مغربی ملکوں میں اسلام پر بحث و گفتگو کا لب و لہجہ تندوتیز ہوچلا ہے۔ اس کا رخ اس خیال کی طرف ہے کہ ’اعتدال پسند اسلام‘ نام کی کوئی چیز نہیں ہے‘ اور آج دنیا جو کچھ دیکھ رہی ہے وہ فی الواقع ایک تصادم ہے جو دو متوازی نظام ہاے اقدار کے درمیان برپا ہے‘ جن میں سے ایک برتروبالاتر مگر روحانی حیثیت سے دیوالیہ‘ مغربی نظامِ آزادی اور جمہوریت ہے‘ اور دوسرا ایک پس ماندہ اور غیر جمہوری اسلام ہے‘ جو اپنی روحانی طاقت کے خودساختہ‘ خوش کن عقیدے پر قائم ہے۔ اس صورت حال سے دو مختلف ردعمل پیدا ہوگئے ہیں۔ ایک طرف عیسائی فتح مندی کا احساس ہے جو بعض مبصرین کی راے کے مطابق پچھلے سال پاپاے روم کے بیان کی صورت میں سامنے آیا‘ اور دوسری طرف یہ عام و عالم گیر خوف واندیشہ ہے کہ مغرب اپنے روحانی ’افلاس‘ کے باعث اسلام کے خلاف جنگ و جدل جاری نہ رکھ سکے گا۔
عام لوگوں بلکہ دانش وروں کا یہ احساسِ شکست انھیں بہت ستا رہا ہے۔ ان کا خیال ہے کہ اسلام پسند فتح مند ہورہے ہیں‘ اور وقت گزرنے کے ساتھ دنیا ایک عظیم خلافت میں بدل جائے گی۔ آزادی اور جمہوریت کی مغربی قدریں اپنی جگہ چھوڑ دیں گی‘ اور یہ موجودہ تاریخ کا خاتمہ ہوگا۔ تاریخ کے خاتمے سے مقصود فرانسس فاکویاما کا وہ نظریہ نہیں جس کی رو سے سوویت روس میں سوشلزم کے زوال کے بعد مغربی طرز جمہوریت کو دوام حاصل رہے گا‘ بلکہ اس سے مراد یہ ہے کہ دنیا کو اسلام کی صورت میں ایک متبادل نظام ملے گا۔ یہی نظام اب دنیا کے دروازے پر دستک دے رہا ہے۔
ممتاز ناول نویسوں اور مضمون نگاروں کے پیش کیے ہوئے الہامی مناظر کی بنا پر ایسا معلوم ہوتا ہے کہ سموئیل ہن ٹنگٹن کا تہذیبوں کے تصادم والا نظریہ کسی بھی وقت عملی صورت میں ظاہر ہونے کو ہے۔ ایک اور ناول نگار ڈیوڈ سلبورن نے اپنے ناول The Losing Battle With Islam (اسلام کے مقابلے میں ہاری جانے والی جنگ) میں ۱۰ ایسے معقول اسباب بیان کیے ہیں جن کے ہوتے ہوئے جہاد کے خلاف مغرب کی جنگ میں اسلام کو شکست نہیں دی جاسکے گی۔
ٹائم میں چھپے ایک مضمون میں اس نے تفصیل سے بتایا کہ اسلام کو کس بنا پر بالادستی حاصل ہے‘ اور یہ اسباب گنوائے ہیں:غیرمسلم ملکوں کے اس بارے میں سیاسی اختلافات کہ اسلامی انتہا پسندی سے کس طرح نمٹا جائے‘ عالم اسلام کی قوتوں کا غلط اندازہ لگانا‘ انھیں بے وقعت گرداننا‘ خود اسلام کے مزاج کے متعلق غلط فہمی‘ مغرب خصوصاً امریکا کی قیادت کا گرتا ہوا معیار‘ مغربی پالیسی سازی میں انتشار‘ امریکا کی ناکامیوں پر بہت سے غیرمسلموں کی بے اطمینانی‘ مغرب کا اخلاقی افلاس و دیوالیہ پن‘ جہادیوں کے ہاتھوں میڈیا کاماہرانہ استعمال‘ عرب اور مسلمان ملکوں کے مادی وسائل پر مغرب کا انحصار‘ سائنس اور ٹکنالوجی کے بل بوتے پر قائم عصرِجدید پر اس کا فخرو غرور۔
