بسم اللہ الرحمن الرحیم
ہر سال کی طرح ایک بار پھر رمضان کا مبارک مہینہ اپنی برکتیں لے کر ہم پر طلو ع ہورہاہے، جس میں ایک ایسی رات بھی ہے جو ہزار مہینوں سے بہتر ہے، جس کے دن میں روزہ رکھنا فرض کردیاگیاہے اور جس کی راتوں میں قرآن سننا مستحب اور قربِ الٰہی کا ذریعہ ہے۔ اس میں ایک فرض کی ادایگی دوسرے مہینوں کے ۷۰ فرائض جتناثواب رکھتی ہے اور جس میں ایک نفلی عبادت دوسرے مہینوں کے فرائض جتنی بزرگی کی حامل ہے۔ یہ غریب لوگوں کے ساتھ ہمدردی کا مہینہ ہے۔ اس میں کسی کا روزہ افطار کرانا اللہ کی خوشنودی کا باعث ہے۔ اس مہینے کا پہلا عشرہ رحمت، دوسرا عشرہ مغفرت اور تیسرا عشرہ دوزخ سے نجات کی ضمانت فراہم کرتاہے۔
ماہِ شعبان کی آخری تاریخ کو رسولؐ اللہ نے ہمیں ایک خطبہ ارشاد فرمایا:اے لوگو! تم پر ایک عظمت اور برکت والامہینہ سایہ فگن ہو رہاہے۔ اس مہینے کی ایک رات(شب قدر) ہزار مہینوں سے بہتر ہے۔ اس مہینے کے روزے اللہ تعالیٰ نے فرض کیے ہیںاور اس کی راتوں میں بارگاہِ خداوندی میں کھڑا ہونے (نماز تراویح)کو نفل عبادت مقرر کیا ہے۔جو شخص اس مہینے میں اللہ کی رضا اور اس کا قرب حاصل کرنے کے لیے کوئی غیرفرض عبادت(سنت یا نفل) ادا کرے گا تو اس کو دوسرے زمانے کے ۷۰فرضوں کے برابر ثواب ملے گا۔اور اس مہینے میں فرض ادا کرنے کا ثواب دوسرے زمانے کے ۷۰فرضوں کے برابر ہے۔ یہ صبر کا مہینہ ہے اور صبر کا بدلہ جنت ہے۔ یہ ہمدردی اور غم خواری کا مہینہ ہے، اور یہی وہ مہینہ ہے جس میں مومن بندوں کے رزق میں اضافہ کیا جاتا ہے۔ جس نے اس مہینے میںکسی روزے دار کو افطار کرایا تو اس کے لیے گناہوں کی مغفرت اور آتش دوزخ سے آزادی کا ذریعہ ہوگا اور اس کو روزہ دار کے برابر ثواب دیا جائے گابغیر اس کے کہ روزہ دار کے ثواب میں کوئی کمی کی جائے۔ آپؐ سے عرض کیا گیا کہ یا رسولؐ اللہ! ہم میں سے ہر ایک کے پاس تو افطار کرانے کا سامان موجود نہیں ہوتا۔ آپؐ نے فرمایا:’’اللہ تعالیٰ یہ ثواب اس شخص کو بھی دے گا جو دودھ کی تھوڑی سی لسی سے یا پانی کے ایک گھونٹ سے ہی کسی روزہ دار کا روزہ افطار کرا دے۔ اور جو کسی روزہ دار کو پورا کھانا کھلائے گا، اللہ تعالیٰ اس کو میرے حوض(کوثر) سے ایسا سیراب کرے گا جس کے بعد اس کو کبھی پیاس نہیں لگے گی تاآنکہ وہ جنت میں داخل ہو جائے گا۔اس ماہ مبارک کا ابتدائی حصہ رحمت ہے، درمیانی حصہ مغفرت ہے اور آخری حصہ آتشِ دوزخ سے آزادی ہے۔ اور جو آدمی اس مہینے میں اپنے خادم کے کام میں تخفیف اور کمی کرے گا اللہ تعالیٰ اس کی مغفرت فرما دے گا اور اس کو دوزخ سے رہائی دے دے گا۔
جب رمضان کی پہلی رات ہوتی ہے تو شیاطین اور سرکش جنات جکڑ دیے جاتے ہیں،اور دوزخ کے سارے دروازے بند کردیے جاتے ہیںاور ان میں سے کوئی بھی دروازہ کھلا نہیں رہتا۔ اور جنت کے تمام دروازے کھول دیے جاتے ہیںاور اس کا کوئی بھی دروازہ بند نہیںرہتا۔ اور منادی کرنے والا پکارتا ہے کہ اے خیر اور نیکی کے طالب قدم بڑھا کے آگے آ،اور اے بدی کے شائق رک جا۔ اور اللہ کی طرف سے بہت سے(گناہ گار)بندوں کو دوزخ سے رہائی دی جاتی ہے۔اور یہ سب رمضان کی ہررات میں ہوتا رہتا ہے۔ (ترمذی، ابن ماجہ)
جس نے رمضان کے روزے ایمان اور ثواب کی نیت سے رکھے اس کے پہلے کے گناہ معاف کردیے جائیں گے، ایسے ہی جس نے ایمان اور ثواب کی نیت سے رمضان کی راتوں میں نوافل(تراویح و تہجد)پڑھے تو اس کے پچھلے گناہ معاف کردیے جائیںگے،اور اسی طرح جس نے شب قدر میں ایمان اور ثواب کی نیت سے نوافل پڑھے تو اس کے سابقہ گناہ معاف کردیے جائیں گے۔ (متفق علیہ)
بے شک اللہ تعالیٰ نے رمضان کے روزوںکو فرض اور اس کے قیام کونفل قراردیاہے۔ جس نے ثواب کی نیت سے روزے رکھے اور قیامِ لیل کیا،وہ گناہوں سے اس دن کی طرح پاک ہوجائے گا جس دن اس کی ماں نے اسے جنم دیا۔(مسند احمد)
یہی وجہ ہے کہ رمضان کا چاند طلوع ہوتے ہی عالمِ اسلام کے شب و روزتبدیل ہونا شروع ہوجاتے ہیں۔ مسجدیں آباد ہوجاتی ہیں۔ گھروں کے اوقات بدل جاتے ہیں۔پوری دنیا کے مسلمان اپنے رب سے لو لگا لیتے ہیں، ہر دم اس سے مغفرت کے طلب گار ہوتے ہیںاور ہر لحظہ اسے راضی کرنے میں مصروف رہتے ہیں۔کوئی بدبخت مسلمان ہی ایسا ہوگا جس کا گھر رات کے آخری حصے میں سحری کی برکتوں اورپھر شام کے وقت افطار کی گہماگہمی سے محروم رہے۔
رمضان المبارک کے مہینے کو اللہ تعالیٰ نے یہ فضیلت عطا فرمائی ہے کہ اس میں قرآن نازل ہوا جو لوگوں کے لیے سراسر ہدایت ہے اور جس میں ہدایت کی کھلی کھلی نشانیاں ہیں اور جو حق و باطل کے درمیان تمیز کرنے والی کتاب ہے۔ارشاد باری تعالیٰ ہے:
