انسان پر زندگی میں کئی بار ایسا وقت آتا ہے جب وہ اپنے آپ کو بے بس محسوس کرتا ہے اُسے اپنی ذات فنا ہوتے ہوئے محسوس ہوتی ہے۔ وہ اپنے کسی پیارے کسی عزیز کو کرب میں مبتلا دیکھ کر کرب و ابتلا کے پہاڑ تلے دب جاتا ہے۔ ایسے حالات میں اُس کی نظر جس پر ٹھیرتی ہے اور جہاں سے اُسے مدد کی اُمید نظر آتی ہے، وہی دراصل اُس کا اِلٰہ ہے۔
ایسے حالات میں انسان کی نظر اگر کسی انسان پر ٹِک جائے (مثلاً اعلیٰ افسر، وزیر، مشیر یا حکمران) تو وہ فرد اِلٰہ ہے۔ اگر ایسے وقت میں خاندان، برادری، قوم اور قبیلہ یاد آئے تو پھر مقامِ الوہیت پر یہ قوم و قبیلہ فائز ہے۔ کسی کو اپنی دولت، عزت یا شہرت پر بھروسا ہو تو پھر یہ چیزیں اُس انسان کے لیے مقامِ الوہیت پر فائز ہیں۔
بندئہ مومن کی یہ شان ہے کہ وہ تنگی اور راحت، ہر حال میں رب کی رضا پر راضی، اُسی کی عطا اور بخشش کا امیدوار اور اُسی کے خزانے پر نظر ٹکائے رکھتا ہے۔ اپنی ضرورتوں، پریشانیوں، تکلیفوں اور مصیبتوں سے نجات کے لیے اُسی کی جناب میں اس کے ہاتھ بلند ہوتے ہیں اور بے اختیار ہونٹوں سے دُعائیہ کلمات جاری ہوجاتے ہیں۔ رب کو بندوں کی یہ ادا بہت ہی پیاری ہے۔ اسی لیے فرمایا:
وَاِذَا سَاَلَکَ عِبَادِیْ عَنِّیْ فَاِنِّیْ قَرِیْبٌ اُجِیْبُ دَعْوَۃَ الدَّاعِ اِذَا دَعَانِ فَلْیَسْتَجِیْبُوْا لِیْ وَ لْیُؤْمِنُوْا بِیْ لَعَلَّھُمْ یَرْشُدُوْنَ o (البقرہ ۲:۱۸۶) (اے نبیؐ!) جب آپ سے میرے بندے میرے متعلق پوچھیں (تو بتا دیجیے) پس میں اُن کے قریب ہوں۔ دُعا مانگنے والے کی دُعا کو قبول کرتا ہوں۔ پس اُنھیں چاہیے کہ وہ بھی میرا حکم مانیں اور مجھ پر (پختہ) ایمان لائیں تاکہ سیدھی راہ پا سکیں۔
وَقَالَ رَبُّکُمُ ادْعُوْنِیْٓ اَسْتَجِبْ لَکُمْ اِِنَّ الَّذِیْنَ یَسْتَکْبِرُوْنَ عَنْ عِبَادَتِیْ سَیَدْخُلُوْنَ جَھَنَّمَ دَاخِرِیْنَ o (المومن ۴۰:۶۰) اور تمھارا رب یہ کہتا ہے کہ تم مجھے پکارو میں اُس کا جواب دوں گا۔ بے شک وہ لوگ جو تکبر کرتے ہیں میری بندگی سے، جہنم میں عنقریب ذلیل و خوار ہوکر داخل ہوںگے۔
ھُوَ الْحَیُّ لَآ اِِلٰـہَ اِِلَّا ھُوَ فَادْعُوْہُ مُخْلِصِیْنَ لَہُ الدِّیْنَ (المومن ۴۰:۶۵) وہی ہے جو زندہ رہنے والا ہے اُس کے علاوہ کوئی اِلٰہ نہیں۔ پس اُسی کوپکارو اوراُس کے لیے اپنا دین خالص کرو۔
مسنداحمد اور سنن ترمذی میں حضرت نعمان بن بشیرؓ سے روایت ہے کہ آپؐ نے فرمایا: ’’دعا ہی دراصل عبادت ہے‘‘۔ سنن ترمذی میں حضرت انسؓ سے روایت ہے کہ آپؐ نے فرمایا: ’’دعا عبادت کا مغز ہے‘‘۔ مشکوٰۃ میں سنن ابن ماجہ کے حوالے سے حضرت ابوہریرہؓ کی روایت ہے کہ آپؐ نے فرمایا: ’’اللہ کے نزدیک دعا سے زیادہ پسندیدہ کوئی اور عمل نہیں ہے‘‘۔ سنن ترمذی میں حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ آپؐ نے فرمایا: ’’جواللہ سے نہیں مانگتا اللہ اُس پر غضب ناک ہوجاتا ہے‘‘۔ سنن ابوداؤد میں حضرت سلمانؓ سے روایت ہے کہ آپؐ نے فرمایا: ’’تمھارا رب حیاکا پیکر اور صاحب عزت و تکریم ہے وہ اِس بات سے شرماتا ہے کہ بندے کے اُٹھے ہوئے ہاتھوں کو خالی لوٹا دے‘‘۔
قرآن و سنت کے اِن دلائل سے ثابت ہوا کہ اللہ رب العالمین کے علاوہ کوئی اور ذات ایسی نہیں جس سے دعا کی جاسکے۔ دعا عبادت کی ایک شکل اور دین کا نچوڑ ہے۔ اللہ تعالیٰ کے ہاں یہ نہایت پسندیدہ عمل ہے اور جو دعا سے بے نیاز ہوجائے وہ اللہ کے غضب کا شکار ہوجاتا ہے۔
حضرت ابوسعید خدریؓ سے اِس روایت میں اِس قدر اضافہ ہے کہ اللہ تعالیٰ یہ دعا اُس کی آخرت کے لیے ذخیرہ کرلیتا ہے۔ اسے حاکم نے مستدرک میں روایت کیا ہے۔ ایک اور روایت میں یہ اضافہ بھی ہے کہ جب آخرت میں بندہ اپنی غیرمقبول شدہ دعائوں کا اجر دیکھے گا تو خواہش کرے گا کہ کاش دنیا میں اُس کی کوئی دعا قبول نہ ہوئی ہوتی اور آج اُسے سارے کا سارا اجر مل جاتا۔
