بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰن الرَّحِیْمِ
اِِنَّآ اَرْسَلْنَآ اِِلَیْکُمْ رَسُوْلًا لا شَاہِدًا عَلَیْکُمْ کَمَآ اَرْسَلْنَآ اِِلٰی فِرْعَوْنَ رَسُوْلًا o فَعَصٰی فِرْعَوْنُ الرَّسُوْلَ فَاَخَذْنٰہُ اَخْذًا وَّبِیْلًاo (المزمل ۷۳:۱۵-۱۶) تم لوگوں کے پاس ہم نے اُسی طرح ایک رسول تم پر گواہ بناکر بھیجا ہے جس طرح ہم نے فرعون کی طرف ایک رسول بھیجا تھا۔ (پھردیکھ لو جب) فرعون نے اُس رسول کی بات نہ مانی تو ہم نے اس کو بڑی سختی کے ساتھ پکڑ لیا۔
یہ سورئہ مزمل کی آیات ہیں۔ سلسلۂ بیان کو ذہن میں تازہ کرلیں۔ سب سے پہلے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تربیت کے لیے ہدایات دی گئی ہیں کیونکہ رسولؐ اللہ سے فرمایا گیا ہے کہ آپؐ پر ایک بڑا بھاری قول (کلام) نازل کیا گیا ہے۔ اس لیے اس قول کے بار کو سنبھالنے کے لیے اور اس کی بھاری ذمہ داریوں کو ادا کرنے کے لیے جس تربیت کی ضرورت تھی پہلے وہ بیان کی گئی ہے۔ آپؐ کو یہ ہدایت کی گئی کہ آپؐ تہجد کی نماز کے لیے راتوں کو کھڑے رہا کریں۔ آدھی رات یا اس سے کچھ کم یا اس سے کچھ زیادہ، اور اس کے اندر قرآن کو ترتیل کے ساتھ پڑھیں، یعنی آہستہ آہستہ اور سمجھ کر۔ اس کی وجہ یہ بیان کی گئی کہ اِِنَّا سَنُلْقِیْ عَلَیْکَ قَوْلًا ثَقِیْلًا o (المزمل ۷۳:۵)، یعنی ہم نے آپؐ پر ایک بڑا بھاری قول نازل کیا ہے۔
کلامِ الٰہی ایک ایسی چیز ہے جس کے اُوپر یہ نازل ہو، اس کے اُوپر بھی نہایت بھاری ذمہ داری عائد ہوجاتی ہے اور جن لوگوں تک وہ پہنچے ان پر بھی بھاری ذمہ داری عائدہوجاتی ہے۔ یہ کوئی ایسی ہلکی پھلکی چیز نہیں ہے کہ جیسے آپ نے ایک ناول پڑھا اور رکھ دیا۔ یہ ایسی چیز ہے جس پر یہ نازل ہوئی اس کا چین [اطمینان] سے، پائوں پھیلا کر سونا مشکل ہوگیا۔ جس پر یہ نازل ہوئی اس نے یہ سمجھا کہ اب اس پر کھربوں انسانوں بلکہ بے شمار انسانوں کی جو قیامت تک آنے والے ہیں، ان کی ہدایت و ضلالت (گمراہی) کی ذمہ داری میرے اُوپر آن پڑی ہے۔ اگر اس ہدایت کو ان تک پہنچانے میں میری طرف سے ذرہ برابر بھی کوتاہی ہوگئی، تو کل قیامت کے روز یہ حجت پیش کی جاسکتی ہے کہ جن صاحب پر یہ ہدایت نازل ہوئی تھی انھوں نے ہم تک اسے پہنچایا ہی نہیں۔ اسی طرح سے جن لوگوں کے پاس یہ ہدایت پہنچے ان پر بھی یہ ذمہ داری عائد ہوجاتی ہے کہ خدا کا کلام تمھارے پاس آگیا تھا اور تمھیں بتا دیا گیا تھا کہ کس راستے میں انسان کی نجات ہے اور کس راستے میں انسان کی تباہی ہے، تم نے خود اس پر کہاں تک عمل کیا اور بندگانِ خدا کو کہاں تک اس سے آگاہ کیا؟ اسی لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’قرآن یا تو تمھارے حق میں حجت ہے یا تمھارے خلاف حجت ہے‘‘۔
یہ قرآن آکر یونہی پڑا نہیں رہ جاتا۔ یہ یا تو اس شخص کے حق میں حجت ہوگی جس کے پاس یہ آیا۔ وہ خدا کے سامنے یہ حجت پیش کرسکتا ہے کہ مجھے آپ نے جو ہدایات دی تھیں ان پر مَیں نے خود بھی عمل کیا ہے اور اسے دوسروں تک بھی پہنچا دیا ہے۔ یہ حجت اللہ تعالیٰ کے ہاں اس کی نجات کے لیے کافی ہوگی اگر یہ صحیح ہے اور اسے پیش کیا جاسکے۔ اگر ایک آدمی اس پوزیشن میں نہیں ہے کہ خدا کے سامنے کھڑے ہوکر یہ کہہ سکے کہ میں نے خود بھی اس ہدایت پر عمل کیا اور اسے دوسروں تک بھی پہنچایا، تو یہ اس کے خلاف حجت ہے کہ جب یہ ہدایت تمھارے پاس آئی تو تم نے اس کے ساتھ کیا کیا۔ اسی لیے یہ فرمایا کہ ایک بڑا بھاری قول ہم تمھارے اُوپر نازل کر رہے ہیں، اور اس کی تربیت کے لیے یہ ساری تیاری ہے۔
رات کو اُٹھ کر اللہ تعالیٰ کی عبادت کرنے کے بارے میں فرمایا کہ یہ آدمی کے قلب اور زبان کے درمیان موافقت پیدا کرتی ہے۔ یعنی جو کچھ آدمی زبان سے دعویٰ کر رہا ہے واقعی اس کے دل میں بھی یہی کچھ ہے۔جو آدمی رات کو عبادت کے لیے خاموشی سے اُٹھتا ہے اور اس کے متعلق کسی کو پتا بھی نہیں چلتا کہ یہ شخص رات کو اُٹھتا ہے اور خدا کی عبادت کر رہا ہے، یہ اس بات کا ثبوت ہے کہ اس کا اللہ تعالیٰ کے ساتھ مخلصانہ تعلق ہے۔ اس کے بغیر یہ کام ہوہی نہیں سکتا کہ اس کا خدا کے ساتھ مخلصانہ تعلق ہو اور اس دوران نمایش کا کوئی سوال ہی پیدا نہیں ہوسکتا۔ کیونکہ اس کے دل میں اخلاص ہوتا ہے اور اس عمل کی وجہ سے وہ برابر بڑھتا رہتا ہے اور پرورش پاتا رہتا ہے اور اس عمل کی وجہ سے وہ کبھی ٹھنڈا نہیں پڑنے پاتا۔ اسی وجہ سے آدمی کے دل و دماغ کے درمیان موافقت کے لیے اسے اخلاص کا بہترین نسخہ بتایا گیا ہے۔ یہ ایک آدمی کے قول کو بالکل راستی پر قائم رکھتا ہے۔ اس صورت میں آدمی جو کچھ بھی بولے گا وہ ایمان داری سے بولے گا اور اس کے دل میں بھی وہی بات ہوگی اور اس پر وہ مضبوطی سے قائم رہے گا۔
