’’ہمیں اس سے غرض نہیں کہ بلی کا رنگ کالا ہے یا سفید، بس اگر وہ چوہے پکڑ سکتی ہے تو وہ اچھی بلی ہے‘‘___ سابق چینی صدر ڈینگ ژیاؤپنگ کا یہ جملہ بدلے ہوئے چین کا مکمل تعارف پیش کرتا ہے۔ اب وہاں کمیونسٹ نظریے کی بنیاد پر نہیں، صرف اور صرف اقتصادی مقاصد کی بنیاد پر پالیسیاں بنتی ہیں۔ کمیونسٹ پارٹی چین (CPC) کے مضبوط نظام کی ملکی اُمور پر مکمل گرفت ہے۔ اگرچہ سابق صدر نے اسے بھی ایک خاص طرز کا یا چینی طرز کا کمیونزم قرار دیا تھا۔ موصوف نے ماؤزے تنگ کی بنائی ہوئی تقریباً تمام پالیسیوں کو تبدیل کرتے ہوئے کھلی منڈی اور کاروباری مقابلے پر مبنی پالیسی وضع کی۔ اس حوالے سے آج کا چین ایک مکمل تبدیل شدہ چین ہے۔ اب وہ دنیا میں مضبوط ترین اقتصادی قوت بننے کے لیے کوشاں اور اپنی اس کوشش میں بڑی حد تک کامیاب ہے۔ ۲۰۳۰ء اس کے سامنے ایک بڑے اقتصادی سنگِ میل کی حیثیت رکھتا ہے۔ وہ ’چین پاکستان اقتصادی راہ داری‘ (CPEC) جیسے کئی منصوبوں پر عمل پیرا ہوکر پوری دنیا سے جڑ جانا چاہتا ہے۔
۲۴؍اکتوبر سے ۲نومبر تک پاکستان کی آٹھ سیاسی جماعتوں کے ذمہ داران پر مشتمل وفد نے حکمران پارٹی کی دعوت پر چین کا سرکاری دورہ کیا۔ ان جماعتوں کے نام ہمارے میزبانوں کی فراہم کردہ فہرست میں رکھی گئی ترتیب کے مطابق یہ ہیں: جمعیت علماے اسلام (ڈپٹی چیئرمین سینیٹ، مولانا عبدالغفور حیدری وفد کے سربراہ تھے)، جماعت اسلامی پاکستان، نیشنل پارٹی، پاکستان مسلم لیگ (ق)، ملّی عوامی پارٹی، ہزارہ ڈیموکریٹک پارٹی، پاکستان تحریک انصاف۔ دورے کا ایک مقصد چین میں ہونے والی ترقی، موجودہ رجحانات اور آیندہ منصوبوں کے بارے میں آگاہی دینا تھا۔ وفد کے اکثر شرکا کے لیے یہ امر بھی انتہائی دل چسپی کا باعث تھا کہ دورے کا آغاز مسلم اکثریتی علاقے سنکیانگ کے دارالحکومت ’اُرمچی‘ سے ہورہا تھا۔ اس دورے کے دوران میں دارالحکومت بیجنگ سمیت تین صوبوں کے پانچ شہروں میں جانا ہوا۔ بیجنگ تو پہلے جانے کا موقع مل چکا تھا، لیکن مسلم اکثریتی صوبے سنکیانگ اور اقتصادی ترقی کے اہم مرکز فیوجیان پہلی بار جانا ہوا۔
