مخالف میڈیا کے باوجود اسلام کا مغربی مداحوں کا حلقہ وسیع ہو رہا ہے۔ ایک ایسے وقت میں‘ جب کہ برطانوی اور کیتھولک چرچ کے درمیان خلیج گہری ہورہی ہے‘ اہلِ برطانیہ کی اتنی بڑی تعداد‘ جس کی پہلے کوئی نظیر نہیں‘ جس میں زیادہ تر خواتین ہیں‘ اسلام قبول کر رہی ہے۔ اس قدر کثیرتعداد میں قبولِ اسلام کی وجہ سے یہ پیشن گوئی ہورہی ہے کہ اسلام بہت جلد اس ملک میں ایک اہم مذہبی قوت بن جائے گا۔۱؎ روز کینڈرک‘ ہَل کمپری ہینسو میں مذہبی تدریس کرنے کے ساتھ ساتھ قرآن کے حوالے سے ایک درسی کتاب کی مصنفہ بھی ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ آنے والے ۲۰سال کے اندر برطانوی نومسلموں کی تعداد‘ اُن مسلمان تارکینِ وطن کے برابر ہوجائے گی یا اُس سے بڑھ جائے گی جو اس مذہب کو برطانیہ میں لے کر آئے ہیں۔
وہ کہتی ہیں کہ اسلام رومن کیتھولک مذہب کی طرح ایک عالمی مذہب ہے کیونکہ دنیا کی کوئی خاص قوم یہ دعویٰ نہیں کرتی کہ یہ صرف اسی کا ہے۔ اسلام آج بڑی تیزی سے امریکا اور یورپ میں بھی پھیل رہا ہے۔ مغربی میڈیا میں اسلام کے حوالے سے منفی تاثر کے باوجود اسلام کی قبولیت بڑھی ہے۔ سلمان رشدی‘ خلیجی جنگ اور بوسنیا کے مسلمانوں کی حالت زار جیسے واقعات کا چرچا ہونے کے بعد اسلام قبول کرنے کی رفتار میں نمایاں اضافہ ہوا ہے۔۲؎
حیران کن بات یہ ہے کہ مغرب کے اندر اس تاثر کے باوجود کہ اسلام میں عورتوں کے ساتھ اچھا سلوک روا نہیں رکھا جاتا ہے‘ برطانیہ میں اسلام قبول کرنے والوں میں زیادہ تعداد عورتوں کی ہے۔ امریکا میں بھی عورتیں اسلام قبول کرنے کے حوالے سے مردوں پر چار‘ایک کی نسبت سے سبقت رکھتی ہیں‘ جب کہ برطانیہ کی ۱۵ لاکھ مسلمانوں کی آبادی میں ۱۰ ہزار سے ۲۰ہزار افراد اسلام قبول کرنے والوں میں بیش تر تعداد خواتین کی ہے۔ برطانیہ کے ان نومسلموں میں زیادہ تر متوسط طبقے کا پس منظر رکھتے ہیں۔ ان میں میتھیوویلکنسن (مشہور تعلیمی ادارے Eton کا نمایاں طالب علم جو کیمبرج تک گیا) اور لارڈ جسٹس اسکاٹ (’عراق کے لیے اسلحہ‘ کمیٹی کے سربراہ) کا بیٹا اور بیٹی بھی شامل ہیں۔
اسلامک فائونڈیشن لسٹر کے زیراہتمام محدود پیمانے پر کیے گئے سروے سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ زیادہ تر نومسلموں کی عمریں ۳۰ سال سے ۵۰ سال کے درمیان ہیں۔ نوجوان نومسلموں میں زیادہ تعداد طلبہ کی ہے جو علمی لحاظ سے اسلام کی اہمیت کو واضح کرتی ہے۔
