۹ مارچ ۲۰۰۷ء کو پاکستان میں شروع ہونے والے عدالتی انقلاب کے قائد چیف جسٹس افتخار محمد چودھری ہیں‘ جب کہ مصر میں اس انقلاب کے لیے مدتوں سے جدوجہد جاری ہے۔
۲۱ جون ۲۰۰۷ء کو مصر کے دو جج صاحبان نے اس پیرایے میں اپنے خیالات کا اظہار کیا۔ جسٹس محمود مکی کے بقول: ’’ہمیں جھکانے میں حکومت کو ناکامی کا منہ دیکھنا پڑے گا۔ بلاشبہہ ہمیں معاشی اعتبار سے قتل کیا گیا ہے‘ مگر ہمیں اس بات کی ذرہ برابر فکر نہیں ہے۔ جب تک لوگوں کے دلوں میں ہماری عزت موجود ہے‘ اس وقت تک ہمیں کسی بات کی پروا نہیں ہے‘‘۔ جسٹس ہشام بستاوسی بیان دیتے ہیں: ’’ہم پر چلائے جانے والے مقدمات کی کوئی اہمیت نہیں ہے‘ اصل اہمیت تو اس سوال کو حاصل ہے کہ: مصری عوام کو ایک خودمختار عدلیہ‘ شفاف انتخابات اور قانون کی حکمرانی کب نصیب ہوتی ہے؟ ہماری جدوجہد انھی سوالوں کا جواب حاصل کرنے کے لیے ہے‘‘___ مصر کے ججز کلب (judges club) کے ان اہم ارکان کے یہ جذبات ججوں کی تحریک کی پوری داستان بیان کردیتے ہیں جنھیں ۲۰۰۶ء میں برطرف کردیا گیا تھا۔
مصر میں بڑی اور چھوٹی عدالتوں کے جج حضرات نے ۱۹۳۹ء میں اپنی تنظیم ججز کلب کی رجسٹریشن کرائی تھی۔ پہلے پہل یہ تنظیم محض ایک رسمی سا ادارہ تھی‘ لیکن ۱۹۶۸ء میں ججزکلب نے آزاد عدلیہ کے ذریعے‘ شہری آزادیوں کے تحفظ کا مطالبہ کیا۔ درحقیقت مصری جج‘ جون ۱۹۶۷ء میں اسرائیل کے ہاتھوں مصر کی شکست سے پیدا شدہ سیاسی ‘ سماجی اور معاشی صورت حال سے سخت دل برداشتہ تھے۔ اس کے ساتھ ساتھ انھیں خدشہ تھا کہ کہیں واحد حکمران پارٹی ’عرب سوشلسٹ یونین‘ میں پورا عدالتی نظام جذب ہوکر نہ رہ جائے۔ یہ پہلا موقع تھا جب صدر جمال عبدالناصر کی بدترین آمریت کے مقابلے میں اخوان کے علاوہ کسی دوسری قوت نے آواز بلند کی‘ جب کہ اخوان المسلمون کی صورت حال یہ تھی کہ حکمرانوں نے اگست ۱۹۶۶ء میں سید قطب کو پھانسی دے دی تھی۔ ہزاروں کارکن پابند سلاسل تھے اور ریاستی دہشت پورے ماحول پر مسلط تھی۔ ججوں کے اسی گروہ نے‘ ججوں کی یونین کا الیکشن بھی جیت لیا جس کے جواب میں ۱۹۶۹ء میں صدر ناصر نے ’عدلیہ کے قتل عام‘ کا راستہ منتخب کیا اور چھوٹی بڑی عدالتوں کے ۱۸۹ ججوں کو منصب عدل کی ذمہ داریوں سے برطرف کردیا۔ تاہم ستمبر ۱۹۷۰ء میں‘ ناصر کی موت کے بعد‘ ججوں کی تحریک کے نتیجے میں انورالسادات اور پھر حسنی مبارک نے عدالتی آزادیوں کو کسی حد تک بحال کیا۔