اُرمچی، سنکیانگ یا شنجیان کا دار الحکومت ہے۔ سنکیانگ کا مطلب ہی ’نیا صوبہ‘ ہے۔ یہ علاقہ کبھی مشرقی ترکستان کہلاتا تھا۔ چینی انتظامی تقسیم کے مطابق اس کی دستوری حیثیت ایک ’خودمختار‘ علاقے کی ہے جو رقبے کے لحاظ سے ملک کا سب سے بڑا صوبہ ہے۔ آبادی کا تناسب انتہائی کم، یعنی اوسطاً صرف ۱۳؍افراد فی مربع کلومیٹر ہے۔ کم آبادی کا یہ تناسب صرف اسی صوبے میں نہیں، چین کے تمام مغربی صوبوں میں یہی کیفیت ہے۔ ایک اندازے کے مطابق مغربی صوبوں میں جو چین کے رقبے کا ۵۰ فی صد سے زائدہیں، صرف ۶ فی صد آبادی بستی ہے،جب کہ مشرقی صوبوں میں ۹۴ فی صد آبادی ہے۔ صنعتی اور تجارتی سرگرمیوں کا مرکز و محور بھی زیادہ تر یہی مشرقی اور جنوب مشرقی صوبے ہیں۔
مسلم اکثریتی علاقہ ہونے کے باعث اُرمچی اور کاشغر وغیرہ شہروں میں سب سے زیادہ مساجد دکھائی دیتی ہیں۔ لیکن ان شہروں کی پہلی جھلک ہی سے اندازہ ہوجاتا ہے کہ علاقے میں وسیع و عریض تعمیر و ترقی، بلند و بالا عمارتوں اور سڑکوں کے وسیع جال سے، ان کا اصل نقشہ تیزی سے تبدیل ہورہاہے۔ یہاں ہماری پہلی باقاعدہ مصروفیت صوبے میں مذہبی اُمور کے ذمہ دار کی بریفنگ تھی۔ دارالحکومت بیجنگ سے آئے ہوئے حکومتی ذمہ داران کے ساتھ بیٹھ کر انھوں نے اسی نکتے پر زور دیا کہ: ’’اگرچہ چین میں کسی مذہبی شناخت کو اُجاگر نہیں کیا جاتا لیکن تمام علاقوں کے لوگوں کو ان کے مذاہب و روایات کے مطابق زندگی بسر کرنے کا حق حاصل ہے‘‘۔ انھوں نے یہ بھی بتایا کہ: ’’علاقے کے مکینوں کو ترقی کے یکساں مواقع فراہم کرنے کے لیے دور دراز علاقوں میں منتقل ہونے اور ملک کے دیگر علاقوں سے سرمایہ کاروں اور ہنرمند افراد کو یہاں آکر بسنے کی ’ترغیب‘ و سہولت دی جاتی ہے‘‘۔ مقامی آبادی میں البتہ اس ’ترغیب‘ کو کئی دُور رس اور کثیر جہتی مقاصد سے تعبیر کیا جاتا ،اور مسلم اکثریتی آبادی کو بتدریج اقلیت میں تبدیل کرنے کا احساس پایا جاتا ہے۔
بریفنگ کے بعد جماعت اسلامی کے وفد(نائب امیر جماعت میں میاں محمد اسلم، نائب قیم جماعت محمد اصغر اور راقم) نے ملاقات میں ان خبروں کی حقیقت کے بارے واضح سوالات کیے، جو وہاں رمضان المبارک میں روزوں اور عمومی طور پر ۱۸سال سے کم عمر بچوں کے مسجد جانے پر پابندیوں کی باتوں پر مشتمل ہیں۔ توقع کے مطابق: ’’انھوں نے ایسی تمام خبروں کی سختی سے تردید کی‘‘۔ ہمارا مقصد بحث نہیں تھا، بلکہ متوجہ کرنا تھا کہ ایسی خبریں کسی طور بھی خود چین کے مفاد میں نہیں ہیں۔
