قومی اور صوبائی اسمبلیوں کا انتخاب وہ طریقہ ہے جس سے عوام اپنی راے اورمرضی سے اپنے حکمرانوں کو چُن سکتے ہیں اور ملک کی سیاسی‘ معاشرتی‘ اخلاقی اور تہذیبی تشکیل نو کے لیے جس پروگرام کو وہ پسند کرتے ہیں اس کی علَم بردار قیادت کو بروے کار لاسکتے ہیں۔ اس عمل کو ناکام کرنے کا ایک طریقہ تو وہ ہے جو حکمران طبقے اور خصوصیت سے نظامِ حکومت پر قابض سول اور عسکری اسٹیبلشمنٹ اختیار کر رہا ہے جس میں انتخابات کی انجینیری اور قواعد و ضوابط کی دھاندلی کے ذریعے پورے عمل کو سبوتاژ کرنے اور عوام کے حق حکمرانی کو غصب اور ہائی جیک کرنے کا گھنائونا کھیل کھیلا جا رہا ہے۔ دوسری طرف دین کے نام پر کچھ عناصر ووٹ‘ انتخاب‘ اسمبلیوں کے وجود ہی کو نشانہ بنا رہے ہیں اور عوام الناس کے ذہنوں کو پراگندا کرنے اور ان کو سیاسی عمل سے باہر کرنے کی مذموم کوشش کر رہے ہیں۔ یہ کھیل مشرق وسطیٰ کے کئی ممالک میں کھیلا گیا ہے جس کے نتیجے میں عام مسلمان کو الجھائو میں مبتلا کیا گیا ہے مگر اصل فائدہ برسرِاقتدار عناصر کو ہوا ہے جو دینی طبقوں اور اخلاقی حِس رکھنے والے عوام کی الیکشن سے بے تعلقی کے نتیجے میں اپنے اپنے کھیل کھیلنے اور اُمت پر اپنے ظالمانہ تسلط کو قائم رکھنے میں کامیاب ہوگئے ہیں۔ دین کے نام پر اس نوعیت کی سرگرمیوں کا ایک نتیجہ یہ بھی ہوا ہے کہ سیاسی نظام کی تبدیلی کے عمل ہی پر لوگوں کا اعتماد اُٹھا ہے اور تبدیلی کے جائز راستوں سے مایوس ہوکر کچھ لوگ خصوصیت سے نوجوانوں نے اپنا رخ غیرآئینی اور تشدد پر مبنی طریقوں کی طرف کردیاہے جس سے مزید بگاڑ پیدا ہورہا ہے‘ اور ملکی اور عالمی سطح پر اسلام اور مسلمانوں کو نقصان پہنچانے کے سامراجی کھیل کو کھل کھیلنے کا موقع مل رہا ہے۔
دین کے نام پر اور شریعت کی اصلاحات کا استعمال کرکے سیاسی عمل کو خراب کرنے کا جو کھیل عالمِ عربی میں کھیلا گیا ہے‘ اب پاکستان میں بھی اس کا آغاز کردیا گیا ہے اور انقلابی نعروں اور گمراہ کن دعوئوں کے ساتھ یہ کام کیا جا رہا ہے۔ اس سلسلے میں ایک گروہ بڑی چابک دستی سے لٹریچر پھیلا رہا ہے اور اپنے خطبوں میں بھی اس لائن کو آگے بڑھا رہا ہے کہ:0
ان گمراہ کن دعوئوں کی تائید میں قرآن پاک کی آیات اور احادیث کو کھینچ تان کر استعمال کیا جا رہا ہے اور انٹرنیٹ کی جدید سہولتوں کو اس کام کے لیے بے دریغ استعمال کیا جا رہا ہے۔ ہمارے پاس ایسے لٹریچر اور دوسرے لوازمے کو تبصرے کے لیے بھیجا گیا ہے‘ خصوصیت سے بڑے شہروں کے کئی افراد نے اس طرف متوجہ کیا۔ اس فتنے سے قوم کو محفوظ رکھنے اور قرآن و سنت اور خلافت راشدہ کے نمونے کی روشنی میں ووٹ‘ انتخاب‘ نظام امر کے قیام اور دورِ جدید میں قانون سازی اور پالیسی سازی کے لیے مناسب طریقوں کی شرعی حیثیت کوسمجھنے کے لیے ہم نے شیخ الحدیث مولانا عبدالمالک کو دعوت دی کہ اس لٹریچر کے بارے میں جو احیاے خلافت کے نام پر گمراہ کن خیالات کا پرچار کر رہا ہے صحیح رہنمائی فرمائیں۔ مولانا عبدالمالک نے جزوی بحثوں میں الجھے بغیر اصل مسئلے کے تمام اصولی پہلوئوں پر بڑا محکم کلام کیا ہے جسے ہم قارئین ترجمان القرآن اور پاکستان کے تمام پڑھے لکھے طالبانِ حق کی رہنمائی کے لیے شائع کر رہے ہیں۔ وماعلینا الاالبلاغ۔ (مدیر)