شَھْرُ رَمَضَانَ الَّذِیْٓ اُنْزِلَ فِیْہِ الْقُرْاٰنُ ھُدًی لِّلنَّاسِ وَ بَیِّنٰتٍ مِّنَ الْھُدٰی وَ الْفُرْقَانِ فَمَنْ شَھِدَ مِنْکُمُ الشَّھْرَ فَلْیَصُمْہُ۔(البقرہ ۲:۱۸۵) رمضان وہ مہینہ ہے جس میں قرآن نازل کیاگیا جو انسانوں کے لیے سراسر ہدایت ہے اور ایسی واضح تعلیمات پر مشتمل ہے جو راہ راست دکھانے والی اور حق و باطل کا فرق کھول کے رکھ دینے والی ہیں۔ لہٰذا اب سے جو شخص اس مہینے کو پائے اس کو لازم ہے کہ اس پورے مہینے کے روزے رکھے۔
رمضان المبارک کا مہینہ سالانہ جشن قرآن کا مہینہ ہے۔ دن کے وقت روزے اور رات کے وقت تراویح میں قرآن کریم سننے کی عبادت۔ رمضان المبارک کو اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کی تربیت کا ذریعہ بنایا ہے۔ ضبط نفس کی ایسی تربیت کہ بھوک اور پیاس کی شدت کے باوجود مجال ہے کہ بندۂ مومن کے وہم وگمان میں بھی یہ بات آئے کہ وہ افطاری سے قبل کوئی نوالہ یا کوئی گھونٹ حلق سے نیچے اتارے۔ مسلمان گھرانوں میں بچوں کی بھی ایسی تربیت ہوجاتی ہے کہ اگر ایک بار روزے کی نیت سے سحری کھالیں تو افطار کے وقت تک روز ے کی پابندیوں کا خیال رکھتے ہیں۔
روزہ تقویٰ کی صفت پیدا کرنے کا مؤثر ذریعہ ہے۔ ہر وقت، ہرلمحے اور ہر گھڑی یہ احساس کہ بندے نے اپنے رب کی خوشنودی کی خاطر روزہ رکھا ہے۔ بھوک اور پیاس ہر وقت اس کے دل کو اللہ سے جوڑ ے رکھتی ہے۔ تنہائی میں بھی اپنے رب کے سامنے ہونے کے احساس کی وجہ سے بندہ کھانے پینے کی ہر چیز سے پرہیز کرتاہے اور اس طرح اپنے ر ب پر ایمان کی آبیاری کرتاہے۔ اس وجہ سے اللہ تعالیٰ نے ایک حدیث قدسی میں فرمایا کہ بنی آدم کے ہر عمل کا بدلہ اسے چند درچند دیا جائے گا لیکن روزے کی بات ہی اور ہے۔ یہ خالصتاً میرے لیے ہے،اور میں اپنے فضلِخاص سے اس کا خصوصی اجر دو ں گا۔حضرت ابوہریرہ ؓ روایت کرتے ہیں:
رسولؐ اللہ نے فرمایا: آدمی کے ہر اچھے عمل کا ثواب دس گنا سے سات سو گنا تک بڑھایا جاتاہے مگر اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ روزہ اس قانون سے مستثنیٰ ہے۔ وہ (بندے کی طرف سے) میرے لیے(ایک تحفہ) ہے، اور میں ہی(جس طرح چاہوں گا) اس کا اجروثواب دوں گا۔ میرا بندہ میری رضا کی خاطر اپنی خواہشِنفس اور اپنا کھاناپینا چھوڑ دیتاہے۔ روزہ دار کے لیے دومسرتیں ہیں، ایک افطار کے وقت اور دوسری اپنے مالک کی بارگاہ میں باریابی کے وقت۔اور قسم ہے کہ روزے دار کے منہ کی بو.ُ اللہ کی نزدیک مشک کی خوشبو سے بہترہے، اور روزہ (شیطان و نفس کے حملوںاور آتشِ دوزخ سے حفاظت کے لیے)ڈھال ہے۔(متفق علیہ)
جب تم میں سے کوئی شخص کسی دن روز ے سے ہو تونہ گالم گلوچ کرے اور نہ شور وغوغا کرے، اور اگر کوئی اسے گالی دے یا جھگڑا کرے تو وہ کہہ دے کہ میں روزے سے ہوں۔(متفق علیہ)
جو آدمی روزے کی حالت میںباطل کلام اور باطل کام نہ چھوڑے تو اللہ کو اس کے بھوکا پیاسا رہنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔(بخاری)
نزولِ قرآن کے اس مبارک مہینے میں مردِ مومن کااپنے رب سے تعلق مزید استوار ہوجاتا ہے اور وہ قرآن کریم سے مزید جڑ جاتاہے۔ قرآن کریم کتابِ جہاد ہے،اور قائد المجاہدین صلی اللہ علیہ وسلم پر میدانِ جہاد میں اتری ہے۔ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نبوت کے مقام پر سرفراز ہونے کے بعد اعلاے کلمۃ اللہ اور اظہارِ دین اور اقامتِ دین کا فریضہ ادا کرنے کے لیے میدانِ جہاد میں تھے اور جہاد فی سبیل اللہ کے کام کے ہر مرحلے میں اللہ نے ان کی راہ نمائی قرآن کریم کے ذریعے کی ۔مسلمانوں کی قیامت تک آنے والی تمام نسلوں کے لیے یہی منہج الرسو ل ہے ۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے سوال کیاگیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اخلاق کیسے تھے توانھوں نے پوچھا کہ کیا تم لوگ قرآن نہیں پڑھتے ؟ کَانَ خُلُقُہُ الْقُرْآن’’بس قرآن ہی ان کا اخلاق تھا‘‘۔
رمضان، قرآن اور جہاد باہم وابستہ و پیوستہ ہیں۔ ہر سال رمضان المبارک مسلمانوں کو اپنے رب سے تعلق جوڑنے کا ایک نیا موقع فراہم کرتاہے۔ عالمِ اسلام کی تمام مسجدیں اللہ کے ذکر سے آباد ہوجاتی ہیں۔ نئی نسل کے جواں سال فرزند لاکھوں کروڑوں کی تعداد میں اپنے رب کے سامنے صف بستہ کھڑے ہوجاتے ہیں۔ آخری عشرے میں اعتکاف کی نیت سے لاکھوں فرزندانِ توحید شب و روز مسجدوں میں ڈیر ے ڈال کر اپنے رب کی بندگی میں مشغول ہوتے ہیں۔ اب قرآن کریم کی تلاوت اور حفظ کے ساتھ قرآن کریم کو سمجھنے کی تحریک بھی عام ہوگئی ہے۔ عام مردوزن کی یہ حالت ہے کہ صبح سویرے فجر کی نماز پڑھنے کے ساتھ ہی فہم قرآن کی ایک ایک کلاس میں ہزاروں مرداور خواتین کھلے میدانوں میں اکٹھے ہوجاتے ہیں اور بسا اوقات ہم نے یہ نظارہ دیکھاہے کہ عورتیں اور مرد بارش میں چھتریاں تھام کر کھلے آسمان کے نیچے قرآن کریم کا درس سننے کے لیے حاضر ہوتے ہیں۔یہی حال سیرت النبی صلی اللہ علیہ وسلم کے جلسوں کا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کے دلوں میں حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم، قرآن کریم اور جہاد کی محبت کو ایسا پیوست کردیا ہے کہ امریکا اور اس کے حواری اپنی تمام مادی برتری اور لائو لشکر اور میڈیا کی قوت کے باوجود ان کے سامنے بے بس نظر آتے ہیں۔