اُرمچی پہنچنے کے پہلے روز ہی رات کے کھانے کے لیے شہر کے وسط میں واقع ایک ’مسلم ریسٹورنٹ‘ لے جایا گیا۔ انتہائی پُرتکلف اور پُرلطف کھانوں والا یہ کئی منزلہ وسیع و عریض ریسٹورنٹ، ایک جامع مسجد کے قریب ہی واقع ہے۔ ہم دوسری منزل پر بیٹھے ایک کے بعد دوسرے آنے والے پکوان سے محظوظ ہورہے تھے کہ اچانک نچلی منزل سے پہلے موسیقی اور پھر بلند آواز میں ساز و سرود کے ساتھ رقص شروع ہوگیا۔ بتانے والوں نے بتایا کہ: ’’ناچ گانے اور اس کے دیگر ’لوازمات‘ کی جتنی بھرمار اس مسلم اکثریتی علاقے میں ہے، شاید چین کے دوسرے علاقوں میں بھی نہیں ہے‘‘۔ مقامی آبادی اور تجزیہ نگار تبصرہ کرتے ہیں کہ: ’’اس علاقے کی اصل شناخت ہی ناچ گانا اور دیگر خرافات کو بنایا جارہا ہے‘‘۔
اُرمچی میں وفد کی اہم ترین مصروفیت ’صوبائی اسمبلی‘کی عمارت میں ڈپٹی سپیکر اور چینی حکمران پارٹی کی سٹینڈنگ کمیٹی کے رکن نعیم یاسین سے ملاقات اور ان کی جانب سے دی گئی ضیافت میں شرکت تھی۔ پاکستان، چین، افغانستان اور وسطی ایشیا کے سنگم پر واقع ہونے کے باعث انھوں نے باہم تعاون و ترقی کے وسیع تر امکانات پر زور دیا۔ بے تکلف مزاج کے حامل میزبان نے انتہائی سلیقے سے سجی کھانے کی میز پر بیٹھ کر مسکراتے لیکن شرمندہ کردینے والے انداز سے کہا: ’’ہم یہاں عام طور پر کھانے کے ساتھ شراب پیش نہیں کرتے، لیکن مہمان وفد میں شریک بعض افراد کے تقاضے پر اس کی پیش کش بھی کی جائے گی‘‘۔
وفد میں شریک سب احباب اس بارے میں تو محتاط اور حساس تھے کہ گوشت اور دیگر کھانوں میں کہیں حرام کی آمیزش نہ ہوجائے۔ ہر کھانے میںمیزبانوں کی جانب سے حلال کھانے کے خصوصی انتظام کے باوجود سب شرکا کھانے کے ساتھ لکھے ناموں کو احتیاط سے پڑھتے تھے۔ کبھی یہ بھی ہو تاکہ صرف سلاد، روٹی، مکئی کے بھٹے اور شکرقندی وغیرہ پر ہی اکتفا کرلیا جاتا۔لیکن دوسری جانب شراب کے جام چڑھا لیے جاتے۔ زیادہ حیرت تو ان احباب پر ہوئی جو نمازوں اور طویل تسبیحات کا اہتمام بھی پورے جوش و جذبے سے کرتے، لیکن اس بدبودار، مہلک، صریح حرام اُم الخبائث کے عشق میں بھی گرفتار رہتے۔ یہاں اس حقیقت کا اعتراف بھی ضروری ہے کہ وفد میں شریک بعض احباب کو دیکھ کر رشک آتا تھا کہ بظاہر تو عام دنیادار انسان لگتے ہیں، لیکن ان کا شاید ہی کوئی لمحہ، دل ہی دل میں ذکر و تسبیح اور درود شریف کے بغیر گزرا ہوگا۔
اُرمچی سمیت یہ پورا علاقہ دنیا کے بہترین میوہ جات کا بھی مرکز ہے۔ اعلیٰ ترین معروف میوہ جات کے علاوہ جو پھل دنیا بھر سے منفرد دیکھا وہ انتہائی صحت مند اور شیریں عناب تھا۔ بڑے بیر کے سائز کا عناب پہلی بار کھایا۔ تازہ بیر بھی ہر جگہ میوہ جات میں شامل تھے، لیکن اُرمچی کے بیروں کی شیرینی انتہائی منفرد تھی۔ قدرتی جمال، شان دار تاریخی ورثہ، اللہ اور اس کے رسول کی محبت میں بے مثال، کمال کے مہمان نواز، قریب ترین ہمسایے، پاکستان سے عقیدت کی حد تک محبت رکھنے والے یہ لوگ ___ سنکیانگ واقعی بہت سے امتیازات رکھتا ہے۔
