دسمبر۲۰۰۷

فہرست مضامین

اقبال اور جوانانِ ملّت

ڈاکٹر رفیع الدین ہاشمی | دسمبر۲۰۰۷ | اقبالیات

Responsive image Responsive image

                کلامِ اقبال پر ایک مجموعی نظر ڈالیں تو اندازہ ہوتا ہے کہ انھوں نے دیگر تمام طبقوں سے بڑھ کر نوجوان طبقے اور بالخصوص نوجوانانِ ملت کو مخاطب کیا ہے۔

                علامہ اقبال نے مسلم نوجوانوں کو مخاطب کرکے انھیں عرفانِ نفس اور شعورِ ذات کا درس دیا۔ بالفاظِ دیگر ان کے اندر احساسِ خودی پیدا کرنے کی کوشش کی۔انھیں مسلمانوں کے شان دار ماضی، آبا و اجداد کی شان و شوکت اور تاریخِ اسلامی کی عظمت سے روشناس کرایا، ان کے سامنے دورِ حاضر کے پُر آشوب حالات کی ایک عبرت خیز تصویر پیش کی اور پھر ان کے دل میں احیاے دین و ملت کی تمنا بیدار کر کے انھیں ایک ولولۂ تازہ عطا کیا    ؎

اک ولولۂ تازہ دیا میں نے دلوں کو
لاہور سے تاخاکِ بخارا و سمرقند

(ضربِ کلیم، ص۲۳)

                نوجوانانِ ملت سے مکالمہ کرتے ہوئے اپنی شاعری میں علامہ اقبال ان مراحل کا ذکر بڑے حکیمانہ انداز میں کرتے ہیں۔ بعض نظموں میں تو وہ براہِ راست نوجوانوں سے مخاطب ہیں، جیسے ’طلبۂ علی گڑھ کالج کے نام‘ یا ’خطاب بہ نوجوانانِ اسلام‘ یا ’ ایک فلسفہ زدہ سید زادے کے نام‘ وغیرہ۔ ابتدائی دور کی نظم ’عبدالقادر کے نام ‘ (بانگِ درا، ۱۳۲ ) بظاہر فردِ واحد کے نام ہے لیکن  فی الحقیقت اس نظم کے حوالے سے، اقبال نے عام نوجوانوں تک اپنی بات پہنچانے کی کوشش کی ہے۔ یہ نظم سب سے پہلے مخزن میں شائع ہوئی تھی۔ زمانی اعتبار سے یہ پہلی نظم ہے، جس میں شاعر کے پُرجوش اور ولولہ انگیز خیالات کا اظہار ملتا ہے۔

                شیخ عبدالقادر اقبال کے نہایت قریبی اور گہرے دوست تھے۔ ہندستان کے ادبی حلقوں تک اقبال کا نام اور کلام پہنچانے میں شیخ صاحب کے رسالے مخزن کی خدمات ناقابل فراموش ہیں۔ اعلیٰ تعلیم کے حصول کے لیے اقبال کے سفرانگلستان میں شیخ عبدالقادر کی تجاویز و تلقین کا   بھی دخل رہا۔(نذر اقبال، ۱۶۴،۱۷۴،۱۷۶)۔ پھر قیام یورپ کے دوران میں جب انھوں نے ترکِ شعر کا ارادہ کیا تو یہ شیخ صاحب ہی تھے جن کے حسنِ تدبیر سے اقبال ترکِ شعر سے باز رہے (دیباچہ : بانگِ درا، ۱۵)۔ اقبال کو شیخ عبدالقادر کے ذوق و ذہن ، ملت اور قوم کے لیے ان کے پُرخلوص جذبات، ان کی درد مندانہ سوچ اور خیر خواہانہ مساعی کا بخوبی احساس تھا، اسی لیے انھوں نے بطورِ خاص شیخ صاحب کو مخاطب کیا    ؎

اٹھ کہ ظلمت ہوئی پیدا اُفقِ خاور پر
بزم میں شعلہ نوائی سے اُجاَلا کردیں

(بانگِ درا، ۱۳۲)