اس کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے فرمایا گیا ہے کہ جو کام تمھارے سپرد کیا گیا ہے جس کی وجہ سے دنیا تمھاری دشمن ہورہی ہے اور ہوگی، اس کام میں تم اس کے بغیر ثابت قدم نہیں رہ سکتے کہ رب المشرقین و مغربین کو اپنا وکیل بنائو اور اپنا سارا معاملہ اس کے حوالے کر دو۔ وَاصْبِرْ عَلٰی مَا یَقُوْلُوْنَ (المزمل ۷۳:۱۰) اور جو باتیں یہ لوگ تمھارے خلاف بناتے ہیں اس پر صبرجمیل کرو۔ ان دو باتوں کی یہاں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ہدایت کی گئی ہے۔ ایک یہ کہ اپنی طاقت پر، یا اپنے ساتھیوں کی طاقت پر، یا دنیا کی کسی طاقت پر بھروسا نہ کرو۔ صرف اللہ تعالیٰ پر بھروسا کرو اور اپنے معاملات اس کے حوالے کر دو۔ اس لیے کہ رب مشرق و مغرب تو وہی ہے۔ ساری کائنات کا مالک وہی ہے اور ساری طاقتوں کا مالک وہی ہے۔ دوسرے یہ کہ جو باتیں بھی وہ بنائیں ان پر صبر کرو اور صبر ہی نہیں بلکہ صبرجمیل کرو۔
صبرجمیل سے مراد یہ نہیں ہے کہ آدمی خون کا گھونٹ پی کر چپ ہو رہے، ورنہ اس کے دل میں یہ ہو کہ کسی طرح موقع ملے تو میں اس سے انتقام لوں۔ یہ مجبوری کی خاموشی ہے اورمجبوری کا تحمل ہے۔ صبرِ جمیل اس چیز کا نام ہے کہ ایک آدمی بالکل ٹھنڈے دل سے یہ راے قائم کرے کہ میں حق کے لیے جو کام کر رہا ہوں اگر یہ لوگوں کو ناگوار ہے تو ان کی اپنی نادانی کی وجہ سے ہے اور یہ ان کی جہالت ہے کہ جو چیز ان کے لیے آبِ شفا ہے وہ اس کو اپنے لیے زہر سمجھ رہے ہیں، اور اس کے پیش کرنے والے کو اپنا دشمن سمجھ رہے ہیں۔ یہ نادان اور بے وقوف لوگ ہیں۔ میرا کام ہے کہ ان کی اصلاح کے لیے کوشش کروں۔ اگر یہ نہیں مانیں گے تو اپنا بُرا کریں گے لیکن ان پر غصے کی کوئی وجہ نہیں ہونی چاہیے۔
اس کی مثال ایسے ہی ہے جیسے کوئی شخص سخت پریشانی کی حالت سے دوچار ہو اور شدید بخار میں مبتلا ہو اور ہذیان کی کیفیت میں ڈاکٹر کو گالیاں دے رہا ہو۔ اس صورت حال میں وہ ڈاکٹر سخت بے وقوف ہوگا جو اُلٹا اس پر غصہ ہو بلکہ وہ یہ سوچے گا کہ یہ اس قدر بُری حالت کو پہنچ گیا ہے کہ اسے اپنے ذہن پر قابو نہیں رہا۔ اس صورت میں ڈاکٹر اس مریض کو برداشت کرے گا تو یہ صبرجمیل ہوگا۔ وہ اس کی اصلاح میں لگا رہے گا اور کوشش کرے گا کہ اس کی یہ حالت درست ہو۔ اس لیے یہاں دو باتیں فرمائی گئی ہیں، یعنی اللہ پر بھروسا کرو اور صبرجمیل کرو۔
اس کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ فرمایا گیا کہ جو لوگ تمھارے خلاف شرارتیں کررہے ہیں، اگر ان کو اس دنیا میں سزا نہ بھی ملی اور یہ شرارتیں کرتے رہے تو پھر ان کے لیے آخرت میں معافی نہیں ہے۔ اللہ تعالیٰ ایسے مواقع پر عموماً آخرت کا ذکر کرتے ہیں۔ آخرت کا عذاب ایسا ہے کہ اس سے کوئی ظالم بچ نہیں سکتا، جب کہ دنیا کا عذاب ایسا نہیں کہ لازماً ہر ظالم پر نازل ہوجائے۔(تفصیل کے لیے دیکھیے: درسِ قرآن سورئہ مزمل: ۱-۱۴، عالمی ترجمان القرآن،اکتوبر ۲۰۰۵ء)
یہاں تک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو مخاطب کیا گیا ہے اور اس کے بعد کفارِ مکہ کو مخاطب کیا جا رہا ہے۔
اِِنَّآ اَرْسَلْنَآ اِِلَیْکُمْ رَسُوْلًا لا شَاہِدًا عَلَیْکُمْ کَمَآ اَرْسَلْنَآ اِِلٰی فِرْعَوْنَ رَسُوْلًا o فَعَصٰی فِرْعَوْنُ الرَّسُوْلَ فَاَخَذْنٰـہُ اَخْذًا وَّبِیْلًاo (المزمل۷۳:۱۵-۱۶) تم لوگوں کے پاس ہم نے اُسی طرح ایک رسول تم پر گواہ بناکر بھیجا ہے جس طرح ہم نے فرعون کی طرف ایک رسول بھیجا تھا۔ (پھردیکھ لو جب) فرعون نے اُس رسول کی بات نہ مانی تو ہم نے اس کو بڑی سختی کے ساتھ پکڑ لیا۔
اس ترتیب میں خود ایک تنبیہہ موجود ہے ’جس طرح ہم نے فرعون کی طرف رسول ؑ بھیجا تھا‘___ اس کے معنی یہ ہیں کہ جو فرعون کا انجام ہوا تھا یہ انجام ان لوگوں کا ہوگا جو رسولؐ کی بات نہیں مانتے۔ آگے چل کر اس بات کو کھول بھی دیا گیا ہے۔
یہاں دیکھیے کہ کفارِ مکہ کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ہدایات دینے کے بعد مخاطب کیا جارہا ہے اور یہ ہدایات قرآنِ مجید میں دی گئی ہیں تاکہ وہ بھی سن لیں کہ رسولؐ کو کیا ہدایات دی گئی ہیں۔ ایسا نہیں ہے کہ رسولؐ کو خاموشی کے ساتھ ہدایات دی گئی ہوں اور دنیا کو پتا ہی نہ چلا ہو کہ رسولؐ کو کیا ہدایات دی گئی ہیں، بلکہ رسولؐ کو جو ہدایات دی گئی ہیں وہ بھی اسی کلام میں بیان کی گئی ہیں جس کو رسولؐ نے پڑھا ہوگا اور ساری دنیا کو سنایا ہوگا اور ساری دنیا بعد میں اس کو سنتی رہے گی۔
اس کا فائدہ یہ ہے کہ جو لوگ مخاطب ہوں، جو مان نہ رہے ہوں اور کفر کے رویے میں پڑے ہوئے ہوں، ان لوگوں کو یہ معلوم ہوجائے کہ رسولؐ کو کیا ہدایات دی گئی ہیں اور کس کام پر یہ رسول مامور ہے اور اس کو کس طرح کام کرنے کی ہدایات دی گئی ہیں۔
جب یہ چیز لوگوں کے سامنے آجائے گی کہ اس رسولؐ کو یہ ہدایات دی گئی ہیں، یہ اخلاق سکھائے گئے ہیں، یہ اس کی تربیت کا انتظام کیا گیا ہے، تو اس کے بعد مخالفین میں سے جس کے اندر ذرّہ برابر بھی انسانیت ہوگی، ذرہ برابر بھی شرافت ہوگی، وہ متاثر ہوئے بغیر نہیں رہے گا۔ اس کے بجاے اگر یہ ہدایات دی گئی ہوتیں کہ جو تمھیں ایک بات کہے تم اسے دس سنائو، یا جو تمھیں ستائے تم اس کے خلاف ایک جماعت تیار کرو جو ان کی خبر لے، یا یہ کہ تم خفیہ طور پر اس طرح سے تیاریاں کرو کہ ایک روز اُن کا تختہ اُلٹ دو۔ اگر اس طرح کی ہدایات دی گئی ہوتیں تو ان کو سننے کے بعد مخالفین میں سے ایک ایک آدمی جس کے اندر مخالفت کا ذرا سا بھی جذبہ باقی ہوتا تو وہ مخالفت کے لیے اُٹھ کھڑا ہوتا۔
