دو ضخیم جلدوں پر مشتمل یہ کتاب قرآن پاک کی رکوع بہ رکوع تشریح ہے۔ ہر رکوع پر عنوان لگایا گیا ہے، مثلاً سورئہ بقرہ کے رکوع ۲۴ پر ’ جہاد، فتنہ اور حج‘، سورئہ انعام کے رکوع ۱۲ پر ’ساری کائنات انسان کی خدمت میں لگی ہوئی ہے‘، سورئہ اعراف کے رکوع ۱۵ پر ’جادوگروں کا ایمان لانا۔ سورہ کے آغاز پر مضامین سورہ کا مختصر بیان، عربی متن کا التزام نہیں ہے، تشریح کے درمیان ضرورت ہے تو دیا گیا ہے۔ متن اور ترجمہ اور عنوانات نیلے، یعنی مختلف رنگ میں ہیں۔
ہمارے ملک میں رجوع الی القرآن کے جو مظاہر نظر آتے ہیں (منظم برائی کے پھیلنے کے ساتھ ساتھ) غالباً اسی طرح بھارت میں بھی مسلمانوں میں اس طرف رجحان ہے۔ اُمت مسلمہ میں یہ شعوربیدار ہو رہا ہے کہ اس کا مستقبل اور عروج قرآن کو اختیار کرنے سے وابستہ ہے۔ اسی لیے کیسٹ، سی ڈی، فلمیں، درسِ قرآن اور محفل حسنِ قراء ت، سب میں مسلسل اضافہ ہے۔
بڑی تقطیع کی دو ضخیم جلدوں پر مشتمل یہ کتاب اعلیٰ معیار کے کاغذ اور دو رنگ میں چھاپی گئی ہے۔ اسے تفسیر نہیں کہا جاسکتا، تشریح کہنے میں بھی تکلف ہوتا ہے، ترجمے کو ذرا کھول کر بیان کردیا گیا ہے۔ ایک طرز کی ترجمانی کہا جاسکتاہے۔ فہم قرآن کے لیے جو گہرائی میں نہیں جانا چاہتے یا گہرائی میں جانے کا وقت نہیں رکھتے، ان کے لیے یہ کتاب بہت مفید ہے۔ میٹرک، یا جب کسی مسلمان لڑکے اور لڑکی کو اُردو پڑھنا اور سمجھنا آجائے اور وہ پروگرام کے تحت قرآن کے تمام مضامین سے آگاہی چاہتا ہو، تو یہ کتاب اس کے لیے ہے۔ خواہش مند اپنے روابط کے ذریعے حیدرآباد دکن سے حاصل کریں۔ محمد انعام الحق صاحب حکومت آندھرا پردیش کے (ر) انجینیر ہیں۔
اس تشریح کو لکھتے ہوئے تفہیم القرآن، تدبر قرآن، تفسیر عثمانی اور مولانا شبلی نعمانی کی سیرت النبیؐ اور اکبرشاہ خاں نجیب آبادی کی تاریخ اسلام کو سامنے رکھا گیا ہے۔ تعارفی کتابچے میں اس کی یہ خصوصیات بیان کی گئی ہیں: محتاط اندازِ بیان، سلیس و شگفتہ زبان، اسلامی تاریخی واقعات کا جامع پرتو، نوجوانانِ ملت کے لیے بہترین دینی تحفہ، جو تبصرہ نگار کی نظر میں درست بیان ہے۔ (مسلم سجاد)
مولانا صدرالدین اصلاحی کی شخصیت برعظیم کے دینی اور اسلامی خصوصاً اسلامی تحریکوں کے حلقے میں محتاجِ تعارف نہیں۔ وہ مولانا مودودی کی تحریروں سے متاثر ہوکر جماعت اسلامی کے قیام سے بھی پہلے دارالاسلام پٹھان کوٹ سے وابستہ ہوگئے تھے۔ اگرچہ ان کی طالب علمی کا زمانہ مدرسۃ الاصلاح سراے میر میں گزرا لیکن ان کی علمی اور ذہنی و فکری نشوونما میں دارالاسلام کی فضا اور مولانا مودودی کی رفاقت کا بھی خاصا دخل ہے۔
مدرسۃ الاصلاح کی انجمن طلباے قدیم نے اپنے اس علمی سپوت کی یاد میں ۲۷-۲۹ اپریل ۲۰۰۶ء کو ایک سیمی نار منعقد کیا تھا۔ زیرنظر کتاب اسی سیمی نار کے نظرثانی شدہ مقالات پر مشتمل ہے۔