ان روایات سے معلوم ہوا کہ اللہ اپنے بندے کے اُٹھے ہوئے ہاتھ خالی نہیں لوٹاتا۔ اُس کی دعا کسی نہ کسی شکل میں ضرور قبول ہوتی ہے یا اُسے وہ چیز عطا کردی جاتی ہے، یا اُس سے کوئی مصیبت، تکلیف ٹال دی جاتی ہے، یا اُس کی یہ دُعا آخرت کے لیے محفوظ کرلی جاتی ہے جہاں وہ اپنی اِن دعائوں کو پاکر خوش ہوجائے گا۔
اس بے بہا اجر، رب سے تعلق اور اُس کی رحمت کی اُمید کی بنیاد پر بندۂ مومن نامساعد حالات میں بھی مایوس نہیں ہوتا۔ اُس کی نظر غیراللہ کی طرف نہیں اُٹھتی اور اُسے یقین ہوتا ہے کہ انجامِ کار اُس کے لیے ہی بھلائی، خوشی اور راحت کا سامان موجود ہے۔
آزاد فکر معاشروں اور جمہوری ریاستوں میں راے عامہ کو طاقت کا سرچشمہ خیال کیا جاتا ہے۔ حکومتیں اپنی ترجیحات کا تعین راے عامہ کی روشنی میں کرتی ہیں۔ سیاسی جماعتیں اپنے منشور بناتے وقت اِسی کو مدّنظر رکھتی ہیں۔ یہی راے بڑے بڑے آمروں کے لیے لگام ثابت ہوتی ہے‘ بلکہ یہ ایک ایسی ویٹوپاور ہے جس کو وقت کے فرعون بھی چیلنج کرتے ہوئے گھبراتے ہیں۔ یہاں تک کہ بعض اوقات عدالتیں فیصلہ دیتے وقت عوام کی راے کو مدّنظر رکھتی ہیں۔
راے عامہ کیا ہے؟ یہ کس طرح بنتی ہے‘ اور اسے کس طرح اپنے حق میں ڈھالا جا سکتا ہے؟ راے عامہ کسی معاشرے کے تمام یا اکثروبیش تر لوگوں کی مجموعی راے ہے جو لوگوں کی سوچ اورفکر‘ پسندوناپسند کی پوری طرح عکاسی کرے کہ لوگ کیا چاہتے ہیںاور رسم و رواج‘ تہذیب و تمدن‘ علم و فن‘ فیشن اوراسٹائل‘ سیاسی رجحانات اور معاشی مسائل میں اُن کا نقطٔہ نظر کیا ہے۔ یہ راے اگرچہ عامۃالناس کی راے کہلاتی ہے لیکن یہ راے بنتی کہیں اور ہے۔ عوام کالانعام تو بس اتباع کرتے ہیں۔
دور جدید میں ذرائع ابلاغ کا کردار کلیدی نوعیت کا ہے۔ یہ اگر چاہے تو رائی کو پہاڑ بنادے اور پہاڑ کو آنکھوں سے اوجھل کردینا بھی اس کے لیے کچھ مشکل نہیں۔ میڈیا کے دو بڑے شعبے یعنی پرنٹ میڈیا اور الیکٹرانک میڈیا الگ الگ اہمیت کے حامل ہیں۔ ہر پڑھا لکھا شخص کسی نہ کسی اخبار یا جریدے کا قاری ضرور ہوتا ہے اور اُس میں چھپنے والا مواد اُس کے دل و دماغ پر گہرے نقوش چھوڑتا ہے۔ فرد کی سیاسی تربیت انھی ذرائع سے ہوتی ہے۔ پسندو ناپسند کا معیار مقرر ہونے میں اِن کا کردار کلیدی ہے۔
الیکٹرانک میڈیا کی اہمیت اس سے بھی دوچند ہے۔ اس کی رسائی صرف پڑھے لکھے شخص تک نہیں بلکہ ہر اُس شخص تک ہے جس کی آنکھیں اورکان سلامت ہیں۔ نہ صرف یہ کہ اس میڈیا کی رسائی بڑوں تک ہے بلکہ بچے بھی اس کی گرفت میں ہیں۔ یہ غیرمحسوس انداز میں اپنی بات عوام تک پہنچاتا ہے۔ کبھی ڈرامے کی صورت میں تو کبھی بحث و مباحثے کی صورت میں‘ کبھی تصویری رپورتاژ کی صورت میں تو کبھی واقعے کی براہ راست نشریے کی صورت میں۔ یہاں تک کہ آسٹریلیا کے کرکٹ گرائونڈ میں ایک کھلاڑی چھکا لگاتا ہے اور دنیا کے شرق و غرب میں اپنے گھروں میں بیٹھے لوگ اُس کو داد دیتے ہیں۔ گھروں کے اندر زیبایش کے سامان سے لے کر بولے جانے والے مکالموں تک‘ اور شادی بیاہ کی تقریبات سے لے کر ماتم کی رسومات تک میں میڈیا کے اثرات محسوس کیے جاسکتے ہیں۔ الغرض‘ الیکٹرانک میڈیا کی گرفت اتنی موثر ہے کہ اس کا مقابلہ اس سے کم تر کسی چیز سے نہیں کیا جاسکتا۔
