انسانی وسائل کی ترقی(Human Resource Development) آج کی ایک معروف اصطلاح ہے۔ بزنس ایڈمنسٹریشن کی تعلیم میںتو یہ موضوع ان کے مضامین کا لازمی حصہ ہوتا ہے۔ اسی طرح کارپوریٹ سیکٹر ہو یا مشنری ادارے‘ یہ کام وہاں باقاعدہ اور منظم انداز میں ہوتا ہے۔ ادارے کے وژن کو حاصل کرنے کے لیے انسانی وسائل کو ایک خاص ڈھب میں ڈھالنا اور ترقی دینا اب مستقل نوعیت کا فن بن چکا ہے۔ بڑے اداروں میں اس کے شعبہ جات قائم کیے جاتے ہیں۔ کسی بھی متعین مقصد اور ہدف کو حاصل کرنے کے لیے قائم کوئی منظم یا تحریک اپنے کارکنوں اور قائدین کے لیے تربیتی نظام عنوان سے دراصل ایچ آر ڈی کا کام ہی کرتی ہے۔
ہیومن ریسورس ڈویلپمنٹ (HRD) کی تعریف و تشریح معاشرے کے مختلف شعبوں سے تعلق رکھنے والے ماہرین‘ مثال کے طور پر ماہرین معاشیات‘ماہرین تعلیم‘ ماہرین نفسیات‘ صنعت کار‘ منتظمین وغیرہ اپنے اپنے انداز اور پیرایے میں کرتے ہیں۔ انسانی وسائل کی ایک تعریف یہ کی جاتی ہے:
انسانی وسائل سے مراد کسی تنظیم کے مالی و مادی وسائل کے بالمقابل وہ افراد ہیں جو اس تنظیم کو چلاتے ہیں۔ اس سے مراد تنظیم کی کارکردگی ہے جو افراد اور وسائل سے متعلق ہے جیسے جائزہ‘ تربیت‘ معاوضے‘ بھرتی وغیرہ۔ انسانی وسیلہ تنظیم کا واحد فرد یا ملازم ہے۔
ہیومن ریسورس ڈویلپمنٹ کی تعریف یہ کی جاتی ہے:
انسانی وسائل کی ترقی ملازموں کو ان کی ذاتی اور تنظیمی صلاحیتوں‘ قابلیتوں‘ مہارتوں اور معلومات کی ترقی میں مدد دینے کا نظام ہے۔ یہ ملازمین کی تربیت‘ جانشینوں کے لیے منصوبہ بندی‘ کلیدی ملازم کی نشان دہی‘ تعلیم میں مدد وغیرہ کا احاطہ کرتا ہے۔
ایچ آر ڈی کا بنیادی ہدف درج ذیل سطور سے معلوم کیا جا سکتا ہے۔ انسانی وسائل کی ترقی کا مرکزی نکتہ‘ اعلیٰ درجے کے کارکن تیار کرنا ہے تاکہ تنظیم اور ملازمین گاہکوں کی خدمت کے حوالے سے اپنے کام کے مقاصد کو حاصل کریں۔
جہاں تک ہیومن ڈویلپمنٹ کا موضوع ہے‘ اس ضمن میں اقوام متحدہ کا جاری کردہ ہیومن ڈویلپمنٹ انڈکس ایک مستند درجہ رکھتا ہے۔ اس میں تعلیم، معیار زندگی، اوسط عمر اور صحت مند زندگی وغیرہ شامل ہیں۔کئی ادارے ہیومن ڈویلپمنٹ کے عنوان کے تحت ناخواندگی ختم کرنے میں مصروف ہیں اور کچھ آگہی و شعور بیدار کرنے میں۔
اسی طرح ہیومن ریسورس منیجر یا اس شعبے سے متعلق جو ذمہ داریاں اور کام مطلوب ہیں ان میںافراد کی بھرتی، کارکردگی، ترغیب و آمادگی، تعلیم و تربیت، مسائل، صلاحیت کی نشوونما وغیرہ بھی اِس میںشامل ہیں۔
ان تعریفوں سے جو نمایاں نکات سامنے آتے ہیں وہ درج ذیل ہیں:
ان تمام اہداف کامقصد صرف اور صرف یہ ہے کہ فرد اپنی ذات کی نشوونما اس لیے اور اس طرح کرے کہ اس سے اداروں کے لیے مطلوبہ اہداف کا حصول ممکن ہو سکے۔ ان اہداف کا تعلق، مفاد عامہ سے ہو بھی سکتا ہے اور نہیں بھی۔ جیسے جیسے مادیّت کے رجحانات بڑھ رہے ہیں اور مسابقت کی فضا میں اضافہ ہو رہا ہے، ویسے ویسے مال و دولت کے حصول میں اخلاقیات کا عنصر کم ہوتا جا رہا ہے۔ لہٰذا اس تناظر میں ہیومن ریسورس ڈویلپمنٹ کی تعلیم و تربیت کے لیے جو اسکیم وضع کی جاتی ہے‘ اس میں اصل ہدف ایک ایسے فرد کی تیاری ہے جو ادارے کے لیے اس طرح سودمند ثابت ہوکہ اس کے کاروباری پھیلائو کا ذریعہ بنے۔ چنانچہ ہیومن ریسورس ڈویلپمنٹ کا اصل مدعا منافع کی زیادہ سے زیادہ تکثیر (maximization of profit) ہی بن کررہ جاتا ہے۔ اطلاعاتی ٹکنالوجی کے اس دور میں،مارکیٹنگ باقاعدہ ایک سائنس کا درجہ اختیار کر چکی ہے۔ اور اخلاقی اقدار سے عاری (بالعموم) یہ سائنس، کاروباری پھیلائو اور مالی منفعت کے لیے ہر قسم کے تشہیری حربے استعمال کرتی ہے۔ ان تشہیری مہمات سے طلب کی ایک نفسیاتی اور مصنوعی فضا پیدا ہوتی ہے جس سے عام آدمی متاثر ہو کر رہتا ہے۔ اسی طرح ہیومن ریسورس ڈویلپمنٹ کے تربیتی نصاب میں یافرد کی کارکردگی کا جائزہ لینے کے عمل میں اگر فرد کی صرف ان کوششوں کو قابل قدر سمجھا جائے جو ادارے کے لیے مالی منفعت کا باعث بنتی ہو، تو یہ اگرچہ موجودہ کاروباری فلسفے کے تناظر میں بالکل درست ہو گا، لیکن ہمارے نقطۂ نظر سے یہ رویہ نادرست اور بعیداز انصاف ہوگا۔
ہم سمجھتے ہیں کہ تیزی سے پھیلتی ہوئی ایچ آر ڈی کی یہ اصطلاح اپنے اندر ایک خاص معنی رکھتی ہے۔ اصطلاحات میں الفاظ کے چناؤ کی بھی اپنی نفسیات ہوتی ہے۔ جب ہم انسانی وسائل کی ترقی کی اصطلاح استعمال کرتے ہیں‘ تو دراصل ہم ’انسان‘ کو ایک وسیلہ یا ذریعہ (resource) سمجھتے ہیں ،جس کی نشوونما خاص مقاصدکے حصول کے لیے کی جائے گی ۔ گویا اصل چیز وہ مقاصد ہیں جن کے لیے ’انسان‘کو بروے کار لانا ہے۔ بظاہر اس نظریے میں کوئی قباحت نظر نہیں آتی لیکن جب یہ اصطلاح کاروباری دنیا میں استعمال ہوتی ہے تو اس کے نتائج بہت خطرناک ہوسکتے ہیں۔ چنانچہ یہاں پر انسان کی شناخت بحیثیت ’انسان‘ ّ(اور وہ بھی اشرف المخلوقات) نہیں ہوتی بلکہ کاروباری مقاصد کے حصول میں مددگار محض ایک ذریعے اور وسیلے (resource and means) کے ہوتی ہے۔
ہمارا موقف یہ ہے کہ اگر یہ اصطلاح استعمال کی جارہی ہے تو انسان کے اشرف مقام کو مدِنظر رکھ کر نشوونما ، ترقی اور بڑھوتری عمل میں لائی جائے ۔ گویا کہ اگر یہ وسیلہ ہے تو لازمی طور پر اس کا مقصد اس وسیلے سے زیادہ اشرف ، افضل اور برتر ہونا چاہیے۔
اس مضمون میں ہم ہیومن ریسورس اور ہیومن ریسورس ڈویلپمنٹ کو ایک مختلف حیثیت میں بیان کریں گے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ ایک شخص بحیثیت انسان جو کسی بھی مقام پر اور کسی بھی شعبے میں کام کر رہا ہے، اس کی نشوونما، ترقی اور بڑھوتری کے اصول ایک جیسے ہو تے ہیں۔گویا انسانی وسیلے کی تعریف اور وظائف اور کردار کو بحیثیت انسان (ایک مخلوق ) سمجھنا بہت ضروری ہے تاکہ انسان کی استعداد اور کمزوریاں، خواہشات اور جذبات اور فطرت اور جبلتیں ہمارے سامنے آجائیں اور انسان کو کسی مقصد کے لیے تیار کرنا، ترقی دینا، نشو ونما دینا اور بڑھانا آسان اور ممکن ہو سکے۔ اس طرح وہ زندگی کے کسی بھی شعبے میں کسی بھی جگہ اور کسی بھی حیثیت میں اپنا کردار مؤثر طور پر ادا کرسکے گا۔