۱۹۸۶ء میں ججز کلب نے ’قومی کانفرنس براے عدل‘ منعقد کی، جس نے عدالتی عمل میں دُوررس اثرات کے حامل مطالبے پیش کیے۔ ۱۹۹۱ء میں ججزکلب نے عدالتی عمل کے لیے ایک جامع دستور منظور کیا‘ لیکن فعال قیادت کی عدم موجودگی کے باعث ’سفارشات و اصلاحات عدلیہ‘ کی تحریک کچھ عرصے کے لیے کمزور پڑ گئی۔ البتہ دسمبر ۲۰۰۴ء میں ایک نئے عزم کے ساتھ ججزکلب نے ۱۹۹۱ء کے عدالتی دستور میں دوٹوک انداز میں ترامیم کرکے‘ مطالبات کو واضح الفاظ میں بیان کیا تاکہ عدالتی عمل میں سے انتظامیہ کی مداخلت اور اتھارٹی کے دبائو سے نجات حاصل ہوسکے۔ ۲۰۰۴ء کے اس دستورِ عدل میں کہا گیا ہے:
دراصل جج حضرت اس نوعیت کے چارٹر کے ذریعے: عدالتی آزادی کو یقینی بنانے اور حکومت و ریاست کی بے جا مداخلتوں اور فیصلوں پر اثرانداز ہونے کے واقعات کا سدباب چاہتے ہیں۔ ججز کلب بنیادی طور پر نظریاتی فورم نہیں‘ بلکہ پیشہ ورانہ بنیادوں پر عدالتی اصلاح کے علَم برداروں کی تنظیم اور تحریک ہے۔ مصری آمر جمال ناصر کے پرستار صحافی عبدالحلیم قندیل نے لکھا تھا: ’’ججوں کے ’انقلاب‘ کا مطلب انتظامیہ کی موت ہوتا ہے‘‘۔ اس جملے میں شرارت کا ایک پہلو چھپا ہوا ہے۔ اس حوالے سے مصر کے دانش ور حلقوں میں یہ بات زیربحث آئی کہ: ’’اس تحریک کو ججوں کا انقلاب کہا جائے یا ججوں کی لہر۔ انقلاب ایک سخت لفظ ہے‘ لیکن لہر ذرا نرم لفظ ہے‘ اور لہر کے نتیجے میں سیاسی نظام کے تلپٹ ہونے کا تاثر نہیں ملتا‘‘۔ ویسے بھی ججوں کی یہ تحریک‘ حکومت کے متوازی کسی مقتدرہ کے قیام کی خواہش کا اظہار نہیں ہے‘ بلکہ ان کی اصلاحات کا محور آئینی اور قانونی اختیارات کے آزادانہ استعمال کا حق حاصل کرنا ہے‘ جسے مصری آمروں نے زنجیروں میں جکڑ رکھا ہے۔
مصر کا دستور حکومت کو اس چیز کا پابند بناتا ہے کہ تمام انتخابات لازماً عدلیہ کی نگرانی میں ہوں لیکن ججزکلب نے اس شق کی بے حرمتی کو ان الفاظ میں بیان کیا ہے: ’’پورے حلقۂ انتخاب میں بظاہر انتخابی عمل کا نگران ایک جج ہوتا ہے‘ لیکن انتخاب کے روز نیچے پورا عملہ حکومتی مشینری کا مقرر کیا ہوتا ہے‘ جس سے جو کام چاہے‘ لیا جاتا ہے۔ جب اور جہاں حکومت‘ پولیس یا مسلح فوجی دستے چاہتے ہیں‘ بے بس جج کو مفلوج بناکر من مانی کرتے اور نتائج کو تلپٹ کردیتے ہیں اور جج بے چارا صداے احتجاج بلند کرنے کے حق سے بھی محروم رہتا ہے‘ چہ جائیکہ وہ اس انتخاب کو منسوخ کرے کہ جس میں انتخاب نام کی کوئی چیز نہیں ہوتی‘‘۔