ادارے ہر معاشرے کے اخلاق و کردار‘ تہذیب و تمدن اور فکروعمل کی راہوں کو متعین کرنے میں نمایاںکردارادا کرتے ہیں۔ ان میں گلی محلے اور گائوں کی مسجد سے لے کر کالج اور یونی ورسٹی تک‘ گائوں کے چوپال سے لے کر ایوان ہاے قانون ساز تک اور چند معززین کے جرگے سے لے کر عدالت ہاے عظمیٰ تک‘ سب شامل ہیں۔ اگر ادارے قوی ہوں‘ اپنی تہذیب اور روایات کے امین اوراصولوں پر قائم ہوں‘ حق اور انصاف کو معیار کا درجہ دیا جا رہا ہو تو تمام خرابیوں کے باوجود قومیں انحطاط کے بجاے عروج کی طرف گامزن رہتی ہیں۔ لیکن اگر ادارے تباہ ہوجائیں اور حق اور انصاف کی جگہ ظلم و عدوان رواج پاجائے تو پھر ایسی قوم پر فاتحہ پڑھ دینی چاہیے۔
ہر معاشرے میں ایک طبقہ ایسا ضرور ہوتا ہے جو اپنی سوچ اور فکر سے معاشرے کی رہنمائی کا فریضہ سرانجام دیتا ہے۔ اس طبقے میں خیرکا پہلو جتنا غالب ہوگا معاشرہ اتنا ہی پاکیزہ ہوگا‘ اور اگر یہاں شر ہوگا تو معاشرے میں اُس سے زیادہ شر ہوگا۔ ان میں اساتذہ‘ علما‘ مصنفین‘ شعرا اور صحافی‘ سب شامل ہیں۔
گذشتہ صدی میں اُمت مسلمہ کی تاریخ کے جگمگاتے ستاروں کا تعلق اسی طبقے سے ہی تھا۔ علامہ اقبال‘ الطاف حسین حالی‘ محمد علی جوہر اور ظفرعلی خان جیسے اہلِ قلم نے برعظیم کے مسلمانوں کو خوابِ غفلت سے بیدار کیا‘ جب کہ سید مودودی‘ حسن البناء اور سیدقطب نے عالمی اسلامی تحریک کی نیو ڈالی۔ ان سب مشاہیر نے اپنے قلم سے وہ جنگ لڑی اور کامیاب ٹھیرے جس کو بصورتِ دیگر اسلحے کے انباروں اور منظم فوج کے بل پر بھی نہیں جیتا جاسکتا تھا۔
درحقیقت راے عامہ کی تبدیلی کے لیے منظم اور ٹھوس منصوبہ بندی کی ضرورت ہے۔ دعوت اور جہاد کے بہت سے محاذوں میں سے یہ بہت اہم اور بنیادی محاذ ہے جس پر دشمن کے تمام حملوں کا بروقت جواب دینا ازبس ضروری ہے۔ اس ہمہ جہت مقابلے کی حکمت عملی کیا ہو؟
آخر میں یہ بھی ضروری ہے کہ ایک نظر میں اُن رکاوٹوں کا ادراک کرلیا جائے جو راے عامہ ہموار کرنے میں سدِّراہ ہُوا کرتی ہیں۔
جہالت کا براہِ راست تعلق ناخواندگی سے نہیں بلکہ یہ ایک ذہنی کیفیت (state of mind) کا نام ہے جس میں دل و دماغ کے دروازے بند ہوجاتے ہیں اور انسان اپنے موہوم تصورات‘ اور موروثی عقائد کی گرفت سے باہر نہیں نکل سکتا۔ جاہلیت قدیم بھی ہے اور یہ موذی مرض جاہلیت ِ جدیدہ کی صورت میں بھی موجود ہے۔ چنانچہ آج بھی لوگ لینن اور مارکس‘نطشے اور اسرانعمانی یا آمنہ ودود کے رطب و یابس پر آنکھیں بند کرکے ایمان لے آتے ہیں۔ چنانچہ ایسے افراد کا علاج بڑی حکمت‘ صبروضبط اور عالی حوصلگی کا متقاضی ہے۔
عالم کے پروردگار نے انسانیت پر بیش بہا احسانات کیے۔ ان میں سے چند کا تذکرہ خصوصیت سے کیا۔ حکمت بھی انھی نعمتوں میں ایک نعمت عظمیٰ ہے۔ ارشاد باری ہے: یُؤْتِی الْحِکْمَۃَ مَنْ یَّشَآئُ ج وَمَنْ یُّوْتَ الْحِکْمَۃَ فَقَدْ اُوْتِیَ خَیْرًا کَثِیْرًا ط (البقرہ ۲:۲۶۹) ’’(اللہ) جس کو چاہتا ہے حکمت عطا کرتا ہے‘ اور جسے حکمت ملی اسے درحقیقت بڑی دولت مل گئی‘‘۔ اسی طرح اللہ نے اپنے نیک بندے لقمان کا ذکر کیا کہ انھیں حکمت عطا کی گئی۔ حضرت دائود علیہ السلام کو اللہ نے سلطنت اور حکمت سے نوازا۔ حکمت کی یہی دولت حضرت ابراہیم علیہ السلام کو بھی دی گئی اور حضرت عیسٰی علیہ السلام کو بھی۔ قرآن کا بیان ہے کہ اس نعمت سے جملہ انبیا و مرسلین سرفراز ہوئے اور آخری نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو نہ صرف اس نعمت کا حظ وافر عطا کیاگیا بلکہ یہ بات آپؐ کے فرائض نبوت میں شامل کر دی گئی کہ اُمت کو بھی اسی کی تعلیم دیں: وَیُعَلِّمُکُمُ الْکِتٰبَ وَالْحِکْمَۃَ (البقرہ ۲:۱۵۱) ’’اور یہ رسول تمھیں کتاب اور حکمت کی تعلیم دیتا ہے‘‘۔ اس کے بعد اہل ایمان کو براہ راست مخاطب کر کے فرمایا: اُدْعُ اِلٰی سَبِیْلِ رَبِّکَ بِالْحِکْمَۃِ وَالْمَوْعِظَۃِ الْحَسَنَۃِ وَجَادِلْھُمْ بِالَّتِیْ ھِیَ اَحْسَنُط (النحل ۱۶:۱۲۵) ’’اپنے رب کے راستے کی طرف دعوت دو حکمت اور عمدہ نصیحت کے ساتھ اور ان لوگوں سے مباحثہ کرو ایسے طریقے پر جو بہترین ہو‘‘۔