اس کے برعکس جب ان کو یہ سنایا گیا کہ میاں راتوں کو اُٹھ اُٹھ کر خدا کی عبادت کرو تاکہ تمھارے دل و زبان میں پوری طرح سے موافقت پیدا ہو، تاکہ تمھارے دل میں اخلاص پیدا ہو، خدا کے بھروسے پر کام کرو، جو کچھ تمھارے پاس ہے اس پر بھروسا نہ کرو۔اس کے بعد جو مخالف تھے اگر وہ ایمان لانے کے لیے نہ بھی تیار ہوں لیکن جس کے اندر ذرا سی بھی شرافت ہوگی تو وہ کہے گا کہ اس طرح کے آدمی کو گالی دینے کے کیا معنی ہیں، اس طرح کے آدمی کو پتھر مارنے کی کیا ضرورت ہے۔ اگر نہیں ماننا تو نہ مانو لیکن آدمیوں کی طرح اس کا مقابلہ کرو۔ یہ ہدایات کھلم کھلا publically لوگوں کو سنا دی گئیں کہ رسولؐ کو ان ہدایات کے ساتھ کام پر مامور کیا گیا ہے۔
تیسری چیز یہ فرمائی گئی کہ ہم نے یہ رسول تمھاری طرف شَاہِدًا عَلَیْکُمْ (گواہ) بناکر بھیجا ہے، یعنی شَاہِدًا عَلَیْکُمْ کا مطلب یہ نہیں ہے کہ تم اپنے گھر میں چپکے سے جو کام کرتے ہو اس کو بھی یہ رسول دیکھ رہا ہے۔ اس کا یہ مطلب بھی نہیں ہے کہ تم صحرا میں اگر تنہا ڈاکا مار رہے ہو تو رسولؐ اس کو دیکھ رہا ہے اور گواہی دے رہا ہے۔
ایک یہ کہ یہ رسولؐ تمھارے سامنے حق کی گواہی دے رہا ہے جیسے آپ کہتے ہیں: اشھد ان لا الٰہ الا اللّٰہ کہ مَیں گواہی دیتا ہوں اللہ کے سوا کوئی الٰہ نہیں ہے۔ اسی طرح رسولؐ کے ذمے پہلا کام یہ تھا کہ وہ لوگوں کے سامنے کھڑے ہوکر گواہی دے کہ حق کیا ہے؟ اس بات کو ملحوظ رکھیے کہ گواہی قیاس یا فلسفے کی بناپر نہیں ہوتی۔ کوئی آدمی اگر اپنا فلسفہ بنائے کہ حقیقت غالباً یہ ہوگی وہ اس پر گواہی نہیں دے سکتا کہ حقیقت یہ ہے۔ گواہی صرف وہی شخص دے سکتا ہے اور شہادت کا یہ اصول ہے کہ کوئی شخص عدالت میں جاکر یہ کہے کہ جناب میرا یہ خیال ہے کہ ایسا ہوا ہوگا تو عدالت اس کو تسلیم نہیں کرے گی۔ عدالت اس سے کہے گی کہ تمھاری آنکھوں دیکھی بات ہے تو بیان کرو، یا تم جانتے ہو تو بیان کرو۔ لیکن عدالت اس بات کو تسلیم نہیں کرے گی کہ میں نے سنا ہے۔ سنی سنائی بات کو عدالت نہیں مانتی اور عدالت اس بات کو بھی نہیں مانتی کہ میرا یہ قیاس ہے، یا میرا یہ گمان ہے کہ ایسا ہوا ہوگا۔ اس وجہ سے رسولؐ کو جو شہادت دینی ہے اس کی وجہ سے رسولؐ اس مقام پر کھڑا کیا گیا ہے کہ وہ آنکھوں دیکھی بات کی شہادت دے، حقیقت اس کو معلوم ہو۔ اس کو اللہ تعالیٰ نے حقیقت کا مشاہدہ کرایا ہے، اور وہ یہ علم رکھتا ہے کہ اللہ کے سوا کوئی الٰہ نہیں ہے۔ کوئی دوسرا تو قیاس کرے گا کہ یہ یہ علامات ایسی ہیں اور یہ یہ دلائل ایسے ہیں جن کی بنا پر مَیں اس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ اس کائنات کے کئی خدا نہیں ہوسکتے۔ صرف ایک خدا ہے۔ بہرحال یہ قیاس ہے۔ رسول اپنے علم کی بنا پر یہ شہادت دیتا ہے کہ خدا کے سوا کوئی خدا نہیں۔ وہ اپنے علم کی بنا پر شہادت دیتا ہے کہ فرشتے ہیں، آخرت ہے اور مرنے کے بعد خدا کو جواب دینا ہے، نیز جنت اور دوزخ ہوگی۔ ان ساری چیزوں کے بارے میں وہ اپنے علم کی بنا پر شہادت دیتا ہے۔ یہ پہلی چیز ہے۔
دوسری چیز جو شہادت کے لیے ضروری ہے اور رسول شہادت کے جس مقام پر کھڑے کیے گئے ہیں وہ یہ ہے کہ جس چیز کو وہ حق قرار دے رہے ہیں خود ان کی اپنی زندگی بھی ٹھیک ٹھیک اس حق کا مظاہرہ کرنے والی ہو۔ مثال کے طور پر دیکھیے کہ جب رسول کھڑے ہوکر یہ کہتا ہے کہ لوگو! تمھارے اُوپر نماز فرض ہے۔ اس کے بعد اگر رسول ایک وقت کی نماز بھی چھوڑ دے تو شہادت ختم ہوجائے گی۔ اس نے نماز کی فرضیت کی جو شہادت لوگوں کے سامنے کھڑے ہوکر دی ہے وہ اپنی اس شہادت کو جھٹلا دے گا اگر وہ ایک وقت بھی اس کے خلاف عمل کرے گا۔ ایسے ہی معاملہ تمام گناہوں کا ہے۔ جن جن گناہوں کے متعلق رسول نے یہ کہا ہے کہ یہ گناہ ہیں ان سے تم بچو۔ یہ چیز حرام ہے اس سے تم پرہیز کرو۔ اگر رسول کی زندگی میں نعوذباللہ کوئی ایک بُرائی بھی ان میں سے ہو تو اس کے بعد اس کی شہادت ختم ہوجاتی ہے بلکہ اس کی شہادت اُلٹی پڑجاتی ہے۔ لوگ اس کے سامنے کھڑے ہوکر یہ کہہ سکتے ہیں کہ جناب آپ نے توہم سے یہ کہا تھا کہ فلاں فعل بُرا ہے اور آپ اسے خود کر رہے ہیں۔ اس طرح یہ شہادت جھوٹی ہوجائے گی۔ اس کا یہ کہنا بھی اس کی برائی ہے اگر اس کا عمل اس کے خلاف ہوگا جس کی وہ شہادت دے رہا ہے۔
اس وجہ سے دوسری چیز جو رسول کے سپرد کی گئی ہے وہ یہ ہے کہ وہ لوگوں کو اس پاکیزہ زندگی کا مشاہدہ کرا دے۔ لوگ اپنی آنکھوں سے دیکھ لیں کہ جس طرح کا انسان یہ قرآن بنانا چاہتا ہے اس طرح کا انسان بنانے کے لیے اس رسول کو مامور کیا گیا ہے کہ وہ کیسا انسان ہوتا ہے؟ اس کی زندگی کس قسم کی ہوتی ہے؟ اس کے اخلاق کیسے ہوتے ہیں؟ اس زندگی کے اندر فرائض کیا ہیں؟ اس کے اندر محرمات کیا ہیں؟ کون سی چیزیں ایسی ہیں جو انسان کی اخلاقی، روحانی اور مادی ترقی کے لیے درکار ہیں؟ کون سی چیزیں ایسی ہیں جو اس راستے میں مانع ہیں؟ یہ شہادت بھی رسول کو اپنی زندگی میں دینی ہوتی ہے۔
