۲۳ سے ۲۵؍اکتوبر ۲۰۱۴ء تک سوڈان کے دارالحکومت میں حکمران جماعت ’قومی کانگریس‘ کا اجتماعِ عام منعقد ہوا۔ یہ پہلا موقع تھا کہ ۱۵برس قبل اس سے الگ ہوکر اپنی نئی جماعت بنالینے والے اس کے بانی سربراہ جناب ڈاکٹر حسن الترابی بھی نہ صرف اجتماع میں شریک ہوئے بلکہ انھوں نے اس سے خطاب بھی کیا۔ انھوں نے اپنی گفتگو میں جب کہا کہ نہ تو یہ پارٹی، اس کا نظام، اس کے اہداف و مقاصد میرے لیے نئے ہیں اور نہ آپ میں سے اکثر شرکا ہی ، تو پورے اجتماع میں آنسوئوں اور نعروں کا ملاپ دکھائی دیا۔ ۱۵برس کی دُوری اور اختلافات کے بعد اکثر شرکا کے لیے یہ پہلا موقع تھا کہ وہ ۸۲سالہ ترابی صاحب کو براہِ راست دیکھ اور سن پارہے تھے۔ ترابی صاحب نے بھی اس عرصے کا اکثر حصہ یا تو جیل میں گزارا یا پھر حکومت اور حکومتی جماعت کی شدید مخالفت میں۔
حالیہ اجتماعِ عام کی سب سے اہم اور خوش کن حقیقت یہی تھی کہ نہ صرف ترابی صاحب بلکہ اِکا دکا کے علاوہ باقی تمام پارٹیوں کے مابین ایک قومی یک جہتی کی فضا قائم ہوچکی ہے۔ گذشتہ جنوری میں شروع ہونے والے اس قومی مذاکراتی عمل کا سہرا، صدر عمرالبشیر اور ان کے ساتھیوں کے سرجاتا ہے۔ اس دوران کُل جماعتی اور دو جماعتی مذاکرات کے کئی دور ہوچکے ہیں اور یہ سلسلہ ہنوز جاری ہے۔ اُمید کی جاسکتی ہے کہ مختلف اُمورپر اختلافات رکھنے کے باوجود اب تمام جماعتوں کے مابین تعاون اور مثبت و تعمیری اپوزیشن کا ایک نیا دور شروع ہوسکے گا۔ اس وقت صرف ایک مؤثر جماعت نے خود کو اس عمل سے خارج رکھا ہوا ہے اور وہ ہے سابق وزیراعظم صادق المہدی صاحب کی جماعت ’حزب الامۃ‘۔ خود صادق المہدی صاحب ناراض ہوکر قاہرہ جابیٹھے ہیں۔ جنرل سیسی کے زیرسایہ جابیٹھنا بذاتِ خود ایک پوری کہانی بیان کرتا ہے۔
حکمران جماعت ’المؤتمر الوطنی‘یا قومی کانگریس،تحریکِ اسلامی سوڈان کا سیاسی بازو ہے۔ تحریک اسلامی کی دعوتی و تربیتی سرگرمیاں الحرکۃ الاسلامیۃ کے نام سے ہی جاری ہیں۔ المؤتمرالوطنی میں شرکت و شمولیت نسبتاً آسان عمل ہے۔ تقریباً پونے چار کروڑ کی آبادی میں اس کے ارکان کی تعداد اس وقت تقریباً پونے سات لاکھ ہے۔ پارٹی دستور کے مطابق ہرپانچ سال بعد اس کا تین روزہ اجتماع عام ہوتا ہے۔ اسی میں خفیہ راے دہی کے ذریعے پارٹی کے صدر اور ۴۰۰ رکنی مجلس شوریٰ کا انتخاب عمل میں آتا ہے۔ تین روزہ اجتماع عام بنیادی طور پر نمایندگان کا اجتماع ہوتا ہے۔ اس سے پہلے تقریباً چھے ماہ کے دوران بنیادی یونٹس کے ۱۸ہزار اجتماع عام ہوتے ہیں۔ ان میں نمایندگان منتخب ہونے والے ارکان۱۲ہزار مقامی اجتماعات منعقد کرتے ہیں، پھر ۱۰۷ ضلعی اجتماع عام ہوتے ہیں، اور بعدازاں ۱۸ صوبائی اجتماع مرکزی اجتماع عام کے لیے نمایندگان کا انتخاب کرتے ہیں۔ اس کے علاوہ سات اجتماع شعبہ جاتی بھی ہوتے ہیں جن میں خواتین، نوجوان، مزدور، کسان اپنے نمایندگان منتخب کرتے ہیں۔ اس طرح بالآخر ۶ہزار نمایندگان کا یہ اجتماع عام حتمی صورت اختیار کرجاتا ہے۔