امریکی نژاد ماہر نفسیات عالیہ ہیری جو کہ ۱۵سال قبل اسلام لائیں‘ کہتی ہیں: کبھی کہا گیا تھا کہ: ’’اسلام کی روشنی مغرب سے پھیلے گی‘‘۔ اور آج ہمارے دور میں یہ بات سچ بن کر سامنے آرہی ہے۔ عالیہ ہیری برطانیہ کی اسلام پر ایک مشہور مقررہ ہونے کے ساتھ ساتھ زہرہ انسٹی ٹیوٹ کے ساتھ جو مذہبی لٹریچر شائع کرتا ہے‘ بطور مشیر کام کر رہی ہیں۔ وہ کہتی ہیں: مغربی نو مسلم مشرق کی تمام عادات کے بغیر اور اُن سب چیزوں سے پرہیز کے ساتھ جو ثقافتی لحاظ سے غلط ہیں‘ صاف ذہن لے کر اسلام میں آرہے ہیں۔ آج حقیقی اسلام کی یہ تحریک مغرب میں اپنے آپ کو سب سے طاقت ور محسوس کر رہی ہے۔۳؎
کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ تقابل ادیان کی تعلیم میں اضافے کی وجہ سے مذہب کی تبدیلی واقع ہورہی ہے۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ برطانوی میڈیا جو ہر اسلامی چیز کو بُرا بنا کر پیش کرتا ہے وہ بھی ایک وجہ ہے۔ اہلِ مغرب اپنے معاشرے کے اندر جرائم میں اضافہ‘ خاندان کے ادارے کے توڑپھوڑ‘ منشیات اور کثرت شراب نوشی جیسے مسائل۴؎ سے بددل ہوکر اسلام کے اندر ایک نظام اور تحفظ کی موجودگی کو بہتر سمجھتے ہیں۔ بہت سارے نومسلم پہلے عیسائی تھے جو چرچ کی غیریقینی کیفیت کی وجہ سے تذبذب کا شکار تھے اور عقیدۂ تثلیث اور حضرت عیسٰی ؑ کی الوہیت کے عقیدے سے بھی ناخوش تھے۔
کچھ نومسلم مذہبی تشخص کی تلاش کو قبولِ اسلام کی وجہ بتاتے ہیں۔ بعض قبولِ اسلام سے قبل مذہب پر عمل کرنے والے عیسائی تھے مگر اُن کی علمی تشنگی صرف اسلام ہی بجھا سکا۔
’’میں مذہبی علوم کی طالبہ تھی‘ تاہم یہ علمی دلیل تھی جس نے مجھے قبولِ اسلام کی راہ دکھائی‘‘۔ روزکینڈرک‘ جو مذہبی تعلیم کی استاد اور مصنفہ ہے‘ کہتی ہیں کہ انھیں دراصل گناہ کے تصور پر اعتراض تھا: اسلام میں باپ کے گناہ کے لیے بیٹے کو قصوروار نہیں ٹھیرایا جاتا۔ یہ تصور کہ اللہ ہروقت معاف نہیں کرتا‘ مسلمانوں کے نزدیک گناہ سمجھا جاتا ہے۔
۳۹ سالہ میمونہ کی پرورش کٹر عیسائی انداز سے ہوئی۔ ۱۵ سال کی عمر میں وہ عیسائی مذہب سے لگائو کی بلندیوں کو چھو چکی تھیں۔ اعلیٰ درجے کے گرجے میں عبادت کرتے ہوئے مجھے اس قدر مزہ آتا تھا کہ میں نے عیسائی راہبائوں کی طرح چہرے کو ڈھانپنے کا سوچ لیا۔ پیچیدگی اس وقت شروع ہوئی جب اس کی ایک دعا قبول نہ ہوئی۔ اس نے آنے والے پادریوں پر تو اپنے دروازے بند کردیے‘ تاہم عیسائی راہبائوں سے بحث و مباحثے کے لیے خانقاہوں میں مسلسل جاتی رہیں۔