قرآن و سنت اور اجماع اُمت کی رو سے یہ بات قطعیت کے ساتھ ثابت ہے کہ اللہ رب العالمین بلاشرکت غیرے کائنات کا تکوینی اور تشریعی حاکم مطلق ہے۔ اللہ تعالیٰ کے تمام انبیا اللہ تعالیٰ کے نبی ہونے کے ساتھ اللہ تعالیٰ کے خلفا‘ یعنی نائب کی حیثیت سے مطاع اور حکمران تھے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: وَمَآ اَرْسَلْنَا مِنْ رَّسُوْلٍ اِلَّا لِیُطَاعَ بِاِذْنِ اللّٰہِ (النساء ۴:۶۴) ’’ہم نے کسی کو رسول بنا کر نہیں بھیجا مگر اس لیے کہ اللہ تعالیٰ کے اذن سے اس کی اطاعت کی جائے‘‘۔ اللہ تعالیٰ کے پہلے خلیفہ‘ نبی اور رسول حضرت آدم علیہ السلام اور آخری نبی‘ رسول اور خلیفہ جناب محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تھے۔
نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد آپؐ کی اُمت آپؐ کے نائب کی حیثیت سے اسی منصب پر فائز ہے۔ کوئی فرد یا افراد یاطبقہ خلافت کے لیے متعین نہیں ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے خلافت کے لیے انبیا اور ان کی اُمتوں کو نامزد کیا ہے۔ اُمتوں کے افراد منصب خلافت پر اُمت کے انتخاب سے فائز ہوں گے۔ یہ اہل السنت والجماعت کا متفق علیہ فیصلہ ہے اور اہل السنت والجماعت کا تشخص اور امتیاز بھی ہے۔ صحیح بخاری میں حضرت عائشہؓ کی روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے فرمایا: میرا ارادہ تھا کہ میں آپ کے والد اور بھائی کو بلائوں اور آپ کے والد کے بارے میں وصیت کروں لیکن میں نے سوچا کہ اللہ تعالیٰ اور اہلِ ایمان ابوبکرؓ کے علاوہ کسی بھی شخصیت کی خلافت کا انکار کردیں گے‘ اس لیے میں نے وصیت کرنے کا ارادہ ترک کر دیا‘‘۔ ویابی اللّٰہ والمومنون الا ابابکر، اللہ تعالیٰ کے انکار سے مراد تکوینی اور تقدیری انکار ہے اور اہلِ ایمان کے انکار سے مراد تشریعی اور راے کا انکار ہے‘ یعنی مسلمان ابوبکر صدیق ؓکے علاوہ کسی بھی شخصیت کے حق میں خلافت کی راے نہیں دیں گے‘ چنانچہ آپؐ کے ارشاد کے عین مطابق سقیفہ بنی ساعدہ میں خلافت کے لیے جو مجلسِ مشاورت منعقد ہوئی‘ اس نے بحث و مباحثے کے بعد حضرت ابوبکرؓ کے دست مبارک پر بیعت کی جس کی توثیق اگلے دن مسجد نبویؐ میں تمام مہاجرین و انصار نے متفقہ طور پر بیعت کے ذریعے کردی۔
حضرت علیؓ کے بارے میں روایات مختلف ہیں۔ راجح یہی ہے کہ انھیں اس بات کا شکوہ تھا کہ سقیفہ بنی ساعدہ میں جو مشاورت ہوئی اس میں انھیں شریک نہیں کیا گیا لیکن حضرت ابوبکرصدیقؓ اور عمرفاروقؓ اور حضرت ابوعبیدہؓ سقیفہ بنی ساعدہ میں اچانک اطلاع پر آگئے۔ یہ ان کا اپنا پروگرام نہیں تھا‘ بلکہ انصار کا پروگرام تھا جس کی اطلاع ایک بزرگ انصاری صحابیؓ سے انھیں ملی تھی جس پر وہ وہاں پر فوراً پہنچ گئے اور کسی غلط فیصلے میں رکاوٹ بن گئے۔ اس وقت انھیں یہ موقع ہی نہ مل سکا کہ وہ حضرت علیؓ کو بھی ساتھ لے جاتے۔ جب یہ حقیقت حضرت علیؓ کے سامنے آگئی تو وہ بھی راضی ہوگئے اور انھوں نے بھی حضرت ابوبکرؓ کی بیعت کرلی۔ یہ بیعت بلاشبہہ آج کی اصطلاح میں انتخابی راے اور ووٹ کی حیثیت رکھتی تھی۔
