انسان پر زندگی میں کئی بار ایسا وقت آتا ہے جب وہ اپنے آپ کو بے بس محسوس کرتا ہے اُسے اپنی ذات فنا ہوتے ہوئے محسوس ہوتی ہے۔ وہ اپنے کسی پیارے کسی عزیز کو کرب میں مبتلا دیکھ کر کرب و ابتلا کے پہاڑ تلے دب جاتا ہے۔ ایسے حالات میں اُس کی نظر جس پر ٹھیرتی ہے اور جہاں سے اُسے مدد کی اُمید نظر آتی ہے، وہی دراصل اُس کا اِلٰہ ہے۔
ایسے حالات میں انسان کی نظر اگر کسی انسان پر ٹِک جائے (مثلاً اعلیٰ افسر، وزیر، مشیر یا حکمران) تو وہ فرد اِلٰہ ہے۔ اگر ایسے وقت میں خاندان، برادری، قوم اور قبیلہ یاد آئے تو پھر مقامِ الوہیت پر یہ قوم و قبیلہ فائز ہے۔ کسی کو اپنی دولت، عزت یا شہرت پر بھروسا ہو تو پھر یہ چیزیں اُس انسان کے لیے مقامِ الوہیت پر فائز ہیں۔
بندئہ مومن کی یہ شان ہے کہ وہ تنگی اور راحت، ہر حال میں رب کی رضا پر راضی، اُسی کی عطا اور بخشش کا امیدوار اور اُسی کے خزانے پر نظر ٹکائے رکھتا ہے۔ اپنی ضرورتوں، پریشانیوں، تکلیفوں اور مصیبتوں سے نجات کے لیے اُسی کی جناب میں اس کے ہاتھ بلند ہوتے ہیں اور بے اختیار ہونٹوں سے دُعائیہ کلمات جاری ہوجاتے ہیں۔ رب کو بندوں کی یہ ادا بہت ہی پیاری ہے۔ اسی لیے فرمایا:
وَاِذَا سَاَلَکَ عِبَادِیْ عَنِّیْ فَاِنِّیْ قَرِیْبٌ اُجِیْبُ دَعْوَۃَ الدَّاعِ اِذَا دَعَانِ فَلْیَسْتَجِیْبُوْا لِیْ وَ لْیُؤْمِنُوْا بِیْ لَعَلَّھُمْ یَرْشُدُوْنَ o (البقرہ ۲:۱۸۶) (اے نبیؐ!) جب آپ سے میرے بندے میرے متعلق پوچھیں (تو بتا دیجیے) پس میں اُن کے قریب ہوں۔ دُعا مانگنے والے کی دُعا کو قبول کرتا ہوں۔ پس اُنھیں چاہیے کہ وہ بھی میرا حکم مانیں اور مجھ پر (پختہ) ایمان لائیں تاکہ سیدھی راہ پا سکیں۔
وَقَالَ رَبُّکُمُ ادْعُوْنِیْٓ اَسْتَجِبْ لَکُمْ اِِنَّ الَّذِیْنَ یَسْتَکْبِرُوْنَ عَنْ عِبَادَتِیْ سَیَدْخُلُوْنَ جَھَنَّمَ دَاخِرِیْنَ o (المومن ۴۰:۶۰) اور تمھارا رب یہ کہتا ہے کہ تم مجھے پکارو میں اُس کا جواب دوں گا۔ بے شک وہ لوگ جو تکبر کرتے ہیں میری بندگی سے، جہنم میں عنقریب ذلیل و خوار ہوکر داخل ہوںگے۔
ھُوَ الْحَیُّ لَآ اِِلٰـہَ اِِلَّا ھُوَ فَادْعُوْہُ مُخْلِصِیْنَ لَہُ الدِّیْنَ (المومن ۴۰:۶۵) وہی ہے جو زندہ رہنے والا ہے اُس کے علاوہ کوئی اِلٰہ نہیں۔ پس اُسی کوپکارو اوراُس کے لیے اپنا دین خالص کرو۔
مسنداحمد اور سنن ترمذی میں حضرت نعمان بن بشیرؓ سے روایت ہے کہ آپؐ نے فرمایا: ’’دعا ہی دراصل عبادت ہے‘‘۔ سنن ترمذی میں حضرت انسؓ سے روایت ہے کہ آپؐ نے فرمایا: ’’دعا عبادت کا مغز ہے‘‘۔ مشکوٰۃ میں سنن ابن ماجہ کے حوالے سے حضرت ابوہریرہؓ کی روایت ہے کہ آپؐ نے فرمایا: ’’اللہ کے نزدیک دعا سے زیادہ پسندیدہ کوئی اور عمل نہیں ہے‘‘۔ سنن ترمذی میں حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ آپؐ نے فرمایا: ’’جواللہ سے نہیں مانگتا اللہ اُس پر غضب ناک ہوجاتا ہے‘‘۔ سنن ابوداؤد میں حضرت سلمانؓ سے روایت ہے کہ آپؐ نے فرمایا: ’’تمھارا رب حیاکا پیکر اور صاحب عزت و تکریم ہے وہ اِس بات سے شرماتا ہے کہ بندے کے اُٹھے ہوئے ہاتھوں کو خالی لوٹا دے‘‘۔
قرآن و سنت کے اِن دلائل سے ثابت ہوا کہ اللہ رب العالمین کے علاوہ کوئی اور ذات ایسی نہیں جس سے دعا کی جاسکے۔ دعا عبادت کی ایک شکل اور دین کا نچوڑ ہے۔ اللہ تعالیٰ کے ہاں یہ نہایت پسندیدہ عمل ہے اور جو دعا سے بے نیاز ہوجائے وہ اللہ کے غضب کا شکار ہوجاتا ہے۔
حضرت ابوسعید خدریؓ سے اِس روایت میں اِس قدر اضافہ ہے کہ اللہ تعالیٰ یہ دعا اُس کی آخرت کے لیے ذخیرہ کرلیتا ہے۔ اسے حاکم نے مستدرک میں روایت کیا ہے۔ ایک اور روایت میں یہ اضافہ بھی ہے کہ جب آخرت میں بندہ اپنی غیرمقبول شدہ دعائوں کا اجر دیکھے گا تو خواہش کرے گا کہ کاش دنیا میں اُس کی کوئی دعا قبول نہ ہوئی ہوتی اور آج اُسے سارے کا سارا اجر مل جاتا۔
ان روایات سے معلوم ہوا کہ اللہ اپنے بندے کے اُٹھے ہوئے ہاتھ خالی نہیں لوٹاتا۔ اُس کی دعا کسی نہ کسی شکل میں ضرور قبول ہوتی ہے یا اُسے وہ چیز عطا کردی جاتی ہے، یا اُس سے کوئی مصیبت، تکلیف ٹال دی جاتی ہے، یا اُس کی یہ دُعا آخرت کے لیے محفوظ کرلی جاتی ہے جہاں وہ اپنی اِن دعائوں کو پاکر خوش ہوجائے گا۔
اس بے بہا اجر، رب سے تعلق اور اُس کی رحمت کی اُمید کی بنیاد پر بندۂ مومن نامساعد حالات میں بھی مایوس نہیں ہوتا۔ اُس کی نظر غیراللہ کی طرف نہیں اُٹھتی اور اُسے یقین ہوتا ہے کہ انجامِ کار اُس کے لیے ہی بھلائی، خوشی اور راحت کا سامان موجود ہے۔