نبی کریمؐ نے فرمایا ہے: ’’حکمت کی بات مومن کی گم شدہ میراث ہے۔ جہاں سے ملے وہ اُس کا زیادہ حق دار ہے‘‘ (ترمذی)۔ دانائی کا اعلیٰ ترین مقام اللہ کا خوف ہے۔
امام مالکؒ نے اپنی مؤطا میں حضرت لقمان ؑکا یہ قول نقل کیا ہے: بے شک اللہ حکمت کے نور سے دلوں کو زندگی بخشتا ہے جیسے کہ وہ آسمان کی بارش سے مردہ زمین کو زندگی عطا کرتا ہے۔
حکمت سے مراد: مفسرین قرآن کے نزدیک حکمت سے مراد دین کی سمجھ بوجھ ہے (علامہ ابن کثیر)۔ مولانا حمیدالدین فراہیؒ نے حکمت اس قوت اور صلاحیت کو کہا ہے جس سے انسان معاملات کا فیصلہ حق کے مطابق کرتا ہے۔ اخلاق کی پاکیزگی اور تہذیب بھی اسی کے ثمرات میں سے ہے۔ اہل عرب حکمت کا لفظ اس قوت اور صلاحیت کے لیے بھی استعمال کرتے ہیں جو عقل و رائے کی پختگی اور شرافت کی جامع ہو‘ چنانچہ دانش مند آدمی کو حکیم کہا جاتا ہے۔مولانا مودودیؒ کے نزدیک حکمت کا لفظ وسیع ہے‘ جس میں وہ تمام دانائی کی باتیں آجاتی ہیں جو نبیؐ لوگوں کو سکھاتے تھے۔ مولانا امین احسن اصلاحیؒ کے مطابق حکمت سرتاسر قرآن ہی سے ماخوذ و مستنبط ہے۔ ان کے نزدیک جو لوگ حکمت سے مراد حدیث لیتے ہیں ان کی بات میں بڑا وزن ہے۔علامہ شاطبیؒ کے نزدیک کتاب سے مراد شریعت ہے اور حکمت سے مراد وہ فلسفہ ہے جو شریعت کے فوائد و ثمرات کو واضح کرتا ہے۔
سید قطبؒ کے مطابق حکمت تعلیم کتاب کا نتیجہ اور ایسا ملکہ ہے جو تمام معاملات کو ان کی جگہ رکھنے اور تمام امور کو ان کی اصل قیمت اور وزن دینے کی صلاحیت عطا کرتا ہے اور یہ فہم عطا کرتا ہے کہ ان احکامات و ہدایات کا اصل منشا کیا ہے۔
چنانچہ حکمت کے معنی دین کی سمجھ بوجھ‘ تفقہ فی الدین کے بھی ہیں اور معاملات میں فہم و فراست اور قوت فیصلہ کے بھی ہیں‘ ہر قدر کو پرکھنے کی صلاحیت کے بھی ہیں اور چیزوں کا اصل وزن اور قیمت معلوم کرنے کے لیے درکار بصیرت کے بھی‘ نیز اخلاق و کردار میں پختگی‘ طور اطوار میں شرافت اور تہذیب میں شائستگی بھی حکمت ہے۔ ان سب معاملات میں ساری انسانیت کے لیے نبیؐ کا اسوہ حسنہ بہترین نمونہ حکمت ہے اور سب سے بڑھ کر دانائی اللہ کا خوف اور اس کے سامنے جواب دہی کا احساس ہے ۔ گویا حکمت کتاب اللہ سے الگ اپنا مستقل مقام رکھتی ہے اور حکمت کے نتیجے میں ہی انسان کے دل میں شکر کے جذبات پیدا ہوتے ہیں۔ حکمت کی معراج اللہ کا خوف ہے‘ نیز حکمت ہی کے ذریعے انسان شیطان کے ہتھکنڈوں سے محفوظ رہ سکتا ہے۔
حکمت کی ضرورت: دین کا تعلق انسان کی ساری زندگی سے ہے۔ اس کے ساتھ ہی یہ بھی حقیقت ہے کہ یہ دین ہر دور‘ ہر علاقے میں رہنے بسنے والوں کے لیے ہے۔ چنانچہ اللہ رب العالمین نے اس کا نظام ایسا بنایا کہ ہر دور‘ ہر علاقے اور ہر قسم کے انسانوں کی سوچ‘ فکر اور عمل کے دائروں سے ہم آہنگ ہو سکے۔ نیز انسان خواہ اونٹ پر سفر کرنے والا ہو یا جیٹ جہاز میں‘ کسی بھی دور اور کسی بھی جگہ کا انسان اس دین پر عمل کرتے ہوئے اپنے آپ کو پیچھے جاتا ہوا یا وقت کے دھارے سے کٹتا ہوا محسوس نہ کرے‘ بلکہ ہر پیش آمدہ چیلنج کا مقابلہ کر سکے اور ہر جدت یا ایجاد کو (اگر وہ دین کے مجموعی نظام سے ہم آہنگ ہو) خوش آمدید کہہ سکے۔ یہی وجہ ہے کہ قرآن پاک نے صرف ان امور کی تفصیلات بیان کیں جو زمان و مکاں کی قید سے آزاد تھیں‘ جب کہ دیگر معاملات میں صرف اشارات دیے اور رہنما اصول قائم کیے‘ مثلاً وراثت کے احکامات تو نہایت وضاحت سے دیے‘ حلال و حرام کا تعین نہایت صراحت سے کیا (کیونکہ یہ امور ہر جگہ اور ہر دور کے لیے ناقابلِ تغیرتھے) لیکن سیاست‘ تمدن‘ معیشت‘ معاشرت اور دیگر شعبہ ہاے زندگی کے لیے صرف رہنما اصول دیے جن کی روشنی میں تفصیلات مرتب کی جا سکتی ہیں۔