حضرت ابوبکرؓ نے‘ سقیفہ بنی ساعدہ کے اجتماع کے اگلے روز جب عمومی بیعت کے لیے مسجد نبویؐ میں جلسہ منعقد ہوا‘ اس میں تقریر کرتے ہوئے لوگوں کو اختیار دیا کہ چاہو تو میری بیعت کرو اور چاہو تو کسی دوسرے کو خلیفہ منتخب کرلو لیکن مسلمانوں نے اس اختیار کو حضرت ابوبکرؓ کو منتخب کرنے کی صورت میں استعمال کیا۔ یہاں یہ سوال کیا جاسکتا ہے کہ یہ مہاجرین و انصار اور اہلِ مدینہ کا انتخاب تھاجو آج کل کے انتخاب اور ووٹنگ سے مختلف شکل ہے۔ ہر شہری کا ووٹ نہیں ہے۔ اس کا جواب یہ ہے کہ باہر کے لوگوں اور دُوردراز کے مسلمانوں کو راے دینے کا حق تھا‘ انھوں نے یہ حق استعمال کیا کہ جب انھیں علم ہوا تو انھوں نے اس کی تائید کی۔ وہ اپنا حق استعمال کرنے میں مہاجرین و انصار کی قیادت پر اعتماد کرتے تھے کہ یہ وہ قیادت تھی جو قرآن پاک نے تیار کی تھی اور قرآن پاک میں ان کے فضائل و مناقب بیان کیے گئے تھے۔ اسی طرح نبی صلی اللہ علیہ وسلم بھی اپنے ساتھ ابوبکرؓ و عمرؓ اور عثمانؓ و علیؓ کو رکھتے اور ان کا تذکرہ فرماتے رہتے تھے اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے دور میں جو نظام جاری تھا‘ اس میں بھی یہی شخصیات آگے آگے ہوتی تھیں اور اسی لیے آپؐ کے بعد مسلمانوں نے انھی کو خلافت کے مناصب دیے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان ویابی اللّٰہ والمؤمنون میں بھی اسی طرف اشارہ ہے کہ حضرت ابوبکرؓ سے تمام اہلِ ایمان راضی تھے اور اگرچہ انھیں اوّلاً منتخب تو مہاجرین و انصار نے کیا تھا لیکن بعد میں بیعت تمام اہلِ ایمان نے کی اور سب نے ان کی خلافت کو تسلیم کیا۔
آج اگر کوئی ایسی قیادت پیدا ہوجائے جس کے فیصلے پر تمام لوگ اعتماد کریں تو آج بھی اس قیادت کا انتخاب معتبر ہوسکتا ہے‘ بلکہ آج بھی مہاجرین و انصار کی طرح ملک میں مختلف پارٹیاں ہوتی ہیں‘ وہ اپنے نمایندے انتخاب میں عوام کے سامنے پیش کرتی ہیں۔ پھر جس پارٹی پر عوام کو اعتماد ہو‘ اس کے نمایندوں کو ووٹ دیتے ہیں۔ یہ صورت اپنی شکل میں اسی شکل کے ساتھ مشابہ ہے جو خلافت راشدہ کے دور میں رائج تھی کہ مہاجرین و انصار جس کو نمایندہ مقرر کرتے‘ تمام اہلِ اسلام اسی کے دستِ مبارک پر بیعت کرتے‘ یعنی اسے ووٹ دے کر منتخب کردیتے تھے۔
یہاں یہ بات اچھی طرح سمجھ لینے کی ہے کہ ایک ہے بنیادی مسئلہ‘ یعنی قیادت کا معتمدعلیہ ہونا اور اعتماد اور رضامندی کے بغیر حق حکمرانی کا غیرمعتبر رہنا‘ اور دوسرا یہ معلوم کرنے کا طریقہ کہ کون معتمدعلیہ ہے اور اس کا چنائو براہ راست ہو یا بلواسطہ۔ پہلی چیز اصول کا درجہ رکھتی ہے اور دوسری ہر دور کے حالات اور ظروف کے مطابق مناسب طریق کار کو وضع کرنے سے حاصل ہوسکتی ہے جس میں مقصد‘ روح اور جوہر تو ہر دور میں مشترک ہوگا مگر ظروف اور طریقے مختلف ہوسکتے ہیں۔
بات بالکل واضح ہے کہ خلافت انتخابی منصب ہے‘ نبی اور رسول تو اللہ تعالیٰ کے نامزد اور منتخب کردہ ہوتے ہیں لیکن نبی کے بعد خلافت کا فیصلہ اہلِ ایمان نے انتخاب کے ذریعے کرنا ہے۔ آپؐ کے بعد آپؐ کی اُمت آپؐ کی نائب ہے اور وہ اپنے اندر سے ایسے شخص کو جو خلافت کے منصب کا اہل ہو‘ حکومت کے لیے منتخب کرے گی کیونکہ کسی فرد کو حکومت کے لیے نامزد نہیں کیا گیا‘ البتہ اُمت مسلمہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے روے زمین پر حکمرانی کے لیے نامزد ہے۔ مفتی اعظم پاکستان محمد شفیع صاحب رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: ’’زمین کا انتظام اور اس میں خدا کا قانون نافذ کرنے کے لیے اس کی طرف سے نائب کا مقرر ہونا‘ جو ان آیات سے معلوم ہوا‘ اس سے دستور مملکت کا اہم باب نکل آیا کہ اقتدار اعلیٰ تمام کائنات اور پوری زمین پر صرف اللہ تعالیٰ کا ہے جیساکہ قرآن مجید میں بہت سی آیات اس پر شاہد ہیں: ان الحکم الا للّٰہ (حکمرانی نہیں ہے مگر اللہ کے لیے)اور لہ ملک السموت والارض (اور اسی کے لیے ہے اقتدار آسمانوں اور زمین کا) اور الالہ الخلق والامر (سنو اسی کا کام ہے پیدا کرنا اور حکم دینا)۔ زمین کے انتظام کے لیے اللہ تعالیٰ کی طرف سے نائب آتے ہیں‘ وہ باذن خداوندی زمین پر سیاست و حکومت اور بندگانِ خدا کی تعلیم و تربیت کاکام کرتے اور احکام الٰہیہ نافذ کرتے ہیں۔ اس خلیفہ کا تقرر بلاواسطہ خود حق تعالیٰ کی طرف سے ہوتا ہے‘ اس میں کسی کے کسب و عمل کا کوئی دخل نہیں ہوتا۔ یہ خلیفہ بلاواسطہ حق تعالیٰ سے اس کے احکام معلوم کرتے اور پھر ان کو دنیا میں نافذ کرتے ہیں۔ یہ سلسلۂ خلافت و نیابت الٰہیہ کاآدم علیہ السلام سے شروع ہوکر خاتم الانبیاؐء تک اسی انداز میں چلتا رہا۔ یہاں تک کہ خاتم الانبیاؐء اس زمین پر اللہ تعالیٰ کے آخری خلیفہ ہوکر بہت سی اہم خصوصیات کے ساتھ تشریف لائے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو پورے عالم اور اس کی دونوںاقوام جنات و انسان کی طرف بھیجا گیا۔ آپؐ کا اختیار و اقتدار پوری دنیا کی دونوں قوموں پر حاوی ہے۔
خاتم الانبیاء صلی اللہ علیہ وسلم کا زمانۂ خلافت و نیابت تاقیامت ہے۔ اس لیے قیامت تک آپؐ ہی زمین پر اللہ کے خلیفہ ہیں۔ آپؐ کی وفات کے بعد نظامِ عالم کے لیے جو نائب ہوگا‘ وہ خلیفۃ الرسول اور آپؐ کا نائب ہوگا۔ صحیح بخاری و مسلم کی حدیث ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کانت بنو اسرائیل تسوسہم الانبیاء کلما ھلک نبی خلفہ نبی وانہ لانبی بعدی وسیکون خلفاء فیکثرون (کتاب الانبیاء) ’’بنی اسرائیل کی سیاست و حکومت ان کے انبیا کرتے تھے۔ ایک نبی فوت ہوتا تو دوسرا نبی آجاتا تھا اور خبردار رہو کہ میرے بعد کوئی نبی نہیں‘ ہاں میرے خلیفے ہوں گے اور بہت ہوں گے‘‘۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک خصوصیت یہ ہے کہ آپؐ کی اُمت کے مجموعے کو معصوم قرار دیا گیا ہے کہ آپؐ کی پوری اُمت کبھی گمراہی اور غلطی پر جمع نہ ہوگی (کذانی الموافقات للشاطبی)۔ اور جب اُمت کا مجموعہ معصوم قرار دیا گیا تو خلیفۃ الرسول کا انتخاب بھی اس کے سپرد کر دیا اور خاتم الانبیا علیہ السلام کے بعد نیابت زمین اور نظمِ حکومت کے لیے انتخاب کا طریقہ شروع ہوگیا۔ یہ اُمت جسے خلافت کے لیے منتخب کردے‘ وہ خلیفۃ الرسول کی حیثیت سے نظامِ عالم کا ذمہ دار ہوگا۔
اسمبلیاں اس طرزِعمل کا نمونہ ہیں۔ فرق اتنا ہے کہ عام جمہوری ملکوں کی اسمبلیاں اور ان کے ممبران بالکل آزاد اور خودمختار ہیں‘ محض اپنی راے سے جو چاہیں‘ اچھا یا بُرا قانون بنا سکتے ہیں‘ لیکن اسلامی اسمبلی اور اس کے ممبران اور منتخب کردہ امیر سب اس اصول و قانون کے پابند ہیں جو اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعے ان کو ملا ہے۔ اس اسمبلی یا مجلسِ شوریٰ کی ممبری کے لیے بھی کچھ شرائط ہیں۔ جس شخص کو یہ منتخب کریں‘ ان کے لیے بھی کچھ حدود و قیود ہیں‘ پھر ان کی قانون سازی بھی قرآن و سنت کے بیان کردہ اصول کے دائرے میں ہوسکتی ہے‘ اس کے خلاف قانون بنانے کا ان کو اختیار نہیں۔ (معارف القرآن‘ ج اوّل‘ ص ۱۸۲-۱۸۶)