وہ کہتی ہیں: میرا عقیدہ پہلے سے زیادہ مضبوط ہوکر واپس آیا‘تاہم کسی گرجے‘ کسی ادارے یا کسی اندھی تقلید کا اب اس میں عمل دخل ختم ہوچکا تھا۔ اسلام قبول کرنے سے قبل انھوں نے ہرعیسائی فرقے‘ یہودیت اور کرشنا کے افکار و خیالات پر تحقیق کی۔ بہت سارے نومسلم‘ بندے اور اللہ کے درمیان کسی انسانی واسطے کی موجودگی جیسے عیسائی تصور کو مسترد کرتے ہوئے‘ مسلمانوں کی اس سوچ کی پُرزور تائید کرتے ہیں کہ انسان اور اللہ کے درمیان براہِ راست تعلق ہونا چاہیے۔
یہ احساس بھی پایا جاتا ہے کہ برطانیہ کی کلیسا میں رہنمائی کی صلاحیت موجود نہیں اور بہت سارے معاملات میں اُن کی لچک کو شک کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔
۲۸ سالہ ہُدی خطاب‘ جو مسلمان خواتین کے لیے لکھی گئی ایک رہنما کتاب کی مصنفہ ہے‘ جس کو طٰہٰ نامی ایک اشاعتی ادارے نے اس سال چھاپا ہے‘ کہتی ہیں: ’’مسلمان اپنے اہداف اور مقاصد کو بار بار نہیں بدلتے‘‘۔ ہُدی خطاب ۱۰ برس پہلے یونی ورسٹی میں عربی زبان کی طالبہ تھیں‘ اسی زمانے میں انھوں نے اسلام قبول کیا۔
عیسائیت تبدیل ہوجاتی ہے‘ جیساکہ بعض لوگ یہاںتک بھی کہہ چکے ہیں کہ شادی سے قبل جنسی تعلقات استوار کرنے میں کوئی قباحت نہیں بشرطیکہ یہ تعلق اُس فرد سے رکھا جائے جس سے آپ کی شادی ہونے والی ہو۔ یہ محض نفسانی خواہشات کی ترجمانی کے علاوہ کچھ نہیں۔ جنسی تعلق ہو یا دن میں پانچ وقت کی نماز ہو‘ اسلام کا موقف اس بارے میں ہمیشہ سے ایک رہا ہے اور اُس میں کوئی تبدیلی نہیں آئی۔ نماز ہر وقت آپ کو اللہ تعالیٰ کی یاد دلاتی ہے اور آپ مستقل طور پر اپنی اساس و بنیاد سے وابستہ رہتے ہیں۔ (لکی برنگٹن، دی ٹائمز، لندن geoislam@yahoogroups.com
ترجمہ: نور اسلم خان)
۱- اسلام اور مسلمانوں کے خلاف میڈیا کی اس کھلی جنگ کی بنیادی وجہ یہی ہے۔ جو کوئی بھی اسلام کو توحید کے اس بنیادی عقیدے کے ساتھ (کہ اللہ ایک اور یکتا ہے‘ وہی عبادت اور اطاعت کا حقیقی حق دار ہے اور وہی قوانین و ضابطے دینے کا حقیقی ضامن ہے) مانتا ہو‘ ان سب احکامات کے مجموعے سمیت جو اللہ نے خود متعین کیے ہیں (جو انصاف پر مبنی ہونے کے ساتھ ساتھ مرد و زن کے حقوق و فرائض کو ٹھیک ٹھیک واضح کرتے ہیں) اور ہرشعبۂ زندگی میں اُس کے متعین کردہ انصاف کے پیمانوں(سماجی‘ معاشی اور سیاسی) انسانوں کے ہردرجے کو چاہے وہ بیویاں ہیں‘ شوہر ہیں‘ بچے ہیں‘ یتیم ہیں‘ خواتین ہیں‘ امیرہیں‘ غریب ہیں‘ محتاج ہیں‘ مسکین ہیں___ کو فوراً یہ بات سمجھ میں آجاتی ہے کہ آج اسلام کیوں کر مغربی تہذیب اور اُس کے اُن ممتاز اکابر کے لیے ایک خطرہ بنا ہوا ہے جو بے انصافی اور ظلم پر مبنی نظامِ حکومت کو اپنے لیے زیادہ مفید پاتے ہیں۔ لوگوں کے احساسات اور نظریات کو میڈیا (ٹی وی‘ رسائل‘ فلموں اور تعلیم) کے ذریعے کنٹرول کرنے کا اختیار بھی انھی لوگوں کے ہاتھ میں ہوتا ہے اوریہ لوگ برتری کے اس فائدے کو محض اس مقصد کے لیے استعمال کرتے ہیں کہ اسلام کے حوالے سے بداعتمادی کی فضا اسی طرح قائم رہے۔