تیسری شہادت جس کے لیے رسول کو شاہد بنایا گیا ہے وہ یہ ہے کہ آخرت میں اللہ تعالیٰ کی عدالت میں کھڑے ہوکر رسول یہ گواہی دے گا کہ یہ وہ لوگ ہیں جن تک مَیں نے آپ کا کلام پہنچادیا تھا۔ اگراس گواہی میں ذرہ برابر بھی کمی یا کوتاہی ہو یا ذرہ برابر بھی یہ غلط گواہی ہو تو اس کے معنی یہ ہیں کہ خود رسول کے خلاف prosecute (مقدمہ)کیا جاتا ہے، اور وہ لوگ جن کے خلاف رسول کو گواہی دینے کے لیے کھڑا کیا جاتا ہے بچ نکلتے ہیں۔ کیونکہ ان کے پاس یہ حجت ہوتی ہے کہ حضور ہمیں تو متنبہ ہی نہیں کیا گیا تھا۔ اس لیے رسول کے شاہد ہونے کی تیسری حیثیت یہ ہے کہ وہ آخرت میں اللہ کی عدالت میں کھڑے ہوکر یہ گواہی دے گا کہ ان لوگوں تک میںنے اللہ کا کلام پہنچا دیا تھا اور ان لوگوں کو مَیں نے اسلام کی پوری پوری دعوت دے دی تھی۔ اس کے بعد پھر ان لوگوں کے خلاف مقدمہ قائم ہوگا۔ پھر ان سے بازپُرس ہوگی کہ جب یہ چیز تم تک پہنچ گئی تو اس کے بعد تم نے کیا کیا؟
رسولؐ کے شاہد ہونے کی یہ تین حیثیتیں ہیں۔ لوگ ان کے غلط معنی یہ بیان کرتے ہیں کہ رسول کو اس لیے شاہد بنایا گیا ہے کہ وہ قیامت تک لوگوں کے اعمال کے اُوپر گواہی دے۔ اس کے لیے یہ ضروری ہے کہ وہ یہ دیکھتا رہے کہ کون اپنے حجرے میں کیا کر رہا ہے؟ کون رات کی تاریکی میں کیا کر رہا ہے؟ اور کون جنگل میں کیا کر رہا ہے؟ یہ بالکل لغو بات ہے۔ اللہ کے رسول پر اتنی بڑی ذمہ داری نہیں ڈالی گئی ہے کہ دنیا سے رخصت ہوجانے کے بعد بھی اور اپنے رب سے لَو لگانے کے بعدوہ ہر ایک کو بیٹھا ہوا دیکھتا رہے کہ کون کیا کیا کر رہا ہے؟ کوئی گناہ کر رہا ہے تو اسے بھی بیٹھا وہ دیکھتا رہے، کوئی شراب پی رہا ہے تو اس کو بھی دیکھتا رہے۔ رسول کے ذمے یہ کام نہیں کیا گیا۔ جو لوگ رسول کے متعلق یہ خیال کرتے ہیں وہ حقیقت میں یہ سمجھتے ہیں کہ رسول کو اللہ تعالیٰ کے حضور پہنچنے کے بعد بھی روحانی سکون میسر نہیں ہے۔ دنیا میں بھی جب تک تھے یہاں بھی گالیاں کھاتے رہے، پتھر کھاتے رہے اور مخالفین کی دشمنیاں بھگتتے رہے۔ اب ان کے سپرد یہ کام ہے کہ رات کی تاریکی میں زانیوں اور چوروں کو دیکھتے رہیں اور سرپر کھڑے ہوکر گواہی دیں۔ یہ بالکل لغو اور مہمل بات ہے۔
دوسری بات یہ ہے کہ اس طرح کا مطالبہ سواے اللہ تعالیٰ کے اور کسی سے نہیں ہوسکتا۔ اس بات کا کوئی امکان نہیں ہے کہ کسی انسان کو وہ بصارت نصیب ہوجائے جو اللہ تعالیٰ کے لیے مخصوص ہے۔ یہ اللہ تعالیٰ ہی کا کام ہے کہ وہ ساری کائنات کو بیک وقت دیکھ رہا ہے۔ کبھی اس کی نگاہ کسی خاص چیز کو دیکھنے میں اتنی مشغول نہیں ہوتی کہ وہ کسی دوسری چیز کو نہ دیکھ سکے۔ کائنات میں جس وقت، جہاں جو کچھ بھی ہو رہا ہے سب کچھ اللہ تعالیٰ دیکھ رہا ہے۔ یہ بصارت اللہ تعالیٰ کے سوا کسی اور کو حاصل نہیں ہے۔ اگر ایسا رسول کوئی ہو تو پھر اس میں اور اللہ تعالیٰ میں کوئی فرق نہ ہوگا۔ ایسا نبی اگر کوئی ہو تو اسے شہادت کے لیے سماعت کی بھی ضرورت ہوگی جو دنیا کی ہرآواز کو ہروقت سنتا رہے اور کبھی اس کے کان ایسے مشغول نہ ہوں کہ اگر وہ اس وقت کسی چیز کو سن رہا ہو تو کسی دوسری چیز کو نہ سن سکے۔ یہ چیز اللہ تعالیٰ کے سوا کسی اور کو نصیب نہیں۔ اگر یہ سماعت بھی مخلوق کے لیے ہو تو پھر خدا اور بندے کے درمیان فرق کیا باقی رہ گیا۔
بعض لوگ یہ کہتے ہیں کہ یہ عطا ہے۔ وہ سماعت اور بصارت جو اللہ تعالیٰ کی ذاتی ہے وہ اس نے اپنے بندے کو بخش دی۔ وہ صاف صاف یہ کیوں نہیں کہتے کہ اللہ تعالیٰ نے خدائی اپنے بندے کو بخش دی۔ وہ خود خدا ہے اور یہ بخشے ہوئے خدا ہیں۔ اس طرح کی مہمل باتیں وہ دینی مبالغہ ہے جس کے اندر اہلِ کتاب مبتلا ہیں۔ جس طرح اہلِ کتاب نے حضرت عیسٰی ؑ کی عقیدت میں ان کو خدا اور خدا کا بیٹا اور تین خدائوں میں سے ایک قرار دیا، یہ سب مبالغے کا نتیجہ تھا اور عقیدت کی زیادتی تھی۔ ایسے ہی لوگوں کے درمیان یہ تصور بھی پیدا ہوگیا ہے کہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے عقیدت کے معنی ہی یہ سمجھتے ہیں کہ آپ کو بالکل خدا بنا کر چھوڑ ڈالا ہے اور فرق صرف اتنا باقی رکھا ہے کہ وہ اصلی خدا ہے اور یہ عطائی خدا ہیں۔
اِِنَّآ اَرْسَلْنَآ اِِلَیْکُمْ رَسُوْلًا لا شَاہِدًا عَلَیْکُمْ کَمَآ اَرْسَلْنَآ اِِلٰی فِرْعَوْنَ رَسُوْلًا o (المزمل ۷۳:۱۵) تم لوگوں کے پاس ہم نے اُسی طرح ایک رسول تم پر گواہ بناکر بھیجا ہے جس طرح ہم نے فرعون کی طرف ایک رسول بھیجا تھا۔
اس جگہ ایک اور نکتہ ذہن میں ملحوظ رکھیے۔ عام طور پر لوگ اس غلط فہمی میں مبتلا ہیں کہ حضرت موسٰی ؑ صرف بنی اسرائیل کو فرعون کی غلامی سے رہائی دلانے کے لیے اور مصر سے نکالنے کے لیے مامور کیے گئے تھے۔ یہ بات غلط ہے۔ ان کے مشن کا یہ بھی ایک حصہ تھا جس طرح قرآنِ مجید میں فرمایا گیا ہے۔ لیکن اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ وہ صرف اس کام کے لیے بھیجے گئے تھے اور اس قوم کو ہدایت دینے کا کام ان کے سپرد نہیں کیا گیا تھا۔