انجمن کے جنرل سیکرٹری ڈاکٹر ضیاء الدین اصلاحی خطبۂ استقبالیہ میں لکھتے ہیں: ’’مولانا صدرالدین اصلاحی نے قرآن وسنت سے وابستگی کی جو فضا تیار کی اور ہدایت کے ان بنیادی مآخذ سے لوگوں، بالخصوص تحریکِ اسلامی سے وابستہ افراد کا تعلق استوار کر کے کوشش کی اور دعوتِ دین اور تحریکِ اسلامی کی جدوجہد میں جس ایثار و قربانی اور عظمت و عزیمت کا مظاہرہ کیا، وہ ہمارے لیے مشعلِ راہ ہے۔ ان کے پیغام کو عام کرنا، لوگوں کو اس سے روشناس کرانا اور اس کی ضروری تدابیر اختیار کرنا ہماری اولین ذمہ داریوں میں شامل ہے‘‘(ص ۴)۔ اس پس منظر میں زیرنظر مقالات کی صورت میں مولانا اصلاحی کی سوانح، شخصیت، ان کے علمی اور فکری اکتسابات اور ان کی علمی و دینی خدمات کے مختلف پہلو نمایاں ہوگئے ہیں، اور اس کے ساتھ ہی ان کی مختلف حیثیتیں بھی: بطور استاد، بطور ایک دینی مفکر و مصنف اور بطور ترجمہ نگار ان کا مقام و مرتبہ، فہم قرآن کی راہ ہموار کرنے کے ضمن میں ان کی کاوشیں، نوجوانوں کی رہنمائی، مولانا کی قرآنی توضیحات اور دین کی تعبیر و تفہیم کے متعلق ان کا مؤقف، تفہیم القرآن کی تلخیص وغیرہ۔ غرض موصوف کے مجموعی کارنامے کے تقریباً تمام پہلو واضح ہوگئے ہیں۔ بیش تر مقالات بڑی محنت و کاوش سے تیار کیے گئے ہیں۔ شخصی تعلق کے حوالے سے مولانا اصلاحی سے لکھنے والوں کا محبت و اپنائیت کا تعلق واضح ہے۔ خود، مرحوم کے صاحبزادے ڈاکٹر رضوان احمد فلاحی کا وقیع مضمون بہت معلومات افزا ہے۔
یہ کتاب ان لوگوں کے زیرمطالعہ ضرور آنی چاہیے جو تحریک اسلامی کے علمی و فکری مشاغل سے وابستہ ہیں۔ یہ اعلیٰ معیار پر، بڑے اہتمام سے شائع کی گئی ہے۔ (رفیع الدین ہاشمی)
ایک صاحب نے کسی دوست کی وفات پر اظہار افسوس کرتے ہوئے لکھا تھا کہ جانے والوں کی یاد میں آنسو بہانا اور رونا بہت آسان ہے مگر ان کی یاد میں قلم اٹھانا اور دوچارسطریں لکھ دینا بہت مشکل ہے۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ رخصت ہونے والوں کے ساتھ ہمارا رویہ عموماً ’آج مرے، کل دوسرا دن‘ کا سا ہوتا ہے حالانکہ مرحومین کی نیکیوں اور خدمات کو یاد رکھنا اور انھیں دوسروں تک پہنچانا بجاے خود بہت بڑی نیکی اور کارخیر ہے۔
حافظ محمد ادریس کا زیرنظر مجموعۂ مضامین چند ایسی شخصیات کی خدمات کو سامنے لاتا ہے جواپنی منفرد خوبیوں کی بنا پر اپنی مثال آپ تھے۔ ڈاکٹر نذیراحمدشہید، خرم مراد، مولانا عبدالرحیم چترالی، قاری منہاج الدین انور، مولانا خان محمد ربانی، محموداعظم فاروقی، چودھری بشیراحمد، خلیل احمد حامدی، جنرل (ر) محمد حسین انصاری، حاجی غلام نبی عباسی، کنورسعیداللہ خاں، ملک وزیر احمد غازی، رانا اللہ دادخاں، شیخ محمد انور زبیری، میاں محمدعثمان، ڈاکٹر عذرا بتول، بیگم ملک غلام علی، یہ تمام تر شخصیات تحریکِ اسلامی سے وابستہ رہی ہیں۔ شخصیات پر مصنف کی اسی نوعیت کی دو کتابیں: مسافرانِ راہِ وفا اور چاند تارے کے نام سے اس سے پہلے بھی شائع ہوچکی ہیں۔
