قرآن مجید میں اہلِ ایمان کے لیے ایک اعزاز کا ذکر کیا گیا ہے کہ اُن کی اُس اولاد کو بھی ، جو اپنے عمل کے لحاظ سے اگرچہ اُس مرتبے کی مستحق نہ ہو گی جو اُن کے آبا کو اُن کے بہتر ایمان و عمل کی بنا پر حاصل ہو گا، پھر بھی یہ اولاد اپنے آبا کے ساتھ ملا دی جائے گی(الطور ۵۲:۱۷-۲۸)۔ انھی آیات میں اس اعزاز کے پانے والوں کی ایک صفت جو اللہ تعالیٰ نے بیان کی ہے وہ بہت ہی قابلِ توجہ ہے: ’’یہ(جنت میں پہنچ جانے والے) لوگ آپس میں ایک دوسرے سے (دنیا میں گزرے ہوئے)حالات پوچھیں گے۔ اور کہیں گے کہ ہم پہلے(دنیا میں) اپنے گھر والوں میں(اللہ سے) ڈرتے ہوئے زندگی بسر کرتے تھے‘‘۔(الطور۵۲:۲۵-۲۶)
سورئہ حا قہ میں ارشاد فرمایا : ’’اُس وقت جس کا نامۂ اعمال اُس کے سیدھے ہاتھ میں دیا جائے گا۔ وہ کہے گا: لودیکھو! پڑھو میرا اعمال نامہ، میں سمجھتا تھا کہ مجھے ضرور اپنا حساب ملنے والا ہے‘‘ (۶۹: ۱۹-۲۰)۔ اس کے برعکس جس کو اُس کا نامۂ اعمال بائیں ہاتھ یا پیٹھ پیچھے دیا جائے گا، اُس کے بارے میں فرمایا: ’’وہ اپنے گھر والوں میں مگن تھا۔ اُس نے سمجھا تھا کہ اُسے کبھی (اپنے رب کی طرف) پلٹنا ہی نہیں ہے۔پلٹنا کیسے نہ تھا۔ اُس کا رب اُس کے (کرتوت) دیکھ رہا تھا‘‘۔(انشقاق ۸۴: ۱۳-۱۵)
ان آیات میں بڑی وضاحت سے دو کردا رسامنے آتے ہیں۔ پہلے وہ لوگ جنھیں اُن کا نامۂ اعمال دائیں ہاتھ میں دیا جائے گا اور وہ جنت میں داخل کیے جائیں گے۔ اُن کے بارے میں کہا گیا ہے کہ وہ اپنے گھر والوں میں مگن ہو کر اللہ سے غافل نہیں ہو جاتے تھے بلکہ اس ماحول میں بھی اللہ سے ڈرتے رہتے تھے اور انھیں یہ احساس رہتا تھا کہ انھیں ایک دن اپنے اعمال کا حساب دینا ہے۔ دوسرے وہ لوگ جنھیں اُن کا نامۂِ اعمال بائیں ہاتھ میں دیا جائے گا اور وہ جہنم میں داخل کیے جائیں گے، اُن کے بارے میں فرمایا کہ وہ اپنے گھروالوں میں مگن ہوتے تھے تو اللہ تعالیٰ سے غافل ہو جاتے تھے۔ انھیں یہ احساس نہیں رہتا تھا کہ اُنھیں ایک دن اپنے رب کے پاس حاضر ہونا ہے اور اپنے اعمال کی جواب دہی کرنی ہے۔ اسی لیے اللہ تعالیٰ نے اہلِ ایمان کو خبردار کیا ہے اور فرمایا:
اے لوگو! جو ایمان لائے ہو، تمھارے مال اور تمھاری اولادیں تم کو اللہ کی یاد سے غافل نہ کر دیں۔ جو لوگ ایسا کریں وہی خسارے میں رہنے والے ہیں۔(المنٰفقون ۶۳:۹)
