۲ نومبر ۲۰۰۷ء کو جماعت اسلامی کا کُل پاکستان اجتماع ارکان شروع ہوا تو ہمیں قطعاً یہ اندیشہ نہیں تھا کہ اگلے ہی روز ہمیں نام نہاد ایمرجنسی، بالفاظِ دیگر مارشل لا کے نفاذ کی مکروہ خبر سننی پڑے گی۔ ہمارا اندازہ تھاکہ فوج ،بحیثیت مجموعی اپنی کمزوریوں کے باوجود، پرویز مشرف کو ملک میں دوبارہ مارشل لا‘ یا ماوراے آئین اقدامات کی اجازت اور مشورہ نہیں دے گی اور انھیں اس طرح کاکوئی اقدام کرنے سے باز رکھے گی لیکن افسوس کہ ہمارے اندازے غلط ثابت ہوئے۔
پرویز مشرف کو چونکہ اصل تشویش آئین کی بالادستی اور سپریم کورٹ کے ججوں کے آزادانہ فیصلوں کے بارے میں تھی، اس لیے انھوں نے صدر کے بجاے چیف آف آرمی سٹاف کی حیثیت سے اقدام کرکے آئین کو معطل کردیا ،چیف جسٹس افتخار محمد چودھری کو گھر بھیج دیا‘ اور کچھ من پسند ججوں سے عبوری آئینی حکم نامے (PCO)کے تحت حلف اٹھوا کر ایک ایسی سپریم کورٹ بنالی جسے تمام دنیا کے سیاسی اور قانونی تجزیہ کار ایک بوگس اور جعلی ادارہ قرار دے رہے ہیں اور جس کا قیام دستور اور قانونی حکمرانی کے ہر ضابطے کے خلاف ہے۔ ملک میں اس وقت عملی طور پر عدالت عظمیٰ اور چاروں صوبوں کی عدالت ہاے عالیہ معطل ہیں۔ ماتحت عدالتوں میں بھی وکلا تحریک کی وجہ سے کماحقہ کام نہیں ہورہا۔ اس صورت حال میں یہ سوال شدت سے سر اٹھائے ہمارے سامنے کھڑا ہے کہ ایسا ملک کیسے چل سکتا ہے جہاں عدالتیں کام کرنا چھوڑ دیں،اور تمام قوانین فرد واحد کی خواہشات کے تابع بن کر رہ جائیں۔
یہ ایک حقیقت ہے کہ پاکستان میں اصل اقتدار ابتدا ہی سے سول اور ملٹری بیوروکریسی کے ہاتھ میں رہاہے۔ دورِ غلامی میں برطانوی حکومت بھی غیرمنقسم ہندستان میں بیوروکریسی پر نظر رکھتی تھی،تاہم وہ غلاموں کے ساتھ سلوک میں قواعد و ضوابط کی پابندی کرتی تھی لیکن آزادی کے بعد پاکستان میں بیوروکریسی ہر طرح کی بندشوں سے آزاد ہوگئی‘ اور اس کے رویے کو حدود کا پابند رکھنے کا کوئی ادارہ نہیں بن سکا جس سے مطلق العنان سول اور ملٹری بیوروکریسی خودسر ہوتی گئی۔
سپریم کورٹ اورچیف جسٹس افتخار محمد چودھری کا سب سے بڑا جرم یہ تھا کہ انھوںنے اکڑی ہوئی گردنوں والے ان افسروں کو قانون اور آئین کے سامنے جھکانے اور انھیں ضابطے کا پابند بنانے کی کوشش کی۔ انھوںنے مفقود الخبرافراد( missing persons)کے بارے میں فوج کی خفیہ ایجنسیوں کو حکم دیا کہ انھیں عدالت میں پیش کریں۔ سپریم کورٹ نے وفاقی سیکرٹریوں اور جرنیلوں میں اسلام آباد کے پلاٹو ں کی بند ر بانٹ کے بارے میں بھی سوال اٹھایا کہ کس قاعدے اور ضابطے کے مطابق یہ لوگ کروڑو ں روپے کی جایدادیں اونے پونے داموں سے اپنی ملکیت میں لے رہے ہیں؟