حالیہ اجتماع عام کا ایک اہم ترین فیصلہ نئی مجلس شوریٰ ، پارٹی سربراہ کے انتخاب کے علاوہ اپریل ۲۰۱۵ء میں ہونے والے ملک کے صدارتی انتخاب کے لیے اپنا نمایندہ منتخب کرنا بھی تھا۔ یہ کوئی سنی سنائی یا ذرائع ابلاغ کی بات نہیں بلکہ بعض معاملات میں صدر عمرالبشیر سے اختلاف رکھنے والے اہم پارٹی رہنمائوں نے بھی بتایا کہ صدر عمرالبشیر کسی صورت آیندہ صدارتی اُمیدوار نہیں بننا چاہتے تھے۔ انھوں نے جماعت کی مجلس شوریٰ کے سامنے حتمی معذرت کردی تھی۔ شوریٰ نے بھی ان کی بات پر پوری سنجیدگی سے غور کیا، لیکن پھر اس نتیجے تک پہنچی کہ موجودہ علاقائی، بین الاقوامی اور ملکی حالات میں ان کی معذرت قبول نہیں کی جاسکتی۔ خفیہ راے دہی ہوئی اور مجلس شوریٰ نے عمرحسن البشیرہی کو آیندہ صدارتی اُمیدوار قرار دیا۔ شوریٰ کا فیصلہ آنے کے بعد بعض مقامی ذرائع ابلاغ اور بالخصوص علاقائی ذرائع ابلاغ نے اس فیصلے پر کڑی تنقید شروع کر دی۔ پارٹی کے اندر سنگین اختلافات کی خبریں چلانا اور یہ کہنا شروع کر دیا کہ اجتماع عام کے دوران جماعت ۱۵برس بعد ایک بار پھر تقسیم ہوجائے گی۔ خود صدر عمرالبشیر نے تین روزہ اجتماع کے اختتامی خطاب میں ان خبروں اور پروپیگنڈے کا ذکر کیا۔ ان کا کہنا تھا کہ ’’بعض دوستوں نے ہمیں یہاں تک مشورہ دیا کہ آپ اجتماعِ عام منسوخ کردیں۔ اجتماع ہوا تو اختلافات پھوٹ پڑیں گے اور شوریٰ کے فیصلوں سے بغاوت کردی جائے گی۔ لیکن اللہ کا شکر ہے کہ ہمارے اختلافات کی آرزو رکھنے والوں کی خواہش کے برعکس ہم پہلے سے بھی زیادہ یکسو ہوکر جارہے ہیں‘‘۔ ان کے خطاب سے قبل کانفرنس سیکرٹریٹ کی جانب سے نتائج کا اعلان کیا گیا کہ خفیہ راے دہی کے ذریعے ۹۳ فی صد نمایندگان نے صدرعمرالبشیر ہی کو پارٹی کا آیندہ سربراہ اور صدارتی اُمیدوار منتخب کیا ہے۔
صدربشیر کو اپنے دورِ اقتدار میں سنگین خطرات اور چیلنجوں کاسامنا رہا ہے۔ خود پارٹی کے بانی صدر اور اصل فکری رہنما ڈاکٹر حسن الترابی سے اختلافات اب بھی سنگین تر ہیں۔ جنوبی سوڈان میں ۲۲سال تک جاری رہنے والی خانہ جنگی تقریباً تمام ملکی وسائل ہڑپ کرتی رہی۔ کئی بار دیگر پڑوسی ممالک کی طرف سے فوج کشی کروائی گئی۔ عرب اور مسلم ممالک نے قطع تعلق بلکہ محاصرہ کیے رکھا۔ جنوبی شورش سے نجات کے لیے دوبارہ ریفرنڈم کرواتے ہوئے غالب اکثریت کی راے کے مطابق جنوب کو الگ کردیا، تو کچھ ہی عرصے بعد مغربی علاقے دارفور میں بغاوت اور پڑوسی ممالک سے براہِ راست مداخلت کروا دی گئی۔ چین کی مدد سے طویل جدوجہد کے بعد ملک میں پٹرول دریافت کیا گیا تھا، لیکن جنوبی علیحدگی کے بعد پٹرول کے سب کنویں انھیں دینا پڑے۔ اقتصادی حالت جو قدرے سنبھلنے لگی تھی، ایک بار پھر ڈھلوان پر آگئی۔ بین الاقوامی عدالتوں میں سوڈان اور اس کے صدر پر جنگی جرائم کے مقدمات قائم کردیے گئے۔ عمرالبشیر کو مجرم قرار دے دیا گیا۔ دھمکی دی گئی کہ کسی بھی بین الاقوامی سفر کے دوران انھیں گرفتار کرلیا جائے گا۔ امریکا اور اس کے حواریوں نے کڑی اقتصادی پابندیاں عائد کردیں، جو آج بھی جاری ہیں۔ کئی عالمی بنک سوڈان کے ساتھ کوئی مالی معاملات نہیں کرسکتے۔ متعدد بار فوج کے اندر سے بغاوت کروانے کی کوشش کی گئی۔ دہشت گردوں کو پناہ دینے اور الشفا نامی ادویات بنانے کے کارخانے میں کیمیائی ہتھیار بنانے کا الزام لگا کر خود امریکا حملہ آور ہوگیا۔ لیکن ایسے خطرات اور الزامات کے باوجود المؤتمر الوطنی اور عمرالبشیر کا تعمیری سفر جاری رہا۔
اقتدار و اختیار کے ایوانوں میں آنے اور ملک کے سیاہ و سفید کا مالک ہونے کے باوجود بھی اگر کوئی شخص کرپشن کی ایک پائی کے قریب بھی نہ پھٹکے، چہار جانب اشارۂ ابرو کے منتظر رہنے والے جان نثار ساتھیوں کے جلو میں رہنے کے باوجود، دل و دماغ میں تکبرکا خناس اپنی جگہ نہ بناسکے، تو ایسا شخص یقینا آج کا ولی اللہ کہلانے کا حق دار ہے۔ عمرالبشیر ہی نہیں، ان کی جماعت کی غالب اکثریت نے خود کو ان دونوں آزمایشوں میں سرخرو ثابت کیا ہے۔ ویسے تو سوڈانی معاشرہ دیگر تمام عرب ملکوں کی نسبت انتہائی ملنسار، متواضع، بے تکلف اور باہم مربوط معاشرہ ہے، لیکن بالخصوص حکومتی ذمہ داران ہرشخص کی دسترس میں اور تقریباً ہرپروٹوکول سے بے نیاز ہیں۔ اب بھی صدرعمرالبشیر ہی نہیں، ان کے کئی قریبی اور اہم ذمہ داران نے بذاتِ خود وزارتیں اور مناصب چھوڑنے کا اعلان کیا ہے۔ ڈاکٹر حسن الترابی کے بعد جماعت کے فکری رہنما سمجھے جانے والے علی عثمان طٰہٰ طویل عرصے سے ملک کے نائب صدر اول تھے، خود انھوں نے اصرار کرکے اپنا عہدہ چھوڑ دیا ہے۔ تفصیلی ملاقات میں اس پارٹی اجلاس کا حال سنا رہے تھے جس میں انھوں نے عہدہ چھوڑنے کا اعلان کیا۔ کہنے لگے کہ صدرالبشیر نے جب مجلس کو میرے فیصلے سے آگاہ کیا، تو دیر تک میرے بارے میں بہت جذباتی انداز میں کلمات خیروتحسین کہتے رہے۔ ان کی بات مکمل ہوئی تو ایک خاتون رکن کھڑی ہوکر کہنے لگیں: برادرم صدرصاحب! (صدر البشیر کو اسی طرح مخاطب کیا جاتاہے: الاخ الرئیس) آپ جو کچھ کہہ رہے ہیں اگر اسی طرح ہے، تو پھر بھلا الشیخ علی کو جانے ہی کیوں دیا؟ پوری مجلس زعفران زار ہوگئی اور صدرصاحب نے کہا: یہ بات خود الشیخ علی ہی سے پوچھیں۔