عشق و محبت کے اس خزانے کو اور زیادہ بہتر سمت دینے کی ضرورت ہے۔ قربانی کے جذبے کو اگر منزل کی طرف جانے والے صحیح راستے پر نہ ڈالاجائے تو یہ ہدف تک پہنچنے کے بجاے راستے ہی میں ضائع ہوجاتاہے۔ اس کے لیے اولین ضرورت یہ ہے کہ ہر فرد کسی ذمہ دار قیادت کے ساتھ وابستہ ہو اور خود فیصلہ کرنے کے بجاے جماعت کے فیصلے کی پابندی کرے۔ کسی جماعت کے ساتھ وابستگی اختیار کرنے سے قبل اطمینان حاصل کرے کہ کیا وہ جماعت قرآن و سنت کی تعلیمات کی روشنی میں ٹھیک منہجِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے مطابق عمل پیرا ہے؟ اللہ کا فرمان ہے :
لَقَدْ کَانَ لَکُمْ فِیْ رَسُوْلِ اللّٰہِ اُسْوَۃٌ حَسَنَۃٌ لِّمَنْ کَانَ یَرْجُوا اللّٰہَ وَ الْیَوْمَ الْاٰخِرَ وَ ذَکَرَ اللّٰہَ کَثِیْرًا o (الاحزاب ۳۳:۲۱) درحقیقت تم لوگوںکے لیے اللہ کے رسولؐ میں ایک بہترین نمونہ ہے، ہر اس شخص کے لیے جو اللہ اور یومِ آخر کا امید وار ہواور کثرت سے اللہ کو یاد کرے۔
حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو اللہ نے حکم دیا کہ وہ لوگوں کو اللہ کی طرف بلائیں ۔ انھوں نے اپنے اُمتیوں کو بھی یہی کہاکہ لوگوں کو توحید کی دعوت و تعلیم دیں،اور ایک اللہ کی بندگی کی طرف بلائیں ۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
قُلْ ھٰذِہٖ سَبِیْلیْٓ اَدْعُوْٓا اِلَی اللّٰہِ عَلٰی بَصِیْرَۃٍ اَنَا وَ مَنِ اتَّبَعَنِیْ وَ سُبْحٰنَ اللّٰہِ وَ مَآ اَنَا مِنَ الْمُشْرِکِیْنَ o (یوسف ۱۲:۱۰۸) تم ان سے صاف کہہ دو کہ میرا راستہ تو یہ ہے، میں اللہ کی طرف بلاتا ہوں، میں خود بھی پوری روشنی میں اپنا راستہ دیکھ رہا ہوں اور میرے ساتھی بھی، اور اللہ پاک ہے اور شرک کرنے والوں سے میرا کوئی واسطہ نہیں۔
لَقَدْ مَنَّ اللّٰہُ عَلَی الْمُؤْمِنِیْنَ اِذْ بَعَثَ فِیْھِمْ رَسُوْلًا مِّنْ اَنْفُسِھِمْ یَتْلُوْا عَلَیْھِمْ اٰیٰـتِہٖ وَ یُزَکِّیْھِمْ وَ یُعَلِّمُھُمُ الْکِتٰبَ وَ الْحِکْمَۃَ وَ اِنْ کَانُوْا مِنْ قَبْلُ لَفِیْ ضَلٰلٍ مُّبِیْن o (اٰل عمران۳:۱۶۴) درحقیقت اہلِ ایمان پر تو اللہ نے یہ بہت بڑا احسان کیا ہے کہ ان کے درمیان خود انھی میں سے ایک ایسا پیغمبر اٹھایا جو اس کی آیات انھیں سناتاہے، ان کی زندگیوں کو سنوارتا ہے اور ان کو کتاب اور دانائی کی تعلیم دیتا ہے، حالانکہ اس سے پہلے یہی لوگ صریح گمراہیوں میں پڑے ہوئے تھے۔
حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس تربیت یافتہ گروہ کو دعوت الیٰ اللہ، امر بالمعروف و نہی عن المنکر اور لوگوں کی خدمت کے کام پر لگایا، یہاں تک کہ ایک اسلامی حکومت قائم کی اور اس اسلامی حکومت کو بھی دعوت الی اللہ ، امر بالمعروف نہی عن المنکر اور نظام عدل و قسط رائج کرنے کے لیے استعمال کیا۔مومنین کی یہ خصوصیت ہے کہ اللہ جب ان کو اقتدار بخشتا ہے تو وہ یہی کام انجام دیا کرتے ہیں۔ خود اللہ ربِ ذوالجلال نے اس کی نشان دہی کرتے ہوئے فرمایا:
اَلَّذِیْنَ اِنْ مَّکَّنّٰھُمْ فِی الْاَرْضِ اَقَامُوا الصَّلٰوۃَ وَ اٰتَوُا الزَّکٰوۃَ وَ اَمَرُوْا بِالْمَعْرُوْفِ وَ نَھَوْا عَنِ الْمُنْکَرِ وَ لِلّٰہِ عَاقِبَۃُ الْاُمُوْرِ o (الحج۲۲:۴۱) یہ وہ لوگ ہیں جنھیں اگر ہم زمین میں اقتدار بخشیںتو وہ نماز قائم کریں گے، زکوٰۃ دیں گے، نیکی کا حکم دیں گے اور برائی سے منع کریں گے۔ اور تمام معاملات کا انجامِ کار اللہ کے ہاتھ میں ہے۔
حضورنبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہرمرحلے پر نظامِ عدل و انصاف نافذ کرنے کی ترجیحات کا لحاظ کیا۔ مکہ مکرمہ کی زندگی میں زبانی دعوت پر اکتفا کیا۔ شرک سے لوگوں کو منع کیا، تو حید کی تعلیم دی لیکن کسی بت کو تو ڑنے کی اجازت نہیں دی۔ یہاں تک کہ کعبے میں سیکڑوں بت سجاے گئے تھے اور حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم بتوں کی موجودگی کے باوجود کعبے کا طواف کرتے تھے۔ بتوں کی برائی کرتے تھے اور اس گندگی سے لوگوں کو خبردار کرتے تھے لیکن کبھی کسی مسلمان نے مکی زندگی میں کسی بت کو نقصان نہیں پہنچایا۔ صلح حدیبیہ کے اگلے سال حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم عمرہ ادا کرنے کے لیے مسلمانوں کی ایک بڑی تعداد کو لے کر مکہ پہنچے، عمرہ ادا کیااور کعبۃ اللہ کا طواف کیا لیکن کسی بت کو توڑے اور کسی کافر اور مشرک کے ساتھ الجھے بغیر واپس مدینہ منورہ تشریف لے گئے۔ اس کی وجہ یہ نہیں تھی کہ العیاذ باللہ انھوںنے مشرکینِ مکہ کے ساتھ کوئی مفاہمت کر لی تھی۔ شرک اور مشرکین کے ساتھ مفاہمت تو انھوں نے اس وقت بھی نہیں کی جب مفاہمت کے بدلے میںمشرکینِ مکہ سرداری اور مال و دولت سمیت ہرطرح کے دنیاوی مفادات دینے کے لیے آمادہ تھے۔ان کی اس خواہش کا قرآن کریم میں بھی ذکر ہے:
وَدُّوْا لَوْ تُدْھِنُ فَیُدْھِنُوْنَ o (القلم ۶۸: ۹) یہ توچاہتے ہیں کہ کچھ تم مداہنت کروتو یہ بھی مداہنت کریں۔
چچا حضور! اللہ کی قسم اگر یہ لوگ میرے دائیں ہاتھ میں سورج اور بائیں ہاتھ میں چاند بھی رکھ دیںاور چاہیں کہ میں یہ کام چھوڑ دوں تو میں ہرگز اس سے پیچھے نہ ہٹوں گایہاں تک کہ اللہ تعالیٰ اس کو غالب کر دے یا میں اس راستے میں قربان ہوجاؤں۔(رواہ الالبانی)
حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس وقت خانہ کعبہ کو بتوں سے صاف کیا جب جزیرہ نما عرب میں مشرکین کا زور مکمل طور پر ٹوٹ گیا اور اس کے بعد کسی کے اندر یہ ہمت نہ رہی کہ وہ دوبارہ بتوں کو خانہ کعبہ میں نصب کرسکے۔ توحیدکی تعلیم کو راسخ کرنا، آخرت کی جواب دہی کے احساس کو قلب و روح میں سمودینا اور اللہ کی محبت سے مومنین کو سرشار کرنا وہ بنیادی کام تھا جس کے بعد ہرحکم کی تعمیل آسان ہوگئی۔
حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے چند کبیرہ گناہوں کے علاوہ عام احکام کی خلاف ورزی پر نہ کوئی حد قائم کی نہ ہی تعزیر دی، مثلاً پردے کا حکم آنے کے بعد بھی کسی روایت سے یہ ثابت نہیں ہے کہ پردہ نہ کرنے پر کسی مسلمان خاتون کو تعزیری سزا دی گئی ہو۔ داڑھی نہ رکھنے یا موسیقی سننے پر سزا دینے کی بھی کوئی روایت موجود نہیں ہے۔ میرے علم میں کوئی ایسا واقعہ نہیںہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم یا خلفاے راشدین رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین نے ان برائیوںپر کوئی سزا نافذ کی ہو۔ ان تمام برائیوںکو تعلیم و تربیت ، ترغیب ، آخرت کے خوف اور اللہ کا تقویٰ پیدا کرکے مٹانے کی کوشش کی گئی۔
حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور خلفاے راشدین رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین کی سیرت کی روشنی میں اس کا کوئی جواز نہیں ہے کہ بچیوں کے سکولوں کو برباد کیا جائے یا حجاموں کو نوٹس دیا جائے۔ اس طرح کے اعمال سے اس بنیادی مقصد سے توجہ ہٹ جاتی ہے جس کے لیے اللہ نے انبیا اور رسولوں کو بھیجا ہے اور جس کی واضح تصریح قرآن کریم میں موجود ہے:
لَقَدْ اَرْسَلْنَا رُسُلَنَا بِالْبَیِّنٰتِ وَاَنْزَلْنَا مَعَہُمُ الْکِتٰبَ وَالْمِیْزَانَ لِیَقُوْمَ النَّاسُ بِالْقِسْطِ (الحدید ۵۷: ۲۵) ہم نے اپنے رسولوںکو صاف صاف نشانیوں اور ہدایات کے ساتھ بھیجا، اور ان کے ساتھ کتاب اور میزان نازل کی تاکہ لوگ انصاف پر قائم ہوں۔
نظامِ عدل اور اس کا قیام ہی وہ بنیادی مقصد ہے جس کے لیے اللہ نے رسول اور کتابیں بھیجیں۔بدامنی، فتنہ اور بھوک کو ختم کرنابھی بنیادی ترجیحات میں سے ہے اور اس کے لیے لوگوں کو ترغیب دینا اور اس کے لیے عدل و انصاف پر مبنی نظام قائم کرنا مسلمانوں کا فرض ہے ۔
رمضان المبارک کا مہینہ ہمیں یہ موقع فراہم کرتاہے کہ ہم عوام الناس کو حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی اصل سنت کی طرف متوجہ کریں۔ یہ سنت اقامتِ دین کی جدوجہد ہے، یہ سنت غلبۂ اسلام اور اظہارِ دین جیسے عظیم المرتبت فریضے کی ادایگی ہے جس کو حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ کی بعثت کا مقصد قرار دیا گیا ہے:
ھُوَ الَّذِیْٓ اَرْسَلَ رَسُوْلَہٗ بِالْھُدٰی وَدِیْنِ الْحَقِّ لِیُظْہِرَہٗ عَلَی الدِّیْنِ کُلِّہٖ وَکَفٰی بِاللّٰہِ شَھِیْدًا o (الفتح ۴۸: ۲۸) وہ اللہ ہی ہے جس نے اپنے رسولؐ کو ہدایت اور دینِ حق کے ساتھ بھیجا ہے تاکہ اس کو پوری جنسِ دین پر غالب کردے اور اس حقیقت پر اللہ کی گواہی کافی ہے۔
اِلَّا تَنْصُرُوْہُ فَقَدْ نَصَرَہُ اللّٰہُ اِذْ اَخْرَجَہُ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا ثَانِیَ اثْنَیْنِ اِذْ ھُمَا فِی الْغَارِ اِذْ یَقُوْلُ لِصَاحِبِہٖ لَاتَحْزَنْ اِنَّ اللّٰہَ مَعَنَا فَاَنْزَلَ اللّٰہُ سَکِیْنَتَہٗ عَلَیْہِ وَ اَیَّدَہٗ بِجُنُوْدٍ لَّمْ تَرَوْھَا وَ جَعَلَ کَلِمَۃَ الَّذِیْنَ کَفَرُوا السُّفْلٰی وَ کَلِمَۃُ اللّٰہِ ھِیَ الْعُلْیَا وَاللّٰہُ عَزِیْزٌ حَکِیْمٌ o (التوبۃ ۹: ۴۰) تم نے اگر نبی ؐکی مدد نہ کی تو کچھ پروا نہیں، اللہ اس کی مدد اس وقت کرچکا ہے جب کافروں نے اسے نکال دیا تھا، جب وہ صرف دو میں کا دوسرا تھا، جب وہ دونوں غار میں تھے، جب وہ اپنے ساتھی سے کہہ رہا تھا کہ ’غم نہ کر‘اللہ ہمارے ساتھ ہے۔اس وقت اللہ نے اس پراپنی طرف سے سکونِ قلب نازل کیا اور اس کی مدد ایسے لشکروں سے کی جو تم کو نظر نہ آتے تھے اور کافروں کا بول نیچا کردیا۔ اور اللہ کا بول تو اونچا ہی ہے، اللہ زبردست اور دانا و بیناہے۔