پاکستان میں بار بار کے مارشل لا کے ذریعے جمہوریت کی جو درگت بنی ہے اور آئینی ضابطوں کو جس طرح پامال کیا جاتار ہاہے‘ وہ سب کے سامنے ہے۔ اس پر کچھ زیادہ کہنے یا لکھنے کی ضرورت نہیں ہے۔ نوبت یہاں تک پہنچ گئی ہے کہ فوجی جرنیل تو کیا‘ فوج کا کوئی معمولی افسر بھی اپنے آپ کو ہر قانون اور ضابطے سے بالا تر سمجھنے لگا ہے۔ پرویز مشرف نے اپنی پریس کانفرنس میں ’ایمرجنسی پلس‘ یا مارشل لا لگانے کی بڑی وجہ یہی بتائی ہے کہ سپریم کورٹ کے بعض ججوں کا رویہ ناقابل قبول تھااور وہ اعلیٰ افسران کی توہین کے مرتکب ہو رہے تھے۔ بقول ا ن کے انھوں نے ماوراے قانون و دستور ’اختیارات‘ استعمال کیے، اور ان کی نگاہ میں معاملات کو درست کرنے کے لیے ایمرجنسی لگانا ضروری تھا۔
مگر حقیقی صورتِ حال اس کے بالکل برعکس ہے۔آئین میں صدرِ پاکستان کو وزیراعظم کے مشورے پر مشکل صورت حال میں ایمرجنسی لگانے کا اختیار دیا گیا ہے لیکن پرویز مشرف نے یہ قدم چیف آف آرمی سٹاف کی حیثیت سے اٹھایا ہے ،اور ملک میں ’ایمرجنسی پلس‘کے نام سے مارشل لا نافذ کردیا ہے۔یاد رہے کہ وہ پاکستان کے پہلے حکمران ہیں جنھوں نے دوسری دفعہ دستور کو معطل کرنے کے جرم کا ارتکاب کیا ہے۔ ستم یہ ہے کہ وہ پہلے قابض حکمران ہیں جنھوں نے خود اپنے آٹھ سالہ دور اقتدار کے خلاف مارشل لا لگایا ہے اور صرف اپنی کرسی کو بچانے کے لیے یہ کھیل کھیلا ہے۔ واضح رہے کہ آئین کے تحت ایمرجنسی کے نفاذ سے اگرچہ شہریوں کے بنیادی حقوق سلب کرلیے جاتے ہیں لیکن حکومت کو چیف جسٹس کو برطرف کرنے کا اختیار پھر بھی نہیں ملتا۔ پرویز مشرف کو بتانا چاہیے تھا کہ آئین کی وہ کون سی دفعہ ہے جو چیف آف آرمی سٹاف کو یہ اختیار دیتی ہے کہ وہ سپریم کور ٹ کے رویے کو درست کرنے کے لیے مارشل لا لگادے ،اور سپریم کورٹ کے چیف جسٹس سمیت عدالت عظمیٰ اور عدالت عالیہ کے تقریباً ۶۰ ججوں کو خودساختہ عبوری آئین کے تحت حلف نہ اٹھانے کے جرم میں عدلیہ سے نکال باہر کرے۔ دستور تو بہ صراحت حکومت کے تمام اداروں اور کارندوں کو حکم دیتا ہے کہ وہ عدالت کے فیصلوں کی بے چون و چرا تعمیل کریں۔ پرویز مشرف کا یہ اقدام وہی ماوراے آئین آخر ی مکّا(final punch)ہے جس کی دھمکی وہ سپریم کورٹ کو دے رہے تھے کہ اگر فیصلہ ان کے حق میں نہیں ہوا تووہ آخری مکّا رسید کردیں گے۔
حیرت ہے کہ پرویز مشرف نے اپنی پریس کانفرنس میں مقامی اور غیر ملکی میڈیا کے سامنے بڑی ڈھٹائی سے کہہ دیا کہ یہ کارروائی انھوںنے آئین اور قانون کے مطابق کی ہے‘ حالانکہ یہ سب کچھ انھوں نے چیف آف آرمی سٹاف کی حیثیت سے کیااور آئین معطل کرکے چیف جسٹس کو ان کے منصب سے ہٹا دیا۔ نیز ہائی کورٹوں اور سپریم کورٹ کے ججوں کو پی سی او کے تحت حلف لینے کا پابند کردیا‘ اور حلف نہ لینے والوں کو گھروں میں نظر بند کردیا گیا۔ یہ پوری کارروائی ہرقانون اور آئین سے بالاتر بلکہ ان سے متصادم ہے،اور آئین کی دفعہ ۶کے تحت High Treason ‘یعنی بغاوت اور غداری سمجھی جائے گی۔
