ارکانِ اسلام میں نماز کے ساتھ ہی زکوٰۃ اور عشر کی ادایگی ہے۔ قرآن پاک میں بھی صلوٰۃ و زکوٰۃ کا ذکر اکثر ساتھ ساتھ ملتا ہے۔ زکوٰۃ اسلام کے مالی نظام کی بنیاد اور معاشی مسائل کا حل ہے، نیز انفرادی تزکیے کا بھی ذریعہ ہے۔ اسلامی حکومت قائم ہو اور وہ سب سے زکوٰۃ اور عشر مکمل وصول کرے (جیساکہ حضرت ابوبکرصدیقؓ نے کیا تھا) تو معاشرے کے بہت سے مسائل جو آج عذابِ جاں اور سوہانِ روح بنے ہوئے ہیں، حل ہوجائیں۔
دورِ زوال میں بھی مسلمانوں نے زکوٰۃ ادایگی کو بطور ایک فرض کے برقرار رکھا ہے۔ جسے بھی ایمان کے تقاضے پورے کرنے کا احساس ہے وہ فکرمندی سے اپنی زکوٰۃ کا حساب کرتا اور ادا کرتا ہے۔ عموماً یہ ۷۰ گنا زیادہ اجر کی وجہ سے رمضان میں ادا کی جاتی ہے (حکومت بھی یکم رمضان کو سیونگ اکائونٹ سے زکوٰۃ منہا کرتی ہے)۔ اس سے ضرورت مندوں کی ضرورت پوری ہوتی ہے، دعوتی منصوبے مکمل ہوتے ہیں، مدارس کا پورا نظام چلتا ہے۔
زکوٰۃ ادا کرنے والوں کو بہت احتیاط سے زکوٰۃ کا حساب لگا کر ادا کرنا چاہیے۔ کسی رقم پر زکوٰۃ فرض ہو اور نہ دی جائے تو وبال ہوگا۔ خود ضروری علم نہ رکھتے ہوں تو جاننے والوں سے پوچھ کر ادا کرنا چاہیے۔ کچھ ضروری امور درج ہیں:
۱- وہ مال جو ایک سال گزرنے کے بعد اخراجات سے بچا ہوا ہو اور ساڑھے سات تولے یا ساڑھے باون تولے چاندی یا ان کی مالیت کے برابر ہو۔
۲- ساڑھے سات تولے سونا ۴۸ئ۸۷۱ گرام اور ساڑھے باون تولے چاندی ۳۶ئ۶۱۲ گرام کے برابر ہے۔
۳- اگر صرف سونا ہو تو ساڑھے سات تولے نصاب ہوگا۔ اگر سونے کے ساتھ چاندی ہو یا کسی دوسری قسم کا مال بھی ہو، تو نصاب ساڑھے باون تولے چاندی یا مارکیٹ ریٹ کے مطابق اس کی قیمت کے برابر ہوگا۔
زکوٰۃ کے اثاثے
بنکوں کے سیونگ اکائونٹ میں جو رقم محفوظ ہوتی ہے، حکومت اس کی زکوٰۃ کی کٹوتی کرتی ہے۔ لیکن اب سپریم کورٹ کے فیصلے کے مطابق کھاتہ داروں کو اجازت دے دی گئی ہے کہ وہ اپنی زکوٰۃ خود دینا چاہیں تو رمضان سے ایک ماہ پہلے کی درخواست دے کر استثنا حاصل کرسکتے ہیں۔
بعض لوگ صرف زکوٰۃ دینے پر اکتفا کرتے ہیں حالانکہ اُمت مسلمہ کی تمام ضروریات زکوٰۃ سے پوری نہیں ہوسکتیں۔ اس لیے کہ زکوٰۃ کے مصارف قرآن پاک میں متعین کردیے گئے ہیں۔ اسے صرف انھی آٹھ مصارف میں خرچ کیا جاسکتا ہے۔ باقی ضروریات پورا کرنے کے لیے نفل صدقات اور انفاق کا راستہ اختیار کرنے کی ترغیب دی گئی ہے۔ ان ضروریات کو پورا کرنا بھی غنی اور مال دار لوگوں پر فرض ہے۔ اگر سب مسلمان اپنی زکوٰۃ پوری کی پوری ادا کریں اور غربا و مساکین اور اُمت مسلمہ کی دوسری ضروریات کو پورا کرنے کے لیے نفل صدقات حسبِ ضرورت دیں، تو مسلمان ممالک معاشی لحاظ سے اتنے مضبوط ہوجائیں کہ انھیں کسی ملک سے سودی یا غیرسودی قرضے لینے کی ضرورت نہیں پڑے گی۔ قرآن پاک میں جہاں زکوٰۃ کا ذکر ہے اسی جگہ نفل صدقات کا بھی ذکر ہے:
وَاٰتَی الْمَالَ عَلٰی حُبِّہٖ ذَوِی الْقُرْبٰی وَ الْیَتٰمٰی وَ الْمَسٰکِیْنَ وَ ابْنَ السَّبِیْلِ وَ السَّآئِلِیْنَ وَ فِی الرِّقَابِ وَ اَقَامَ الصَّلٰوۃَ وَ اٰتَی الزَّکٰوۃَ (البقرہ ۲:۱۷۷) اور دیتے ہیں اللہ کی محبت میں اپنا مال قرابت داروں، یتیموں، مسکینوں، مسافروں اور سوال کرنے والوں اور گردنوں کو آزاد کرنے میں اور قائم کرتے ہیں نماز اور دیتے ہیں زکوٰۃ۔
نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’مال میں زکوٰۃ کے علاوہ بھی حق ہے جسے ادا کرنا ضروری ہے‘‘ (ترمذی)۔ پھر آپؐ نے اسی مذکورہ آیت کی تلاوت فرمائی۔
وَالَّذِیْنَ یَکْنِزُوْنَ الذَّھَبَ وَ الْفِضَّۃَ وَ لَا یُنْفِقُوْنَھَا فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ فَبَشِّرْھُمْ بِعَذَابٍ اَلِیْمٍo یَّوْمَ یُحْمٰی عَلَیْھَا فِیْ نَارِ جَھَنَّمَ فَتُکْوٰی بِھَا جِبَاھُھُمْ وَ جُنُوْبُھُمْ وَ ظُھُوْرُھُمْ ھٰذَا مَا کَنَزْتُمْ لِاَنْفُسِکُمْ فَذُوْقُوْا مَا کُنْتُمْ تَکْنِزُوْنَo(التوبۃ۹:۳۴-۳۵) جو لوگ سونا اور چاندی جمع کرتے ہیں اور انھیں اللہ کی راہ میں خرچ نہیں کرتے، انھیں دردناک عذاب کی خوش خبری دے دیجیے۔ جس دن اسے دوزخ کی آگ میں تپا کر ان پر رکھا جائے گا پھر ان کی پیشانیوں اور پہلوئوں اور ان کی پیٹھوں کو ان کے ساتھ داغا جائے گا، ان سے کہا جائے گا، کہ مزہ چکھو اس خزانے کا جسے تم جمع کرتے تھے۔
وَ لَا یَحْسَبَنَّ الَّذِیْنَ یَبْخَلُوْنَ بِمَآ اٰتٰھُمُ اللّٰہُ مِنْ فَضْلِہٖ ھُوَ خَیْرًا لَّھُمْ بَلْ ھُوَ شَرٌّ لَّھُمْ سَیُطَوَّقُوْنَ مَا بَخِلُوْا بِہٖ یَوْمَ الْقِیٰمَۃِ (اٰل عمرٰن ۳:۱۸۰) وہ لوگ جو اس مال کو جو اللہ نے انھیں اپنے فضل سے دیا ہے، دینے میں بخل سے کام لیتے ہیں، نہ سمجھیں کہ یہ ان کے حق میں بہتر ہے، بلکہ وہ مال، جس کو دینے میں بخل سے کام لیتے ہیں، ان کے حق میں بُرا ہے۔ قیامت کے دن اسے ان کی گردنوں کا طوق بنا دیا جائے گا۔
آج کل بڑے پیمانے پر شعوری اور غیرشعوری طور پر ایسا ہو رہا ہے۔ بعض لوگ مسلمان ہونے کے باوجود، زکوٰۃ کا فرض ادا نہیں کرتے اور جوادا کرتے ہیں وہ اپنے مال کے ایک حصے کی زکوٰۃ دے دیتے ہیں اور دوسرے حصے کی زکوٰۃ کو عموماً لاعلمی کی وجہ سے نظرانداز کردیتے ہیں۔ اس لیے ان لوگوں پر جو اللہ تعالیٰ کی پکڑ اور دوسروں کے مال کو اپنے مال کے ساتھ ملا کر ہڑپ کرنے سے بچنا چاہتے ہیں، لازم ہے کہ وہ پوری احتیاط سے کام لیں اور سال کے جس حصہ میں وہ اپنے مال کی زکوٰۃ ادا کرتے ہیں، وہ اس موقع پر اپنے ایسے سارے مال کی زکوٰۃ دیں جس پر زکوٰۃ عائد ہوتی ہے تاکہ اللہ تعالیٰ کی گرفت سے بچ سکیں۔