اعلاے کلمۃ اللہ کے کام میں مسلمانوں پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی مدد کرنالازم کردیاگیاہے۔ یہ کامیابی اور نجات کے لیے ضروری ہے ،قرآن کریم کے مطابق اب ہدایت یافتہ صرف وہی لوگ ہیں جو حضورنبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی کرتے ہیں:
(پس آج یہ رحمت ان لوگوں کا حصہ ہے)جو اس پیغمبر،نبی امی(صلی اللہ علیہ وسلم) کی پیروی اختیار کریں جس کا ذکر انھیں اپنے ہاں تورات اور انجیل میں لکھا ہوا ملتا ہے۔ وہ انھیں نیکی کا حکم دیتا ہے، بدی سے روکتا ہے، ان کے لیے پاک چیزیں حلال کرتا ہے اور ناپاک چیزیں حرام کرتا ہے،اور ان پر سے وہ بوجھ اتارتاہے جو ان پر لدے ہوئے تھے،اور وہ بندشیں کھولتا ہے جن میںوہ جکڑے ہوئے تھے۔لہٰذاجو لوگ اس پر ایمان لائیں اور اس کی حمایت اور نصرت کریںاور اس روشنی کی پیروی اختیار کریں جو اس کے ساتھ نازل کی گئی ہے، وہی فلاح پانے والے ہیں۔(الاعراف ۷: ۱۵۷)
حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کا مقصد قرآن کریم اور سیرت رسول ؐسے بالکل واضح ہے۔ اس مقصد کو لوگوں کے ذہن نشین کرنے کے لیے تکرار کے ساتھ لوگوں کے سامنے قرآن کریم اور حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت سے دلائل،واضح ہدایات اور احکامات بیان کرنے کی ضرورت ہے۔ رمضان کا مہینہ اس کام کے لیے نہایت موزوں ہے۔
رمضان المبارک جو بدر،تبوک اور فتح مکہ کے غزوات کامہینہ ہے، جو قرآن کریم کے نزول کا مہینہ ہے ،جو صبر و ثبات اور ضبط ِنفس کامہینہ ہے، ہم سے تقاضا کرتاہے کہ اللہ کے ساتھ تعلق جوڑیں اور اللہ کے راستے میں ایسا جہاد کریں جیساجہاد کرنے کا حق ہے ۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
اللہ کی راہ میں جہاد کروجیسا کہ جہاد کرنے کا حق ہے۔ اس نے تمھیں اپنے کام کے لیے چن لیا ہے اور دین میں بھی تم پر کوئی تنگی نہیں رکھی۔ قائم ہو جاؤ اپنے باپ ابراہیم ؑکی ملت پر۔ اللہ نے پہلے بھی تمھارا نام ’مسلم‘ رکھا تھا اور اس (قرآن)میں بھی (تمھارا یہی نام ہے)۔ تاکہ رسول ؐتم پر گواہ ہو اور تم لوگوں پر گواہ۔ پس نماز قائم کرو، زکوٰۃ دو، اور اللہ سے وابستہ ہو جاؤ۔ وہ ہے تمھارا مولیٰ۔ بہت ہی اچھا ہے وہ مولیٰ اور بہت ہی اچھا ہے وہ مددگار۔ (الحج ۲۲: ۷۸)
اس وقت پوری دنیا میں اُمتِ مسلمہ ایک کش مکش سے گزررہی ہے۔ دہشت گردی کے خلاف جنگ کے نام سے پوری دنیا میں مسلمانوں کے خلاف امریکا کی سرکردگی میں دہشت گردی کا بازار گرم ہے۔ نہایت افسوس کی بات یہ ہے کہ اسلام اور مسلمانوں کے خلاف اس جنگ میں اکثر مسلم ممالک کے حکمران امریکا کا ساتھ دے رہے ہیں۔ بظاہر یہ ایک بڑے ابتلا کا دورہے۔ سوویت یونین کے منتشر ہونے کے بعدسے امریکا اس زعمِ باطل میں مبتلا ہوگیاہے کہ اب انسانیت کے مستقبل کا فیصلہ اکیلا وہی اپنی مرضی سے کرے گا۔ اس کا خیال تھاکہ اب وہ دنیا کی واحد سپرپاورہے ۔ اس کی مادی اور عسکری قوت کے سامنے کسی کو پر مارنے کی جرأت نہیں ہوگی۔ پوری دنیا پر اس کاتہذیبی غلبہ ہوگا۔ تمام انسانوں کو ان کی اقدار کے مطابق پسند و نا پسند کا فیصلہ کرنا پڑے گا۔ مسلمانوں کے وسائل لوٹنے اوردنیا پر اپنی دھاک بٹھانے کے لیے اس نے عراق اور افغانستان پر حملہ کیااور اب ایران کو دھمکیاں دے رہاہے،اور اس کے صدارتی امیدوار اور مجالسِ دانش (think tanks) پاکستان میں گرم تعاقب کی باتیں کررہے ہیں۔
lفلسطین میں مسلمان عملاً محاصرے میں ہیں۔ ان کی زندگی اجیرن کردی گئی ہے۔ غزہ کی پٹی اور دریاے اردن کا مغربی کنارہ ان کے لیے جیل بنادیاگیاہے۔ اسرائیلی جب چاہتے ہیں اور جیسے چاہتے ہیں انھیںاپنے ظلم اورتذلیل کا نشانہ بناتے ہیں۔لیکن یہ سب کچھ کرنے کے بعد بھی اسرائیل کواپنے وجود کی بقا پر یقین نہیں ہے۔ انھیں معلوم ہے کہ زبردستی چھینی ہوئی زمین پروہ ہمیشہ کے لیے سلامتی سے نہیں رہ سکتے۔ انھیں اس خود دار قوم کاسامناہے جس کے بچے تیغوں کے سائے میں پل کر جوان ہوئے ہیں۔ اللہ کی رضا ان کی غایت ہے، محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ان کے قائد و رہنما ہیں، قرآن ان کا دستور ہے، جہاد ان کا طریقِزندگی ہے اور اللہ کے راستے میں موت ان کی سب سے بڑی آرزو ہے۔ ہم جب بھی مسلح اسرائیلی سپاہیوں کے سامنے بے نیازی اور وقار کے ساتھ گزرتے ہوئے فلسطینی بچوں اور محترم اور باپردہ خواتین کو دیکھتے ہیں تو ہمارا یہ یقین تازہ ہوجاتاہے کہ اس خود دار اور جذبۂ حریت سے سرشار قوم کو غلام بنایا جاسکتاہے نہ ہمیشہ اپنے گھروں سے باہر رکھا جاسکتاہے۔ انھیں ایک دن ان شاء اللہ ضرور اپنے وطن کی طرف واپس جانا ہے۔