یہاں یہ بتایا گیا ہے کہ اے اہلِ مکہ ! ہم نے تمھاری طرف ایک رسول بھیجا ہے جس طرح کہ فرعون کی طرف بھیجا گیا تھا۔ جس طرح موسٰی ؑ نے فرعون کو اسلام کی دعوت دی تھی، اسی طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اہلِ مکہ کو دعوت دی۔
فَعَصٰی فِرْعَوْنُ الرَّسُوْلَ فَاَخَذْنٰہُ اَخْذًا وَّبِیْلًاo (المزمل ۷۳:۱۶) (پھر دیکھ لو جب) فرعون نے اُس رسول کی بات نہ مانی تو ہم نے اُس کو بڑی سختی کے ساتھ پکڑ لیا۔
یہ کفارِ مکہ کو متنبہ کیا جا رہا ہے کہ اگر تم اس رسولؐ کے مقابلے میں وہ روش اختیار کرو گے جو فرعون نے اختیار کی تھی تو پھر وہ نتیجہ دیکھو گے جو فرعون نے دیکھاتھا۔
فَکَیْفَ تَتَّقُوْنَ اِِنْ کَفَرْتُمْ یَوْمًا یَّجْعَلُ الْوِلْدَانَ شِیْبَانِ o السَّمَآئُ مُنْفَطِرٌم بِہٖ ط کَانَ وَعْدُہ‘ مَفْعُوْلًا o (المزمل ۷۳:۱۷-۱۸)
اگر تم ماننے سے انکار کرو گے تو اُس دن کیسے بچ جائو گے جو بچوں کو بوڑھا کردے گا اور جس کی سختی سے آسمان پھٹا جا رہا ہوگا؟ اللہ کا وعدہ تو پورا ہوکر ہی رہنا ہے۔
یعنی اگر آج تم نے اس رسولؐ کا انکار کیا اور پھر دنیا میں پھلتے پھولتے بھی رہے اور تم پر آج کوئی عذاب نازل نہ بھی ہوا، تمھاری تجارتیں چلتی رہیں، تمھارے کاروبار خوب کامیاب رہے، تمھاری مشیخیت اور سرداری چلتی رہی، تمھاری اولادیں پھلتی پھولتی رہیں۔ اگر یہ ہوا بھی تب بھی اس بات کا امکان نہیں ہے کہ تم آخرت کے عذاب سے بچ سکو گے۔
پھر فرمایاگیا کہ اس روز کیسے بچو گے جس دن کی سختی بچوں کو بوڑھا کردے گی۔ یہ محاورے کے طور پر استعمال کیا گیا ہے۔اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ اس دن واقعی بچے بوڑھے ہوجائیں گے بلکہ جو بچے تھے ان سے بازپُرس ہونی ہے، جو بوڑھے یا جوان تھے ان سے بازپُرس ہونی ہے۔ یہ محاورہ ہے۔ اُردو زبان میں بھی ہم اس محاورے کو استعمال کرتے ہیں اور عربی میں بھی استعمال ہوتا ہے۔ کسی دن کی انتہائی سختی کو بیان کرنا ہو تو کہتے ہیں کہ بچوں کے بال سفید ہوگئے۔ اسی طرح سے بتایا گیا ہے کہ ایسا سخت دن ہوگا کہ جس میں تکلیف انسان کی برداشت سے باہر ہوگی۔ آسمان پھٹا پڑ رہا ہوگا۔ کَانَ وَعْدُہ‘ مَفْعُوْلًا ’’اللہ کا وعدہ تو پورا ہوکر ہی رہنا ہے‘‘۔ یہ ممکن نہیں ہے کہ وہ دن کبھی نہ آئے۔ اس دن کا آنا یقینی ہے۔ اس دن کی تم نے کیا تیاری کی ہے؟اگر اس رسول کا تم انکار کرتے ہو تو اس روز اللہ کے عذاب سے کس طرح بچ سکوگے؟
اِِنَّ ہٰذِہٖ تَذْکِرَۃٌ ج فَمَنْ شَآئَ اتَّخَذَ اِِلٰی رَبِّہٖ سَبِیْلًا o(المزمل ۷۳:۱۹) یہ ایک نصیحت ہے، اب جس کا جی چاہے اپنے رب کی طرف جانے کا راستہ اختیار کرلے۔
تذکرہ کے معنی یاد دہانی، نصیحت اور سبق دینا ہے۔ وہ سبق دینا ہے جس سبق کو انسان بھول گیا ہے۔ ایک سبق وہ ہے جو انسان کی فطرت میں اترا ہوا ہے، اور ایک سبق وہ ہے جس کی مزید تائید تمام انبیاے کرام ؑ کرتے آئے ہیں۔ اس وجہ سے دنیا میں مشکل ہی سے کوئی آدمی ایسا ہوگا جس کے کان میں یہ بات نہ پڑی ہوکہ خدا ہے۔ بلاشبہہ انکار کرنے والے انکار کریں لیکن یہ کہ خدا ہے___ یہ آواز ہر ایک کے کان میں پڑ رہی ہے۔ کئی مذاہب دنیا میں ایسے ہیں جو یہ کہتے ہیں کہ خدا ایک نہیں ہے۔ اس کے باوجود دُوردراز کے انسانوں تک بھی یہ بات پہنچ رہی ہے بجز اس کے جو یہ کہہ سکتا ہو کہ جنگل میں پڑا رہ گیا اور جانوروں میں پلا بڑھا۔ اس کا معاملہ الگ ہے ورنہ دُوردراز کے انسانوں کے کان میں بھی یہ آواز پہنچ رہی ہے۔
اسی طرح سے یہ بات کہ مرنے کے بعد اُٹھنا ہے اور جاکر جواب دہی کرنی ہے، اس کا تصور بھی تمام انسانوں کے درمیان پایا جاتا ہے۔ آدمی کے اندر بھی یہ احساس موجود ہے کہ یہ ممکن نہیں ہے کہ ہم دنیا میں جو چاہیں عمل کریں اور اس کے بعد ہماری بازپُرس نہ ہو۔ یہ احساس ہرانسان کی فطرت کے اندر بھی اُترا ہوا ہے،اور یہ بات کانوں میں ضرور پڑی ہے۔ اس لیے کہ انبیا ؑ نے صدیوں تک ہزارہا برس تک اس کا اتنا صور پھونکا ہے کہ کوئی آدمی ایسا نہیں ہوگا جس کے کان میں یہ بات نہ پڑی ہو۔ اسی وجہ سے انبیا ؑ کو یاد دہانی کروانے والے اور قرآنِ مجید کو ذکر کہا گیا، یعنی یاددہانی اور نصیحت۔ قرآنِ مجید کوئی نئی چیز آدمی کے دماغ میں نہیں اُتارتا۔ وہ چیز جو پہلے سے انسان کے دماغ میں موجود ہے اگروہ اسے بھول گیا ہو تو وہ اسے تازہ کرتا ہے۔
اسی لیے فرمایا گیا کہ رسولؐ نے حق کی گواہی دے دی ہے، تم تک حق پہنچادیا ہے۔ اگر رسولؐ کی بات نہ مانو گے اور فرعون کی طرح روش اختیار کرو گے تو خدا کی پکڑ سے نہ بچ سکو گے۔ نیز اس دن سے کیسے بچ سکو گے جو بچوں کو بوڑھا کردے گا اور جس کی سختی سے آسمان پھٹا جا رہا ہوگا۔ لہٰذا قرآن تو ایک نصیحت ہے، اب جس کا جی چاہے اپنے رب کی طرف جانے کا راستہ اختیار کرلے۔
اِِنَّ رَبَّکَ یَعْلَمُ اَنَّکَ تَقُوْمُ اَدْنٰی مِنْ ثُلُثَیِ الَّیْلِ وَنِصْفَہٗ وَثُلُثَہٗ وَطَآئِفَۃٌ مِّنَ الَّذِیْنَ مَعَکَ o (۷۳:۲۰) اے نبیؐ، تمھارا رب جانتا ہے کہ تم کبھی دوتہائی رات کے قریب کبھی آدھی رات اور کبھی ایک تہائی رات عبادت میں کھڑے رہتے ہو، اور تمھارے ساتھیوں میں سے بھی ایک گروہ یہ عمل کرتا ہے۔
