میری راے یہ ہے کہ اس [اسلامی اصولوں پر بنکنگ کی اسکیم کے]کاروبار کو زکوٰۃ و صدقات کے ساتھ خلط ملط کردینا مناسب نہیں ہے۔ کاروباری ادارہ لازماً کاروباری نوعیت ہی کی فکر، صلاحیت اور مصروفیت چاہتا ہے، اور خیراتی ادارہ بالکل ایک دوسرے طرز کی فکر، صلاحیت اور مصروفیت کا طالب ہے۔ ان دونوں چیزوں کو خلط ملط کردینے سے اندیشہ ہے کہ یا تو خیرات کا پہلو نقصان اُٹھائے گا یا کاروبار کا پہلو۔ لہٰذا اگر آپ زکوٰۃ و صدقات کی تنظیم چاہتے ہیں تو اس کے لیے الگ انتظام سوچیے اور اس غرض کے لیے ایک مستقل ادارہ بنایئے…
بنک کے کام میں زکوٰۃ و صدقات کی وصولی اور خرچ کو شامل کردینے سے ایک خطرہ یہ بھی ہے کہ زکوٰۃ دینے والے بنک میں اپنی زکوٰۃ اس لالچ سے داخل کرائیں گے کہ وہاں سے ان کو قرضے حاصل کرنے میں آسانی ہو اور یہ چیز اُس ذہنیت کے بالکل خلاف ہے جس کے تحت ایک مسلمان کو زکوٰۃ دینی چاہیے۔
بنک کے لیے تو مناسب صورت یہی ہے کہ اس کو بالکل کاروباری اغراض کے لیے کاروباری طریقوں پر چلا جائے۔ مختصراً اس کے اصول حسب ذیل ہونے چاہییں:
۱- اس کا سرمایہ دو طریقوں سے حاصل ہو، ایک شرکا کے حصص (shares)، دوسرے ان لوگوں کی امانتیں (deposits) جو سود نہیں لینا چاہتے۔
۲- وہ تین قسم کے کام کرے، ایک مختلف صنعتی اور تجارتی کاموں کو سرمایہ فراہم کرنا اور حصہ داری کے اصول پر ان کے منافع میں سے اپنا متناسب حصہ وصول کرلینا۔ دوسرے، بنکاری کی وہ ساری جائز خدمات انجام دینا جو آج کل بنک عموماً انجام دیا کرتے ہیں اور ان کی فیس وصول کرنا۔ تیسرے حاجت مند لوگوں کو قابلِ اطمینان ضمانتوں یا جایداد کی کفالتوں پر غیرسودی قرض دینا۔
۳- ان میں سے پہلی دو مدوں سے جو آمدنی حاصل ہو وہ بنک کے انتظامی مصارف نکالنے کے بعد حصہ داروں اور امانت داروں، دونوں قسم کے لوگوں میں متناسب طریقے پر تقسیم کردی جائے۔
۴- اس بنک میں روپیہ رکھوانے اور اس کے حصص خریدنے کے لیے تین محرک کافی ہیں: ایک سود سے بچنے کی خواہش، دوسرے حلال منافع حاصل کرنے کی توقع، تیسرے اپنے مال کے تحفظ کا اطمینان۔ (’اسلامی اصولوں پر بنکنگ کی اسکیم،’رسائل و مسائل‘، ابوالاعلیٰ مودودیؒ، ترجمان القرآن، ج۲۹، عدد ۲، شعبان ۱۳۶۵ھ ، جولائی ۱۹۴۶ئ، ص ۵۸-۵۹)