سب سے زیادہ تشویش ناک بات یہ ہے کہ اس پوری کارروائی میں فوج بحیثیت ادارہ شریک کرڈالی گئی ہے۔فوج جیسے اہم ادارے کا آئین کے خلاف کارروائی میں شریک ہونا‘ پوری قوم کے لیے لمحۂ فکریہ ہے۔ جس ادارے کی ضروریات پوری کرنے کے لیے غریب قوم اپنے بچوں کا پیٹ کاٹ کر قربانی دیتی رہی ہے اورجسے عوام کی روٹی ،کپڑے ،مکان اور تعلیم اور علاج جیسی بنیادی ضروریات پر فوقیت دی گئی ہے، اس ادارے کے نام پر اس کا سربراہ اب اپنی قوم کے حقوق چھیننے پر تل گیا ہے۔ ان حالات میں ملک ہی نہیں‘ بیرونِ ملک کے سیاسی تجزیہ نگار بھی انگشت نمائی کررہے ہیں کہ فوج کے اعلیٰ افسروں نے ایک استحصالی طبقے کی شکل اختیار کرلی ہے جس کا ہر فرد کروڑوں روپے کی جایداد کا مالک ہے۔ اس طبقے نے پوری قوم کو غربت اور جہالت کے گہرے غار میں دھکیل کر اسے غلامی اور دوسرے درجے کے شہری کی حیثیت سے زندگی گزارنے پر مجبور کردیا ہے۔ اس طبقے کا غرور اور تکبر اس حد تک بڑھ گیا ہے کہ اگر سپریم کورٹ کا کوئی بنچ ان سے باز پرس کرنے کی ہمت کرے تو یہ اسے اپنی توہین سمجھتے ہیں۔ چنانچہ پرویز مشرف نے اپنی پریس کانفرنس میں چیف جسٹس افتخار محمد چودھری اور کچھ دوسرے ججوں پر الزام لگایا ہے کہ مفقود الخبرافراد کے بارے میں معلومات فراہم کرنے کے لیے سپریم کورٹ نے بعض اعلیٰ افسروں کو عدالت میں پیش کرنے کا حکم دے کر ان کی توہین کی ہے۔ اس سلسلے میں انھوں نے سندھ کے چیف سیکرٹری کا ذکر کیا جیسے کسی اعلیٰ افسر کو عدالت میں بلانا ہی کافی جرم ہے جس کی بنیاد پر عدالت عظمیٰ کے ججوں کو برطرف کیا جاسکتاہے ،اور یہ کام چیف آف آرمی سٹاف کرسکتا ہے حالانکہ آئین کے مطابق اس کا درجہ کسی صورت میںچیف جسٹس کے برابر نہیں ہوسکتا۔
ایک اورخطرناک پہلو یہ ہے کہ مارشل لا کے نفاذ کے ساتھ ہی آرمی ایکٹ میں ترمیمی آرڈی ننس جاری کردیا گیا جس کے مطابق کسی سویلین کوبھی آرمی ایکٹ کے مطابق سزا دی جاسکتی ہے۔ اس طرح کسی بھی شہری پر دہشت گردی کا الزام لگا کر اس کا کورٹ مارشل کرنے کا راستہ کھول دیا گیاہے۔ اٹارنی جنرل نے وضاحت کرتے ہوئے کہا ہے کہ دہشت گردی کو ختم کرنے کے لیے یہ ضروری تھالیکن دہشت گردی کا الزام تو اس ملک میں ہر سیاسی کارکن پر بہت آسانی سے لگادیا جاتاہے۔ موجودہ حالات میں سیاسی کارکنوں کو دبائو میں رکھنے کے لیے سب سے آسان حربہ یہی ہے۔
اس وقت قومی وبین الاقوامی دبائو بڑھ رہا ہے اور پرویز مشرف سے ’ایمرجنسی پلس‘ یا مارشل لا ہٹانے کا مطالبہ کیا جارہاہے لیکن پرویز مشرف نے اپنی مرضی کا ایک اور قدم اٹھا کر سینیٹ کے چیئرمین محمد میاں سومرو کو عبوری وزیراعظم مقرر کردیا ہے۔ ایک طرف وہ سینیٹ کے چیئرمین ہیں جو صدر کی عارضی یا مستقل غیر حاضری کی صورت میں دستور کے مطابق قائم مقام صدر کی حیثیت سے چارج سنبھال سکتے ہیں‘ اور دوسری طرف انھی کو عبوری وزیراعظم بنا کر ایک دستوری سوال پیدا کردیاگیا ہے کہ ایک شخص بیک وقت سینیٹ کا چیئرمین اور وزیراعظم کیسے بن سکتاہے۔ حکومت کے نمایندے اٹارنی جنرل ملک قیوم کا کہنا ہے کہ چونکہ دستور معطل ہے اس لیے وہ عبوری وزیراعظم بن سکتے ہیں اور ساتھ ہی سینیٹ کے چیئرمین کے عہدے پر بھی برقرار رہ سکتے ہیں۔یہ اس حقیقت کا ثبوت ہے کہ پرویز مشرف کے عہد میں نہ کوئی دستور ہے اور نہ کوئی ضابطہ اور قانون۔
اگر مغربی ممالک کے اس مطالبے کو تسلیم کرلیا جاتاہے کہ ایمرجنسی کو ہٹا دیاجائے اور دستور بحال کرکے انتخابات کرادیے جائیں تو یہ سوال پیدا ہوگا کہ اس دوران جو آرڈر اور ضابطے جاری کیے گئے ہیں‘ ان کا کیا بنے گا؟ کیونکہ اس وقت تو قومی اسمبلی بھی نہیں ہے کہ آٹھویں یا سترھویں ترمیم کی طرح کے کسی دستوری حیلے کے ذریعے مارشل لا کے ضابطوں کو سند جواز مل سکے اور غیرآئینی فعل کو جو دستور کے آرٹیکل ۶کے مطابق غداری اور بغاوت ہے‘ تحفظ (indemnity) فراہم کرسکے۔ یہ صورت حال عملاً جان بوجھ کر پیدا کی گئی ہے تاکہ جمہوری سویلین حکومت قائم کرنے کے دستوری راستے بند کردیے جائیں اور ایک نئے تازہ دم جرنیل کے لیے راستہ ہموار کیا جائے‘ یا دستور سے بالا تر ایک سویلین حکومت قائم کی جائے جس طرح یحییٰ خان نے ذوالفقار علی بھٹو کو چیف مارشل لا ایڈمنسٹریٹر بنادیا تھا۔
پرویز مشرف نے ۱۵نومبر کو قومی اسمبلی اور۲۰نومبر کو صوبائی اسمبلی کو برخاست کرنے اور ۸جنوری ۲۰۰۸ء سے پہلے انتخابات کے انعقاد کا اعلان کیا ہے لیکن انھوںنے آئین کی بحالی کی تاریخ نہیں دی اور ججوں کو بحال کرنے سے صاف انکار کردیا ہے۔
اس وقت ایک اہم سوال یہ ہے کہ موجودہ حالات میں جب کہ ملک میں مارشل لا ہے، دستور معطل ہے، اعلیٰ عدالتوں کو مفلوج کردیا گیاہے اور ملک میں عدل و انصاف کے ادارے اور انتخابات کا انتظام فوجی آمر کی مرضی کے تابع ہیں ، کیا انتخابات میں حصہ لینا چاہیے؟ اس کا فیصلہ تو سیاسی و دینی جماعتوں کی مجالس مشاورت کو گہرے غور و خوض کے بعدباہمی مشورے سے کرنا ہے لیکن اگر اپوزیشن کی تمام جماعتیں، بشمول پیپلز پارٹی اور جمعیت علماے اسلام (ف) جعلی الیکشن میں حصہ لینے کے بجاے عدلیہ کی بحالی کے لیے مشترک جدوجہد کے کسی لائحہ عمل پر متفق ہوجائیں تو اس میں ملک و قوم کی بہتری ہے۔ حزبِ اختلاف کی تمام جماعتوں کو متفق کرنے کے لیے متحدہ مجلس عمل نے ایک قومی مجلس مشاورت بلانے کا فیصلہ کیا جس میں اپوزیشن سے تعلق رکھنے والی سیاسی اور مذہبی جماعتوں کے علاوہ سول سوسائٹی کے لیڈروں اور وکلا کی تنظیموں کے نمایندوں کو بھی دعوت دینے کا ارادہ تھا۔ لیکن میاں محمد نواز شریف کی خواہش کے احترام میںکہ یہ کانفرنس آل پارٹیز ڈیموکریٹک موومنٹ کی دعوت پر ہو، مولانا فضل الرحمن صاحب اور ایم ایم اے کی دوسری جماعتوں کے مشورے کے بعد اسے ملتوی کردیاگیا۔ جب محترمہ بے نظیر بھٹو صاحبہ نے اس خواہش کا اظہار کیا کہ ان کی دعوت پر لوگ ان کے گھر پر کراچی میں جمع ہوں تو انھیں بھی ہم نے مل کر یہ مشورہ دیا کہ مناسب ہوگا کہ کسی غیر جانب دار شخصیت کے ہاں غیررسمی طور پر ہم سب مشورے کے لیے جمع ہوجائیں۔ اس کے لیے جسٹس (ر) وجیہہ الدین صاحب کا نام بھی ہم نے اور نواز شریف صاحب نے تجویز کیا ہے لیکن تاحال اس بارے میں کوئی فیصلہ نہیں ہوسکا۔
اس پریشان کن منظر میں ایک خوش آیند بات یہ ہے کہ پاکستان کی تاریخ میں پہلی مرتبہ سپریم کورٹ اورہائی کورٹ کے ججوں کی ایک بڑی تعداد(۶۰ کے قریب) نے چیف آف آرمی سٹاف کی غیر آئینی مداخلت کو ناجائز قرار دیا ہے اور مارشل لا کے نفاذ کو چیلنج کرکے پی سی او کے تحت حلف لینے سے انکار کیا ہے۔اس وقت قوم کا فرض ہے کہ ان بہادر اور زندہ ضمیر رکھنے والے ججوں کی پشت پر کھڑے ہوکر ان کی بحالی کی تحریک چلائیں کہ ان کی بحالی ہی آئین کی بالادستی اور حقیقی عدل و انصاف کو فراہم کرنے کا ذریعہ بنے گی۔ ایک آزاد عدلیہ کی بحالی تمام اداروں کی بحالی کا راستہ ہے اور عدلیہ کی آزادی کے لیے ضروری ہے کہ چیف جسٹس سمیت تمام جج زندہ ضمیر کے مالک ہوں۔
ہمارے خیال میںوطن عزیز کوان حالات سے نکالنے کے لیے صرف عوامی تحریک ہی کافی نہیں ہے‘ بلکہ ایک متفقہ متبادل پر اتفاق بھی ضروری ہے۔ کیا موجودہ سیاسی اور مذہبی زعما اس غیرمعمولی صورت حال کا ادراک کرکے ایک ہی فارمولے پر جمع ہوسکتے ہیں؟ ہمارے خیال میں چیف جسٹس افتخار محمدچودھری سمیت ان تمام ججوں کو جنھوںنے پی سی او کے تحت حلف لینے سے انکار کرکے ایک روشن مثال قائم کی ہے ، بحال کرکے دستوری راستہ تلاش کیا جاسکتاہے۔ لیکن اس حل پر متفق ہو کر اس کی خاطر عوام کو ساتھ لے کر پُرامن جدوجہد کرنے کی ضرورت ہے۔ پُرامن جدوجہد کے لیے ایسے طریقے اختیار کرنے کی ضرورت ہے کہ فوج اور پولیس سے تصاد م کی نوبت نہ آئے اور پرامن عوامی احتجاج بھی مسلسل جاری رہے۔ جیسے گھروں پر سیاہ جھنڈے لہرانا اور متعین اوقات میں گھروں اور دکانوں سے نکل کر ایک گھنٹے کے لیے سامنے کی گلی اور سڑک پر پُرامن دھرنا دینا‘ یا بینر لے کر خاموش مظاہرے کرنا اور ان سرگرمیوں کے لیے محلے اور بازار میں انفرادی رابطے کے ذریعے لوگوں کو تیار کرنا۔ خطبوں اور تقریروں میں حالات پر تبصرہ کرکے لوگوں کو ملک و قوم کی اجتماعی بہتری کے لیے انفرادی آرام کو نظرانداز کرکے تھوڑی بہت مشقت اُٹھا کر کام کے لیے تیار کرنا، اور امت کے معاملات میں دل چسپی لینے کی شرعی ضرورت کا احساس دلانا، مساجد کے باہر بینرلے کر خاموش مظاہروں کے لیے کھڑے ہوجانا،وہ چند پُرامن طریقے ہیں جنھیں عام کرنے کی ضرورت ہے۔ کسی مرحلے پر گرفتاریاں پیش کرنا اور جیل بھرو تحریک بھی کارگر ثابت ہوسکتی ہے۔ اس کے لیے رضاکاروں کو تیار کرنا اورجیل جانے والے ساتھیوں کے گھر والوں اور ان کے بچوں کی نگہداشت کا مناسب نظام بنانے کی ضرورت ہے۔