یہ سورئہ مزمل کا دوسرا رکوع ہے۔ سورئہ مزمل کا پہلا رکوع مکہ مکرمہ کے ابتدائی دور میں نازل ہوا تھا۔ دوسرا رکوع مدینہ طیبہ میں نازل ہوا۔ بعض مفسرین نے یہ لکھا ہے کہ پہلے رکوع کے ڈیڑھ سال بعد یہ نازل ہوا ہے۔ لیکن یہ بات ٹھیک معلوم نہیں ہوتی ہے، اس لیے کہ آگے چل کر اس میں جہاد کا ذکر آتا ہے۔ یہ ذکر آتا ہے کہ تم میں سے کچھ لوگ ایسے ہیں جو تجارت کے لیے سفر کرتے ہیں، اور کچھ لوگ ایسے ہیں جو اللہ کی راہ میں لڑتے ہیں۔ اللہ کی راہ میں لڑنے کا سلسلہ مکہ مکرمہ میں نہیں مدینہ منورہ میں شروع ہوا تھا۔ اس لیے یہ خیال کرنا کہ یہ رکوع مکہ معظمہ میں ایک سال بعد نازل ہوا تھا صحیح نہیں ہے۔ اس حصے کو جو ایک طویل مدت کے بعد نازل ہوا ہے اس کو سورئہ مزمل میں اس وجہ سے شامل کیا گیا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی دعوت کے ابتدائی دور میں رسولؐ اللہ کو اور آپؐ کے ذریعے آپؐ کے ساتھیوں کو تربیت کا ایک کورس کروایا گیا۔ یہ بتایا گیا تھا کہ جس کارِعظیم کا بار آپ پر ڈالا گیا ہے اس کارِعظیم کے لیے آپ اپنے آپ کو کس طرح تیار کریں اور اس وقت آپ کو کہا گیا کہ رات کو کھڑے رہا کرو۔ قُمِ الَّیْلَ اِِلَّا قَلِیْلًا o نِّصْفَہٗٓ اَوِ انْقُصْ مِنْہُ قَلِیْلًا o (۷۳:۲-۳) ’’رات کو آدھی رات سے کچھ کم یا آدھی رات سے کچھ زیادہ اللہ کی عبادت میں کھڑا رہا کرو‘‘۔یہ تربیت کا کورس اس زمانے میں تھا جب مکہ معظمہ میں ایک شدید کش مکش جاری تھی۔ دشمنی پورے زور کے ساتھ شروع ہوگئی تھی اور اہلِ ایمان اور اہلِ کفر کے درمیان ایک زبردست کش مکش تھی ۔ اس موقعے پر یہ ہدایت کی گئی کہ تم اپنے آپ کو اس کارِعظیم کے لیے کس طرح تیار کرو۔
اس کے بعد جو حصہ مدینہ طیبہ میں نازل ہوا اس میں اس کورس کے اندر کچھ تخفیف اور نرمی کی گئی ہے۔ اس وجہ سے اس حصے کو جو غزوئہ بدر کے کئی سال بعد نازل ہوا اسی سورہ میں شامل کیا گیا ہے۔ جو لوگ اس بات سے واقف نہیں ہیں کہ پہلا رکوع کئی سال پہلے نازل ہوا ہے اور دوسرا رکوع کئی سال بعد نازل ہوا ہے، ان کو یہ سمجھنے میں پریشانی پیش آتی ہے کہ سورت کے آغاز میں تہجد کے لیے کوئی حکم ہے اور سورت کے آخر میں کوئی اور حکم ہے۔ ایک ہی سورت میں یہ دو چیزیں کیسے ہیں؟
یہاں فرمایا جا رہا ہے کہ اللہ تعالیٰ کو معلوم ہے کہ تم راتوں کو، کبھی دو تہائی رات، کبھی ایک تہائی را ت اور کبھی آدھی رات اللہ کی عبادت کے لیے کھڑے رہتے ہو۔ اور یہی حالت بہت سے ان لوگوں کی ہے جو تمھارے ساتھ ایمان لائے ہیں،یعنی دوسرے اہلِ ایمان بھی اس طرح سے رات رات بھر کھڑے رہتے ہیں۔
وَاللّٰہُ یُقَدِّرُ الَّیْلَ وَالنَّھَارَ ط ( ۷۳:۲۰) اللہ ہی رات اور دن کے اوقات کا حساب رکھتا ہے۔
اللہ رات اور دن کا حساب لگاتا رہتا ہے۔ اس کو معلوم ہے کہ تم کتنی دیر کھڑے رہتے ہو۔ اللہ کو معلوم ہے کہ تم حساب نہیں لگا سکتے۔ اس لیے کہ اس زمانے میں گھڑیاں تو تھیں نہیں کہ گھنٹے بجتے اور آدمی آواز سنتا۔ راتوں کی تاریکیوں میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور مسلمان اُٹھتے تھے اور نماز کے دوران میں ان کی ساری توجہ کلامِ پاک کی طرف ہوتی تھی جس کو وہ نماز میں پڑھتے تھے۔ اس لیے اندازہ ہی نہ رہتا تھا کہ رات کو ہم کتنی دیر کھڑے رہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ تم حساب نہیں لگاسکتے لیکن ہم حساب لگاتے رہتے ہیں اور دیکھتے رہتے ہیں کہ عبادت میں تمھاری کتنی رات گزر گئی ہے۔
عَلِمَ اَنْ لَّنْ تُحْصُوْہُ فَتَابَ عَلَیْکُمْ (۷۳:۲۰) اسے معلوم ہے کہ تم لوگ اوقات کا ٹھیک شمار نہیں کرسکتے، لہٰذا اس نے تم پر مہربانی فرمائی۔
یہاں فَتَابَ کا لفظ استعمال ہوا ہے۔ اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ اللہ تعالیٰ نے تمھاری توبہ قبول کرلی ہے بلکہ یہاں اس کے معنی ہیں کہ اللہ تعالیٰ تم پر مہربان ہے۔ مراد یہ ہے کہ جس خلوص کے ساتھ تم اپنے رب کی عبادت کر رہے ہو اور جس طرح سے تم عبادت کے لیے راتوں کو کھڑے رہتے ہو، اس وجہ سے اللہ تم پر مہربان ہے۔ توبہ کے ایک معنی کسی طرف جھکنے کے بھی ہیں۔ اس لیے فَتَابَ عَلَیْکُمْ کامطلب یہ ہے کہ تمھاری طرف جھکا اور تمھاری طرف متوجہ ہوا، یعنی تم پر مہربان ہوا۔
فَاقْرَئُ وْا مَا تَیَسَّرَ مِنَ الْقُرْاٰنِ ط ( ۷۳:۲۰) اب جتنا قرآن آسانی سے پڑھ سکتے ہو پڑھ لیا کرو۔
لہٰذا جتنا قرآن آسانی سے پڑھ سکتے ہو، اتنا پڑھ لو۔ اب اتنی زیادہ دیر تک کھڑے رہنے کی ضرورت نہیں ہے۔ کیونکہ نماز میں طول زیاد تر قرآن کی طویل قراء ت کی وجہ سے ہوتا ہے، باقی جتنی تسبیحات اوردُعائیں وغیرہ ہیں وہ ساری مختصر اور ملی جلی ہوتی ہیں، اس لیے فرمایا کہ جتنا قرآن آسانی سے پڑھ سکتے ہو، اتنا پڑھو۔
عَلِمَ اَنْ سَیَکُوْنُ مِنْکُمْ مَّرْضٰی لا وَاٰخَرُوْنَ یَضْرِبُوْنَ فِی الْاَرْضِ یَبْتَغُونَ مِنْ فَضْلِ اللّٰہِ وَاٰخَرُوْنَ یُقَاتِلُوْنَ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ ز فَاقْرَئُ وْا مَا تَیَسَّرَ مِنْہُ لا (۷۳:۲۰) اسے معلوم ہے کہ تم میں کچھ مریض ہوںگے، کچھ دوسرے لوگ اللہ کے فضل کی تلاش میں سفر کرتے ہیں، اور کچھ اور لوگ اللہ کی راہ میں جنگ کرتے ہیں۔ پس جتنا قرآن بآسانی پڑھا جاسکے پڑھ لیا کرو۔
