’اشارات‘ میں پیپلزپارٹی کے ۱۰۰ دن کی کارکردگی (اگست ۲۰۰۸ئ) کا تجزیہ کرتے ہوئے مختلف امور اور بحرانوں کا تذکرہ کیا گیا ہے۔ پیپلزپارٹی کی حکومت کی کارکردگی اپنی جگہ لیکن اس سب کے پیچھے کارفرما خفیہ ہاتھ کی نشان دہی اور پھر اس کی گرفت کی بھی ضرورت ہے۔ خود سیاست دانوں کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ آگے بڑھ کر اس ہاتھ کی نشان دہی کریں اور بیرونی مداخلت کے سدباب کے لیے کوئی مشترکہ حکمت عملی وضع کریں۔
حکومت کی کارکردگی کا مختلف پہلوئوں سے جائزہ لیتے ہوئے ایک پہلو رہ گیا اور وہ ہے موجودہ حکومت کی اسلام اور نفاذ اسلام کے حوالے سے کارکردگی اور عزائم۔ سیدیوسف رضا گیلانی نے محترمہ بے نظیربھٹو کی سالگرہ کے موقع پر جس بے باکی سے سزاے موت کو عمرقید میں تبدیل کرنے کا اعلان کیا ہے اس سے حکومت کے عزائم کا بخوبی اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔ یہ تو وہی روش ہے جو سابقہ حکومت اور پرویزمشرف کی تھی۔ اس پہلو پر بھی گرفت کی ضرورت تھی۔
محترم پروفیسر خورشیداحمد کا پیپلزپارٹی کی حکومت کے ۱۰۰ دنوں کی کارکردگی (اگست ۲۰۰۸ئ) سو فی صد حقائق پر مبنی ہے۔ زیادہ مناسب ہوتا اگر حکومت کی کالی کرتوتوں کے ساتھ قوم کو یہ بھی بتایا جاتا کہ ملک و قوم کے مفاد میں وہ کون سی متبادل پالیسی ہے جس کو اپنانے سے بحران کو حل کیا جاسکتا ہے۔ اس ملک کے عوام کی بدقسمتی یہ ہے کہ ان کو وہ حکمران ملتے چلے آرہے ہیں جن کا مشن قومی خزانے کو لوٹنا اور عوام کا خون نچوڑنا ہے۔ اسی پالیسی پر موجودہ حکومت بھی عمل پیرا ہے۔
’امریکی حملے کا اندیشہ‘ (اگست ۲۰۰۸ئ) پروفیسر محمد ابراہیم کا اچھا تجزیہ ہے، تاہم طالبان کی آڑ میں جو اسلام دشمن خفیہ عناصر کارفرما ہیں، ان کا بھی تذکرہ آنا چاہیے تھا۔ ایسے شواہد ملے ہیں کہ طالبان کے ساتھ ہلاک ہونے والوں کو غسل دینے پر پتا چلا کہ وہ غیرمسلم تھے۔ اسی طرح افراد کو اغوا کرنا اور تاوان وصول کرنا، پولیو کے ٹیکے لگانے والوں کے لیے رکاوٹیں پیدا کرنا، نیز طالبات کے اسکولوں کو جلانا جیسے معاملات میں بھی گمان یہی ہے کہ یہی عنصر کارفرما ہے۔ اسی طرح ان عناصر کی بھی نشان دہی کی جانی چاہیے جنھوں نے لشکرِاسلام اور انصارالاسلام کے درمیان دیوبندی اور بریلوی کی بنیاد پر لڑائی چھیڑ دی۔
موجودہ دور کو میڈیا اور میڈیا سائنسز کا دور کہا جا رہا ہے۔ میڈیا اور دنیا بھر میں موجود اسلامی تحریکوں کے حوالے سے چند تجاویز پیش خدمت ہیں۔ عالمِ اسلام کے خلاف نائن الیون سے قبل اور بعد میں جس طرح مغربی الیکٹرانک میڈیا پر پروپیگنڈا کیا جا رہا ہے، ان حالات میں ضرورت اس امر کی ہے کہ پاکستان، ترکی، سعودی عرب، متحدہ عرب امارات، سوڈان اور دیگر اسلامی ممالک میں موجود تحریکیں، ادارے اور ارباب بست وکشاد اس جانب متوجہ ہوں اور حالات کی نزاکت کو سمجھیں۔ میڈیا کے میدان میں اسلامی تحریکیں اپنا باقاعدہ بجٹ مختص کریں۔ میڈیا میں اسلام مخالف پروپیگنڈے کا توڑ، اسلام کا حقیقی تصور اور تشخص اُجاگر کرنے (image building) کے لیے درج ذیل اقدامات ضروری ہیں:
بی بی سی، رائٹر اور اے ایف پی کی طرز پر اُمت مسلمہ کی اپنی نیوز ایجنسی ہو جو غیرمحسوس انداز میں اسلامی ممالک و تحریکوں کی نمایندہ ہو اور اسلام کی بہتر تصویر دنیا کے سامنے پیش کرے اور مغربی نیوز ایجنسیوں کے منفی پروپیگنڈے کا توڑ کرسکے۔ عالمی اسلامی تنظیم (او آئی سی) کے پلیٹ فارم سے اس تجویز کو آگے بڑھایا جاسکتا ہے، جب کہ یہ ان کے ایجنڈے پر بھی موجود ہے۔