مسلمانوں کو انسانوں کے بنائے ہوئے جھوٹے نظریات اور اعتقادات کے ذریعے نہ تو غلام بنایا جاسکتا ہے اور نہ ان پر اس ذریعے سے حکومت کی جاسکتی ہے‘ بلکہ اُن پر حکمرانی اور غلامی کا حق صرف اور صرف اللہ کو حاصل ہے۔ یہ اسلام کی روح ہے کہ اللہ کے سوا کسی اور کی غلامی نہیں کی جاسکتی اور اللہ کی ذات سے ہٹ کر نہ تو کسی کے سامنے سر جھکایا جاسکتا ہے اور نہ اُس کی عبادت اللہ کے سوا کی جاسکتی ہے۔
۲- یہ ایک تسلیم شدہ حقیقت ہے کہ دوسری خلیجی جنگ کے دوران یا اس کے فوراً بعد تقریباً ۵ہزار امریکی فوجی‘ جو سعودی عرب میں مقیم رہے‘ اسلام قبول کرچکے ہیں۔
۳- خواتین کے استحصال کے حوالے سے زیادہ تر الزامات کی بنیادی وجہ وہ مقامی ثقافت ہے جس کی بنیاد ہندو مذہب اور اس سے وابستہ توہمات پر ہے۔ تاہم اس کو یوں پیش کیا جاتا ہے گویا اس کا تعلق اسلام سے ہے۔ اس سے ان افراد کی آزادیِ فکر متاثر ہوتی ہے جو معاملے کو معروضی نقطۂ نظر سے دیکھنے کی کوشش نہیں کرتے۔ بیش تر لوگ ایسے ہی ہوتے ہیں۔
۴- تفریح اور موج مستی‘ مغرب کی بڑی صنعتوں میں سے ایک ہے۔ اس لیے بھی ضروری ہے کہ ترقی کے جعلی تصور کو برقرار رکھا جائے کہ حالات چاہے جیسے بھی آئیں‘ ہمارے لیے اس میں بہتری ہے اور ہمیں مشکلات کے باوجود اُس کو برداشت کرنے کی سعی کرنی چاہیے۔ اپنی خوشی اور لذت اور دنیاوی لوازمات کی تلاش لوگوں کے اذہان پر حاوی ہوچکی ہے‘ جب کہ دوسری طرف لوگ قتل ہورہے ہیں‘ ذبح ہورہے ہیں‘ عورتوں کی عزتیں لوٹی جارہی ہیں‘ معصوم بچوں اور نومولودوں کوچاقوؤں اور کلہاڑیوں سے کاٹا جا رہا ہے۔ سرِراہ ملنے والے معصوم لوگوں کو برسرِعام لوٹ کر قتل کیا جاتا ہے۔ بوڑھوں کو نوعمر لڑکے ضربیں مار مار کر موت کی وادیوں میں دھکیل دیتے ہیں‘ ہزاروں لوگ کثرت منشیات سے مر رہے ہیں۔ کثرت شراب نوشی کی وجہ سے ہزاروں بے گناہ لوگ اپنی زندگیاں تباہ کر رہے ہیں۔ بہت سارے شراب کے نشے میں مدہوش اپنی بیویوں اور بچوں پر بے دریغ تشدد کر رہے ہیں۔ اور یہ ایک نہ ختم ہونے والی فہرست ہے۔
تفریح کی صنعت ان مؤثر ذرائع میں سے ہے جو غوروفکر کو معمول پر رکھتے ہیں‘ انسانی ہمدردی کے احساس کو بے حس کردیتے ہیں اور ’میری خوشی اور مسرت ہی سب سے اہم ہے‘ کی کیفیت کو بڑھاتے ہیں۔