اس تفصیل سے ثابت ہوگیا کہ انتخاب ایک شرعی حق اور فریضہ ہے جو اس امت پر عائد ہوتا ہے۔ مفتیان دین متین نے اسے اہم الواجبات میں سے قرار دیا ہے۔ علامہ علائوالدین الحصکفی الحنفی (م: ۱۰۸۸ھ) فرماتے ہیں: ونصبہٗ من اھم الواجبات فلذا قدموہ علی دفن صاحب المعجزات (درمختار بر حاشیہ شامی‘ ص ۵۱۱‘ ج۱‘ بحث امامت)۔ امام مقرر کرنا فرائض میں سے ایک اہم فریضہ ہے ‘اس لیے صحابہ کرامؓ نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی تدفین کی تجہیز و تکفین پر اسے مقدم رکھا۔
امام ابوالحسن ماوردی الشافعی (م: ۴۵۰ھ) اور قاضی ابویعلٰی الحنفی (م: ۴۵۸ھ) فرماتے ہیں: وعقد الامامۃ لمن یقوم بھا فی الامۃ واجب بالاجماع (الاحکام السلطانیہ‘ للماوردی‘ ص ۵‘ طبع مصر‘ ۱۹۷۳ء۔ والاحکام السلطانیہ‘ لابی یعلٰی‘ ص ۱۹‘ طبع قاہرہ‘ ۱۹۶۶ء)
علامہ عبدالقاہر البغدادی (م: ۴۹۲ھ) فرماتے ہیں: قال جمہور اصحابنا من المتکلمین والفقھاء مع الشیعۃ والخوارج واکثر المعتزلۃ بوجوب الامامۃ وانھا فرض و واجب۔ (اصول الدین‘ طبع جامعہ اشرفیہ‘ لاہور‘ ص ۳۷۱) ہمارے اساتذہ میں سے جمہور علما‘علم العقائد اور فقہا نے اسی طرح شیعہ‘ خوارج اور کثیرمعتزلہ نے بھی کہا ہے کہ اسلامی حکومت قائم کرنا واجب اور فرض ہے۔ اس موضوع پر آیاتِ قرآنیہ اور احادیث اور دیگر فقہا کے فتاویٰ اختصار کی خاطر چھوڑ دیے ہیں۔
جو لوگ پاکستان میں انتخاب کے مخالف ہیں‘ ان پر اس حکمِ شرعی کی مخالفت لازم آتی ہے۔ وہ مختلف شبہات کا شکار ہوکر اس حکم شرعی کی پورے زوروشور سے مخالفت کر رہے ہیں‘ انھیں احساس نہیں کہ وہ ایک ایسے اسلامی حکم کا انکار کر رہے ہیں جو فرض ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے خود اپنے دور میں غیرمنصوص احکام میں صحابہ کرامؓ سے مشاورتیں کیں۔ غزوئہ بدر‘ اُحد‘ احزاب‘ شوراے حدیبیہ اور باجماعت نماز کے بلاوے کے لیے مشاورتیں کیں۔ (بخاری‘ مسلم‘ ترمذی)
موجودہ اسمبلیاں مشاورتی مجالس ہیں اور شریعت کے منشا کے مطابق ہیں۔ قرارداد مقاصد‘ آئین پاکستان کی رو سے‘ اسلامی اسمبلیاں ہیں لیکن جن لوگوں کے پاس حکومت کی باگ ڈور ہے‘ وہ آئین کی خلاف ورزی کرتے ہوئے انھیں غیراسلامی طریقوں پر چلاتے ہیں۔ قرآن وسنت کے منصوص احکام کے خلاف بل پیش کرتے ہیں۔ قرآن وسنت کے منصوص احکام کو بالادست قانون کا درجہ نہیں دیتے‘ قرارداد مقاصد نے ان پر جو پابندی عائد کی ہے کہ وہ قرآن و سنت کی حدود میں رہ کر قانون سازی کریں گے‘ اسے نظرانداز کرتے ہیں۔ ان لوگوں کو لگام دینے کے لیے شیخ القرآن مولانا گوہر رحمن نے ۱۹۸۵ء میں ایک شریعت ایکٹ تیار کیا تھا جس کی تائید ملک بھر کے تمام مفتیانِ کرام نے کی۔ اس کی حمایت میں متفقہ فتویٰ جاری کیا۔ جماعت اسلامی نے اس شریعت بل پر دینی جماعتوں کو جمع کر کے‘ ایک متحدہ شریعت محاذ بنایا۔ اس بل کو سینیٹ میں مولانا سمیع الحق اور قاضی عبداللطیف نے اورقومی اسمبلی میں شیخ القرآن مولانا گوہر رحمن نے پیش کیا لیکن جنرل ضیاء الحق‘ بے نظیر اور نواز شریف حکومت نے اسے منظور نہ کیا۔ جنرل ضیاء الحق کے دور میں سینیٹ میں ایک شریعت بل پاس ہوا جو اس مقصد کو پورا نہیں کر رہا تھا‘ اور نوازشریف نے‘ جو ’شریعت بل‘ کو پاس کرنے کا انتخابی وعدے کرکے آئے تھے‘ اُس بل کو سبوتاژ کردیا اور ایک ایسا بل پاس کیا جسے جماعت اسلامی کی شوریٰ نے شریعت سے فرار کا بل قرار دیا۔
