کے سماجی انقلاب کی راہ ہموار کرنے کی کوشش کریں اور دوسری طرف حکومت کے سارے ذرائع اخلاق کے بگاڑنے اور فسق و فجور پھیلانے میںلگے رہیں۔(سیّد مودودی، رسائل و مسائل، چہارم، ص ۱۷۹-۱۸۸)


سوال : اسلام اور جمہوریت

جمہوریت کو آج کل ایک بہترین نظام قرار دیا جاتا ہے۔ اسلامی نظامِ سیاست کے بارے میں بھی یہی خیال کیا جاتا ہے کہ یہ بہت بڑی حد تک جمہوری اصولوں پر مبنی ہے۔ مگر میری نگاہ میں جمہوریت کے بعض نقائص ایسے ہیں جن کے متعلق میں یہ معلوم کرنا چاہتی ہوں کہ اسلام انھیں کس طرح دُور کرسکتا ہے۔ وہ نقائص درج ذیل ہیں:

  1.  دوسرے سیاسی نظاموں کی طرح جمہوریت میں بھی عملاً آخرکار اقتدار جمہور کے ہاتھوں سے چھن کر اور چند افراد میں مرتکز ہوکر جنگ زرگری کی صورت اختیار کرلیتا ہے اور امرا کی حکومت (Plutocracy) یا ایک محدود طبقے کی حکومت (Oligarchy) کی کیفیت پیدا ہوجاتی ہے۔ اس کا کیا حل ممکن ہے؟
  2. عوام کے متنوع اور متضاد مفادات کی بیک وقت رعایت ملحوظ رکھنا نفسیاتی طور پر ایک بڑا مشکل کام ہے۔ جمہوریت اس عوامی ذمہ داری سے کس شکل میں عہدہ برآ ہوسکتی ہے؟
  3. عوام کی اکثریت جاہل، سادہ لوح، بے حس اور شخصیت پرست ہے اور خودغرض عناصر انھیں برابر گمراہ کرتے رہتے ہیں۔ ان حالات میں نیابتی اور جمہوری ادارات کے لیے کامیابی سے کام کرنا بڑا دشوار ہے۔
  4. عوام کی تائید سے جو انتخابی اور نمایندہ مجالس وجود میں آتی ہیں، ان کے ارکان کی تعداد اچھی خاصی ہوتی ہے اوران کے مابین باہمی بحث و مشاورت اور آخری فیصلہ کرنا بڑا مشکل ہوجاتا ہے۔

آپ رہنمائی فرمائیں کہ آپ کے خیال میں اسلام اپنے جمہوری ادارات میں ان خرابیوں کو راہ پانے سے کیسے روکے گا؟

جواب :

آپ نے جمہوریت کے بارے میں جو تنقید کی ہے اس کے تمام نکات اپنی جگہ درست ہیں، لیکن اس مسئلے میں آخری راے قائم کرنے سے پہلے چند اور نکات کو نگاہ میں رکھنا ضروری ہے۔

اوّلین سوال یہ ہے کہ انسانی معاملات کو چلانے کے لیے اصولاً کون سا طریقہ صحیح ہے؟ آیا یہ کہ وہ معاملات جن لوگوں سے تعلق رکھتے ہیں،ان کی مرضی سے سربراہِ کار مقرر کیے جائیں اور وہ ان کے مشورے اور رضامندی سے معاملات چلائیں اور جب تک ان کا اعتماد سربراہ کاروں کو حاصل رہے اسی وقت تک وہ سربراہِ کار رہیں؟یا یہ کہ کوئی شخص یا گروہ خود سربراہِ کار بن بیٹھے اور اپنی مرضی سے معاملات چلائے اور اس کے تقرر اور علیحدگی اور کارپردازی میں سے کسی چیز میں بھی ان لوگوں کی مرضی و راے کا کوئی دخل نہ ہو جن کے معاملات وہ چلا رہا ہو؟ اگر ان میں سے پہلی صورت ہی صحیح اور مبنی برانصاف ہے تو ہمارے لیے دوسری صورت کی طرف جانے کا راستہ پہلے ہی قدم پر بند ہوجانا چاہیے، اور ساری بحث اس پر ہونی چاہیے کہ پہلی صورت کو عمل میں لانے کا زیادہ سے زیادہ بہتر طریقہ کیا ہے۔

دوسری بات جو نگاہ میں رہنی چاہیے وہ یہ ہے کہ جمہوریت کے اصول کو عمل میں لانے کی جو بے شمارشکلیں مختلف زمانوں میں اختیار کی گئی ہیں یا تجویز کی گئی ہیں،ان کی تفصیلات سے قطع نظر کرکے انھیں صرف اس لحاظ سے جانچا اور پرکھا جائے کہ جمہوریت کے اصول اور مقصد کو پورا کرنے میں وہ کہاں تک کامیاب ہوتی ہیں، تو کوتاہی کے بنیادی اسباب صرف تین ہی پائے جاتے ہیں۔