آئیے ہیومن ریسورس ڈویلپمنٹ کو ایک دوسرے زاویے سے دیکھتے ہیں۔یہ زاویہ اسلامی زاویہ ہے۔ ہم جانتے ہیں کہ جس طرح کسی مشین کو اپ گریڈ کرنا مقصود ہو تو سب سے پہلے اس مشین کے بارے میں مکمل آگاہی حاصل کرنا ضروری ہے لہٰذا انسان کی نشوونما اور ترقی کو سمجھنے کے لیے ہم ’انسان‘ کو سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں۔ بحیثیت مسلمان ہمارا ایمان ہے کہ:
مندرجہ بالا تمام حقائق کا حاصل یہ ہے کہ انسان کی نشوونما، بڑھوتری اور ترقی کے لیے درج ذیل عوامل کو مدنظر رکھنا لازمی ہوگا۔
۱- انسان کی جسمانی احتیاجات
۲- انسان کی روحانی آسودگی
۳- انسان کی نشوونما ان تمام زاویوں سے کہ وہ اپنے مفوّضہ امور کو احسن طریقے سے انجام دے سکے۔
۴- ہیومن ریسورس ڈویلپمنٹ کے لیے الہامی ہدایت کی روشنی میں اپنی عقلِ سلیم اور تجربے سے راہوں کو متعین کرسکے۔
دین اسلام نے ترقی و نشو ونما کے لیے اورفرد و معاشرے کی فلاح و کامیابی کے لیے انسان کی شخصیت میںایک توازن قائم کرنے کی کوشش کی ہے۔ جسمانی احتیاجات کی تسکین اور مادی حوالوں سے اٹھان کے ساتھ ساتھ وہ روحانی ارتقا کی طرف بھی رہنمائی کرتا ہے۔اسی طرح اسلام بنیادی انسانی اخلاقیات، جن کے بغیر شایددنیاوی ترقی ممکن نہیں ہے، کو درجۂ کمال تک دیکھنا چاہتا ہے۔ساتھ ہی وہ ایمانیات وعقائد کی درستی کو بھی ناگزیر قرار دیتا ہے۔ انسان میں دونوں صلاحیتیں بھی ودیعت کی گئی ہیں،یعنی مثبت اور منفی جو آزادی اور انتخاب کے لیے ضروری ہیں۔ فَاَلْھَمَھَا فُجُوْرَھَا وَتَقْوٰھَا o (الشمس ۹۱:۸) ’’پھر اس کی بدی اور اس کی پرہیزگاری اس پر الہام کردی‘‘۔ لہٰذا ہیومن ریسورس ڈویلپمنٹ میں فردکی تیاری، شخصیت سازی اور کردار کی اٹھان میں یہ عوامل بھی مد نظر رکھنا ضروری ہیں۔
اس مقام پر ہم قرآن مجید میں لفظ ’انسان‘ (ہیومن )کا مطالعہ بھی پیش کرتے ہیں۔ قرآن مجید میں لفظ ’انسان‘ ۶۴ مرتبہ آیا ہے۔ اہم بات یہ ہے کہ ان مقامات میں تواتر کے ساتھ جو مضامین انسان کے حوالے سے ملتے ہیں‘ ان میں انسان کی منفی کیفیات کو بیان کیا گیا ہے۔مثلاً یہ کہ انسان:
گویا انسانی شخصیت کے ارتقا کی جب بھی کوئی اسکیم وضع کی جائے گی‘ درج بالا منفی رجحانات کو قابو میں رکھنے کے لیے سرگرمیاں اور فعالیتیں متعین کی جائیں گی۔ چونکہ انسان مخلوق ہے اور اس کا خالق اللہ ہے‘ لہٰذا شخصیت سازی کے لیے وہی(خالق) سب سے بہتر طریقے کی طرف رہنمائی کرسکتا ہے۔ انسانی وسائل کی ترقی کا کوئی بھی نصاب جو ان منفی رجحانات کو بڑھانے کا باعث ہو، ہیومن ریسورس ڈویلپمنٹ سے اس کا واسطہ نہیں ہو سکتا اور نہ وہ معاشرے میں خوشگوار اثرات مرتب کر سکتا ہے۔ قابل غور نکتہ یہ ہے کہ دنیا میں ہیومن ریسورس ڈویلپمنٹ کا وضع کردہ خاکہ یک چشمی ہے اور شخصیت کے تمام پہلو ئوں کا احاطہ نہیں کرتا۔ اسی طرح ہیومن ڈویلپمنٹ میں انسانی ترقی کا جو اشاریہ ترتیب دیا گیا ہے‘ ان کے مطابق وہ ممالک جو اس حوالے سے سر فہرست ہیں، مقام حیرت ہے کہ وہاں خودکشی کی شرح بھی بہت زیادہ ہے۔OCED ممالک، جو ترقی یافتہ کہلاتے ہیں، میں بھی یہ شرح روز بروز بڑھ رہی ہے۔ یہاں بے سکونی کا یہ عالم ہے کہ ماہرین نفسیات کی پریکٹس انتہائی کامیاب اور نہایت مہنگی ہے۔