اگلے روز ایک سفاری پارک دکھانے کااعلان کیا گیا۔ درجۂ حرارت منفی تین تھا۔ اعلان ہوا کہ چونکہ کھلے علاقے میں جانا ہے، اس لیے گرم کپڑوں کا خصوصی انتظام کریں۔ گاڑیاں روانہ ہوئیں تو عین شہر کے وسط میں پُررونق بازاروں کا رخ کیا گیا۔ سفاری پارک اور پُررونق وسیع و عریض تجارتی مراکز؟ کوئی مطابقت سمجھ میں نہ آئی۔ ایک جگہ گاڑیاں رکیں، لفٹ کے ذریعے چوتھی منزل پر لے جایا گیا، وہاں چند راہ داریوں سے گزر کر باہر نکلے تو دنیا بدل چکی تھی۔ کئی کلومیٹر پر پھیلا رقبہ کئی ہزار سال پرانے آثار و اشجار محفوظ کیے ہوئے تھا۔ یہ سفاری پارک واقعی کسی عجوبے سے کم نہیں۔ ہزاروں سال پرانے درخت اب پتھر بن چکے ہیں۔ یہیں پر انتہائی اعلیٰ اور منفرد اقسام کے جانوروں کی پرورش کی جارہی ہے۔ نادر تصاویر اور پینٹنگز کا انتہائی قیمتی سرمایہ محفوظ ہے، جو جمال فطرت کے ساتھ ساتھ، انسانی تاریخ کے مراحل و مناظر بھی قلب و نگاہ پر ثبت کردیتا ہے۔
اُرمچی سے رخصت ہونے سے قبل وہاں کی ایک جامع مسجد اور دینی مدرسے کا دورہ بھی کروایا گیا۔ دراز قامت اور وجیہ صورت مولانا عبدالرقیب صاحب اور ان کے ساتھیوں نے مرکزی دروازے پر وفد کا خیر مقدم کیا۔ استقبالیہ دروازے سے متصل ڈیوڑھی کی دیواروں پر لگے مدرسے کے نئے مجوزہ ماڈل اور موجودہ دروس و اسباق کی تفصیل بتائی۔ انھوںنے بتایا کہ معہد العلوم الشرعیۃ پورے علاقے کا اکلوتا دینی تعلیمی ادارہ ہے، جس میں۲۳۰ طلبہ زیر تعلیم ہیں۔ تعلیم کا بنیادی مقصد ائمہ و خطبا کی تیاری ہے۔ بچیوں کی تعلیم کا کوئی انتظام نہیں ہے۔ نئی عمارت پر کئی کروڑ خرچ آئے گا، جو حکومت فراہم کررہی ہے۔ بریفنگ کے بعد مدرسے کی عمارت سے متصل مسجد میں گئے۔ کئی شرکا نے وہاں نوافل ادا کیے۔ دوبارہ مدرسے کی عمارت میں آکر ایک کمرئہ جماعت میں لے جایا گیا، جہاں ۳۰ کے قریب بچے تفسیر قرآن پڑھ رہے تھے۔ ایک طالب علم نے بے حد خوش الحانی سے تلاوت سنائی اور دوسرے سے اس روز کا سبق سنا گیا۔ راقم نے مدرسے کے مہتمم کی اجازت سے، وفد کی نمایندگی کرتے ہوئے عربی میں چند کلمات کہے ،دُعائیں دیں اور یاددہانی کروائی کہ آپ سب نے یہاں کی پوری مسلم آبادی کی نمایندگی کرتے ہوئے، علم و کردار کی خوش بُو عام کرنے کا ذریعہ بننا ہے۔ آتے ہوئے سید مودودی علیہ الرحمۃ کی خطبات کا ترجمہ اور کشمیری شال جناب عبدالرقیب صاحب کو پیش کی تو بہت خوش ہوئے۔