اسی روش کی تعلیم آپؐ نے حضرت معاذ ؓ بن جبل کو دی۔ جب ان کو یمن کا گورنر مقررکیا تو پوچھا کہ معاملات کیسے حل کرو گے؟ انھوں نے جواب دیا: قرآن کی روشنی میں۔ فرمایا: اگر وہاں نہ پائو‘ تو۔ وہ بولے: رسولؐ اللہ کی سنت میں دیکھوں گا۔ فرمایا: اگر وہاں بھی نہ ملے‘ تو۔ بولے: اپنی رائے سے معاملہ حل کروں گا اور اس کوشش میں ہرگز کوتاہی نہیں کروں گا۔ اس پر آپؐ نے انھیں شاباش دی اور اس طریقۂ کار کو اُمت کے لیے پسند فرمایا۔ چنانچہ دین کے معاملات میں حکمت کی دوہری ضرورت ہے‘ یعنی جو احکامات واضح ہیں ان کو ٹھیک سمجھنے اور عمل کرنے کے لیے بھی اور جو واضح نہیں ان کا حل قرآن و سنت کی روشنی میں تلاش کرنے کے لیے بھی۔
اگر غورکیا جائے تو دین کے نظام میں چند بنیادی حکمتیں کارفرما ہیں۔ ان کو سمجھے بغیر دین سمجھنا مشکل ہے۔
سب سے پہلی چیز جو دین کے مطالعے سے سمجھ میں آتی ہے وہ یہ کہ دین آسان ہے۔ انسانوں کے بس میں ہے۔ اس کا کوئی مطالبہ ایسا نہیں جو انسانوں کے بس سے باہر ہو۔ چنانچہ فرمایا: وَنُیَسِّرُکَ لِلْیُسْرٰیج (الاعلٰی ۸۷:۸) ’’اور ہم تمھیں آسان طریقے کی سہولت دیتے ہیں‘‘۔ اس کو نبیؐ نے اپنی تاکید سے مزید واضح فرمایا: یسّروا ولا تعسّروا ’’دین میں آسانی پہنچائو‘ تنگی پیدا نہ کرو‘‘۔ اسی چیز کو آپؐ نے مستقل سنت کے طوراپنایا۔ ہمیشہ دو راستوں میں سے آسان راستے کا انتخاب کیا۔ دو کام پیش نظر ہوتے تو پہلے آسان کام سرانجام دیتے۔ نماز اور کھانا ایک وقت میں آجاتے تو پہلے کھاناکھا لیتے۔ گویا رہبانیت کا یہ تصور کہ زیادہ تکلیف اور مشقت میں زیادہ ثواب ہے‘ اسلام کا تصور نہیں۔
فتح مکہ کے سفر میں چونکہ رمضان تھا‘ صحابہؓ کی سہولت کے پیش نظر آپؐ نے سرعام روزہ افطار کیا۔ آپؐ کی دیکھا دیکھی صحابہؓ نے بھی افطار کرلیا۔ لیکن کچھ لوگ روزے سے رہے۔ جب پڑائو پر پہنچے تو جو افطار کر چکے تھے انھوں نے سارا کام جلدی سے کیا‘ جب کہ روزہ دار نڈھال تھے۔ آپؐ نے فرمایا: آج سارا ثواب ان افطار کرنے والوں نے لوٹ لیا‘ یعنی روزے دار اس اجر سے محروم رہ گئے۔ گویا ثواب اور اجر کا تعلق ظاہری عمل کے بجائے انسان کی نیت اور اتباع سنت سے ہے۔ چنانچہ وہ کام جو اتباعِ سنت میں کیا جائے‘ اپنی نوعیت کے لحاظ سے آسان اور دل چسپ ہی کیوں نہ ہو‘ بہت بڑے اجر کا باعث ہے۔
یہاں سوال کیا جا سکتا ہے کہ دین کے بعض مطالبات مشکل کیوں نظر آتے ہیں‘ جب کہ دین کو آسان کہا گیا ہے۔ اس کی وجہ جہالت‘ لاعلمی اور فکرآخرت سے غفلت ہے۔ جیسے ہی انسان جہالت سے نکل کر علم کی روشنی میں آتا ہے‘ اسے حکمت کی دولت ملتی ہے تو وہ سنور جاتا ہے۔ چنانچہ دین کے وہ مطالبات جو اس سے پہلے اس کے لیے وبال جان تھے اب اس کی آنکھوں کی ٹھنڈک اور سکون قلب کا سامان بن جاتے ہیں۔ اسی چیز کو قرآن نے یوں بیان کیا: وَاسْتَعِیْنُوْا بِالصَّبْرِ وَالصَّلٰوۃِط وَاِنَّھَا لَکَبِیْرَۃٌ اِلاَّعَلَی الْخٰشِعِیْنَ o الَّذِیْنَ یَظُنُّوْنَ اَنَّھُمْ مُّلٰقُوْا رَبِّھِمْ وَاَنَّھُمْ اِلَیْہِ رٰجِعُوْنَ o (البقرہ ۲:۴۵-۴۶) ’’صبراور نماز سے مدد چاہو۔ بے شک یہ سخت مشکل کام ہیں‘ مگر ان فرماں برداروں کے لیے مشکل نہیں جو سمجھتے ہیں کہ آخرکار انھیں اپنے رب سے ملنا ہے اور اسی کی طرف پلٹ کر جانا ہے‘‘۔