مناصب کو امانت و امتحان سمجھے جانے کی یہ ایمانی روح، ربِ ذوالجلال کی طرف سے تحریکِ اسلامی کے کارکنان کے لیے ایک عظیم انعام ہے۔ اجتماعِ عام کے اختتامی اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے خود صدرالبشیر کا جملہ بھی ملاحظہ کیجیے: اَلْمَنَاصِبُ فِی أَعْیُنِنَا أَمَانَۃٌ وَ اِنَّھَا یَوْمَ الْقِیَامَۃِ خِزْیٌ وَنَدَامَۃ ’’ہماری نگاہ میں عہدے اور مناصب ایک امانت ہیں اور یہ عہدے قیامت کے روز رُسوائی اور ندامت کا باعث بن سکتے ہیں‘‘۔ یہ جملہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادِمبارک ہی سے ماخوذ ہے جس کے آخر میں آپؐ نے ارشاد فرمایا تھا: اِلَّا مَنْ اَخَذَھَا بِحَقِّھَا وَأَدَّی الَّذِی عَلَیْہِ فِیْھَا (یہ عہدے روزِ قیامت رُسوائی اور ندامت ہیں) الا یہ کہ ان پر فائز ذمہ داران ان مناصب کا حق اور ان کے مکمل تقاضے پورے کریں۔
اندازہ یہی ہے کہ اپریل ۲۰۱۵ء میں ہونے والے انتخابات میں عمرحسن البشیر دوبارہ صدر منتخب ہوجائیں گے۔خود ان کی طرف سے کی جانے والی دستوری ترمیم کے بعد اب یہ ان کی آخری ٹرم ہوگی۔ پارٹی اور ملکی دستور میں انھوں نے ترمیم کروا دی ہے کہ کوئی بھی صدر دو بار سے زیادہ منتخب نہیں ہوسکے گا۔ لیکن اصل سوال سوڈان کو درپیش خطرات و مسائل کا ہے۔ یہ اللہ کا شکر ہے کہ ہر دور میں اُس کی نصرت اپنے اِن مخلص بندوں کے شاملِ حال رہی ہے ۔ ایک اہم ذمہ دار بتا رہے تھے کہ جنوبی سوڈان کا پٹرول چلے جانے کے بعد اللہ نے ملک میں برکتوں کے کئی نئے دروازے کھول دیے ہیں۔ زمین سونا اُگلنے لگی ہے، فصلیں کئی گنا زیادہ پیداوار دینے لگی ہیں۔ اصل سونا بھی بڑی مقدار میں دریافت ہوا ہے۔ عام لوگ تھوڑی سی کھدائی کے بعدسونا نکال رہے ہیں۔ صرف گذشتہ برس میں ریاست نے اپنے عوام سے ۱۲؍ارب ڈالر کا سونا خریدا ہے۔ ان کے بقول: ہمیں رزق کے بارے میں کبھی بھی پریشانی نہیں ہوئی۔ ہمیں یقین ہے کہ ہمیں صرف اخلاص کے ساتھ درست راستے پر چلنا اور کوشش کرنا ہے، رزق کا مالک تو رب العالمین ہے جس نے اپنی ایک صفت ’’الرزاق‘‘ بتائی ہے اور اپنی ساری مخلوق کے رزق کا ذمہ لیا ہے۔
اجتماعِ عام کے دوسرے روز شام کے سیشن میں بیرونِ ملک سے آئے مہمانوں کا خطاب تھا۔ اس میں ۴۵ ممالک سے درجنوں ذمہ داران شریک تھے۔ چین، شمالی کوریا، مراکش اور موریطانیہ کے اعلیٰ سطحی سرکاری وفد بھی شریک تھے۔ کئی اسلامی تحریکات کے ذمہ داران بھی شریک تھے۔ اکثر نے اپنے ملکی حالات کے علاوہ تحریکی صورت حال سے بھی آگاہ کیا۔ تیونس میں انقلاب کے بعد ۲۶؍اکتوبرکو ہونے والے پہلے عام انتخابات سب کی توجہ اور دُعائیں حاصل کر رہے تھے۔ افریقی ممالک سے آنے والے مہمان زیادہ تھے۔ سوڈانی ذمہ داران کے مطابق اپنے اکثر عرب احباب کی بے رُخی کے باعث ہم نے بھی اپنی توجہ افریقی ممالک پر مرکوز کردی ہے۔ ساتھ ساتھ عرب ممالک سے بھی ریاستی تعلقات بحال و مستحکم کرنے کی سعی جاری ہے۔ اسی ماہ صدربشیرنے سعودی عرب اور مصر کا دورہ کیا ہے اور اُمید ہے کہ بہتر نتائج حاصل ہوں گے۔
مجھے بھی اس سیشن میں گفتگو کا موقع دیا گیا تو کشمیر، پاکستان، جماعت، تحریکی فکر اور دیگر اُمور کے علاوہ بنگلہ دیش کا تفصیلی ذکر کیا۔ پروفیسر غلام اعظم اور دیگر قائدین کی گرفتاری کا بتایا۔ الحمدللہ شرکا نے جواب میں انتہائی گرم جوشی اور محبت کا اظہار کیا۔ اس سیشن سے واپس آتے ہی بنگلہ دیش سے محترم پروفیسر صاحب کی حالت نازک ہونے اور پھر دنیا کے دکھوں سے ان کے آزاد ہوجانے کی اطلاع ملی۔ کمرے میں اکیلے بیٹھے بے اختیار آنسو اور دعائیں اُمڈ آئیں۔ اپنے سوڈانی میزبانوں کے علاوہ دنیابھر کی تحریکوں سے روابط کا آغاز کردیا۔ بدقسمتی سے اگلے روز جمعہ تھا اور اکثر عرب ممالک میں سفارت خانے بند تھے وگرنہ ہماری بھرپور کوشش اور خواہش تھی کہ نمازِجنازہ میں تحریکاتِ اسلامی کی نمایندگی ہوسکے۔
تقریباً ہر ملک میں مرحوم کے لیے نمازِ جمعہ کے بعد غائبانہ نمازِ جنازہ کا اعلان کیا گیا۔ خرطوم کے اجتماعِ عام میں موریطانیہ سے آئے ہوئے عالمِ ربانی علامہ محمدالحسن الدد نے نمازِ جنازہ پڑھائی، جب کہ تحریکِ اسلامی سوڈان کے سربراہ الزبیر الحسن نے نماز سے قبل پروفیسر صاحب کی خدمات کو خراجِ تحسین پیش کیا۔ مجھے خرطوم کی مرکزی جامع مسجد جانے کا حکم ملا۔ خطبۂ جمعہ میں معروف اسکالر ڈاکٹر عصام البشیر نے بھی مرحوم کو خراجِ تحسین پیش کیا اور پھر غائبانہ نمازِ جنازہ کے بعد مجھے بنگلہ دیش کے بارے میں اظہارِ خیال کا کہا گیا۔ مسجد میں کئی مسلم سفرا سمیت عوام کی بڑی تعداد تھی۔ نمازِ جنازہ کے بعد تعزیت کا سلسلہ جاری رہا۔باقی دو روز کا قیامِ سوڈان بھی عملاً پروفیسرصاحب کے ذکرخیر ، اس سلسلے میں بیرونی احباب سے روابط اور تعزیتی کلمات ہی کے لیے وقف ہوگیا۔ سب اس پر متفق تھے کہ ڈھاکہ میں پروفیسر غلام اعظم صاحب کی نمازِ جنازہ اور دنیابھر میں غائبانہ نماز ان کی مظلومیت و براء ت اور ظالم حسینہ واجد حکومت کے جرائم کے خلاف واضح عوامی ریفرنڈم ہے۔ کئی احباب نے امام ابن تیمیہؒ کا یہ جملہ یاد دلایا کہ ’’ہم میں سے کون غلطی پر ہے اور کون حق پر؟ اس بات کا فیصلہ ہمارے جنازے کریں گے‘‘۔ سوڈانی عوام نے بھی اس موقعے پر اپنا فیصلہ شہیدِ زندان پروفیسر غلام اعظم صاحب کے حق میں دیا ہے۔