سوال: جس طرح ہم یہ بات مانتے، جانتے اور سمجھتے ہیں کہ کفروایمان میں فرق ظاہر کرنے والی عملی چیز صلوٰۃ ہے، اسی طرح یہ چیز بھی معلوم ہے کہ محرم رشتوں کے علاوہ مخلوط سماجی تعلقات یا سرگرمیاں حدوداللہ کو توڑنے کے ہم معنی ہیں۔ بہرحال اس چیز کو اسلامیانِ عالم کی پسپائی سمجھ لیجیے یا عصری حالات کا جبر، کہ بالخصوص پیشہ ورانہ تعلیمی اداروں یا بالعموم عمومی تعلیم کے اعلیٰ اداروں میں مخلوط تعلیم اور مخلوط تدریس سے مفر دکھائی نہیں دیتا۔ اور اگر کہیں بظاہر خواتین کا کوئی اچھا تعلیمی ادارہ بنا بھی لیا گیا تو وہاں پر بھی مرد اساتذہ کی مدد کو جھٹکنا ممکن نہیں ہوسکا۔ خاص طور پر میڈیکل کی اعلیٰ تعلیم میں___ اس مناسبت سے چار سوالات پیشِ خدمت ہیں، براہِ کرم ان کے جوابات نظریاتی سے زیادہ عملی حوالے سے مرحمت فرمائیں۔
۱- مخلوط تعلیم کے اداروں میں، ہمیں یعنی طلبہ و طالبات کو سماجی سطح کے تعلقات، سماجی تعامل، مکالمے، عملی ضروریات کے لیے مدد وغیرہ کے لیے کیا احتیاطیں ملحوظ رکھنی چاہییں؟
۲- ایک بگڑے معاشرے کے بگڑے ہوئے تعلیمی ماحول میں دین، دعوت، تنظیم اور تربیت کے کاموںمیں ہم خیال طلبہ و طالبات کو کس طرح مخاطب کیا جائے اور کس طرح مدد فراہم کی جائے؟
۳- چلیے دعوت اور تنظیم کے لیے الگ دائروں میں ہم نے کام کو آگے بڑھا لیا لیکن اب جو اسٹوڈنٹس یونین کے انتخابات کا مرحلہ آرہا ہے، اس میں تو مشاورت اور تعاون کے لیے طلبہ و طالبات کو فعال طور پر اپنے دائرہ تعارف و حمایت میں وسعت لانا ہوگی۔ ظاہر ہے کہ ہم اس میں بہت زیادہ سمٹے رہیں گے، جس کا فوری وزن دوسرے پلڑے میں جائے گا (یاد رہے کہ اب خاص طور پر میڈیکل کالجوں میں تو ۶۰ فی صد، ۶۵ فی صد رول نمبر تو طالبات ہی کے ہیں۔ یہ صورت ماضی کی نسبت یک سر مختلف ہے، تب ۱۰، ۱۵ فی صد طالبات ہوا کرتی تھیں)۔
۴- اور جہاں تک ایک طالب علم کے لیے، مخلوط تعلیم میں پھن پھیلائے جذباتی مسئلے کا تعلق ہے، اس سے بھلا وہ کیسے عہدہ برا ہوسکے؟
جواب: آپ نے جو سوالات اُٹھائے ہیں وہ ایک مستقل مضمون کے متقاضی ہیں لیکن اختصار کے ساتھ چند نکات میں ان کا جائزہ لیا جا رہا ہے۔ یہ سوالات میری ناقص راے میں کسی بگڑے ہوئے معاشرے ہی میں نہیں، ایک بہت عمدہ اسلامی معاشرے میں بھی پیدا ہوسکتے ہیں کیونکہ ان کا تعلق تعلیم، تعلیم گاہ، فلسفۂ تعلیم اور تعلیمی ماحول سے ہے۔ قرآن و سنت نے حصولِ تعلیم کو مرد اور عورت دونوں پر فرض کیا ہے۔ چنانچہ وہ اہلِ ایمان سے یہ مطالبہ کرتا ہے کہ وہ اس قرآن اور نبی برحق، خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وسلم کے اسوہ کی پیروی کرنے کے لیے علم کے ذریعے ان دونوں مصادر سے آگاہی حاصل کرے اور بربناے علم اپنے ایمان کی تکمیل کرے۔ دورِاوّل میں جس طرح خاتم النبیینؐ نے بذاتِ خود مردوںاور عورتوں کی تعلیم کا اہتمام کیا وہ واضح ہے۔ جو معاملات عمومی ہدایت چاہتے تھے ان کے ضمن میں آپؐ نے اور قرآن نے دونوں کویکساں خطاب کیا، اور جہاں کوئی خصوصی بات سمجھانی تھی وہاں اُمہات المومنینؓ کے ذریعے صحابیاتؓ کو وہ بات سمجھا دی گئی۔