پاکستان کے آئین کو اپنی روح اور الفاظ کے ساتھ پوری طرح سے بحال کرنے کے لیے اس کی چار بنیادی خصوصیتوں کو سامنے رکھنا چاہیے :
۱- پاکستان کے آئین کا پہلا اصول اسلامی نظریۂ حیات کی پابندی ہے۔ قرار داد مقاصد میں جو پاکستان کے آئین کی بنیاد ہے، اللہ رب العالمین کی حاکمیت اعلیٰ کو تسلیم کیا گیا ہے۔ اورمقننہ اور عدلیہ اور انتظامیہ سمیت ریاست کے تمام اداروں کو پابند بنایا گیا ہے کہ وہ قرآن و سنت کی حدود میں رہ کر کاروبار حکومت چلائیں گے اور قانون ساز ی کریں گے۔
۲- پاکستان کا آئین جمہوری اور پارلیمانی طرزِ حکومت قائم کرتا ہے۔ عوام کے منتخب نمایندوں کو ریاستی نظام چلانے کا حق دیا گیا ہے اور تمام معاملات میں پارلیمنٹ کی بالادستی تسلیم کی گئی ہے۔ آئین میں ترمیم کے لیے دونوں ایوانوں کی دوتہائی اکثریت حاصل کرنا ضروری ہے۔
۳- پاکستان کا آئین وفاقی ہے اور ایوان بالا میں وفاق کی چار اکائیوں کو برابر کی نمایندگی حاصل ہے۔ قانون سازی میں صوبائی اسمبلیاں اپنے دائرۂ کار میں آزاد ہیں۔ دستور وفاق کی چار اکائیوں کو یہ اطمینان دلاتاہے کہ وہ اپنے دائرہ کار میں خود مختار ہیں، اور ان کے اختیارات کے بارے میں انھیں مطمئن کرنااور حسب ضرورت ان میں اضافہ کرنا وفاق کے لیے ضروری ہے۔
۴- پاکستان کا آئین فلاحی ہے، اور عوام کے تمام طبقات کو بنیادی ضروریات روٹی کپڑا، مکان ، تعلیم اور علاج کی سہولتیں اور مواقع فراہم کرنا ریاست اور معاشرے کا فرض ہے۔
بدقسمتی سے پاکستان کی کوئی حکومت اس آئین کو اس کی اصل روح کے ساتھ نافذ کرنے میں کامیاب نہیں ہوسکی۔ اس کے اسلامی اصولوں کو ہمیشہ پامال کیاگیا۔ اسلامی نظریاتی کونسل کی سفارشات عرصۂ دراز تک صیغۂ راز میں رکھی گئیں اور جب ضیاء الحق کے زمانے میں پارلیمنٹ میں مطالبہ کیاگیا کہ آئین کے تقاضے کے طور پر اسلامی نظریاتی کونسل کی سفارشات کو پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں میں پیش کردیا جائے تو مجبوراً بند الماریوں سے انھیں نکالنا پڑا‘ لیکن ان سفارشات پر عمل درآمد کی کوئی سبیل نکالنے کے بجاے اسے محض گفتگو کا موضوع بنا کر دوبارہ طاق نسیاں پر رکھ دیا گیا۔ ایک بار جنرل ضیاء الحق صاحب نے علماے کرام کا کنونشن منعقد کرکے اسلامی نظام کے نفاذ کے بارے میں سفارشات طلب کیں تو جسٹس تنزیل الرحمن صاحب نے ہمت کرکے اسلامی نظریاتی کونسل کی ۲۸ جلدوں پر مشتمل سفارشات کا پلنداان کے سامنے رکھ دیا کہ آپ پہلے ان سفارشات کو عملی جامہ پہنا دیں‘ پھر مزید سفارشات طلب کریں تو ضیاء الحق صاحب بدمزہ ہوگئے۔