دوسری چیز جو کتاب و سنت کے مطالعے سے سمجھ میں آتی ہے وہ یہ ہے کہ یہ دین انسانی فطرت سے بالکل ہم آہنگ ہے۔ انسانی فطرت لچک اور تنوع کی خواہاں ہے۔ چنانچہ دین کے تمام احکامات میں انسان کی اس فطری خواہش بلکہ ضرورت کو مدنظر رکھا گیا ہے۔ نمازوں کے اوقات متعین کرتے وقت اول و آخر وقت کی نشان دہی کر دی گئی تاکہ انسان ان کے درمیان کسی وقت پڑھ لے۔ کسی گناہ کا کفارہ بتایا تو متعدد یا کم از کم دو متبادل بتائے‘ مثلاً رمضان کا روزہ قصداً توڑ دیا تو دو ماہ مسلسل روزے رکھو اور اگر یہ نہ کر سکو تو ۶۰ مسکینوں کو کھانا کھلا دو۔ نماز کے لیے وضو کرو‘ لیکن اگر عذر اور مجبوری ہو تو تیمم کرلو۔ حرام چیزوں کو صراحت کے ساتھ واضح کیا لیکن اضطرار کا دروازہ کھلا رکھا۔ اسی طرح فرائض کا بار کم سے کم رکھا اور سنن و نوافل میں زیادہ کم پڑھنے کی آزادی دی۔ اعمال سرانجام دیتے ہوئے اگر ممکن ہوا تو ایک سے زائد انداز اختیار کیے‘ مثلاً نماز میں ہاتھ سینے پر باندھے‘ ناف پر بھی اور کھلے بھی چھوڑے تاکہ جسے جو ادا پسند آئے‘ اپنا لے۔ حج کے موقع پر جب لاکھ سے اوپر لوگ موجود تھے‘ بعض افراد نے سر منڈوانے‘ قربانی کرنے اور شیطان کو کنکریاں مارنے کی ترتیب کے بارے میں پوچھا کیونکہ لوگوں نے یہ کام ہجوم کی وجہ سے مختلف ترتیب سے کیے تھے۔ آپؐ نے سب کو ایک ہی جواب دیا: لا باس‘ یعنی کوئی حرج نہیں۔ گویا اس بھیڑ میں اہمیت ترتیب کی نہیں عمل کی ہے۔
یہ بات اچھی طرح ذہن نشین کرائی گئی کہ دین کے مآخذ صرف دو ہیں‘ اللہ کی کتاب اور رسولؐ اللہ کی سنت۔ جو چیز ان سے ثابت ہے وہی دین ہے‘ اور جو عمل جس درجے میں رکھا گیا اس کی اہمیت وہی ہے۔ جو مقام فرض کا ہے وہ سنن کا نہیں‘ جو درجہ جہاد کا ہے ذکر و تسبیحات کا نہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ اہم امور میں اطاعت کا حکم دیا گیا لیکن باقی معاملات میں اتباع کا تصور دیا‘ یعنی جو آپؐ کی محبت میں جس قدر بڑھ جائے‘ اور آپؐ کی عادات واطوار جس قدر اپنا لے یہ اس کا اپنا ظرف ‘اپنا شوق اور اپنی محنت ہے۔ اس کے بارے میں کوئی معیار اور پیمانہ مقرر نہیں کیا جا سکتا۔
یہ تصور بھی ذہن نشین کرایا گیا کہ نیکی صرف چند خاص اعمال سرانجام دینے کا نام نہیں بلکہ اس کا میدان وسیع ہے۔ چنانچہ زندگی کا ہر کام اللہ اور اس کے رسولؐ کے احکامات کے مطابق کیا جائے تو وہ نیکی ہے‘ چاہے وہ اپنے نفس کے حقوق کی ادایگی ہو‘ والدین اور بیوی بچوں کی دیکھ بھال ہو‘ یا کوئی اور چھوٹے سے چھوٹا عمل‘ بلکہ فرمایا: لا تحقرن من المعروف شیئا ولو ان تلقی اخاک بوجہ طلیق (مسلم) ’’نیکی کے کسی (چھوٹے) کام کو بھی حقیر نہ سمجھو۔ چاہے یہ اپنے بھائی سے مسکراتے چہرے کے ساتھ ملاقات ہی کیوں نہ ہو‘‘۔ اسی طرح کسی کے ساتھ زیادتی‘ جھوٹ‘ بہتان‘ غیبت یا وہ چھوٹے سے چھوٹا عمل جس سے کسی بے گناہ انسان حتیٰ کہ جانور کو بھی ضرر پہنچے‘ گناہ ہے۔ فرمایا: ا لمسلم من سلم المسلمون من لسانہ ویدہ ’’مسلمان وہ ہے جس کی زبان اور ہاتھ سے دوسرے مسلمان محفوظ رہیں‘‘۔
حلال و حرام کا مسئلہ چونکہ بہت اہم اور حساس ہے لہٰذا اس پر تفصیل سے روشنی ڈالی گئی۔ اس باب میں یہ اصول بتایا گیا کہ تمام پاکیزہ چیزیں حلال ہیں‘ اور نجس چیزیں حرام ہیں۔ سابقہ شریعتوں میں بھی یہ چیزیں وضاحت کے ساتھ بیان کر دی گئی تھیں لیکن ان اُمتوں نے ان معاملات میں خود اپنی خواہشات کا اتباع شروع کر دیا اور افراط و تفریط کا شکار ہوگئے۔ یا تو اتنے جری ہوئے کہ حرام چیزوں کو حلال ٹھیرانے لگے اور یا اتنے متشدد کہ حلال چیزوں کوحرام قرار دے دیا۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ نے آپؐ کے ذریعے ان معاملات کو ایک بار پھر واضح فرمایا: الَّذِیْنَ یَتَّبِعُوْنَ الرَّسُوْلَ النَّبِیَّ الْاُمِّیَّ الَّذِیْ یَجِدُوْنَہٗ مَکْتُوْبًا عِنْدَھُمْ فِی التَّوْرٰئۃِ وَالْاِنْجِیْلِز یَاْمُرُھُمْ بِالْمَعْرُوْفِ وَیَنْھٰھُمْ عَنِ الْمُنْکَرِ وَیُحِلُّ لَھُمُ الطَّیِّبٰتِ وَیُحَرِّمُ عَلَیْھِمُ الْخَبٰٓئِثَ وَیضَعُ عَنْھُمْ اِصْرَھُمْ وَالْاَغْلٰلَ الَّتِیْ کَانَتْ عَلَیْھِمْط (الاعراف ۷:۱۵۷) ’’(پس آج یہ رحمت اُن لوگوں کا حصہ ہے) جو اس پیغمبر‘ نبی اُمی کی پیروی اختیار کریں جس کا ذکر انھیں اپنے ہاں تورات اور انجیل میں لکھا ہوا ملتا ہے۔ وہ انھیں نیکی کا حکم دیتا ہے‘ بدی سے روکتا ہے‘ ان کے لیے پاک چیزیں حلال اور ناپاک چیزیں حرام کرتا ہے‘ اور ان پر سے وہ بوجھ اتارتا ہے جو ان پر لدے ہوئے تھے اور وہ بندشیں کھولتا ہے جن میں وہ جکڑے ہوئے تھے‘‘۔