جموں کے ہندوئوں نے اس کا بدلہ لینے کے لیے مسلمانوں پر حملے شروع کر دیے اور ان کا محاصرہ کرکے ان کے پھلوں اور دیگر اشیا کو باہر جانے سے روک دیا جس سے انھیں ۲ہزار کروڑ سے زائد کا نقصان برداشت کرنا پڑا ہے۔ کشمیر کے تاجروں نے یومِ سیاہ کی اپیل کی اور کنٹرول لائن کی طرف ’مظفر آبادچلو‘مارچ شروع کر دیا تاکہ وہ آزاد کشمیر کے مسلمانوں کے ہاتھ اپنا تجارتی مال بیچ سکیں ۔ بھارتی فوج نے ان کے اس پُرامن مارچ پر فائرنگ کی جس کے نتیجے میں شیخ عبدالعزیز سمیت بیسیوں کشمیری شہیداور سیکڑوں زخمی ہو گئے ۔ اس کے نتیجے میں لاکھوں کشمیری سڑکوں پر آگئے،اور بھارتی فوج کو تاریخ میں پہلی دفعہ ایک ساتھ پورے کشمیر میں کرفیو نافذ کرناپڑا۔ صرف سری نگر میں دو دفعہ تین تین لاکھ کے جلوس نکلے اور پاکستان کے حق میں نعرے لگائے گئے۔ کشمیریوں کی دو نسلیں جوانی اور بڑھاپے کی سرحد عبور کر کے اپنے خالق کے پاس پہنچ چکی ہیں لیکن بھارت کی یہ آرزو پوری نہیں ہو سکی ہے کہ کشمیری مسلمان اپنے آپ کو بھارتی شہری تسلیم کرنے پر آمادہ ہوجائیں۔ کشمیری مسلمان آج بھی اپنامستقبل خود منتخب کرنے کے حق کے لیے ہر طرح کی قربانی دینے پر آمادہ ہیں اور انھوں نے ایک بار پھر دنیا پر واضح کردیا ہے کہ وہ بھارتی تسلط کو تسلیم نہیں کرتے اور پاکستان کے ساتھ الحاق چاہتے ہیں۔
مقبوضہ کشمیر کے مسلمان تکمیل پاکستان کی جنگ لڑ رہے ہیںمگر پاکستانی حکومت کا رویہ انتہائی قابلِ افسوس وقابل مذمت ہے ۔اس نے کشمیریوں کو بھارت کے رحم و کرم پر چھوڑ دیاہے ۔ حکومت پاکستان نہ تو حالیہ مظالم پر اقوام متحدہ میں مؤثر آواز اٹھا سکی ہے اور نہ ہی اس مسئلے پر اوآئی سی کا اجلاس طلب کیاجا سکا ہے، بلکہ کشمیریوںکے اقتصادی اور نسلی قتلِ عام کو نظر اندازکرتے ہوئے واہگہ بارڈر پراس سال حکومتی سرپرستی میںمشترکہ جشن آزادی منایاگیا ہے، اور ’رل مل روٹی کھائیے ‘ کے نعرے لگائے گئے،اور لاہور میں ’ڈراما یاترا،۱۹۴۷‘ کے بینرز لگا کراورڈرامے رچاکر تحریک آزادی کے لاکھوں شہیدوں کے خون اور مسلمانانِ برعظیم کی بے مثال قربانیوں کا مذاق اڑایاگیا۔ یہ سب ایسے وقت میں ہوا جب تخت لاہور پرقائد اعظم کی نام لیوا اور نظریہ پاکستان کی حفاظت کرنے کی دعوے دار مسلم لیگ (ن) کی حکومت ہے۔ وزیر اعلیٰ پنجاب شہباز شریف کو اس سوال کا جواب دینا چاہیے کہ ہماری نظریاتی و جغرافیائی سرحدیں کس کی اجازت سے پامال کی جارہی ہیں، اور نظریہ پاکستان کے خلاف سرگرم ان این جی اوز کو کیوں کھلی چھٹی دی گئی ہے۔ پاکستان کے حکمران کشمیریوں کے ساتھ بے وفائی کرسکتے ہیں مگر۱۶ کروڑ پاکستانی عوام کے دل کشمیری مسلمانوں کے ساتھ دھڑکتے ہیں اور وہ ان کے ساتھ کلمہ طیبہ کے رشتے کو نہیں بھلا سکتے ۔
قبائلی علاقوں اورصوبہ سرحد کی صورت حال بھی حکومت کی فوری توجہ کی متقاضی ہے۔ صوبائی چیف سیکرٹری کے اپنے بیان کے مطابق باجوڑ ایجنسی کی نصف آبادی ہوائی جہازوں کی شدید بم باری اور گولہ باری کے نتیجے میں نقل مکانی پر مجبور ہوئی ہے۔ ضلع سوات کے ایک علاقے کے لوگ شدید گولہ باری کی وجہ سے دوسرے علاقوں کی طرف کوچ کرنے پر مجبور ہوئے ہیں۔ اس بم باری اور گولہ باری کے نتیجے میں اب تک سیکڑوں لوگ قتل اور ہزاروں لوگ زخمی ہوئے ہیں۔ نقل مکانی کرنے والوں کے لیے جماعت اسلامی نے سواریوں کا انتظام کیا ہے اور ریلیف کیمپ قائم کیے ہیں ۔ ایک ایک کیمپ میں ہزاروں لوگ پناہ گزیں ہیں۔
خیبر ایجنسی، مہمند ایجنسی اور کرم ایجنسی کا حال بھی مختلف نہیں ہے۔ یہ وہ علاقے ہیں جہاں پوری فوج کی حفاظت کے لیے ہر وقت تیار ہزاروں تربیت یافتہ جاںنثار سربکف مجاہدین مہیا تھے۔ اپنے لوگوں پر امریکی مفادات کی خاطر ظلم ڈھانے والی فوج کیا اب بھی توقع رکھتی ہے کہ ان لوگوں کے دلوں میں اس کے لیے کوئی نرم گوشہ باقی ہوگا۔ دشمن کی اس سے زیادہ خدمت کیا ہوسکتی ہے کہ فوج اور عوام کے درمیان نفرت کے بیج بوئے جائیں۔
پاکستان کے غریب عوام اپنی بنیادی ضروریاتِ زندگی سے محروم ہیں،اور کروڑوں عوام خطِ غربت سے نیچے زندگی گزار رہے ہیں،اور ان میں مسلسل اضافہ ہورہاہے۔ دوسری طرف غیرملکی اکاؤنٹس اورتجوریاں بھری جا رہی ہیں۔ ملک میں گندم،چینی،سیمنٹ اور اشیاے خوردونوش کے بحران اس لیے نہیں آتے کہ یہ چیزیں موجود نہیںہوتیں بلکہ انھیں ذخیرہ کرلیا جاتا ہے۔ اور سارے ذخیرہ اندوز اور مل مالکان اسمبلیوں میں بیٹھے ہیں اور ان میں سے بعض مرکز اور صوبوں میں وزارتوں کے مزے لوٹ رہے ہیں۔ ایسے حکمرانوں کو بدلنے کے لیے جدوجہد کرنا فرض اور جہاد ہے ۔ یہ کام ہتھیار اٹھانے اوربم دھماکوںکے بجاے عوام کی منظم اور پُرامن جدوجہد سے ہو گا ۔