ہیومن ریسورس ڈویلپمنٹ کو سمجھنے کے لیے قرآن مجید کی درج ذیل آیات کا مطالعہ ضروری محسوس ہوتا ہے۔ ان آیات میں رب العالمین نے نبی کریمؐ کا مقصدِ بعثت ارشاد فرمایا ہے۔ قرآن حکیم میں یہ مضمون چار مقامات پر آیا ہے:
رَبَّنَا وَابْعَثْ فِیْہِمْ رَسُوْلاً مِّنْھُمْ یَتْلُوْا عَلَیْھِمْ اٰیٰـتِکَ وَیُعَلِّمُھُمُ الْکِتٰبَ وَالْحِکْمَۃَ وَیُزَکِّیْھِمْ ط اِنَّکَ اَنْتَ الْعَزِیْزُالْحَکِیْمُ o (البقرہ ۲:۱۲۹) اے رب! ان لوگوں میں خود انھیں کی قوم سے ایک رسول اٹھائیو، جو انھیں تیری آیات سنائے ان کو کتاب اور حکمت کی تعلیم دے اور ان کی زندگیاں سنوارے، تو بڑا مقتدر اور حکیم ہے۔
اس کے ساتھ ساتھ قرآن مجید نے کامیابی کے اصل معیار اورمیزان کی طرف بھی توجہ دلائی ہے جو ہمیشہ پیش نظر رہنا چاہیے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
قَدْ اَفْلَحَ مَنْ زَکّٰھَا o وَقَدْ خَابَ مَنْ دَسّٰھَا o (الشمس ۹۱:۹-۱۰) یقینا فلاح پا گیا وہ جس نے نفس کا تزکیہ کیا اور نامراد ہوا وہ جس نے اس کو دبا دیا۔
ہم سمجھتے ہیں کہ ہیومن ریسورس ڈویلپمنٹ کا اصل کام اور اس کی درست ترتیب یہی ہے۔ تلاوتِ آیات اور تعلیمِ کتاب و حکمت کا مدعا بھی یہی تزکیہ ہے۔ اس مضمون میں ہم صرف تزکیے کی بات کرتے ہیں۔ انسان کی نشوونما دراصل تزکیہ ہی ہے۔ تزکیے کے جو معانی اور مفہوم آئے ہیں وہ یوں ہیں:
ہم اس کی مثال یوں لیتے ہیں کہ ایک پودا جو ایک مالی کی نگرانی میں بڑھ رہا ہو اور ایک خودرو جھاڑی یا درخت جو جنگل میں اُگ جائے، دونوں کی کیفیات میں فرق ہوگا۔ مالی کی زیرنگرانی بڑھنے والے پودے میں تراش خراش، صفائی ستھرائی اور نکھار ہوگا۔ مطلوبہ چیزیں موجود ہوں گی اور مزید پروان چڑھنے کے لیے چھوڑ دی جائیں گی جب کہ نامطلوب ٹہنیاں، شاخیں، پتے، کانٹے، ڈالیاں وغیرہ کاٹ دی جائیں گی۔ بس یہی تزکیہ ہے کہ انسان کی شخصیت کی تعمیر اس طرح کی جائے کہ اس سے نامطلوب اوصاف کم ہوتے جائیں اور مطلوب پروان چڑھیں، اخلاق رذیلہ کو ختم کیا جائے اور اخلاق حسنہ کو پروان چڑھایا جائے۔یہی انسانی وسائل کی ترقی کی اصل روح ہونی چاہیے۔
انسان کے ارتقائی میدان میں اس کی فکرو تصور، نیت و ارادہ، سوچ و تخلیق، حواس خمسہ کے استعمالات، جسم و روح، لباس و پوشاک، علوم و فنون، جسمانی افعال، حفظ و خیال، تعلقات، معاملات، جذبات اور مہارتیں وغیرہ سب ہی کچھ شامل ہیں۔ چنانچہ ہم ان کو درج ذیل مختلف عنوانات کے تحت بیان کریں گے۔
انسان کی جسمانی نشو و نما (physical development) ایک ہمہ گیر تصور ہے اور اس کا تعلق صرف ظاہری خدوخال سے نہیں ہے‘ بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ ایک فرد کے پاس کسی کام کو احسن انداز میں کرنے کے لیے جسمانی قوت، صلاحیت، توانائی، امنگیں اور نفسیاتی لگن بھی ہو۔ جسمانی نشو و نما میں صحت مند جسم اور ذہن کو فوکس کیا جاتا ہے۔ چنانچہ ہمیں عالمی ادارہ صحت کی پیش کردہ تعریف میں بھی یہ وسعت نظر آتی ہے۔
"Health is a state of complete physical, mental and social well-being and not merely the absence of disease or infirimity".
