ستمبر ۲۰۰۸

فہرست مضامین

دُعا اور قبولیت دُعا

محمدوقاص | ستمبر ۲۰۰۸ | رمضان مبارک

Responsive image Responsive image

انسان پر زندگی میں کئی بار ایسا وقت آتا ہے جب وہ اپنے آپ کو بے بس محسوس کرتا ہے اُسے اپنی ذات فنا ہوتے ہوئے محسوس ہوتی ہے۔ وہ اپنے کسی پیارے کسی عزیز کو کرب میں مبتلا دیکھ کر کرب و ابتلا کے پہاڑ تلے دب جاتا ہے۔ ایسے حالات میں اُس کی نظر جس پر ٹھیرتی ہے اور جہاں سے اُسے مدد کی اُمید نظر آتی ہے، وہی دراصل اُس کا اِلٰہ ہے۔

ایسے حالات میں انسان کی نظر اگر کسی انسان پر ٹِک جائے (مثلاً اعلیٰ افسر، وزیر، مشیر یا حکمران) تو وہ فرد اِلٰہ ہے۔ اگر ایسے وقت میں خاندان، برادری، قوم اور قبیلہ یاد آئے تو پھر مقامِ الوہیت پر یہ قوم و قبیلہ فائز ہے۔ کسی کو اپنی دولت، عزت یا شہرت پر بھروسا ہو تو پھر یہ چیزیں اُس انسان کے لیے مقامِ الوہیت پر فائز ہیں۔

بندئہ مومن کی یہ شان ہے کہ وہ تنگی اور راحت، ہر حال میں رب کی رضا پر راضی، اُسی کی عطا اور بخشش کا امیدوار اور اُسی کے خزانے پر نظر ٹکائے رکھتا ہے۔ اپنی ضرورتوں، پریشانیوں، تکلیفوں اور مصیبتوں سے نجات کے لیے اُسی کی جناب میں اس کے ہاتھ بلند ہوتے ہیں اور بے اختیار ہونٹوں سے دُعائیہ کلمات جاری ہوجاتے ہیں۔ رب کو بندوں کی یہ ادا بہت ہی پیاری ہے۔ اسی لیے فرمایا:

وَاِذَا سَاَلَکَ عِبَادِیْ عَنِّیْ فَاِنِّیْ قَرِیْبٌ اُجِیْبُ دَعْوَۃَ الدَّاعِ اِذَا دَعَانِ فَلْیَسْتَجِیْبُوْا لِیْ وَ لْیُؤْمِنُوْا بِیْ لَعَلَّھُمْ یَرْشُدُوْنَ o (البقرہ ۲:۱۸۶)  (اے نبیؐ!) جب آپ سے میرے بندے میرے متعلق پوچھیں (تو بتا دیجیے) پس میں اُن کے قریب ہوں۔ دُعا مانگنے والے کی دُعا کو قبول کرتا ہوں۔ پس اُنھیں چاہیے کہ وہ بھی میرا حکم مانیں اور مجھ پر (پختہ) ایمان لائیں تاکہ سیدھی راہ پا سکیں۔

ایک اور جگہ تاکیداً فرمایا:

وَقَالَ رَبُّکُمُ ادْعُوْنِیْٓ اَسْتَجِبْ لَکُمْ اِِنَّ الَّذِیْنَ یَسْتَکْبِرُوْنَ عَنْ عِبَادَتِیْ سَیَدْخُلُوْنَ جَھَنَّمَ دَاخِرِیْنَ o (المومن ۴۰:۶۰) اور تمھارا رب یہ کہتا ہے کہ تم مجھے پکارو میں اُس کا جواب دوں گا۔ بے شک وہ لوگ جو تکبر کرتے ہیں میری بندگی سے، جہنم میں عنقریب ذلیل و خوار ہوکر داخل ہوںگے۔

اسی سورہ میں آگے چل کر پھر فرمایا:

ھُوَ الْحَیُّ لَآ اِِلٰـہَ اِِلَّا ھُوَ فَادْعُوْہُ مُخْلِصِیْنَ لَہُ الدِّیْنَ (المومن ۴۰:۶۵) وہی ہے جو زندہ رہنے والا ہے اُس کے علاوہ کوئی اِلٰہ نہیں۔ پس اُسی کوپکارو اوراُس کے لیے اپنا دین خالص کرو۔

درج بالا آیات سے جو مفہوم مترشح ہے احادیث اُن پر مزید روشنی ڈالتی ہیں:

مسنداحمد اور سنن ترمذی میں حضرت نعمان بن بشیرؓ سے روایت ہے کہ آپؐ نے فرمایا: ’’دعا ہی دراصل عبادت ہے‘‘۔ سنن ترمذی میں حضرت انسؓ سے روایت ہے کہ آپؐ نے فرمایا: ’’دعا عبادت کا مغز ہے‘‘۔ مشکوٰۃ میں سنن ابن ماجہ کے حوالے سے حضرت ابوہریرہؓ کی روایت ہے کہ آپؐ نے فرمایا: ’’اللہ کے نزدیک دعا سے زیادہ پسندیدہ کوئی اور عمل نہیں ہے‘‘۔ سنن ترمذی میں حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ آپؐ نے فرمایا: ’’جواللہ سے نہیں مانگتا اللہ اُس پر غضب ناک ہوجاتا ہے‘‘۔ سنن ابوداؤد میں حضرت سلمانؓ سے روایت ہے کہ آپؐ نے فرمایا: ’’تمھارا رب حیاکا پیکر اور صاحب عزت و تکریم ہے وہ اِس بات سے شرماتا ہے کہ بندے کے اُٹھے ہوئے ہاتھوں کو خالی لوٹا دے‘‘۔

قرآن و سنت کے اِن دلائل سے ثابت ہوا کہ اللہ رب العالمین کے علاوہ کوئی اور ذات ایسی نہیں جس سے دعا کی جاسکے۔ دعا عبادت کی ایک شکل اور دین کا نچوڑ ہے۔ اللہ تعالیٰ کے ہاں یہ نہایت پسندیدہ عمل ہے اور جو دعا سے بے نیاز ہوجائے وہ اللہ کے غضب کا شکار ہوجاتا ہے۔

  • آدابِ دُعا: سنن ترمذی میں حضرت عبداللہ ابن مسعودؓ سے روایت ہے، فرماتے ہیں میں نے نماز پڑھی، جب کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم ابوبکرؓ و عمرؓ کے ہمراہ تشریف فرما تھے۔ میں نے نماز کے بعد اللہ تعالیٰ کی حمدوثنا کی۔ پھر میں نے نبی کریمؐ پر درود پڑھا۔ پھر دعا مانگی تو آپؐ نے فرمایا: تو مانگ تجھے عطا کیا جائے گا، تو مانگ تجھے عطاکیا جائے گا۔ حضرت عمرؓ فرماتے ہیں: یقینا  دعا زمین اور آسمان کے درمیان لٹکتی رہتی ہے اور اس کا کوئی حصہ بھی آسمان کی طرف نہیں چڑھتا جب تک کہ تو اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر درود نہ بھیج لے۔ (آدابِ دعا، ص ۱۸۶)
  • توسّل بالاعمال: صحیحین کی روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بنی اسرائیل کے تین افراد کا واقعہ سنایا جو بارش کی وجہ سے ایک غار میں پناہ لینے پر مجبور ہوئے۔ ایک بڑے پتھر کے گرنے سے غار کا منہ بند ہوگیا۔ تینوں نے آپس میں مشاورت کر کے اپنے اپنے نیک اعمال کے توسّل سے دعا کی۔ ایک نے والدین کی خدمت، دوسرے نے گناہ سے رُکنے اور تیسرے نے مزدور کا حقِ اُجرت محفوظ رکھنے کا عمل یاد کیا اور دعا کی۔ اللہ تعالیٰ نے اُنھیں اِس مصیبت سے نجات دلائی۔
  • کن لوگوں کی دُعا قبول ھوتی ھے: روایات میں مختلف مستجاب الدعوات لوگوں کا ذکر ملتا ہے۔ اِن سے معلوم ہوتا ہے کہ درج ذیل لوگوں کی دعا جلد قبول ہوتی ہے:
  • مظلوم کی دعا کے بارے میں فرمایا: مظلوم کی دعا سے ڈرو۔ ایک روایت میں ہے مظلوم کی دعا جب تک وہ بدلہ نہ لے
  • حاجی جب تک سفرِ حج میں ہو گھر پہنچنے تک اُس کی دعائیں قبول ہوتی ہیں
  • مجاہد فی سبیل اللہ
  • مریض
  • ایک مسلمان کی دُعا دوسرے مسلمان کے لیے
  • والد کی دعا
  • مسافر کی دعا۔
  • دعائیں کیوں قبول نھیں ھـوتیں؟: علامہ قرطبی نے اپنی تفسیر میں یہ روایت نقل کی ہے کہ آپؐ نے فرمایا: ثَلَاثَۃُ لَا یُسْتَجَابُ لَھُمْ دُعَائُ ھُمْ اَکْلُ الْحَرَامِ وَمُکْـثِـرُ الْغِیْبَۃِ وَمَن کَانَ فِی قَلْبِہٖ غِلُّ اَو حَسَدٌ لِلْمُسْلِمِیْنَ(تفسیر قرطبی) ’’تین شخص ایسے ہیں جن کی دعا قبول نہیں ہوتی: حرام کھانے والا، کثرت سے غیبت کرنے والا، اور وہ شخص جس کے دل میں اپنے مسلم بھائی کے لیے بُغض یا حسد ہو‘‘۔