میڈیا کی اہمیت کے پیش نظر دنیا بھر کی اسلامی تحریکوں کے میڈیا مینیجروں کا باہمی رابطہ (interaction) بڑا ضروری ہوگیا ہے۔ ایک دوسرے کے ہاں مطالعاتی دورے اور خصوصی لیکچروں سے اس تعلق کو مضبوط بنایا جاسکتا ہے اور ایک دوسرے کے تجربات سے فائدہ اٹھایا جاسکتا ہے۔ اسلامک ممالک میں موجود تحریکوں کے میڈیا نمایندوں اور میڈیا ریسرچ اداروں کی ’میڈیا کانفرنس‘ ۲۰۰۸ء میں اگر ہوجائے تو اسلامی تحریکوں کے لیے یہ خاصا سودمند رہے گا۔ اسلامی ممالک و تحریکیں دین اسلام کی تبلیغ و اشاعت اور اپنے خلاف منفی پروپیگنڈے کو ’زائل‘ کرنے کے لیے ابھی اس میدان میں بہت پیچھے ہیں۔ اس کے لیے خصوصی اقدامات اٹھانے کی ضرورت ہے۔ ایک اچھی مثال peace چینل اور الجزیرہ چینل کی ہے۔ اس وقت سب سے اہم ضرورت اس بات کی ہے کہ اسلامی تحریکوں کے میڈیا نیٹ ورک کو باہم مربوط کیا جائے۔
ڈاکٹر معین الدین عقیل کی تحریر: ’جاپان میں اسلام پر تازہ تحقیقات‘ (جون ۲۰۰۸ئ) نظر سے گزری۔ اس ضمن میں جاپان میں دعوتِ اسلام کے حوالے سے کچھ سرگرمیوں سے آگاہ کرنا مفید رہے گا۔ اس وقت جاپان میں، جاپانی زبان میں اسلام پر ۴۸ سے زائد رسائل و جرائد دستیاب ہیں۔ اسلامک سنٹر جاپان ڈاکٹر ساناڈا، سربراہ شعبہ قانون، Chuo یونی ورسٹی کی اسلامی قانون پر کتاب گذشتہ ۱۵ برس سے تقسیم کر رہا ہے۔ غیرمسلم جاپانی اسکالروں کی بڑھتی ہوئی تعداد جو اسلام پسند اور مسلمانوں کی حمایتی ہے، اس موضوع پر لکھ رہے ہیں اور ایک سازگار ماحول بنا رہے ہیں۔
تقریباً تمام جاانی مسلم اسکالر جاپان مسلم ایسوسی ایشن (جے ایم اے) کے پلیٹ فارم پر جمع ہیں۔ رابطہ عالم اسلامی، یعنی عالمی مسلم لیگ سعودی عرب کے تعاون سے جے ایم اے متعدد بار جاپانی زبان میں دستیاب واحد ترجمۂ قرآن از حاجی عمرمتیٰ متعدد بار شائع کرچکی ہے۔ جے ایم اے کے ذریعے رابطہ عالمی اسلامی اس ترجمے کے ہزاروں نسخے شائع کرچکی ہے۔ پیپربیک اور مجلد دونوں عربی متن کے ساتھ دستیاب ہیں۔
جے ایم اے صحیح مسلم کا ترجمہ کروایا ہے اور عربی متن کے بغیر دو جلدیں اور خلفاے راشدین اور خلافت راشدہ کے بارے میں دو کتب بھی شائع کرچکی ہے۔ تفسیر جلالین کا عربی متن کے ساتھ ایک مسلم جاپانی خاتون نے تین جلدوں میںترجمہ کیا ہے۔ اس کے باوجود کہ وہ کینسر کے مرض کا شکار ہیں، انھوں نے ترجمۂ قرآن کے ساتھ ساتھ تفسیر جلالین کا ترجمہ بھی مکمل کیا ہے۔ انھوں نے قاہرہ میں کئی برس تعلیم حاصل کی اور اب وہ ایک مسلم جاپانی اسکالر ڈاکٹر حسن نکاتا کی اہلیہ ہیں دونوں جے ایم اے کے ممبر ہیں۔ ان کے شوہر جوکہ Kyoto میں پروفیسر ہیں، نے بھی کئی برس تک قاہرہ میں تعلیم حاصل کی اور اسلام کی حقیقی روح کو اُجاگر کرنے کے لیے متعدد جلدوں پر مشتمل بہت سی کتب لکھ چکے ہیں وہ اپنے ذاتی خرچ پر جاپانی زبان میں آٹھ صفحات پر مشتمل ایک نیوز لیٹر میگزین بھی شائع کر رہے ہیں اور اسے تقریباً تمام جاپانی مسلمانوں کو ارسال کرتے ہیں۔ یہ قرآن مجید کے کچھ حصوں کے ترجمے، حدیث شریف اور اس کی تشریح پر مشتمل ہوتا ہے، اور نوجوان جاپانی مسلمانوں کے مضامین اور خطوط شائع کرتا ہے۔ میرے بیٹے ابراہیم کے کئی مضامین اور خطوط اس میگزین میں شائع ہوچکے ہیں۔
سلیمان ہماناکہ ایک جاپانی مسلم اسکالر ایک جاپانی اسلامی ویب سائٹ کو دیکھتے ہیں جوکہ جاپانی مسلمانوں میں بہت مقبول ہے۔ سیکڑوں جاپانی مسلمان روزانہ اس ویب سائٹ کو دیکھتے ہیں۔ ہزاروں جاپانویں کی پاکستانی مسلمان بیویاں اور دوسرے مسلمان قرآن مجید کو پڑھنے اور باہمی دل چسپی کے امور پر تبادلۂ خیال کے لیے اس سائٹ کی وزٹ کرتے ہیں۔