صحت محض بیماری یا معذوری کے عدم وجود کا نام نہیں ہے‘ بلکہ یہ ایک مکمل جسمانی ، ذہنی اور سماجی اچھی کیفیت کا نام ہے۔
جسمانی ضعف (معذوری کے علاوہ) کو دین اسلام نا پسندیدہ قرار دیتا ہے۔ وہ سخت کوشی، جفا کشی اور محنت کے جذبے کو ابھارتا ہے۔ سستی، کاہلی اور سہل پسندی کو نامطلوب قرار دیتا ہے۔ اللہ کے رسول کریمؐ نے اپنے عہد اور ماحول کے مروجہ جسمانی تفریحی اشغال کی طرف توجہ دلائی ، فرمایا: ’’تیر اندازی، گھڑ سواری اور تیراکی سیکھو‘‘۔ اسی طرح حضرت عمرؓ کے ارشادات میں گھوڑے پر چھلانگ لگا کر بیٹھنا، ننگی پیٹھ پر سواری، دھوپ کو برداشت کرنا وغیرہ شامل ہیں۔ ایک فرد کی اس انداز میں نشوونما کہ وہ مطلوبہ کام کو کرنے کی اپنے اندر جسمانی لحاظ سے مکمل اہلیت پائے، انسانی وسائل کی ترقی کا ایک اہم پہلو ہے۔
اخلاقی نشوونما (moral development) کی تشریح سے قبل یہ بتا دینا ضروری ہے کہ روحانی نشوونما اور اخلاقی نشوونما میں فرق ہے۔ اخلاقی نشو ونما کا تصور اچھائی اور برائی کے ان آفاقی اصولوں پر مبنی ہے جس کی تمیز بالعموم ہر انسان کر سکتا ہے۔ مثال کے طور پر سچ بولنا یا جھوٹ بولنا، دھوکہ دہی، ایمان داری، صفائی ستھرائی، قطار بنانا وغیرہ وغیرہ۔ گویا اخلاقی نشوونما میں ان عمومی قواعد و ضوابط اور اوامر و نواہی پر توجہ دی جاتی ہے جن کو ایک سلیم الفطرت شخص سمجھتا ہے۔ اخلاقی نشوونما کسی بھی معاشرے میں‘ خواہ وہ مسلم ہو یا غیر مسلم‘ بالعموم یکساں ہی ہوگی۔ البتہ دو باتیں ذہن میں رکھنی چاہییں۔
اوّل یہ کہ دین اسلام میں نظامِ اقدار مستقل (permanent) اور مطلق (absolute) ہے‘ جو زمان و مکان کی حدود و قیود سے بالاتر ہے‘ جب کہ بعض دوسرے نقطہ ہاے نظر میں یہ ایک اضافی تصور ہے جو زمان و مکان کی تبدیلی کے ساتھ بدل سکتا ہے۔ دوم یہ کہ بعض مروجہ اصطلاحات کی فی زمانہ تشریحات اسلام کے مطابق ناقص اور ادھوری ہیں۔ مثال کے طور پر صفائی ستھرائی۔ اسلام اس حوالے سے اس سے بڑھ کر پاکیزگی کا اعلیٰ تصور پیش کرتا ہے جس میں صفائی ستھرائی طہارت و نظافت وغیرہ سب شامل ہیں۔ اسلام نے اخلاقی نشوونما پر جتنا زور دیا ہے‘ اس کا اندازہ صرف اس بات پر لگایا جا سکتا ہے کہ نبی کریمؐ نے ارشاد فرمایا کہ ’’میں مکارمِ اخلاق کی تکمیل کے لیے بھیجا گیا ہوں‘‘(انما بعثت لاتم مکارم الاخلاق)۔ آپؐ نے اوامر و نواہی (Do's & Don'ts) کی پوری تفصیلات سے آگاہ کیا ہے جو کسی بھی فرد، گھر، ادارے، معاشرے، قوم اور ملکوں کی ترقی اور کامیابی کی ضمانت ہے۔ یورپی معاشروں میں جو ادارے ترقی کی راہ پر گامزن ہیں‘ ان میں یہ اخلاقی صفات من حیث القوم یا اداروں کے اجتماعی اخلاق کے طور پر موجود ہیں۔ چنانچہ اس ضمن میں اخلاقِ حسنہ اور اخلاق رذیلہ کی فہرست مرتب کرنی چاہیے تاکہ ہیومن ریسورس ڈویلپمنٹ میں ان پہلوئوں پر کما حقہ زور دیا جاسکے۔
