تاریخ کی بھی عجب شان ہے۔ بارہا ایسا ہوا ہے کہ بہ ظاہر ایک معمولی سا واقعہ بالآخر بڑے تاریخی نتائج کا عنوان ثابت ہوتا ہے۔ حالیہ تاریخ کا ایک ایسا ہی واقعہ نائن الیون ہے جس نے دنیا کے سیاسی نقشے کو بہت زیادہ متاثر کیا ہے۔ اس سے پہلے ۱۹۴۹ء میں کوریا کی جنگ ایک دُور دراز ملک میں امریکا کا ایک معمولی سا حملہ تھا مگر وہ عالمی سردجنگ کا عنوان بن گیا۔ ۱۹۷۹ء میں افغانستان میں بریزنیف کی فوج کشی ایک ایسی مزاحمت کا سبب بن گئی جس کے نتیجے میں بالآخر سوویت یونین اور عالمی اشتراکیت دونوں کا شیرازہ بکھر کر رہ گیا۔ آج جارجیا جس کی اپنی ایک تاریخ ہے اور جو دورِجدید میں اسٹالن کے مولد کی حیثیت سے جانا جاتا تھا، اگست ۲۰۰۸ء میں ایک خون ریز تصادم کا منظر پیش کر رہا ہے۔ قوی امکان ہے کہ روس اور جارجیا کی فوجوں کا یہ تصادم عالمی سیاست پر گہرے اثرات مرتب کرے اور علاقے کے مستقبل کے نقشے کی تشکیل میں اہم کردار ادا کرے۔ ۷اگست کو شروع ہونے والے اس خونی معرکے اور ۱۶اگست کو فرانس کے صدر کی مداخلت سے ہونے والے جنگ بندی کے معاہدے کے بڑے دُوررس اثرات متوقع ہیں۔ تاریخ کی اس نئی کروٹ کا مطالعہ ضروری ہے۔
جارجیا کی موجودہ آزاد ریاست ۱۹۹۰ء میں سابق سوویت یونین کے منتشر ہونے کے نتیجے میں وجود میں آئی۔ امریکا نے اس پورے علاقے میں اپنے اثرات بڑھانے کے لیے اس تاریخی موقعے سے پورا پورا فائدہ اٹھایا۔ مشرقی یورپ میں یورپی یونین کی توسیع کا سلسلہ شروع کیا گیا۔ بالٹک ریاستوں کو یورپ کے نئے انتظام سے وابستہ کیا گیا۔ روس کے چنگل سے نکلنے والی ریاستوں کو امریکا اور یورپی ممالک نے اپنی چھتری تلے لینے کی کوشش کی۔
جارجیا گذشتہ ۱۶،۱۷ سال سے اسی عمل کی گرفت میں ہے۔ ان ریاستوں میں آہستہ آہستہ امریکی معاشی اور فوجی امداد کا جال بچھا دیا گیا اور مغرب نواز جمہوریتوں کوفروغ دیا جانے لگا۔ جارجیا کی موجودہ قیادت امریکا کی پسندیدہ قیادت ہے۔ جارجیا کی فوجوں کی تربیت اور اسلحہ بندی امریکی فوجی نمایندے کر رہے ہیں۔ ۲۰۰۴ء میں موجودہ صدر میخائیل ساکاش ویلی (Mikheil Saakashvili) منتخب ہوئے اور امریکا نوازی میں سب سے سبقت لے گئے۔ امریکا نے بھی انھیں اپنی محبوبِ نظر شخصیت کے طور پر آگے بڑھایا، فوجی اور معاشی امداد سے تقویت بخشی، تیل اور گیس کی سپلائی لائن کے طور پر جارجیا کو استعمال کرنے کے پروگرام بنائے، اور جارجیا کو شہ دی کہ جن علاقوں پر اس کی گرفت کمزور ہے خصوصیت سے ان دو صوبوں پر جن میں دوسری قومیتوں کے لوگ آباد ہیں، جیسے ابخازیہ (Abkhazia) اور جنوبی اوسیشیا (South Ossetia) اپنی گرفت بڑھائے۔ اسی نوعیت کے ایک نسبتاً چھوٹے علاقے اجاریہ (Ajaria) پر قبضے اور اس کے انضمام نے جارجیا کو مزید حوصلہ دیا اور امریکا کی آشیرباد سے اس نے ابخازیہ اور جنوبی اوسیشیا پر اپنی گرفت بڑھانے کی کوشش کی جسے علاقے کے لوگوں نے ناپسند کیا۔ ان دونوں ریاستوں میں روسی بڑی تعداد میں آباد ہیں۔ ابخازیہ میں مسلمان بھی ۲۰ فی صد کے قریب ہیں۔ یہ دونوں روس کے زیراثر رہے ہیں اور روس نے علاقائی آزادی کی تحریکوں کی مدد کی ہے جس نے حالات کو خاصا نازک بنا دیا ہے۔ اس وقت جو صورت حال رونما ہوئی ہے اس کا تعلق اسی تاریخی پس منظر سے ہے۔
امریکا نے جارجیا کو علاقے میں اپنا ایک اہم حلیف بنایا ہے۔ توانائی کے راستوں کے سلسلے میں اسے اہمیت حاصل ہے۔ اسے یورپی یونین میں شامل کرنے کی کوشش بھی ہورہی ہے۔ اس وقت ایک متوقع ممبر ریاست کی حیثیت سے یورپی یونین سے اس کی بات چیت کا آغاز ہوچکا ہے جسے ابتدائی قانونی شکل دسمبر ۲۰۰۸ء میں دی جانی ہے جس کے لیے امریکا کوشاں ہے اور روس جس پر سخت برہم ہے۔ یہی معاملہ یوکرین کے ساتھ ہے، نیز پولینڈ میں امریکی میزائل کی تنصیب کا مسئلہ بھی باعثِ نزاع بنا ہوا ہے۔
اس سلسلے میں ایک بات یہ بھی ذہن میں رکھنا ضروری ہے کہ ۹۱-۱۹۹۰ء میںمنتشر ہوجانے کے بعد روس شدید بحران کا شکار تھا۔ معاشی اعتبار سے اس کی چولیں ہل گئی تھیں اور سیاسی اعتبار سے وہ بے توقیر ہوکر رہ گیا تھا۔ امریکا صرف واحد سوپرپاور ہی نہیںبنا بلکہ اسے خود روس پر ایک طرح کی بالادستی حاصل ہوگئی تھی اور خصوصیت سے یالسٹن کے دور میں روس امریکا کا متبنیٰ بن گیا تھا۔ پیوٹن کے ۷سالہ دور میں حالات بدلے ہیں۔ بہ ظاہر روس اور امریکا دوست تھے اور بش اور پیوٹن تو ایک دوسرے کو امریکی محاورے میں اپنا یار (buddy) کہتے تھے، مگر فی الحقیقت روس نے اس زمانے میں اپنے آپ کو ازسرنو منظم کیا ہے۔ سیاسی اعتبار سے نہ صرف اپنے ملک میں بلکہ اس پورے علاقے میں اپنے اثرات کو بڑھایا ہے۔ معاشی اعتبار سے اندھی نج کاری کی تباہ کاریوں کا ازالہ کیا گیا ہے اور ریاست کے کردار کو ازسرِنو مؤثر بنایا گیا ہے۔ فوج کو دوبارہ منظم کیا گیا ہے اور تیل کی قیمتوں کے بڑھنے کا پورا پورا فائدہ اٹھایا گیا ہے۔ روس یورپ کے لیے توانائی (تیل اور گیس) کا اہم ذریعہ بن گیا۔ ان حالات میں روس نے یورپ میں اپنا نیا مقام بنایا اور پورے خطے میں ایک کردار ادا کرنے کے لیے اپنے کو تیار کیا۔ امریکا روس کی یہ حیثیت ماننے کو تیار نہیں۔ یہی وہ چیز ہے جس نے جارجیا کے حالیہ تصادم کو غیرمعمولی اہمیت دے دی ہے۔
