’رسائل و مسائل‘ کے زیر عنوان جو روایت مولانا مودودی مرحوم نے قائم کی‘ اسے ان کے تربیت یافتہ افراد نے اپنے مقدور بھر زندہ رکھنے کی کوشش کی۔ چنانچہ جسٹس ملک غلام علی مرحوم اور خرم مراد مرحوم کے قلم سے نکلے ہوئے جوابات اس سے قبل کتابی شکل میں طبع ہوچکے ہیں۔ اب اسی سلسلے کو جاری رکھتے ہوئے ادارہ معارف اسلامی لاہور نے شیخ الحدیث مولانا عبدالمالک کے تحریر کردہ جوابات جو ۱۹۸۲ء سے ۲۰۰۱ء کے دوران ترجمان القرآن میں طبع ہوئے ہیں‘ ایک جلد میں شائع کردیے ہیں۔ کتاب ۱۱ ابواب اور چار مقالات پر مبنی ہے۔ ابواب کے عنوانات یوں ہیں:
مولانا عبدالمالک کی فقہی آرا ان کی بصیرت کا روشن ثبوت ہیں۔ مولانا عموماً معروف حنفی مصادر کے حوالے سے اپنی راے کا اظہار فرماتے ہیں لیکن اعتدال و توازن کو کبھی ہاتھ سے نہیں جانے دیتے۔ اسی بنا پر بعض حساس موضوعات پر بھی ان کی راے کسی فریق کے جذبات کو مجروح نہیں کرتی۔ اس کی عمدہ مثال مشرک کے پیچھے نماز (ص ۸۶-۸۷)‘ بریلوی امام کے پیچھے نماز (ص ۶۱ تا ۸۲) جیسے موضوعات پر تحریر کردہ جوابات ہیں۔ باب ہفتم اس لحاظ سے بڑی اہمیت رکھتا ہے کہ اس میں جدید معاشی مسائل پر مدلل آرا کا اظہار کیا گیا ہے۔ ادارہ معارف اسلامی اس کتاب کو طبع کرنے پر مبارک باد کا مستحق ہے۔(ڈاکٹر انیس احمد)
اسلام پر پاکستان کی نظریاتی اساس کسی شک و شبہے سے بالا حقیقت ہے۔ تاہم‘ قیامِ پاکستان کے روز ہی سے‘پاکستان میں اسلام اور سیکولرزم کی بحث شروع ہوگئی تھی۔ ۱۲ مارچ ۱۹۴۹ء کو پہلی دستور ساز اسمبلی نے اس بحث کا مسکت جواب ’قراردادمقاصد‘ کی منظوری کی صورت میں دیا‘ اور پاکستان کی نظریاتی سمت کو قرارداد مقاصد کے آئینی اور قانونی اعتبار سے متعین کردیا۔ بعدازاں ۱۹۵۶‘ ۱۹۶۲ء اور ۱۹۷۳ء کے دساتیر میں اسے محض دیباچے میں جگہ دی گئی ہے اور ریاست و حکومت اس سے بے نیاز رہے۔ البتہ ۱۹۷۲ء میں جسٹس حمودالرحمن نے ’عاصمہ جیلانی کیس ۱۹۷۲ء‘ میں اس دستاویز کی اہمیت اور دساتیر میں نظرانداز کرنے کے المیے کی جانب لطیف پیرایے میں توجہ دلائی۔
جنرل محمد ضیاء الحق نے قرارداد مقاصد کو دستور کے مقدمے کے بجاے دستور کا مؤثر حصہ بنا دیا۔ جس کے بعد لاہور ہائی کورٹ نے ’سکینہ بی بی کیس ۱۹۹۲ء‘ میں فیصلہ دیاکہ دفعہ ۴۵ میں مندرج صدر پاکستان کے اختیارات‘ قرآن و سنت کے پابند ہیں۔ مگر سپریم کورٹ نے ’حاکم خاں کیس ۱۹۹۲ء‘ میں اس کے برعکس فیصلہ دیا:
۱-قرارداد مقاصد کی حیثیت کو محدود کر کے ایک رسمی خواہش کے دائرے میں بند کرنے کی کوشش کی۔ سردار شیرعالم ایڈووکیٹ [م: ۱۰ اپریل ۲۰۰۷ء] نے اس فیصلے کی شدت کو قلب و روح کی گہرائیوں میں محسوس کیا‘ اور اس کا فکری‘ دستوری اور اسلامی بنیادوں پر نہایت فاضلانہ تجزیہ تحریر کیا۔ جس نے سپریم کورٹ کے فیصلے سے پیدا شدہ صورت حال کو زیرغور لانے کے لیے سنجیدہ بنیاد فراہم کی۔
زیرنظر کتاب کا مرکزی حصہ اسی مقالے کا رواں اُردو ترجمہ (ص ۱۲۵-۱۸۹) چودھری محمد یوسف نے کیا ہے‘ جب کہ اسی مناسبت سے چند تحریریں اور ۱۹۹۲ء کے مذکورہ دونوں فیصلوں کا بھی ترجمہ پیش کردیا گیا ہے۔(سلیم منصور خالد)
اگرچہ آثارِ قدیمہ کو محض عمارات تک محدود نہیں کیا جاسکتا‘ تاہم عرفِ عام میں مذکورہ ترکیب سے ’عمارات‘ ہی مراد لی جاتی ہیں اور زیرنظر کتاب میں بھی اسی حوالے سے مختلف النوع عمارات کے بارے میں تاریخی حقائق اور صورتِ واقعہ پر مبنی‘ مفید معلومات بہم پہنچائی گئی ہیں۔
فاضل مصنف آثارِقدیمہ کے مختلف اداروں اور شعبوں سے وابستہ رہے‘ باقاعدہ خطاط بھی ہیں۔ اس فن میں انھیں حافظ یوسف سدیدی مرحوم‘ سیدنفیس رقم اور صوفی خورشید رقم کا تلمذ حاصل ہے۔ ان دنوں پنجاب انسٹی ٹیوٹ آف لینگوئج‘ آرٹ اینڈ کلچر (حکومت پنجاب) میں بطور ڈپٹی ڈائرکٹر کام کر رہے ہیں۔
زیرنظر کتاب میں آٹھ باغات (ہرن منار‘ شالامار‘ بارہ دری وزیرخاں ‘ چوبرجی وغیرہ) ۱۲مقبروں (نورجہاں‘ آصف خاں‘ انارکلی‘ مہابت خاں‘ علی مردان وغیرہ) دس قلعوں (اٹک‘ روات‘ شاہی قلعہ وغیرہ) اور آٹھ مساجد (وزیرخاں‘ چینیاں والی‘ حمام والی اور بادشاہی مسجد وغیرہ) کے بارے میں خاصی تحقیق اور تجسس کے بعد تاریخی معلومات‘ حوالوں اور اعدادوشمار کے ساتھ فراہم کی گئی ہیں۔ تصاویر بھی شامل ہیں۔
’پنجاب کے فنِ تعمیر‘ کے تذکرے میں مصنف کا یہ تاثر درست معلوم نہیں ہوتا کہ پنجاب اپنا کوئی منفرد فن تعمیر رکھتا ہے‘ یا یہاں ’ایک خاص فن تعمیر کی بنیاد‘ رکھی گئی۔ دراصل پنجاب کی مساجد‘ مقبروں اور مختلف عمارتوں میں بے حد تنوع ہے اور یہ اس لیے ہے کہ یہ فن تعمیر اسلامی اور ہندی تہذیب و تمدن کی روایات اور افغانی اور وسط ایشیائی حملہ آوروں کے اثرات کے نتیجے میں تشکیل پذیر ہوا۔ اس اعتبار سے پنجاب کا فن تعمیر مختلف تعمیراتی فنون کا جامع ہے اور اسی لیے اس کے مختلف علاقوں میں تھوڑے تھوڑے فاصلے پر مکانات اورمقبروں حتیٰ کہ عام قبروں تک کی شکل و صورت بھی بدل جاتی ہے۔
کتاب خاصی محنت و کاوش سے لکھی گئی ہے۔ تعجب ہے کہ ۳۷ مآخذ کی فہرست (کتابیات) میں ان اُردو کتابوں کے نام نہیں دیے گئے جو ’حوالہ جات‘ کے تحت مذکور ہیں۔ کتاب میں فنی تدوین کی کمی بھی محسوس ہوتی ہے۔ اتنی اچھی تحقیقی کتاب میں فنی تدوین کی کمی اور فنِ اِملا و رموزِ اوقاف سے بے توجہی کھٹکتی ہے۔ (رفیع الدین ہاشمی)
رشیدحسن خاں کا نام اُردو زبان کے ایک نمایاں محقق اور زبان‘ لغت اور املا کی اصلاح و ترقی کے حوالے سے کسی تعارف کا محتاج نہیں۔ اپنے موضوع پر ان کی زیرنظر تصنیف ایک اہم تحقیقی کاوش ہے‘ جو بھارت کے سرکاری اشاعتی ادارے سے دو بار شائع ہوئی اور اپنی افادیت کے باعث طلبہ‘ قارئین اور علما و محققین میں مقبول ہوچکی ہے۔
کتاب کا دیباچہ بجاے خود ایک تصنیف کا درجہ رکھتا ہے۔ اس میں محقق نے رسمِ خط اور املا‘ املا میں تغیر اور اصلاح‘ اصلاح اور صحت‘ خطاطی‘ رسمِ خط اور املا اور املا کی معیاربندی کے بعد املا کی ازسرنو تعریف متعین کی ہے۔ انھوں نے مرکبات کی درست املا اور مرکبات کو الگ الگ لفظوں میں لکھنے کے بارے میں بھی تفصیلی گفتگو کی ہے۔
کتاب عملاً چار حصوں میں منقسم ہے۔ پہلے حصے میں املا کے مسائل کو الف بائی انداز میں منضبط کیا گیا ہے۔ الف (الف ممدودہ‘ الف اور ہاے مختفی‘ الف تنوین)، ت ۃ، ت ط، ذزژ، س ص ض، ک گ، ن و، ہ (ہاے ملفوظ، ہاے مختفی، ہاے مخلوط)‘ ہمزہ (ہمزہ اور الف، ہمزہ اور واو، ہمزہ اور ہاے مختفی، ہمزہ اور ی) وغیرہ پر مفصل بحث کر کے املا کے مسائل کو حل کرنے کی کوشش کی ہے۔ دوسرے حصے میں گنتیاں‘ لفظوں کو ملا کر لکھنا‘ نقطے‘ شوشے‘حرفوں کے جوڑ‘ نسخ و نستعلیق کی بعض خصوصیات اور اعراب‘ علامات اور رموزِ اوقاف کے بارے میں گفتگو کی ہے۔ تیسرا حصہ املاے فارسی کی ذیل میں ہندستانی فارسی اور کلاسیکی ایرانی فارسی کے املا اور املاے فارسی جدید کے لیے مختص کیا گیا ہے‘ جب کہ چوتھے حصے میں تدوین اور املا، اور لغت اور املا جیسے اہم موضوعات کو چھیڑا گیاہے۔ آخر میں بعض اہم الفاظ کا اشاریہ دے دیا گیا ہے۔
محقق نے اپنی تصنیف میں ماضی میں املا کے مسائل کے بارے میں لکھی جانے والی مستند اور قابلِ قبول تحریروں کی مدد سے اصول و قواعد مرتب کیے ہیں اور انھی کی روشنی میں دیگر الفاظ کو قیاس کے دائرے میں لایا گیا ہے‘ تاہم اس بات کا خیال رکھا گیا ہے کہ مسلمات کی خلاف ورزی ہو اور نہ خواہ مخواہ کی جدت طرازی۔
امید ہے کہ مجلس ترقی ادب‘ شہزاد احمد کی سرپرستی میں علم دوستی کا ثبوت فراہم کرتے ہوئے اسی معیار کی کتابیں شائع کرتی رہے گی۔ (ڈاکٹر خالد ندیم)
عصرِحاضر میں‘ اسلام کی تیزرفتار اشاعت اور کثرت سے غیرمسلم افراد کا مشرف بہ اسلام ہونا اس بات کا عملی ثبوت ہے کہ ہر دور کی طرح اسلام آج بھی زندہ اور متحرک قوت ہے‘ اور انسانیت کا واحد نجات دہندہ بھی۔ یہ انسان کی مادی اور روحانی ضرورت کو بہ طریق احسن پورا کرتا ہے۔ یہ کائنات کا فطری دین ہے جو بنی آدم کو سکونِ قلب جیسی لازوال نعمت عطا کرتا ہے۔
کتاب کا ابتدائیہ متاثر کن اور اپنے موضوع پر کئی حوالوں سے معلومات افزا ہے۔ طرزِنگارش عمدہ ہے۔ یہ اسلام قبول کرنے والی خواتین کا ایک انسائیکلوپیڈیا ہے جس میں دنیا کے مختلف ممالک کی ۱۰۰ سے زائد نومسلم خواتین کے قبولِ اسلام کی سچی داستانیں اور ان کے انٹرویو شامل ہیں۔ یہ ایمان افروز‘ روح پرور اور وجدآفرین سوانح عمریاں جو سبق آموز ہونے کے ساتھ دل چسپ خودنوشت کا رنگ لیے ہوئے ہیں‘ بلاشبہہ ایسی قابلِ فخر مثالیں ہیں جنھیں عام کیا جانا چاہیے۔
ان خواتین کے زندہ و بیدار ایمان‘ ان کی طلبِ علم اسلام‘ ان کے اندر کام کرتا ہوا جذبۂ تعمیر اور جس استقامت و عزیمت سے انھوں نے راہِ حق میں پہنچنے والی ایذائوں کو برداشت کیا‘ کو دیکھ کر قاری اپنے ایمان میں تازگی‘ سرور اور مزید پختگی محسوس کرتاہے اور ایک جذبۂ ندامت بھی کہیں جاگتا ہے کہ ہم کیوں شعوری اور عملی مسلمان نہیں بن پارہے؟
امید ہے کہ مرتبین کی یہ کاوش دعوتِ اسلامی کے فروغ میں مفید ثابت ہوگی۔ مسلمانوں اور خصوصاً غیرمسلم اصحاب کو بطورِ تحفہ پیش کرنے کے لیے ایک بہتر چیز ہے۔ کیا خبر کون سی بات کس کے لیے ہدایت کا سبب بن جائے۔ (ربیعہ رحمٰن)
مولانا مودودی علیہ الرحمہ کو زندگی میں ایک جانب ملحدین‘ اباحیت پسندوں‘ کمیونسٹوں‘ قادیانیوں اور منکرین حدیث وغیرہ کی تنقید کا سامنا کرنا پڑا تو دوسری جانب متعدد علما نے بھی اس تنقیدی یلغار میں حسبِ توفیق اپنا حصہ ڈالا۔ مولانا مودودی مرحوم کے فاضل رفقا میں سے چند احباب نے بروقت اس تنقید کا جائزہ لیا اور علمی پہلوؤں سے بھی تجزیہ پیش کیا۔ زیرنظر کتاب درحقیقت انھی جوابی تحریروں کے چیدہ چیدہ اقتباسات کے ساتھ پیش کی گئی ہے۔
جن موضوعات پر اقتباسات کو پیش کیا گیا ہے‘ فی زمانہ ان حوالوں سے مولانا مودودی پر کم ہی تنقید کی جاتی ہے‘ البتہ ’نائن الیون‘ کے بعد کے حالات میں انھیں دوسرے موضوعات کی بنیاد پر ہدفِ تنقید بنایا جا رہا ہے اور اس کام میں بھی مقدس اور غیر مقدس دونوں حلقے اپنا کام کر رہے ہیں۔ مثال کے طور پر: اسلام اور ریاست کا تعلق‘ عورتوں کے حقوق‘ اسلام: جہاد یا دہشت گردی‘ دعوت کی ذمہ داری‘ فریضۂ اقامتِ دین کی حقیقت وغیرہ۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ اس پروپیگنڈے کا مناسب جواب دیا جائے۔ کتاب کی تدوین میں ضمنی سرخیوں کے اضافے‘ اشاریے کی تدوین اور تمام حوالہ جات کی صحت کے اہتمام سے کام کی اہمیت دوچند ہوجاتی۔ (س-م-خ)
ہر عہد کے اپنے تقاضے اور چیلنج ہوتے ہیں جن سے باخبر رہنا ایک استاد کے لیے ناگزیر ہے‘ اس لیے کہ معمارِ قوم کی حیثیت سے اسے ایک نسل کی تربیت کرنا ہوتی ہے جسے مستقبل کے چیلنجوں کا سامنا ہے۔ زیرنظر کتاب‘ مصنفہ نے اسی مقصد کے پیش نظر تحریر کی ہے۔ اس کی ضرورت اس لیے بھی پیش آئی کہ نائن الیون کے سانحے کے بعد اُمت مسلمہ کو نئے مسائل کا سامنا تھا۔
تعلیم‘ نصابِ تعلیم اور نظامِ تعلیم کے اصول و مبادی اور اصولی مباحث‘ نیز تعلیم کے نام پر کی جانے والی سازشوں کے علاوہ موجودہ تعلیمی منظرنامہ‘ سیکولرنظامِ تعلیم اور درپیش جدید چیلنج زیربحث آئے ہیں۔ معلم اعظمؐ کا اسوئہ حسنہ‘ مثالی نظامِ تعلیم‘ تعمیر معاشرہ میں استاد کا کردار اور جدید چیلنجوں کا سامنا کرنے کے لیے اصولی رہنمائی دی گئی ہے‘ جب کہ خواتین اساتذہ کے خصوصی کردار پر بھی روشنی ڈالی گئی ہے۔ (حمید اللّٰہ خٹک)
دسمبر ۱۹۹۲ء میں ہندو جنونیوں نے بابری مسجد کو شہید کیا‘ مگر اس المیے کے دوران کم از کم کوئی مسلمان اس مسجد میں موجود نہیں تھا۔ جولائی ۲۰۰۷ء کو لال مسجد اسلام آباد کو وحشیانہ فائرنگ کا نشانہ بنایا گیا اور اس سے منسلک جامعہ حفصہ کی طالبات کو زمینی اور فضائی فائرنگ کے نتیجے میں کیمیاوی ہتھیاروں کی بارش سے جلا کر راکھ کردیا گیا۔ جامعہ کے منتظمین کے بقول ایک ہزار سے زائد مسلمان طالبات بھی شہید ہوگئیں۔ صدافسوس کہ یہ حادثہ مملکت خداداد پاکستان میں ہوا۔
اس سانحے کے اسباب‘ کردار اور نتائج پر بحث ہوتی رہے گی‘ اور اس کرب کی ٹیسیں مدتوں تک محسوس کی جاتی رہیں گی۔ زیرنظر کتاب کے فاضل مؤلف نے غیر جذباتی انداز میں مسئلے کے کرداروں کو بے نقاب کرنے اور جامعہ پر حملے کے ’جواز‘ کا مؤثر استدلال سے جواب دینے کی قابلِ ستایش کوشش کی ہے۔ ایک رخ تو وہ تھا جسے حکومتی حلقوں نے اشتہاروں اور کالموں کی صورت میں شائع کیا اور شب و روز ریڈیو‘ ٹی وی سے الاپا۔ اس یک رخی ابلاغی جارحیت کا ایک جگہ پر جواب بڑی حد تک کتاب کے باب ’تصویر کا دوسرا رخ‘ (ص ۱۷-۴۹) میں پیش کیاگیا ہے۔
کتاب میں مرزا محمد اسلم بیگ‘ پروفیسر خورشیداحمد‘ سمیحہ راحیل قاضی‘ ڈاکٹر شاہد مسعود‘ مولانا زاہد الراشدی‘ مفتی محمد رفیع عثمانی‘ مولانا فضل الرحمن خلیل‘ مولانا عبدالعزیز‘ غازی عبدالرشید‘ چودھری شجاعت حسین اور جنرل پرویز مشرف کی تحریر و تقریر کے متعلقہ حصوں کو سلیقے سے پیش کیا گیا ہے۔ ایک انفرادیت شہید ہونے والی جامعہ حفصہ کی نایاب تصاویر ہیں۔ (س-م-خ)