دسمبر۲۰۰۷

فہرست مضامین

رسائل و مسائل

| دسمبر۲۰۰۷ | رسائل و مسائل

Responsive image Responsive image

طبی اخلاقیات

سوال: ۱- کیا میڈیکل دواساز کمپنیوں کی رقم سے کوئی ڈاکٹر انفرادی دائرے میں  جہاز کا ٹکٹ‘ گاڑی‘ نقد رقم‘ ہوٹل میں قیام کے اخراجات‘ ان کی گاڑی کا استعمال‘    بال پوائنٹ یا ان کی دعوتوں سے استفادہ کرسکتا ہے ‘ کیا یہ جائز ہے؟

۲- اجتماعی دائرے میں کارخیر کے لیے رقم‘ مریض کے لیے دوا‘ علمی اجتماعات کا انعقاد‘ سیمی نار یا علمی و تحقیقی کاموں کے بین الاقوامی پروگرامات میں اسپانسرشپ لی جاسکتی ہے۔

۳- بازار میں ایک ہی دوا مختلف کمپنیوں کی طرف سے مختلف قیمتوں پر دستیاب ہوتی ہے۔ کیا مہنگی دوا لکھی جاسکتی ہے‘ جب کہ مؤثر سستی دوا موجود ہو۔ کیا اثرانگیزی کی بنا پر مہنگی دوا لکھی جاسکتی ہے۔ اس میں گناہ کا احتمال ہے یا نہیں؟

جواب: قرآن کریم کے ہدایت اور خاتم النبی صلی اللہ علیہ وسلم کے اخلاق کے اعلیٰ ترین مقام پر فائز ہونے [وَاِنَّکَ لَعَلٰی خُلُقٍ عَظِیْمٍ o القلم ۶۸:۴] کا واضح مفہوم یہ ہے کہ زندگی کے مختلف دائروں میں جن کا تعلق چاہے معیشت سے ہو یا معاشرت سے‘ سیاست سے ہو یا عبادات سے‘ تعمیراتی منصوبوں سے ہو یا ایک طبیب‘ استاد یا اہلِ فن کے معاملات کے ساتھ‘ ہرہر شعبۂ حیات میں اصولِ اخلاق اور ان کی تطبیق کے لیے رہنمائی پائی جائے۔ اسی بنا پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ہرہر مسکراہٹ اور ہرہر عمل کو اسوۂ حسنہ قرار دے کر‘ ہمیں یہ دعوت دی گئی کہ آپ کے اسوہ اور قرآن کریم کی تعلیمات کی روشنی میں اپنے روزمرہ کے معاملات کا حل تلاش کیا جائے۔

انسانی جان اور دین کا تحفظ و بقا‘ دو اوّلین مقاصد شریعہ ہیں اور اس لحاظ سے ایک مسلم طبیب کے لیے نہ صرف جان بلکہ دین کے حوالے سے بھی مناسب معلومات رکھنا ضروری ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ۲۰ویں صدی کی تحریکِ احیاے دین کے زیراثر سیکڑوں‘ ہزاروں مسلم اطبّا دنیا کے ہرگوشے میں جدید طبی مسائل کے حوالے سے مشاورت‘ سیمی نار اور کانفرنسوں کے ذریعے ان مسائل کے حل میں لگے ہوئے ہیں۔ ان کے مسائل حل کرنے کی ذمہ داری نہ صرف علماے کرام کی ہے‘ بلکہ یکساں طور پر ان مسلم اطبّا کی بھی ہے جو دین کا فہم رکھتے ہوں اور شریعت کے اصولوں سے آگاہی رکھتے ہوں۔ ان مسائل کا دیرپا حل اسی وقت ممکن ہے جب طب کی تعلیم کے دوران ہرمسلم طالب علم کو قرآن وسنت کی تعلیمات سے اتنا آگاہ کردیا جائے کہ وہ حلال و حرام کے فرق کو خود  سمجھ سکے اورقرآن و سنت کے واضح اصولوں کو خود استعمال کرتے ہوئے نئے راستے نکال سکے۔

ان اصولوں میں سے دو بنیادی اصول حفظ نفس اور حفظ دین ہیں۔ لیکن اگر غور کیا جائے تو دین کی بنیاد جن اصولوں پر ہے‘ وہ ہر مسئلے پر ہماری رہنمائی کرتے ہیں یعنی توحید اور عدل۔

اگر ایک دواساز کمپنی ایک طبیب کو بیرون ملک تفریح کے لیے ٹکٹ‘ رہایش فراہم کرتی ہے تو ظاہر ہے اس کا مقصد کسی مریض کی فلاح یا کسی علمی تحقیق کے ذریعے انسانیت کی جان بچانا نہیں ہوسکتا۔ اس کا واضح مقصد اس طبیب کو ممنون احسان بنا کر اپنی دوا کی زیادہ فروخت اور شہرت ہی ہوسکتا ہے جو بظاہر رشوت اور شہادتِ زُور سے مماثلت کی بنا پر جائز اور حلال قرار نہیں دیا جاسکتا اور اسلامی شریعت کے واضح احکامات کی خلاف ورزی شمار ہوگا۔ اس لیے وہ بیرون ملک سفر کی سہولت ہو یا ذاتی استعمال کے لیے کار کی فراہمی‘ نقد رقم یا دیگر سہولیات کی فراہمی‘ ان میں سے کسی بھی سہولت کو جائز نہیں کہا جا سکتا۔

حد سے حد جس چیز کو گوارا کیا جاسکتا ہے‘ وہ کسی دوازساز کمپنی کی طرف سے تقسیم کیے گئے بال پوائنٹ قلم‘ جس کی بنا پر کوئی طبیب کسی دواسازکمپنی کو کوئی فائدہ نہیں پہنچا سکتا اور جسے اپنی مالیت اور معاوضہ نہ ہونے کی بنا پر رشوت نہیں کہا جاسکتا۔ اس کی مثال ایسی ہی ہے کہ رمضان المبارک کے آغاز میں بہت سے تجارتی ادارے اوقات سحروافطار طبع کر کے عام فائدے کے لیے تقسیم کرتے ہیں اور گو اس پر ان کے ادارے کا نام چھپا ہوتا ہے لیکن اصل مقصد عوام الناس کو ایک سہولت دینا ہے اور محض اس بنا پر کوئی ان کی دکان سے اشیا نہیں خریدتا۔

سوال کا دوسرا پہلو اجتماعی فوائد یا مصالح عامہ سے ہے‘ یعنی اگر ایک دواساز کمپنی ایک تعلیمی ادارے کو ایک بڑی رقم اس غرض سے دیتی ہے کہ کسی مہلک مرض کے علاج کے لیے تحقیق کروائی جائے اور اس غرض سے محققین کی ایک ٹیم کی تنخواہیں‘ یا لیبارٹری کا قیام‘ یا ایک سائنسی سیمی نار کے انعقاد کے ذریعے اس مرض کے علاج کے راستے دریافت کیے جائیں تو اس صورت میں یہ رقم نہ تو رشوت شمار ہوگی اور نہ اس کی بنا پر محققین شہادتِ زور کے مرتکب ہوں گے۔ ہاں اگر ان محققین کو اس غرض سے رکھا جائے کہ وہ کمپنی کی تیار کردہ کسی دوا کی تعریف و تحسین کریں اور نتائج میں یہ بات دکھائیں کہ یہ دوا دیگر ادویات کے مقابلے میں زیادہ مفید ہے جب کہ حقیقتِ واقعہ یہ نہ ہو تو اس کا یہ عمل اسلامی اصولوں کے منافی اور رشوت اور شہادتِ زور کی تعریف میں آئے گا۔ یہاں معاملہ محض نیت کا نہیں ہے‘ بلکہ ہردوجانب سے شفاف طور پر تحقیق کی نوعیت اور مقاصد کا ہے۔

اگر ایک دواساز کمپنی اپنے منافع کا ۱۰ فی صد حصہ صرف اس کام کے لیے مخصوص کرتی ہے کہ وہ کسی خاص مرض یا کسی خاص دوا کی اثرانگیزی پر تحقیق کرائے گی اس سے قطع نظر کہ وہ دوا اس کی اپنی ساختہ ہو یا محض کیمیائی طور پر تیار کی گئی ہو تو اس رقم کا استعمال مصلحت عامہ کے اصول کی بنا پر جائز اور حلال ہوگا۔ لیکن اگر وہ مشروط طور پر یہ کام کرائے‘ یا اس کا اصل مقصد یہ ہو کہ اس کی دوا دوسروں کے مقابلے میں برتر ثابت کی جائے جب کہ دیگر ادویات بھی ویسی ہی اثرانگیزی رکھتی ہوں تو یہ ایک ناجائز اور غیراخلاقی کام ہوگا جس کی اسلامی شریعت میں کوئی گنجایش نہیں۔

شریعت ایک عمل کے حرام یا حلال ہونے کے ساتھ اُس عمل کے طریقے کو بھی یکساں اہمیت دیتی ہے اور حصولِ مقصد کے لیے جو ذرائع استعمال کیے جائیں‘ وہ بھی اخلاقی اور قانونی لحاظ سے معروف اور بھلائی پر مبنی ہونے چاہییں۔ کسی کام کے لیے اچھی نیت کے بعد اگر ذریعہ منکر اختیار کیا جائے توو ہ کام اچھا نہیں بن سکتا‘ اس لیے طبی اخلاقیات میں بھی ہمیں مقصد اور ذرائع دونوں کو اخلاق کا تابع بنانا ہوگا۔

مصلحت عامہ کے لیے کسی ادارے سے غیرمشروط طور پر امداد لے کر علمی اجتماعات کا منعقد کرنا‘ یا مریضوں کے لیے اُس رقم سے ادویات حاصل کر کے نادار افراد کی مدد کرنا‘ یا ان کی طبی سہولت کے لیے اس رقم سے ایمبولینس خریدنا وغیرہ مقصد اور ذریعہ دونوں کے پیش نظر حرام نہیں قرار دیا جاسکتا۔ اگر کوئی ادارہ اس قسم کی کسی امداد کے بغیر خود اپنے وسائل سے کام کرسکتا ہے تو لازماً یہ افضل ہے لیکن اگر غیرمشروط طور پر کوئی دواساز کمپنی کسی اجتماعی رفاہی کام کے لیے کوئی رقم مخصوص کرتی ہے اور اس کے نتیجے میں وہ کسی بدلے کی توقع نہیں کرتی تو اس میں اخلاقی طور پر کوئی قباحت نظر نہیں آتی۔

بازار میں ایک ہی نسخے سے تیار کردہ مختلف ناموں سے پائی جانے والی ادویات میں بعض اوقات تو کسی ایک عنصر کے تناسب یا اضافے کی بنا پر‘ اگر وہ اضافہ کرنا طبی طور پر ضروری ہو‘ دوا کی قیمت میں فرق پیدا ہوجاتا ہے۔ یہ حقیقی بھی ہوسکتا ہے اور مصنوعی بھی۔ لیکن اگر اجزا ایک ہیںاور کمپنی کی شہرت کی بنا پر وہ اپنی شہرت کی قیمت وصول کر رہی ہے تو ایک مسلم طبیب کا فرض بنتا ہے کہ وہ اپنے مریض کا مفاد دیکھے یعنی یہ کہ اس کی صحت اور جان کے تحفظ کے لیے کون سی دوا زیادہ بہتر ہے‘ چاہے اس کی قیمت دوسری دوا سے ۵۰فی صد کم ہی کیوں نہ ہو۔

بعض اطبا کا یہ خیال کہ اگر وہ مریض کو ایک مہنگی دوا دیںگے تو نفسیاتی طور پر وہ زیادہ مطمئن ہوگا‘ یہ ایک غیراخلاقی فعل ہے۔ دوا کے اجزا اگر یکساں ہوں تو لازمی طور پر ایک کم قیمت دوا کا لکھنا افضل ہے۔ شریعت کا معروف اصول حفظِ مال کا ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ کسی مسلمان کے مال کو ناجائز طور پر نقصان نہ پہنچایا جائے۔ ایک طبیب یہ جانتے ہوئے کہ ایک اینٹی بائیوٹک کم قیمت ہے اور ایک محض کسی کمپنی کی شہرت کی بنا پر اس سے ۷۰ فی صد زیادہ مہنگی ہے‘ اگر مہنگی دوا تجویز کرتا ہے تو یہ مریض کے مال کو نقصان پہنچانا ہے اور مقاصدِ شریعت سے ٹکراتا ہے۔ ہاں یہ یقین کرنے کی ضرورت ہوگی کہ ایک کم قیمت دوا کے اجزاے عنصری وہی ہوں جو مرض کی اصلاح کے لیے ضروری ہیں۔

اگر تحقیق سے یہ بات معلوم ہو کہ ایک دوا اپنی اثرانگیزی میں دوسری کے مقابلے میں زیادہ مؤثر ہوگی لیکن قیمتاً مہنگی ہے‘ جب کہ دوسری قیمتاً کم ہے اور اثرانگیزی میں بھی کم ہے تو طبیب کو فقہی اجتہاد کرنا ہوگا کہ کیا مرض کی نوعیت سرعت کے ساتھ علاج کی متقاضی ہے‘ یا ایک ہلکا اثر کرنے والی دوا بجاے دو دن میں اثر دکھانے کے تین دن میں اثر دکھا دے گی اور اس سے مریض کو کوئی نقصان نہیں ہوگا۔ یہ اس کا اجتہاد محض اپنے طبی تجربے کی بنیاد پر ہوگا اور ایسا کرتے وقت وہ اللہ کو حاضر جان کر یہ طے کرے گا کہ کون سی دوا تجویز کرے۔ دراصل ہرطبی راے ایک ذمہ دار اور اجتہادی راے کا مقام رکھتی ہے اور ایک مسلم طبیب کو شریعت کے بنیادی اصولوں سے اتنا آگاہ ہونا چاہیے کہ وہ اپنے ضمیر اور علم کی بنیاد پر موقع ہی پر اس طرح کے اجتہادی فیصلے کرسکے۔ (ڈاکٹر انیس احمد)

بدکار شوہر کے ساتھ زندگی

س: میں ایک مخدوم (پیر) گھرانے میں بیاہی گئی جس کی عزت اور شرافت کے ڈنکے بجائے جاتے ہیں۔ نیک نامی کا سہرا پشتوں سے سر پر سجا آرہا ہے مگر ان کے مردوں کے طور اطوار اپنی بیویوں کے لیے غیرمہذب اور ظالمانہ ہیں۔ گھر سے باہر اور گھر کے اندر‘ دوسروں کے لیے اور بیوی کے لیے علیحدہ علیحدہ چہرے ہیں۔ انتہائی گھنائونے کردار کے مالک یہ مرد کتنی عورتوں کی عصمتوں پہ ڈاکے ڈالتے ہیں مگر گھر کی عورتیں  ایک معمول کا کام سمجھ کر خاموش رہتی ہیں‘ بلکہ خاموش رکھی جاتی ہیں۔ نسل در نسل یہ ظلم کا کھیل جاری ہے۔ ان کی دیکھا دیکھی عام گھرانوں میں بھی یہ سلسلہ چل نکلا ہے جہاں جذباتی صدمے عورت کا مقدر ہیں۔ گھر کے کسی فرد سے کچھ دادرسی کی کوشش کرو تو  ’مرد ایسے کرتے ہی ہیں‘ کہہ کر نظرانداز کردیا جاتا ہے۔ کیا مادی ضروریات پوری کرکے عورت کے حقوق پورے ہوجاتے ہیں؟ میں اسلامی معاشرے میں مرد کی ذمہ داریاں بحیثیت شوہر اور عورت کے حقوق کے بارے میں جانتی ہوں بلکہ سب جانتے ہیں مگر  یہ حقوق و فرائض کیا صرف کتابوں تک محدود ہیں۔

کیا مرد کا یہ فلسفہ قابلِ قبول ہے کہ گھر کے باہر کا وقت اس کا اپنا ہوتا ہے‘ جو چاہے کرے‘ جہاں چاہے جائے؟ کیا یہ نکاح کے معاہدے کی خلاف ورزی اور خیانت نہیں؟ کیا رنگین مزاجی کسی مرد کی ایسی عادت ہے کہ وہ اس سے عمر کے کسی حصے میں بھی چھٹکارا   نہ پاسکے؟ اس کو فطرت کا حصہ سمجھ کر خود کو معذور جانے کہ چھٹکارا مشکل ہے؟

اسلام خاندانی نظام کو مضبوط دیکھنا چاہتا ہے۔ مصائب دنیا کے بعد آخرت میں کامیابی ہوجائے تو بُرا سودا نہیں۔ اچھی امید پر میں نے ایک مدت گزاری ہے مگر اب میری ہمت جواب دے گئی ہے۔شادی کے ۳۰ سال بعد بھی ایک باوفا‘ نیک نیت بیوی کی کوئی قدروقیمت نہیں۔ زبان اور ہاتھ کے رویے‘ جذباتی صدمے‘ کیا کچھ میں نے برداشت نہیں کیا۔ کسی کو کانوں کان خبر نہ ہونے دی۔ دوسروں کے استفسار پر پردہ پوشی کی۔ بچوں کے باپ ہونے اور شوہر ہونے کی لاج رکھی۔ ان کی وجہ سے بچوں کے رشتوں میں کتنی مشکل اٹھائی۔ ان کے رویے اور کردار سے معاشرے میں میری بھی رسوائی ہوئی۔ میں نے سب اچھی امید اور بڑھاپے میں تو سکون ہوگا‘ کی توقع کے ساتھ برداشت کیا۔ اب میں کہاں کھڑی ہوں؟ اللہ سے تو ان شاء اللہ اجر کی پوری امید ہے___ کیا اب خلع لوں؟

عورت کی داد رسی کے لیے قرآن و حدیث کے حوالے سے رہنمائی دیجیے۔

ج: ظلم بھری داستان پڑھ کر صدمہ ہوا۔ جس خاندان کو دین کے نام پر عزت ملی ہو‘ اس کی طرف سے دین کی حرمت پامال کی جائے‘ عصمت و عفت کی چادر کو تار تار کردیا جائے‘ اپنے گھروالوں کی عزتِ نفس اور حقوق پامال کیے جائیں‘ یہ تو دوہرا ظلم ہے۔

نکاح کا مقصد نسلِ انسانی کو پھیلانے میں اپنے حصے کا فرض ادا کرنا ہے۔ نکاح کے ذریعے عصمت و عفت کا سامان ہوتا ہے اور خاندانی نظام وجود میں آتا ہے جو محبتوں کے حصار کی حیثیت رکھتا ہے۔ ماں باپ‘ دادادادی‘ نانا نانی‘ بیٹا بیٹی‘ پوتا پوتی‘ نواسا نواسی‘ بہن بھائی‘ چچا تایا‘ ماموں‘ خالہ‘ پھوپھی وغیرہ خاندانی رشتے‘ سب محبت کے رشتے ہیں۔ ان رشتوں کے ذریعے  انسان کو سکون اور راحت ملتی ہے اور وہ اپنے آپ کو محفوظ و مامون سمجھتا ہے۔ ان سب رشتوں کی اساس میاں بیوی کا رشتہ ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:

یٰٓاَیُّھَا النَّاسُ اتَّقُوْا رَبَّکُمُ الَّذِیْ خَلَقَکُمْ مِّنْ نَّفْسٍ وَّاحِدَۃٍ وَّ خَلَقَ مِنْھَا زَوْجَھَا وَ بَثَّ مِنْھُمَا رِجَالًا کَثِیْرًا وَّ نِسَآئً ج وَ اتَّقُوا اللّٰہَ الَّذِیْ تَسَآئَ لُوْنَ بِہٖ وَ الْاَرْحَامَ ط اِنَّ اللّٰہَ کَانَ عَلَیْکُمْ رَقِیْبًا o(النساء ۴: ۱) اے لوگو! اپنے رب سے ڈرو جس نے تم کو ایک جان سے پیدا کیا اور اُسی جان سے اس کا جوڑا بنایا اور ان دونوں سے بہت مرد وعورت دنیا میں پھیلا دیے۔ اُس خدا سے ڈرو جس کا واسطہ دے کر تم ایک دوسرے سے اپنے حق مانگتے ہو‘ اور رشتہ و قرابت کے تعلقات کو بگاڑنے سے پرہیز کرو۔ یقین جانو کہ اللہ تم پر نگرانی کر رہا ہے۔

یہ خاندانی نظام اور رشتے اسی وقت قائم رہ سکتے ہیں‘ جب کہ نکاح مرد اور عورت دونوں کو پاک باز بنا دے۔ عفت و عصمت عورت ہی کے لیے نہیں‘ بلکہ مرد کے لیے بھی ضروری ہے۔ مرد  اگر رنگین مزاج ہو‘ آوارہ عورتوں کو کھلاتا پلاتا اور ان کے ذریعے شہوت کی تسکین کرتا ہو تو اس کے نتیجے میں جو بچے پیدا ہوں گے‘ ان کی ماں تو ہوگی لیکن باپ نہ ہوگا۔

نکاح سے پہلے اگر کوئی بالغ مرد اور بالغ عورت زنا کی مرتکب ہو تو اس کی سزا ۱۰۰ کوڑے ہیں‘ اور نکاح اور شادی کے بعد کوئی اس کا ارتکاب کرے تو اس کی سزاسنگساری ہے۔ جو مرد نکاح کے بعد رنگین مزاجی کا مظاہرہ کرتا ہے‘ وہ درحقیقت اپنی بیوی کی عزت و حرمت اور جذبات کو بھی پامال کرتا ہے۔ اسی لیے اسلام میں اس کے لیے کڑی سزا رکھی گئی ہے۔ اگر اس کے خلاف زنا کے چار چشم دید گواہ موجود ہوں‘ یا وہ اس کا اقرار کرے تو اس کی سزا رجم ہے‘ اور اگر چار عینی گواہ یا اقرار نہ ہو لیکن ایک دو گواہ موجود ہوں‘ یا قرائن موجود ہوں‘ تو عدالت اسے تعزیری سزا دے گی اور کوڑے لگائے گی۔ اگر یہ قانون نافذ العمل ہو اور حکومت ایسے ہاتھوں میں ہو جو اس قانون کو نافذ کرنے والے ہوں تو پھر خواتین پر نام نہاد شرفا ظلم نہ کرسکیں۔

آپ جیسی مظلوم خواتین کو موجودہ قانون‘ قانون نافذ کرنے والے‘ حکومت اور عدالتیں تو انصاف فراہم نہیں کرسکتیں۔ رہی سوسائٹی تو وہ بھی بقول آپ کے ظالم مردوں کے ظلم کے لیے تاویلیں تلاش کرتی ہے‘ لیکن وہ بری الذمہ نہیں ہوسکتی۔ شرفا کو چاہیے کہ اپنے خاندان کے رنگین مزاجوں کو نصیحت اور تنبیہہ کے ذریعے راہِ راست پر لائیں‘ امربالمعروف اور نہی عن المنکر کریں‘ انھیں آخرت کے عذاب سے ڈرائیں۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے معراج کے موقع پر زناکار مردوں اور عورتوں کے ہولناک مناظر دیکھے۔ آپؐ نے دیکھا کہ ایک تنور ہے جس میں مرد اور عورتیں ہیں۔ جب آگ کے شعلے اُوپر کو اُٹھتے ہیں تو یہ اوپر آجاتے ہیں‘ اور جب شعلے نیچے چلے جاتے ہیں تو یہ مرد و عورت بھی تنور میں نیچے چلے جاتے ہیں۔ جبرئیل ؑ سے آپؐ نے پوچھا کہ یہ مرد اور عورتیں کون ہیں؟ جبرئیل ؑ نے جواب دیا کہ زناکار مرد اور عورتیں ہیں۔ (بخاری)

آخرت کے عذاب سے ڈرانا اور اصلاح کرنا فرض ہے۔ جس معاشرے میں یہ کام نہ ہو‘ لوگ آزادی سے گناہ کے مرتکب ہوں‘ مجرم اور خاموش معاشرہ دونوں پر عذاب کا خطرہ ہوتا ہے۔ اسلام ایسا معاشرہ تشکیل دیتا ہے جس میں مجرم کو قانون کی گرفت میں آنے اور معاشرے میں  ذلیل و رسوا ہوجانے کا خدشہ ہو۔اسے احساس ہو کہ اگر قانون کی تلوار سے بچ گیا تو معاشرے ذلت و رسوائی سے نہیں بچ سکے گا۔ اس لیے ایک دو دفعہ جرم کا ارتکاب تو شاید کرے لیکن عادی مجرم بن کر زندگی نہیں گزار سکتا۔

ہمارا موجودہ معاشرہ جاہلی معاشرہ ہے۔ اس لیے یہاں حقوق اللہ اور حقوق العباد دونوں پامال ہوتے ہیں۔ آپ کا یہ کہنا بجا ہے کہ جہاں عورت بے حیائی اور خیانت کی مرتکب ہو تو مرد غیرت کھاتا ہے۔ اسی طرح بعینہٖ اگر مرد بے حیائی اور بدکاری کا مرتکب ہو تو عورت غیرت کھاتی ہے۔ آپ یا دوسری خواتین کا اپنے رنگین مزاج شوہروں پر غیرت کھانا بالکل جائز ہے۔

خلاصہ یہ ہے کہ آپ کا احساس اور تکلیف بجا ہے۔ زندگی بھر تکلیف میں گزار دی‘ شوہر کو نہ قانون نے روکا‘ نہ معاشرے نے۔ دونوں نے اپنا فرض ادا نہ کیا۔ نفسانی خواہشات پوری کرنے کا شوق تو لوگوں کو بہت ہے لیکن جب کل بازپُرس ہوگی اور سزا سنائی جائے گی تو اس وقت ہوش اُڑ جائیں گے۔ لیکن اُس وقت پچھتانے اور واویلا کرنے کا کیا فائدہ؟

آپ کے سامنے کئی راستے ہیں: ایک یہ کہ جوانی میں تکلیف دہ زندگی بسر کرلی تو اب بڑھاپے میں اپنی عزت‘ اولاد کی حفاظت کی خاطر مزید صبر کریں۔ شاید اسی صبر کی بدولت آپ کے شوہر کو ہدایت نصیب ہوجائے۔ دوسری صورت یہ ہے کہ عدالت کی طرف رجوع کرکے طلاق حاصل کرلیں اور پھر عدت کے بعد دوسری جگہ شادی کرلیں (اگرچہ ہمارے معاشرے میں نکاح جیسے جائز کام کی حوصلہ شکنی کی جاتی ہے اور اسے بے عزتی سمجھا جاتا ہے لیکن اگر مناسب رشتہ ملے تو اسے بے عزتی سمجھنے کے بجاے عزت سمجھنا چاہیے۔ اولاد کو بھی اس میں رکاوٹ ڈالنے کے بجاے حمایت کرنا چاہیے۔ یہ شرم کی بات نہیں ہے)۔ تیسری صورت یہ ہے کہ پنچایت کے ذریعے شوہر کی اصلاح کریں‘ یا طلاق حاصل کرلیں۔

ان تینوں صورتوں میں سے کون سی صورت اختیار کرنا بہتر ہے؟ یہ آپ کے سوچنے کا کام ہے۔ جلدبازی نہ کیجیے۔ خوب سوچ سمجھ کر اور قریبی رشتہ داروں سے مشورہ کرکے کوئی ایک صورت اختیار کرلیں۔ ہم حتمی طور پر کچھ نہیں کہہ سکتے لیکن ہماری ناقص راے میں پہلی صورت بہتر ہے۔  اس میں آپ یہ اضافہ کرسکتی ہیں کہ معاشرے کے اچھے‘ بااثر لوگوں کے ذریعے شوہر پر دبائو ڈال کر اس کی اصلاح کی کوشش بھی کریں۔ واللّٰہ اعلم (مولانا عبدالمالک)