جارجیا نے پہلے اجاریہ پر اپنی گرفت مضبوط کی (۲۰۰۴ئ) اور پھر ابخازیہ کی طرف پنجے بڑھائے۔ روس نے درپردہ ابخازیہ کی مدد شروع کی اور جنوبی اوسیشیا کی جہاں روسی زیادہ آباد ہیں بھرپور مدد کی بلکہ اپنے امن دستے بھی تعینات کیے۔ امریکا جارجیا کی پوری مدد کرتا رہا، اور اس کی فوجوں کو اسلحے سے آراستہ کرنے کے ساتھ بڑے پیمانے پر تربیت کا اہتمام بھی کرتا رہا۔ مگر ساتھ ساتھ روس سے تصادم کے بارے میں احتیاط کا مشورہ دیتا رہا۔
ایسا معلوم ہوتا ہے کہ امریکا کے کچھ عناصر کے ایما پر، جن میں ڈک چینی اور نیوکونز کی طرف اشارہ کیا جا رہا ہے، چھیڑچھاڑ کا سلسلہ شروع کیا گیا جو اپریل ۲۰۰۸ء سے شروع ہوا اور بالآخر ۷اگست کو جنوبی اوسیشیا پر فوج کشی کرڈالی گئی جس کے نتیجے میں ایک دن میں ۲۰۰۰ شہری ہلاک ہوئے اور روس کی امن فوج کے ۶۰سپاہی بھی مارے گئے۔ روس جارجیا کی فوج کشی کے خطرے کو بھانپ رہا تھا اور اپنی تیاری بھی کر رہا تھا۔ ۷اگست کے واقعے نے اسے وہ موقع دے دیا جس کا اسے انتظار تھا۔ اس نے ۸ اگست کو بھرپور جوابی حملہ کیا جس نے جارجیا پر کاری ضرب لگائی اور صرف جنوبی اوسیشیا ہی نہیں جارجیا کے ایک تہائی پر بھی ایک ہی ہلے میں قبضہ کرلیا۔ جارجیا کی فوج کو منہ کی کھانا پڑی اور اس کا مغرورصدر حواس باختہ ہوگیا۔ امریکا سخت برہم ہوا بلکہ ڈک چینی نے تو یہاں تک کہہ دیا کہ: ’’روسی جارحیت جواب سے نہیںبچ سکتی‘‘۔
مگر عملاً امریکا کے لیے کوئی بڑا اقدام ممکن نہیں۔ جرمنی اور فرانس روس کے خلاف کسی اقدام کے خلاف ہیں۔ فرانس نے جنگ بندی کے لیے فوری کوشش کی جس کے نتیجے میں ۱۷اگست سے جنگ بندی ہوگئی ہے مگر روسی فوجیں ابھی موجود ہیں۔ آہستہ آہستہ علاقہ خالی کریں گی اورکسی نہ کسی شکل میں اپنی مستقل موجودگی کا اہتمام کریں گی، خواہ وہ امن فوج کی شکل ہی میں کیوں نہ ہو۔
پہلا اور سب سے اہم پہلو یہ ہے کہ روس نے اب یہ پیغام دے دیا ہے کہ وہ امریکا کی دبیل (ماتحتی) میں رہنے کو تیار نہیں اور وہ اپنے شہریوں اور اپنے مفادات کے تحفظ کے لیے قوت کے استعمال کی پوزیشن میں ہے۔ امریکا اور یورپ کے لیے یہ بڑا اہم پیغام ہے۔ جارجیا کے سلسلے میں امریکا کا اپنے ایک محبوب اتحادی ملک کے اس طرح پِٹ جانے پر خاموش رہنے سے امریکا کے سوپرپاور ہونے کے باوجود طاقت کی تحدید (limitation of power )کا کھل کر اظہار ہوگیا ہے۔ یہ اس لیے اور بھی اہم ہے کہ عراق اور افغانستان میں امریکا اپنے مفیدمطلب نتائج برآمد نہیں کرسکا۔ عراق سے انخلا کے منصوبے بنائے جارہے ہیں اور افغانستان بھی اس کے لیے قبرستان بنتا جا رہا ہے۔ ان حالات میں جارجیا کی مدد نہ کرنے سے امریکا کی ساکھ بری طرح متاثر ہوئی ہے اور جارجیا کے صدر نے اس کی شکایت بھی کی ہے۔ روس ایک بار پھر اگر عالمی سطح پر نہیں تو کم از کم اپنے علاقے میں ایک قوت کی حیثیت سے ایک کردار ادا کرنے کا آغاز کر رہا ہے۔ یہی وہ چیز ہے جس کا اظہار خود ترکی کے صدر نے اپنے اس حالیہ انٹرویو میں کیا ہے جو انھوں نے دی گارڈین کو دیا ہے۔ گارڈین کا نمایندہ اسٹیفن کنزر (Stephen Kinzer) لکھتا ہے:
انھوں نے جنگ کے ملبے سے ایک نئی کثیر قطبی دنیا کا ظہور ہوتے دیکھا۔ جارجیا کے تنازعے نے یہ ظاہر کردیا ہے کہ اب امریکا عالمی پالیسیاں اپنے طور پر تشکیل نہیں دے سکتا بلکہ اسے دوسرے ملکوں کو اقتدار میں شریک کرنا چاہیے۔ میں نہیں سمجھتا کہ آپ پوری دنیا کو ایک مرکز سے کنٹرول کرسکتے ہیں۔ (۱۶ اگست ۲۰۰۸ئ)
یہ ایک بڑا اہم سبق ہے جسے جتنی جلد امریکا اور دوسرے طاقت ور ملک سمجھ لیں اتنا ہی بہتر ہے۔ اس میں ان کے لیے بھی بڑا سبق ہے جو اپنے تمام انڈے امریکا کی جھولی میں ڈال رہے ہیں۔ اس سے زیادہ کمزور راستہ کوئی دوسرا نہیں ہوسکتا۔
اس واقعے سے ایک اور پہلو جو سامنے آتا ہے وہ یورپ اور امریکا کے درمیان بڑھنے والا فاصلہ اور دونوں کے سیاسی اور معاشی مفادات میں عدمِ مطابقت ہے۔ یورپی یونین کے مستقبل کی توسیع کے مسائل بھی روز بروز پیچیدہ تر ہوتے جارہے ہیں۔ روس پر یورپ کی توانائی کی ضروریات کا انحصار اور روس کے زیراثر ممالک سے انرجی کی شاہراہ کا گزرنا یورپ کی سیاست پر گہرا اثر ڈال رہی ہے۔
ایک تیسرا پہلو وہ ہے جس کا تعلق قومی حکومت کی حاکمیت اور علاقائی تحریکوں اور قومیتوں کے کردار سے ہے۔ سیاسی حقوق کے حصول کے لیے جدوجہد کے طریق کار اور انسانی بنیادوں پر یا علاقائی اور اپنے شہریوں یا ہم نسل افراد کے حقوق کے تحفظ کے سلسلے میں قوت کے استعمال کے جواز، عدمِ جوازاور حدودکار کا مسئلہ بھی اہمیت اختیار کرگیا ہے۔ اسے مزید نظرانداز نہیں کیا جاسکتا۔