تفسیر، حدیث اور فقہ تینوں علوم جہاں نظری ہیں وہاں تطبیقی بھی ہیں۔ جس طرح طب میں پہلے دو سالوں میں بنیادی علوم اور پھر طبی اور جراحی علوم سکھائے جاتے ہیں، ایسے ہی قرآن و حدیث کی تطبیق بھی اصولِ تفسیر، اصولِ حدیث اور اصولِ فقہ کی تعلیم کے ذریعے عملی میدان میں کی جاتی ہے اور پھر اصولوں کی روشنی میں روزمرہ کے عملی مسائل (معاشی، سیاسی، معاشرتی یا تعلیمی) پر ان اصولوں کی تطبیق کرکے ان کا حل تلاش کیا جاتا ہے۔ اسی کا نام اجتہاد ہے۔
مردوں اور عورتوں کے درمیان تبادلۂ خیالات یا حصولِ معلومات کے لیے حکمت عملی خود قرآن کریم نے یہ حکم دے کر طے کر دی تھی کہ اُمہات المومنینؓ سے جب کوئی سوال کیا جائے تو وہ پردے کے پیچھے سے اس کا جواب دیں اور ایسے انداز میں دیں جو اُمت کی مائوں کو زیب دیتا ہو۔ حج اور عمرہ کے علاوہ کوئی اور ایسا تربیتی موقع نظر نہیں آتا، جہاں پر مخلوط ماحول کو برداشت کیا گیا ہو۔ لیکن اسے بھی مخلوط اس لیے نہیں کہا جاسکتا کہ مرد اور عورتیں اپنے اپنے محرم کے ساتھ غیرمعمولی انہماک اور توجہ کے ساتھ عبادت میں اِس طرح مصروف ہوتے ہیں کہ ان کے وہم و گمان میں بھی یہ بات نہیں آسکتی کہ دو قدم پر جو خاتون یا مرد طواف یا سعی میں مصروف ہے وہ جاذبِ نظر ہے یا نہیں۔ اس لیے خوفِ الٰہی اور تقربِ الٰہی کے ایسے ماحول میں مردوں اور عورتوں کے اجتماع کو مخلوط سماجی سرگرمیوں کے لیے نہ تو دلیل بنایا جا سکتا ہے اور نہ ان جیسا روحانی فائدہ کسی سائنسی تجربہ گاہ، لائبریری، سیمی نار روم یا کمرۂ درس میں مخلوط ماحول کے ذریعے حاصل کیا جاسکتا ہے۔
اسلام نے محرم اور غیرمحرم کے اخلاقی اور قانونی تصور کے ذریعے ایک ایسا معاشرہ تعمیر کرنا چاہا ہے جس میں برائی کے ممکنہ ذرائع کو کم سے کم اور بھلائی کے معروف ذرائع کو زیادہ سے زیادہ رائج کیا جاسکے۔ اس پس منظر میں غضِ بصر، غضِ صوت، چلنے کا انداز، حضروسفر میں محرم و غیرمحرم کی تخصیص، جسم کا مس نہ کرنا___ قرآن و سنت کی اتنی واضح تعلیمات ہیں جنھیں کوئی معقول شخص نظرانداز نہیں کرسکتا۔ ان حدود میں رہتے ہوئے کالج اور یونی ورسٹی کے انتخابات ہوں یابحالت مجبوری سماجی سرگرمیاں یا حصولِ تعلیم کے لیے طبی کالج یا سماجی علوم کے شعبے میں تعلیم کا معاملہ ہو، ایک نوجوان طالب علم اور طالبہ دونوں کو اپنے لیے لائحہ عمل طے کرنا ہوگا۔