اے لوگو جو ایمان لائے ہو، تمھاری بیویوں اور تمھاری اولاد میں سے بعض تمھارے دشمن ہیں، ان سے ہوشیار رہو۔ اور اگر تم عفو و درگزر سے کام لو اور معاف کر دو تو اللہ غفور و رحیم ہے۔ (التغابن ۶۴: ۱۴)
احادیث میں اہلِ ایمان کے لیے ایک اور اعزاز کا ذکر ہے۔ مسلم میں حضرت ابوسعید خدریؓ سے مروی طویل روایت ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’جہنم کے اوپر پُل (صراط) رکھا جائے گا اور شفاعت شروع ہو گی۔اور لوگ کہیں گے: اے اللہ! ہمیں بچا، اے اللہ!ہمیں بچا۔ لوگوں نے کہا: اے اللہ کے رسولؐ! یہ پُل کیسا ہو گا؟ آپؐ نے فرمایا: یہ ایک پھسلنے کا مقام ہوگا وہاں آنکڑے ہوں گے اور کانٹے جیسے ملکِ نجد میں ایک کانٹا ہوتا ہے جس کو سعدان (ٹیڑھے منہ والا)کہتے ہیں۔اہلِ ایمان اُس پر سے پار ہوں گے۔بعض پلک جھپکنے میں، بعض بجلی کی طرح، بعض پرندے کی طرح، بعض تیز گھوڑوں کی طرح اور بعض اُونٹ کی طرح۔کچھ لوگ پُل (صراط)سے سلامتی کے ساتھ گزر جائیں گے۔ کچھ لوگوں کو خراشیں آئیں گی لیکن وہ بھی پار ہو جائیں گے۔ (ایک دوسری حدیث میں ہے کہ ایک آدمی پُل صراط کو گھسٹ کر عبور کرے گا)اور کچھ لوگ جہنم میں گرجائیں گے‘‘۔
تصور کریں اُن کی خوشی کا جو پُل صراط سے سلامتی کے ساتھ گزر جائیں گے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں بھی پُل صراط سے صحیح سلامت گزر جانے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین!
پھر آپؐ نے ارشاد فرمایا: ’’اہلِ ایمان جب اپنے آپ کو جہنم کی آگ سے محفوظ پائیں گے توقسم ہے اُس ذات کی جس کے قبضے میں میری جان ہے، تم میں سے کوئی بھی اپنے حق کے لیے اتنا جھگڑنے والا نہیں ہے جتنا وہ اپنے اُن بھائیوں کے لیے جو جہنم میں گر چکے ہوں گے،اللہ سے جھگڑنے والے ہوں گے۔وہ کہیں گے: اے ہمارے رب! یہ ہمارے ساتھ روزے رکھتے تھے، ہمارے ساتھ نماز پڑھتے تھے، اور ہمارے ساتھ حج کرتے تھے۔ (اللہ تعالیٰ)کہے گا اچھا جاؤ اور ہراُس شخص کو نارِجہنم سے باہر نکال کے لے آؤ جس کو تم جانتے ہو‘‘۔
کیا آپ اُن کی خوشی کا اندازہ کر سکتے ہیں ، جنھیں پتا چلے گا کہ وہ جہنم میں گر جانے والے اپنے جاننے والوں کو نکال سکتے ہیں۔ دُعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہمیں بھی ان جھگڑنے والوں میں شامل کردے اور اپنے اُن جاننے والوں کو جو جہنم میں گر چکے ہوں نکالنے کی توفیق دے۔آمین !