جارجیا اور خصوصیت سے ابخازیہ کے سلسلے میں مسلمانوں کے نقطۂ نظر سے بھی غور کرنے کی ضرورت ہے۔ یہ ایک تاریخی حقیقت ہے کہ جارجیا میں اسلام ساتویں صدی کے وسط میں حضرت عمرفاروقؓ کے زمانے میں پہنچ گیا تھا اور جارجیا کا دارالخلافہ تبلیسی (Tbilisi) مسلم دور کی یادگار ہے۔ جارجیا کی موجودہ حدود ایک عرب امارت کا حصہ تھیں جہاں مسلمانوں کی حکومت ۱۱۲۲ء تک رہی جب کنگ ایڈورڈ چہارم نے اسے فتح کرلیا اور عیسائی حکومت قائم کی۔ اٹھارھویں اور انیسویں صدی میں یہ علاقہ پھر دولت عثمانیہ کا حصہ بنا جسے زار روس نے انیسویں صدی میں اپنی قلم رو میں شامل کرلیا۔ یہ علاقہ امام شامل کی تحریک کا مرکز بھی رہا ہے۔
آج بھی مختلف علاقوں میں مسلم آبادی ۱۰ سے ۲۰ فی صد ہے اور کچھ علاقوں میں مسلمان اکثریت میں ہیں۔ ترک، کاکیشی اور چیچن، سب اس علاقے میں ہیں اور علاقائی تحریکوں میں بھی ان کا کردار ہے۔ اس بات کی ضرورت ہے کہ اس علاقے کے مسلمان امریکا اور روس کی باہمی آویزش کا نشانہ نہ بنیں بلکہ اپنا مثبت کردار ادا کرنے کا لائحہ عمل اختیار کریں۔ او آئی سی کو اس سلسلے میں حالات کا گہری نظر سے جائزہ لینے اور علاقے میں مسلم کردار کی صحیح خطوط پر راہ نمائی کی فکر کرنی چاہیے۔
اس پورے معاملے پر اخلاقی اور انسانی نقطۂ نظر سے غور کیا جائے تو ایک اور بے حد اندوہناک پہلو یہ سامنے آتا ہے کہ جارجین روس اور روس کے زیراثر ملیشائوں نے اخلاق کی ہرقدر کو پامال کیا ہے اور دونوں نے اپنے مخالفین کو صفحۂ ہستی سے مٹانے اور ظلم وتشدد کا نشانہ بنانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی ہے۔ نسلی صفائی جو نسل کُشی کا نیا نام ہے، اس کا بے محابا استعمال کیا گیا ہے۔ سویلین آبادی کو کھلے بندوں نشانہ بنایا گیا ہے اور عورتوں، بچوں، بوڑھوں اور عبادت گاہوں غرض کسی کا احترام نہیں کیا گیا ہے بلکہ جنسی تشدد کو ایک جنگی حربے کے طور پر بڑی بے شرمی سے روا رکھا گیا ہے۔ یہ اس تصادم کا سب سے تکلیف دہ پہلو ہے۔ وہ اقوام جو اپنے کو مہذب کہتی ہیں اور دوسروں کو تہذیب کا درس دینے کی دعوے دار ہیں ان کا اپنا کردار بے حد گھنائونا اور بہت ہی شرم ناک ہے۔
آخر میں ہم یہ کہنا ضروری سمجھتے ہیں کہ آج یہ علاقہ بڑی انقلابی اور دُور رس تبدیلیوں کی آماج گاہ بنا ہوا ہے۔ علاقے کے مسلمان اور اُمت مسلمہ بھی یہاں ایک کردار ادا کرسکتی ہے۔ روس اور عالمِ اسلام کے تعلقات کے لیے بھی اس کے اہم مضمرات ہوسکتے ہیں۔ تہذیبوں کے درمیان مکالمے اور عالمی امن کے قیام کے لیے نئے عالمی نظام کی بحث اور کوشش سے بھی ان تمام امور کا گہرا تعلق ہے۔ ان تمام پہلوئوں پر اُمت کے ارباب بست و کشاد کو غور کرنا چاہیے اور اپنا کردار اداکرنا چاہیے۔ شہداء علی الحق کی حیثیت سے یہ ہماری ذمہ داری ہے، خواہ آج ہم اس سے کتنے ہی غافل کیوں نہ ہوں۔