انسان کے لیے تنہائی میں زندگی گزارنا تقریباً ناممکن ہے۔ وہ معاشرتی گروہ کا ایک حصہ ہے۔ وہ ایک بڑے کُل کا جزو ہے۔ اس کی انفرادیت ہے لیکن اس کی یہ انفرادیت کسی نظام کا حصہ ہوتی ہے لہٰذا اس کے مزاج میںجُڑکر رہنے کا اندرونی اور پیوستہ داعیہ ہوتا ہے۔ باہمی تعلقات، بات چیت، گھلنا ملنا اور لڑنا جھگڑنا یہ سب اس کی طبیعت اور مزاج کا حصہ ہیں۔ چونکہ وہ کسی جنگل میں نہیں بستا لہٰذا ان سے مفر ممکن نہیں ہے۔ اہمیت صرف اس بات کی ہے کہ فرد کی سماجی نشوونما کس نہج پر ہوتی ہے اور اس کی ذات میں دوسروں کے لیے کتنی گنجایش ہے‘ اور وہ دوسروں سے مطابقت کے لیے کس درجہ آمادہ ہے۔ باہمی معاملات میں اس کے مزاج میں بے زاری ہے یا جوش۔ ایک انسان کی سماجی نشوونما درست نہج پر ہو تو وہ ہر قسم کے لوگوں سے مثبت اور متوازن انداز میں معاملات کر سکتا ہے۔ بہت سارے افراد بہت گھلنے ملنے والے ہوتے ہیں اور بہت سارے کم آمیز۔ اہم معاملہ یہ ہے کہ افراد سے تعلقات کی نوعیت کیا ہے۔ گویا صرف زیادہ افراد سے تعلقات ہی اہم نہیں ہیں‘ بلکہ ان کی کیفیات بھی اہم ہیں۔ یعنی تعلقات کی وسعت اور ان کی بہتر نوعیت دونوں مطلوب ہیں۔
اسلام نے ہر ایک سے اچھے انداز اور حسن خلق سے پیش آنے کی تاکید کی ہے۔ گویا گھر میں باضابطہ، ذمہ دارانہ اورنمایاں کردار ادا کرنا، پڑوسیوں کے حقوق ادا کرنا، رشتوں کو جوڑنا، آجروں سے خیر خواہانہ تعلقات، راہ چلتے لوگوں کے حقوق، مریضوں سے رابطے، قرض خواہوں کی فکر، معذوروں کی مدد، چھوٹوں پر شفقت، بزرگوں کا احترام یہ سب ہماری بنیادی تعلیمات ہیں جو سماجی نشو ونما کے نصاب کا حصہ ہونا چاہییں۔
روحانی نشو و نما اس کے سوا اور کچھ نہیں کہ مخلوق کواپنے خالق کا شعور اور احساس ہو۔ اللہ کی معرفت کا حصول ہی روحانی نشوونما کا اہم مقصد ہے۔ ایک انسان بعض اخلاقی صفات میں اعلیٰ درجے کے کردار کا مظاہرہ کر سکتا ہے لیکن اللہ کی معرفت اور اس کا دھیان نہ ہو تو یہ کردار ناپایدار بھی ہو سکتا ہے اور اگر پایدار بھی ہو تو اس کا فائدہ صرف دنیا میں ہوگا۔ اسی لیے فرد میں ہر لمحہ اللہ کا دھیان پیدا کرنا ہیومن ریسورس ڈویلپمنٹ کااہم کام ہے۔
چونکہ انسان، جسم اور روح کا مرکب ہے لہٰذا جسمانی احتیاجات کی تسکین کے ساتھ ہی اسے روحانی بالیدگی کی بھی ضرورت ہوتی ہے۔ روحانی نشوونما انسان کی جبلت میں شامل ہے۔ لہٰذا وہ اس کے لیے نت نئے تجربات کرتا ہے۔ چونکہ وہ خود ساختہ اور انسانی ذہن کی تخلیق ہوتے ہیں لہٰذا غیر انسانی ہی کہلاتے ہیں مثلاً یہ نظریہ کہ اپنے آپ کو تکلیف دہ عمل سے گزار کر روحانی آسودگی حاصل ہوتی ہے‘ چنانچہ اپنے اُوپر کیڑے مکوڑے، سانپ، بچھو وغیرہ چھوڑ دینا، ایک ٹانگ پر گھنٹوں کھڑے رہنا، پانی کا استعمال ترک کر دینا، صفائی ستھرائی سے اجتناب برتنا‘ اپنی کھالوں میں آنکڑے لگا کر ہوا میں معلق ہو جانا وغیرہ وغیرہ۔ کچھ اور لوگ بھی ہیں جو غیر منطقی انداز میں ذہنی قوت کے عنوان سے سکون کی متلاشی ہیں۔ معلوم ہوا کہ یہ وہ اہم معاملہ ہے جس سے انسان کو مفر نہیں ہے۔ چنانچہ صرف وہی طریقہ قابل قبول اور انسانی نفسیات کے مطابق ہے جو الہامی ہدایات پر مبنی ہے۔ اس کے علاوہ روحانی نشوونما کے سارے طریقے ادھورے اور ناقص ہیں اور مزید فکری انتشار کا باعث ہیں۔