ابن حجر عسقلانی نے ابراہیم بن ادھم کا یہ قول نقل کیا ہے کہ:

  • تم نے خدا کو پہچانا مگر اِس کا حق ادا نہ کیا۔ خدا کی کتاب پڑھی لیکن اُس پر عمل نہ کیا۔
  • ابلیس لعین کے ساتھ دشمنی کا دعویٰ کیا مگر اِس کے ساتھ دوستی قائم رکھی۔ m
  • رسولؐ اللہ کی محبت کا دعویٰ کیا لیکن آپؐ کی سنت کو چھوڑ دیا۔
  • جنت کی خواہش کی لیکن اِس کے لیے عمل نہ کیا۔
  • جہنم کے خوف کا دعویٰ کیا لیکن گناہوں سے باز نہ آئے۔
  • موت کے حق ہونے کا اقرار کیا لیکن تیاری نہیں کی۔
  • لوگوں کے عیب گنتے رہے مگر اپنے عیوب پر نظر نہ پڑی۔
  • خدا کا دیا ہوا رزق کھاتے رہے مگر شکرگزار نہ بنے۔
  • روزانہ اپنی میتوں کو دفن کرتے رہے مگر عبرت نہ پکڑی۔ اِن حالات میں تمھاری دعائیں کیسے قبول ہوسکتی ہیں۔
  • قبولیتِ دُعا:حضرت عبادہ بن صامتؓ سے روایت ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: زمین پر جو بھی مسلمان اللہ تعالیٰ سے کوئی دعا کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ اِس کو وہ عطا کرتا ہے یا   اِس سے اس کی مثل کوئی برائی (تکلیف) دُور کردیتا ہے، جب تک کہ وہ گناہ یا قطع رحمی کی دعا  نہیں کرتا۔ (یہ سن کر) لوگوں میں سے ایک شخص نے کہا: پھر تو ہم بہت زیادہ دعائیں کریں گے۔ آپؐ نے فرمایا: اللہ بھی بہت زیادہ دینے والا اور (دعائیں) قبول کرنے والا ہے۔ (ترمذی)

حضرت ابوسعید خدریؓ سے اِس روایت میں اِس قدر اضافہ ہے کہ اللہ تعالیٰ یہ دعا اُس کی آخرت کے لیے ذخیرہ کرلیتا ہے۔ اسے حاکم نے مستدرک میں روایت کیا ہے۔ ایک اور روایت میں یہ اضافہ بھی ہے کہ جب آخرت میں بندہ اپنی غیرمقبول شدہ دعائوں کا اجر دیکھے گا تو خواہش کرے گا کہ کاش دنیا میں اُس کی کوئی دعا قبول نہ ہوئی ہوتی اور آج اُسے سارے کا سارا اجر مل جاتا۔

ان روایات سے معلوم ہوا کہ اللہ اپنے بندے کے اُٹھے ہوئے ہاتھ خالی نہیں لوٹاتا۔ اُس کی دعا کسی نہ کسی شکل میں ضرور قبول ہوتی ہے یا اُسے وہ چیز عطا کردی جاتی ہے، یا اُس سے کوئی مصیبت، تکلیف ٹال دی جاتی ہے، یا اُس کی یہ دُعا آخرت کے لیے محفوظ کرلی جاتی ہے جہاں    وہ اپنی اِن دعائوں کو پاکر خوش ہوجائے گا۔

اس بے بہا اجر، رب سے تعلق اور اُس کی رحمت کی اُمید کی بنیاد پر بندۂ مومن نامساعد حالات میں بھی مایوس نہیں ہوتا۔ اُس کی نظر غیراللہ کی طرف نہیں اُٹھتی اور اُسے یقین ہوتا ہے کہ انجامِ کار اُس کے لیے ہی بھلائی، خوشی اور راحت کا سامان موجود ہے۔