شخصیت نگاری دوسری اصنافِ ادب کی طرح ایک صنف نثر ہے جسے بعض اوقات خاکہ نویسی بھی کہا جاتا ہے۔ حافظ محمد ادریس کی شخصیت نگاری کا اپنا ایک اسلوب ہے جس میں شخصیت کے مقام و مرتبے، اس کی مختلف النوع خدمات، خاندانی پس منظر، سوانحی حالات، شخصیت کے اہم عناصر، تحریک اسلامی سے وابستگی، ملّی اور دینی خدمات کے مختلف پہلو، اور اس کے ساتھ ہی متعلقہ شخصیت سے مصنف کا ذاتی اور شخصی تعلق جس میں بیتے دنوں کی ملاقاتوں اور گفتگوئوں کی تفصیل بھی بیان کرتے ہیں۔ اس طرح وہ شخصیت کا پورا مرقّع تیار کرکے رکھ دیتے ہیں۔ حافظ صاحب کا اسلوبِ تحریر صاف، واضح اور رواں ہے۔ کہیں کہیں اشعار کا حوالہ شعروادب سے ان کے تعلق کی غمازی کرتا ہے۔ بالعموم وہ عام قارئین کے ادیب ہیں اور اسی لیے ان کی تحریر پڑھتے ہوئے کہیں کوئی رکاوٹ، دقت یا ابہام محسوس نہیں ہوتا اور کسی لکھنے والے کی یہ بہت بڑی خوبی ہے۔(ر- ہ)
ابوالامتیاز ع س مسلم نظم و نثر دونوں میں یکساں روانی سے اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہیں۔ اُردو کے علاوہ انگریزی اور پنجابی زبانوں پر بھی انھیں دسترس حاصل ہے اور ان کو بھی وسیلۂ اظہار بناتے ہیں۔
حمدباری تعالیٰ کی طرح نعت گوئی بھی ایک مشکل فن ہے لیکن جو ٹھیرائو اور احتیاط ع س مسلم کے ہاں نظر آتی ہے وہ ان کی اس فن میں بطور خاص ریاضت کی شہادت دیتی ہے۔ مروجہ انداز سے ہٹ کر سرورِ کونینؐ کی ذاتِ بابرکت کی ان صفات کو کلام میں سمونے کی کوشش نظر آتی ہے جو قرآنِ حکیم میں بیان ہوئی ہیں۔ ان سے قبل معروف نعت گو شاعر عبدالعزیز خالد نے نہ صرف آپؐ کی قرآنی صفات کو بیان کیا ہے بلکہ اس سے قبل کی آسمانی کتابوں میں آپؐ کی جن صفات اور اسما کا ذکر ہے ان کو بھی اپنے کلام میں سجایا ہے۔
زیرنظر نعتوں میں مسلم صاحب نے جہاں آپؐ کی صفات کا تذکرہ کیا ہے اورقرآنی حوالے پیش کیے ہیں وہاں ذخیرئہ احادیث نبویؐ سے بھی اعتنا کیا ہے۔ ان اسنادِ حدیث کو انھوں نے کتاب کے آخر میں شامل کیا ہے جس سے کتاب کی افادیت و وقعت بڑھ گئی ہے۔ ان کی نعت گوئی پر ڈاکٹر ریاض مجید، پروفیسر وصی احمد صدیقی اور محمد انور قمر شرق پوری کے مقالات بھی شاملِ کتاب ہیں۔ (محمد ایوب لِلّٰہ)
قرآن مجید کے بہت سے تراجم و تفاسیر، لفظی و بامحاورہ ترجمے، قرآن کی ترجمانی، مختلف رنگوں کے استعمال سے ترجمہ وغیرہ کا سلسلہ جاری ہے۔ یہ جہاں قرآن کے فہم کوعام کرنے کے لیے کوشش ہے وہاں قرآن کے عجائب کا بھی ایک پہلو ہے۔ زیرنظر ترجمۂ قرآن بھی اپنی جگہ ایک منفرد کاوش ہے، جس میں ترجمۂ قرآن میں بعض ایسے پہلوئوں کو سامنے لایا گیا ہے جن کی طرف توجہ کی ضرورت تھی۔
