دسمبر۲۰۰۷

فہرست مضامین

کلام نبویؐ کی کرنیں

مولانا عبد المالک | دسمبر۲۰۰۷ | فہم حدیث

Responsive image Responsive image

حضرت اسامہ بن زیدؓ فرماتے ہیں کہ حجۃ الوداع کے موقع پر ‘میں جنابِ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھا۔ میں نے دیکھا کہ لوگ آپ کی خدمت میں حاضر ہورہے ہیں۔ پھر کوئی پوچھ رہا ہے کہ میں نے طواف سے پہلے صفا و مروہ کے درمیان سعی کرلی ہے (طواف پہلے اور سعی بعد میں ہوتی ہے) یا فلاں کام پہلے کرلیا ہے تو اب مجھے کیا کرنا چاہیے۔ آپؐ نے سب کے جواب میں فرمایا کہ اس میں بھی کوئی حرج نہیں‘ اس میں بھی کوئی حرج نہیں‘ حرج تو بس اس میں ہے کہ انسان اپنے بھائی پر ظلم کرے‘ اس کی آبرو پر حملہ کرے۔ یہ ہے وہ شخص جو حرج میں پڑ گیا اور ہلاک ہوگیا۔(بخاری)

دین داری کے لیے لوگ نماز‘ روزہ‘ حج اور زکوٰۃکو کافی سمجھتے ہیں۔ بیت اللہ شریف کے طواف‘ خانہ کعبہ میں داخلے‘ خانہ کعبہ کی چھت پر چڑھنے کے بعد سمجھتے ہیں کہ وہ جو ظلم کریں‘ اس سے ان کی فضیلت اور اچھا مسلمان ہونے میں کوئی فرق نہیں پڑتا۔ قتل و غارت گری‘ بے گناہوں پر کوڑے برسانا‘ انھیں جیلوں میں بند کرنا‘ کفار کے حوالے کرنا سب کچھ ان کے لیے روا ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس قسم کے دین داروں اور حاجیوں کو متنبہ فرمایا کہ صرف حج کے مسائل معلوم کر کے مناسکِ حج صحیح طرح سے ادا کر کے ہلاکت سے نہیں بچ سکتے‘ جب تک ظلم اور مسلمانوں کی آبروریزی میں مبتلا رہو گے‘ کوئی حج اور کوئی عمرہ اور کوئی نماز و روزہ ہلاکت سے نہیں بچا سکیں گے۔

اس حدیث سے یہ بنیادی ہدایت ملتی ہے کہ جو لوگ دینی تعلیمات کی جزئیات میں غلو‘ باریک بینی اور اصرار کرتے ہیں‘ اور کسی کا حق غصب کرنے میں‘ لین دین کے معاملات میں‘ آبرو کے تحفظ میں لاپروائی کرتے ہیں (بلکہ اس کا دین سے تعلق نہیں سمجھتے) وہ کتنی غلطی پر ہیں کہ اللہ کے رسولؐ نے ان کے لیے ’ہلاک ہوگیا‘ کہا۔ حج کے موقع پر حدیث کا یہ سبق یاد رکھنے کا ہے۔


ْٗحضرت سلمہ بن اکوع سے روایت ہے‘ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جس نے مسلمانوں پر تلوار نکالی‘ وہ ہم میں سے نہیں ہے۔ (مسلم)

پس ایسے لوگوں سے تعلق رکھنا درست نہیں ہے۔ مسلم دشمنی‘ اسلام دشمنی کے مترادف ہے اور اسلام دشمنی‘ اللہ اور اس کے رسول سے دشمنی ہے اور اللہ اور اس کے رسولؐ کے دشمنوں سے تعلق رکھنا‘ ان سے محبت کرنا‘ ان کو ووٹ دینا‘ ان کی پارٹی میں شامل ہونا جائز نہیںہے۔ یہ آج کے دور کا بہت بڑا مسئلہ ہے۔ اُمت مسلمہ کو پوری دنیا میں اس سے واسطہ ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے رہنمائی فرما دی ہے۔