چین کی وسعت کا اندازہ لگائیے کہ اُرمچی سے صوبہ فیوجیان کے شہر فوژو گئے تو یہ مسلسل ساڑھے پانچ گھنٹے کی پرواز تھی۔لاہور سے لندن جائیں تو تقریباً سات گھنٹے کی پرواز ہوتی ہے۔ وہاں سے بیجنگ گئے تو مزید ساڑھے تین گھنٹے کی پرواز تھی۔ اُرمچی میں درجۂ حرارت منفی ۳ تھا، جب کہ فیوجیان میں ۲۳ اور بیجنگ میں منفی ایک۔ فیوجیان چین کا اہم تجارتی، صنعتی، ساحلی علاقہ ہے۔ ایک اہمیت اس کی یہ ہے کہ گوادر اور وسطی ایشیا سے منسلک نئی راہ داریاں اور سڑکیں کاشغر اور اُرمچی سے ہوتی ہوئی اسی صوبے تک پہنچ رہی ہیں۔ یہاں بھی مختلف شہروں اور ان کے ذمہ داران کے ساتھ ملاقاتوں اور پُرتکلف ضیافتوں کے علاوہ چند اہم کمپنیوں کا دورہ کروایا گیا۔
مثال کے طور پر گوانزو شہر میں واقع ’سافٹ ویئر پارک‘ ہی کو دیکھ لیجیے۔ اس میں ۲ لاکھ افراد کام کرتے ہیں۔ ۲۰۱۵ء میں اس نے۹۲ء۵؍ ارب ڈالر کا کاروبار کیا ہے۔ منصوبے اور اندازے کے مطابق۲۰۲۰ء میں اسے ۲۵۰؍ ارب ڈالر کی آمدن ہوگی۔ معاشرتی اثرات اس کے تجارتی حجم سے بھی بڑھ کر ہیں۔ یہ کمپنی اپنے مختلف کمپیوٹر پروگراموں اور آلات کے ذریعے پورے معاشرے اور اس کے ہر فرد کی زندگی کنٹرول کرسکتی ہے۔لوگوں کے موبائل فون، ان میں لگے سم کارڈوں اور دیگر کئی طرح کے کارڈوں کے ذریعے یہ لوگ کسی بھی جگہ اور وہاں موجود کسی بھی فرد کے بارے میںمکمل معلومات رکھتے ہیں۔ ان معلومات کی روشنی میں مستقبل سازی کرتے ہیں۔ لوگوں کومختلف سہولتیں فراہم کرتے ہوئے ان کے لیے آسانیاں (اور خدانخواستہ مشکلات) پیدا کرسکتے ہیں۔
سمارٹ فون اب سمارٹ ٹریفک، سمارٹ سیاحت اور سمارٹ تجارت سمیت ہر شعبۂ زندگی کو سمارٹ کررہے ہیں۔ مثلاً انھوں نے بتایا کہ: اس شہر میں نئے سال کے موقعے پر ایک ہفتے میں ۹۸لاکھ ۷۵ ہزار ۷سو ۹۷ افراد نے سفر کیا۔ انھوں نے سفر کیسے کیا، کب کیا، قیام کہاں ہوا، گاڑی کہاں پارک کی، سب معلومات اسی سمارٹ دنیا میں محفوظ ہیں۔ حکمران جماعت کمیونسٹ پارٹی چائنا (CPC) کے ارکان کی تعداد ۸کروڑ ۸۰لاکھ ہے۔ ان تمام ارکان کا ریکارڈ، ان سے رابطہ، ان کے تبادلے بھی اسی سمارٹ دنیا کے ذمے ہے۔ یہ امر بھی دل چسپ تھا کہ ہررکن سے آمدنی کا ۲ء۴فی صداعانت لی جاتی ہے۔ خیال آیا کہ یہ تو ’زکوٰۃ‘ ہوگئی۔ لیکن یہ چندہ صرف صاحب ِ نصاب سے نہیں، ہر رکن سے لیا جاتا ہے۔ دینے کا تکلف بھی نہیں کرنا پڑتا، ’سمارٹ نظام‘ خود ہی منہا کرلیتا ہے۔