اُوپر فرمایا گیا کہ اللہ تعالیٰ تم پر مہربان ہوا اور یہاں وجہ بیان کی گئی ہے کہ تم پر کیوں نرمی کی جارہی ہے؟ اس لیے نرمی کی جارہی ہے کہ کچھ لوگ بیمار ہیں۔ کچھ لوگ ایسے ہیں جو تجارتی سفر کرنے والے ہیں۔ کچھ لوگ ایسے ہیں جن کو لڑائیوں کی مصروفیت پیش آرہی ہے۔ اس حالت میں حکم کی وہ شدت باقی نہیں رکھی گئی جو کہ پہلے تھی۔ اس حالت میں نرمی کردی گئی۔ واضح رہے کہ رات کو تہجدپڑھنے کو معاف نہیں کردیا گیا۔ یہ نہیں کہا گیا کہ رات کو تہجد پڑھنا بندکردو ۔ فرمایا گیا کہ تہجد کی لمبی لمبی نمازیں پڑھنے کی اب ضرورت نہیں ہے۔ جتنا قرآن آسانی سے پڑھ سکتے ہو وہ پڑھو۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو بسااوقات رات رات بھر کھڑے رہنے کی نوبت آجاتی تھی۔ لیکن آپؐ کا بالعموم معمول یہ تھا کہ رات کے آخری حصے میں آپؐ اُٹھتے تھے۔ تہجد کی نماز پڑھنے کے بعد ایسے وقت پر تہجد کی نماز ختم کرتے تھے جب صبح کی اذان ہونے والی ہوتی تھی۔ صبح کی اذان ہوتی تھی تو اس کے بعد آپؐ دو رکعت نفل پڑھ لیتے تھے اور پھر آپؐ فرض نماز کے وقت تک لیٹ جایا کرتے تھے تاکہ آپؐ پھر اُٹھ سکیں۔رات کے آخری حصے میں تہجد پڑھنے میں وہ تکلیف نہیں ہوتی تھی جتنی کہ پوری پوری رات یا آدھی رات تک تہجد پڑھنے میں ہوتی تھی۔
وَاَقِیْمُوا الصَّلٰوۃَ (۷۳:۲۰)’’اور نماز قائم کرو‘‘۔یہاں نماز قائم کرنے سے مراد فرض نماز ہے۔ وہ نماز جو پانچ وقت فرض کی گئی ہے اس کو قائم کرو۔ نمازِ تہجد میں تمھارے لیے تخفیف کردی گئی ہے لیکن نماز کی اقامت میں کوئی کوتاہی نہ ہونے پائے۔ نماز باقاعدگی سے ادا کی جائے۔
وَاٰتُوا الزَّکَـٰوۃَ (۷۳:۲۰) ’’اور زکوٰۃ ادا کرو‘‘۔یہاں زکوٰۃ سے مراد وہ فرض زکوٰۃ ہے جو لازم کردی گئی ہے۔ مراد یہ ہے کہ جتنی زکوٰۃ فرض ہو لازماً نکالی جائے۔
وَاَقْرِضُوْا اللّٰہَ قَرْضًا حَسَنًا ط (۷۳:۲۰) ’’اور اللہ کو اچھا قرض دو‘‘۔یہ وہ زکوٰۃ و صدقات ہیں جو نافلہ ہیں۔ وَاٰتُوا الزَّکَـٰوۃَ میں فرض زکوٰۃ ہے اور وَاَقْرِضُوْا اللّٰہَ قَرْضًا حَسَنًا میں صدقات نافلہ (نفلی صدقات) ہیں۔ یعنی اللہ کی راہ میں زکوٰۃ سے زائد، زیاد ہ سے زیادہ آدمی جو کچھ خرچ کرے وہ صدقات نافلہ ہیں۔
وَمَا تُقَدِّمُوْا لِاَنْفُسِکُمْ مِّنْ خَیْرٍ تَجِدُوْہُ عِنْدَ اللّٰہِ (۷۳:۲۰) جو کچھ بھلائی تم اپنے لیے آگے بھیجو گے اسے اللہ کے ہاں موجود پائوگے۔
یعنی اپنے مرنے سے پہلے اپنی عاقبت کے لیے جو کچھ بھلائی تم آگے بھیجو گے اس کو اللہ کے پاس موجود پائو گے۔ تمھاری کوئی نیکی ضائع نہیں ہوگی۔ ایک پائی بھی جو تم نے خدا کے ہاں خرچ کی ہے اللہ کے ہاں وہ موجود پائو گے۔ کوئی نیک کام جو تم نے یہاں کیا ہے وہ ضائع ہونے والا نہیں۔
آدمی جو نیک کام کرتا ہے اس کے متعلق قرآنِ مجید میں دوسری بات اکثر یہ فرمائی گئی ہے کہ تم اسے آگے بھیج رہے ہو۔ یہ بالکل ایسا ہے جیسے کوئی رئیس آدمی کہیں آگے سفر کرنے کے لیے جانا چاہتا ہے تو قبل اس کے کہ وہ اپنی منزل پر پہنچے وہ اپنا خیمہ و سامان اور عیش کے سارے سامان پہلے ہی بھیج دیتا ہے تاکہ جب وہ وہاں پہنچے تو سب کچھ پہلے ہی سے وہاں موجود ہو اور اس کے خیمے لگے ہوں۔ اس چیز سے تشبیہہ دی گئی ہے کہ دنیا میں آدمی جو کچھ بھی نیک کام کر رہا ہے وہ اپنی عاقبت کے لیے آگے روانہ کر رہا ہے۔ جب وہ وہاں پہنچے گا تو اسے موجود پائے گا۔
ھُوَ خَیْرًا وَّاَعْظَمَ اَجْرًا ط (۷۳:۲۰) وہی زیادہ بہترہے اور اس کا اجر بہت بڑا ہے۔
دوسرے الفاظ میں اس کا مطلب یہ ہوا گویا اسلام ایک آدمی کو جو اخلاقی تعلیم دیتا ہے وہ یہ ہے کہ اس دنیا میں آدمی کے پاس جو کچھ ہے وہ اس نے استعمال کرلیا تو وہ اس دنیا میں استعمال ہوگیا۔ یہاں اپنی ذات پر خرچ کرلیا یا دنیا کی خاطر جو کچھ خرچ کرلیا وہ یہاں ختم ہوگیا۔ اس سے کسی اجر کا سوال آگے نہیں ہوگا۔ جو کچھ آگے چل کر آدمی کے کام آنے والی چیز ہے وہ مال، وہ محنت اور وہ کوششیں ہیں جو دنیا کی زندگی میں اللہ تعالیٰ کی رضا کے لیے،اس کے دین کی سربلندی کے لیے اور خلق کی بھلائی کے لیے آدمی کرتا ہے۔ یہ وہ چیز ہے جو آگے جانے والی ہے اور آگے محفوظ رہنے والی ہے۔ اگر ایک آدمی نے اپنے عیش کے لیے بہت شان دار محل بنا لیا ہے جس وقت وہ مرے گا وہ محل یہاں چھوڑ جائے گا۔ وہ محل وہاں منتقل ہونے والا نہیں ہے۔ البتہ جو بھلائی انسان نے اس دنیا میں کی ہے، اللہ کی راہ میں جو نیک کام کیے ہیں، یہ سارے کام آگے منتقل ہونے والے ہیں۔ یہ ضائع ہونے والے نہیں ہیں۔ یہ محض ایسا نہیں ہے کہ موت کی ایک ہچکی کے ساتھ سب کچھ ختم ہوگیا اور آگے کچھ نہیں ہے، بلکہ وہ آگے محفوظ رہنے والے ہیں۔ اسی لیے فرمایا گیا کہ جو کچھ تم نے آگے بھیجا ہے وہی زیادہ بہتر ہے اور اس کا اجر زیادہ ہے۔ دنیا میں آدمی جو کچھ خرچ کرتا ہے، فرض کیجیے کہ اپنی نیک نامی کے لیے خرچ کرتا ہے، تو اس کو اس کا اجر مل گیا اور نیک نامی ہوگئی یا اس کی شہرت ہوگئی، تعریفیں ہوگئیں۔ یہ یہاں اس کا اجر ہوگیا۔ اب آگے اس کے کسی اجر کا کوئی سوال نہیں پیدا ہوتا۔اس کے مقابلے میں جس آدمی نے خدا کی راہ میں خرچ کیا ہے اس کے اجر کی کوئی انتہا نہیں، وہ کبھی ختم ہونے والا نہیں ہے۔ وہ ہمیشہ باقی رہنے والا اجر ہے اور ترقی کرنے والا ہے۔