معلم القرآن کی چند نمایاں خصوصیات یہ ہیں: یہ مختصر تفسیر سمیت ایک سطر میں لفظی و بامحاورہ منفرد ترجمہ ہے۔ بین السطور ہے تاکہ لفظ ڈھونڈنا نہ پڑے بلکہ ایک نظر میں دونوں نظر آئیں۔ ڈبوں میں لفظی اور پھر نیچے بامحاورہ الگ الگ ترجمہ نہیں کیا گیا بلکہ ایک ہی سطر میں لفظی اور بامحاورہ ایسا ترجمہ کیا گیا ہے کہ اگر الگ الگ پڑھیں تو لفظی ہے اور اکٹھا پڑھیں تو بڑی حد تک بامحاورہ ہے۔ تفسیر الگ حاشیے پر نہیں کی گئی کہ تلاش کرنے میں وقت صرف ہو بلکہ موقع بموقع مختصر تفسیر ساتھ ہی دی گئی ہے۔ ہر ہر لفظ کا ترجمہ الگ الگ ہے۔ کسی بھی لفظ کا ترجمہ چھوڑا نہیں گیا۔ لفظ خدا کی جگہ لفظ اللہ استعمال کیا گیا ہے۔ اللہ کے لیے صیغۂ واحد کا ترجمہ واحد میں اور جمع کا جمع میں کیا گیا ہے۔ اللہ کی صفات والی آیتوں کا ترجمہ جوں کا توں کیا گیاہے۔ جملۂ معترضہ کے لیے کھڑی بریکٹ [] استعمال کی گئی ہے۔ ترجمہ اتنا آسان ہے کہ معمولی پڑھا لکھا بھی آسانی سے استفادہ کرسکتا ہے۔ مختلف مسالک کے علماے کرام نے اسے سراہا ہے اور تائید بھی کی ہے۔ اسی انداز میں مختصر صحاح ستہ، مختصر صحیح مسلم اور مشکوٰۃ پر بھی کام جاری ہے۔(امجد عباسی)
تصوف مذہبی و فلسفیانہ فکر کا ایک ایسا موضوع ہے جس پر صدیوں سے بہت کچھ لکھا جا رہا ہے اور ہنوز اس کا سلسلہ جاری ہے۔ تصوف کو دو حصوں میں تقسیم کیا جاتا ہے: اسلامی اور غیر اسلامی یا حقیقی اور غیرحقیقی تصوف۔ اس کے برعکس مؤلف اس تیسرے نظریے کے حامی اور مؤید نظر آتے ہیں جس کی رو سے تصوف سراسر غیر اسلامی اور دین اسلام کے متوازی ایک دین ہے۔ انھوں نے بحث ونظر سے کام لیتے ہوئے یہ ثابت کیا ہے کہ مروجہ تصوف کے فلسفیانہ مباحث یونانی، اشراقی اور ویدانتی فلسفوں سے ماخوذ و مستنبط، اس کے مذہبی و دینیاتی افکار کا سرچشمہ شیعیت اور باطنیت اور اس کے اعمال و مجاہدات مسیحی رہبانیت کا چربہ ہیں۔
کتاب میں نظریۂ وحدت الوجود اور برعظیم پاک و ہند میں اسلام کی اشاعت کیا صوفیا کی تبلیغ و سعی کی رہینِ منت ہے؟ ان دو موضوعات پر بڑی جان دار اور مدلل اور سیرحاصل بحث کی گئی ہے۔ کتاب اگرچہ اہم اور مدلل مباحث پر مبنی ہے لیکن پوری کتاب کے موضوعات و مباحث میں ایک عمدہ تصنیف و تالیف کا منطقی و معنوی ربط و تسلسل مفقود ہے جس سے یہ کتاب ایک مربوط بحث اور سلسلۂ کلام کے بجاے منتشر و متفرق افکار و مسائل کا ایک مجموعہ نظر آتی ہے۔ کتاب کا معیار طباعت و اشاعت گوارا ہے۔ (سمیع اللّٰہ بٹ)
خلاصۂ تراویح اور دعائوں کے کتابچے مفت حاصل کریں: ھم نے آج تراویح میں کیا پڑہا؟ تراویح کے دوران روزانہ پڑھے جانے والے قرآنِ کریم کے حصے کا خلاصہ اور قرآنی و مسنون دعائیں مفت تقسیم کی جارہی ہیں۔ خواہش مند خواتین و حضرات کم از کم ۸ روپے کے ڈاک ٹکٹ بنام ڈاکٹر ممتاز عمر T-473، کورنگی نمبر2، کراچی-74900 کے پتے پر روانہ کرکے کتابچے حاصل کرسکتے ہیں۔