۱- سب سے پہلی بات تو یہ ہے کہ زکوٰۃ خلوصِ نیت سے ادا کیجیے۔ محض خدا کی رضا اور آخرت کے اجروثواب کو پیش نظر رکھیے۔ اس کے سوا کوئی دوسرا مقصود آپ کے سامنے نہ رہے۔ خدا ایسے ہی لوگوں کے مال و دولت میں خیروبرکت فرماتا ہے جو محض خدا کو خوش کرنے کے لیے پوری رغبت اور فراخ دلی سے زکوٰۃ ادا کرتے ہیں۔
۲- زکوٰۃ میں وہ مال دیجیے جو آپ کی نظر میں بہتر ہو۔ غور کیجیے آپ جب دوسروں سے کچھ لیتے ہیں تو کبھی خراب اور گھٹیا چیز نہیں لیتے اور پوری احتیاط اور باریک بینی سے اچھے سے اچھا لینے کی کوشش کرتے ہیں۔ اگر آپ واقعی زکوٰۃ کی اہمیت کو محسوس کرکے زکوٰۃ دیتے ہیں اور دین و دنیا میں خدا کی رحمتوںکے طالب ہیں تو خدا کی راہ میں ایسا مال دیجیے جو آپ کی نظر میں سب سے بہتر ہو، اور جو خدا کے غریب بندوں کے لیے زیادہ سے زیادہ فائدہ بخش ہو۔
۳- آپ جس کو زکوٰۃ دیں اس میں احساسِ کمتری نہ پیدا ہونے دیں، اسے نیچا نہ رکھیں، اس کی دل آزاری نہ کریں اور کوئی ایسا سلوک نہ کریں جس سے اس کی خودداری کو ٹھیس لگے۔
۴- زکوٰۃ دے کر آپ اترائیں نہیں، اپنی بڑائی نہ جتائیں بلکہ خدا کا تہِ دل سے شکر ادا کریں کہ اس نے آپ کو زکوٰۃ ادا کرنے کی توفیق دی اور آپ کو یہ موقع بخشا کہ آپ کے ہاتھوں سے خدا کی راہ میں کچھ خرچ ہو اور آپ کو اپنا فریضہ ادا کرنے کا موقع ملا۔
۵- جس کو زکوٰۃ دیں اس پر کوئی احسان نہ جتائیں۔ آپ کے پاس اپنا ہے کیا جو احسان جتائیں! آپ تو خود خدا کے محتاج ہیں، آپ کیا، سارے ہی انسان اس کے محتاج ہیں، غنی اور بے نیاز تو صرف خدا ہے (وَاللّٰہ الْغَنی وَانتُمْ الْفُقَرَآئُ ج ’’اللہ ہی غنی ہے اور تم سب محتاج ہو‘‘۔ محمد ۴۷:۳۸)۔ آپ کو خدا نے جو کچھ دیا تھا اسی لیے تو، کہ آپ اپنے کام میں لائیں اور خدا کے دوسرے بندوں کا حق ادا کریں۔ کیا حق دار کا حق دے کر کوئی احسان جتاتا ہے؟ رسولِؐ خدا نے فرمایا، خدا اس شخص کو ہم کلامی کے شرف اور نظرعنایت سے محروم رکھے گا جو کسی کو عطیہ دے کر احسان جتاتا ہو۔
زکوٰۃ ادا کرنے سے پہلے آسمانی کتاب کی اس آیت پر غور کیجیے اور بار بار غور کیجیے:
اَیَوَدُّ اَحَدُکُمْ اَنْ تَکُوْنَ لَہٗ جَنَّۃٌ مِّنْ نَّخِیْلٍ وَّ اَعْنَابٍ تَجْرِیْ مِنْ تَحْتِھَا الْاَنْھٰرُ لَہٗ فِیْھَا مِنْ کُلِّ الثَّمَرٰتِ وَ اَصَابَہُ الْکِبَرُ وَ لَہٗ ذُرِّیَّۃٌ ضُعَفَآئُ فَاَصَابَھَآ اِعْصَارٌ فِیْہِ نَارٌ فَاحْتَرَقَتْ کَذٰلِکَ یُبَیِّنُ اللّٰہُ لَکُمُ الْاٰیٰتِ لَعَلَّکُمْ تَتَفَکَّرُوْنَ o (البقرہ ۲:۲۶۶) کیا تم میں سے کوئی یہ پسند کرتا ہے کہ اس کے پاس ایک ہرابھرا باغ ہو، نہروں سے سیراب، کھجوروں، انگوروں اور ہرقسم کے پھلوں سے لدا ہوا، اور وہ عین اسی وقت تیزگرم بگولے کی زد میں آکر جھلس جائے جب کہ وہ خود بوڑھا ہو اور اس کے کمسن بچے ابھی کسی لائق نہ ہوں؟ اس طرح اللہ تعالیٰ اپنی آیتیں تمھارے سامنے بیان کرتا ہے، شاید کہ تم غوروفکر کرو۔