  1. اوّل یہ کہ ’جمہور‘ کو مختارِ مطلق اور حاکمِ مطلق (sovereign) فرض کرلیا گیا او ر اس بناپر جمہوریت کو مطلق العنان بنانے کی کوشش کی گئی۔حالانکہ جب بجاے خود انسان ہی اس کائنات میں مختارِ مطلق نہیں ہے تو انسانوں پر مشتمل کوئی جمہور کیسے حاکمیت کا اہل ہوسکتا ہے۔ اسی بناپر  مطلق العنان جمہوریت قائم کرنے کی کوشش آخرکار جس چیز پر ختم ہوتی رہی ہے وہ جمہور پر چند آدمیوں کی عملی حاکمیت ہے۔ اسلام پہلے ہی قدم پر اس کا صحیح علاج کردیتاہے۔ وہ جمہوریت کو ایک ایسے بنیادی قانون کا پابند بناتا ہے جو کائنات کے اصل حاکم (sovereign) نے مقرر کیا ہے۔ اس قانون کی پابندی جمہور اور اس کے سربراہ کاروں کو لازماً کرنی پڑتی ہے اور اس بنا پر وہ مطلق العنانی سرے سے پیدا ہی نہیں ہونے پاتی جو بالآخر جمہوریت کی ناکامی کا اصل سبب بنتی ہے۔
  2. دوم یہ کہ کوئی جمہوریت اس وقت تک نہیں چل سکتی جب تک عوام میں اس کا بوجھ سہارنے کے لائق شعور اور مناسب اخلاق نہ ہوں۔ اسلام اسی لیے عام مسلمانوں کی فرداً فرداً تعلیم اور اخلاقی تربیت پر زور دیتا ہے۔ اس کا مطالبہ یہ ہے کہ ایک ایک فرد مسلمان میں ایمان اور احساسِ ذمہ داری اور اسلام کے بنیادی احکام کا اور ان کی پابندی کا ارادہ پیدا ہو۔ یہ چیز جتنی کم ہوگی جمہوریت کی کامیابی کے امکانات کم ہوں گے، اور یہ جتنی زیادہ ہوگی امکانات اتنے ہی زیادہ ہوں گے۔
  3. سوم یہ کہ جمہوریت کے کامیابی کے ساتھ چلنے کا انحصار ایک بیدار مضبوط راے عام پر ہے اور اس طرح کی راے عام اسی وقت پیدا ہوتی ہے جب معاشرہ اچھے افراد پر مشتمل ہو۔ ان افراد کو صالح بنیادوں پر ایک اجتماعی نظام میں منسلک کیا گیا ہو اور اس اجتماعی نظام میں اتنی طاقت موجود ہو کہ برائی اور بُرے اس میں نہ پھل پھول سکیں اور نیکی اور نیک لوگ ہی اس میں اُبھر سکیں۔ اسلام نے اس کے لیے بھی ہم کو تمام ضروری ہدایات دے دی ہیں۔

اگر مندرجہ بالا تینوں اسباب فراہم ہوجائیں تو جمہوریت پر عمل درآمد کی مشینری خواہ کسی طرح کی بنائی جائے، وہ کامیابی کے ساتھ چل سکتی ہے۔ اور اس مشینری میں کسی جگہ کوئی قباحت محسوس ہو تو اس کی اصلاح کرکے بہتر مشینری بھی بنائی جاسکتی ہے۔ اس کے بعد اصلاح و ارتقا کے لیے صرف اتنی بات کافی ہے کہ جمہوریت کو تجربے کا موقع ملے۔ تجربات سے بتدریج ایک ناقص مشینری بہتر اور کامل تر بنتی چلی جائے گی۔ (ایضاً، ص ۲۷۹-۲۸۳)


سوال : متبنٰی کی ولدیت کی شرعی حیثیت

سورئہ احزاب آیت نمبر۵ کے حوالے سے قرآن و سنت کی روشنی میں درج ذیل سوالوں کے جواب مطلوب ہیں:

