قانون کی اساس اگر دین اور شریعت پر رکھی جائے تو اس سے قوانین کے اندر ایک اور خوبی اور خصوصیت ایسی پیدا ہوجاتی ہے جو عام لادینی وضعی قوانین کے اندر کبھی بھی پیدا نہیں ہوسکتی۔ یہ خصوصیت معاملات کی حلّت و حُرمت اور جواز و عدمِ جواز کا وہ دینی تصور ہے جو ان سے کبھی جدا نہیں ہوسکتا۔مثال کے طور پر ایک قاضی اگر ظاہری بیانات و شہادات کو دیکھ کر کسی فریق کو اُس کے جائز حق سے زائد یا اُس سے علاوہ کچھ دلا دیتا ہے تو فی الحقیقت اُس فریق کے لیے یہ ناجائز فائدہ ہرگز جائز اور حلال نہیں ہوجاتا۔ چنانچہ نبی کریمؐ نے بھی ایک مرتبہ ایسا ارشاد فرمایا تھا کہ اگر تم میں دو فریق میرے سامنے کوئی قضیہ پیش کریں تو ہوسکتا ہے کہ تم میں سے ایک آدمی زیادہ چرب زبان ہو اور مَیں اس کی باتوں کی بناپر اُسے غیر کا حق دلا دوں لیکن یہ چیز اُس شخص کے لیے عذاب کی موجب ہوگی۔ اس میں شک نہیں کہ اسلامی قانون پر مبنی عدالتیں بھی فیصلہ ظاہر حالات ہی پر کریں گی، لیکن جن لوگوں پر قانون کا اطلاق اور نفاذ ہوتا ہے، ان کے حق میں قوانین و احکام کا باطنی ، اخلاقی اور دینی پہلو کالعدم نہیں ہوجاتا۔ اس لیے اگر وہ سچے مسلمان ہیں تو قانون کی روح کے بھی خلاف جانے اور اُس سے ناروا استفادہ کرنے سے وہ ہمیشہ سختی سے پرہیز کریں گے۔ عام دنیوی قوانین کے ظاہر کی آڑ میں ان قوانین کے اصل منشا کو ناکام بنانے کی کوششوں سے جو تکلیف دہ صورتِ حال عام معاشروں میں پیدا ہوجاتی ہے۔ وہ صورتِ حال ایک صحیح اسلامی معاشرے میں اسلامی قانون کے نفاذ کے وقت کبھی رُونما نہیں ہوسکتی.....
اس طرح سے قانون کے سارے ڈھانچے پر ایک دینی اور روحانی رنگ غالب آجاتا ہے اور اُسے ایک ایسا احترام ، وقار اور تقدس حاصل ہوجاتا ہے جو انسانی قوانین کے کسی مجموعے کو نصیب ہونا ممکن ہے۔ اسلامی قانون کی حکمرانی فقط جسم کے اعضا وجوارح پر نہیں ہوتی، بلکہ اُس کی اصل حکومت دل اور دماغ پر ہوتی ہے۔ اس صورت میں اس چیز کی ضرورت بہت کم رہ جاتی ہے کہ قانون کی ظاہری طاقت انسان کو ہروقت اطاعت و تسلیم پر مجبور کرتی رہے۔ قانون کی خلاف ورزی کا کوئی موقع اگر پیدا ہوتا بھی ہے تو اُسے غنیمت سمجھ کر استعمال نہیں کیا جاتا، بلکہ محض خدا سے ڈر کر نفس کو اتباعِ ہویٰ سے روک لیا جاتا ہے۔(کیا قانونِ ملکی کی بنا دین پر رکھنا مضر ہے؟ شیخ مصطفی احمد الزرقا الشامی، ترجمان القرآن، جلد۴۳، عدد۲، صفر۱۳۷۴ھ ، نومبر ۱۹۵۴ء، ص۴۴-۴۵)