دی ابزرور نامی اخبار میں برطانیہ کے ایک ناول نویس مارٹن ایمس نے ایک مقالے میں لکھا ہے:’’ابھی کل تک کہا یہ جاتا تھا کہ ہمارا سامنا اسلام کی اندرونی ’خانہ جنگی‘ سے ہے۔ یہ مختلف تہذیبوں کا تصادم نہیں ہے‘ محض خانہ جنگی ہے‘ مگر اب معلوم یہ ہوتا ہے کہ خانہ جنگی ختم ہوچکی‘ عسکریت پسند اسلام نے میدان مارلیا‘‘۔
مارٹن لکھتا ہے کہ اعتدال پسند مسلمان کم ہیں‘ ایسے لوگ کھل کر اپنی راے نہیں دیتے‘ اور یہ بات اسلامی مزاج کے عین مطابق ہے جہاں اُمت کو فرد پر اوّلیت حاصل ہے۔ واقعہ یہ ہے کہ یہاں فرد کوئی اہمیت نہیں رکھتا‘ جو کچھ ہے وہ اُمت ہی ہے۔ اسلام کی آمرانہ حیثیت اس کے پیروؤں سے اس بات کی متقاضی ہے کہ وہ ذہنی آزادی سے پوری طرح دست بردار ہوجائیں۔ وہ کہتا ہے کہ ایک مسلمان آزاد خیال ہو‘ یہ ایک متضاد بات ہے۔
واضح رہے کہ اسلام کی حقانیت پر بے چوں و چرا ایمان مغرب کے مقابلے میں ایک زبردست طاقت ہے‘ وہ مغرب جس نے اپنی روحانی قوت کھو دی ہے‘ جو ایمان ویقین کی دولت سے محروم ہے۔ اسلام کے بارے میں یہ بات آج کل بار بار دہرائی جارہی ہے۔ سلبورن کی طرح مارٹن بھی یہ راے رکھتا ہے کہ ایک بڑا عامل جس نے اسلام پسندوں کی فتح کو ناگزیر بناکر پیش کیا ہے‘ وہ بش حکومت کے خلاف عام نفرت ہے جو زیادہ تر عراق میں اس کی ناکامیوں کا نتیجہ ہے۔
مارٹن کہتا ہے: ’’سارے مغربی ملکوں میں ایسے بے حدوحساب لوگ ہیں جو عراق میں امریکا کی ناکامی کے دل سے آرزومند ہیں کیونکہ وہ جارج بش سے سخت نفرت رکھتے ہیں۔ غالباً وہ نہیں جانتے کہ امریکا کی ناکامی کی آرزو دراصل اسلامیوں کی فتح یابی کی آرزو ہے جو ایک ڈرامائی انداز سے ان کی آیندہ نسلوں کو بدل کر رکھ دے گی‘ یہ بات عین ممکن ہے‘‘۔ اس کے بعد مارٹن ایک ایسی خیالی دنیا کی تصویر پیش کرتا ہے جس کے کرتا دھرتا مُلاقسم کے لوگ ہوں گے۔
اور سنیے امریکی ناول نویس رابرٹ فریگنو (Robert Ferrigno) نے اپنے تازہ ناول Prayers for the Assassin (قاتل کے لیے دعائیں) میں اس سے زیادہ ڈرامائی انداز سے اسلامی فتح مندی کے بعد کانقشہ کھینچا ہے۔ وہ لکھتا ہے کہ مسلم عسکریت پسند ملک پر چڑھ دوڑیں گے‘ اسے اسلامی جمہوریہ میں تبدیل کردیں گے‘ ریاست ہاے متحدہ امریکا کا نام مسلم ریاست ہاے امریکا قرار پائے گا‘ سیکولر قانون کی جگہ شریعت کا قانون نافذ ہوگا‘ لاس اینجلس ہوائی اڈا بن لادن ہوائی اڈا ہوگا‘ ایک بڑااسٹیڈیم خمینی سے منسوب ہوگا‘ برقع پوش خواتین سے بھرے ہوئے شہر اذان کی آواز سے گونج اٹھیں گے‘ کالے عبائوں میں ملبوس پولیس گلی گلی گشت کررہی ہوگی کہ کہیں کوئی نامناسب لباس میں تو نہیں ہے‘ اس سے کوئی بدتہذیبی تو سرزد نہیں ہو رہی ہے!
گو‘یہ ناول ایک متبادل اسلامی نظام کا ایک افسانوی تخیل ہے‘ مگر اس کا مصنف اس بات پر پورا یقین رکھتا ہے کہ یہ تصور ایک نہ ایک دن عملی صورت اختیار کرکے رہے گا۔وہ مزید لکھتا ہے کہ مغرب روحانی حیثیت سے عاری ہے‘ اس بنا پر وہ کسی ایسی قوم سے طویل جنگ کرنے کی اہلیت نہیں رکھتا جو مذہب اور مضبوط روحانی یقین کے بل بوتے پر میدانِ عمل میں اُترے۔ (تلخیص انگریزی مضمون‘ روزنامہ ہندو‘ ۲۰ستمبر ۲۰۰۶ء)