آپؐ نے مزید ارشاد فرمایا: ’’اللہ آگ کو گنہگاروں کے چہروں کو جلانے سے روک دے گا (تاکہ اہل ایمان انھیں پہچان سکیں)اور مومنین بہت سے آدمیوں کو جہنم سے نکال لیں گے‘‘۔(مسلم)
یہ بات قابلِ غور ہے کہ اہلِ ایمان اتنے نازک موقعے پر بھی اپنے جاننے والوں کو یاد رکھیں گے اور اُن کے لیے اللہ سے دُعا کریں گے۔ دوسری طرف اللہ تعالیٰ بھی اپنے بندوں کی دُعا قبول کرتے ہوئے اُنھیں یہ اعزاز بخشے گا کہ وہ جسے جانتے ہوں اُسے جہنم سے نکال لیں۔
تصویر کا ایک رُخ تو یہ ہے کہ اہلِ خانہ بھی اہلِ ایمان کے ساتھ جنت میں داخل ہوجائیں گے (دیکھیے: مضمون ’اہلِ خانہ کے ساتھ جنت میں‘ بحوالہ عالمی ترجمان القرآن، ستمبر ۲۰۱۴ء)۔ اللہ تعالیٰ نے کلامِ مجید میں اس منظر کے دوسرے رُخ کا بھی ذکر کیا ہے:
’’قیامت کے دن نہ تمھاری رشتہ داریاں کسی کام آئیں گی نہ تمھاری اولاد۔ اُس روز اللہ تمھارے درمیان جدائی ڈال دے گا، اور و ہی تمھارے اعمال کا دیکھنے والا ہے‘‘۔(الممتحنہ ۶۰:۳)
کوئی بوجھ اٹھانے والا کسی دوسرے کا بوجھ نہ اٹھائے گا۔ اور اگر کوئی لدا ہوا نفس اپنا بوجھ اٹھانے کے لیے پکارے گا تو اس کے بار کا ایک ادنیٰ حصہ بھی بٹانے کے لیے کوئی نہ آئے گا، چاہے وہ قریب ترین رشتہ دار ہی کیوں نہ ہو۔(فاطر۳۵:۱۸)
ان آیات میں تو صرف اتنا ذکر ہے کہ وہ ایک دوسرے کے کام نہ آسکیں گے۔ ایک اور مقام پر اس سے بھی سخت کیفیت کا ذکر ہے: ’’آخرکار جب وہ کان بہرے کر دینے والی آواز بلند ہوگی۔ اُس روز آدمی اپنے بھائی اور اپنی ماں اور اپنے باپ اور اپنی بیوی اور اپنی اولاد سے بھاگے گا۔ ان میں سے ہر شخص پر اُس دن ایسا وقت آ پڑے گا کہ اُسے اپنے سوا کسی کا ہوش نہ ہوگا‘‘۔(عبس۸۰:۲۳-۲۷)
پھر اس سے بھی بڑھ کر کہ نہ صرف ایک دوسرے سے دُور بھاگیں گے بلکہ اپنی نجات کے بدلے ان سب قریبی رشتہ داروں کو فدیہ میں دینے کو تیار ہوں گے۔ ارشادِ بار ی تعالیٰ ہے: ’’جس روز آسمان پگھلی ہوئی چاندی کی طرح ہو جائے گا۔ اور پہاڑ رنگ برنگ کے دُھنکے ہوئے اُون جیسے ہو جائیں گے۔ اور کوئی جگری دوست اپنے جگری دوست کو نہ پوچھے گا۔حالانکہ وہ ایک دوسرے کو دکھائے جائیں گے۔ مجرم چاہے گا کہ اس دن کے عذاب سے بچنے کے لیے اپنی اولاد کو، اپنی بیوی کو، اپنے بھائی کو،اپنے قریب ترین خاندان کو جو اسے پناہ دینے والا تھااور روے زمین کے سب لوگوں کو فدیہ میں دے دے اور یہ تدبیر اُسے (عذاب سے) نجات دلا دے‘‘۔ (المعارج ۷۰: ۸-۱۴)
اسی تناظر میں ایک اور منظر ملاحظہ فرمائیں: ’’اُس روز مُنافق مردوں اور مُنافق عورتوں کا حال یہ ہوگا کہ وہ مومنوں سے کہیں گے ذرا ہماری طرف دیکھو تاکہ ہم بھی تمھارے نور سے کچھ فائدہ اٹھائیں۔ مگر اُن سے کہا جائے گا پیچھے پلٹ جاؤ اور اپنا نور کہیں اور تلاش کرو۔ پھر اُن کے درمیان ایک دیوار حائل کر دی جائے گی جس میں ایک دروازہ ہوگا۔ اُس دروازے کے اندر رحمت ہی رحمت ہوگی اور باہر عذاب ہی عذاب۔ وہ مومنوں سے پکار پکار کر کہیں گے کیا ہم (دنیا میں) تمھارے ساتھ نہ(رہتے) تھے؟ مومن جواب دیں گے ہاں، مگر تم نے خود اپنے آپ کو فتنے میں ڈالا، موقع پرستی کی، شک میں پڑے رہے، اور جھوٹی توقعات تمھیں فریب دیتی رہیں، یہاں تک کہ اللہ کا فیصلہ آگیا، اور آخر وقت تک وہ بڑا دھوکے باز(شیطان)تمھیں اللہ کے معاملے میں دھوکا دیتا رہا۔ لہٰذا آج نہ تم سے کوئی فدیہ قبول کیا جائے گا اور نہ اُن لوگوں سے جنھوں نے کھلا کھلا کفر کیا تھا۔ تمھارا ٹھکانا جہنم ہے، وہی تمھاری خبر گیری کرنے والی ہے اور یہ بدترین انجام ہے‘‘۔(الحدید ۵۷: ۱۳-۱۵)
اسی لیے اللہ تعالیٰ نے سورئہ تحریم میں ارشاد فرمایا: ’’اے لوگو جو ایمان لائے ہو! اپنے آپ کو اور اپنے اہل و عیال کو اُس آگ سے بچاؤجس کا ایندھن انسان اور پتھر ہوں گے۔ جس پر نہایت تُند خو اور سخت گیر فرشتے مقرر ہوں گے جو کبھی اللہ کے حکم کی نافرمانی نہیں کرتے اور جو حکم بھی انھیں دیا جاتا ہے اسے بجا لاتے ہیں‘‘۔(التحریم۶۶:۶)
پھر جن لوگوں نے ایمان لانے کے بعد بھی اپنے آپ کو آگ سے بچانے کا سامان نہیں کیا ہو گا اُن سے کہا جائے گا: ’’اے کافرو! آج معذرتیں پیش نہ کرو، تمھیں تو ویسا ہی بدلہ دیا جا رہا ہے جیسے تم عمل کر رہے تھے‘‘۔(التحریم۶۶:۷)
اس کے بعد ان اہلِ ایمان کو جو ایمان کے تقاضوں کو پورا نہیں کر رہے اور غفلت میں پڑے ہوئے ہیں، کہا جارہا ہے:’’ اے لوگو جو ایمان لائے ہو! اللہ سے توبہ کرو، خالص توبہ۔ بعید نہیں کہ اللہ تمھاری بُرائیاں تم سے دُور کر دے اور تمھیں ایسی جنتوں میں داخل فرما دے جن کے نیچے نہریں بہہ رہی ہوں گی۔ یہ وہ دن ہوگا جب اللہ اپنے نبیؐ کو اور اُن لوگوں جو اُس کے ساتھ ایمان لائے ہیں رُسوا نہ کرے گا۔ اُن کا نور اُن کے آگے آگے اور ان کے دائیں جانب دوڑ رہا ہوگا اور وہ کہہ رہے ہوں گے کہ: ’’اے ہمارے رب! ہمارا نور ہمارے لیے مکمل کردے اور ہم سے درگزر فرما، تو ہر چیز پر قدرت رکھتا ہے۔ اے نبیؐ! کفار اور منافقین سے جہاد کرو اور ان کے ساتھ سختی سے پیش آؤ۔ ان کا ٹھکانا جہنم ہے اور وہ بہت بُرا ٹھکانا ہے‘‘۔ (التحریم۶۶:۶-۹)
اسی طرح سورئہ حدید میں منافق مردوں اور منافق عورتوں کو متنبہ کرنے کے بعد اہلِ ایمان کو جھنجھوڑا گیا ہے کہ اگر تم اب تک غفلت میں پڑے رہے ہو تو اب بھی وقت ہے کہ خوابِ غفلت سے جاگو اور ایمان کے تقاضوں کو پورا کرنے کے لیے کمر بستہ ہو جاؤ۔یہ بہت ہی قابلِ غور ، قابلِ توجہ اور فکر کرنے والی آیت ہے ۔ خطاب کفار اور منافقین سے نہیں اہلِ ایمان سے ہے:
کیا ایمان لانے والوں کے لیے ابھی وہ وقت نہیں آیا کہ اُن کے دل اللہ کے ذکر سے پگھلیں اور اُس کے نازل کردہ حق کے آگے جھکیں اور وہ اُن لوگوں کی طرح نہ ہو جائیں جنھیں پہلے کتاب دی گئی تھی، پھر ایک لمبی مدت اُن پر گزر گئی تو ان کے دل سخت ہو گئے اور آج ان میں سے اکثر فاسق بنے ہوئے ہیں؟ خوب جان لو کہ اللہ زمین کو اُس کی موت کے بعد زندگی بخشتا ہے، ہم نے نشانیاں تم کو صاف صاف دکھا دی ہیں، شاید کہ تم عقل سے کام لو۔ (الحدید ۵۷: ۱۶-۱۷)
اللہ تعالیٰ اہلِ ایمان کو ایمان کے تقاضوں کے مطابق زندگی گزارنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین!