دسمبر۲۰۰۷

فہرست مضامین

مدیر کے نام

| دسمبر۲۰۰۷ | مدیر کے نام

Responsive image Responsive image

عبدالرشید عراقی ‘سوہدر‘ہ گوجرانوالہ

’ازواج مطہراتؓ کا اسلوب دعوت‘ (نومبر ۲۰۰۷ء) کے ذریعے اُمہات المومنینؓ کی سیرت کا ایک اہم پہلو نمایاں ہوکر سامنے آیا۔ موجودہ دور میں اُن مستورات کو جو دعوتِ دین کا فریضہ انجام دے رہی ہیں ازواجِ مطہراتؓ کی پیروی کرتے ہوئے امربالمعروف ونہی عن المنکر کا فریضہ بلاخوف ادا کرنا چاہیے۔ اس لیے بھی کہ موجودہ حالات میں اس کی شدید ضرورت ہے۔

عبدالرؤف ‘لاہور

’فوج، وزیرستان اور پروفیشنل ازم‘ (نومبر ۲۰۰۷ء) قابلِ غور ہے۔ اُمت مسلمہ کی یہ بدقسمتی ہے کہ اس کے تمام سیاسی اور انتظامی ادارے فوج کے تسلط میں ہیں۔ اُمت مسلمہ کے مسائل سے دل چسپی رکھنے والے حضرات بالخصوص اسلامی تحریکوں کو‘ فوج اور بیوروکریسی کے نظام کا گہرا مطالعہ اور ناقدانہ جائزہ لینا چاہیے‘ اور پاکستانی معاشرے اور دیگر مسلم معاشروں کو پیش نظر رکھ کر اثرنفوذ کی راہیں تلاش کرنی چاہییں اور حکمت عملی مرتب کرنی چاہیے۔

آصف محمود وینس ‘لاہور

’قصہ کشکول ٹوٹنے اور قرضوں کے انبار بڑھ جانے کا‘ (اکتوبر ۲۰۰۷ء) میں آپ نے جس طرح اعداد وشمار کی روشنی میں پاکستان کی اقتصادی حالت اور ہماری ملکی معیشت پہ آئے دن بیرونی قرضوں کے اضافے کا تجزیہ پیش کیا‘ وہ قابلِ تحسین ہے۔امید ہے آیندہ کسی اشاعت میں ’بیرونی قرضوں کی ادایگی اور پرائیویٹائزیشن‘  کے موضوع پر بھی لکھیں گے کیونکہ پرائیویٹائزیشن کے حق میں حکمرانوں کا موقف تھا کہ اس سے حاصل ہونے والی رقم سے قرضوں کی ادایگی ہوگی۔ کیا واقعی ایسا ہوا؟

سلیم شاکر‘ سعودی عرب

محترمہ شمع سلیم کا مضمون ’مومن کاوصیت نامہ‘ (اکتوبر ۲۰۰۷ء) زیرمطالعہ رہا۔ انھوں نے اس مضمون میں بہت خوب صورتی‘ سلیقے سے اور مؤثر انداز میں وصیت کا ایک پیارا سا خاکہ کھینچا ہے۔ اللہ انھیں اجرعظیم سے نوازے۔ آمین! یہ مضمون واقعی اور حقیقی معنوں میں ان کاوصیت نامہ بھی بن گیا۔ اس مضمون کی اشاعت کے بعد ۱۳ اکتوبر ۲۰۰۷ء کو کار کے ایک حادثے میں وہ جاں بحق ہوئیں۔انا للّٰہ وانا الیہ رٰجعون

ڈاکٹر رئیس احمد نعمانی ‘علی گڑھ‘ بھارت

ستمبر ۲۰۰۷ء کے شمارے میں تنویر المقیاس من تفسیر ابن عباس کے ترجمے پر تبصرہ شائع ہوا ہے۔ اس سلسلے میں مولانا تقی عثمانی کی مندرجہ ذیل عبارت قابلِ توجہ ہے: ’’ہمارے زمانے میں    ایک کتاب تنویر المقیاس من تفسیر ابن عباس کے نام سے شائع ہوئی ہے‘ جسے آج کل عموماً تفسیر ابن عباسؓ کہا جاتا ہے اور اس کا اُردو ترجمہ بھی شائع ہوگیا ہے۔ لیکن حضرت ابن عباسؓ کی طرف اس کی نسبت درست نہیں‘ کیونکہ یہ کتاب محمد بن مروان السدی عن محمد بن السائب الکلبی عن ابی صالح عن   ابن عباسؓ کی سند سے مروی ہے اور اس سند کو محدثین نے سلسلۃ الکذب (جھوٹ کاسلسلہ) قرار دیا ہے‘ لہٰذا  اس پر اعتماد نہیں کیا جاسکتا۔ (علوم القرآن‘ مولانا محمد تقی عثمانی‘ ص ۴۵۸)

عامر شکیل ‘لاہور

آج کل کچھ جدید موبائل آرہے ہیں جن میں میموری کارڈ (memory card) ہوتا ہے۔ میںاس کارڈ میں سمعی تفہیم القرآن کے رکوعات محفوظ کرلیتا ہوں اور سفر کے دوران‘ دفاتر میں‘ انتظار  کرتے ہوئے یا دیگر اوقات میں سنتا رہتا ہوں۔ یقینا موبائل کی اِس جدت کا یہ سب سے بہتر استعمال ہے۔  اللہ تعالیٰ تفہیم القرآن کے مصنف‘ اور اُس کو ’سمعی‘ میں منتقل کرنے والی ٹیم کو جزاے خیر سے نوازے۔ ترجمان کی ٹیم کے لیے بھی بہت دعائیں۔ آمین!

ڈاکٹر محمد ایوب خان ‘لاہور کینٹ

اکثر اُردو مترجم قرآن سورئہ اخلاص کی پہلی آیت کے الفاظ ھُوَ اللّٰہُ اَحَدٌ کا ترجمہ ’’وہ اللہ ایک ہے‘‘غلط کرجاتے ہیں۔ چونکہ یہ بات صحیح ہے اس لیے انھیں خیال نہیں آتا۔ صحیح ترجمہ ہے: ’’وہ اللہ ہے اکیلا‘‘۔ انگریزی مترجم غلطی نہیں کرتے کیونکہ وہ ھُوَ کا ترجمہ جب He کرتے ہیں تو وہ خودبخود He is God, the one کرتے ہیں۔ تفہیم القرآن میں مولانا مودودی علیہ الرحمۃ نے ’’وہ اللہ ہے یکتا‘‘ لکھا ہے۔

ایک اور بات کو سمجھنا بھی ضروری ہے۔ عام مشہور کردیا گیا ہے کہ اللہ خدا کا اصلی نام ہے‘ جیسے ہم سب کے نام ہیں۔ اس لیے اس کا ترجمہ خدا‘ یا God نہیں کرنا چاہیے‘ یہ غلط ہے۔ عرب باقی بت پرست قوموں کی طرح بہت سے خدائوں کو مانتے تھے‘ ان کو اِلٰہ سمجھتے تھے۔ ان کے اوپر ایک بڑے خدا کو مانتے تھے جس نے یہ دنیا پیدا کی ہے اور سب حاجتیں پوری کرسکتا ہے۔ اسے ال الٰہ یا اللہ کہتے تھے۔ یہ بامعنی لفظ ہے اور اس کے معنی ہیں: ’’جو ہر حاجت پوری کرسکے‘‘۔ اگر اللہ اس کا اصطلاحی نام ہوتا تو سب زمانوں میں پایا جاتا۔ مگر ہرزبان کا اپنا نام ہے اور ترجمے میں اس زبان کا لفظ لکھنا ضروری ہے‘ ورنہ وہ سمجھے گا کہ ’اللہ‘ مسلمانوں کا بڑا بت ہے۔