قرارداد مقاصد کی منظوری دینی سیاست کا اہم موڑ ہے۔ قیام پاکستان سے پہلے مفکراسلام مولانا سیدابوالاعلیٰ مودودیؒ نے اس وقت کی اسمبلیوں اور عدالتوں میں مقدمات لے کر جانے کی پالیسی کی مخالفت کی تھی۔ عدالتوں کو طاغوتی عدالتیں قرار دیا تھا۔ قیامِ پاکستان کے بعد اس صورت حال سے نکلنے کے لیے مولانا نے چار نکاتی مطالبہ نظامِ اسلامی کی تحریک شروع کی جس کے مرکزی مطالبات کو قرارداد مقاصد کی شکل میں ۱۲ مارچ ۱۹۴۹ء کو منظور کرلیا گیا۔ یہ قرارداد قیامِ پاکستان کے مقاصد کو واضح کرتی ہے۔ اس قرارداد کو منظور کروانے میں مولانا شبیراحمد عثمانیؒ نے بڑا کلیدی کردار ادا کیا‘ اور اس کے منظور ہونے کے بعد مولانا سیدابوالاعلیٰ مودودیؒ نے پاکستان کے اسلامی ریاست بن جانے کا اعلان کیا‘ اور اسمبلیوں میں عدمِ شرکت اور عدالتوں میں پیش نہ ہونے کی سابقہ پالیسی کو تبدیل کردیا‘ اور اُمت کو دعوت دی کہ صالح قیادت کو منتخب کر کے قانون کی زبان میں اسلامی ریاست بن جانے والے ملک کو عملاً ایک حقیقی اسلامی ملک بنانے کی جدوجہد کریں کہ قرارداد مقاصد کے بعد اسلامی نظامِ زندگی کے قیام کی راہیں کھل گئی ہیں۔ مولانا نے فرمایا: جس طرح ایک فرد کلمہ پڑھنے سے مسلمان ہوجاتا ہے‘ اسی طرح ریاست بھی کلمہ پڑھنے سے مسلمان ہوجاتی ہے۔ قرارداد مقاصد پارلیمنٹ نے پاس کر کے کلمہ پڑھ لیا ہے اور پارلیمنٹ مسلمان ہوگئی ہے۔ اس لیے اب پاکستان اسلامی ریاست بن گیا ہے۔
۱- قرارداد مقاصد: چونکہ اللہ تبارک و تعالیٰ ہی پوری کائنات کا بلاشرکت غیرے حاکم مطلق ہے اور پاکستان کے جمہور کو جو اختیار و اقتدار اس کی مقرر کردہ حدود کے اندر استعمال کرنے کا حق ہوگا‘ وہ ایک مقدس امانت ہے۔ چونکہ پاکستان کے جمہور کی منشا ہے کہ ایک ایسا نظام قائم کیا جائے جس میں مملکت اپنے اختیار و اقتدار کو جمہور کے منتخب نمایندوں کے ذریعے استعمال کرے گی جس میں جمہوریت‘ آزادی‘ مساوات‘ رواداری اور عدل عمرانی کے اصولوں پر جس طرح اسلام نے ان کی تشریح کی ہے‘ پوری طرح عمل کیا جائے گا۔ جس میں مسلمانوں کو انفرادی اور اجتماعی حلقہ ہاے عمل میں اس قابل بنایا جائے گا کہ وہ اپنی زندگی کو اسلامی تعلیمات و مقتضیات کے مطابق جس طرح قرآن و سنت میں ان کا تعین کیا گیا ہے‘ ترتیب دے سکیں۔ جس میں قرارواقعی انتظام کیا جائے گا کہ اقلیتیں آزادی سے اپنے مذاہب پر عقیدہ رکھ سکیں اور ان پر عمل کرسکیں اور اپنی ثقافتوں کو ترقی دے سکیں۔ (ملاحظہ ہو: آئین پاکستان‘ تمہید نمبر۱‘ ضمیمہ دفعہ ۲‘ الف‘ ص ۱۸۳۔ ترمیم شدہ ۲۵مارچ ۱۹۸۷ء)
اس قرارداد مقاصد میں جمہور کو اللہ تعالیٰ کی مقرر کردہ حدود کا پابند کیا گیا ہے۔ اس آئین کی رو سے پاکستان میں مغربی جمہوریت نہیں‘ بلکہ اسلامی جمہوریت ہے۔ مزید یہ وضاحت بھی کردی گئی ہے کہ جمہوریت کی وہ تشریح معتبر ہوگی جو اسلام نے کی۔ ’’جس طرح اسلام نے اس کی تشریح کی ہے‘‘، ’’مسلمانوں کو اس قابل بنایا جائے گا کہ وہ اپنی زندگیوں کو اسلامی تعلیمات و مقتضیات کے مطابق جس طرح قرآن و سنت میں ان کا تعین کیا گیا‘ ترتیب دے سکیں‘‘، اس میں بھی اسلامی تعلیمات کی تشریح کے ضمن میں قرآن و سنت کی قید لگا دی گئی ہے۔ ان وضاحتوں کے بعد کوئی شخص پاکستان اسمبلی کو طاغوت کہے اور اسے مغربی جمہوریت اور اسلامی جمہوریت میں فرق دکھائی نہ دے تو یہ اندھاپن ہوسکتا ہے۔ پھر ملک بھر کے تمام مفتیان کرام‘ علماے عظام اور مفکراسلام مولانا سیدابوالاعلی مودودیؒ نے قرارداد مقاصد کی منظوری کے بعد پاکستان کو اسلامی ریاست قرار دیا اور اسمبلیوں میں حصہ لینے کو جائز قرار دیا۔ اب علما اور مفتیانِ کرام کی بات معتبر ہوگی‘ یا چند نامعلوم لوگوں کی جن کے پاس دین کا واجبی علم بھی نہیں۔