پرویز مشرف رخصت ہوچکے۔ان کے استعفے کا بڑا سبب یہ بناہے کہ فوج نے ان کا مزید ساتھ دینے سے صاف انکار کردیا ۔ اگر چیف آف آرمی سٹاف غیر جانب دار انہ رویہ اختیار نہ کرتا تو پرویز مشرف ڈھٹائی کا رویہ چھوڑنے پر کبھی آمادہ نہ ہوتا۔ سویلین حکمرانوں کو یہ بات ذہن نشین رکھنی چاہیے کہ ملک میں اب بھی فوج اور فوج کا چیف سب سے زیادہ طاقت ور ادارے ہیں جو امریکا اور مغربی اقوام کی گرفت میں ہیں اور ان کے تہذیبی اور معاشی مفادات کے محافظ ہیں۔ اگر سویلین حکومت چاہتی ہے کہ ملک میں جمہوری روایات جڑ پکڑ سکیں اور ملک کو بار بار کی فوجی مداخلت سے نجات ملے تو انھیں امریکا کے بجاے عوامی امنگوں کا ساتھ دیناہوگا۔ پرویز مشرف کی غیر مقبولیت کی بڑی وجہ ان کی امریکا نوازی اور اسلام دشمن پالیسیاں تھیں: افغان عوام کی آزادی کے خلاف امریکا اور ناٹو افواج کا ساتھ دینا، نام نہاد دہشت گردی کے خلاف امریکا کا صفِ اول کا حلیف ہونے پر فخر کرنا، اللہ تعالیٰ اور عوام کی دوستی کے بجاے امریکی دوستی کا سہارا لینا ، کشمیر پر سودے بازی کرنا، کرپشن کا خاتمہ کرنے کے بجاے فوج او ر سیاست دانوں کے لیے مزید کرپشن کے راستے کھولنا، محسنِ پاکستان ڈاکٹر عبدالقدیر خان کو قید و بند میں ڈالنااورپوری دنیا میں انھیںرسوا کرنا۔
پرویز مشرف کا ایک بڑا جرم یہ ہے کہ اس نے ملک کو اپنی نظریاتی اساس سے ہٹانے کی کوشش کی، آئین کو دوبار پاؤں تلے روندا اور اعلیٰ عدالتوں کے معزز ججوں کو غیر آئینی اور غیر قانونی طور پر جبری معطل کیا اور ان کی جگہ اپنے من پسند ججوں کو تعینات کیا۔ امریکی اشارے پر نظامِ تعلیم اور نصابِ تعلیم میں تبدیلیاں کیں۔ سوات ،وزیرستان ، باجوڑ ، مہمند ایجنسی، خیبر ایجنسی اور بلوچستان میں فوجی آپریشن کرکے فوج اور عوام کے درمیان امریکی مفادات کی خاطرنفرت کی خلیج حائل کی اور بغاوت کے بیج بوئے۔ لال مسجد اور جامعہ حفصہ کے مسئلے پر کامیاب مذاکرات کو سبوتاژ کیا اور ہزاروں معصوم بچیوں اورطلبہ کو فاسفورس بموں اور گولیوں سے بھسم کرایا ۔ مدارس پر چھاپے مارے، اور مجاہدین ،علماے کرام اور ہزاروں لوگوں کو حقیر مالی مفادات کے عوض امریکا کے حوالے کیا جس کا اعتراف اس نے خود اپنی کتاب میں کیاہے۔
حال ہی میں ایک بہادر مسلمان خاتون ڈاکٹر عافیہ صدیقی کا واقعہ دنیا کے سامنے آگیا ہے جو پاکستانی حکام کی بے ضمیری اور بے حمیتی کامنہ بولتا ثبوت ہے۔اسے مارچ ۲۰۰۳ ء میں کراچی کی سڑک سے پاکستانی ایجنسیوں نے اغوا کیاتھا۔ اس کے خاندان کے افراد کوایجنسیوں کے اہل کاروں نے ڈرا دھمکا کر خاموش کرادیاتھااور سالہا سال تک لوگوں کے سامنے اس بہادر خاتون کے بارے میںمعلوم بھی نہیں ہوسکاتھاکہ وہ کہاں ہے اورکس ظلم کا شکار ہے۔ حکومت پاکستان اس وقت تک خاموش رہی جب تک مغربی میڈیا کے ذریعے پتا چلا کہ بگرام ائیر بیس پر ایک پاکستانی خاتون قید ہے، اور اس سے انتہائی غیر انسانی سلوک روا رکھا جا رہاہے۔ اب اسے ایک سراسر جھوٹے اورلغو مقدمے میں امریکی عدالت کے سامنے پیش کیا گیا ہے مگر اس کے تین بچوں کا ابھی تک کہیں اتا پتا نہیںہے۔ ۱۱ ستمبر کے بعد سے پاکستان کو امریکی جنگ میں جھونک دینے والے حکمرانوں سے یہ نہیں ہو سکا کہ وہ قوم کی بیٹی کی واپسی کا مطالبہ کرسکیں۔ اس طرح کی کہانی آمنہ مسعود جنجوعہ کی ہے جو دوسری ہزاروں خواتین اور بزرگوں کے ہمراہ اپنے پیاروں کی تلاش میں سرگرداں ہے جنھیں پاکستانی ایجنسیوں نے غائب کررکھاہے یا امریکا کے حوالے کردیا ہے۔
ہمارے خیال میںبظاہرمواخذے کی گرد اڑا کر اس کی آڑ میں پرویز مشرف کو محفوظ راستہ دینے کے انتظامات کیے گئے۔ اگرایک قومی مجرم کاٹرائل نہ کیاگیا توعوام یہ سمجھنے میں حق بجانب ہوں گے کہ پیپلز پارٹی اس احسان کا بدلہ اتار رہی ہے جوپرویز مشرف نے این آر او کے تحت قومی خزانے سے لوٹے ہوئے اربوں ڈالر کے اندرون و بیرون ملک مقدمات واپس لے کر کیا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ پرویز مشرف کو محفوظ راستہ دینے کا مشورہ دینے والے ملک و قوم کے خیر خواہ نہیں ہیں۔ جو لوگ یہ کہہ رہے ہیں وہ امریکا کے گیم پلان پر عمل کررہے ہیںاور امریکی اشاروں کے تابع ہیں۔
یہ ہمارا قومی المیہ ہے کہ آج تک ملک کا آئین توڑنے والے کسی فوجی ڈکٹیٹر کا احتساب نہیں ہوا بلکہ یہاںملک توڑنے والے فوجی آمر کو مرنے کے بعد قومی اعزاز کے ساتھ سپرد خاک کیا گیا ۔ یہی وجہ ہے کہ ملک کا آئین بار بار فوجی بوٹوں تلے روندا جاتارہاہے ۔ آئین توڑنے والوں میں سے کسی ایک کو آئین میں درج سزا دے دی جاتی تو کسی اور کو آئین توڑنے کی جرأت نہ ہوتی۔ اس پس منظر میں قوم کا مطالبہ ہے کہ پرویز مشرف پرآئین کے آرٹیکل ۶کے تحت مقدمہ چلایا جائے اور اُسے قرار واقعی سزا دی جائے تاکہ آیندہ کوئی جرنیل آئین توڑنے کی جرأت نہ کر سکے۔
انصاف کا تقاضا یہ ہے کہ سپریم کورٹ اور ہائی کورٹ کے ججوں کی بحالی کے بعد پرویز مشرف کوسپریم کورٹ کے سامنے پیش کیا جائے اور اس پر آرٹیکل ۶ کے تحت مقدمہ چلایا جائے۔ نام نہاد قومی مفاہمت کے آرڈی ننس (این آر او)کو بھی عدالت میں پیش کیا جائے تاکہ پوری قوم کے ساتھ انصاف ہوا ور جن لوگوں نے قومی مفادات کے خلاف عمل کیا ہے یا قومی دولت کو ناجائز طریقوں سے لوٹاہے اور بیرون ملک منتقل کیا ہے ان کو قرار واقعی سزا مل سکے۔ اگر حکمران انصاف کے راستے میں حائل ہوگئے یا اپنے آپ کو انصاف سے بالا تر بنانے کی کوشش کی تو وہ نہ قوم کا کوئی بھلا کرسکیں گے اور نہ خود ہی دنیا و آخرت میں سرخ رُوئی حاصل کرسکیں گے۔