فرد کی ایسی ذہنی نشونما کرنا انتہائی اہم ہے،جس سے اس کے حواس خمسہ کارکردگی کے حوالے سے اپنے درجۂ کمال کو پہنچ جائیں۔ المیہ یہ ہے کہ ہمارے ہاں ذہنی نشو ونما کی جانچ و پیمایش بھی چند مخصوص عنوانات کے تحت ہوتی ہے جن کا تعلق فرد کے کردار میں مثبت تبدیلی کے واقع ہونے سے بہت کم ہوتا ہے اور دنیاوی منفعت کے حصول سے زیادہ ہوتا ہے۔
یہ بات بھی اپنی جگہ اہم ہے کہ حافظہ (memory) ، مفروضات (data)، فکر (thought)، معلومات (information)، تصور (concept)، خیال (idea)، بصیرت (insight) اورحکمت (wisdom) کے معانی، مفہوم اور اہمیت جدا جدا اور مسلمہ ہیں۔ مگر ان تمام سے جو مطلوب ہے۔ یعنی فرد صالح، وہ ہم تیار نہیں کر پاتے۔ خلافت ارضی کے لیے درکار صالحیت (character) اور صلاحیت (competence) پر ہماری توجہ بالعموم کم رہتی ہے۔ اطلاعاتی ٹکنالوجی کے اس دور میں تو اطلاعات و تصورات کا سیلاب اُمڈا چلا آرہا ہے لیکن تبدیلی کا عمل کیوں نہیںہو رہا ہے، سوچنے کا مقام ہے۔ ذہنی نشو ونما کے ذریعے وہ بصیرت مطلوب ہے جو تجزیاتی عمل اور منطقی استدلال میں، مشاہداتی عمل اور ذہانت میں حقیقت کو پا سکے۔ جو دُعا ہمیں سکھلائی گئی ہے وہ یوں ہے: اللھم واکشف لی وجوہ الحقائق (اے اللہ میرے سامنے ہر معاملے میں حقائق کے سارے پہلو کھول دے)۔ یہی حکمۃ ہے‘اور یہی ہیومن ریسورس ڈویلپمنٹ کا جوہر ہے۔ (وَمَنْ یُّؤْتَ الْحِکْمَۃَ فَقَدْ اُوْتِیَ خَیْرًا کَثِیْرًا - البقرہ ۲: ۲۶۹)
ابھی ہم نے مختلف پہلوئوں سے انسانی نشو و نما وترقی کو سمجھنے کی کوشش کی ۔ یہاں پر مہارات، تصورات اور اقدار کے مثلث کی تشریح و تفہیم بھی مناسب رہے گی۔
ہیومن ریسورس ڈویلپمنٹ کی پیش کردہ تعریفوں اور فی زمانہ ان پر عمل میں سب سے زیادہ زور مہارتوں کی نشوونما پر ہے۔ یہ مہارتیں بھی صرف ایک خاص جہت پر مرکوز رہتی ہیں۔ یعنی دنیاوی منفعت اور منافع میں زیادہ سے زیادہ اضافہ کرنا۔ گویا ساری مہارات کا حصول صرف اس لیے ہے کہ اس سے مادیت کو ترقی ملے‘ خواہ اس کے نتیجے میں انسانیت سسکتی اور تڑپتی رہے۔ جہاں تک تصورات کا تعلق ہے‘ یہاں پر بھی ہم صرف ادنیٰ درجے کو حاصل کرتے ہیں، جو صرف چند اصطلاحات کے استعمال اور معلومات کی سطحی تفہیم پر مشتمل ہوتا ہے۔یہاں بھی اصل مدعا اور ہدف مادی منفعت کا اضافہ اور کاروباری پھیلائو ہی رہتا ہے۔مثلث کا ایک نہایت اہم عنوان وہ اقدار (values) ہیں جن پر عمارت قائم ہوتی ہے۔ ہمارے خیال میں مہارتوں کواعلیٰ اقدار کے تابع ہونا چاہیے۔