حلت و حرمت کے ان قوانین کا آخری مجموعہ سورہ مائدہ میں نازل کیا گیا جو کہ مدنی دور کے آخر میں نازل ہوئی‘ ساتھ ہی دین کی تکمیل کا مژدہ جانفزا بھی سنا دیا گیا۔ گویا حلال و حرام کا یہ قانون قطعی اور اٹل ہے۔ اس میں اب ترمیم نہیں کی جائے گی۔ اس کے ساتھ اس بات سے بھی شدت سے منع کیا گیا کہ اس قانون کو چھیڑا جائے یا اس میں رد و بدل کی کوشش کی جائے‘ یہاں تک کہ آپؐ کو بھی یہ اختیار نہیں دیا گیا۔ فرمایا: یٰٓاَیُّھَا النَّبِیُّ لِمَ تُحَرِّمُ مَآ اَحَلَّ اللّٰہُ لَکَ ج (التحریم ۶۶:۱) ’’اے نبیؐ، تم کیوں اس چیز کو حرام کرتے ہو جو اللہ نے تمھارے لیے حلال کی ہے‘‘۔
یہ تعلیم دی گئی کہ جس چیز کے بارے میں خاموشی اختیار کی گئی ہے وہ کسی بھول چوک کا نتیجہ نہیں بلکہ اللہ تم پر نظرکرم کرنا چاہتا ہے۔ وہ علیم و حکیم ہے‘ سمیع وبصیر ہے‘ کوئی چیز اس سے پوشیدہ نہیں‘ کوئی امر اس کے احاطۂ علم سے باہر نہیں۔ لہٰذا ایسی چیزوں کے پیچھے نہ پڑو اور بہت زیادہ سوال کرکے اپنے آپ کو ہلاکت میں نہ ڈالو۔ اگر کسی چیز کے بارے میں خاموشی اختیار کی گئی ہے تو یہ اس کی جانب سے تمھارے لیے رحمت ہے‘ اس کا فائدہ اٹھائو۔
سیرت النبیؐ کا مطالعہ کیا جائے تو آپؐ کی سیرت حکمت کے مظاہر سے بھرپورنظر آتی ہے۔ آپؐ نے انسانوں کو جس طرح جمع کیا‘ منظم کیا‘ ان کی تربیت فرمائی‘ انھیں اپنے وقت کا قائد اور امام بنا دیا۔ اس سارے کارنامے کا راز اگر معلوم کرنا ہے تو قرآن نے اسے پہلے ہی افشا کر دیا ہے۔ فرمایا: فَبِمَا رَحْمَۃٍ مِّنَ اللّٰہِ لِنْتَ لَھُمْج وَلَوْ کُنْتَ فَظًّا غَلِیْظَ الْقَلْبِ لاَنْفَضُّوْا مِنْ حَوْلِکَص (آل عمران ۳:۱۵۹) ’’یہ توسراسر اللہ کی رحمت ہے کہ آپ ؐ ان کے لیے نرم خو ہیں‘ اگر آپؐ ترش رو اور سخت دل ہوتے تو یہ لوگ آپؐ کے گرد سے چھٹ جاتے‘‘۔ نیز فرمایا: لَقَدْ جَآئَ کُمْ رَسُوْلٌ مِّنْ اَنْفُسِکُمْ عَزِیْزٌ عَلَیْہِ مَا عَنِتُّمْ حَرِیْصٌ عَلَیْکُمْ بِالْمُؤْمِنِیْنَ رَئُ وْفٌ رَّحِیْمٌ o (التوبہ ۹:۱۲۸) ’’تم لوگوں کے پاس ایک رسول آیا ہے جو خود تم ہی میں سے ہے ۔تمھارا نقصان میں پڑنا اسے ناگوار ہے‘ تمھاری فلاح کا وہ حریص ہے اور ایمان لانے والوں کے لیے وہ شفیق اور مہربان ہے‘‘۔
خرم مراد مرحوم نے اصلاح معاشرہ میں حکمت رسولؐ کے عنوان سے سیرت النبیؐ سے ایسے واقعات جمع کیے ہیں۔ ایک بدو آیا اور مسجد نبویؐ کے صحن میں کھڑے ہو کر پیشاب کرنے لگا۔ صحابہؓ اس کی طرف لپکے لیکن آپؐ نے انھیں منع کر دیا۔ جب وہ فارغ ہوگیا تو اسے پاس بلا کر بٹھایا اور مسجد کے آداب کی تعلیم دی۔ پھر صحابہؓ کو حکم دیا کہ گندگی کو پانی بہا کر صاف کر دیں۔ ساتھ ہی فرمایا: تم خوشی اور بشارت دینے والے ہو‘ تنگی اور مشکل پیدا کرنے والے نہیں۔
اسوہ حسنہ کی اس مثال کو سامنے رکھ کر آج کی مساجد میں جاری اصلاحی سرگرمیوں کا جائزہ لیجیے‘ کوئی پتلون پہن کر نماز کے لیے آجائے‘ یا ننگے سرہو‘ یا معصوم بچہ اگلی صف میں چلا جائے‘ اس کا جو حشر کیا جاتا ہے وہ ہماری اجتماعی سوچ اور ذہنی کیفیت کو ظاہر کرنے کے لیے کافی ہے۔