اگر حکمرانوں نے ماضی سے سبق سیکھاہے تو وقتی کامیابی پر خوشی منانے کے بجاے انھیں پرویز مشرف کی غلط پالیسیوں کو خیر باد کہنا پڑے گااور نئے سرے سے پالیسیاں تشکیل دینی ہوںگی۔پالیسیاں بنانے کی قومی خودمختار ی واپس حاصل کرنی پڑے گی اور خارجہ پالیسی میں بنیادی تبدیلیاں لانی ہوں گی ۔اور اہم بات یہ ہے کہ ملکی معاملات کو چلانے میں دستور کی پابندی کرنی پڑے گی۔
۱- ہمارا ملک ایک اسلامی نظریاتی ریاست ہے ۔ اسلام کا نظریہ اس کی بنیادوں میںشامل ہے۔ یہ کہنا کہ قائد اعظم ایک سیکولر ریاست چاہتے تھے ایک لغوبات ہے کیونکہ قائد اعظم برعظیم ہندوپاک کے مسلمانوں کو سیکولرازم کا نعرہ دے کر نہ متحدکرسکتے تھے نہ انھیں کسی جدوجہد پر آمادہ کرسکتے تھے۔ پاکستان قائد اعظم نے کسی ڈرائنگ روم میں بیٹھ کر نہیں بنایا بلکہ پورے برعظیم کے کروڑوں لوگوں کا تعاون حاصل کرکے بنایا ہے جن میں کروڑوں لوگوں کو یہ بھی معلوم تھاکہ وہ اس نئے وجود میں آنے والے ملک کا حصہ نہیں بنیں گے لیکن انھوں نے محض اس لیے اس جدوجہد کا ساتھ دیا کہ وہ دنیا کے نقشے پر ایک آزاد اسلامی ریاست کا قیام چاہتے تھے جو امت مسلمہ کے لیے تقویت کا باعث بنے گی۔ قائداعظم کی۱۱ ستمبر۱۹۴۷ء کی تقریر کو جو لوگ سیکولرازم کے ثبوت کے طور پر پیش کرتے ہیں وہ قائد اعظم پر ایک بہت بڑی تہمت باندھتے ہیں۔ ان لوگوں کی خلافِ اسلام کوششوں کے باوجود پاکستان کی پہلی دستور ساز اسمبلی نے قرار دادِ مقاصد پاس کی جو پاکستانی دستور کی مستقل بنیاد ہے۔ اس قرارداد میں اللہ کی حاکمیت اور قرآن و سنت کی حدود میں رہ کر زندگی بسر کرنے اور قرآن و سنت کے مطابق قانون سازی کرنے کا عہد کیاگیاہے۔
۲- دوسری بنیاد یہ ہے کہ عوام کے منتخب نمایندوں پر مشتمل پارلیمنٹ کو تمام دوسرے اداروں پر بالادستی حاصل ہے اور دوسرے تمام ادارے عوام کی منتخب مجلس کی اطاعت کریں گے ۔
۳- تیسر ی بنیاد یہ ہے کہ انتظامیہ اور عدلیہ علیحدہ ہیں اور عدلیہ فیصلے کرنے میں آزاد ہے۔ سپریم کورٹ کی راہ نمائی میں ملک کا عدالتی نظام ہر طرح کے سیاسی و انتظامی دبائو سے آزاد ہوگا۔
۴- دستور میں صوبائی خودمختاری کی حدود متعین کردی گئی ہیں اور صوبوں کی خودمختاری کا احترام کرنا مرکزی اداروں کا فرض ہے۔ وفاق بھی صوبائی خودمختاری کا احترام کرے گا۔
۵- افواجِ پاکستان ایک محترم ادارہ ہے جو پارلیمنٹ اور منتخب حکومت کے تابع ہے۔ ہرفوجی سیاسی معاملات میں عدمِ مداخلت کا حلف اٹھاتا ہے۔ جو حلف توڑتا ہے، غداری کا مرتکب ہوتا ہے۔
۶- دستور میں صدر اور وزیراعظم، مرکزی حکومت اور صوبائی حکومت ،عدلیہ ،مقننہ اور انتظامیہ کے حدود اور باہمی تعلق کی پوری وضاحت موجود ہے۔
اگر منتخب حکومت ماضی کے تلخ تجربات کو سامنے رکھ کر دستوری حدود کے اندر رہے گی اور ہر طرح کی بدعنوانیوں کے داغ سے اپنے آپ کو محفوظ رکھے گی تو فوج کو یہ ہمت نہیں ہوسکے گی کہ وہ منتخب حکومت کے خلاف اقدام کرسکے۔ لیکن اگر وہ دستور اور قانون سے تجاوز کریں گے اور اظہارِ راے ، اجتماع ، پرامن جلسے جلوس اور پریس کی آزادی کو سلب کرنے کا رویہ اختیار کریں گے تو وہ خود اپنے پائوںپر کلہاڑی ماریں گے۔
امید ہے کہ سابقہ تجربات سے سبق حاصل کرکے حکمران انصاف اور میر ٹ کا بول بالا کریں گے اور عدل و انصاف کے سامنے خود اپنے آپ کو بھی پیش کریں گے اور اپنے تعلق کی بنا پر کسی کو رعایت نہیں دیں گے اور اپنے مخالفین کو بھی سیاسی انتقام کا نشانہ بنانے کے بجاے ان کے ساتھ بھی انصاف کریں گے۔
اَلَّذِیْنَ یَتَّبِعُوْنَ الرَّسُوْلَ النَّبِیَّ الْاُمِّیَّ الَّذِیْ یَجِدُوْنَہٗ مَکْتُوْبًا عِنْدَھُمْ فِی التَّوْرٰۃِ وَ الْاِنْجِیْلِ یَاْمُرُھُمْ بِالْمَعْرُوْفِ وَ یَنْھٰھُمْ عَنِ الْمُنْکَرِ وَ یُحِلُّ لَھُمُ الطَّیِّبٰتِ وَ یُحَرِّمُ عَلَیْھِمُ الْخَبٰٓئِثَ وَ یَضَعُ عَنْھُمْ اِصْرَھُمْ وَ الْاَغْلٰلَ الَّتِیْ کَانَتْ عَلَیْھِمْ فَالَّذِیْنَ اٰمَنُوْا بِہٖ وَ عَزَّرُوْہُ وَ نَصَرُوْہُ وَ اتَّبَعُوا النُّوْرَ الَّذِیْٓ اُنْزِلَ مَعَہٗٓ اُولٰٓئِکَ ھُمُ الْمُفْلِحُوْنَ o
وَ جَاھِدُوْا فِی اللّٰہِ حَقَّ جِھَادِہٖ ھُوَ اجْتَبٰکُمْ وَ مَا جَعَلَ عَلَیْکُمْ فِی الدِّیْنِ مِنْ حَرَجٍ مِلَّۃَ اَبِیْکُمْ اِبْرٰھِیْمَ ھُوَ سَمّٰکُمُ الْمُسْلِمِیْنَ مِنْ قَبْلُ وَ فِیْ ھٰذَا لِیَکُوْنَ الرَّسُوْلُ شَھِیْدًا عَلَیْکُمْ وَ تَکُوْنُوْا شُھَدَآئَ عَلَی النَّاسِ فَاَقِیْمُوا الصَّلٰوۃَ وَ اٰتُوا الزَّکٰوۃَ وَ اعْتَصِمُوْا بِاللّٰہِ ھُوَ مَوْلٰکُمْ فَنِعْمَ الْمَوْلٰی وَنِعْمَ النَّصِیْرُ o