دفعہ ۱- (ا) مملکت پاکستان ایک وفاقی جمہوریہ ہوگی جس کا نام اسلامی جمہوریہ ہوگا۔
دفعہ ۲ - اسلام پاکستان کا سرکاری مذہب ہوگا۔
حصہ نہم
اسلامی احکام - ۲۲۷ (۱) تمام موجودہ قوانین کو قرآن وسنت میں منضبط اسلامی احکام کے مطابق بنایا جائے گا جن کا اس حصے میں بطور اسلامی احکام حوالہ دیا گیا ہے اور ایسا کوئی قانون وضع نہیں کیا جائے گا جو مذکورہ احکام کے منافی ہو۔
۲۲۷- (۴) اسلامی کونسل اپنے تقرر سے سات سال کے اندر اپنی حتمی رپورٹ پیش کرے گی اور سالانہ عبوری رپورٹ پیش کیا کرے گی۔ یہ رپورٹ‘ خواہ عبوری ہو یا حتمی‘ وصولی سے چھے ماہ کے اندر دونوں ایوانوں اور ہر صوبائی اسمبلی کے سامنے براے بحث پیش کی جائے گی۔ مجلسِ شوریٰ (پارلیمنٹ) اور اسمبلی رپورٹ پر غوروخوض کرنے کے بعد حتمی رپورٹ کے بعد دو سال کی مدت کے اندر اس کی نسبت قوانین وضع کرے گی۔
باب ۲-مجلس شوریٰ پارلیمنٹ کے ارکان کے بابت احکام۔
دفعہ ۶۲- کوئی شخص مجلس شوریٰ (پارلیمنٹ) کا رکن منتخب ہونے یا چُنے جانے کا اہل نہیں ہوگا اگر:
د- وہ اچھے کردار کا حامل نہ ہو اور عام طور پر احکام اسلام سے انحراف میں مشہور ہو۔
ہ - وہ اسلامی تعلیمات کا خاطر خواہ علم نہ رکھتا ہو اور اسلام کے مقرر کردہ فرائض کا پابند‘ نیز کبیرہ گناہوں سے مجتنب نہ ہو۔
ر- وہ سمجھ دار‘ پارسا نہ ہو اور فاسق ہو اور امین نہ ہو۔
ز- کسی اخلاقی پستی میں ملوث ہونے‘ یا جھوٹی گواہی دینے کے جرم میں سزا یافتہ ہو۔
ج- اس نے قیام پاکستان کے بعد ملک کی سالمیت کے خلاف کام کیا ہو‘ یا نظریۂ پاکستان کی مخالفت کی ہو۔ (ص ۳۶-۳۷)
میں صدق دل سے حلف اٹھاتا ہوں کہ میں مسلمان ہوں اور وحدت و توحید‘ قادر مطلق اللہ تبارک و تعالیٰ‘ کتب الٰہیہ جس میں قرآن ختم الکتب ہے‘ نبوت حضرت محمدمصطفی صلی اللہ علیہ وسلم بحیثیت خاتم النبیین جن کے بعد کوئی نبی نہیں ہوسکتا‘ روزِ قیامت اور قرآن پاک و سنت کی جملہ مقتضیات و تعلیمات پر ایمان رکھتا ہوں.........
...... میں اسلامی نظریے کو برقرار رکھنے کے لیے کوشاں رہوں گا جو قیامِ پاکستان کی بنیاد ہے۔
کہ میں اسلامی جمہوریہ پاکستان کے دستور کو برقرار رکھوں گا اور اس کا تحفظ و دفاع کروں گا۔ (اللہ تعالیٰ میری مدد و رہنمائی فرمائے) آمین۔
یہی حلف وزیراعظم کا بھی ہے۔
وفاقی وزرا کا بھی یہی حلف ہے۔ اس میں بھی اسلامی نظریے کو برقرار رکھنے اور دستور کو برقرار رکھنے کا حلف ہے۔ قومی اسمبلی اور سینیٹ کے رکن‘ گورنر‘ وزیراعلیٰ اور صوبائی وزرا کے حلفوں میں بھی مذکورہ دونوں شقیں شامل ہیں۔
غرض یہ کہ ہرعہدے دار پر اسلامی نظریہ اور دستور پاکستان کو برقرار رکھنے کی ذمہ داری عائد کی گئی ہے۔
ایسی صورت میں جو کام ہمارے اکابر کرچکے ہیں‘ وہ ا نتہائی قابلِ قدر اور خراجِ تحسین کا مستحق ہے۔ قرارداد مقاصد سے لے کر مذکورہ تمام اسلامی دفعات جو ہمارا قیمتی اثاثہ ہے‘ دینی قوتوں ہی کی مرہونِ منت ہے۔ یہ کامیابی آسانی سے نہیں ملی۔ اس کے لیے طویل جدوجہد کی گئی ہے۔ قیامِ پاکستان کے متصل‘ مفکرِاسلام مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی نے چار نکاتی مطالبہ نظامِ اسلامی کا آغاز کیا‘ اور پھر علما اور عوام کے تعاون سے قرارداد مقاصد کی شکل میں اس مہم کو سر کرلیا۔ خصوصاً ۱۹۷۳ء کا دستور جو ایک ایسے شخص کے دور میں منظور ہوا جو روٹی‘ کپڑا‘ مکان اور سوشلزم ہماری معیشت‘ کے نام پر طوفان بن کر اُبھرا تھا۔ اس دور میں دینی جماعتیں پارلیمنٹ میں محدود نشستوں کے باوجود ایک ایسے شخص سے اسلامی دفعات خصوصاً قادیانیوں کو غیرمسلم اقلیت قرار دلوانے میں کامیاب ہوگئیں جو بالکل ایک دوسرے ہی طرزِ حکمرانی اور آدابِ زندگی کا خوگر تھا۔