ہشام بستاوسی اور محمود مکی‘ ججزکلب کے دو مرکزی قائدین ہیں‘ جنھیں عدلیہ کی آزادی کے لیے طویل جدوجہد کا اعزاز حاصل ہے۔ مصری حکومت ان کی بے باکی‘ حق گوئی اور پُرعزم بہادری سے خائف رہتی تھی۔ ان دونوں حضرات نے نومبر اور دسمبر ۲۰۰۵ء میں منعقد ہونے والے مصری پارلیمانی انتخابات کے انعقاد کے طریقے اور اعلان کردہ نتائج کو تنقید کا نشانہ بنایا‘ اور کہا: ’’حکومت نے قوم سے خیانت کی ہے‘ دھاندلی کا راستہ کشادہ کیا ہے‘ عوامی راے کو دفن کیا ہے‘ پولنگ اسٹیشن پر جانے والے لوگوں کو پولیس کے دستوں کے ذریعے روکا گیا ہے‘ اور سادہ کپڑوں میں ملبوس ایجنسیوں اور عسکری اداروں کے اہل کاروں نے مخالف راے دہندگان کو ڈرا دھمکا کر انتخاب سے دُور رکھا ہے۔ راے عامہ کے اس قتل عام کو انتخاب کہنا عوام کی توہین ہے‘‘۔
ان ججوں کے مذکورہ بیان پر حسنی مبارک حکومت بوکھلاہٹ کا شکار ہوکر دیوانگی پر اتر آئی اور ۱۳ فروری ۲۰۰۶ء کو اس بیان کو ’ججوں کی سرکشی‘ (judges rebellion) سے موسوم کیا۔ اعلیٰ عدالتی کونسل نے انھیں عدالتی خدمات انجام دینے سے روک دیا۔ حق گو ججوں نے ’کورٹ آف اپیل‘ میں درخواست دائر کی‘ تاکہ وہ اپنا موقف وضاحت سے پیش کرسکیں۔
اب یہ ۲۷ اپریل ۲۰۰۶ء کا منظر ہے۔ قاہرہ کے وسط میں ہائی کورٹ کی عمارت ہے‘ جس کے قرب و جوار میں ججزکلب کا دفتر ہے۔ اس روز ججوں کے کیس کی سماعت تھی۔ لوگ اپنے محسن ججوں کے خلاف روا رکھے جانے والے ظالمانہ سلوک کے خلاف سراپا احتجاج تھے۔ رفتہ رفتہ ان کی تعداد میں اضافہ ہوتا گیا اور ۱۰ہزار پولیس اہل کاروں نے احتجاج کرنے والوں کو گھیرے میں لے لیا۔ مظاہرین کی بڑی تعداد کو گرفتار کرتے ہوئے بے رحمی سے تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔ یہیں پر ۸۰ ججوں نے درجنوں حامیوں کے ساتھ ہفتے بھر کے لیے احتجاجی دھرنا دینے کا اعلان کیا اور شاہراہ پر بیٹھ گئے۔ پولیس نے وحشیانہ انداز سے ان قانون دانوں پر چڑھائی کردی‘ یوں نظر پڑا جیسے حکومتی سیکورٹی عناصر کسی دشمن ملک کی فوج پر پل پڑے ہوں۔ حالانکہ وہ جج تو محض اپنے دو بھائیوں کے ساتھ اظہار یک جہتی کے لیے آئے تھے‘ ان کے ہاتھ میں نہ پتھر تھے اور نہ ڈنڈے۔