کونے میں لگا ایک کیمرا اور اس سے بنائی ویڈیوز کی ایک جھلک دکھاتے ہوئے انھوں نے بتایا کہ: ’’یہ ۲۵کلومیٹر کے فاصلے پر موجود شخص کی آنکھوں کی حرکت تک ریکارڈ کرسکتا ہے۔ سُبحان اللہ! انسانوں کا بنایا ہوا ایک کیمرہ یہ صلاحیت رکھتا ہے، تو پوری کائنات کامالک کتنا سمیع و بصیر ہوگا۔ اس ذات نے اپنا ایک تعارف یہ کروایا: لَا تُدْرِکُہُ الْاَبْصَارُ ز وَ ھُوَ یُدْرِکُ الْاَبْصَارَ ج (الانعام۶:۱۰۳)’’ اسے کوئی آنکھ نہیں پاسکتی اور وہ ہر آنکھ کا احاطہ کیے ہوئے ہے‘‘۔ گویا وہ تو آنکھوں میں بسے خواب اور دلوں میں جاگزیں خیالات سے بھی مکمل باخبر ہے۔ حیرت ہے دن رات اس کی قدرت کا مشاہدہ کرنے والے ہم انسان اس حقیقت سے بے خبر ہوجاتے ہیں۔ ’’خبردار! کیمرے کی آنکھ دیکھ رہی ہے‘‘ پڑھ کر تو ہم چوکنا ہوجاتے ہیں لیکن ’’خبردار! اللہ تمھیں دیکھ رہا ہے‘‘ کے اعلان پر کان نہیں دھرتے۔
گوانزو پہنچتے ہی تقریباً ایک ہزار سال قدیم، وسیع و عریض جامع مسجد جانے کا موقع ملا۔ پرانی عمارت کے باہر چینی اور انگریزی زبان میں لگی تختی پر لکھا تھا کہ: ’’اس مسجد کا نام مسجدالاصحاب یا مسجد صحابہ تھا جو ’محمدی‘ (ہجری)سال ۴۰۰ میں تعمیر کی گئی تھی‘‘۔ یہ حقیقت بھی اہم ہے کہ دارالحکومت بیجنگ سمیت چین کے تقریباً ہر شہر بلکہ قصبات میں بھی صدیوں پہلے تعمیر ہونے والی مساجد پائی جاتی ہیں۔ اکثر و بیش تر مساجد اسی طرح ہزار سال یا اس سے بھی پرانی ہیں۔ انھیں تعمیر کرنے والے کتنے خوش قسمت تھے کہ خود صدیوں پہلے قبروں میں جا سوئے لیکن، ان کی حسنات آج بھی آباد ہیں۔ قیامت تک اس فصل گل و لالہ میں خوشحالی ہی آتی رہے گی۔ خدانخواستہ کوئی نمازی نہ ہونے کی صورت میں بھی اللہ اکبر کی صدائیں، بندوں سے خالق کا تعارف کرواتی رہیں گی۔
دارالحکومت بیجنگ میں بھی بے حد مصروف وقت گزرا۔ چائنا انسٹی ٹیوٹ براے عالمی اسٹڈیز کے ذمہ داران نے CPEC پر تفصیلی بریفنگ دی۔ اہل پاکستان کی اکثریت جسے صرف ایک سڑک یا بندرگاہ سمجھتے ہیں، وہ بنیادی طور پر پوری دنیا، بالخصوص جنوبی ایشیا کا اقتصادی نقشہ تبدیل کردینے کا ایک جامع منصوبہ ہے۔ اس کے ذریعے چین اور جنوبی ایشیا کے دیگر کئی ممالک، وسطی ایشیا، یورپ اور افریقہ سے براہِ راست منسلک ہوجائیں گے۔ اس پورے منصوبے میں بالآخر ۶۵ممالک شریک یا منسلک ہوجائیں گے۔