حضرت عبداللہ بن مسعودؓ سے روایت ہے‘ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اللہ تعالیٰ کو ناراض کرکے کسی کو راضی نہ کرو۔ اللہ تعالیٰ کے فضل پر کسی دوسرے کا شکر نہ ادا کرو۔ اللہ تعالیٰ نے کوئی چیز نہیں دی تو اس پر کسی دوسرے کی مذمت نہ کرو‘ اس لیے کہ اللہ تعالیٰ کا رزق تجھے کوئی دوسرا بہت زیادہ چاہت اور حرص کے باوجود نہیں دے سکتا اور اللہ تعالیٰ دینا چاہے تو کسی کی ناپسند اسے روک نہیں سکتی‘ اللہ تعالیٰ نے اپنے عدل و انصاف اور فضل و کرم سے راحت اور خوشی اس بات میں رکھی ہے کہ لوگ اس کے فیصلوں سے راضی ہوں اور پریشانی اور غم اس بات میں رکھا ہے کہ لوگ اس کے فیصلوں سے ناراض ہوں۔ (طبرانی)

انفرادی اور اجتماعی فیصلوں میں اللہ تعالیٰ کی رضامندی اور ناراضی کو بنیاد بنانا‘ انسانوں کی رضامندی اور ناراضی کو اللہ تعالیٰ کی رضامندی اور ناراضی کے تابع بنانا ایسی رہنمائی ہے جس کی ہر دور کی طرح آج بہت زیادہ ضرورت ہے۔ اس وقت اُمت مسلمہ کو جو بحران درپیش ہے‘ اس کا سبب اس اصول کو نظرانداز کرکے انسانوں کی رضامندی اور ناراضی کو پیش نظر رکھنا ہے۔

انسانوں کے ہاتھوں میں محدود اختیارات ہیں۔ اصل اختیار اور فیصلے اللہ کے ہاتھ میں ہیں‘ وہی منعم حقیقی ہے۔ اسی کے فیصلے سے رزق ملتا ہے اور اسی کے حکم سے رزق میں تنگی اور فراخی ہوتی ہے۔ اسی سے   لَو لگانا چاہیے‘ اسی کی حمد اور شکربجا لانا چاہیے‘ اسی کے حکم کے مطابق چلنا چاہیے۔ اس کی مرضی کو نظرانداز کرکے دوسروں کی مرضی پورا کرنا‘ یہ معنی رکھتا ہے کہ اسی کو منعم اور مربی سمجھ لیا ہے حالانکہ منعم و مربی تو  اللہ تعالیٰ ہے۔ دوسروں کا اسی قدر شکر کرنا چاہیے جس قدر انعام میں ان کا دخل ہے۔ ان کی مرضی کے بجاے اللہ تعالیٰ کی مرضی کو پورا کیا جائے تاکہ اس بات کا اظہارہو کہ اللہ تعالیٰ کو منعم حقیقی سمجھا گیا ہے۔ آج کے دور میں اللہ تعالیٰ کی مرضی‘ اس کی پسند و ناپسند کو نظرانداز کردیا گیا ہے۔ اس کے خوف و محبت کے بجاے انسانوں کے خوف و محبت کے زیراثر فیصلے کیے جارہے ہیں۔ اس حدیث میں اسی اہم مسئلے کی طرف توجہ دلائی گئی ہے۔ کاش مسلمان اس کو اپنی پالیسیوں کی بنیاد بنادیں۔


حضرت عائذ بن عمرو سے روایت ہے کہ وہ عبیداللہ بن زیاد کے پاس گئے اور اس سے کہا: بیٹے! میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہے کہ بُرے حکمران وہ ہوتے ہیں جو رعیت کو   پیس ڈالنے‘ تشدد کے ذریعے ہلاک کردینے والے ہوں۔دیکھنا! اپنے آپ کو ان میں شامل نہ کرنا۔(مسلم)

ظالم حکمرانوں کو سیدھی راہ دکھلانا‘ ان کے سامنے کلمۂ حق بیان کرنا‘ قرآن و حدیث کی روشنی میں سمجھانا علماے حق کا شیوہ رہا ہے۔ امربالمعروف اور نہی عن المنکر کا تقاضا ہے۔ عائذ بن عمروؓ نے عبیداللہ    بن زیاد کو اپنی روش بدلنے کی تلقین کی۔ آج بھی اُمت مسلمہ کو تاریخ کے بدترین ظالموں سے واسطہ ہے‘ ان کے سامنے کلمۂ حق کہنے والے مبارک باد کے مستحق ہیں۔ ایسے ظالموں سے نجات کے لیے کوشش کرنا اُمت مسلمہ اور دین کی سب سے بڑی خدمت ہے۔


رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے آزاد کردہ غلام ابومویہبہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے آدھی رات کے وقت اٹھایا اور فرمایا:ابومویہبہ مجھے حکم دیا گیا ہے کہ میں   جنت البقیع والوں کے لیے دعاے مغفرت کروں۔ تم بھی میرے ساتھ چلو (ابومویہبہ کہتے ہیں) میں آپ کے ساتھ چلا گیا۔ آپؐ جب جنت البقیع پہنچ گئے تو کھڑے ہوگئے اور قبرستان والوں کو السلام علیکم یااھل المقابر، ’’قبرستان والو! تم پر سلام ہو‘‘ کہہ کر سلام کیا اور فرمایا: تمھیں تمھاری وہ حالت جو تمھیں دوسرے لوگوں کے مقابلے میں حاصل ہے‘ مبارک ہو۔ اگر تمھیں ان فتنوں کی ہولناکی کا علم ہوجائے جن سے اللہ تعالیٰ نے تمھیں نجات دے دی ہے تو تمھاری خوشی کا کوئی ٹھکانا نہ رہے۔ بڑے ہولناک فتنے رات کی تاریک راتوں کی دبیز تاریکیوں کی طرح تاریک اور مسلسل آئیں گے۔ ایک فتنہ ختم ہوگا تودوسرا آجائے گا‘ دوسرا پہلے سے زیادہ بُرا ہوگا۔ پھر آپ میری طرف متوجہ ہوئے اور فرمایا: ابومویہبہ مجھے اختیار دیا گیا کہ ایک طرف دنیا کے خزانے‘ دنیا میں ہمیشہ ہمیشہ کی زندگی اور اس کے بعد جنت ہے اور دوسری طرف رب تعالیٰ سے ملاقات اور جنت ہے۔ (ان دونوں میں سے جسے چاہیں پسند کریں آپ کو دے دی جائیں گی)

ابومویہبہ کہتے ہیں: میں نے عرض کیا: یارسولؐ اللہ! میرے ماں باپ آپؐ پر قربان‘ آپ دنیا کے خزانوں کی چابیاں اور اس کے ساتھ دنیا میں ہمیشہ کی زندگی پھر جنت والی صورت کو پسند کرلیجیے۔ آپؐ نے فرمایا: ابومویہبہ‘ اللہ کی قسم! نہیں‘ ایسا نہیں۔ میں نے اپنے رب سے ملاقات اور جنت کو پسند کرلیا ہے۔ پھر آپؐ نے جنت البقیع والوں کے لیے دعا کی اور واپس تشریف لے آئے۔ پھر اسی صبح کو وہ بیماری شروع ہوئی جس میںآپؐ اس دنیا سے رخصت ہوگئے۔ انا للّٰہ وانا الیہ رٰجعون (مسنداحمد)

اہلِ ایمان سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت کا اندازہ ان واقعات سے کیا جاسکتا ہے۔ وصال سے پہلے آپؐ نے شہداے اُحد کے لیے خصوصی اجتماعی دعا کا اہتمام فرمایا (صحیح بخاری)۔ اور جنت البقیع والوں کے لیے جنت البقیع میں جاکر دعاے مغفرت کی۔ تب ہمیں بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اسوئہ حسنہ کی روشنی میں تمام اہلِ ایمان سے محبت اور ان کے لیے دعائیں اور ہمدردی و غم گساری کی کارروائیاں کرنی چاہییں۔ دنیا کے مقابلے میں آخرت کو ترجیح دینا بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا اسوۂ حسنہ ہے۔ آج کے دور میں اگر یہ دونوں کام سرانجام دے دیے جائیں تو اُمت مسلمہ کے تمام مصائب و مشکلات دُور ہوجائیں۔


حضرت مقدام بن معدی کرب سے روایت ہے‘ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا: جن تھیلوں کو انسان بھرتا ہے ان میں سے پیٹ سے زیادہ بُرا کوئی تھیلا نہیں ہے۔ آدمی کے لیے چند لقمے کافی ہیں جو اس کی پیٹھ کو سیدھا رکھیں۔ اگر انسان کے بس میں نہ ہو تو پھر ایک حصہ کھانے‘ ایک حصہ پانی‘ اور ایک حصہ سانس لینے کے لیے چھوڑ دے۔ (ابن ماجہ)

اگر لوگ اس حدیث پر عمل کریں تو وہ طرح طرح کی بیماریوں سے نجات پا لیں‘ ڈاکٹروں کی دیکھ بھال سے بے نیاز ہوجائیں‘ اور دوائیوں کی دکانیں ویران ہوجائیں۔