دین داری کے لیے لوگ نماز‘ روزہ‘ حج اور زکوٰۃکو کافی سمجھتے ہیں۔ بیت اللہ شریف کے طواف‘ خانہ کعبہ میں داخلے‘ خانہ کعبہ کی چھت پر چڑھنے کے بعد سمجھتے ہیں کہ وہ جو ظلم کریں‘ اس سے ان کی فضیلت اور اچھا مسلمان ہونے میں کوئی فرق نہیں پڑتا۔ قتل و غارت گری‘ بے گناہوں پر کوڑے برسانا‘ انھیں جیلوں میں بند کرنا‘ کفار کے حوالے کرنا سب کچھ ان کے لیے روا ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس قسم کے دین داروں اور حاجیوں کو متنبہ فرمایا کہ صرف حج کے مسائل معلوم کر کے مناسکِ حج صحیح طرح سے ادا کر کے ہلاکت سے نہیں بچ سکتے‘ جب تک ظلم اور مسلمانوں کی آبروریزی میں مبتلا رہو گے‘ کوئی حج اور کوئی عمرہ اور کوئی نماز و روزہ ہلاکت سے نہیں بچا سکیں گے۔
اس حدیث سے یہ بنیادی ہدایت ملتی ہے کہ جو لوگ دینی تعلیمات کی جزئیات میں غلو‘ باریک بینی اور اصرار کرتے ہیں‘ اور کسی کا حق غصب کرنے میں‘ لین دین کے معاملات میں‘ آبرو کے تحفظ میں لاپروائی کرتے ہیں (بلکہ اس کا دین سے تعلق نہیں سمجھتے) وہ کتنی غلطی پر ہیں کہ اللہ کے رسولؐ نے ان کے لیے ’ہلاک ہوگیا‘ کہا۔ حج کے موقع پر حدیث کا یہ سبق یاد رکھنے کا ہے۔
پس ایسے لوگوں سے تعلق رکھنا درست نہیں ہے۔ مسلم دشمنی‘ اسلام دشمنی کے مترادف ہے اور اسلام دشمنی‘ اللہ اور اس کے رسول سے دشمنی ہے اور اللہ اور اس کے رسولؐ کے دشمنوں سے تعلق رکھنا‘ ان سے محبت کرنا‘ ان کو ووٹ دینا‘ ان کی پارٹی میں شامل ہونا جائز نہیںہے۔ یہ آج کے دور کا بہت بڑا مسئلہ ہے۔ اُمت مسلمہ کو پوری دنیا میں اس سے واسطہ ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے رہنمائی فرما دی ہے۔
انفرادی اور اجتماعی فیصلوں میں اللہ تعالیٰ کی رضامندی اور ناراضی کو بنیاد بنانا‘ انسانوں کی رضامندی اور ناراضی کو اللہ تعالیٰ کی رضامندی اور ناراضی کے تابع بنانا ایسی رہنمائی ہے جس کی ہر دور کی طرح آج بہت زیادہ ضرورت ہے۔ اس وقت اُمت مسلمہ کو جو بحران درپیش ہے‘ اس کا سبب اس اصول کو نظرانداز کرکے انسانوں کی رضامندی اور ناراضی کو پیش نظر رکھنا ہے۔
انسانوں کے ہاتھوں میں محدود اختیارات ہیں۔ اصل اختیار اور فیصلے اللہ کے ہاتھ میں ہیں‘ وہی منعم حقیقی ہے۔ اسی کے فیصلے سے رزق ملتا ہے اور اسی کے حکم سے رزق میں تنگی اور فراخی ہوتی ہے۔ اسی سے لَو لگانا چاہیے‘ اسی کی حمد اور شکربجا لانا چاہیے‘ اسی کے حکم کے مطابق چلنا چاہیے۔ اس کی مرضی کو نظرانداز کرکے دوسروں کی مرضی پورا کرنا‘ یہ معنی رکھتا ہے کہ اسی کو منعم اور مربی سمجھ لیا ہے حالانکہ منعم و مربی تو اللہ تعالیٰ ہے۔ دوسروں کا اسی قدر شکر کرنا چاہیے جس قدر انعام میں ان کا دخل ہے۔ ان کی مرضی کے بجاے اللہ تعالیٰ کی مرضی کو پورا کیا جائے تاکہ اس بات کا اظہارہو کہ اللہ تعالیٰ کو منعم حقیقی سمجھا گیا ہے۔ آج کے دور میں اللہ تعالیٰ کی مرضی‘ اس کی پسند و ناپسند کو نظرانداز کردیا گیا ہے۔ اس کے خوف و محبت کے بجاے انسانوں کے خوف و محبت کے زیراثر فیصلے کیے جارہے ہیں۔ اس حدیث میں اسی اہم مسئلے کی طرف توجہ دلائی گئی ہے۔ کاش مسلمان اس کو اپنی پالیسیوں کی بنیاد بنادیں۔
ظالم حکمرانوں کو سیدھی راہ دکھلانا‘ ان کے سامنے کلمۂ حق بیان کرنا‘ قرآن و حدیث کی روشنی میں سمجھانا علماے حق کا شیوہ رہا ہے۔ امربالمعروف اور نہی عن المنکر کا تقاضا ہے۔ عائذ بن عمروؓ نے عبیداللہ بن زیاد کو اپنی روش بدلنے کی تلقین کی۔ آج بھی اُمت مسلمہ کو تاریخ کے بدترین ظالموں سے واسطہ ہے‘ ان کے سامنے کلمۂ حق کہنے والے مبارک باد کے مستحق ہیں۔ ایسے ظالموں سے نجات کے لیے کوشش کرنا اُمت مسلمہ اور دین کی سب سے بڑی خدمت ہے۔
اہلِ ایمان سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت کا اندازہ ان واقعات سے کیا جاسکتا ہے۔ وصال سے پہلے آپؐ نے شہداے اُحد کے لیے خصوصی اجتماعی دعا کا اہتمام فرمایا (صحیح بخاری)۔ اور جنت البقیع والوں کے لیے جنت البقیع میں جاکر دعاے مغفرت کی۔ تب ہمیں بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اسوئہ حسنہ کی روشنی میں تمام اہلِ ایمان سے محبت اور ان کے لیے دعائیں اور ہمدردی و غم گساری کی کارروائیاں کرنی چاہییں۔ دنیا کے مقابلے میں آخرت کو ترجیح دینا بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا اسوۂ حسنہ ہے۔ آج کے دور میں اگر یہ دونوں کام سرانجام دے دیے جائیں تو اُمت مسلمہ کے تمام مصائب و مشکلات دُور ہوجائیں۔
اگر لوگ اس حدیث پر عمل کریں تو وہ طرح طرح کی بیماریوں سے نجات پا لیں‘ ڈاکٹروں کی دیکھ بھال سے بے نیاز ہوجائیں‘ اور دوائیوں کی دکانیں ویران ہوجائیں۔