حسنی مبارک حکومت‘ عدلیہ کی اس تنقید سے جھنجھلاہٹ کا شکار ہوگئی جس کے تحت وہ حکومتی طور طریقوں‘ حقوق کی پامالی اور بے ضابطگیوں کو زیربحث لاتے ہیں۔ وہ ملک جہاں ذرائع ابلاغ پر پابندیاں ہیں‘ حزبِ اختلاف کا گلا گھونٹ دیا گیا ہے‘ انتخابات میں دھاندلی کو حکومتی حق قرار دے دیا گیا ہے اور مالی خیانت کو جدید مصری انتظامیہ کا استحقاق تسلیم کرایا جا رہا ہے‘ وہاں پر صرف ایک جگہ رہ جاتی ہے‘ اور وہ ہیں عدالت کے ایوان‘ جہاں پر بہادر جج وقتاًفوقتاً اپنے ضمیر کی آواز پر لبیک کہتے ہوئے فیصلے دیتے ہیں۔ ان کا یہی عمل حکومت کے اعصاب کو شل اور دماغ کو پاگل کیے دیتا ہے۔ دراصل مصر میں صرف عدلیہ ہی وہ ادارہ ہے‘ جس نے ۶۰کے عشرے میں کی جانے والی جدوجہد کے نتیجے میں کچھ نہ کچھ خودمختاری حاصل کرلی تھی‘ جس کا اظہار عدالتی کارروائی اور ججزکلب کی سرگرمیوں کی صورت میں سامنے آتا رہتا ہے۔
۲۱ جون ۲۰۰۷ء کو جوڈیشل کونسل نے ہر دو ججوں کے مقدمے کا فیصلہ سنایا‘ جس میں ہشام بستاوسی کے بارے میں چند سخت جملے لکھے اور محمود مکی کو بری کردیا گیا۔ اس کے بعد ججوں کی تحریک نے سڑکوں کے بجاے عدالت کی کرسی اور اخبارات کے اوراق کو اپنے موقف کے اظہار کا ذریعہ بنایا۔ مصر میں ججوں کی یہ تحریک بہرطور روشنی کی ایک کرن ہے۔ اخوان المسلمون کے جہاں دیدہ رہنما اور پُرعزم کارکن اس تحریک کے پہلو بہ پہلو کھڑے ہیں۔
اس تحریک کا آغاز ۱۹۶۸ء میں ہوا تھا‘ اور اب ۴۰ برس گزرنے کے باوجود ان میں کسی مایوسی کا شائبہ تک نہیں پایا جاتا۔ ان ججوں نے کبھی سُست روی سے اور گاہے بہ گاہے برق رفتاری سے حق گوئی اورپُرعزم جدوجہد کا علَم بلند کیے رکھا ہے۔ جسے کچھ لوگ ’عدالتی بغاوت‘ بعض افراد ’عدالتی انتفاضہ‘ اور کچھ حضرات ’عدالتی جہاد‘ کہتے ہیں۔ نام جو بھی دیا جائے‘ بہرحال اس تحریک نے غلامی کے رزق پر عدل کی آزادی کو ترجیح دی ہے۔ ملازمت سے برطرفی‘ ڈنڈوں کی بوچھاڑ اور زخموں کی سوغات سے عدلیہ کی سربلندی اور قوم کی آزادی کا سورج طلوع ہونے کی امید باندھی ہے۔ اس تحریک میں مسلم دنیا پر مسلط موت کے سناٹے اور غلامی کے جال کو توڑنے کا پیغام موجود ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ کس ملک کے جج غلامی کے رزق پر آزادی کی آزمایش کو خوشی خوشی قبول کرنے کا راستہ اختیار کرتے ہیں‘ اور ان خالی ہاتھ ججوں کے پشتی بان بننے کا اعزاز کن سیاسی و سماجی قوتوں کو حاصل ہوتا ہے۔ ہمارے ملک میں جاری عدلیہ کی بالادستی کی تحریک اور اس کے لیے سرگرم عناصر کے لیے مصر کے ججز کی ’عدالتی جہاد‘ کی یہ تحریک اُمید کی کرن اور روشنی کا پیغام ہے!