دسمبر۲۰۰۷

فہرست مضامین

اسلامی تحریک کا لائحہ عمل

سیّد ابوالاعلیٰ مودودی | دسمبر۲۰۰۷ | حکمت مودودی

Responsive image Responsive image

اس لائحہ عمل [تطہیر افکار و تعمیر افکار‘ صالح افراد کی تلاش‘ تنظیم اور تربیت‘ اجتماعی اصلاح کی سعی‘ اور نظامِ حکومت کی اصلاح] کو اگر آپ اس نصب العین [اقامت دین‘ حکومتِ الٰہیہ یا اسلامی نظامِ زندگی کا قیام] کے ساتھ ملا کر دیکھیں تو آپ بیک نظر محسوس کرلیں گے کہ یہ لائحہ عمل اس نصب العین کا فطری تقاضا ہے اور اس کا ایک ایک جز اس کے ایک ایک گوشے پر ٹھیک ٹھیک منطبق ہوتا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ جس جماعت کا وہ نصب العین ہو‘ اس کا یہی لائحہ عمل ہونا چاہیے اور یہی ہوسکتا ہے۔ اس کے سوا اس کا کوئی اور لائحہ عمل ہو ہی نہیں سکتا۔

اس کے چاروں اجزا آپس میں ایسا منطقی ربط رکھتے ہیں کہ ان میں سے ہر ایک دوسرے کا تقاضا کرتا ہے‘ ہر ایک دوسرے سے تقویت پاتا ہے‘ اور جس کو بھی ساقط کردیا جائے‘ اس کے سقوط سے ساری اسکیم خراب ہوجاتی ہے۔ جماعت کے نصب العین کا حصول اگر ممکن ہے تو ان چاروں اجزا پر بیک وقت متوازی کام اورمتوازن طریقے پر کام کرنے ہی سے ممکن ہے۔ آپ اس کے جس جز کو بھی الگ کردیںگے‘ باقی اجزا کا کام نہ صرف کمزور اور بے اثر ہوجائے گا‘ بلکہ اپنے نصب العین کے لیے آپ کی جدوجہد ہی لاحاصل ہوکر رہ جائے گی۔

  •  اس کا پہلا جز اسلام کی خالص دعوت کو نکھار کر پیش کرتا ہے‘ اس کی قبولیت کے لیے عوام اور خواص کو تیار کرتا ہے‘ اور اس کی کامیابی کے لیے ذہنی فضا ہموار کرتا ہے۔ یہ اس تحریک کا اوّلین بنیادی کام ہے جس کے بغیر آگے کے کسی کام کا تصور نہیں کیا جاسکتا۔
  •   اس کا دوسرا جزو دعوت قبول کرنے والوں کو منظم کرتا ہے‘ اور ان کی قوتوں کو دعوت کی توسیع میں اور اس کی کامیابی کے لیے جدوجہد کرنے میں استعمال کرتا ہے۔ یہ جز پہلے جز کا لازمی تقاضا ہے۔ دعوت دینے کے ساتھ ساتھ اگر آپ دعوت قبول کرنے والوں کو منظم نہ کرتے جائیں‘ اور ان کو دعوت کے مقاصد کی تحصیل کے لیے تیار نہ کرتے رہیں‘ اور انھیں عملاً اس کام میں لگاتے نہ چلے جائیں تو دعوت بجاے خود بے معنی ہوجاتی ہے۔ یہی کام تو اُس مشینری کو تیار کرتا ہے جو دعوت کو کامیاب بنانے کے لیے درکار ہے۔ آخر دعوت کا حاصل کیا ہے‘ اگر آپ صرف پکارتے رہیں اور ان لوگوں کو جو آپ کی پکار پر لبیک کہہ کر آئیں‘ اکٹھا کر کے کسی کام پر نہ لگائیں۔
  •  اس کا تیسرا جز معاشرے کو اسلامی نظامِ زندگی کے لیے عملی اور اخلاقی حیثیت سے تیار کرنا ہے۔ حقیقت کے اعتبار سے یہ کوئی الگ کام نہیں ہے جسے اس پروگرام میں شامل کرنے یا نہ کرنے کا کوئی سوال پیدا ہوسکے۔ دراصل یہ اسی کام کی تفصیل ہے جو لائحہ عمل کے دوسرے جز میں بیان کیا گیا ہے۔ آپ دعوت قبول کرنے والوں کو منظم کرکے اور تربیت دے کر جس کام میں لگائیں گے‘ وہ معاشرے کی اصلاح ہی کا کام تو ہوگا۔ معاشرے کی اصلاح کا جتنا کام آپ کریں گے آپ کی دعوت وسیع ہوگی اور آپ کی تنظیم کے لیے مزید کارکن ملیں گے‘ اور آپ کی دعوت و تنظیم جتنی وسیع ہوگی‘ اتنا ہی معاشرے کی اصلاح کا دائرہ پھیلتا جائے گا اور اسلامی نظامِ زندگی کے لیے زمین ہموار ہوتی چلی جائے گی۔ اس طرح یہ دونوں اجزا بالکل ایک دوسرے کے لیے لازم و ملزوم ہیں۔ آپ کسی حال میں اس بات کا تصور تک نہیں کرسکتے کہ ان میں سے ایک آپ کے لائحہ عمل میں شامل ہو اور دوسرا نہ ہو۔
  •  اب چوتھے جز کو لیجیے۔ یہ چاہتا ہے کہ جیسے جیسے آپ کی دعوت مقبول ہو‘ اور اس کے قبول کرنے والوں کی تنظیم قوت پکڑتی جائے‘ اور معاشرہ اس کے لیے تیار ہوتا جائے‘ اسی نسبت سے آپ اسلامی نظام زندگی کو عملاً برسرِاقتدار لانے اور جاہلیت کی پشت پناہ طاقتوں کو پیچھے دھکیلنے کی کوشش کرتے چلے جائیں۔ اپنے اصل نصب العین کو نگاہ میں رکھ کر اگر آپ اس لائحہ عمل کے پہلے تین اجزا پر غور کریں گے تویہ چوتھا جز ان تینوں کا ایسا فطری تقاضا نظر آئے گا کہ اگر یہ آپ کے پروگرام میں شامل نہ ہو تو وہ تینوں سراسر بے معنی ہوجائیں گے۔ آخر آپ دعوت کس چیز کی دیتے ہیں؟ اسی چیز کی نا کہ اسلامی نظامِ زندگی قائم ہو۔ اس دعوت کے قبول کرنے والوں کو منظم کرنے اور حرکت میں لانے سے آپ کا مقصد کیا ہے؟ یہی نا کہ وہ اسلامی نظامِ زندگی کے قیام کی جدوجہد کریں۔ معاشرے کو آپ کس غرض کے لیے تیار کرتے ہیں؟ اس کے سوا اور اس کی غرض کیا ہے کہ اسلامی نظامِ زندگی کے لیے زمین ہموار ہو۔

اب خود سوچیے کہ یہ سارے کام کرنے کا فائدہ کیا ہے اگر آپ ان کاموں سے حاصل ہونے والے نتائج کو اصل مقصد کی طرف پیش قدمی کرنے کے لیے ساتھ ساتھ استعمال نہ کرتے چلے جائیں۔ آپ کا اصل مقصد آخرکار جس کام کے ذریعے سے حاصل ہونا ہے‘ وہ یہی چوتھا کام ہی تو ہے۔ یہ آپ کے پروگرام میں شامل نہ ہو تو پہلے تین کام ایک سعی بے حاصل کے سوا کچھ نہ ہوں گے‘ اور انھیں کر کے آپ زیادہ سے زیادہ بس مبلغوں کی ایک جماعت بن کر رہ جائیں گے جن کی پہلے بھی اس ملک میں کوئی کمی نہ تھی۔ اس طرح کی تبلیغ و تلقین اور اصلاح اخلاق کی کوششوں سے جاہلیت کا سیلاب نہ پہلے رُکا تھا‘ نہ اب رُک سکتا ہے۔

اس تجزیہ وتشریح سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ جس نتیجۂ مطلوب کے لیے جماعت اسلامی کی یہ ساری اسکیم بنائی گئی تھی‘ وہ لائحہ عمل کے ان چاروں اجزا پر بیک وقت کام کرنے کا تقاضا کرتا ہے۔ اگر وہ نتیجہ فی الواقع آپ کو مطلوب ہے تو پھر اس پورے مرکب ہی پر آپ کو ایک ساتھ کام کرنا ہوگا۔ اس کے اجزا کا باہمی ربط توڑ کر‘ یا اس میں کمی و بیشی کر کے‘ یا ان میں سے بعض کو    مقدم اور بعض کو مؤخر کرکے آپ اپنی تحریک کی ناکامی کے سوا اور کچھ حاصل نہ کریں گے۔ (تحریک اسلامی کا آیندہ لائحہ عمل‘ ص ۴۴-۴۶)