                قابلِ غور بات یہ ہے کہ یہ اقبال کی جوانی کا زمانہ تھا۔ انھوںنے اپنے ہم مزاج اور ہم عمر شیخ عبدالقادر ہی کو خطاب کے لائق سمجھا‘ تاہم اُن کے توسّط سے یہ خطاب، اُس دور کے تمام دردمند اور صاحبِ احساس نوجوانوں سے تھا۔ اقبال جب ’شعلہ نوائی سے اُجالا‘ کرنے ’قیس کو آرزوے نو سے شناسا‘ کرنے یا ’بزم گہِ عالم کو منور‘ کرنے کا عزم ظاہر کرتے ہیں تو یوں معلوم ہوتا ہے جیسے ایک جدید تعلیم یافتہ نوجوان، جس کا سینہ بلند عزائم سے پُرہے اور پختہ صالح ارادوں، اُمنگوں اور ولولوں کی آماجگاہ بنا ہوا ہے، وہ جذبات سے معمور اپنے دل‘ لگن اور حرارت اور اپنے سوزوگداز  سے زندگی میں ایک انقلاب برپا کرنے کا خواہاں ہے۔ بقول غلام رسول مہر: ’’قوم کی عملی خدمت کے لیے کمربستہ ہونے کا یہ پہلا اعلان‘‘ تھا۔ (مطالب بانگِ درا، ۲۰۹)

                ’خطاب بہ جوانانِ اسلام‘ (بانگِ درا، ۱۸۰) اس سلسلے کی ایک اور اہم نظم ہے۔ اس کا زمانہ ذرا بعد کا ہے، اسی لیے اس کے لہجے اور آہنگ میں مذکورہ بالا نظم کا سا جوش و خروش نہیں، اس کے بجاے اس میں تفکر اور سوچ بچار کا انداز غالب ہے۔ فرماتے ہیں     ؎

کبھی اے نوجواں مسلم، تدبرّ بھی کیا تونے
وہ کیا گردوں تھا، تو جس کا ہے اک ٹوٹا ہوا تارا

(بانگِ درا، ۱۸۰)

                چند اشعار کی اس نظم میں علامہ نے بطور پس منظر، ملتِ اسلامیہ کے شان دار اور سنہرے ماضی کا ذکر کیا ہے۔ یہاں خاص طور پر قرنِ اوّل کے مسلمانوں کی طرف بعض بلیغ اشارات کے ذریعے، انھوں نے امّتِ مسلمہ کے عروج و زوال کی پوری داستان بیان کر دی ہے۔قابل غور بات ہے کہ اس میں خطاب، نوجوان مسلم سے ہے۔ علامہ نے کوشش کی کہ نوجوان مسلم کے دل میں اس کے حقیقی مقام و مرتبے کا شعور پیدا کرکے، اسے بتایا جائے کہ اس مقام اور مرتبے کے کھو جانے کی وجوہ کیا ہیں۔ نظم کے ایک مصرعے (کہ تو گفتار، وہ کردار، تو ثابت ، وہ سیارا) میں نہایت کفایت لفظی سے اس تضاد کی طرف توجہ دلائی ہے جو قرنِ اوّل اور دورِ حاضر کے مسلم نوجوانوں کے کردار میں نظر آتا ہے۔ یہ مصرع ایک آئینہ ہے جس سے آج کے نوجوانوں کے ہاں بے عملی، تساہل، غفلت، لاپروائی، غیر ذمہ داری اور ایک مجموعی جمود کی کیفیت صاف اور صریح طور پر نظر آ رہی ہے۔

                اقبال کا زمانہ ، برطانوی استعمار کے عروج کا زمانہ تھا، چنانچہ وہ غلامی کے اس ماحول میں پلے بڑھے، اس لیے نوجوانوں کی کمزوریوں ( کہ تو گفتار، وہ کردار۔۔۔ ) سے بخوبی آگاہ تھے۔  ان کی متعدد نظموں، مثلاً ’جاوید کے نام‘ (بال جبریلِ، ۱۷۴) ’’طلبہ علی گڑھ کالج کے نام‘   (بانگِ درا، ۱۱۴) ’ ایک فلسفہ زدہ سید زادے کے نام‘ (ضرب کلیم،ص ۱۸) اور ’سخنے بہ نژادِنو‘ (جاوید نامہ، ۱۹۹) میں ان کمزوریوں اور کوتاہیوں کا ذکر ہے مگر اس کے ساتھ ساتھ، یہ نظمیں ، نژادِ نو کے بارے میں اقبال کی امیدوں، آرزوؤں اور ولولوں کا خوب صورت اظہار بھی ہیں:

ترے صوفے ہیں افرنگی، ترے قالیں ہیں ایرانی
لہو مجھ کو رلاتی ہے جوانوں کی تن آسانی
عقابی روح جب بیدار ہوتی ہے جوانوں میں
نظر آتی ہے اس کو اپنی منزل آسمانوں میں

(بالِ جبریل، ۱۱۹-۱۲۰)

’سخنے بہ نژادِ نو‘ اس اعتبار سے ایک اہم نظم ہے کہ دور آخرکی اس طویل نظم میں علامہ نے نئی نسل   کے بارے میں اپنے احساسات کو بڑی تفصیل اور جامعیت کے ساتھ قلم بند کردیا ہے۔ نژادِ نو کی  چند کمزوریوں کا بھی ذکر کیا ہے۔ فرماتے ہیں کہ یہ بڑی افسوس ناک صورت حال ہے کہ:

نوجواناں تشنہ لب، خالی ایاغ
شستہ رو، تاریک جاں، روشن دماغ
کم نگاہ و بے یقین و نااُمید
چشم شاں اندر جہاں چیز ے ندید

(جاوید نامہ، ۲۰۲)

                (نوجوان پیاسے ہیں مگر ان کے جام خالی ہیں۔ چہرے چمک دار‘ دماغ روشن مگر اندرون تاریک۔ بے چارے کم نگاہ‘ بے یقین اور مایوس ہیں۔ انھیں دنیا میں کچھ نظر ہی نہیں آتا۔)

                علامہ اقبال کے ایک مدّاح اور اُن کی صحبت و ملاقات سے فیض یاب ہونے والے عالم جناب ممتاز حسن نے ایک جگہ لکھا ہے کہ: ’’ان کے پاس سب سے زیادہ نوجوان طالب علم آتے تھے اور صرف لاہور ہی سے نہیں‘ بلکہ دُور دُور سے۔ اقبال کو نوجوانوں سے مل کر اور ان سے باتیں کرکے بڑی خوشی ہوتی تھی‘ اور ان لوگوں کو بھی ایسا معلوم ہوتا تھا کہ اقبال ان کے ہم عمر ہیں‘‘۔

                ایک ماہر طبیب کی طرح، علامہ کا ہاتھ زمانے کی نبض پر ہے اور وہ نئی نسل کے امراض کا بخوبی ادراک رکھتے ہیں۔ وہ سمجھتے ہیں کہ بے یقینی و بے اعتمادی اور ریب و تشکیک کا شکار ہے۔ خودی سے محروم ہے، اس لیے اپنی ذات پر بھروسا نہیں ہے اور چونکہ خودشناس نہیں، اس لیے    خدا شناسی کی نعمت بھی حاصل نہیں۔ وہ اپنے ماضی کا عرفان رکھتا ہے، نہ اسے اپنے حال کی خبر ہے اور نہ مستقبل پر یقین ہے۔ علامہ سمجھتے ہیں کہ بے یقینی نوع انسان کے لیے ایک مہلک مرض ہے اور ’ذوقِ یقین ‘ سے محروم شخص کی حالت غلاموں سے بھی بدتر ہوتی ہے (ع :غلامی سے بتر ہے    بے یقینی۔ بالِ جبریل‘ ۳۷۳)۔ نژادِ نو کو اس بیماری سے نجات دلانے کے لیے ، اقبال سب سے پہلے اسے لاالہ کا درس دیتے ہیں ۔ وہ کہتے ہیں     ؎

اے پسر! ذوقِ نگہ ازمن بگیر
سوختن در لا اِلَہ از من بگیر

(جاوید نامہ، ۱۹۹)

(اے بیٹے! ذوقِ نگہ [کا شعور و ادراک‘ بصیرت اور معیارِ انتخاب] مجھ سے سیکھو۔ لا الٰہ کا سوز   کیا ہے؟ [اور اس میں کیا لذت ہے؟] یہ بھی مجھ سے سیکھو۔)

                لا اِلٰہَ الاّ اللّٰہ ہی وہ نسخۂ کیمیا ہے جو بنی نوع انسان اور خاص طور پر نژادِ نو کی بے یقینی ، بے اعتمادی، فکر و نظر کی لغزشوں اور کردار کی جملہ کمزوریوں کا تیر بہدف علاج ہے۔ ’بتانِ وہم و گماں‘ اس سے شفا یاب اور سودو زیاں کے مغالطے لا اِلٰہَ الاّ اللّٰہ سے بے نقاب ہوتے ہیں۔     علامہ فرماتے ہیں: اے عزیز انِ من، لا الٰہ کو فقط دو حرف نہ سمجھو، یہ ایک ’تیغِ بے زنہار‘ ہے اور یہ دو حرف ’ضربِ کاری‘ کی سی قوت کے حامل ہیں۔

                اس کے ساتھ ساتھ علامہ اقبال، قرآن سے وابستگی کو نئی نسل کے لیے ناگزیر قرار دیتے ہیں۔ ’سخنے بہ نژادِ نو‘ میں وہ تعجب کا اظہار کرتے ہیں کہ اُمتِ مسلمہ، صاحبِ قرآن ہونے کے باوجود  ذوقِ طلب سے محروم ہے۔ نوجوانوں کو ان کی تلقین یہ ہے کہ وہ قرآن حکیم سے دلی وابستگی پیدا کریں ‘ کیوں کہ یہی ذریعہ ہے استحکامِ خودی ، ذوقِ طلب، یقین و اعتماد اور جذبِ اندروں کے حصول کا۔ اور ہماری فوز و فلاح ، دنیاوی کامرانی اور اُخروی نجات قرآن پر عمل پیرا ہونے سے مشروط ہے۔

                علامہ کہتے ہیں کہ سو خرابیوں کی ایک خرابی تو یہ ہے کہ مکتب کی تعلیم نے نوجوانوں کی فطرت کو مسخ کردیا ہے     ؎

نورِ فطرت را ز جاں  ہا پاک شست
یک گلِ رعنا ز شاخِ او نرست

(جاوید نامہ، ۲۰۲)

(اہلِ مکتب نے نوجوانوں کی جانوں سے نورِ فطرت کو دھو دیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ مکتبوں کی شاخ سے ایک گلِ رعنا بھی نہیں پھوٹا۔)

                اقبال کہتے ہیں کہ حقیقی علم فقط کتابوں سے حاصل نہیں ہوتا،اس کے لیے کسی صاحبِ نظر کی طرف رجوع ضروری ہے۔ (ع  ترا علاج نظر کے سوا کچھ اور نہیں۔ بال جبریل، ۴۷) علامہ ، اپنی اس بے مثال نظم میں نئی نسل کو حسب ذیل نصیحتیں بھی کرتے ہیں:

                ۱- عدل و انصاف کو ہاتھ سے نہ دو۔

                ۲- اعتدال اور میانہ روی اختیار کرو۔

                ۳- احکام ِالٰہی کو اپنی گرہ میں باندھ لو۔

                ۴- اپنے قلب سے روشنی حاصل کرو۔

                ۵- ضبط ِنفس سے اپنی جوانی کی حفاظت کرو۔

                ۶-اور فقر و درویشی کو اپنی زندگی کا عنوان (motto) بناؤ۔

                فقر و درویشی کے ضمن میں علامہ اقبال نے شاہین کو ایک مثالی پرندے کے طور پر پیش کیا ہے۔ شاہین مسلم نوجوان کے لیے ایک استعارہ بھی ہے۔ اس حوالے سے اقبال نئی نسل میں فقر، درویشی ، قناعت، استغنا، خودداری، اور بلند پروازی کی صفات دیکھنا چاہتے ہیں اور یہ صفات اس وقت تک نوجوانوں کے اندر پیدا اور راسخ نہیں ہوسکتیں، جب تک وہ سخت کوشی کو اپنی زندگی کا شعار نہ بنائیں۔ (ع  سخت کوشی سے ہے تلخِ زندگانی انگبیں۔ بال جبریل، ۱۲۱)

                مختصر یہ کہ یہ نظم اقبال کے مثالی نوجوان کا ایک نہایت عمدہ خاکہ پیش کرتی ہے۔ اُوپر ذکر ہوا ہے کہ علامہ اقبال نئی تعلیم کو نوجوانوں کے حق میں زہرِ ہلاہل سمجھتے تھے (ع  لادیں ہو تو ہے زہرِہلاہل سے بھی بڑھ کر۔ ضرب کلیم ، ۲۹)‘ کیونکہ یہ تعلیم اسے عقل پرستی اور مادّیت و لادینیت کا اسیر بناتی ہے۔

                اقبال جدید دور کی مادیت کو نوجوانانِ ملت کے لیے بہت بڑا فتنہ سمجھتے تھے۔ ۱۹۳۱ء میں انگلستان میں نوجوانوں کے ایک گروہ سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا: ’’میں نوجوانوں کو نصیحت کرتا ہوں کہ وہ دہریت اور مادیت سے محفوظ رہیں۔ اہلِ یورپ کی سب سے بڑی غلطی یہ تھی کہ انھوں نے مذہب و حکومت کو علاحدہ علاحدہ کردیا۔ اس طرح ان کی تہذیب روحِ اخلاق سے محروم ہوگئی اور اس کا رُخ دہریانہ مادیت کی طرف پھر گیا‘‘ (گفتار اقبال، ۲۵۴)۔ حقیقت تو یہ ہے کہ علامہ اقبال جوانانِ ملّت کو اپنی اولاد کی طرح عزیز رکھتے تھے۔ جاوید کے نام پند ونصیحت کو، وہ ’سخنے بہ نژادِ نو‘ قرار دے کر پیش کرتے ہیں۔ نئی نسل انھیں اپنے دونوں بیٹوں (آفتاب اقبال، جاویداقبال) میں سے عزیز تر جاویداقبال ہی کی طرح عزیز تھی اور وہ اپنی اولاد کی طرح ہی اس کے خیر خواہ تھے، چنانچہ پندو نصائح کے ساتھ ساتھ، اقبال ہمیشہ ان کے لیے دعاگو بھی رہے۔ ۲۹ نومبر ۱۹۲۹ء کو وہ علی گڑھ میں تھے۔ یونی ورسٹی سٹوڈنٹس یونین نے ان کے اعزاز میں جلسہ منعقد کرکے، انھیں یونین کی ’آنریری لائف ممبرشپ‘ دی اور ایک سپاس نامہ پیش کیا تو جوابی تقریر میں فرمایا: ’’گذشتہ چند سال سے میں صرف جسد خاکی کا مالک ہوں۔ میری روح ہمیشہ آپ کی خدمت کے لیے حاضر رہی ہے اور جب تک زندہ ہوں، وہ آپ کی خدمت کرتی رہے گی‘‘ (گفتار اقبال، ۱۰۳)۔ اکبر الٰہ آبادی کے نام ایک خط میں لکھتے ہیں: ’’ صرف ایک بے چین اور مضطرب جان رکھتا ہوں۔ قوتِ عمل مفقود ہے۔ ہاں، یہ آرزو رہتی ہے کہ کوئی قابل نوجوان جو ذوقِ خدا داد کے ساتھ قوتِ عمل بھی رکھتا ہو، مل جائے جس کے دل میں اپنا اضطراب منتقل کردوں۔‘‘ (اقبال نامہ ، ۳۸۲)

                اس اضطراب اور خدمت کا ایک پہلو یہ بھی ہے کہ وہ جوانانِ ملّت کی تنظیم و تربیت کے متمنی تھے۔ ۲۱ مارچ ۱۹۳۲ء کو لاہور میں آل انڈیا مسلم کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے انھوں نے تنظیماتِ نوجوانان (Young Leagues) قائم کرنے کی تجویز پیش کی جو ایک مرکزی تنظیم کے تحت سماجی خدمت، نا مطلوب رسوم و رواج کی اصلاح اور معاشرے کی اقتصادی فلاح و بہبود کے کام انجام دے ۔(Speeches، ۴۱) مولانا راغب احسن نے ۱۹۳۱ء میں آل انڈیا یوتھ لیگ قائم کی (اقبال، جہان دیگر، ۳۰) تو انھیں تلقین کی کہ جمعیت کو زیادہ فعاّل اور منظم بنائیں۔ لکھتے ہیں: ’’مقصد صرف تربیت ہونا چاہیے اور اس کے ساتھ ڈسپلن۔ تربیت سے مراد وہ طریق ہے جس سے مسلمان نوجوانوں میں دینی حرارت پیدا ہو‘‘۔ (اقبال نامہ)

                جوانانِ ملّت کے لیے اقبال کی نیک تمناؤں اور دعاؤں کا تذکرہ ان کی شاعری میں بھی کئی مقامات پر ملتا ہے۔ بال جبریل کی نظم ’ساقی نامہ‘ میں کہتے ہیں:

جوانوں کو سوز جگر بخش دے
مرا عشق، میری نظر بخش دے
مرے دیدۂ تر کی بے خوابیاں
مرے دل کی پوشیدہ بے تابیاں
مرے نالۂ نیم شب کا نیاز
مری خلوت و انجمن کا گداز
امنگیں مری، آرزوئیں مری
امیدیں مری، جستجوئیں مری
مرے قافلے میں لٹا دے اسے
لٹا دے، ٹھکانے لگا دے اسے

(بالِ جبریل ۱۲۴-۱۲۵)

                سوال یہ ہے کہ یہ اضطراب ، حضرت علامہ نوجوانوں ہی کو کیوں منتقل کرنا چاہتے ہیں؟ امت مسلمہ کے عمر رسیدہ و آزمودہ کار اور جہاں دیدہ اصحاب کے بجاے انھوں نے نوجوانوں کا انتخاب کیوں کیا؟ اور جب وہ یہ کہتے ہیں کہ: ’جوانوں کو پیروں کا استاد کر‘ (بال جبریل، ۱۲۴) ، تو اس کا حقیقی محرک کیا تھا؟

                ہمارے خیال میں، پیروں اور بزرگوں کی تمام تر فہم و دانش ، طویل زندگی کے تجربات اور بزرگی کے باوجود، جوانوں کو اُن پر ترجیح کا سبب غالباً یہ تھا کہ تاریخ اسلام کے ہر دور میں دعوتِ حق کی پکار پر لبیک کہنے والوں میں نوجوان ہمیشہ پیش پیش رہے ہیں۔ حق و باطل کی پیکار میں انھوں نے ہر طرح کے سود وزیاں سے بے نیاز ہو کر حق و صداقت کا ساتھ دیا۔ یہ حقیقت معرکۂ فرعون و کلیم سے آنحضورؐ کے دور تک اسلام اور جاہلیت کی کش مکش میں ہمیشہ بہت نمایاں طور پر نظر آتی ہے۔ قرآن حکیم میں ایک مقام پر فرمایا گیا ہے کہ :

فَمَآ اٰمَنَ لِمُوْسٰٓی اِلَّا ذُرِّیَّۃٌ مِّنْ قَوْمِہٖ عَلٰی خَوْفٍ مِّنْ فِرْعَوْنَ وَ مَلَاْئِھِمْ اَنْ یَّفْتِنَھُمْ (یونس ۱۰: ۸۳) (پھر دیکھوکہ ) موسیٰ کو اس قوم میں سے چند نوجوانوں کے سوا کسی نے نہ مانا، فرعون کے ڈر سے اور خود اپنی قوم کے سربرآوردہ لوگوں کے ڈر سے (جنھیں خوف تھا کہ) فرعون ان کو عذاب میں مبتلا کرے گا۔)

                گویا اس پر آشوب اور پر خطر زمانے میں جب فرعون اور حضرت موسیٰ کلیم اللہ کے درمیان ایک زبردست کش مکش برپا تھی، حق کا ساتھ دینے اور حضرت موسیٰ کو اپنا رہنما تسلیم کرنے کی جرأت فقط چند لڑکوں نے کی۔ اُمتِ موسٰی ؑکے عمر رسیدہ لوگ مصلحت کوشی اور عافیت پرستی کا شکار ہو کر رہ گئے۔  نہ صرف یہ کہ وہ خود حق کا ساتھ دینے پر آمادہ نہ ہوئے، بلکہ نوجوانوں کو بھی موسیٰ کی پیروی سے روکتے رہے تاکہ وہ فرعون کے غیظ و غضب سے محفوظ رہ سکیں۔ سرزمینِ عرب میں آنحضوؐر نے دعوتِ حق پیش کی تو آپؐ پر ایمان لانے والوں میں بڑے بوڑھوں اور سن رسیدہ لوگوں کے بجاے اولیت کا شرف بھی نوجوانوں ہی کو حاصل ہوا۔ ان باہمت نوجوانوں کی عمریں قبولِ اسلام کے وقت اس طرح تھیں:

                ۱- ۲۰ سال سے کم عمر: علی ابن ابی طالب، جعفر بن طیار، زبیر ، طلحہ، سعد بن ابی وقاص، مصعب بن عمیر، عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہم۔

                ۲- ۲۰ اور ۳۰ سال کے درمیان: عبدالرحمن بن عوف ، بلال ، صہیب رضی اللہ عنہم۔

                ۳- ۳۰ اور ۳۵ سال کے درمیان: ابوعبیدہ ابن الجراح، زید بن حارث، عثمان غنی،     عمر فاروق رضی اللہ عنہم۔

                اس تاریخی حقیقت کی بنا پر جس کی شہادت قرآن حکیم پیش کر رہا ہے، علامہ بجا طور پر    یہ محسوس کرتے تھے کہ اُمت مسلمہ کے مختلف طبقات میں سے صرف نوجوان ہی وہ طبقہ ہے جو  ذوقِ عمل کی دولت سے مالا مال ہے اور انھی کے ہاتھوں انقلاب برپا ہوسکتا ہے، اس لیے اقبال نے اپنی تمام امیدیں نوجوانوں سے وابستہ کرلی تھیں۔ مزید برآں قریبی زمانے کی مسلم تاریخ اور ہم عصر مسلم معاشرے کے عمیق مطالعے کے بعد‘ حضرت علامہ نوجوانوں کے سوا، ملت کے تمام گروہوں سے تقریباً مایوس ہوگئے تھے۔ مایوسی کا یہ احساس مختلف اصحاب کے نام لکھے گئے خطوط میں خاصا نمایاں ہے۔ آخر زمانے کے ایک خط (بنام چودھری نیاز علی خاں مرحوم) میں ان کی سوچ کا یہ رخ بہت دو ٹوک اور واضح نظر آتا ہے۔ لکھتے ہیں :

علما میں مداہنت آگئی ہے۔ یہ گروہ حق کے کہنے سے ڈرتا ہے۔ صوفیہ اسلام سے بے پروا اور حکام کے تصرف میں ہیں۔ اخبار نویس اور آج کل کے تعلیم یافتہ لیڈر خودغرض ہیں۔ ذاتی منفعت اور عزت کے سوا کوئی مقصد ان کی زندگی کا نہیں ۔ عوام میں جذبہ موجود ہے مگر ان کا کوئی بے غرض راہ نما نہیں ہے۔ (اقبال نامہ، ۲۲۳)

                چنانچہ اقبال اپنے برس ہا برس کے مطالعے، مشاہدے اور ذاتی تجربے کے بعدا پنی تمام تر توقعات صرف اور صرف نوجوانوں سے وابستہ کرلینے میں حق بجانب تھے۔ ان کے ہاں عقل پر عشق کی ترجیح اور شاہین کی ایک مثالی پرندے کی حیثیت سے تعریف و توصیف اسی نکتے کی تفسیریں ہیں۔ نوجوانوں سے امیدیں وابستہ کرلینے کے بعد‘ وہ بے چین ہوئے تو انھی کے لیے ، تڑپے اور مضطرب ہوئے تو انھی کے لیے، ان کی دعائیں اور نیک تمنائیں‘ اُمنگیں اور آرزوئیں انھی کے لیے وقف ہوگئیں :

جوانوں کو مری آہِ سحر دے
پھر ان شاہیں بچوں کو بال و پر دے
خدایا آرزو میری یہی ہے
مرا نورِ بصیرت عام کردے

(بالِ جبریل، ۸۶)

                کچھ عجب نہیں کہ اس وقت جبکہ دنیا بھر کے مسلمان ابتلا و آزمایش کا شکار ہیں اور عالمِ اسلام کو سنگین مسائل کا سامنا ہے، حضرت علامہ کی روح آج بھی بے تاب و مضطرب ہو اور اس بات کی منتظر کہ نوجوانوں کے عزائم اور ان کے ارادے اور ولولے اقبال کے مطلوبہ انقلاب کا پیش خیمہ ثابت ہوں۔

                ۲۱ویں صدی کے آغاز میں جب متمدن اور ترقی یافتہ مغرب، اقبال کے الفاظ میں ، ایک بہت بڑے ’قمار خانہ‘ کی شکل اختیار کرچکا ہے اور وہاں زندگی، علامہ کے اس شعر کی تفسیر بن چکی ہے     ؎

بے کاری و عریانی و مے خواری و افلاس
کیا کم ہیں فرنگی مدنیت کے فتوحات

(بالِ جبریل، ۱۰۸ )

مسلم نوجوان دورِ جدید کا وہ خوش قسمت انسان ہے جو اسلام کے حیات بخش اور جاں فزا پیغام کی بدولت آج بھی ہر طرح کے ذہنی و فکری انتشار سے محفوظ ہے ۔ اقبال کی شاعری‘ اس نوجوان کی قوتِ عمل کے لیے ایک مہمیز ہے۔ اقبال دور حاضر کے مسلم نوجوانوں کو تسکینِ قلب کے لیے منفی اور مصنوعی طور طریقوں کے بجاے‘ دین فطرت کا وہ صراط مستقیم دکھاتے ہیں جو اسلامی انقلاب کی شاہراہ ہے۔

                مسجد قرطبہ ، یورپ میں مسلمانوں کی عظمتِ رفتہ کی ایک خوب صورت یادگار ہے۔ آج سے تقریباً نصف صدی قبل اس کے پہلو میں بہتے دریا وادی الکبیر کے کنارے حضرت علامہ اقبال نے ایک خواب دیکھا تھا:

آبِ روانِ کبیر! تیرے کنارے کوئی
دیکھ رہا ہے کسی اور زمانے کا خواب
عالمِ نو ہے ابھی پردۂ تقدیر میں
میری نگاہوں میں ہے اس کی سحر بے حجاب

(بالِ جبریل، ۱۰۱)

مگر یہ سحر عالمِ اسباب میں تاحال بے حجاب نہیں ہوئی۔ اقبال کی چشم ِنگراں آج بھی اس خواب کی تعبیر دیکھنے کے لیے بے تاب ہے۔ جب ہم ’’ساقی نامہ‘‘ کے ان اشعار کو دیکھتے ہیں کہ :

خرد کو غلامی سے آزاد کر
جوانوں کو پیروں کا استاد کر
تڑپنے پھڑکنے کی توفیق دے
دلِ مرتضیٰؓ سوزِ صدیقؓ دے
جگر سے وہی تیر پھر پار کر
تمنا کو سینوں میں بیدار کر
جوانوں کو سوزِ جگر بخش دے
مرا عشق، میری نظر بخش دے

(بال جبریل، ۱۲۴)

تو غالباً یہ کہنے کی ضرورت نہیں کہ نئی نسل ہی اقبال کے خواب شرمندہ ٔ تعبیر کرسکتی ہے۔

کتابیات

۱- ابوالاعلیٰ مودودی، سیدّ : تفہیم القرآن، دوم۔ مکتبہ تعمیر انسانیت، لاہور، ۱۹۷۱ء

۲- اقبال، علامہ محمد : اقبال نامہ (مرتب : شیخ عطاء اللہ) اقبال اکادمی پاکستان لاہور، ۲۰۰۵ء

۳- اقبال، علامہ محمد : اقبال ، جہانِ دیگر (مرتب: محمد فرید الحق) گردیزی پبلشرز کراچی ، ۱۹۸۳ء

۴-  اقبال، علامہ محمد : کلیات اقبال، اُردو ۔ شیخ غلام علی لاہور، ۱۹۷۳ء

۵-  اقبال، علامہ محمد : کلیات اقبال ، فارسی ۔ شیخ غلام علی لاہور، ۱۹۷۳ء

۶- اقبال، علامہ محمد : Speeches, Writings and Statements of Iqbalمرتب: لطیف احمد شروانی ۔ اقبال اکادمی پاکستان لاہور، ۱۹۷۷ء

۷- اقبال، علامہ محمد : گفتار اقبال (مرتب: محمد رفیق افضل ) ادارہ تحقیقاتِ پاکستان، پنجاب یونی ورسٹی لاہور، ۱۹۶۹ء

۸- عبدالقادر ، شیخ سر : نذرِ اقبال (مرتب: محمد حنیف شاہد) بزم اقبال لاہور، ۱۹۷۳ء

۹-  ممتاز حسن: مقالاتِ ممتاز (مرتب: شان الحق حقی)۔ ادارہ یادگار غالب کراچی‘ ۱۹۹۵ء

۹- مہر ، غلام رسول مہر : مطالبِ بانگِ درا ۔ شیخ غلام علی لاہور۔ ۱۹۷۲ء