یہ صرف چین پاکستان اقتصادی راہ داری ہی نہیں، اس وقت اس طرح کے کئی اور منصوبوں پر بیک وقت عمل ہورہا ہے۔ اسی منصوبے کے تحت اُرمچی اور کاشغر سے چلنے والی مال گاڑی ۱۰ روز کے سفر کے بعد یورپ کا قلب چیرتے ہوئے گزر جائے گی۔ CPEC کے علاوہ ایک اور اقتصادی راہ داری BCIM کے نام سے تعمیر ہورہی ہے جو بنگلہ دیش، چین، بھارت اور میانمار کو باہم مربوط کرے گی۔ کئی راہ داریوں میں سے صرف گوادر بندرگاہ سے کاشغر تک تعمیر ہونے والی ۲ہزار کلومیٹر کی سڑک ہی وہ اکلوتا منصوبہ ہے، جس میں صرف دو ممالک (چین پاکستان) شریک ہیں۔ اس منصوبے میں صرف سڑک ہی نہیں، ریلوے لائنوں بندرگاہوں اور سمندری راستوں کا ایک پورا جال ہے۔ توانائی کے بہت سارے منصوبے مکمل ہونا ہیں۔ اس لیے اسے One Road One Belt کا نام دیا گیا ہے، یعنی ایک سڑک اور کئی راستوں کا جال اسے ایک علاقہ بنا دے گا۔
پاکستان کے لیے اس میں بہت سے اقتصادی مواقع اور امکانات ہیں، جب کہ بھارت اور امریکا پورے منصوبے بالخصوص CPEC کو اپنے لیے ایک چیلنج سمجھ رہے ہیں۔ گوادر بندرگاہ پر کام شروع ہوتے ہی اسے ناکام کرنے کی کوششیں شروع ہوگئیں۔ ان تمام تر رکاوٹوں کے بعد آج یہ بندرگاہ کام شروع کرچکی ہے۔ گوادر اور خطے کی دوسری بندرگاہوں میں موازنے کی ایک جھلک دیکھیے تو اصل حقیقت سامنے آتی ہے۔ گوادر سے ۷۲کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ایرانی بندرگاہ چاہ بہار کی گہرائی۱۱ میٹر ہے اور وہاں ۱۰جہاز بیک وقت لنگر انداز ہوسکتے ہیں۔ ایران کی دوسری قریبی بندرگاہ، بندرعباس ۹ میٹر گہری ہے اور وہاں ۲۴جہاز آسکتے ہیں۔ متحدہ عرب امارات کی بندرگاہ جبل علی ۹میٹر گہری ہے اور ۶۷ جہاز آسکتے ہیں۔ سعودی عرب کی دمام بندرگاہ ۹ میٹر اور ۳۹جہاز، قطر کی دوحہ بندرگاہ ۱۱ میٹر اور ۲۹جہاز، سلطنت آف عمان کی صلالہ بندرگاہ ۱۰میٹر اور ۱۹جہاز، جب کہ گوادر کی بندرگاہ ۱۸میٹر گہری ہے اور یہاں بیک وقت ۱۲۰بحری جہاز لنگر انداز ہوسکتے ہیں۔
اس حقیقت میں شک نہیں کہ اس سارے منصوبے کا زیادہ فائدہ چین ہی کو ہوگا۔ مثلاً اسے اپنا اقتصادی پہیہ چلانے کے لیے درکار تیل کا ۵۱فی صد خلیجی ریاستوں سے درآمد کرنا پڑتا ہے۔ بحری جہاز یہ تیل لے کر بحیرۂ عرب، بحر ہند اور پھر تنگناے ملاکا سے ہوتے ہوئے سوا تین ماہ میں چین کے صنعتی علاقوں میں پہنچتے ہیں۔ CPEC کی تعمیر سے یہ تیل صرف ۲۸دن میں چین پہنچ سکے گا۔ یہی عالم دیگر درآمدی و برآمدی سامان کی نقل و حمل کا ہوگا۔ اپنے اس منصوبے اور ترقی میں چین اپنے تمام تجارتی حصہ داروں کو شریک کرنا چاہتا ہے۔ پاکستان کو وہ ان تمام شرکا میں سرفہرست سمجھتا ہے۔ یہی حقیقت کسی صورت بھارت سے ہضم نہیں ہورہی۔ اس کے دانش وَروں کے بقول اس سے کشمیر پر بھارت کا موقف کمزور پڑجائے گا۔ بھارت کی بنیادی سرمایہ کاری سے بننے والے چاہ بہار وسطی ایشیا تجارتی راستے کو خطرات لاحق ہوجائیں گے۔ وہ علانیہ کہہ رہے ہیں کہ CPEC کو ناکام کرنے کے لیے بلوچستان میں علیحدگی پسندوں کو مدد دینا ہوگی۔
چین جانے والے وفد میں شریک بلوچستان اور خیبر پختون خواہ میں فعال قوم پرست جماعتوں کے ذمہ داران نے پورے دورے کے دوران میں صرف اسی ایک نکتے پر گفتگو کی: ’’ہمارے ساتھ انصاف نہیں ہورہا۔ منصوبے میں شامل ترقی کے زیادہ تر منصوبے ان دو چھوٹے صوبوں کے بجاے پنجاب میں بنائے جارہے ہیں۔اس نکتے پر پورے وفد کا مکمل اتفاق تھا اور سبھی نے اس پر بات کی کہ خیبر پختونخوا اور بلوچستان میں خصوصی فری تجارتی زون اور پیشہ ورانہ تعلیم کے ادارے کھولے جائیں تاکہ اس اہم منصوبے کے ثمرات عام شہریوں اور تمام علاقوں کو حاصل ہوسکیں۔گوادر بندرگاہ اور سڑک بنانے کے لیے وہاں سے اُٹھائے جانے والے غریب شہریوں کو متبادل روزگار اور معقول معاوضہ دیا جائے‘‘۔
اگرچہ اس ساری بحث کا زیادہ تر تعلق ہمارے میزبانوں سے نہیں تھا اور اسے ہماری مرکزی و صوبائی حکومتوں ہی کو باہم گفت و شنید اور انصاف کے تقاضے پورے کرتے ہوئے حل کرنا ہوگا لیکن یہ موضوع پورے دورے کے دوران غالب رہا۔ آخری روز چین میں پاکستانی سفیر کی جانب سے وفد کے اعزاز میں دیے گئے ظہرانے کے دوران تو بعض احباب کی جانب سے یہ تلخی دوبدو بحث کی صورت اختیار کرگئی۔
یہاں تو پھر ہم اپنے ہی گھر میں بیٹھے تھے، چینی میزبانوں کے سامنے اور ہر مجلس میں یہی بات کرنا بعض اوقات ماحول کو بہت بوجھل بنادیتا تھا۔ ہماری مرکزی اور صوبائی حکومتوں کو حتمی طور پر اس بدنما بحث کو ختم کرنا ہوگا۔ محروم علاقوں کو مساویانہ ہی نہیں، زیادہ حصہ دینا ہوگا۔ یہ بھی ذہن میں رکھنا ہوگا کہ بعض اوقات احساس محرومی، خود محرومی سے بھی زیادہ خطرناک ہوتا ہے۔ حضرت یعقوب علیہ السلام کے لیے سب بیٹے برابر تھے۔ آخر ایک نبیؑ سے زیادہ انصاف بھلا کون کرسکتا تھا؟ لیکن احساس محرومی نے خود برادرانِ یوسفؑ سمیت سب کو ہلاکت و اذیت کی راہ پر ڈال دیا۔ اللہ کرے کہ ہم سب ان قرآنی تعلیمات و واقعات کی روشنی میں اپنا مستقبل اور اپنی دنیا و آخرت محفوظ بناسکیں۔