یہ اس لیے ہے کہ ایک مرتبہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے صدقہ کرنے کے لیے ایک بکری ذبح کروائی او ر وہ تقسیم ہوگئی اور تھوڑا سا گوشت باقی بچ گیا۔ جب آپؐ گھر تشریف لائے تو آپؐ نے گھر والوں سے پوچھا کہ کیا بکری ساری تقسیم کردی گئی ہے ؟ گھر والوں نے عرض کیا کہ ساری تقسیم کردی گئی ہے لیکن کچھ تھوڑا سا گوشت بچا ہوا ہے۔ آپؐ نے فرمایا کہ جو کچھ تقسیم کردیا گیا ہے وہ بچا ہوا ہے، یہ بچا ہوا نہیں ہے۔ جو اللہ کی راہ میں تقسیم کردیا گیا وہ اصل میں بچا ہوا ہے۔
یہ اسلام کی قدریں ہیں۔ اس معاملے میں اسلام کا نقطۂ نظر یہ ہے کہ وہ چیز جو اللہ کی راہ میں آدمی نے خرچ کی وہ ضائع نہیں ہوگی بلکہ وہ محفوظ رہے گی۔ جو وہ اپنی ذات پر خرچ کرتا رہا ہے، یا اپنی اغراض پر، یا مفادات اور خواہشات پر خرچ کرتا رہا ہے، البتہ وہ ضائع ہوں گی۔
وَّاسْتَغْفِرُوا اللّٰہَ ط اِِنَّ اللّٰہَ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ o (۷۳:۲۰) اللہ سے مغفرت مانگتے رہو، بے شک اللہ بڑا غفور و رحیم ہے۔
اب یہ دیکھیے کہ ان نیکیوں کا حکم دینے کے بعد فرمایا جاتا ہے کہ اللہ تعالیٰ سے استغفار کرلو۔ آدمی راتوں کو تہجد کی نماز بھی پڑھ رہا ہے، اللہ کی راہ میں جنگ بھی کر رہا ہے، اللہ کی راہ میں نمازیں بھی قائم کر رہا ہے، زکوٰۃ بھی دے رہا ہے اور قرضِ حسن بھی دے رہا ہے۔ یہ سب کچھ کرنے کے بعد فرمایا جاتا ہے کہ اللہ سے استغفار کرو، یعنی گناہ پر ہی اللہ سے استغفار نہ کرو بلکہ نیکیوں پر بھی استغفار کرو۔ یہ ہے اسلام کا نقطۂ نظر! یہ نہیں ہے کہ اس بھروسے پر اطمینان سے گناہ کرو کہ اللہ معاف کردے گا۔ گناہ کرو اور آکر توبہ اور استغفار کرلو۔ یہ اسلام کا نقطۂ نظر نہیں ہے۔ اللہ کی راہ میں نیکیاں کرو، جانیں لڑائو اور راتوں کو کھڑے رہو اور پھر استغفار کرو۔
استغفار کیا ہے؟ استغفار کے اصل معنی ہیں: چشم پوشی کی درخواست کرنا۔ مغفرت کہتے ہیں درگزر اور چشم پوشی کو کہ کسی سے کوئی قصور ہوگیا تو اسے معاف کر دیا۔ اس کے قصور کو نہ دیکھا اور ویسے ہی درگزر کردیا۔
چشم پوشی کی درخواست کرنا یہ ہے کہ ہم سے جو کچھ ہوسکا حضور وہ خدمت ہم نے انجام دے دی۔ اس میں جو کچھ کوتاہی ہے اس سے درگزر فرمایئے۔ایک مومن کا کام یہ نہیں ہے کہ نیکی کرنے کے بعد غرور اور فخر میں مبتلا ہو کہ میں اتنا بڑا نیک آدمی ہوں۔ تہجد کی نماز پڑھے اور غرور میں مبتلا ہوجائے۔ یہ اس بندے کا کام نہیں ہے جو راتوں کو تہجد کی نماز پڑھتا ہو۔ یہ مومن کا کام نہیں ہے۔ جس آدمی کے دل میں یہ کبر اور فخر پیدا ہوگیا تو اس نے اپنی تہجد کو ضائع کر دیا۔ جس آدمی کے دل میں نیکی کرنے کے بعد یہ خیال پیدا ہوا کہ میں تو بڑا نیک آدمی ہوں، حقیقت میں وہ بد آدمی ہے۔ وہ نیک آدمی نہیں ہے۔ اس نے اپنے اس غرور کی وجہ سے سب کچھ ضائع کر دیا۔
سچے مومن کی شان یہ ہے کہ اللہ کی راہ میں اپنی جان لڑانے، مال خرچ کرنے اور محنتیں کرنے کے بعد پھر اللہ سے مغفرت کی دعا کرے کہ جو کچھ میرا فرض تھا میں وہ انجام نہیں دے سکا۔ جو مجھے کرنا چاہیے تھا وہ نہیں کرسکا۔ جو کچھ عمل میں نے کیا ہے اس میں بیسیوں کوتاہیاں اور بیسیوں قصور ہیں۔ اگر آپ درگزر نہ کریں گے تو یہ سب کچھ ضائع چلا جائے گا۔ آپ درگزر فرمائیں اور چشم پوشی فرمائیں تو تب یہ قبول ہوسکتا ہے ورنہ میں جو تحفہ لایا ہوں وہ اس قابل نہیں ہے کہ آپ کی بارگاہ میں قبول ہو۔ یہ ہے نیکیاں کرنے کے بعد استغفار کرنے کا مفہوم۔
استغفار ہی تمام نیکیوں کو حقیقت میں نیکی بناتا ہے۔ اگر نیکی کرنے کے بعد استغفارنہ ہو تو وہ حقیقت میں نیکی نہیں بنتی۔ نیکی اس وقت بنتی ہے جب آدمی خدمت بجا لانے کے بعد بجاے غرور کے انکسار میں مبتلا ہوتا ہے، اور زیادہ اللہ تعالیٰ کے آگے جھکتا ہے، اور زیادہ اللہ تعالیٰ سے مغفرت اور تربیت کی درخواست کرتا ہے۔
اِِنَّ اللّٰہَ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ (۷۳:۲۰) یقینا اللہ تعالیٰ درگزر فرمانے والا ہے اور رحم فرمانے والا ہے۔
یعنی جو لوگ بھی اللہ تعالیٰ کے آگے عاجزی سے جھکنے والے ہیں اللہ تعالیٰ بھی ان کے ساتھ درگزر اور چشم پوشی ہی کا معاملہ کرتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کا اپنے بندوں کے ساتھ معاملہ دو قسم کا ہے: ایک وہ بندے جو اللہ کے مقابلے میں گھمنڈ اور استکبار اختیار کرتے ہیں، ان کے ساتھ اللہ کا معاملہ بے حد سختی کا ہے۔ جو خدا کے مقابلے میں کبر اختیار کرے، اس کے مقابلے میں اپنی ناک کو بڑا سمجھے، اور اس کے مقابلے میں گھمنڈ برتے، اس کے ساتھ پھر اللہ کا معاملہ بڑا سخت ہے۔اس کے برعکس جو شخص عاجزی اختیار کرے اس کے ساتھ اللہ تعالیٰ کا معاملہ بے انتہا نرمی، رحمت اور مہربانی کا ہے۔ اسی لیے فرمایا کہ عاجزی اختیار کرو اور استغفار کرو تو اللہ تعالیٰ تمھارے ساتھ درگزر کرنے والا ہے۔ (کیسٹ سے تدوین: امجد عباسی)