اس اسمبلی کو خالص اسلامی اسمبلی کے طرز پر چلانے کا کام ابھی باقی ہے۔ ان شاء اللہ اسے بھی حاصل کرلیا جائے گا۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ ایسے لوگوں کو ممبر منتخب کیا جائے جو اسمبلی کو اسلامی اسمبلی کے طور پر چلانا چاہتے ہوں۔ ایسے ارکان جو دفعہ ۶۲-۶۳ کے معیار پر پورا اُترتے ہوں منتخب ہوجائیں تواسمبلی کے قانون سازی کے دائرہ کار اور طریق کار میں بھی تبدیلی ہوجائے گی۔
اس وقت اسمبلی میں جو خرابی ہے‘ وہ عقیدے کی نہیں عمل کی ہے۔ اسمبلی اگر قرارداد مقاصد اور اسلامی دفعات کے مطابق عمل کرے تو یہ اسمبلی‘ اسلامی اسمبلی ہوسکتی ہے کیونکہ آئین پاکستان حصہ نہم میں اس بات کی تصریح کی گئی ہے کہ تمام موجودہ قوانین کو قرآن و سنت میں منضبط اسلامی احکام کے مطابق بنایا جائے گا‘ اور کوئی ایسا قانون وضع نہیں کیا جائے گا جو اسلامی احکام کے منافی ہو۔ (دیکھیے: آئین کا حصہ نہم‘ اسلامی احکام)
اگر حکومت اور پارلیمانی اکثریت کی حامل پارٹی آئین پر عمل کرتی تو اب تک اسلامی نظریاتی کونسل نے جو عبوری اور حتمی رپورٹیں پیش کی ہیں‘ ان کو اسمبلی میں زیربحث لاتی جس کا باربار مطالبہ کیا گیا ہے۔ اسلامی نظریاتی کونسل نے تمام موجودہ قوانین کا جائزہ لے کر اس کی رپورٹ پیش کردی ہے۔ جائزے کے مطابق تمام قوانین کو اسلامی بنا دیا گیا ہے۔ اگر اسلامی نظریاتی کونسل کی رپورٹوں کو قانونی شکل دی جاتی تومعاشرہ معاشرتی‘ معاشی‘ سیاسی اور تعلیمی لحاظ سے تبدیل ہوجاتا اور مثالی اسلامی معاشرہ وجود میں آجاتا۔
ہمارے اکابر نے قیامِ پاکستان کے بعد مطالبہ نظام اسلامی کی تحریک چلا کر ریاست اور اسمبلی کو اسلامی بنایا۔ اسلامی دفعات کے ذریعے سوشلسٹ اور سیکولر طبقے کو شکست دی۔ طویل جدوجہد اور دعوت و تعلیم کے ذریعے اس مشن میں کامیابی حاصل کی۔ اب ضرورت اس بات کی ہے کہ پارلیمنٹ میں ایسے لوگوں کی اکثریت ہو جو اسمبلی کو اسلامی اسمبلی کے طرز پر چلائیں۔ اس عمل کو مزید مؤثر بنانے کے لیے چند اقدامات ضروری معلوم ہوتے ہیں جن کی نشان دہی مفید ہوگی۔
۱- ایک آئینی ترمیم کے ذریعے قرآن وسنت کو سپریم لا بنا دیں جس میں یہ بات شامل ہو کہ ایسی آئینی شق‘ قانون‘ صدارتی‘ وزارتی اور عدالتی آرڈر ازخود کالعدم ہوجائے گا جو قرآن وسنت کے منافی ہو‘ اور قرآن و سنت کے منافی ہونے کی بنیاد پر کسی بھی آئینی شق اور قانون کو عدالت میں چیلنج کیا جاسکے گا۔
۲- قانون سازی کا دائرہ غیرمنصوص اور اجتہادی اور اختلافی مسائل تک محدود کردیا جائے۔
۳- اسلام کے ہر مخلص گروہ اور فرد کا فریضہ ہے کہ وہ مذکورہ دو مقاصد کے حصول کو اپنا نصب العین بنائے اور اس کے لیے عوام کی ذہن سازی میں مصروف ہوجائے۔ گلی گلی‘ محلے محلے‘ قریہ قریہ‘ شہر شہر تبلیغی وفود اور بینرز اور اسٹکرز اور ہینڈبلز اور زبانی تبلیغ کے ذریعے لوگوں کو اس بات کے لیے تیار کریں کہ وہ نیک لوگوں اور دینی جماعتوں کو بھاری اکثریت سے منتخب کریں تاکہ اسمبلیوں کو مکمل اسلامی بنانے کا مقصد حاصل کیا جاسکے۔