صوبائی خود مختاری و اختیارا ت نچلی سطح تک تقسیم کرنے (devolution of power) کے بہانے صوبو ں سے اختیارات واپس لے لیے گئے اور بلدیاتی اداروں کو براہ راست مرکز سے کنٹرول کیا جانے لگا۔ صوبوں میں چیف سیکرٹری اور انسپکٹر جنرل پولیس کی تقرری کا قاعدہ یہ ہے کہ ان دونوں عہدوں کے لیے صوبائی حکومت سے تین تین نام طلب کرکے ان میں سے ایک کی تقرری مرکزی حکومت کردیتی ہے لیکن صوبہ سرحد میں ایم ایم اے کی حکومت کے تجویز کردہ تینوں ناموں کو چھوڑ کر اپنی پسند کے لوگوں کی تقرر ی کی گئی اور جب چاہاپرویز مشرف نے چیف سیکرٹری اور آئی جی کو براہ راست بلا کر احکامات صادر کیے اور جسے چاہا بیک بینی و دوگوش تبدیل کردیا۔ سرحداسمبلی کے منظور کیے ہوئے شریعت ایکٹ کو مسترد کروادیا گیا اور انھیں کوئی ضابطہ نافذ کرنے نہیں دیا گیا جس سے صوبہ سرحد میں دوسرے صوبوں کی نسبت اسلام کے نفاذ کے سلسلے میں کوئی امتیازی علامت ظاہر ہوسکے۔ بجلی کی رائلٹی کے سلسلے میں صوبہ سرحد کو کھلم کھلا اپنے حق سے محروم رکھا گیا ہے اور اس سلسلے میں ٹربیونل کے فیصلے کو بھی نظر انداز کردیاگیا۔ بلوچستان کے ساتھ بھی یہی سلوک روا رکھا گیا‘ بلکہ تین سال سے اسے کھلی فوج کشی کی آماج گاہ تک بنا دیا گیا ہے اور بے دردی سے عام انسانوں کو قتل کیا جا رہا ہے‘ یا نقل مکانی پر مجبور کردیا گیا ہے حالانکہ صوبے کی اسمبلی نے متفقہ طور پر فوجی ایکشن بند کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔ اس طرح آئین کو نظراندا ز کرکے صوبو ں کی حق تلفی کرنے کا نتیجہ یہ ہے کہ چھوٹے صوبوں میں بے چینی اور بے اطمینانی بڑھتی جار ہی ہے اور لوگ قوت کے استعمال کے ذریعے شریعت کے نفاذ اور ظلم و ناانصافی کا تدارک کرنے کا مطالبہ کرنے پر مجبور ہورہے ہیں۔
آئین میں حکومت پاکستان کو ایک فلاحی ریاست (welfare state)قرار دیا گیا ہے جہاں تمام شہریوں کو بنیادی ضروریا ت فراہم کرنا ریاست کی ذمہ داری ہوتی ہے۔ لیکن پاکستان میںجو معاشی پالیسیاں آج تک نافذ رہی ہیں ان کے نتیجے میں یہاں ایک بد ترین قسم کا استحصالی معاشرہ وجود میں آگیا ہے جہاں مسلسل غریب‘ غریب تر اور امیر‘ امیر تر ہوتا جا رہا ہے۔ ترقی اور خوش حالی کے بلند بانگ دعووں کے باوجود عام شہری بنیادی ضروریات سے محروم ہے۔ آبادی کا ایک تہائی غربت کی دلدل میں پھنسا ہوا ہے اور بے روزگاری مسلسل بڑھ رہی ہے۔ مہنگائی کا عفریت پوری آبادی اور خصوصیت سے غریب اور متوسط طبقات کو مسلسل ڈس رہا ہے اور آٹا، دال، سبزیاں اور گھی جیسی بنیادی اشیا بھی لوگوں کی پہنچ سے باہر ہورہی ہیں۔ ایک اوسط درجے کے خاندان کا صرف آٹے اور دال کا خرچ ماہانہ ایک ہزار روپے سے بڑھ جاتاہے۔ جس نے ہفتے میں ایک دن بھی گوشت کھانا ہو اور اوسطاً دوبچے زیر تعلیم ہوں اور مکان،بجلی، گیس کے بل بھی ادا کرنے ہوں اور کپڑے اورجوتے بھی استعمال کرنے ہو ں تو حساب لگالیجیے کہ کیا ۱۵ہزار روپے میں بھی یہ ضروریات پوری ہوسکتی ہیں، اور کیا اوسط درجے کا خاندان مہینے میں۱۵ ہزار روپیہ کمابھی سکتاہے۔