جب بھی کوئی مثالی اسلامی معاشرہ اور ریاست وجود میں آئے گی اُس میں ہر صنف کی ضروریات اور معاشرے میں کردار کے پیش نظر نصابِ تعلیم اور ہم نصابی سرگرمیاں اختیار کی جائیں گی کیونکہ اسلام بنیادی طور پراختلاطِ مرد و زن کو ناپسند کرتا ہے اور ہرصنف کے لیے ایک مناسبِ حال نظامِ عمل تجویزکرتا ہے۔ مکمل اسلامی معاشرے میں بھی یہ ضروری نہیں ہے کہ ہرہرشعبۂ تعلیم میں علم، تجربہ اور مہارت کے لحاظ سے مساوی طور پر مردوں اور عورتوں میں ماہرینِعلم وفن کی مطلوبہ تعداد موجود ہو، مثلاً خود اوّلین اسلامی معاشرے میں عظیم صحابہ کی موجودگی میں اُم المومنین سیدہ عائشہؓ نے فقہ کے میدان میں فقہاے سبعہ کو تعلیم دی جس سے یہ مطلب نہیںنکالا جاسکتا کہ وہ آج کل کی طرح ان کے سامنے آکر لیکچر دیا کرتی تھیں۔ ظاہر ہے قرآن نے اُمہات المومنینؓ کے لیے جو حدود متعین کردی تھیں وہ ان کی کماحقہٗ پیروی کرنے والی ہستی تھیں لیکن اس سے یہ بات بہرحال واضح ہوتی ہے کہ اگر ایک دور میں ایک مرد یا ایک خاتون علم کے ایسے مقام پر ہو کہ اُس جیسے اور بہت سے افراد نہ ہوں تو اس سے استفادہ کرنے میں یہ تخصیص نہیں کی جائے گی کہ وہ صرف مردوں یا صرف عورتوں کی تعلیم و تربیت تک ہی محدود ہو۔
طب کے شعبے میں خصوصاً یہ دقت پیش آتی ہے کہ بعض تخصصات میں خواتین مردوں سے زیادہ مہارت کا ثبوت پیش کرتی ہیں، مثلاً بچوں کا شعبہ، دانتوں کی اصلاح کا شعبہ یا زچگی کا شعبہ۔ اس کے مقابلے میں قلب کی جراحت یا بینائی کے شعبے میں عموماً مرد زیادہ مہارت کا مظاہرہ کرتے نظر آتے ہیں۔ یہی شکل اسلامی علوم میں پیش آئے گی۔ تفسیر، حدیث، فقہ، لغت، ادیان المقارن میں ضروری نہیں کہ ہرشعبے میں ہردو صنف یکساں مہارت کے ساتھ موجود ہوں، گو ہماری کوشش یہی ہونی چاہیے کہ طویل المیعاد منصوبہ بندی کے ذریعے ہردو اصناف میں اتنے ماہر پیدا کیے جائیں کہ تعلیمی اور تربیتی اداروں میں اشتراک کی ضرورت نہ پڑے۔
جہاں تک سماجی سطح پر تعامل کا معاملہ ہے ناگزیر صورت حال کے علاوہ اجنبی مرد اور عورت کا تنہائی میں بیٹھنا صحیح حدیث کی روشنی میں حرام ہے۔ اجتماعی سرگرمی ہو اور بولنے کے آداب، لباس کے آداب پر عمل کیا جا رہا ہو اور جسمانی فاصلے بھی ہوں تو ضرورت کی حد تک بات کرنے میں کوئی ممانعت نظر نہیں آتی۔ ہاں اس کا مقصد محض گپ شپ اور بے معنی یا بہت پُرمعنی گفتگو نہ ہو بلکہ کسی مشکل کا حل، کسی ہدف کے حصول کے لیے، اجتماعی مشورہ کرنا ہو اور اس میں بھی کسی کے ساتھ لگاوٹ کی بات شامل نہ ہو تو تبادلۂ خیال کیا جاسکتا ہے۔ یونی ورسٹیوں اور کالجوں میں دعوتی مہم ہو یا الیکشن کی مہم، کوشش یہ ہونی چاہیے کہ طالبات میں کام کرنے والی کارکن طالبات ہی ہوں اور قیادت کی سطح پر اگر ان سے مشورہ کرنا ہو تو کسی ایسے ذریعے سے کیا جائے جو ان کا محرم ہو۔ یہ مشکلات دعوتی سفر کا حصہ ہیں اور محض نیک نیتی کی بنیاد پر ان بہت سی باتوں کو جنھیں شریعت نے ناپسند کیا ہے مباح نہیں بنایا جاسکتا۔ ’ضرورت‘ کی اصطلاح فقہ میں ان امور کے لیے ہے جن کے نہ کرنے سے ضرر واقع ہو۔ اس لیے ہرمعاملے کو ضرورت نہیں کہا جاسکتا۔ کسی ایسے کام کا کرنا جس کے نہ کرنے سے مقاصدِ شریعت میں خلل واقع ہو، ضرورت کی تعریف میں آتے ہیں۔
مخلوط ماحول میں صرف ایک چیز انسان کو فتنے سے بچاسکتی ہے اور وہ ہے اپنے رب کی ناراضی سے بچنے کی تڑپ اور خواہش اور مسلسل احتسابِ نفس کے ذریعے ہر قدم پر شیطان کے ان عقلی دلائل سے محفوظ رہنا جو شیطان جھوٹی اور غیرمحسوس برائی کے ذریعے بڑی برائی تک لے جانے کے لیے پیش کرتا رہتا ہے۔ وساوس سے بچنا اسی وقت ممکن ہے جب طلبہ اور طالبات میں قرآن کریم کے ساتھ تعلق، سیرت پاکؐ سے آگاہی اور مسلسل تزکیۂ نفس کی خواہش موجود ہو۔
اصولاً تو یہی ہونا چاہیے کہ دعوتی اجتماعات غیرمخلوط ہوں اور خواتین میں اہلِ علم خواتین قیادت کے فرائض انجام دیں لیکن جب تک یہ شکل پیدا نہ ہو، مشترکہ اجتماعات میں علیحدہ نشستوں کا بندوبست کرکے دعوتی کام کیا جاسکتاہے۔ یونی ورسٹیوں میں سماجی اور سیاسی سرگرمیوں میں جہاں تک ممکن ہو تحریکی فکر کی طالبات ہی طالبات میں کام کریں لیکن اگر ایسی کارکن طالبات میسر نہ ہوں تو منصوبہ بندی کے ساتھ حلقہ ہاے مطالعہ قرآن کے ذریعے ایسی طالبات کو تیار کیا جائے جو یہ کام کرسکیں۔ مشورے اور منصوبہ بندی کے لیے متعین نکات پر اجتماعی ماحول میں گفتگو کے آداب پر عمل کرتے ہوئے بات چیت کی جاسکتی ہے لیکن اگر فتنے کا امکان ہو تو کسی معمر خاتون یا معلمات میں سے کسی ہم خیال معلمہ کے ذریعے ایسے مشورے کیے جاسکتے ہیں۔
اصولی طور پر مردوں کا خواتین سے اہم اور فیصلہ کن معاملات میں مشورہ کرنا یا بات چیت کرنا مباح ہے۔ حضرت عمرؓ کی مقرر کردہ انتخابی ٹیم کے ممبران نے حضرت عثمانؓ اور حضرت علیؓ کے درمیان انتخاب کا فیصلہ کرنے سے قبل مدینہ کی خواتین سے ان کے گھروں پر جاکر استصواب کیا۔ ایسے ہی بیع کے معاملات میں ہردو صنفوں کے درمیان تبادلۂ خیال پر کوئی ممانعت شریعت میں نہیں ہے لیکن اس کے باوجود چونکہ اسلام اختلاطِ مرد و زن کو ممکنہ برائی کی طرف ایک زینہ سمجھتا ہے اس لیے اس کی حوصلہ شکنی کرتا ہے۔
گویا مشاورت کرنا اور ملک گیر مسائل پر خواتین کی راے لینا سنت صحابہؓ سے ثابت ہے اور یہ کام تبادلۂ خیال کے بغیر نہیں ہوسکتا لیکن اس عمل میں غضِ بصر اور غضِ صوت کے ساتھ ساتھ صرف مسائل کی حد تک گفتگو کو محدود رکھنا ضروری ہے۔ واللّٰہ اعلم بالصواب (ڈاکٹر انیس احمد)