انسانوں کی اصلاح کرتے وقت آپؐ نے ان کے دلوں کو نرم کرنے اور نفوس کو رام کرنے کے لیے تالیف قلب کا قرآنی تصور مدنظر رکھا اور افراد کی دلجوئی کا حتی المقدور اہتمام کیا۔ سید قطب شہیدؒ نے اپنی تفسیر میں سورۃ الاعلیٰ کی تفسیر لکھتے ہوئے سیرت کا دل چسپ واقعہ نقل کیا ہے۔
ایک بدو آپؐ کے پاس آیا اور کچھ مانگا۔ آپؐ نے اسے کچھ دے دیا اور پوچھا: کیا میں نے تم سے اچھا سلوک کیا؟ بدو نے کہا: نہیں۔ آپؐ نے مجھ سے اچھا سلوک نہیں کیا۔ مسلمانوں کو اس پر غصہ آگیا اور وہ (اسے مارنے کے لیے) بڑھے۔ آپؐ نے اشارے سے انھیں روک دیا۔ پھر آپؐ گھر تشریف لے گئے۔ بدو کو بلایا اور اسے کچھ اور عطا کیا جس پر وہ خوش ہو گیا اور آپؐ کے حق میں کلماتِ خیر کہے۔ آپؐ نے اسے کہا کہ یہی بات میرے ساتھیوں کے سامنے بھی کہہ دو تاکہ ان کے دلوں سے بھی رنجش نکل جائے۔
اگلے روز اس نے آپؐ کے ساتھیوں کے سامنے بھی یہی بات کہہ دی۔ تب رسولؐ اللہ نے فرمایا: میری اور اس کی مثال ایسی ہے کہ جیسے کسی شخص کی اونٹنی اس سے بھاگ گئی۔ لوگ اس کے پیچھے دوڑے تو وہ اور دُور بھاگ گئی۔ پھر مالک کچھ گھاس لے کر آگے بڑھا اور آہستہ آہستہ اسے واپس لے آیا۔ وہ اس کے پاس آکر بیٹھ گئی۔ تب اس نے اس پر کجا وہ کسا اور سوارہو گیا۔ تو اگر میں تمھیں چھوڑ دیتا اور تم اس شخص کو قتل کر دیتے تو یہ دوزخ میں پہنچ جاتا۔
آپؐ کی سیرت کا اگر اس پہلو سے جائزہ لیا جائے تو نظر آتا ہے کہ چاروں طرف سے دشمن کے نرغے میں ہونے کے باوجود آپؐ نے ایک اسلامی ریاست قائم کی۔ اس کے بعد تقریباً ایک عشرے تک مسلسل تگ و تاز میں مصروف رہے لیکن اس دوران کم سے کم قوت استعمال کر کے‘ کم سے کم خون بہا کر ایک ایسا انقلاب برپا کر دیا کہ اس کی نظیر لانا ممکن نہیں۔
آپؐ نے دشمن کی نقل و حرکت پر بھرپور نظر رکھی اور اس کے عزائم کا بروقت نوٹس لیا۔ ہمیشہ دشمن کی توقع سے پہلے غفلت کی حالت میں اسے جا پکڑا۔ خبررسانی اور جاسوسی کا بہترین نظام قائم کیا اور فرمایا: الحرب خدعہ‘ جنگ تو چالوں سے لڑی جاتی ہے۔
ٹکرائو سے حتی الامکان اجتناب کیا‘ گرہیں کھولنے کی کوششیں کی۔ بند راستوں سے ٹکرانے کے بجائے انھیں وا کرنے کی سعی فرمائی۔ ہر معاملے میں متعدد راستوں کی نشان دہی فرمائی۔ خود قرآن نے اس بارے میں رہنمائی فرمائی۔ فرمایا: دشمن کے سامنے کمزوری نہ دکھائو۔ اسے صلح کی پیش کش نہ کرو لیکن اگر دشمن صلح چاہے تو یہ پیش کش قبول کر لو۔
دشمن کے ساتھ معاہدات کا بھرپور احترام کیا لیکن اگر ان معاہدات میں کچھ کمزور پہلو رہ گئے تو ان کا فائدہ اٹھایا۔ صلح حدیبیہ میں یہ شق کہ اگر کوئی مسلمان مکہ سے بھاگ کر مدینہ جائے تو اسے واپس کیا جائے گا‘ اس کا پورا احترام کیا گیا۔ لیکن جب خواتین مکہ سے بھاگ کر آئیں تو انھیں واپس نہ کیا اور کہا کہ معاہدے میں خواتین کا ذکر نہیں۔
دشمنان اسلام سے یکساں رویہ نہیں رکھا بلکہ وقت اور حالات کے پیش نظر اس میں نرمی و سختی آتی رہی۔ اہل کتاب اور مشرکین سے لڑنے اور انھیں قتل کرنے کے احکامات قرآن میں موجود ہیں لیکن اس کے ساتھ اہل کتاب سے احسن انداز میں گفتگو کرنے اور انھیں مشترکہ بنیادوں کی طرف دعوت دینے کے احکامات بھی موجود ہیں‘ نیز مشرکین کے بارے میں بھی صلح حدیبیہ اور فتح مکہ کے مواقع پر نرم رویے کی مثالیں موجود ہیں۔
یہ ہے حکمت کا وہ بھرپور خزانہ جس کی کچھ جھلکیاں پیش کی گئی ہیں۔ آج کے دور میں اسلامی تحریک کو دین کی دعوت ‘جو کہ اجنبی بن چکی ہے‘ عام فہم‘ پُرکشش اور موثرانداز میں پیش کرنا ہے۔ پوری ملت کے اندر ایک نئی تڑپ پیدا کرنی ہے اور سب سے بڑھ کر دیارِ مغرب کا رخ تبدیل کرنا ہے اور ان کے سامنے اس بیش بہا خزانے کو رکھنا ہے۔ اس عظیم تر چیلنج کا مقابلہ کرنے کے لیے حکمت دین کو سمجھنا اور ہرمعاملے میں ملحوظ خاطر رکھنا ازبس ضروری ہے۔