  1. کیا کسی گود لیے گئے یا متبنّٰی کو کسی بھی صورت میں اپنے حقیقی باپ کے سوا کسی اور کی ولدیت سے پکارا یا لکھا جاسکتا ہے؟
  2. اگر نادانستگی یا غلطی سے بچے کے پیدایشی سرٹیفیکیٹ، شناختی کارڈ، اسناد اور نکاح نامے میں ولدیت حقیقی باپ کے بجاے پالنے والے یا گود لینے والے کی لکھ دی گئی ہو تو کیا اس میں تبدیلی ضروری ہے؟
  3.  ایسے غلط اندراج جس میں ولدیت حقیقی باپ کی بجاے گود لینے والے کی تحریر ہو اگر اس کو تبدیل نہ کیا جائے تو شرعاً یہ کس درجے کا جرم ہوگا؟
  4. اختصار کے ساتھ اس حکم کی حکمت بھی بیان فرما دیں تو شکرگزار ہوں گا۔
  5. جن بچوں کے لیے یہ فتویٰ درکار ہے وہ اب بالغ ہوچکے ہیں۔ پاکستان میں زیرتعلیم ہیں، جب کہ اُن کے تمام کاغذات میں لے پالک والد کا نام لکھا ہوا ہے۔  اب اگر اُن کے تمام کاغذات میں نام تبدیل کرایا جائے گا تو یہ مسئلہ پیدا ہوگا کہ پہلے اُن کے لے پالک والدکا نام کیوں لکھا گیاتھا؟ وہ قانونی گرفت میں آسکتے ہیں کیوں کہ اُن کے لے پالک والد سعودی عرب میں ملازم ہیں جہاں ان کے خلاف دھوکادہی کا مقدمہ ہوسکتا ہے۔

جواب :

  1. کسی گود لیے یا متبنّٰی کو کسی بھی صورت میں اپنے باپ کے سوا کسی اور کی ولدیت سے نہیں پکارا جاسکتا اور نہ لکھا ہی جاسکتا ہے۔
  2. اگر نادانستگی یا غلطی سے بچے کے پیدایشی سرٹیفیکیٹ، شناختی کارڈ ، اسناد اور نکاح نامے میں ولدیت حقیقی باپ کے بجاے لے پالک کی لکھ دی گئی ہو تو اس میں تبدیلی ضروری ہے۔
  3. ایسے غلط اندراج جس میں ولدیت حقیقی باپ کے بجاے گود لینے والے کی تحریر کی گئی ہو اگر اسے تبدیل نہ کیا گیا تو قرآنِ پاک کے صریح حکم کی خلاف ورزی اور دورِ جاہلیت کی روایت اور رسم و رواج پر عمل ہوگا۔ اللہ تعالیٰ کا واضح حکم ہے: اُدْعُوْھُمْ لِاٰبَآئِھِمْ(احزاب ۳۳:۵) ’’انھیں اپنے باپوں کے نام کے ساتھ پکارو‘‘۔ اگر کاغذات میں اپنے حقیقی باپ کے بجاے گود لینے والے یا متبنّٰی بنانے والے کا نام لکھا گیا ہے تو وہ اس حکم کی صراحتاً خلاف ورزی ہے۔ یہ شرعاً اس درجے کا حکم ہے جس درجے کا حکم نماز قائم کرنے اور زکوٰۃ دینے کے حکم کی خلاف ورزی کے لیے ہے۔
  4.  بچے اگرچہ بالغ ہوچکے ہوں پھر بھی ولدیت کی تبدیلی لازم ہے۔ رہی یہ بات کہ اس میں حکمت کیا ہے تو حکمت نسب کی حفاظت ہے اور وراثت وغیرہ کے احکام پر عمل درآمد ہے۔ اگر تبدیلی نہ کی گئی تو کل ان لوگوں کی اولاد کا دادا وہ بن جائے گا جس کو کاغذات میں والد لکھا گیا ہے اور اس کی اولاد کے ساتھ ان لوگوں کی اولاد کا نکاح ناجائز ہوجائے گا جو حکمِ شرعی کو تبدیل کردینا ہے۔ اس کے علاوہ اور بھی بہت سی حکمتیں ہیں جنھیں اللہ تعالیٰ بہتر جانتے ہیں۔ تبدیلی کے لیے جو مسئلہ بھی پیدا ہوتا ہو، اس کا سامنا کیا جائے۔ان شاء اللہ شریعت پر عمل کرنے کے نتیجے میں نفع ہوگا، نقصان نہیں ہوگا۔ دل سے حقیقی باپ کے نام کے اندراج کا عزم کرلیں۔ پھر اس کے لیے دعا کرتے رہیں اور تدبیر بھی سوچتے رہیں، مثلاً لے پالک والد، ملازمت سے ریٹائر ہوجائیں تو قانونی گرفت میں آنے کا اندیشہ نہ رہے گا۔ اُس وقت تبدیلی کرا لی جائے۔ واللّٰہ اعلم! (مولانا عبدالمالک)