اگر ایسا نہیں ہوا تو معاشرے میں ایک بگاڑ اور عدم توازن پیدا ہوگا۔ ہیومن ریسورس ڈویلپمنٹ میں اقدار کا جتنا وزن ہونا چاہیے اور یہ جتنابنیادی ، واضح اور نمایاںہونا چاہیے، وہ ہمارے نصاب میں شامل نہیں ہوتا۔ اگر کسی بنک کا مینیجر خود ہی ڈکیتی میں ملوث ہو‘ تو یہ مہارتوں کا مسئلہ ہے یا کردار کا۔ پاکستانی قوم کے متعلق کہا جاتا ہے کہ ہم کسی کام کو ٹھیک طریقے سے کرنے کے لیے اسے کم از کم تین مرتبہ انجام دیتے ہیں۔ آخر ہم پہلی ہی بار سڑک کو صحیح کیوں نہیں بناتے؟ کیا ہمارے ہاں صلاحیت کا فقدان ہے؟ مہارتوں میں کمی ہے؟ یا ہمارا کیرکٹر ہم سے کم تر درجے کا کام کرواتا ہے۔ یاد رکھیے کہ مہارتوں اور صلاحیتوں کے حصول کی خواہش بھی اعلیٰ کردار کی رہین منت ہے۔ گویا ایک بار پھراقدار کی اہمیت معلوم ہوئی۔
ہمارے ہاں بد قسمتی سے دینی فکر کے حامل ادارے یا اسلامی مشنری ادارے فرد کی نشو و نما و ترقی کی کوششیں اس طرح انجام دیتے ہیں کہ اس فرد کو اپنے خالق سے جزوی آگہی تو شایدہو جاتی ہے لیکن وہ دنیا میں اپنا مؤثر کردار کرنے کی استعداد نہیں رکھتا۔اس کی وجہ نشوونما وترقی کے جزوی پہلو پر نظر ہے جس کے ثمرات بھی جزوی نکلتے ہیں اور فرد خلافتِ ارضی کے منصب کے لیے درکار قوت، صلاحیت، ذہانت، استعداد اور مہارتوں سے نابلد رہتا ہے۔ دوسری جانب کاروباری نوعیت کے ادارے صرف اور صرف مالی منفعت اور کاروباری وسعت کو ذہن میں رکھتے ہیں‘ چنانچہ افراد کار کی نشوونما و ترقی اسی کے مطابق کی جاتی ہے جس سے فرد کی دنیا تو شاید سنور جائے لیکن وہ آخرت کی فکر سے بالکل آزاد ہوتا ہے۔ اصل مطلوب متوازن شخصیت کی تیاری ہے جس کے لیے ہمیں شخصیت کی نشوونما و ترقی کے تمام زاویوں پر نگاہ رکھنی ہوگی۔ انسانی نشوونما و ترقی کا یہ تصور عین دین ہے۔
اسلامی تناظر میں ہیومن ریسورس ڈویلپمنٹ کے اس اہم کام کے ضمن میں آجروں اور متعلقہ ذمہ داروں کے لیے درج ذیل نکات پیش خدمت ہیں۔ فرد کی ہمہ جہت ترقی و نشو و نما کے لیے یہ نکات پیش نظر رکھے جائیں۔ ہیومن ریسورس منیجر کو چاہیے کہ وہ ان امور پر توجہ دے اور اپنی ٹیم میں ان کو پروان چڑھائے۔ یہ تربیتی نصاب کا حصہ بھی ہوں اور کمپنی پالیسی میں شامل بھی۔نیز ادارے کی اہم اقدار (core values) میں بھی جگہ پائیں۔ یہ نکات فرد کی ترقی و نشو ونما اور بڑھوتری کی تمام جہتوں کا احاطہ کرتے ہیں:
ہیومن ریسورس ڈویلپمنٹ، یعنی انسانی وسائل کی ترقی کا مطلوب یہ ہے کہ ایک فرد کی تعلیم وتربیت اور ترقی و نشوونما ایسی ہو کہ وہ دنیا میں ایک کامیاب انسان کے طو ر پر ابھرے اور آخرت میں جنت کا حق دار ٹھیرے۔ چونکہ ہر فرد راعی ہے، اور اسے اپنی رعیت کے بارے میں اللہ کے حضور جواب دینا ہے (کلکم راع و کلکم مسؤل عن رعیتہ)، لہٰذامسلمان مینیجر اور اداروں کو اس سے مفر نہیں ہوسکتا کہ وہ یہ کام کریں۔