پاکستان کو ایک حقیقی فلاحی ریاست میں تبدیل کرنے کے لیے جن انقلابی اقدامات کی ضرورت ہے‘ ان کی توقع موجودہ استحصالی حکمران طبقے سے قطعاً نہیں ہے۔ پاکستان کے موجودہ مسائل کا حل عوامی بیداری کے ذریعے ایک ایسی حکومت کا قیام ہے جو آئین اور قانون کی بالادستی کو خوش دلی سے تسلیم کرے، اور قانونی حدود کے اندر رہ کر اختیارات استعمال کرنے کو بنیادی اصول کے طور پر اختیار کرے جو اقتدار اور وسائل دونوں کو امانت سمجھ کر حکمرانی کے فرائض انجام دے اور قانون‘ عوام اور خدا کے سامنے جواب دہ ہو۔
آئین اور قانون کی بالادستی اور عدلیہ کی آزادی کا خواب اسی وقت شرمندہ تعبیر ہوسکتاہے جب ججوں کی تقرری میں بنیادی وصف جج کی امانت و دیانت ہو۔ جج کو صاحب ضمیر اور جرأت مند ہونا چاہیے۔ بزدل آدمی کبھی بھی انصاف فراہم نہیں کرسکتا۔ بدقسمتی سے ہمارے ہاں جرأت و بہادری اور امانت و دیانت کے بجاے جج کا معیار یہ قرار پایا ہے کہ وہ حکمرانوں کے مفادات کا محافظ اور حکمرانوں کا وفادار ہو۔ اسی لیے ایک ہردلعزیز اور بہادر چیف جسٹس افتخار محمد چودھری کو ہٹاکر ایسے لوگوں کو جج بنا دیا گیا ہے جنھوںنے آئین کی بالا دستی اور حفاظت کے حلف کو توڑ کر ایک غاصب فرد کی وفاداری کا حلف اٹھانے میں کوئی عار محسوس نہیں کی۔
اس وقت تمام اپوزیشن جماعتوں کے پاس ایک ہی سیدھا اور انصاف کا راستہ موجود ہے کہ پیپلز پارٹی سمیت اے پی ڈی ایم میں شامل تمام پارٹیاں مل کر پرویز مشرف کے انتخابی ڈھونگ کا پردہ چاک کریں۔ اس جال میں پھنسنے اور جمہوریت کو مزید پانچ سال کے لیے آمرمطلق کی لونڈی بننے سے روکنے کا بروقت اقدام کریں اور انتخابات میں اسی وقت حصہ لیں جب سپریم کورٹ اور ہائی کورٹوں کا وہ نظام بحال ہو جو ۳نومبر سے پہلے موجود تھا۔ منصفانہ انتخابات اور جمہوری عمل کے برسرکار آنے کی پہلی صورت یہ ہے کہ انتخابات میں حصہ لینے کے بجاے سپریم کورٹ اور ہائی کورٹوں کے دیانت دار اور باضمیر ججوں کی بحالی اور پی سی او کے تحت حلف اٹھانے والی عدالتوں کے خاتمے کے لیے ملک گیر عوامی مہم چلائی جائے۔ سپریم کورٹ اور چیف جسٹس افتخار محمد چودھری کی بحالی موجودہ بحران کو ختم کرنے کی شہ کلید ہے۔ وہی سپریم کورٹ یہ فیصلہ کرے کہ مارشل لا پی سی او، جس کو ’ایمرجنسی پلس‘ کا نام دیاگیاہے‘ کی آئینی حیثیت کیا ہے؟ پرویز مشرف کیا آرمی چیف آف سٹاف اور صدر بن سکتے ہیں یا نہیں؟ عبوری حکومت کی آئینی شکل کیا بن سکتی ہے‘؟اورآزاد الیکشن کمیشن کی تشکیل کیسے ہو سکتی ہے؟ اگر تمام اپوزیشن جماعتیں اس پر متفق ہوجائیں تو اس پروگرام کو بین الاقوامی تائید بھی حاصل ہوسکتی ہے ،اور ملک کے اندر لاقانونیت اور آمریت کی لہر کا خاتمہ بھی ہوسکتا ہے۔
(یہ تحریر ۱۸نومبر کو لکھی گئی)